کل کتب 6857

دکھائیں
کتب
  • 1951 #5526

    مصنف : اختر حجازی

    مشاہدات : 10593

    اسلام کا شورائی نظام

    (پیر 16 جولائی 2018ء) ناشر : مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور
    #5526 Book صفحات: 146

    عربی زبان میں شوریٰ کے معنیٰ اشارہ کرنا، مشورہ کرنا، اظہار رائے کرنا اور غور و خوض کرنا اور عربی لغت میں شہد کو چھتے سے نکالنے کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔یعنی جن امور کے متعلق قرآن وسنت میں واضح تصریح موجود نہ ہو امت مسلمہ ان پر آزادانہ رائے زنی کے ذریعے فیصلہ کرے تو اس کو شوریٰ کہتے ہیں۔مشورے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں "شوریٰ" نام کی ایک سورت ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ کو صحابہ کرام ؓ کے ساتھ مشورہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔ ارشاد ربانی ہے’’ وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ (آل عمران: ١٥٩ ) ‘‘ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں کئی ایک باہمی مشورہ کی مثالیں مو جود ہیں ۔ زیرتبصرہ کتاب ’’اسلام کا شورائی نظام ‘‘ جناب اختر حجازی صاحب کی مرتب کردہ ہے ۔ موصوف نے مولانا جلال الدین انصر عمری کی نگارشات کو اس میں حسن ترتیب سے جمع کیا ہے اس میں انہوں نے اسلامی اجتماعیات کے اس اصول مشاورت کو پیش کر کے مسلمانوں کو شورائیت وجمہوریت کا راستہ دکھایا ہے ۔جس طرح توحید ورسالت وآخرت کےبغیر کسی اسلام کا تصور ممکن نہیں ہےاسی طرح نظام مشاورت کے اہتمام کے بغیر بھی کسی اسلامی نظام مملکت کا تصور ممکن نہیں ہے ۔یہ کتاب سید جلال الدین عمری کے ماہنامہ ’’ زندگی‘‘ رام پور میں مطبوع مقالہ پر مشتمل ہے ۔مقدمہ کے طور پر سید ابو الاعلیٰ مودودی کی اسی موضوع کے متعلق ایک تحریر کو بھی اس کتاب میں شامل کردیا ہے جس سے کتاب کی اہمیت وافادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ (م۔ا)

  • 1952 #5463

    مصنف : صفدر حیات صفدر

    مشاہدات : 48857

    آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء

    (پیر 16 جولائی 2018ء) ناشر : نیو بک پلس
    #5463 Book صفحات: 145

    مارشل لا کے اٹھنے کے بعد نئی حکومت کے لئے سب سے زیادہ اہم کاموں میں سے ایک نئے آئین کا مسودہ تیار کرنا تھا.1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1972ء کو 1970ء کے انتخابات کی بنیاد پر اسمبلی بنائی گئی۔ ایک کمیٹی مختلف سیاسی جماعتوں کے کراس سیکشن سے قائم کی گئی۔ اس کمیٹی کا مقصد ملک میں ایک آئین بنانا تھا جس پر تمام سیاسی پارٹیاں متفق ہوں۔ کمیٹی کے اندر ایک اختلاف یہ تھا کہ آیا کہ ملک میں پارلیمانی اقتدار کا نظام ہونا چاہیے یا صدارتی نظام۔ اس کے علاوہ صوبائی خود مختاری کے معاملے پر مختلف خیالات تھے۔ آٹھ ماہ آئینی کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کرنے میں صرف کیے، بالآخر 10 اپریل 1973ء کو اس نے آئین کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی۔ وفاقی اسمبلی میں اکثریت یعنی 135 مثبت ووٹوں کے ساتھ اسے منظور کر لیا گیا اور 14 اگست 1973ء کو یہ آئین پاکستان میں نافذ کر دیا گیا۔اسی دستور ؍آئین کو پاکستان کا دستور اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین مجریہ 1973ء بھی کہتے ہیں۔اس آئین کے انگریزی اردو میں کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء‘‘ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973ء کا نیا ایڈیشن ہے جسے صفدر حیات صفدر کے تجزیہ وتبصرہ کےساتھ نیو بک پیلس ،لاہورنے شائع کیا ہے۔کتاب وسنت سائٹ کے ناظرین وقارئین کے استفادے کے لیے اسے پبلش کیا گیا ہے ۔کیونکہ ہر ذی شعور پاکستانی کو آئین پاکستان 1973ء کوعلم ہونا ضروری ہے۔(م۔ا)

  • 1953 #5473

    مصنف : ڈاکٹر عبادت بریلوی

    مشاہدات : 13031

    اردو تنقید کا ارتقا

    (ہفتہ 14 جولائی 2018ء) ناشر : انجمن ترقی اردو کراچی
    #5473 Book صفحات: 499

    لفظ ’’ تنقید ‘‘ نقدسے مشتق ہے جس کے معنیٰ جانچنا ، کھوج ، پر کھ، کھرے کھوٹے کی پہچان ، محاسن و معائب میں فرق کرنے کے ہیں۔ اصطلاح ادب میں کسی فن پارے یا تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کو بیان کرتے ہوئے ادب میں اُس کا مقام تعین کرنا تنقید کہلاتا ہے ۔ زندگی کے تغیر و تبدل کے زیر اثر ادب میں رونما ہونے والے مسائل اور تبدیلیوں کو دیکھنا تنقید کے لئے لازمی ہے۔دراصل کسی ادب پارے کی تخلیق کے ساتھ ہی تنقیدی عمل بھی شروع ہوجاتا ہے ۔ کوئی شاعر نظم یا غزل لکھنے کا ارادہ کرے تو اس کا تنقیدی شعور اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور وہ اشعار کو کانٹ چھانٹ کے اور اُس کے نوک پلک درست کرکے تسلی بخش انداز میں تخلیق کرتا ہے۔ زندگی ہر وقت رواں دواں ہے۔ اس میں ہر لمحہ ایک نئے نظریے اور نئی فکر کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے ناقص اور بہتر کی تمیز کے لئے تنقید ضروری ہے ۔ تنقیدی شعور کے بغیر نہ تو اعلیٰ ادب کے تخلیق ہوسکتی ہے۔اور نہ فنی تخلیق کی قدروں کاتعین ممکن ہے۔ اس لئے اعلیٰ ادب کی پرکھ کے لئے تنقید لازمی ہے ‘‘ابتدائے آفرینش سے انسان میں تنقیدی شعور پایا جاتا تھا۔ ابتداء میں اس کے نقوش دھندلے تھے۔ جب انسانیات نے ترقی کی اور طرح طرح کے علوم سامنے آئے تو تنقید کی مختلف جہات سامنے آئیں۔ زمانہ گذرنے کے ساتھ ادب کی پرکھ کے انداز بھی بدلے۔ اُردو میں تنقید کے ابتدائی نقوش تذکروں میں ملتے ہیں۔ جس میں شاعر کے مختصر حالات زندگی اور نقاد کی پسند سے کلام کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ اُردو تنقید کی کسوٹی پر یہ تذکرے کھرے نہیں اُتر تے لیکن چونکہ یہ ہماری تنقید کے اولین نقش ہیں۔ اس لئے ادب میں ان کی اہمیت ہے۔ا لطاف حسین حالیؔ مقدمہ شعر و شاعری میں پیش کردہ اپنے تنقیدی خیالات کے سبب جدید اُردو تنقید نگاری کے بانی ہیں ۔ حالیؔ نے تنقید کی جو راہ نکالی اس پر آگے چل کر اُردو تنقید نے طویل فاصلہ طئے کیا۔ حالیؔ کے بعد اُردو کے نقادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ جن میں اہم نام شبلیؔ ، عبدالحق ، نیاز فتح پوری، مجنوں گور کھپوری ، آل احمد سرور، احتشام حسین ، کلیم الدین احمد، محمد حسن عسکری،‘ خورشید الاسلام ، محمد حسن ، احسن فاروقی ، وزیر آغا، قمر رئیس ‘ سلیم احمد، مغنی تبسم ، سلیمان ، اطہر جاوید وغیرہ شامل ہیں، قاری اور نقاد کی پسند کے اعتبار سے جب تخلیق کو قبول یا رد کیا جانے لگاتو ادب میں تنقید کے دبستان وجود میں آئے۔ تقابلی تنقید میں دو فن پاروں کا باہمی تقابل کیا جاتا ہے اور اُن میں یکساں خصوصیات تلاش کی جاتی ہیں۔ تنقید کا تعلق تحقیق اور تخلیق سے بھی ہے۔ تینوں میں فضیلت کا معاملہ زیر بحث رہتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تحقیق کے بغیر تنقید ممکن نہیں۔ اور تنقید کے لئے تخلیق ضروری ہے۔ اچھی تخلیق کے لئے سلجھے ہوئے تنقیدی شعور کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اردو تنقِید کا اِرتِقاء‘‘ ڈاکٹر عبادت علی بریلوی کی تصنیف ہے ۔ اس کتاب میں تنقیدی ارتقاء کو تحقیقی زاویہ کی نظر سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ اردو تنقید کا ارتقاء حالات واقعات اور فضاء وماحول کی پیدا وارہے کیونکہ نہ صرف تنقید بلکہ ادب کا ہر شعبہ حالات واقعات ہی کے سانچے میں ڈھلتا ہے او رحالات واقعات کو اپنے سانچے مین ڈھالتابھی ہے ۔اردو تنقید کوبھی حالات واقعات ہی نے پیدا کیا۔بدلتے ہوئے حالات ہی کے سہارے وہ آگے بڑھتی گئی او رخود اس نے حالات کو بدلابھی اور آگے بھی بڑھایا۔اردو تنقید کےارتقاء کو پیش کرتے ہوئے سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھاگیاہے کہ مختلف تنقیدی نظریات اور مختلف تنقیدی معیار جو مختلف اوقات میں قائم ہوتے رہے ان کا ترکرہ گیا ہے پھر ان نظریات کی روشنی میں جو تنقید ہوئی اس کا جائزہ لیا گیا ہے ۔اس کتاب کے پہلا ایڈیشن 1949ء میں شائع ہوا اس کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر مختلف جامعات نے اسے اپنے نصاب میں شامل کرلیا ۔ (م۔ا)

