کل کتب 6857

دکھائیں
کتب
  • سنن الدارمی جلد اول

    dsa (جمعرات 30 اگست 2018ء) ناشر : الفرقان ٹرسٹ، مظفر گڑھ
    #5585 Book صفحات: 796

    امام  دارمی﷫) 181ھ-255ھ) خراسان کے شہر سمر قند میں پیدا ہوئے۔ قبیلہ تمیم کی ایک شاخ دارم سے نسبی تعلق تھا۔اس کی نسبت سے دارمی کہلائے۔امام دارمی ؒ نے جن نامور علمائے کرام ومحدثین عظام سے استفادہ کیا خطیب بغدادی (م643ھ) نے اس کا  تفصیل سے تاریخ بغداد میں ذکر کیا ہے۔امام دارمی ؒ کے تلامذہ کی فہرست بھی طویل ہے۔بڑ ے بڑے نامور محدثین کرام اور آئمہ فن اُن کے شاگرد تھے۔امام ابن ماجہ(م273ھ) کے علاوہ دوسرے تمام ائمہ صحاح ستہ  یعنی محمد بن اسماعیل بخاری ؒ(م256ھ)امام مسلم بن حجاجؒ(م261ھ) امام ابوداؤد سجستانی ؒ(م275ھ) امام ابو عیسیٰ ترمذیؒ(م279ھ) اور امام ابو عبدالرحمٰن احمد بن شعیب نسائیؒ(م303ھ) کو ان سے تلمذ کاشرف حاصل ہے۔امام مسلمؒ ابو  داؤد ؒ اور ترمذیؒ نے اپنی کتابوں میں اُن کی مرویات بھی درج کی ہیں ۔امام دارمی  کا شمارممتاز محدثین کرام میں ہوتاہے۔قدرت نے ان کو غیر معمولی حفظ وضبط کا ملکہ عطا کیا تھا۔امام دارمی ؒ کی ثقاہت وعدالت کے بھی علمائے فن اور ارباب کمال معترف ہیں امام دارمیؒ احادیث کی معرفت وتمیز میں بھی بہت مشہور تھے۔روایت کی طرح درایت میں بھی اُن کا مقام بہت بلند تھا۔ ر وایت اوردرایت میں اُن کی واقفیت غیر معمولی اور نظر بڑی وسیع اور گہری تھی۔امام دارمی ؒ صرف جلیل القدر محدث ہی نہ تھے۔بلکہ دوسرے علومِ اسلامی میں بھی انھیں عبور حاصل تھافقہ وتفسیر میں بھی یگانہ تھے۔ امام دارمی ؒ کا سب سے برا علمی کارنامہ حدیث وسنت کی مدافعت ہے  آپ نے اپنی ساری زندگی توحید وسنت کی اشاعت اوراُس کی حمایت ومدافعت میں بسر کردی۔آپ نے مخالفین حدیث کا مقابلہ کرکے اُن کا زورتوڑ ا۔اور احادیث کے متعلق شکوک وشبہات واعتراضات کا جواب اور کذب دروغ کی آمیزشوں سے ان کو پاک کرکے عوام وخاص سب کے دلوں میں ان کی عظمت واہمیت اور رسول اللہﷺکی محبت بٹھادی۔اس طرح  مختلف طریقوں سے انھوں نے علم حدیث وآثار کو فروغ بخشاامام دارمی ؒ نے کئی ایک علمی وتحقیقی کتابیں لکھیں ایک ان کی ایک  کتاب "کتاب التفسیر" ہے اور ایک دوسری تصنیف ’’ کتاب الجامع‘‘ ہے۔ فرقہ جہمیہ کی تردید میں آ پ کی کئی ایک کتابیں تھیں۔علامہ سیوطی ؒ (م911ھ) نے آپ کی کئی ایک تصانیف کا ذکر کیا ہے۔سنن دارمی ؒ امام دارمی ؒ کی سب سے مشہور اور معروف کتاب ہے۔صحاح ستہ کے بعد حدیث کی جو کتابیں سب سے زیادہ اہم اور مستند سمجھی جاتی ہیں۔ان میں سنن دارمی کا شمار بھی ہوتا ہے۔ سنن دارمی 35فصول اور 1408 ابواب پر مشتمل ہے۔اس کی اہمیت کی بناء پر محدثین کرام نے اس کی حدیثوں کو قابل احتجاج اور لائق استدلال خیال کیا ہے۔سنن دارمی کی احادیث مشکوٰۃ المصابیح میں آتی ہیں۔حضرت شاہ ولی اللہ ؒ دہلوی (م1176ھ) نے سنن دارمی کو  حدیث کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے۔سنن دارمی گوناگوں خصوصیات کی حامل ہے۔اس کی سندیں نہایت عالی اور بلند پایہ ہیں۔یہ اگرچہ حدیث کی کتاب ہے۔لیکن اس میں فقہی مسائل ومباحث اور اُن کے متعلق فقہاء کے اختلافات ودلائل بھی بیان کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ  صحابہ    اجمعین  وتابعین ﷭کے آثار وفتاویٰ بھی درج کئے گئے ہیں۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر الفرقان ٹرسٹ کے ذمہ داران    نے اسے آسان اردو قالب میں ترجمہ وتحقیق کے ساتھ 2؍جلدوں میں  شائع کیا ہے۔ ترجمہ  وتحقیق  کا کام محترم جناب  محمد الیاس بن عبد القادر بن عبد المجید  نے بطریق احسن سرانجام دیا ہےفقہی ابواب پر مرتّب حدیث کا یہ مجموعہ طالبانِ علوم نبوت کیلئے ایک بیش بہا علمی تحفہ ہے۔ رب کریم کتاب کے مؤلف، مترجم، محقق ، ناشر کو جزائے خیر دے ، اور جملہ قارئین کے لئے اسے نفع بخش بنائے اور ہم سب کو نبی پاک ﷺکی سنت کو اپنی زندگی میں حرزِجاں بنانے کی توفیق دے۔(آمین )سنن دارمی کا ایک ترجمہ  ’’ انصار السنہ پبلی کیشنز ،لاہور نے بھی شائع کیا ہے   جو کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہے ۔(م۔ا)   

  • 1877 #5453

    مصنف : حافظ محمد اکرام ( رکن محدث لائبریری )

    مشاہدات : 7832

    مباحث توحید جواہر القرآن اور تبیان الفرقان کا تقابلی مطالعہ ( مقالہ ایم فل )

    (بدھ 29 اگست 2018ء) ناشر : شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب
    #5453 Book صفحات: 308

    اخروی  نجات ہر مسلمان کا مقصد زندگی  ہے  جو صرف اور صرف توحید خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ جبکہ مشرکانہ عقائد واعمال انسان کو تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے  مشرکوں کے لیے  وعید سنائی ہے ’’ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا او اس کے سوا جسے  چاہے معاف کردے گا۔‘‘ (النساء:48) لہذا شرک کی الائشوں سے بچنا  ایک مسلمان کے لیے ضروری  ہے ۔اس کے بغیر آخرت کی نجات ممکن ہی نہیں ۔ حضرت  نوح ﷤ نے ساڑھے نوسوسال کلمۂ توحید کی  طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور   اللہ کے آخری  رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ  توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس  فریضہ کو سر انجام دیا  کہ جس کے بدلے   آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے   جہاں نبی  کریم ﷺ او رآپ  کے صحابہ کرا م ﷢ نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا  وہاں  علمائے اسلام نےبھی عوام الناس کوتوحید اور شرک کی حقیقت سےآشنا کرنے کےلیے  دن رات اپنی  تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو  خوب واضح کیا ۔ہنوز یہ  سلسلہ جاری  وساری ہے۔زیر تبصرہ تحقیقی مقالہ بعنوان’’ مباحث توحید جواہر القرآن اور تبیان  الفرقان کا تقابلی مطالعہ ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔یہ مقالہ   حافظ محمد اکرام  صاحب کا    وہ تحقیقی   مقالہ  ہے جسے  انہوں  نے شعبہ علوم  اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی میں اسی  سال (  2017ء) میں  پیش کر کے  ایم  فل کی ڈگری  حاصل کی۔مقالہ نگار نے یہ تحقیقی مقالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حمادلکھوی ﷾ کی نگرانی میں مکمل کیا  ہے ۔یہ  تحقیقی مقالہ  مقدمہ اور تین ابواب پر مشتمل ہے۔ان تین   ابواب کے  عنوانات  حسب ذیل ہیں ۔ باب اول: زیر مطالعہ کتب وتفاسیر ومصنفین کا تعارف ۔ باب دوم : قرآنی دلائل توحید اورمنتخب تفاسیر۔باب سوم: تردید شرک اور قرآنی دلائل۔مقالہ نگار نے  یہ مقالہ مکمل  تحقیق او رمحنت سے تیار کیا ہے ۔مقالہ نگار نے اپنے اس  تحقیقی مقالہ میں  مقاصد تحقیق کو کما حقہ استعمال کرتے ہوئے تصور توحید  سے کامل  اگاہی  کو واضح کیا ہے ۔ توحید کے فوائد اور شرک کے نقصانات ،اقسام توحید کو بیان کیا ہے ۔نیز دونوں تفاسیر کے منہج واسلوب  کابھی جائزہ لیا ہے ۔مقالہ نگار نے درس نظامی  کی تعلیم جامعہ لاہور  الاسلامیہ ،لاہور  سے حاصل  کر  کے سند فراغت حاصل کی۔درس نظامی کی تعلیم  کے ددران  پنجاب یونیورسٹی سے  بی  اے  اور ماسٹر کیا۔ جامعہ سے فراغت کے بعد  اسلامک ریسرچ کونسل ،لاہور سے منسلک ہو گئے  اسی دوران  پنجاب یونیورسٹی سے ایم فل کی  تعلیم مکمل کی  اللہ  تعالیٰ انہیں  ڈاکٹر بھی بنادے  اور ان کی اس  تحقیقی کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)

