کانٹ اور اس کی مشہور و معروف زیر مطالعہ کتاب ’تنقید عقل محض‘ کو جو اہمیت جدید فلسفے میں حاصل ہے اسے اہل نظر بخوبی جانتے ہیں۔ اس میں فلسفے کے سب اہم مسئلہ یعنی نظریہ علم کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ لیکن یہ کتاب جس قدر اہم ہے اسی قدر مشکل ہے اس لیے کہ ایک تو موضوع کافی ادق ہے دوسرا کانٹ کا اسلوب بیان پیچیدگی سے خالی نہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں فلسفے کا ذوق رکھنے والے عموماً جرمن زبان سے واقف نہیں ہیں اس لیے ان کی دسترس صرف کانٹ کی تصانیف کے انگریزی ترجموں تک ہےجبکہ ’تنقید عقل محض‘ کے جتنے انگریزی تراجم ہوئے ہیں وہ اصل کتاب سے بھی زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اس مشکل کو محترم عابد حسین نے بہت خوش اسلوبی سے حل کیا ہے اور اس کتاب کا ایسا اردو ترجمہ کیا ہے کہ بہت سے ہندوستانیوں کو اس کتاب کے مطالب و معانی میں سمجھنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انھوں نے کتاب کے مضمون کو صحت، سلاست اور وضاحت کے ساتھ ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ محترم مترجم نے ترجمہ کے لیے صرف دوسرے ایڈیشن کو سامنے رکھا ہے جو کانٹ نے اصلاح و ترمیم کے بعد شائع کیا تھا اور جو متفقہ طور پر مستند مانا جاتا ہ...
عربی زبان میں لفظ ترجمہ کا مطلب بیان اور وضاحت کرنا ہے۔اصطلاح میں دوسری زبان کے کلام کی تعبیر اپنی زبان میں کرنا ترجمہ کہلاتا ہے۔اس طرح ترجمہ قرآن سے مراددوسری زبان سے قرآن کے عربی کلمات کی تعبیر کو واضح کرنا ہے۔ترجمہ ایک فن ہے اور اس کے اصول وضوابط پوری طرح منضبط شکل میں موجود ہیں اگرچہ اچھے کے حوالے سے ماہرین کے درمیان اختلاف موجود ہے لیکن اس کے باوجود موٹی موٹی باتوں پر کم وبیش اتفاق پایا جاتا ہے اصل متن اور ترجمہ شدہ متن ایک دوسرے سے کتنے قریب ہیں اور کتنا دو ر اس سے ہی ترجمہ کے اچھے ہونے یا خراب ہونے کا تعین کیا جاتا ہے ۔ علمی متن کے ترجمے اور ادبی متن کے ترجمے میں بھی فرق کیا جاتا ہے جہاں تک علمی اور سائنسی متون کے ترجمے کا تعلق ہے تو اس میں چونکہ دونوں متون کی زبان سادہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اس لیے ترجمہ شدہ متن اصل کے جنتا قریب ہوگا اتنا ہی اعلیٰ کام ہے علمی متون میں چونکہ بہت سی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں اس لیے ان کے ترجمے میں اختلاف موجود ہے ماہرین کا ایک گروہ اس خیال کا حامل ہے کہ اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی بجائے ان کو اصل بمطابق نقل اپنی زبان...
ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے ہے کہ اس ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران...
ہندوستان دنیا کا قدیم ترین ملک ہے ۔ اس ملک کوو ہی قدامت حاصل ہےجو دنیا کے کسی پرانے سے پرانے ملک کو حاصل ہوسکتی ہے۔ ہندوستان کےبارے میں مؤرخوں کی رائے ہے کہ اس ملک کی تہذیب او ر تمدن یونان سے بھی قدیم ہے۔ہندوستان ابتداء ہی ایک نہایت زرخیز ملک ہے ۔ لیکن اس کی زرخیزی اس ملک کے باشندوں کےلیے ہمیشہ مصیبت بنی ر ہے ۔ چنانچہ ہندوستان کے گرد وپیش جب بھی کسی قوم کو ذرا بھی اقتدار حاصل ہوا وہ ہندوستان پر چڑھ دوڑی تاکہ ہندوستان کی زرخیزی سے مالا مال ہو سکے ۔ ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز ک...