  • 1954 #5531

    مصنف : احمد پراچہ

    مشاہدات : 13938

    اردو ادب کی ترقی پسند تحریک تحقیقی و تنقیدی جائزہ

    (جمعہ 13 جولائی 2018ء) ناشر : فکشن ہاؤس لاہور
    #5531 Book صفحات: 243

    ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک اہم تحریک تھی۔ کوئی بھی تحریک اچانک وارد نہیں ہوجاتی ہے بلکہ اس کے وجود میں آنے میں سماجی، معاشی اور اقتصادی حالات کا دخل ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک ایک عالمی سطح کی تحریک تھی جس کی بہت سی فلسفیانہ اساس ہیں۔ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز 1936 سے ہوتا ہے۔پیرس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس کانفرنس میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند وغیرہ موجود تھے۔ سجاد ظہیر، ملک راج آنند، پرمود سین گپتا، محمد دین تاثیر وغیرہ نے لندن میں ترقی پسند تحریک کا ایک خاکہ تیار کیا، اس طرح لندن میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑگئی اور ہندوستان آنے کے بعد ان ادیبوں نے ہم خیال ادیبوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا اور 1936 میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی جس کی صدارت معروف ہندی اور اردو کے فکشن نگار منشی پریم چند نے کی۔ اس پہلی کل ہند ترقی پسند کانفرنس میں ہندوستان کے اہم ادبا اور دانشور شریک تھے۔ پریم چند کا یادگاری خطبہ بہت اہم تھا جس میں ترقی پسند تحریک کے رموز و نکات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک تحقیقی وتنقیدی جائزہ ‘‘احمد پراچہ کی مرتب شدہ ہے ۔موصوف نے اردو ادب کے معتبر اور مستند نقادوں کی تحریروں کا گہرا مطالعہ کر کے جہاں جہاں سے ترقی پسند نظریہ ادب یا ترقی پسند اد بی تحریک کےبارے میں اشارے اقتباسات یا مفصل مضامین اورمقالات ملے ان کو متوازن نقطۂ نظر کےتحت اس کتاب میں شامل کر کے یکجا کردیا ہے تاکہ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک کے حوالے سے طلباء کے علاوہ اس موضوع پر دلچسپی رکھنے اور مواد ڈھونڈ نے والوں کو زیادہ کتابوں کی گرد جھاڑنے کی بجائے کتاب ہذا ’’ اردو ادب کی ترقی پسند تحریک‘‘ میں یکجا مواد دستیباب ہو ۔(م۔ا)

  • 1955 #5529

    مصنف : قاضی جاوید

    مشاہدات : 5793

    سر سید سے اقبال تک

    (جمعرات 12 جولائی 2018ء) ناشر : تخلیقات، لاہور
    #5529 Book صفحات: 247

    سرسید کو پاکستان کا معمارِ اول کہا جاتا ہے ۔ سرسید نے 1865ء میں کہا تھا کہ ہندوستان میں ایک قوم نہیں بستی، مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں بستی ہیں۔ سرسید کے جانشین نواب محسن الملک نے انتخاب کے اس سوال کو اٹھایا اور قوم کے قریب ستر نمائندگان پر مشتمل ایک وفد لے کر گورنر جنرل کے پاس پہنچا۔ ہندوستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اس قسم کا قدم اٹھایا۔ یہ کیا تھا؟ سرسید کی ان کوششوں کا نتیجہ کہ مسلمان کو مغربی تعلیم سے بے بہرہ نہیں رہنا چاہیے ۔ اس جدوجہد نے آگے چل کر جداگانہ تنظیم کی شکل اختیار کی اور 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا وجود عمل میں آیا۔ جس کے جائنٹ سیکرٹری علی گڑھ تحریک کے روح رواں نواب محسن الملک اور وقار الملک تھے۔ لیگ کا صدر مقام بھی علی گڑھ ہی تھا۔ یہی وہ تنظیم تھی جو آگے بڑھتے بڑھتے تحریک پاکستان کی صورت اختیار کر گئی اور 1947ء میں یعنی سرسید کی وفات کے پچاس سال بعد مسلمانوں کی جداگانہ مملکت کے حسین پیکر میں نمودار ہوئی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیر سید سے اقبال تک ‘‘ قاضی جاوید صاحب کی مرتب شدہ ہے ۔یہ کتاب دراصل تحریک آزای اور قیام پاکستان کے متعلق نامور شخصیات ( سید احمد خان ،مولوی چراغ علی ، سید امیر علی ، مرزا غلام احمد ، شبلی نعمانی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال )کے تحریر کردہ آٹھ مضامین کا مجموعہ ہے ۔اس کتاب میں کتاب ہذا کے مرتب ہونے تک برصغیر کے مسلمانوں کی گزشتہ ایک صدی کی فکری ، مذہبی ، اور ثقافتی تاریخ مربوط انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ کتاب اپنے موضوع پر اولین کتاب ہے ۔(م۔ا)

  • 1956 #5442

    مصنف : نذر الحفیظ ندوی

    مشاہدات : 4929

    سیکولر میڈیا کا شر انگیز کردار

    (بدھ 11 جولائی 2018ء) ناشر : عوامی میڈیا واچ کمیٹی لاہور
    #5442 Book صفحات: 339