  • 1878 #5584

    مصنف : امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ

    مشاہدات : 29443

    سنن ابن ماجہ ( مکتبہ اسلامیہ ) جلد اول

    dsa (منگل 28 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ اسلامیہ، لاہور
    #5584 Book صفحات: 538

    احکام الٰہی کےمتن کانام قرآن کریم ہے  اور اس متن کی شرح وتفصیل کانام حدیث رسول ہے  اور رسول اللہ ﷺ کی عملی زندگی اس  متن کی عملی تفسیر ہے  رسول ﷺ کی زندگی کے بعد  صحابہ کرام    نے  احادیث  نبویہ   کو  آگے  پہنچا کر  اور پھر  ان  کے   بعد ائمہ محدثین  نے  احادیث کومدوّن   کر کےاو ر  علماء امت  نے کتب   احادیث  کے تراجم وشروح  کے ذریعے   حدیث رسول کی  عظیم خدمت  کی   ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے   ۔اس سلسلے میں علمائے اہل حدیث کی تدریسی وتصنیفی  خدمات بھی قابل قد رہیں برصغیر پاک وہند   میں نواب صدیق حسن خاں کے قلم اورمولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی تدریس سے بڑا فیض پہنچا پھر ان کے  شاگردوں  اور  کبار علماء نے عون المعبود، تحفۃ الاحوذی، التعلیقات السلفیہ، انجاز الحاجۃ جیسی عظیم شروح لکھیں اور مولانا وحید الزمان نے کتب حدیث کااردو زبان میں ترجمہ کر کےبرصغیر میں حدیث کو عام کرنے   کا عظیم کام سرانجام دیا۔تقریبا ایک صدی سے یہ تراجم متداول ہیں لیکن اب ان کی  زبان کافی پرانی ہوگئ ہے اس لیے ایک عرصے سےیہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے تھی کااردو زبان کے جدید اسلوب میں  نئے  سرے سے یہ ترجمے کرکے شائع کیے جائیں۔شیخ البانی  اور ان کے تلامذہ کی   کوششوں سےتحقیق حدیث  کاجو ذوق پورے عالم ِاسلام میں عام ہوا اس کے پیش نظر بجار طور پر لوگوں کے اندر یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش  سننِ اربعہ میں جوضعیف رویات ہیں ا ن کی نشاندہی کر کےاو ر ان  ضعیف روایات کی بنیادپر جو احکام ومسائل مسلمانوں میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی تردیداور ضاحت بھی کردی جائے۔سننِ اربعہ  کی عربی شروحات میں تحقیق وتخریج کا اہتمام تو موجود تھا لیکن اردو تراجم میں نہیں تھا تو جب ان کے نئے ترجمے کر کے  شائع کیے گیے اوران میں احادیث کی تخریج وتحقیق کا بھی  اہتمام کیا گیا ہے۔جیسے دارالسلام  سے مطبوعہ  سنن ابن ماجہ ، سنن نسائی، سنن ابو داؤد، میں احادیث کی مکمل تخریج وتحقیق پیش کی گئی ہے ۔اور اسی طرح بعض دوسرے اداروں  نے بھی یہ کام کیا ہے ۔زیر تبصرہ کتاب’’سنن ابن ماجہ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔یہ ترجمہ   جنا ب پروفیسرپروفیسر سعید مجتبیٰ سعید ﷾ نے  کیا  ہے جس کی نظرثانی  مفتی  جماعت  شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد ﷾ نے کی ہے  مکمل کتاب کی تخریج ، تنقیح وتصحیح حافظ ندیم ظہیر نےبڑی محنت سے  کی ہے ۔مکتبہ اسلامیہ ،لاہور  نے اسے 3مجلدات  میں شائع کر کے خدمت حدیث کی سعادت  حاصل کی  ہے ۔محقق ددوراں   حافظ زبیر علی زئی﷫   نے مقدمۃ التحقیق اور  حافظ عبد الستار حماد﷾ نے تدیم میں   امام ابن ماجہ ، سنن ابن ماجہ اور شروحات سنن ابن ماجہ کے متعلق  دلچسپ اور علمی  معلومات پیش کی ہیں  جس   سے  سنن ابن ماجہ کےاس ترجمے کی افادیت میں  مزید ہوگیا ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کی تیاری میں شامل تمام احباب کی اس محنت کو قبول فرمائے ۔(آمین) (م۔ا)

  • 1879 #5471

    مصنف : ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

    مشاہدات : 6582

    محسن انسانیت ﷺ اور انسانی حقوق

    (منگل 28 اگست 2018ء) ناشر : دارالاشاعت اردوبازارکراچی
    #5471 Book صفحات: 507

    فتح مکہ کے بعد قریب قریب کار نبوت کی تکمیل بھی ہوگئی تھی۔اس کے بعد۱۰ھ میں آپ صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج ادا کیااور آپ ﷺ نے انسانی حقوق کے تحفظ کا عالمی وابدی خطبہ دیا جس میں پوری ۲۳؍سالہ تعلیمات الٰہی کا خلاصہ آگیا ہےاس خطبہ کو خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے ۔ ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس خطبے کو سنا۔اس اجتماع میں نہ صرف انتہائی اجڈ قسم کے دیہاتی وبدوی موجود تھے ۔بلکہ وہ لوگ بھی تھے جو عرب کے انتہائی اعلیٰ واشرف شمار کیے جاتے تھے اور جو خود اپنے قبیلے یاخاندان کے سربراہ وسردار تھے۔اس میں وہ لوگ بھی تھے جو علم وتقویٰ میں بڑی بلندی پر فائز تھے اور در ِرسول کے ساختہ ،پرداختہ اور تربیت یافتہ تھے۔اختتام ِخطبہ پر پورے مجمع نے بیک آواز وزبان کہا بے شک آپ ﷺ نے اللہ کے احکام کو ہم تک پہنچادیا اور اسے ہم دوسروں تک پہنچائیں گے۔ اس اقرار کا عملی نمونہ بھی آپ کے اصحاب نے آپ کی زندگی میں اور آپ کے دنیا سے رحلت کرجانے بعد پیش کیا،جس کی وجہ سے اسلام مختصر مدت میں دنیا کے انتہائی دوردراز خطوں میں پہنچ گیا،اس ابدی منشور (خطبہ حجۃ الوداع) کے نافذ ہوتے ہی قوموں وملکوں کی حالت بدل گئی۔تہذیب وتمدن نے نئے جلوے دیکھے اور ذہن وفکر کو نئی روشنی ملی۔لیکن تاریخ اسلامی کے طویل عرصہ کے بعد حالات نے رخ بدلا،لوگوں کے اندردولت کی بے جا محبت اور خود غرضی آئی اور باطل حکومتوں کا وجود عمل میں آیا تو اس الٰہی ونبوی منشور جس میں نہ صرف حقوق انسانی کا احترام ملحوظ ہے بلکہ سیاست ومعاملات اور عبادات کے معیار کوبھی متعین وواضح کیا گیا ہے کی خلاف ورزی کی گئی اور طرح طرح کے اعتراضات کیے گیے۔ عوام کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے کے لیے مختلف ملکوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت متعدد منشور تیار کیے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ۱۰؍دسمبر ۱۹۴۸ءمیں حقوق انسانی کا چارٹر تیار کیا جسے دنیا کا بہترین عالمی منشور قرار دیا وہ بھی عیوب ونقائص اور خود غرضیوں سے خالی نہیں ہےایک مصنف کے بقول:یہ منشور تحفظ حقوق انسانی کے معاملے میں بالکل ناکارہ اور ناقابل اعتماد دستاویز ہے اس منشور کی حیثیت سراسر اخلاقی ہے۔ قانونی نقطئہ نظر سے اس کا کوئی وزن ومقام نہیں ہے۔اس منشور کی رو سے جو معاشی اور سماجی حقوق منظو کیے گیے ہیں وہ ایک بالغ نظر مبصرکے مطابق، اس کے تسلیم شدہ مفہوم کی رو سے حقوق ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سماجی اور معاشی پالیسیوں کے محض اصول ہیں۔بلکہ کمیشن برائے انسانی حقوق میں ۱۹۴۷ء کو طے کیے جانے والے اصول کی روشنی میں گویا منشور کے اعلان سے ایک سال قبل ہی یہ طے ہوگیا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی،کوئی ملک چاہے تو اس منشور پر از خود رضا کارانہ طورپر عمل درآمد کرسکتا ہے اور چاہے تو ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے۔اقوام متحدہ   کی جنرل اسمبلی میں   پیش کردہ   انسانی حقوق   کا منشور اور اس کی بیشتر  دفعات خطبہ حجۃ الوداع کا چربہ ہے  جو ہمیں محسن انسانیتﷺ نے چودہ سوسال پہلے عطا فرمایا دیا تھا ۔زیر نظر کتاب ’’ محسن انسانیت ﷺ اور انسانی  حقوق‘‘ مولانا ڈاکٹر حافظ محمد ثانی  کی تصنیف ہے  ۔انہوں نے سیرت النبی ﷺ کو بطور محسن انسانیت جمع کیا اور تحقیق کی ۔ جہاں جہاں مستشرقین نے اس سلسلے میں اعترافات کیے وہ واضح کیے او رجہاں اعتراض کیا اس کا دفاع   بھی کیا اور ان کےتعصب کوو اضح کیا۔ ساتھ ساتھ خطبہ حجۃ الوداع کو نکتہ واربیان کرتے ہوئے اقوام ِمتحدہ کےچارٹر سے تقابل کر کے یہ ثابت کیا کہ  مغرب کے دساتیر حقوق او ر خود اقوام متحدہ کا عالمی منشور تمام چربہ  ہےاور وہ اسے اپنے طور پر منضبط  کر کے اس کی تشہیر کر رہے  ہیں او ر ہم مسلمان احساس کمتری میں ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہیں انسانی حقوق کا علمبردار اور چمپئین باور کرانے میں اپنی صلاحتیں وقف کیے ہوئے ہیں۔(م۔ا) 