    میڈیا انگریزی زبان کا لفظ ہے اس سے مراد وہ تمام ذرائع ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی بات دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔اردو میں ذرائع ابلاغ اور انگریزی میں اسے میڈیا کہتے ہیں۔موجودہ دور میڈیا کا دور ہے۔ غورکیاجائے تو محسوس ہوگا کہ مغرب محض مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے ہی ہمارے ذہنوں پر حکومت کررہاہے۔یہاں ہم سے مراد صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستان جیسے وہ ممالک بھی اس میں شامل ہیں جہاں سیاسی شعور کافقدان ہے۔ جہالت عروج پر ہے اور مغربی تعلیم یافتہ طبقہ ہرقسم کی رہنمائی کے لیے مغرب کی جانب دیکھتاہے۔ہمارے پڑھے لکھے طبقے کااحساسِ کمتری ہے کہ وہ مغرب کے ایجادکردہ ہرلفظ، اِصطلاح اور محاورے کو یوں قبول کرلیتا ہے جیسے یہ اِلہامی بات اور مقدس لفظ ہو۔ چنانچہ اس طرح مغرب میڈیانت نئے شوشے چھوڑتا رہتا ہے جن کا مقصد ہماری سوچ کو متاثر کرنا اور ہماری فکر کو ایک خاص رُخ پر ڈالنا ہوتاہے۔سیکولرمیڈیا کی وجہ سے وضع، ڈھنگ، سوچ فکر میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ میڈیا کی کوشش نوجوانوں کی سماجی اور سیاسی بیداری کی طرف لیجانا نہیں بلکہ ان کو ایک ماحول میں رنگنا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سیکولر میڈیا کا شرانگیز کردار ‘‘ مولانا نذر الحفیظ ندوی ﷾ کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں میڈیا کو یہودیوں کی طرف سے اپنا لینے کے وقت سے آج تک اسکا مؤثر اور تخریبی رول کا جائزہ لیکر بہت جامع اور مفید کتاب کی ہے میڈیا کو یہودی کوششوں کے پس منظر میں بیان کیا ہے ۔ پھر آخر میں اسلام کی طرف سے حق پسندی کا طور وطریقہ واضح کیا ہے ۔یہ کتاب بہت سے قارئین کے سامنے نئے انکشافات پیش کرتی ہے اور اس میں دعو ت کے صحیح انداز عمل کی نشاندہی کر تی ہے ۔ نیز اس کتاب میں عصر حاضر میں سامنے آنے والے اور انسانوں کی آراء اور خیالات کی تشکیل جدید کرنے والے اس اہم ذریعہ کی وضاحت کی گئی ہے ۔اس کتاب کے استفادہ سے قارئین کے سامنے نئی حقیقتیں آجاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو حق وایمان کے مقصد کے لیے مفید بنائے اور لوگوں کےلیے اس کو صحیح فائدہ اٹھانے کا ذریعہ بنائے ۔ آمین(م۔ا)

  • 1957 #5428

    مصنف : خلیق انجم

    مشاہدات : 7211

    سید سلیمان ندوی

    (منگل 10 جولائی 2018ء) ناشر : مکتبہ خلیل غزنی سٹریٹ لاہور
    #5428 Book صفحات: 248

    برصغیر پاک وہند کے  معروف سیرت  نگار اور مؤرخ  مولانا سید سلیمان ندوی ﷫ اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں لکھ کر 18 نومبر 1914ء کو انتقال کر گئے تو باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ معارف جاری کیا جو آج بھی  جاری وساری ہے ۔علامہ  موصوف کی حیات  وخدمات کے سلسلے  متعدد شائع ہوچکی ہیں زیر نظر  کتاب’’ سید سلیمان ندوی  ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے  یہ کتاب مارچ 1985ء میں انجمن ترقی اردو ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے دو روزہ سمینار میں پیش گئے مقالات کا مجموعہ  ہے ۔اس سمینار میں بہت عالمانہ مقالے  پڑھے گئے  ان مقالات کی افادیت کے پیش  نظر جناب  خلیق انجم صاحب نے انھیں کتابی صورت میں مرتب کیا اور مکتبہ خلیل  اردو بازار ،لاہور نے اسے حسن طباعت سے آراستہ کیا۔(م۔ا)

  • 1958 #5293

    مصنف : حافظ محمد اسلم

    مشاہدات : 10803

    رمضان کے مسائل

    (پیر 09 جولائی 2018ء) ناشر : دار المعارف، لاہور
    #5293 Book صفحات: 52

    رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے ۔رمضان المبارک ہی وہ مہینہ ہےکہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔ کتب احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی انہی کتب میں سے ایک ہے جس کے تین حصے ہیں۔ پہلے حصے میں فضائل ومسائل رمضان المباک کو‘ دوسرے میں حقیقت صوم اور تیسرےمیں عید کی خوشیاں اور مسلمان جیسے عظیم عنوانات کو بیان کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کو حافظ محمد اسلم﷾ نے ترتیب دیا ہے اور دوسرے اور تیسرے حصے کو پروفیسر عبد القیوم نے ترتیب دیا ہے اور دوسرے اور تیسرے حصے کے مضامین ان کی کتاب مقالات پروفیسر عبد القیوم کی دوسری جلد کے حصہ تقاریر سے ماخوذ ہیں۔حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ رمضان کے مسائل ‘‘ پروفیسر عبد القیوم وحافظ محمد اسلم﷾ کی مرتب کردہ ہے۔آپ دونوں تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ ان کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1959 #5421

    مصنف : محمد سرور

    مشاہدات : 7598

    مولانا عبید اللہ سندھی

    (اتوار 08 جولائی 2018ء) ناشر : سندھ ساگر اکادمی لاہور
    #5421 Book صفحات: 280

    امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی کی شخصیت برصغیر پاک و ہند میں کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ 28 مارچ 1876ء بمطابق 12 محرم الحرام 1289ھ کو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں چیلانوالی کے ایک سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔1884ء میں آپ نے اپنے ایک ہم جماعت سے مولانا عبیداللہ پائلی کی کتاب “تحفۃ الہند“ لے کر پڑھی۔ اس کے بعد شاہ اسماعیل شہید کی کتاب “تقویۃ الایمان“ پڑھی اور یوں اسلام سے رغبت پیدا ہوگئی۔ 15 برس کی عمر میں 19 اگست 1887ء کو مشرف با اسلام ہوئے۔اردو مڈل تک کی تعلیم آپ نے جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ پھر قبول اسلام کے بعد 1888ء میں دیوبند گئے اور وہاں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور تفسیر و حدیث، فقہ و منطق و فلسفہ کی تکمیل کی۔1901ء میں گوٹھ پیر جھنڈو میں دارلارشاد قائم کیا۔1909ء میں اسیر مالٹا محمود الحسن کے حکم کی تعمیل میں دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں طلباء کی تنظیم “جمیعت الانصار“ کے سلسلے میں اہم خدمات انجام دیں۔1912ء میں دلی نظارۃ المعارف کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا جس نے اسلامی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا کام کیا ہے۔ترکی میں 1924ء میں اپنی ذمہ داری پر تحریک ولی اللہ کے تیسرے دور کا آغاز کیا۔ اس موقع پر آپ نے آزادئ ہند کا منشور استنبول سے شائع کیا۔ترکی سے حجاز پہنچے اور 1939ء تک مکہ معظمہ میں رہے۔ اسی عرصہ میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق اور دینی مسائل کو تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ عوام تک پہنچایا۔مولانا سندھی اگر چہ ساری زندگی قائد حریت کی حیثیت سے اسلامی اور سیاسی خدمات انجام دیتے رہے لیکن ان کی شخصیت اور ان کے افکار اہل علم کے ہاں مختلف فیہ رہے ہیں۔بعض علماء نے ان کے افکار کے رد میں لکھا ہے جیساکہ مولانا مسعود عالم ندوی نے ایک رسالہ مولانا سندھی کے رد میں لکھاتو مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے مولانا سندھی پر کیے جانے ولے اعتراضات کا جائزہ لیا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ مولانا عبید اللہ سندھی ‘‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دلی کے پروفیسر محمد سرور کی تصنیف ہے پہلی دفعہ یہ کتاب مولانا عبید اللہ سندھی کی زندگی میں 1943ء میں شائع ہوئی تو مولانا سندھی نے اسے پڑھا اور اسے بہت پسند کیا ۔یہ کتاب مولانا سندھی کے حالات زندگی ، تعلیمات اور سیاسی افکار کے حوالے سے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔ مصنف کتاب 1906ء میں پیدا ہوئے اور ستمبر 1983ء میں 77 کی عمر اپنے خالق حقیقی سے جاملے موصوف جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دلی میں بطور پروفیسر تدریسی خدمات دینے کے علاوہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں کئی ادبی اداروں میں تصنیفی خدمات دیتے اور متعدد اخبارات میں بطو ر ایڈیٹر بھی کام کیا۔(م۔ا)

  • 1960 #5395

    مصنف : ڈاکٹر سلیم اختر

    مشاہدات : 7671

    ہماری جنسی اور جذباتی زندگی

    (ہفتہ 07 جولائی 2018ء) ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
    #5395 Book صفحات: 192

    آج کا انسان جس ماحول میں سانس لے رہا ہے اس نے اس کی شخصیت کو لخت لخت کر کے ایسے اعصابی تناؤ میں مبتلا کیا کہ انسان خود اپنا آسیب بن کر رہ گیا جس کے نتیجے میں جب اس کا اپنی ذات پر سے ایمان اٹھ گیا تو دوسروں سے ابلاغ ختم ہو گیا۔ یوں لوگ پرچھائیوں میں تبدیل ہو گئے اور دیا سایوں کی بستی بن گئی۔چنانچہ آج کا انسان اپنے سایہ کو بھی دوسروں کا سایہ سمجھتے ہوئے اس سے لرزاں ہے۔ابن العربی نے جہنم کو ایک سرد جگہ قرار دیا تھا۔ جہاں ہر آنے والا اپنی آگ خود ساتھ لاتا ہے اس کے برعکس سارتر کے خیال میں جہنم دوسرے لوگ ہیں جبکہ فرائڈ کے خیال میں جہنم جنس ہے جس کی آگ میں انسان صدا جلتا رہتا ہے۔ یہ تین نظریات اس جبر کے غماز ہیں جس سے کسی نہ کسی طور سے انسان کو عہدہ بر آ ہونا پڑتا ہے۔ اور جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے تینوں جہنموں کی آگ میں جلنا پڑ رہا ہے اور اسی لیے ذہنی عوارض میں مبتلا مریضوں اور خود کشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی حوالے سے ہے جس میں تفصیل سے اسی موضوع کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ کتاب طویل اور مختصر مضامین کا مجموعہ ہے‘ ان کے موضوعات میں تنوع ہے اور جن ذہنی مسائل سے بحث کی گئی ہے وہ ذہنی زندگی کے بیشتر امور اور شخصیت کے بہت سے مستور گوشوں پر سے پردے اٹھاتے ہیں۔ ۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ ہماری جنسی اور جذباتی زندگی ‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر  کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1961 #5427

    مصنف : حافظ شفیق الرحمن زاہد

    مشاہدات : 4117

    مقام رسالت کا عملی تصور

    (ہفتہ 07 جولائی 2018ء) ناشر : الحکمہ انٹر نیشنل
    #5427 Book صفحات: 50

    اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل﷩ کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پوراسامان رکھتی ہے ۔ انسان کے لکھنے پڑھنے کی ابتدا سے اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے سوانح وسیرت سے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں جس قدر محمد رسول اللہ ﷺ سے لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے ۔اردو زبان بھی اس معاملے میں کسی بھی زبان سے پیچھے نہیں رہی اس میں حضورﷺ سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ابن اسحاق اورابن ہشام سے لے کر گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔یہ سب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کا انسانوں میں سے ایک انسان ایسا بھی تھا اور ہے کہ جس کی ذات کامل واکمل پر جس قدر بھی لکھا جائے کم ہے اور انسانیت اس کی صفات ِ عالیہ پر جس قدر بھی فخر کرے کم ہے ۔ زیرتبصرہ کتابچہ’’مقام رسالت کاعملی تصّور‘‘ الحکمۃ انٹرنیشنل ،لاہور کے مدیر حافظ شفیق الرحمٰن زاہد﷾ کامرتب شدہ ہے اس مختصر کتابچہ میں مرتب موصوف نے عصر حاضر میں امت مسلمہ میں پیداہونے والی بیماریوں او ر معاشرتی بگاڑ کی وجہ سیرت طیبہ سے دور رہ کر رجدید مغری نظریات اور الحاد پر مبنی غلط دینی تعبیرات اور مغربی تہذیب کو اختیار کرنا قرار دیا ہے ۔ اوراس بات کو بھی واضح کیا ہے کہ امت مسلمہ میں پیدا ہونے والی ان بیماریوں کے علاج کے لیے ضروری ہے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہر زاویے سے قوم کے سامنے پیش کیا جائے ۔ کیونکہ امت کی کامیابی اور کائنات کی بقا کا راز صرف نبی ﷺکی سیرت مبارکہ میں مضر ہے ۔ آپ ﷺ نے حقوق العباد ، امن عالم ،اعلیٰ اخلاقی رویوں، باہمی اتفاق واتحاد ، محبت ومودت ، جذبہ ایثار قربانی ، دوسروں کو اپنے اُوپر ترجیح دینا اور انکا دکھ درد محسوس کرنا غرض زندگی کے انفرادی واجتماعی شعبہ جات میں ایک آئیدیل نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے ۔ آپ ﷺ کی تعلیمات جدید نسل کو جہاں نظریاتی وایمانی اعتبار سے دنیا کی مضبوط باخلاق اور مہذب قوم بنائے گی وہاں مادی اعتبار سے بھی انہیں دنیا کی ترقی یافتہ قوم بنائے گی۔کتابچہ ہذا کے مرتب اس کے علاوہ بھی متعدد اصلاحی کتابچہ جات کے مرتب وناشر ہیں ان مطبوعہ کتابچہ جات کی تفصیل اس کتاب کے بیک ٹائٹل پر موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ حافظ شفیق الرحمٰن ﷾ کے ادارے کو مزید کامیابیوں وکامرانیوں سے ہمکنار کرے اور ان کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت سے نوازے ۔ آمین (م۔ا)