  • 1880 #5582

    مصنف : حماد اللہ وحید

    مشاہدات : 4823

    کتاب النفقات اور اسلامی ممالک میں رائج الوقت قوانین

    (پیر 27 اگست 2018ء) ناشر : زمزم پبلشرز کراچی
    #5582 Book صفحات: 202

    نفقہ کا لفظی معنیٰ خرچ کرنے کےہیں لغت میں اس شئی کو کہتے ہیں  جو انسان اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے ۔ اصطلاح فقہ میں ایک شخص کا دوسرے کی محنت کے عوض ضروریات زندگی فراہم کرنے کو نفقہ کہتے ہیں۔ چنانچہ شوہر کو شریعت نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی زوجہ کو اپنے پاس روکے رکھے جس کا معاوضہ نفقہ کی صورت میں ادا کرنا  واجب ہے ۔ اس کا وجوب کتاب اللہ  سے ثابت ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :وَ عَلی الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَ كِسوَتهُنَّ بِالمَعْرُوفِ صاحب اولاد کا فرض ہے کہ ماؤں کی روٹی اور کپڑے کا مناسب طریقہ سے انتظام کرے۔‘‘اسی طرح  دوسری جگہ ارشاد فرمایا:اَلرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ’’ مرد عورتوں کے حاکم اور نگراں ہیں ان فضیلتوں کی بنا پر جو خد انے بعض کو بعض پر دی ہیں اور اس بنا پر کہ انہوں نے عورتوں پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔‘‘ نفقہ میں  خوراک ، لباس ، مسکن  اور دیگر اشیاء ضرورت وغیرہ شامل   ہیں ۔ کتب فقہ میں اس کے تفصیلی احکام  مختلف اوراق اور ابواب میں ایسے یھیلے ہوئے ہیں کہ  جس  سے  عام آدمی کےلیےاستفادہ کرنا مشکل کام ہے ۔محترم جناب مولانا مفتی حماد اللہ وحید صاحب (رئیس دار الافتاء جامعہ انوار القرآن ،کراچی )  نے ان منتشر جواہر پاروں کو اس کتاب ’’کتاب النفقات  ‘‘ میں یکجا کردیا ہے  ۔ فاضل مصنف نے  حتی الامکان کوشش کی  ہے  کہ موضوع سے متعلق تمام مباحث کو کتاب میں مختصراً سمو دیا  ہے ۔ (م۔ا) 

  • 1881 #5581

    مصنف : ڈاکٹر مفتی عمران الحق کلیانوی

    مشاہدات : 7575

    کتاب الکفالہ و النفقات اسلام کا نظام کفالت ایک تحقیقی جائزہ

    (اتوار 26 اگست 2018ء) ناشر : دارالاشاعت اردوبازارکراچی
    #5581 Book صفحات: 434

    کفالت یا تکفیل کے لغوی معنی ذمہ داری ، ضمانت، پرورش  کرنا او رکسی پر خرچ کرنے کے ہیں شرعاً کفالت اس کو کہتے ہیں کہ اصیل سےہٹا کر کفیل کے ذمہ کو ئی کام ڈال دینا۔مکفول کی کفالت کیوں کہ کفیل کے ذمہ  ہوتی ہےاس لیے نان نفقہ پر اسی کفالت کا اطلاق کیا جاتا ہے  کیوں کہ کفیل اپنے زیر کفالت افراد کو کھانے پینے ، رہنے سہنے اور دیگر اخراجات میں  اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور ان کی پرورش اور خبر گیری کرتا ہے۔تو یہ کافل یا کفیل کہلاتا ہے اورجن کی یہ کفالت کرتا ہے  وہ مکفول  کہلاتے ہیں  او ریہ عمل  کفالت کہلاتا ہے۔ نفقہ کا لفظی معنیٰ خرچ کرنے کےہیں لغت میں اس شئی کو کہتے ہیں  جو انسان اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتا ہے ۔کفالت نفقات کے ہم معنی بھی  ہے کیونکہ  عام طور پر فقہاء نے کفالت کے باب کو باب النفقات ہی کے نام  سے موسوم کیا ہے ۔ قرآن مجید میں  کہیں  ماں باپ پر اولاد کی کفالت واجب فرمائی کہیں اولادپر ماں باپ کی  کفالت کہیں یتیم کی کفالت ،کہیں فقراء ومساکین کی ، مسافرین ومجاہدین کی کفالت ، کہیں معذورین کی کفالت ، کہیں حکمران کے ذمہ اپنی رعایا کی کفالت کا  ذکر ہے۔الغرض قرآن کریم ’’ نظام کفالت‘‘ کی  تعلیم سے لبریز ہے اور جو فرد اپنے کفالتی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا اس کےلیے شدید عذاب کی وعید  ہے ۔ نفقہ کے موضوع پر مفتی حماد اللہ وحید (رئیس دار الافتاء جامعہ انوار القرآن ،کراچی )   کی مستقل  کتاب ’’کتاب النفقات  ‘‘  ہے  جو کتاب وسنت سائٹ موجود ہے ۔  زیر تبصرہ کتاب  ’’ کتاب الکفالہ والنفقات ‘‘     ڈاکٹر  مفتی عمران  الحق  کلیانوی ( مشیر مذہبی  امور جامعہ کراچی ) کا دراصل پی ایچ ڈی کا  وہ  تحقیقی مقالہ ہے ۔  جسے موصوف نے 2002ء  میں جامعہ کراچی  میں پیش  کر کے  ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل  کی ۔اس  میں انہوں نے  محققانہ انداز میں اسلام  کے نظام کفالت و نفقات   کا دیگر نظاموں اور مذاہب کے نظام کفالت او رنفقات سے  تقابل اور    تنقیدی جائزہ پیش کر کےیہ ثابت  کر نے کی کوشش کی ہے کہ   اسلام نے جو  انسانی ہمدردی کی تعلیم دی  ہے خصوصاً معاش   جو  کہ  جینے کے لیے  ہر ایک کا بنیادی  حق ہے تو اس کے لیے    اسلام نے جو نظام کفالت   قائم کیا ہے  آج بھی کوئی  نظام کوئی مذہب کو ئی  قوم اسلامی نظام کفالت  کےمقابلے میں ایک عشر عشیر بھی پیش نہیں کرسکتا۔اور معاشرت ، معیشت اور سیاست سے متعلق اسلام  کی جو عملی تعلیمات موجود ہیں مذاہب باطلہ  اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔(م ۔ا) 

  • 1882 #5583

    مصنف : ابن حجر العسقلانی

    مشاہدات : 32297

    تقریب التہذیب ( اردو ) جلد اول

    dsa (اتوار 26 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ رحمانیہ لاہور
    #5583 Book صفحات: 720