  • 1962 #5436

    مصنف : صائمہ اسما

    مشاہدات : 3636

    ماں خاندان کا محور

    (جمعہ 06 جولائی 2018ء) ناشر : ادارہ بتول لاہور
    #5436 Book صفحات: 50

    ماں اس ہستی کا نام ہے جو زندگی کے تمام دکھوں اور مصیبتوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے۔ اپنی زندگی اپنے بچوں کی خوشیوں، شادمانیوں میں صَرف کرتی چلی آئی ہے اور جب تک یہ دنیا قائم و دائم ہے یہی رسم جاری رہے گا۔یوں تو دنیا میں سبھی اشرف المخلوقات چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو، چاہے کسی بھی مذہب سے اس کا تعلق ہو ماں ہر ایک کے لیئے قابلِ قدر ہے۔ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اللہ کی طرف سے ماں دنیائے عظیم کا سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔ ماں تو ایک ایسا پھول ہے جو رہتی دنیا تک ساری کائنات کو مہکاتی رہے گی۔ اس لئے تو کہتے ہیں کہ ماں کا وجود ہی ہمارے لئے باعثِ آرام و راحت، چین و سکون، مہر و محبت، صبر و رضا اور خلوص و وفا کی روشن دلیل ہے۔ماں اپنی اولادوں کے لیے ایسا چھاؤں ہے جس کا سایہ کبھی ختم نہیں ہونے والا ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق بنی نوع انسان پر حقوق اللہ کے بعد حقوق العباد میں سے سب سے زیادہ حق اس کے والدین کا ہوتا ہے۔ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا :تیری ماں کا۔ اس نے دوبارہ اور سہ بارہ پوچھا: آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پھر فرمایا تیرے والد کا۔ ماں اللہ کے احسانات میں سے وہ احسان ہے جس کا جتنا بھی شکر بجا لایا جائے کم ہے۔قرآن پاک نے ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ ماں باپ اگرچہ مشرک بھی ہوں تب بھی ان سے بدسلوکی کرنے سےمنع فرمایا گیا ہے۔ ماں کی عظمت وشان پرمتعدد آیات قرآنی اور احادیث نبویہ موجود ہیں۔ زیر تبصرہ کتا بچہ ’’ماں خاندان کا محور‘‘ محترمہ صائمہ اسما کی تحریر ہے یہ تحریر بطور خاص آج کی ماں کے مسائل کوسامنے رکھ کر لکھی گئی ہے ۔محترمہ نے اس میں اس بات کو واضح کیا ہےکہ ہماری اولاد ہمارے یقین میں اپنا حصہ پاتی ہے ۔ اگر ہم خود یقین او رعمل سے تہی داماں ہوگے تو اپنے بچوں کو کیا دیں گے۔اور بچوں کو بڑے لوگوں کی بڑی باتیں سنانے کے ساتھ ہمیں ان کے سامنے عمل کر کے بھی دکھانا چاہیے کیونکہ بچے جتنا اعتماد اپنے والدین پر کرتے ہیں دنیا کے کسی کتابی ہیرو پر نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو عامۃ الناس کے لیے نفع بخش بنائے اور مرتبہ کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) (م۔ا)

  • 1963 #5527

    مصنف : ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

    مشاہدات : 4935

    اسلام میں قانون ٹارٹ کا تصور

    (جمعرات 05 جولائی 2018ء) ناشر : شریعہ اکیڈمی اسلام آباد
    #5527 Book صفحات: 85

    لفظ ٹارٹ  لاطینی زبان کےلفظ TORTUM    سے ماخوذ ہے جس کے معنی ٹیڑھے کے ہیں ۔ٹارٹ سے مراد کسی ایسے  فرض کی خلاف ورزی ہے جو کسی معاہد ےکی بنا پر عائد نہ ہو  او رجس کےنتیجے  میں کسی ایسے قطعی فرض کی خلاف ورزی ہو جس کا کوئی دوسرا شخص حق دار ہو یا کسی شخص کے  کسی محدود ذاتی، شخصی ، خانگی حق کی خلاف ورزی کی وجہ سےخاص نقصان پہنچے یا اس خلاف ورزی کی وجہ سے  عام  افراد کو نقصان پہنچے۔فقہ اسلامی  میں  ٹارٹ کا متبادل لفظ جنایہ ہے اور جنایہ  سےمرادایسا گناہ اور جرم  ہےجس کے کرنے سے انسان پر اس دنیا میں سزا یا قصاص واجب  ہوجاتاہے اور آخرت میں بھی  مستحق عذاب ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ اسلام میں قانون ٹارٹ کا تصور‘‘ جناب ڈاکٹر علی خان نیازی کی کاوش ہے۔ جس   میں انہوں نے   قانون ٹاٹ کے تصور کو فقہ اسلامی  اور  جدید قوانین کی روشنی میں  تفصیلاً بیان کیا ہے۔(م۔ا)

  • 1964 #5525

    مصنف : حبیب الرحمن

    مشاہدات : 5896

    اسلام کا قانون قسامت

    (بدھ 04 جولائی 2018ء) ناشر : شریعہ اکیڈمی اسلام آباد
    #5525 Book صفحات: 66

    قَسامَت کا مطلب یہ ہے کہ کسی جگہ مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ ہو اور اولیائے مقتول اہل محلہ پر قتل عمد یاقتل خطا کا دعویٰ کریں اور اہل محلہ انکار کریں تو اس محلے کے پچاس آدمی قسم کھائیں کہ نہ ہم نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔اسلامی شریعت میں انسانی جان کی حرمت اور تحفظ کے لیے جو احکام وضع کیے گئے ہیں قانون قسامت ان میں سے ایک ہے جو کہ دراصل جرمِ قتل کے ثبوت سے متعلق ہے جب قاتل نامعلوم ہو اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہ ہوں۔حافظ حبیب الرحمٰن صاحب  کی   زیر نظر کتاب ’’اسلام  کا قانون قسامت‘‘اسی موضوع سے متعلق فقہی آرا کے جائزے پر مشتمل ہے۔اسلام کا  نظام عقوبات  ہر لحاظ سے جامع ،ہمہ گیر  اور شریعت کے مقاصد سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ  تمام جدیدترین آراء اور جملہ ترقی یافتہ اصول  ونظریات   کو اپنے دامن میں رکھنے کے باوجود جدید قوانین کا مقام ومرتبہ اسلامی قانون کےمقابلہ میں انتہائی پست اورکمزور ہے ۔لیکن بدقسمتی سےاسلام کے قانون فوجداری سے  ناواقفیت کی وجہ سے یہ غلط تصور عام ہے کہ یہ قانون نہ دور ِجدید کے مطابق ہے اور نہ ہی آج کے  ترقی یافتہ دور میں ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ  یہ تصور حقائق کے خلاف ہے کیونکہ عموماً قانون سے  وابستہ افراد کو اس کےبارے میں سرسری معلومات بھی نہیں ہیں ۔قانون دان طبقہ کی اس ضرورت کےپیش نظر شریعہ اکیڈمی ، اسلام  آباد نے اسلام کے قانون فوجداری کے تمام پہلوؤں کو اپنی حقیقی شکل وصورت میں پیش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کتاب ہذا   ’’اسلام  کا قانون قسامت‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک  کاوش ہے ۔(م۔ا)

  • 1965 #5523

    مصنف : سید محمد امین الحق

    مشاہدات : 9900

    اسلام کا معاشی نظام اور معاشی نظریات

    (منگل 03 جولائی 2018ء) ناشر : شعبہ تعلیم و مطبوعات محکمہ اوقاف لاہور
    #5523 Book صفحات: 173

    اسلامی معاشیات ایک ایسا مضمون ہے جس میں معاشیات کے اصولوں اور نظریات کا اسلامی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک اسلامی معاشرہ میں معیشت کس طرح چل سکتی ہے۔ موجودہ زمانے میں اس مضمون کے بنیادی موضوعات میں یہ بات شامل ہے کہ موجودہ معاشی قوتوں اور اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق کس طرح چلایا جا سکتا ہے ۔ اسلامی معیشت کے بنیادی ستونوں میں زکوٰۃ، خمس، جزیہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ اگر صارف یا پیداکاراسلامی ذہن رکھتے ہوں تو ان کا بنیادی مقصد صرف اس دنیا میں منافع کمانا نہیں ہوگا بلکہ وہ اپنے فیصلوں اور رویوں میں آخرت کو بھی مدنظر رکھیں گے۔ اس سے صارف اور پیداکار کا رویہ ایک مادی مغربی معاشرہ کے رویوں سے مختلف ہوگا اور معاشی امکانات کے مختلف نتائج برآمد ہوں گے۔ اسلامی مالیات اور کاروبار کے بنیادی اصول قرآن وسنت میں بیان کردیے گئے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت نے اجتماعی کاوشوں سے جو حل تجویز کیے ہیں وہ سب کے لیے قابل قبول ہونے چاہئیں۔کیونکہ قرآن کریم اور سنت رسول ﷺ کے بنیادی مآخذ کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات میں اختلافی مسائل کےحوالے سے علماء وفقہاء کی اجتماعی سوچ ہی جدید دور کے نت نئے مسائل سے عہدہ برآہونے کے لیے ایک کامیاب کلید فراہم کرسکتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلام کا معاشی نظام اور معاشی نظریات‘‘مولانا سید محمد امین الحق کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے بڑے محققانہ انداز میں اسلام کے نظامِ معاش ، وسائل معاش اور نظریات معاش پر کلام کیا ہے ۔خاص طور پر مصنف نے زراعت اور کاشتکاری سے متعلق مسائل کو قرآن وسنت اور عمل صحابہ کی روشنی میں بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے جس سے ان لوگوں کے شکوک بھی ختم جو جاتے ہیں جو اپنی علمی بے مائگی کے سبب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں جاگیر داری نظام ہے۔اس کتاب کے مطالعہ سے اسلام کے نظام ِ معاش کےبارے میں لوگوں کےبہت شبہات دور ہوئے ۔(م۔ا)