    علم  اسماء الرجال علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ  کا  علم ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہےحدیث کے راوی جب تک صحابہ کرام﷢ تھے اس فن کی کوئی ضرورت نہ تھی، وہ سب کے سب عادل، انصاف پسند اور محتاط تھے ۔کبارِتابعین بھی اپنے علم وتقویٰ کی روشنی میں ہرجگہ لائق قبول سمجھے جاتے تھے، جب فتنے پھیلے اور بدعات شروع ہوئیں تو ضرورت محسوس ہوئی کہ راویوں کی جانچ پڑتال کی جائے۔ تو ائمہ  محدثین  نے علم اسماء الرجال کو شروع کیا ۔سو حدیث کے لیے جس طرح متن کو جاننا ضروری ہے، سند کو پہچاننا بھی ضروری ٹھہرا کہ اسماء الرجال کے علم کے بغیر علم حدیث میں کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا، امام علی بن المدینی (۲۳۴ھ) کہتے ہیں:معانی حدیث میں غور کرنا نصف علم ہے تو معرفت رجال بھی نصف علم ہے۔ (مقدمہ خلاصہ تہذیب الکمال، فصل وھذہ نبذۃ من أقوال الائمۃ فی ہذا:۱/۱۶۵ ) ائمہ محدثین نے اس  اسماء الرجال  پر باقائدہ کتب مرتب کیں۔پہلے دور کی اسماء الرجال کی کتابیں راویوں کے نہایت مختصر حالات کو لیے ہوئے تھیں، بعد میں ابنِ عدی اور ابونعیم اصفہانی نے سب سے پہلے معلومات زیادہ حاصل کرنے کی طرف توجہ کی، خطیب بغدادی ابن عبدالبر اور ابن عساکر دمشقی نے ضخیم جلدوں میں بغداد اور دمشق کی تاریخیں لکھیں تو ان میں تقریباً سب اعیان ورجال کے تذکرے آگئے ہیں۔ جہاں تک فنی حیثیت کا تعلق ہے سب سے پہلے حنبلی المسلک حافظ عبدالغنی المقدسی نے اس پر قلم اٹھایا آپ نے “الکمال فی اسماءالرجال” لکھی  بعد ازاں   محدثین نے انہی کے نقوش وخطوط پر    مزید کام کیا ۔ ۔ حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمٰن المزی نے الکمال” کو پھر سے مرتب کیا اور اس کا نام “تہذیب الکمالرکھا، آپ نے اس میں اور اہل فن سے بھی معلومات جمع فرمائیں۔پھرحافظ المزی کے شاگرد جناب حافظ شمس الدین ذہبی اٹھے اور انہوں نے “تہذیب الکمال” کو مختصر کرکے “تذھیب التہذیب” لکھی، اس کے علاوہ “میزان الاعتدال” اور “سیرالنبلاء” اور”تذکرۃ الحفاظ” جیسی بلند پایہ کتابیں بھی لکھیں، جو اپنے فن پر وقت کی لاجواب کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔پھرشارح صحیح بخاری  حافظ ابن حجر عسقلانی نے “تذہیب التہذیب” کو اپنے انداز میں مختصر کیا اور “تہذیب التہذیب” لکھی جو بارہ جلدوں میں ہے؛ پھرخود ہی اس کا خلاصہ “تقریب التہذیب” کے نام سے لکھا ہے، اس کے علاوہ آپ نے “لسان المیزان” بھی لکھی۔  زیر تبصرہ کتاب  حافظ ابن حجر عسقلانی  کی کتاب  تقریب التہذیب  کااردو ترجمہ  ہے  ۔ اس کا اردو  ترجمہ  کی سعادت  جناب مولانا  نیاز احمد  نے  نے  حاصل کی  ہے مکتبہ رحمانیہ لاہور نے  اسے  دو جلدوں میں طبع کیا ہے۔ یہ کتاب  طلاب علوم حدیث کے لیے   پیش قیمت  تحفہ  ہے ۔(م۔ا)   

  • 1883 #5580

    مصنف : ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی

    مشاہدات : 11643

    سود اور اسکے احکام و مسائل

    (ہفتہ 25 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ قدوسیہ،لاہور
    #5580 Book صفحات: 174

    دینِ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔سود کو عربی زبان میں ”ربو“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔" جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو ۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بندے کو پسند نہیں کرتا ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’سود اور اس کے احکام مسائل ‘‘ ڈاکٹر  فضل الرحمٰن مدنی  (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ ، مالیگاؤں ، انڈیا) کے  سود کے موضوع پر مختلف مواقع خطابات ،مقالات، اور متعدد سوالات کے جوابات کا مجموعہ ہے۔اس کتاب میں شامل  مقالہ  بعنوان ’’ ہندوستان میں سود کی شرعی حیثیت‘‘ اولاً مجلہ ’’ صوت الحق‘‘  میں شائع ہوا بعد ازاں اس پر نظر ثانی کے بعد یہ مقالہ اس  کتاب میں  شامل کیاگیا ہے ۔ اور اسی طرح  موصوف کا جون 1997ء  کو صابر ستارٹاؤن ہال مالیگاؤں  میں ’’سود کی حرمت ومذمت ‘‘ کے عنوان پرپیش  کیا گیا ایک خطاب بھی اس کتاب میں شامل ہے ۔موصوف کے جامعہ محمدیہ منصورہ ، مالیگاؤں کےدار الافتاء  کی طرف سے سود کے متعلق سوالات کےجوابات کو بھی اس  مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔اولاً  یہ کتاب انڈیا سے شائع ہوئی  بعد ازاں اس  کی اہمیت  وافادیت کے پیش نظر  مکتبہ قدوسیہ لاہور کے  ذمہ دراران  جناب ابو بکر قدوسی ﷾ وعمرفاروق قدوسی ﷾ نے  2007ء میں اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو   اہل اسلام کے لیے نفع بخش بنائے اور  مصنف  وناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)

  • 1884 #5441

    مصنف : عرفان سعید

    مشاہدات : 3631

    سوویت یونین کا زوال اور کیمونزم

    (ہفتہ 25 اگست 2018ء) ناشر : سوشلسٹ پبلشر لاہور
    #5441 Book صفحات: 162

    روسی سوشلسٹ ریاستوں کا مجموعہ عام طور پر سوویت اتحاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آئینی اعتبار سے اشتراکی ریاست تھی جو یوریشیا میں 1922ء سے 1991ء تک قائم رہی۔ اس کو بالعموم روس (Russia) بھی کہا جاتا تھا جو غلط ہے۔ روس یعنی رشیا اس اتحاد کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست کا نام ہے۔ 1945ء سے لے کر 1991ء تک اس کو امریکہ کے ساتھ دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) مانا جاتا تھا۔سوویت اتحاد کو 1917ء کے انقلاب کے دوران بننے والے ریاستی علاقے میں قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوتی رہیں، لیکن آخری بڑی ٹوٹ پھوٹ کے بعد، جو بالٹک ریاستوں، مشرقی پولینڈ، مشرقی یورپ کا کچھ حصہ اور کچھ دوسری ریاستوں کے اضافے اور فن لینڈ اور پولینڈ کی علیحدگی کے بعد 1945ء سے لے کر تحلیل تک شاہی دور والے روس جیسی ہی رہیں۔سوویت حکومت اور سیاسی تنظیموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا کام ملک کی واحد سیاسی جماعت، سوویت اتحاد کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس رہا۔1956ء تک سوویت سوشلسٹ ریاستوں کی تعداد چار سے بڑھ کر پندرہ ہوگئی ۔1991ء میں سوویت اتحاد تحلیل ہوگیا اور اس کے بعد تمام ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ ان میں سے گیارہ ریاستوں نے مل کر ایک ڈھیلی ڈھالی سا وفاق (Confederation) بنالیا ہے جسے "آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ" کہا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’سویت یونین کا زوال ‘‘ جناب عطاء الرحمٰن  صاحب کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب صاحب کتاب نے  انسٹی ٹیوٹ  آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد کی جانب  1991ء میں سوویت یونین کا   مطالعاتی دورہ  کرنے کےبعد مرتب کی ہے ۔موصوف نےاپنے اس  دورے میں  روسی پارلیمنٹ کے چند ارکان صحافیوں، کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین،ماسکو میں مقیم سوویت مسلم علاقوں کے آزاد پسند سرگرم کارکنوں سے  ملاقاتیں کیں ۔ نیز ازبکستان کے صدر اسلام کریموف اور تاجکستان کے نائب صدر نذر اللہ دوستوف ، مفتی اعظم تاشقند  محمد صادق اور حزب اختلاف کے کئی ایک رہنماؤں ، ادیبوں ، صحافیوں اور علماء سے ملاقاتیں کی اور ان کے انٹرویو بھی کیے اور تاشقند ریڈیو پر تقریربھی کی اور اپنے مشاہدات بیان کیے ۔فاضل مصنف نے وطن واپسی  پرسوویت یونین کے ززال کے اسباب اور وسطی ایشیا کے احوال پر اپنے  مشاہدات وتاثرات اور تجزیے سپرد قلم کیے  یہ کتاب  فاضل مصنف کے انہی تاثرات ، مشاہدات کا مجموعہ  ہے  خاص طور اس میں ان مسلمان علاقوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن پر روس نےوسطی ایشیا کے علاقوں سے بھی بہت پہلے قبضہ کیا  اوراُس  وقت  آزاد نہیں  ہوئے تھے  بین الاقوامی قانون کی رو سے روسی فیڈریشن کا  حصہ تسلیم کیے جاتے تھے  اور جہاں آزادی کی تحریکیں روزبروز قوت حاصل کرتی جارہی ہیں ۔اشتراکیت کی ناکامی  اور سوویت یونین کے زوال پر یہ کتاب نہ خالصتاً علمی یا موضوعاتی ہے اور نہ محض تاثرات ہی کا مجموعہ ہے اس میں فکری ونظری مباحث اور تاریخی پس منظر کے ساتھ  ساتھ  مصنف کے ذاتی مشاہد پر مبنی خیالات  وتاثرات بھی ہیں۔(م۔ا)

  • 1885 #5467

    مصنف : مسعود مفتی

    مشاہدات : 16526

    سیرت النبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلے

    (جمعہ 24 اگست 2018ء) ناشر : علم و عرفان پبلشرز، لاہور
    #5467 Book صفحات: 611

    ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات  کا موضوع  گلشنِ سدابہار کی طرح ہے ۔جسے  شاعرِ اسلام  سیدنا حسان بن ثابت   سے لے کر آج تک پوری اسلامی  تاریخ  میں  آپ ﷺ کی سیرت  طیبہ کے جملہ گوشوں پر  مسلسل کہااور  لکھا گیا ہے اورمستقبل میں لکھا  جاتا  رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے  کہ اس  پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے  گا۔نبی رحمت  کی  سیرت مبارکہ میں  تمام اہل ایما ن کے لیے  اسوہ اور نمونہ ہے ۔ رسول برحق ﷺکی  بعث سے  قبل  کی چالیس  سالہ  زندگی   معصوم زندگی بھی ہمارے  لیے مشعل راہ  ہے ۔ اس زندگی میں آپ ﷺ نے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ  پیش کیا  یہی وہ دور تھا جب لوگ آپﷺ کو الصادق اور الامین کےنام پکارتے تھے۔ گزشتہ چودہ صدیوں  میں اس  ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔دنیا کی کئی  زبانوں میں  بالخصوص عربی اردو میں   بے شمار سیرت نگار وں نے   سیرت النبی ﷺ  پر کتب تالیف کی ہیں۔  اردو زبان میں  سرت النبی از شبلی نعمانی ،  رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور  مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول   آنے والی کتاب   الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری  کو  بہت قبول عام حاصل ہوا۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے   ہیں۔اور پورے عالمِ اسلام  میں  سیرت  النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی  کیا  جاتاہے   جس میں  مختلف اہل علم  اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت النبی ﷺ اعلان نبوت سے پہلے ‘‘  مسعود مفتی  اور منصور احمد بٹ کی مشترکہ  تصنیف ہے مصنفین نے اس کتاب میں نبی کریمﷺ کی بعثت سے پہلے  کی چالیس سالہ زندگی کے واقعات کو اکٹھا کیا ہے اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش   کو شرف قبولیت سے  نوازے ۔(آمین) (م ۔ا )

  • 1886 #5468

    مصنف : محمد اطہر نعیمی

    مشاہدات : 15431

    سیرت رسول پاک ﷺ براوایت ابن اسحاق

    (جمعہ 24 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ نبویہ لاہور
    #5468 Book صفحات: 842

    محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار المدنی مدینہ منورہ میں 85ھ ؍ 704ء  میں پیدا ہوئے مدینہ میں قیام کیا۔ پھر کسی وجہ سے مصر اور وہاں سے کوفہ چلے گئے۔ آخر میں بغداد میں مقیم ہو گئے۔آٹھویں صدی عیسوی کے قدیم ترین سیرت نگار ہیں۔ابن اسحاق کے داد یسار بن خیارعیسائی مذہب کے تھے وہ عراق مقام عین التمر میں قید تھے خالد بن ولید انہیں قیدی بنا کر مدینہ لائے قیس بن مخرمہ کی تملیک میں آئے ۔ یسار اپنے قبیلے کے پہلے شخص تھے جو مسلمان ہو کر آزاد ہوئے۔ان کے تین بیٹے تھے جن میں ایک ابن اسحاق تھے۔ ان کا تعلق تابعین کے دور سے تھا اور بعض ان کو تابعین میں بھی شمار کرتے ہیں ۔ محمد بن اسحاق نے مدینہ میں پرورش پائی ۔ ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی۔ ان کے اساتذہ میں امام ابن شہاب زہری،عاصم بن عمر بن قتادہ، عبد اللہ بن ابوبکربن محمد مدنی، غزوات کی تفصیل میں سب سے نمایاں ہیں۔ایک مستند اور ثقہ راوی ہیں ابن اسحاق نے محمد ﷺ کے متعلق قصص و روایات جمع کرنے کی طرف خاص توجہ کی انہوں نے سیرت کا مواد دو جلدوں میں جمع کیا تھا یعنی کتاب المبتداء جس میں رسول اکرم ﷺکی زندگی کے ابتدائی حالات تھے جو ہجرت تک ہے۔ جبکہ کتاب المغازی میں ہجرت سے وصال تک کے واقعات تھے۔بغداد میں سنہ 150ھ؍ 768ء میں وفات پائی۔ امام ابو حنیفہ کے مزار کے ساتھ قبرستان ’’خیزران‘‘ میں مدفون ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سیرت رسول پاک براوایت ابن اسحاق ‘‘ ابن اسحاق کی   سیرت کے موضوع پر اولین کتاب کا اردو ترجمہ ہےسیرت ابن اسحاق کے نام سے معروف اس مشہور کتاب کا اصل نام سیرۃ رسول اللہ ہے دوسری صدی ہجری میں تصنیف کی گئی۔ اسے اولین سیرت و تاریخ کی کتاب مانا جاتا ہےاس کتاب کی جامعیت، تفصیل اورمعلومات کی فراوانی کی بناء پر اکثر اہل علم نے اسے قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا۔ مصنف سے بعد کے سبھی مؤرخوں اور مصنفوں نے سیرت نبوی کے حولےسے اس کتاب پر پورا پورا اعتماد کیا اور اسے اپنا مآخذ بنایا۔ ابن جریر طبری، ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ابن اسحاق سے بکثرت روایت کی ہے۔سیرت ابن ہشام کی بنیاد اور اصل بھی یہی کتاب ہے بلکہ سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ساتویں صدی ہجری میں فارس کے حکمران ابو بکر سعد زنگی کی فرمائش پر اس کتاب کا فارسی ترجمہ بھی ہوا جس کے قلمی نسخے دنیا کے بعض کتب خانوں میں موجود ہیں۔کتاب ہذا سیرت ابن اسحاق فارسی ترجمہ کا ارد و ترجمہ ہے فارسی  سے یہ اردو ترجمہ  مولانا محمداطہر نعیمی کیا ہے جبکہ  رفیع الدین  ہمدانی نے612ھ اسکا  فارسی ترجمہ کیا تھا جوکہ  1341ء میں ایران سے طبع ہوا ۔(م۔ا)

  • 1887 #5579

    مصنف : ابو لبابہ شاہ منصور

    مشاہدات : 21180

    رہنمائے خطابت

    (جمعرات 23 اگست 2018ء) ناشر : السعید پبلیکیشنز کراچی
    #5579 Book صفحات: 291

    خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس  کےذریعے  ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے  افکار ونظریات  کا قائل بنانے کے لیے  استعمال کرتا ہے۔بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت  وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ  ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت  نہیں کرتے ۔اس لیے  خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات  میں  انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ،  عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر نظر کتاب ’’ رہنمائے خطابت ‘‘   مولانا  مفتی ابو ابولبابہ شاہ منصور کی کاوش ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں خطابت کےاصول وآداب ، خطابت سیکھنے کے لیے طریقے ، درس ِ قرآن ، درس حدیث اور لیکچر کی تیاری اور منتخب تقریریں اس میں جمع کردی ہے ۔فاضل مرتب نے اس کتا ب میں خطابت کے قدیم  رہنما اصولوں کے ساتھ جدید تحقیقات کو بھی مدنظر رکھا ہے ۔(م ۔ ا) 

  • 1888 #5452

    مصنف : عبد الحمید جودۃ السحار

    مشاہدات : 7668

    سوانح حضرت ابوذر غفاری

    (جمعرات 23 اگست 2018ء) ناشر : کتب خانہ قاسمی تجارتی دیو بند
    #5452 Book صفحات: 131

    آج کا دور مصرفیتوں کا دور ہے۔ ہماری معاشرت کا انداز بڑی حد تک مشینی ہو گیا ہے۔ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے دلوں کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں۔ فکرونظر  کا ذوق اور سوچ کا انداز بدل جانے سے ہمارے ہاں ہیرو شپ کا معیار بھی بہت پست سطح پر آگیا ہے۔ آج کھلاڑی‘ ٹی وی اور بڑی سکرین کے فن کار ہماری نسلوں کے آئیڈیل اور ہیرو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کے وہ عظیم سپوت اور روشنی کی وہ برتر قندیلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ آج بڑی شدت سے اس بات کی ضرورت ہے کہ عہد ماضی کے ان نامور سپوتوں اور رجال عظیم کی پاکیزہ سیرتوں اور ان کے اُجلے اُجلے کردار کو منظر عام پر لایا جائے۔زیرِ تبصرہ کتاب  خاص اسی حوالے سے ہے جس میں حضرت ابو ذر غفاریؓ کی سیرت اور ان کے کردار کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ کی باکمال جماعت ان قدسی صفات انسانوں پر مشتمل تھی جن کے دلوں کی سر زمین خدا خوفی‘ خدا ترسی‘ جود وسخا‘ عدل ومساوات صدق وصفا اور دیانت داری سے مرصع ومزین تھی۔ صحابہ میں سے ایک بے مثال‘ حق کی تلاش میں مسلسل سر گرداں اور دنیا وآخرت کی سرفرازیوں سے  نوازے جانے والے حضرت ابو ذر غفاریؓ بھی ہیں۔ یہ کتاب سلاست اور روانی کی عجب شان رکھتی ہے۔حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ ابوذر غفاریؓ ‘‘ عبد الحمید جودۃ السحار کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1889 #5578

    مصنف : ملک ریاض خالد

    مشاہدات : 6094

    قانون فوجداری مع قصاص و دیت

    (بدھ 22 اگست 2018ء) ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
    #5578 Book صفحات: 139