  • 1966 #5524

    مصنف : محمد بخش مسلم

    مشاہدات : 10437

    اسلام کا نظام بیت المال

    (منگل 03 جولائی 2018ء) ناشر : مکتبہ خاور لاہور
    #5524 Book صفحات: 205

    دور نبوی ﷺمیں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو زمین کا محصول، مال غنیمت کا خمس،زکوٰۃ  ، عشر، جزیہ وغیرہ کی آمدنی ہونے لگی تھی۔ اس آمدنی میں اضافہ ہوا تو حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں بیت المال کا محکمہ قائم کیا۔ اس سے تمام مسلمانوں کو تنخواہ یا وظیفے دیے جاتے تھے۔ مرکز کے علاوہ صوبوں کے صدر مقام پر بیت المال قائم کیے گئے تھے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جاتا تھا۔ ہر صوبے کی آمدنی وہاں کے بیت المال میں جمع ہوتی تھی اور حکومت کے اخراجات پر جو کچھ خرچ ہوتا ،اس کے بعد باقی رقم مرکزی بیت المال میں جمع کردی جاتی تھی۔ خلافت راشدہ کے بعد بیت المال شاہی خزانہ بن گیا اور اس کا زیادہ حصہ بادشاہوں کی شان و شوکت پر صرف ہونے لگا۔مسلمانوں کے بیت المال کیلئے ذرائع آمدن زمانہ قدیم سے لیکر اب تک بہت زیادہ ہیں۔ جس میں  زکاۃ اور اسکی تمام اقسام،مال ِغنیمت،زمین سے نکلنے والی معدنیات،رکاز [مدفون خزانہ] کا پانچواں حصہ،مال فیہ۔ وغیرہ شامل ہے موجودہ زمانے میں بیت المال کے ذرائع آمدن میں  ملکی زمین سے دریافت ہونے والی قدرتی معدنیات، پٹرول، قدرتی گیس۔۔۔۔ اور دیگر معدنیات ہیں، بہت ہی کم ایسے ممالک ہیں جہاں ایسے ذرائع آمدن نہیں ہیں۔انہی ذرائع آمدن میں یہ بھی شامل کیا جائے گا کہ  ایسی آمدن جو حکومت کی جانب سے زرعی، انڈسٹری، تجارتی یا سروسز کے شعبے میں قائم کردہ منصوبوں سے حاصل ہوتی ہے، اور لوگوں کی خدمت کیلئے  ان کی مصنوعات کو فروخت کیا جاتا ہے، مثلاً: بجلی، ٹیلیفون، اور پانی ۔۔۔ الخ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں کے بیت المال کیلئے مالی ذرائع آمدن بہت زیادہ ہیں۔زیر نظر کتاب ’’اسلام کا نظام بیت المال‘‘ مولانا محمد بخش ‘‘ کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے بیت  المال کے بنیادی اصول ، بیت المال کے شعبے ،ذرائع آمدن اور بیت المال کے متعلق متفرق معلومات کو سپرد قلم کیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1967 #5522

    مصنف : حیدر زمان صدیقی

    مشاہدات : 4273

    اسلامی نظریہ اجتماع

    (پیر 02 جولائی 2018ء) ناشر : ادارہ ترجمان القرآن لاہور
    #5522 Book صفحات: 186

    اسلام نے ا نسان کے یقین اور اس  کےاعمال کی بنیاد رکھی  ہے اس  ناقابل انکار حقیقت پر  کہ انسان خود بخو د  پیدا نہیں ہوا بلکہ کسی ذی شعور صاحب ادراک ہستی برتر نے اسے پیدا کیا ہے ۔ اور اس لیے انسانی  اعمال  وافکار کا محض اس کی رضا واطاعت کے لیے ہونا ضروری ہے ۔انسان کی زندگی انفرادی ، عائلی اوراجتماعی تمام تر اسی مقصد واصول کے تحت تو صحیح  ہے ورنہ غلط ہے۔انسان بولے تواس کے لیے  اور چپ رہے تو اس کے لیے ، شادی کرے بچوں سے محبت کر ے، پڑسیوں کی امداد  کرے یا ملی وقومی فرائض  کو ادا کر ے  الغرض تمام تر امور اسی  ذات واحد کی منشاء  کےلیے  ہوں۔ زیر تبصرہ کتا ب’’اسلامی نظریہ اجتماع‘‘   جناب حیدر زماں صدیقی کی   مرتب شدہ ہے ۔ اس کتاب میں  اسلام کے ہمہ گیر نظریہ اجتماع کی حقیقت اوراجزاء ترکیبی  سےبحث کی گئی ہے۔طرزِ بیان شگفتہ اور مدلل ہے مصنف نے دلنشیں انداز میں مسئلہ زیربحث سے متعلق تقریباً سب کچھ کہہ دیا ہے   پہلی دفعہ یہ کتاب تقسیم ہند کےوقت اگست؍1947ء کو  حید رآباد دکن سے شائع ہوئی۔موجود ہ ایڈیشن ادارہ  ترجمان القرآن ،لاہور نے  1989ء میں شائع کیا ہے۔(م۔ا)

  • 1968 #5422

    مصنف : مجیب الرحمان شامی

    مشاہدات : 4070

    فاروق اعظم ؓنمبر ( قومی ڈائجسٹ )

    (پیر 02 جولائی 2018ء) ناشر : قومی پبلشرز لاہور
    #5422 Book صفحات: 297

    سیدنا فاروق اعظم کی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نےہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف ،عمال حکومت کی سخت نگرانی ،رعایا کے حقوق کی پاسداری ،اخلاص نیت وعمل ،جہاد فی سبیل اللہ ،زہد وعبادت ،تقویٰ او رخوف وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائےنمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان ،رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نےکے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظم کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔ سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی خواہش کی ،اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سید نا عمر فاروق کے اسلام لانے اور بعد کے حالات احوال اور ان کی عدل انصاف پر مبنی حکمرانی سے اگاہی کے لیے مختلف اہل علم اور مؤرخین نے کتب تصنیف کی ہیں۔اردو زبان میں شبلی نعمانی ، محمد حسین ہیکل ،مولانا عبد المالک مجاہد(ڈائریکٹر دار السلام) وغیرہ کی کتب قابل ذکر ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فاروق اعظم نمبر ‘‘ قومی ڈائجسٹ کا امیر المومنین خلیفہ دوم سیدنا عمر فاروق کی سیرت ، حیات ، حکومتی انتظامات ،فتوحات ، اصلاحات ،مرویات ، اجتہادات ، ارشادات کے متعلق خاص نمبر ہے قومی ڈائجسٹ کے ایڈیٹر جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے سید نا عمر فاروق کے متعلق نامور محققین اور مؤرخین کی تحریروں کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ مرتب کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس خاص نمبر کے مرتب اور ناشرین کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے اور یہ کتا ب مسلمانوں میں سیدنا عمر فاروق جیسی صفات جلیلہ پیدا کرنے کاباعث بنے ۔(آمین)(م۔ا)