    فوجداری ضابطہ یا ضابطہ تعزیرات ایک دستاویز ہے جس میں کسی مقام پر عمل در آمد ہونے والے تمام یا بیشتر جرائم کے قوانین کو یکجا کیا جاتا ہے۔ عموماً ایک ضابطہ تعزیرات جرائم کا احاطہ کرتا ہے جو عمل در آمد علاقے میں تسلیم کیے گئے ہیں، جرمانے جو ان جرائم پر عائد ہوتے ہیں اور کچھ مخصوص پہلوفوجداری ضابطے عمومًا دیوانی قوانین مشترک ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے قانونی نظاموں کی تشکیل پاتی ہے ان ضابطوں اور اصولوں پر جو نسبتاً مبہم ہیں اور انہیں معاملوں کی اساس پر رو بعمل لایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شاذ و نادر ہی عام قانون عمل درآمد کرنے والے علاقوں میں نافذ العمل ہوتے ہیں۔انگریزوں کی واپسی کے بعد، تعزیرات ہند پاکستان کو ورثے میں ملا۔  زیر تبصرہ کتا ب’’قانون فوجداری  مع قصاص ودیت ‘‘ ملک ریاض خالد   کی کاوش  ہے ۔ انہوں نے اس کتا ب میں اس امر کی ہرممکن  کوشش کی ہےکہ  قانون کے طالب علموں او روکلاء صاحبان  کو سلیس اردو میں  اتنا موا د میسر ہوجائے جس سے کسی پہلو میں ان کی انکی تشنگی باقی نہ رہے ۔فاضل مصنف  نے یہ کتاب صدر پاکستان  کے قانون فوجداری ترمیمی آرڈنینس نمبر7 ؍ 1990ءجاری کرنے کے یہ کتاب مرتب کی۔(م۔ا) 

  • 1890 #5472

    مصنف : ابو محمد عبد المالک

    مشاہدات : 8780

    نقوش پائے مصطفٰی ﷺ

    (بدھ 22 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ العرب کراچی
    #5472 Book صفحات: 418

    ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات  کا موضوع  گلشنِ سدابہار کی طرح ہے ۔جسے  شاعرِ اسلام  سیدنا حسان بن ثابت   سے لے کر آج تک پوری اسلامی  تاریخ  میں  آپ ﷺ کی سیرت  طیبہ کے جملہ گوشوں پر  مسلسل کہااور  لکھا گیا ہے اورمستقبل میں لکھا  جاتا  رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے  کہ اس  پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے  گا۔نبی رحمت  کی  سیرت مبارکہ میں  تمام اہل ایما ن کے لیے  اسوہ اور نمونہ ہے ۔ رسول برحق ﷺکی  بعث سے  قبل  کی چالیس  سالہ  زندگی   معصوم زندگی بھی ہمارے  لیے مشعل راہ  ہے ۔ اس زندگی میں آپ ﷺ نے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ  پیش کیا  یہی وہ دور تھا جب لوگ آپﷺ کو الصادق اور الامین کےنام پکارتے تھے۔ گزشتہ چودہ صدیوں  میں اس  ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔دنیا کی کئی  زبانوں میں  بالخصوص عربی اردو میں   بے شمار سیرت نگار وں نے   سیرت النبی ﷺ  پر کتب تالیف کی ہیں۔  اردو زبان میں  سرت النبی از شبلی نعمانی ،  رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور  مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول   آنے والی کتاب   الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری  کو  بہت قبول عام حاصل ہوا۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے   ہیں۔اور پورے عالمِ اسلام  میں  سیرت  النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی  کیا  جاتاہے   جس میں  مختلف اہل علم  اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’نقوش پائے مصطفیٰ‘‘  ابو محمد  عبد المالک کی مرتب شد ہے   بنیادی طور پر تو  اس کتاب میں ان مقامات کا تعارف ہے  جہاں نبی کریم ﷺ کےقدمین شریفین لگے۔ مگر کتاب کی ترتیب  عام کتب سیرت   کے طرزپر ہے  نبی اکرم ﷺ  کی ودلات کےاحوال سے ابتداء کر کے وفات حسرت تک کی سوانح مقدسہ کاترتبیب وار بیان ہے۔ ترتیب کے مطابق جہاں جہاں  مقامات وآثار کا ذکر آیا  ہے  ان کی تفصیل بیان کردی گئی ہے  یوں یہ کتاب جغرافیۂ سیرت اور احوال سیرت دونوں کا  مجموعہ ہے اجمالاً اس کتاب کو چار حصوں میں  تقسیم کیا گیا ہے ۔

    • حیات سعید ہ کے پہلے چالیس سال: اس حصہ میں  مکی زندگی کے قبل از نبوت  کےاحوال کابیان ہے ۔

    • نبوت کے پہلے13 سال: اس حصہ میں  بعد ازنبوت  مکی زندگی کے 13  سالہ حالات کا تذکرہ ہے ۔

    • مدینہ منورہ کے شب وروز  : اس عنوان کےتحت مدینہ  طیبہ کے 10  سالہ لمحات حیات سعیدہ کا تذکرہ ہے ۔

    • مدینہ منورہ میں آثار نبویﷺ: اس میں آقاﷺ سےمنسوب مدینہ طیبہ کےآثار ویادگار  مقامات کا تعارف  ہے اور آخر میں سفر آخرت ومرض الوفات کا بیان ہے ۔

    کتاب کے حسن ترتیب کی وجہ سے   مصنف کو 2012ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا ۔(م۔ا)

  • 1891 #5576

    مصنف : ڈاکٹر عبد الخالق

    مشاہدات : 14123

    مسلم فلسفہ

    (منگل 21 اگست 2018ء) ناشر : عزیز بک ڈپو اردو بازار لاہور
    #5576 Book صفحات: 289

    لفظ فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے نکلا ہے۔فلسفہ کا موضوع وجود ہے۔ پس کائنات کی ہر شئی اس علم میں داخل ہے۔  فلسفہ کسی بھی شئ کے متعلق اٹھنے والے بنیادی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ اب اگر وہ دین ہو تو فلسفہ دین، اگر تاریخ ہو توفلسفہ تاریخ، اگر اخلاق ہو تو فلسفہ اخلاق، اگر وجود ہوتو فلسفہ وجود کہا جاتا ہے۔ ۔ اسلامی فلسفہ بھی زندگی کے ساتھ منسلک مسائل کی منظم تحقیقات کے طور پر بیان کیا گیا ہے، کائنات، اخلاقیات اور تہذیب وغیرہ کا فلسفہ عالم اسلام میں پیش کیا گیا۔ فلسفہ کے متعلق  متعدد کتب موجود ہیں  جن میں غزالی اور ابن رشد کی کتب قابل ذکر ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’مسلم فلسفہ‘‘ ڈاکٹر عبد الخالق ، پروفیسر یوسف شیدائی کی مشترکہ کاوش ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں  چودہویں صدی عیسوی تک نامور مسلمان مفکّرین کے الٰہیّاتی، مابعد یاتی الطبیعی، نفسیاتی ، اخلاقی اور سیاسی نظریات کو  قلم بند کردیا ہے ۔یہ کتاب بنیادی طور پر  بی اے اورایم اے  ک طلبہ کی ضرورت کو سامنے رکھ کر مرتب  کی  گئی ہے ۔ فلسفیوں کے سوانحی تذکروں  کی لمبی چوڑی بحثوں میں الجھنے  کی بجائے ا ن کے افکار کا تجزیہ کرنے اوران کاباہمی موازنہ کرنے پر زیادہ زور دیا گیا ہے تاکہ مسلم فلسفہ ایک فعال تحریک کے طور پر اجاگر ہوسکے ۔اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں فکرِ یونان یافلسفہ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی عمومی روش اختیار کرنے کی بجائے مسلم فلسفے کو خود مسلم تمدن کےداخلی خصائص وامتیازات کے حوالے سے جاننے اور پہنچاننے کی سعی کی گئی ہے(م۔ا) 

  • 1892 #5577

    مصنف : عبد المجید سالک

    مشاہدات : 5548

    مسلم ثقافت ہندوستان میں

    (منگل 21 اگست 2018ء) ناشر : ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور
    #5577 Book صفحات: 594

    مولانا عبدالمجید سالک( (1894ء-  1959ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر، صحافی، افسانہ نگار اور کالم نگار تھے۔عبدالمجید سالک 12 ستمبر، 1894ء کو بٹالہ، گرداسپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بٹالہ اور پٹھان کوٹ میں حاصل کی اور پھر اینگلو عربک کالج دہلی سے تکمیل کی۔ انہوں نے 1914ء میں رسالہ فانوس خیال جاری کیا۔ پھر 1915ء سے 1920ء تک وہ ماہنامہ تہذیب نسواں، ماہنامہ پھول اور ماہنامہ کہکشاں کے مدیر رہے۔ 1920ء میں وہ روزنامہ زمیندار کے عملۂ ادارت میں شامل ہوئے۔ 1927ء میں انہوں نے مولانا غلام رسول مہر کے اشتراک سے روزنامہ انقلاب جاری کیا جس کے ساتھ وہ اکتوبر 1949ء میں اس کے خاتمےتک وابستہ رہے۔ عبدالمجید سالک اخبار روزنامہ انقلاب میں ایک کالم افکار و حوادث کے نام سے لکھا کرتے تھے، یہی کالم ان کی پہچان بن گیا۔ ان کے خودنوشت سوانح سرگذشت کے نام سے اشاعت پزیر ہوئی۔ ان کی دیگر تصانیف میںذکرِ اقبال، یاران کہن، میراث اسلام اور مسلم ثقافت ہندوستان میں  قابل ذکر ہیں ۔موصوف نے   65 برس کی عمر 27 ؍ستمبر1959ء کو لاہور میں وفات پائی۔ زیر نظر کتاب ’’مسلم ثقافت  ہندوستا ن ہندوستان میں ‘‘مولانا عبد المجید سالک کی تصنیف ہے ۔موصوف نے یہ کتاب  بہترین مآخذ تاریخی سے استفاد کر کے  مرتب کی ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں ایک مستند ’’ دائرۃ المعارف ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے ۔مصنف نے اس کتاب میں  یہ بتایا  ہے کہ  مسلمانوں نے برصغیر پاک وہند  میں ایک ہزار  سال میں کن برکات سے آشنا کیا ہے کہ یہاں کی پس ماندہ اقوام ایک نئے اسلوب زندگی سے بہرور ہوگئیں۔(م۔ا)