  • 1969 #5371

    مصنف : مفتی سید حکیم شاہ بتکرامی

    مشاہدات : 30611

    آسان فقہی اصطلاحات اردو ترجمہ المصطلحات الفقہیہ

    (اتوار 01 جولائی 2018ء) ناشر : اسلامی کتب خانہ کراچی
    #5371 Book صفحات: 114

    اسلام بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا آخری پیغام ہے جو ہر اعتبار سے محفوظ ہے۔ اس کے احکام وفرامین کا مستقل سر چشمہ قرآن مجید اور سنت مطہرہ ہے۔ فقہ الاحکام کا ذخیرہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں حجاز کی حدود سے نکل کر افریقا اور ایشیاء کے متعدد اقالیم میں نو مسلم افراد اور اقوام کی ہمہ نوع رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا دکھائی دیتا ہے۔بسا اوقات تمدن کے ارتقاء‘ مقامی عرف کے تقاضے اور حالات کے اقتضا سے ایسے مسائل بھی سامنے آتے ہیں کہ جن میں کوئی متعین نص موجود نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں فقیہ کتاب وسنت سے مستنیر حکمت‘ تدبر اور غور وفکر سے کام لیتے ہوئے ایسی قیاسی رائے ظاہر کرتا ہے جو نصوص کے مزاج سے ہم آہنگ ہوتی ہے۔اور اس موضوع پر بہت سی کتب منظر عام پر آچکی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی  اسی موضوع کے حوالے سے ہے جس میں  فقہی اصطلاحات کو بیان کیا گیا ہے یہ کتاب عربی زبان میں تھی جس کا افادۂ عام کے لیے اردو ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے  کہ ہر لفظ کا نیچے ترجمہ کیا ہو اور نہ ہی ایسا ترجمہ ہے کہ عبارت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو بلکہ خیر الامور اوسطھا کے تحت دونوں جانبوں کی رعایت کی گئی ہے ۔اکثر مقامات پر اس کا توضیحی ترجمہ کیا گیا ہے اور اگر عبارت دقیق اور مغلق  تھی تو لفظی ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور  اس میں مترجم نے ضمیمے میں چند اصطلاحات کا اضافہ بھی کیا ہے اور یہ کتاب کئی فقہی اصطلاحات کا مجموعہ ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب اصلا عربی میں ’’المصطلحات الفقہیہ حسب ترتیب ابواب الفقہیہ‘‘ کے نام سے مفتی سید حکیم شاہ بتکرامی﷾ کی ہے جس کا اردو ترجمہ ’’ آسان فقہی اصطلاحات ‘‘مولانا عباد الرحمن  نے کیا ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1970 #5447

    مصنف : محمد سعود عالم قاسمی

    مشاہدات : 8310

    عصر حاضر میں اسوہ رسول ﷺ کی معنویت

    (اتوار 01 جولائی 2018ء) ناشر : مکتبہ جمال، لاہور
    #5447 Book صفحات: 194

    اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل﷩ کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پوراسامان رکھتی ہے ۔ انسان کے لکھنے پڑھنے کی ابتدا سے اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے سوانح وسیرت سے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں جس قدر محمد رسول اللہ ﷺ سے لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے ۔اردو زبان بھی اس معاملے میں کسی بھی زبان سے پیچھے نہیں رہی اس میں حضورﷺ سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ابن اسحاق اورابن ہشام سے لے کر گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔یہ سب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کا انسانوں میں سے ایک انسان ایسا بھی تھا اور ہے کہ جس کی ذات کامل واکمل پر جس قدر بھی لکھا جائے کم ہے اور انسانیت اس کی صفات ِ عالیہ پر جس قدر بھی فخر کرے کم ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’عصر حاضر میں اُسوۂ رسول ﷺ کی معنویت ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود عالم قاسمی کے سیرت النبی ﷺ پر تحریر کردہ گیارہ مقالات کا مجموعہ ہے ۔ یہ مقالات حسب ضرورت مختلف وقت میں لکھے گئے اور مختلف رسائل جرائد میں طبع بھی ہوئے بعدازاں ان کو افادۂ عام کے لیے کتابی صورت میں مرتب کیاگیا ہے ۔ان میں تین مقالات امت مسلمہ کی دینی رہنمائی اور ذہن سازی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تین مقالات عصر حاضر کے عالمی مسائل اوران کے پیغمبرانہ حل سے بحث کرتے ہیں ۔دومقالات رسالت محمدیﷺ پر ضعیف الاعتقادی اور مداہنت کا تعاقب کرتے ہیں ۔ جبکہ دو مقالات سیر ت محمد یﷺ کے خلاف مغربی رویہ کا محاسبہ کرتے ہیں ۔ آخری مقالہ میں اہل ایمان کو فکر وعمل کی مخلصانہ دعوت دی گئی ہے ۔(م۔ا)

  • 1971 #5431

    مصنف : عبد السلام ندوی

    مشاہدات : 11128

    سیرت عمر بن عبد العزیز ؓعنہ

    (ہفتہ 30 جون 2018ء) ناشر : دار الاشاعت، کراچی
    #5431 Book صفحات: 241

    امیر المومنین سیدنا عمر بن عبد العزیز ﷫ کوپانچواں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے ۔ حضرت عمربن عبد العزیز ﷫ عمرثانی کی حیثیت سےابھرکر سامنے آئے ۔جیسے سیدنا عمرفاروق اعظم نےاپنے 10 سالہ عہد خلافت میں ہزاروں مربع میل پر فتح حاصل کی۔حضرت عمر بن عبد العزیز نےگو اڑھائی سال خلافت کوسنبھالا مگر انہوں نے بھی متعدد علاقوں کو فتح کر کے اسلامی حدود میں شامل کیا۔ انہوں نے جہاد کے علاوہ دعوت الی اللہ پر بھی خاصہ زور دیا اور کفر کےدلوں کو اسلام کی برکات سےآراستہ کر کے ان کو دین اسلام میں داخل کیا ۔حدیث وسیراور تاریخ ورجال کی کتب میں ان کے عدل انصاف ،خشیت وللہیت،زہد وتقوٰی ،فہم وفراست اور قضا وسیاست کے بے شمار واقعات محفوظ ہیں اور آپ کی سیرت پر عربی اردو زبان میں متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’سیرت عمر بن عبد العزیز ﷫‘‘امیر المومنین خلفیہ راشد سیدنا عمرفاروق کے حقیقی جانشین عمرثانی کی سیرت وخدمات اور خلافت کے حالات واقعا ت پر مشتمل ہے ۔جوکہ مولانا عبد السلام ندوی کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز ﷫ کے مفصل سوانح زندگی او ران کے عہد حکومت کے مجدّدانہ کارناموں پر ایک مستند کتاب ہے (م۔ا)

  • 1972 #5519

    مصنف : محمد سیف الرحمن قاسم

    مشاہدات : 11029

    آیات ختم نبوت

    (جمعہ 29 جون 2018ء) ناشر : جامعہ الطیبات للبنات الصالحات گوجرانوالہ
    #5519 Book صفحات: 846

    مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺاللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ  ﷺکو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺکے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور نبی اکرم ﷺکی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد     آیت میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا  ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33 : 40)ترجمہ:’’ محمد ﷺتمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو اس منصب پرفائزنہیں کیا جائے گا۔  قرآن حکیم میں متعددآیات ایسی ہیں جو عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم ﷺنے متعدد متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنیٰ متعین فرمایا ہے۔ یہی وہ عقید ہ  جس پر قرون اولیٰ سے آج تک  تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔عقیدہ ختم  نبوت  کے اثبات اور مرزا قادیانی کی تکذیب کے سلسلے میں  ہر مکتب فکر  نے  گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں جن میں  علمائے   حدیث کی خدمات  نمایا ں  ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ آیاتِ ختم  نبوت ‘‘  مولانا محمد سیف الرحمٰن قاسم کی مرتب شدہ ہے  فاضل مرتب نے اس کتاب میں  ختم نبوت کی دلیل بننے والی  سیکڑوں آیات کو  سورت اور آیت کا حوالہ دے کر طریق استدلال کے ساتھ جمع کر دیا ہے ۔اس کتاب میں ردّ مرزائیت  کےبارے میں  عجیب وغریب مواد موجود ہے ۔ (م۔ا)

  • 1973 #5354

    مصنف : نا معلوم

    مشاہدات : 2878

    سفر بہتری کی راہ پر

    (جمعرات 28 جون 2018ء) ناشر : روزن اسلام آباد
    #5354 Book صفحات: 95

    ہماری ذاتی وپیشہ ورانہ زندگی میں ہمارے رویے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی کے کیا اغراض ومقاصد ہیں؟ اور ان تک کیسے پہنچانا ہے۔ اور اگر کوئی مشکلات آتی ہیں تو ان سے کیسے نبٹنا ہے ان سب باتوں میں ہمارے رویوں کا خاص عمل دخل رہتا ہے اس طرح ہم خود کو کتنا سمجھتے ہیں‘ دوسروں کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہیں اور جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں اس کے بارے میں ہمارے پاس کتنی معلومات ہیں ان چیزوں کا بھی ہمارے رویوں سے گہرا تعلق ہے۔ویسے تو ہر شخص کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو مؤثر بنانے کے لیے صحت مند اور مثبت رویوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایسے افراد اور ادارے جن کے کام سے لاکھوں لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہو  ان کے لیے مثبت اور صحت مند رویوں کا حامل ہونا اور بھی اہم ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی حوالے سے ہے جس میں زیادہ تر توجہ پولیس محکمے کی طرف دی گئی ہے اور ماڈیول تین سطح پر ترتیب دیا گیا ہے۔1:کانسٹیبل/ہیڈ کانسٹیبل۔2:اسسٹنٹ سب انسپکٹر/سب انسپکٹر/ سب انسپکٹر/انسپکٹر۔3:اسسٹنٹ سپرنڈنٹ آف پولیس(زیر تربیت) اور پھر ماڈیول ہر سطح کے لیے ایک جیسے موضوع ہی رکھتا ہے جیسے خود آگاہی‘ زندگی کی مہارتیں اور سماجی آگاہی  وغیرہ کے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب پولیس ٹرینرز کی معاونت کے لیے ترتیب دی  گئی ہے۔ ہر حصے کا آغاز اس کی اہمیت اور محکمہ پولیس کے ساتھ اس کے تعلق سے ہوتا ہے ۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ سفر بہتری کی راہ پر ‘‘نیشنل پولیس اکیڈمی کی مرتب کردہ ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ جملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1974 #5411

    مصنف : اطہر نقوی

    مشاہدات : 3889

    چراغ منزل

    (جمعرات 28 جون 2018ء) ناشر : الکتاب انٹرنیشنل، نئی دہلی
    #5411 Book صفحات: 56

    ’’نظم‘‘عربی زبان میں ثلاثی مجردکے باب سے مشتق اسم صفت ہے۔ اردو میں اپنے اضل معنی و ساخت کے ساتھ بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1854ء "مراۃ الاقایم" میں مستعمل ملتا ہے۔جس کے لغوی معنی ایک لڑی میں پرونا ہے/شعر کی صورت میں  مرتب کیا ہوا کلام مراد لیا جاتا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں بیشتران منظومات  کا مجموعہ ہے جو اکابر علمائے اہلحدیث کی وفات پر لکھی گئی تھیں اور اخبار اہل حدیث‘ جریرۂ ترجمان نیز ماہنامہ التوعیہ میں وقتاً فوقتاً شائع ہوئیں۔ اور اس کتاب میں ان تمام کو جمع کیا گیا ہے اور اکابرین کے بارے میں مختصر تعارف دیا گیا ہے خاص کر سر سید اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں ۔ کیونکہ یہ شخصیات اپنے اپنے دور کی مایۂ ناز شخصیات گزری ہیں اور سلف کے منہج پر عمل کرنے والے اور عقیدہ اور مسلک کے بارے میں کبھی کسی سے سمجھوتہ نہ کرنے والے تھے۔ نظم میں تصویر کے دونوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ چراغ منزل ‘‘اطہر نقوی کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1975 #5367

    مصنف : عبد الرؤف محمد عثمان

    مشاہدات : 7436

    محبت رسول ﷺ کے آداب

    (بدھ 27 جون 2018ء) ناشر : عفاف پبلیشرز دہلی
    #5367 Book صفحات: 169

    حبِ رسول ﷺ اہل ایمان کے لیے ایک روح افزاءباب کی حیثیت رکھتا ہے۔ حبِ رسول ﷺ کے بروئے شریعت کچھ تقاضے ہیں۔ خود نبی ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنی جان، مال، اولاد، ماں باپ غرض جمیع انسانیت سے بڑھ کر محبوب نہ سمجھے‘‘۔ محبت رسول ﷺ کا مظہر اطاعتِ رسول ہے ۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت کےبغیر مومن ہونے کا دعویٰ منافقت کی بیّن دلیل ہے اور حب رسول ﷺ ہی وہ پیمانہ ہےجس سے کسی مسلمان کے ایمان کوماپا جاسکتا ہے۔ دعوائے محبت ہو اوراطاعت مفقود ہو تو دعویٰ کی سچائی پر حرف آتاہے۔ حب رسولﷺ کےتقاضوں میں سے ایک تقاضا تو نبی ﷺ کا ادب و احترام کرنا، آپ سے محبت رکھنا ہے۔ ۔پیغمبر اعظم وآخر الزمان ﷺ کا یہ اعجاز بھی منفرد ہے کہ آپ کے جان نثاروں کی زندگیاں جہاں محبتِ رسول کی شاہکار ہیں وہاں ہر ایک کی زندگی سنت رسولﷺ کی آئینہ دار ہے۔ ان نفوس قدسیہ نے دونوں جہتوں میں راہنمائی کا عظیم الشان معیار قائم فرمایا ہے۔صحابہ کرام نبی کریم ﷺ سے سچی محبت کرتے تھے اوراس محبت میں مال ودولت کیا جان تک قربان کردیتے تھے تاریخ میں ایسی ایک نہیں سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ صحابہ کرام کا یہی وہ جذبہ اور ایسی ہی محبت آج بھی دلوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ محبت رسول ﷺ کے آداب ‘‘ علامہ عبدالرؤف محمد عثمان  کی عربی تصنیف ’’ محبۃ الرسول بین الاتباع والابتداع ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتاب فاضل مصنف کی نہایت اہم تحقیقی اور مدلل علمی شاہکار ہے یہ کتاب در اصل فاضل مصنف کا ڈاکٹر یٹ کا رسالہ ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر مولانا نیاز احمد مدنی طیب پوری نے عام فہم انداز سے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔یہ کتاب اسلامی اخلاقیات اور شریعت محمدیہ کے مکارم اخلاق اور اہل ایمان کی زندگی کے لیے چراغ راہ ہے ۔ یہ کتاب رسول اللہ ﷺ کی حقیقی محبت کے علاوہ اتباع اور محبت میں بدعت پر علمی بحث کرتی ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر منفرد حیثیت کی حامل ہے اور سول ﷩ کی محبت کے سلسلے میں جو غلو کیا جاتا ہے سب پر تفصیلی بحث اس کتاب میں موجود ہے اور شرعی وغیر شرعی دونوں محبتوں کو واضح کرتی ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں رسول ﷺ کی محبت کے سلسلہ میں جتنے غیرشرعی افکار پائے جاتے ہیں ان کا حکیمانہ اور عادلانہ جائزہ لیا ہے اورقرآن وحدیث سے ان کی تردیدکی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے ۔ (آمین)(م۔ا )

< 1 2 ... 76 77 78 79 80 81 82 ... 274 275 >

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 69459
  • اس ہفتے کے قارئین 329929
  • اس ماہ کے قارئین 1946656
  • کل قارئین111268094
  • کل کتب8851

موضوعاتی فہرست