  • 1893 #5575

    مصنف : مشتاق اے چوہدری

    مشاہدات : 3010

    مسلمانوں کا بلدیاتی نظام

    (پیر 20 اگست 2018ء) ناشر : پاک عرب علمی فاؤنڈیشن لاہور
    #5575 Book صفحات: 162

    کسی بھی مضبوط جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1959ء میں پہلی بار جنرل ایوب خان کے دور میں بلدیاتی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا۔ جسے بعدازاں 1962 ء کے دستور میں شامل کیا گیا۔ بنیادی جمہوریتوں کے اس نظام پر دس ہزار کی آباد ی پر مشتمل یونین کونسل سب سے نچلے درجے کی مقامی کونسل تھی۔ یونین کونسل کے ارکان میں دس منتخب اور 5 نامزد ہوتے تھے جنہیں بی ڈی ممبر کہا جاتا تھا۔ یونین کونسل کا سربراہ چیئرمین کہلاتا تھا۔ یونین کونسل کے دائرہ کار میں مقامی سطح پر امن و امان کے قیام اور زراعت کی ترقی میں کردار ادا کرنا اور مقامی آبادی کے مختلف مسائل حل کرنا تھے ۔ مقامی منصوبوں کیلئے یونین کونسل ٹیکس عائد کرنے کی مجاز ہوتی تھی ۔ صدر پاکستان کے انتخابات کیلئے یہی ارکان ووٹ ڈالتے تھے ۔ اسی طرح تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں کام کرتےتھے۔ 1969ء میں ایوب خان کی حکومت کی رخصتی کے ساتھ یہ نظام بھی رخصت ہو گیا۔ دوسری بار لوکل گورنمنٹ سسٹم جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں نافذ کیا جس کے مطابق شہری اور دیہی دو طرح کے ادارے وجود میں آئے۔ شہروں میں ٹاؤن کمیٹی، مپونسپل کمیٹی، میونسپل کارپوریشن اور میٹرو پولیٹن کارپوریشن وجود میں آئیں اور دیہی سطح پر یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کے ادارے وجود میں آئے۔ ان اداروں کے ارکان کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا جو کہ اپنے میئر یا چیئرمین کا انتخاب کرتے۔ تیسری بار 2001 ء میں بلدیاتی نظام پھر ایک فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نئے انداز میں دیا۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت تین سطح پر مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ضلعی سطح پر ضلع ناظم ضلعی حکومت کا سربراہ بنایا گیا۔ اسی طرح تحصیل ناظم اور یونین کونسل ناظم اپنی اپنی سطح پر سربراہ بنے۔ ڈی سی او کو ضلع ناظم کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ کا سربراہ بنایا گیا جس کے ماتحت مختلف محکموں کے ای ڈی او، ڈی او اور ڈی ڈی اوز وغیرہ تھے۔  زیر نظر کتاب ’’مسلمانوں کابلدیاتی نظام ‘‘ مشتاق اے چوہدری کی  اس موضوع پر اولین کاوش ہے ۔پاکستان میں  حکومت خود اختیاری کےتحت  جو بلدیاتی نظام چل رہا ہے  ۔مصنف نےاس نقطۂ نظر سے مسلمانوں کےبلدیاتی نظام  پر اجمالاً بحث کی ہے ۔یہ کتاب بلدیاتی  نظام کے موضوع پر متعدد اور مستند مآخذوں کا بہترین ما حاصل  اور جامع خلاصہ ہے۔مؤلف نے زیر بحث موضوع پر  نہایت  اچھے الفاظ میں گفتگو کی ہے اور تاریخی شہادتوں  سے یہ ثابت کیا ہ کہ یورپ میں  جو آج بلدیاتی نظام کے نہایت اور اعلی نمونے  دیکھتے  کوملتے ہیں وہ اسلام ہی کی تعلیمات کا نتیجہ  ہیں ۔(م۔ا)

  • 1894 #5573

    مصنف : طارق محمود مغل

    مشاہدات : 9918

    معاشرتی نفسیات

    (اتوار 19 اگست 2018ء) ناشر : اردو سائنس بورڈ لاہور
    #5573 Book صفحات: 467

    معاشرتی نفسیات  فرد کے اس تجربے اور کردار کے سائنسی مطالعہ کا نام کے  ہے  جو کہ اس کےدوسرے افراد گروہوں اور ثقافت سے تعلق کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ معاشرتی نفسیات فرد کے حوالے سے معاشرتی نظام اور معاشرتی اداروں کو زیر بحث لاتی ہے۔معاشرتی نفسیات کابنیادی موضوع فرد کے معاشرتی کردار کا تجزیہ کرنا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ معاشرتی نفسیات ‘‘ جناب طارق محمود مغل کی تصنیف ہے  یہ کتاب انہوں نے بنیادی طور پر ایم ایس  سی نفسیات کے پرچہ معاشرتی نفسیات کو سامنے رکھ کر طلباء کے لیے تیار کی ہے۔یہ کتاب چار حصوں اورسولہ ابواب پر مشتمل ہے ۔مصنف نے اس کتاب میں  معاشرتی نفسیات کو اس کے حقیقی مقام کےمطابق ایک جدید اطلاقی سائنس کے طور پر پیش کیا  ہے ۔معاشرتی نفسیات کے تمام اہم موضوعات پر اس کتاب میں اس طرح   بحث کی گئی ہے  کہ قارئین پر اس کی افادیت واضح ہوجاتی ہے۔یہ کتاب قارئین کو انگریزی  میں اس موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں سے بے نیاز کردیتی ہے ۔معاشرتی نفسیات کے طلبا اور دوسرے قارئین بھی اس سے ے بھر پور استفادہ کرسکتے ہیں۔(م۔ا) 

  • 1895 #5574

    مصنف : محمد طاسین

    مشاہدات : 5841

    مروجہ نظام زمینداری اور اسلام

    (اتوار 19 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور
    #5574 Book صفحات: 253

    اسلامی معاشی نظام کےایک حصّے کا  تعلق معاشی زندگی کے زراعت  وکاشت کاری کے شعبہ  سے ہے  جو پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے خصوصی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس شعبہ  کے مسائل  میں سے  ایک مسئلہ مزراعت وبٹائی کا مسئلہ ہے جو اپنے عملی اثرات  ونتائج کے لحاظ سےبڑا اہم  مسئلہ ہے ۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے شرعی جواز وعدم جواز کےمتعلق فقہاء اسلام کےبابین قدیم سے شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض فقہاء اس کو بنیادی طور پر جائز اور بعض اس کو بنیادی  طور پر ناجائز قرار دیتے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’مروجہ نظام  زمینداری اور اسلام  ‘‘  مولانا طاسین صاحب کی کاوش ہے  ۔ اس کتاب انہوں نے   نظام ِ زمینداری کا مفہوم  ومطلب،مسئلہ ملکیت  زمین،اقسام اراضی،مزارعت کی شرعی حیثیت،تعریف  اور اس کی مختلف شکلیں ،احادیث مزارعت ،مزارعت  کے جواز وعدم جواز  پر ائمہ کرام  کے موقف  کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1896 #5572

    مصنف : ایمل برنس

    مشاہدات : 6245

    مارکسزم کیا ہے ؟

    (ہفتہ 18 اگست 2018ء) ناشر : قومی دار الاشاعت لاہور
    #5572 Book صفحات: 99

    سا ئنسی اشتراکیت مارکسیت کے بانی کارل مارکس 5 مئی 1818ء میں جرمنی کے شہر ترئیر صوبہ رائن پروشیا میں ایک قانون دان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مارکس کا مقام پیدائش صوبہ رائن صنعتی طور پر بہت ترقی یافتہ تھا۔1830ء سے 1835ء تک مارکس نے ترئیر کے جمناسٹکاسکول میں تعلیم حاصل کی۔ جس مضمون پر اُن کو بی اے کی ڈ گری دی گئی اُس کا عنوان تھا ’’پیشہ اختیار کرنے کے متعلق ایک نوجوان کے تصورات‘‘مارکس کے سائنسی اور سیاسی نظریات نما یاں طور پر اُس وقت متشکل ہو ئے جب جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں میں عظیم تاریخی واقعات کی زمین ہموار ہو رہی تھی۔مارکس کی معاشی اور سماجی مسائل سے بھرپور لگن نہ صرف جرمنی کے عوام کی تکلیف دہ بد حالی اور محرومی دیکھ کر جاگی تھی بلکہ نہایت ترقی یافتہ سر مائے دار ملکوں،برطانیہ اور فرانس کے حالات و واقعات سے بھی ابھری تھی۔مارکس نے صر ف مادیت کو سما جی مظاہر تک پھیلایا بلکہ اس نے مادیت کے نقطۂ نظر کو مزید ترقی دی۔ جو اس کے پہلے میکانکی اور ما بعد الطبیعاتی نوعیت رکھتی تھی ۔مارکس نے اپنے فلسفے کی بنیاد سائنس اور خصوصاً قدرتی سائنس کے مجموعی مواد پر رکھی۔ اس نے ہیگل کی جدلیات کو مادیت کے ساتھ ملاکر ایک اکائی بنائی اور دنیا کو ایک کُلیت کی صورت میں نئی تشکیل دینے کی کو شش کی۔ زیر کتابچہ ’’مارکسزم کیا ہے ؟‘‘ ایمل برنس کے انگریزی کتاب کاترجمہ ہے جناب محمد کلیم اللہ نے اس  کو اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ اس کتاب میں  سا ئنسی اشتراکیت مارکسیت کے بانی کارل مارکس کے   سائنسی افکا ر و نظریات کو مختصراً پیش کیا  گی ہے ۔(م۔ا) 

  • 1897 #5470

    مصنف : ڈاکٹر اے وحید

    مشاہدات : 5477

    کاروان ادب

    (ہفتہ 18 اگست 2018ء) ناشر : فیروز سنز، لاہور۔ کراچی
    #5470 Book صفحات: 548

    اردو کی بنیاددکن کے قدیم صوفی شعراء اور مذہبی مبلغین نے رکھی ۔ اردو   ابتدائی لڑیچر تمام تر مذہبی  ہے اور 1350ء سے لے کر 1590ء تک ڈھائی سوسال کے دوران دکن  میں اردو کےبے شمار مذہبی رسالے لکھے گئے ۔دکن میں اردو ادب  کا پہلا دور 1590ء میں شروع ہوا ۔ 1590ء  سے 1730ء تک دکن میں کئی اچھے شاعر اور نثر نگار پیدا ہوئے  سچ پوچھیئے تو باقاعدہ اردو ادب کی بنیاد اسی زمانہ میں  رکھی گئی۔اس دور کی  سب سےا  ہم اور مشہور شخصیت شمس الدین ولی اللہ تھے اسے  بابائے ریختہ اور اردو شاعری کاباوا آدم کہا جاتا ہے۔اردو ادب  کی تاریخ او رارتقاء کےمتعلق متعدد کتب موجود ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’کاروان ادب ‘‘ ڈاکٹر اے وحیدکی  تصنیف ہے ۔ اس کتاب کی ترتیب میں نہایت جانفشانی سلیقے اور خوش ذوقی سے کام لیا گیا  ہے  فورٹ ولیم کے نثر نگاروں سے لے کر  کتاب کے تصنیف   تک کے  تمام ادیبوں کا تذکرہ اس کتاب میں موجود ہے باب  اول  ادب او ر اس کے اصناف  کے متعلق ہے  جس میں جملہ ادبی مسائل پر تفصیل سےعالمانہ بحث کی گئی ہے۔اس کے بعد  اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔کتاب کے حصہ اول میں انیسویں صدی کے انشاء پر داز سر سید اور ان کےرفقا شبلی ، حالی، آزاد اور مہدی  کےکارناموں کا مختصر  تذکرہ  واقتباسات شامل ہیں ۔ دوسرا   حصہ اردو افسانہ ؍ناول اور ڈرامے پر مشتمل ہے ۔یہ  کتاب اردو  میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے ۔جس میں اردو ادب کےارتقاء کی تاریخی داستان  موجو د  ہے ۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1943ء میں شائع ہوا اور دوسرا ایڈیشن ترمیم نو کےساتھ 1969ء میں  شائع ہوا ۔(م۔ا) 

  • 1898 #5570

    مصنف : مفتی شوکت علی فہمی

    مشاہدات : 13705

    ہندوستان پر اسلامی حکومت

    (جمعہ 17 اگست 2018ء) ناشر : سٹی بک پوائنٹ کراچی
    #5570 Book صفحات: 330

    ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک  کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک  کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے  ہے کہ  اس  ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے  ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش  جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا   وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر انکا دور دورہ تھا زیرتبصرہ کتاب ’’ ہندوستان پر اسلامی حکومت ‘‘ مفتی شوکت علی فہمی کی  ہندوستان پر مسلم دور حکومت کی تاریخی معلومات پر  ایک دلچسپ تاریخی کتاب ہے۔مصنف نے  اس کتاب میں  مستند تاریخی حوالوں سے ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سےمغلیہ حکومت کے قیام تک کی  مختصر تاریخ  جامع انداز میں  ہندوستان کےمسلمان بادشاہوں کی سچی تصویر پیش کی ہے ۔تاکہ غیر مسلموں کےذہنوں سے بدگمانیوں کا زہر  نچوڑ لیا جائے۔اس تاریخی کتاب میں  جتنے بھی واقعات درج ہیں و ہ تمام کے تمام ہندوستان کی ان قابل اعتبار پرانی تاریخوں سے اخذ کیے گئے ہیں  جو  ہندوستان کےتقریباً  ہر طبقہ میں مستند خیال کی جاتی ہیں۔یہ  کتاب    ایڈیشن ہذا پہلے   56 برس قبل ہندوستان کی راجدھانی دہلی سےشائع ہوئی تھی۔50 برس سے یہ کتاب مارکیٹ سے ختم ہوچکی  تھی 2005ء میں سٹی بک پوائنٹ  کراچی نے پاکستان میں پہلی بار شائع کیا۔(م۔ا) 

  • 1899 #5571

    مصنف : اے ایس صدیقی

    مشاہدات : 4636

    کامیابی

    (جمعہ 17 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ نفسیات کراچی
    #5571 Book صفحات: 129

    زندگی کو خوبصورت بنانا ہر انسان کا بنیادی فرض ہے  لیکن اس کے لیے کچھ ضروری باتوں کا خیال رکھا جائے تو کام  نہایت آسان ہوجاتا ہے اور ان چند باتوں پر عمل کر کے ہی ہم اپنی زندگی کو کامیابی سے گزار سکتے ہیں ۔ کسی کام کو شروع کرنے  سے پہلے سو چ بچار کرلینا بہت سی لغرشوں سے محفوظ رکھتا ہے مثبت سوچ آپکو بہت ساری پریشانیوں سے بچا سکتی ہے ۔منفی سوچ کے بجائے مثبت طرز فکر کے ذریعے آپ آگے بڑھ سکتے ہیں۔یہ مثبت سوچ ہی ہوتی ہے جو آپ کو آگے بڑھنے بھروسا کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں مدد کرتی ہے۔کامیاب زندگی کے لئے نظم و ضبط بہت ضروری ہے۔ اگر نظم و ضبط نہیں ہوگا تو آپکو کامیابی کا راستہ کٹھن معلوم ہوگا۔نظم و ضبط کی تربیت ہمیں اپنے بچوں کو بچپن ہی سے دینی چاہئے۔ جو لوگ ہر کام وقت پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں انہیں کامیابی حاصل کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی ۔ جناب اے ایس  صدیقی  صا حب  نےزیر نظر کتاب’’ کامیابی ‘‘ میں زندگی میں  کامیاب ہونے کے رہنما اصول  اور طریقوں کو آسان فہم انداز میں پیش  کیا ہے ۔یہ کتاب زندگی کو سنوارنے اور نکھارنے کے سلسلے میں قارئین کے لیے دلچسپ کتاب ہے ۔(م۔ا)

  • 1900 #5568

    مصنف : ڈاکٹر صادق علی گل

    مشاہدات : 8371

    فن تاریخ نویسی (ھومر سے ٹائن بی تک )

    (جمعرات 16 اگست 2018ء) ناشر : پبلشرز ایمپوریم لاہور
    #5568 Book صفحات: 379

    تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی گئی۔ زیر تبصرہ کتاب’’فن تایخ نویسی ھومر سے ٹائن بی تک ‘‘ جناب صادق  علی گل (چئیرمین  شبعہ  تاریخ جامعہ پنجاب )کی تصنیف ہے  فاضل مصنف نے یہ کتاب  بنیادی طور پر طالب علموں کی ضروریات کے پیش  نظر لکھی ہے اور حتی المقدور کوشش کر کے  اس کتاب  کو  زیادہ سے زیادہ قابل فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔مصنف نے ہر باب میں  اہم انگریزی اور اردو  تاریخی ، ادبی اور علمی ماخذوں سے وسیع استفادہ کیا ہے ۔یہ کتاب تاریخ کی تاریخ اور اس کا اصل موضوع تاریخ نویسی کے وہ اصول وضوابط جن کا جاننا ہر پیشہ ور مؤرخ کے لیے ضروری ہے ۔ ان اصولوں کی عدم موجودگی میں تاریخ نہیں بلکہ قصے کہانیوں، افسانوں کے مجموعے اور داستانیں جنم لیتی ہیں۔یہ کتاب تاریخ نویسی کے تنقیدی نظریات  کے ارتقاء کی تاریخ نہیں بلکہ اس میں مختلف اصول پیش کرتے وقت  مصنف نے مغربی تاریخ سے متعلق بحثوں کو زیادہ ترنظر انداز کردیا ہے  اور محض اصولوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے ۔(م۔ا) 

< 1 2 ... 73 74 75 76 77 78 79 ... 274 275 >

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 60842
  • اس ہفتے کے قارئین 321312
  • اس ماہ کے قارئین 1938039
  • کل قارئین111259477
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست