اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ بچے اللہ تعالیٰ کابہترین عطیہ اور انسان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔والدین اپنے بچوں کے مستقبل کےبارے میں بہت سہانے خواب دیکھتے ہیں اور اپنا مال ودولت بھی کھلے دل سے ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں مگردین کے لحاظ سے ان کی تربیت کا پہلو بہت کمزور رہ جاتا ہے ۔نتیجتاً اولاد صدقہ جاریہ بننے کی بجائے نافرمان بن جاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ہمارے بچے اور والدین کی شرعی ذمہ داریاں‘‘ محترمہ گلریز محمود صاحبہ کی مرتب شدہ ہے ۔ مصنفہ کا اس کتاب کو لکھنے کا مقصد والدین کورسول اللہﷺ کے طریق تربیت کی جھلک دکھانا اور یہ بتانا ہے کہ بچوں کی تربیت کس انداز سےکریں کہ وہ ان کےلیے حقیقتاً صدقہ جاریہ بن جائیں۔مصنفہ نے اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ لوگوں کو نبی کریم ﷺ کےطریقہ تربیت کے چیدہ چیدہ واقعات بتائے جائیں کہ پیغمبرانہ ذمہ داریوں کےباوجود آپ ﷺ نے اپنی اولاد اور نواسوں سے کس طرح محبت کی اُن کا احتساب کس طرح کیا ۔عام بچوں سے آپ ﷺ کابرتاء کیا تھا ۔ بچے کی پیدائش پر کون سے رسم ورواج مسنون ہیں۔ ان کی اہمیت کیا ہے اور آج کل کے دور میں لوگوں نےان رسوم ورواج میں کس طرح کے اضافے کر لیے ہیں۔آپ ﷺ نے اس دور کےبچوں کوتربیت کے لیے کون سے خصوصی طریقے اختیار کیے ۔ آج والدین کو وہ طریقے اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اگر وہ اولاد کی تربیت شریعت کے مطابق نہیں کریں گے تو ان کی اہمیت اولاد کی نظر میں صرف اس وقت تک ہوگی جب تک کہ وہ اولاد کے لیے مالی طور پر فائدہ مند ہیں ۔اس کے بعد ان کی حیثیت گھر میں پڑی ہوئی ایک فاتو چیز کی ہوجائے گی۔اس کتاب میں کچھ بزرگان دین کےبچپن کےواقعات بھی بیان کئے گئے ہیں او ربتایا گیا ہےکہ ان کی ماؤں نے ان کی تربیت کس طرح کی۔نیز اس کتا میں بچوں کی تربیت کےحوالے سے مفکرین کی آراء اور ماہر نفسیات اورڈاکٹروں کےانٹرویو بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنفہ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتا ب کو عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔ (آمین)(م۔ا)
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی گئی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلقہ تمام علوم کو جانتا ہو۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں؟ تاريخ ايک بہت وسيع موضوع ہے، اس لیےاس کی کئی طرح سے قسم بندی کی گئی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ دنیا کی قدیم ترین تاریخ‘‘ بابائے تاریخ ہیرو ڈوٹس کی شہرہ آفاق اور قدیم تصنیف کی تاریخی کتاب کا اردو ترجمہ ہے یہ ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے یورپ کی اس قدیم ترین تاریخ میں مصنف نے ان متعدد برائیوں کا ذکر کیا ہے جو تین فارسی بادشاہوں کے ادوار حکومت میں یونان پر نازل ہوئی تھیں۔ ان تینوں بادشاہوں کا مجموعی عہد 424 تا 522 ق۔ م ہے۔ مصنف نے اس میں یونان پر فارسی حملوں کی تاریخ کو بیان کیا ہے ۔ دیگر یونانیوں کی طرح مصنف نے بھی ان واقعات کو فارسی غلامی کےخلاف یونانی آزادی کی فتح کی کہانی کے طور پر بیان کیا ہے۔لیکن اس کی یہ کتاب محض فارسی جنگوں کابیان نہیں کیونکہ وہ جھگڑے کی ابتدائی وجوہ بھی تلاش کرتا ہے ۔ اس نے فارسی توسیع پسندی کو مرکزی خیال بنا کر اُن لوگوں کے متعلق بھی مسحور کن تفصیلات دیں جن کا فارسیوں کےساتھ رابطہ ہوا۔مصنف نے تمام واقعات کوایک اخلاقی سطح پر دیکھا ہےمثلاً ادلے کا بدلہ ، مکافات عمل وغیرہ میں اس کی نظر بہت وسیع ہے۔ یونانیوں اور بربریوں کےجھگڑے کو مرکزی موضوع بنایا ہے ۔(م۔ا)
ستار طاہر قیامِ پاکستان سے قبل یکم مئی، 1940ء گورداسپور میں پیدا ہوئے موصوف پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور ادیب، مترجم، کالم نگار، صحافی اور محقق تھے۔انہوں نے کئی اہم جرائد کے ادارتی فرائض انجام دیئے جن میں سیارہ ڈائجسٹ، قومی ڈائجسٹ، ویمن ڈائجسٹ شامل ہیں اس کے علاوہ 250 سے زائد کتب کے مصنف ومرتب اور مترجم ہیں۔ تین روسی کتب کا ترجمہ بھی کیاان کی تحریر کردہ کتب میں سورج بکف و شب گزیدہ، حیات سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے اور تنویر نقوی: فن اور شخصیت کے نام سرفہرست ہیں اور ان کی ترجمہ شدہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں سرِ فہرست ہیں۔ستار طاہر صاحب نے 25؍مارچ 1993ء کو لاہور میں وفات پائی۔زیر نظر کتاب ’’ دنیا کی سو عظیم کتابیں‘‘ ستارطاہر صاحب کیا ہوا ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ ہے۔اس ایک کتاب میں تاریخ انسانی کی 20ویں صدی تک لکھی گئیں 100 منتخب کتابوں کا بھر پور تعارف اور تنقیدی تجزیہ موجود ہے ۔ جنہوں نے ہماری اس دنیا پر حکمرانی کی ۔یہ کتاب غالباً انگلستان کے رٹن سیمورسمتھ (1928ء-1998ء) کی انگریزی کتاب The 100 Most Influential Books Ever کا اردو ترجمہ ہے کیونکہ مصنف کتاب ہذا ستار طاہر نےاپنی اس کتاب میں اس انگریزی کتاب کاذکر نہیں کیا۔(م۔ا)
سماجی ناہمواری آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ایک بڑا اہم مسئلہ ہے ۔انسانی معاشرہ شدید انتشار اور بحران کا شاہکار ہے ۔ اخلاقی قدریں پامال ہورہی ہیں اورباہمی تعلقات خود غرضی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ۔ حتیٰ کہ خاندان کا ادارہ بھی اس لپیٹ میں آگیا ہے ۔افراد خاندان جن کے درمیان عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ قریبی تعلقات ہونے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کےہم درد وغم گسار ہوناچاہیے وہ نہ صرف یہ کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بے پروا ہیں بلکہ ان پر ظلم ڈھانے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ حیوانی سماج کا منظر پیش کررہا ہے ۔یہی صورت عالمی سطح پر بھی ہے۔اس صورت حال میں اسلام انسانیت کے حقیقی ہم درد کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔ وہ سماج کے تمام افراد کے حقوق بیان کرتا ہے اور ان کی ادائیگی پر زور دیتا ہے خاص طور سے وہ افراد خاندان کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات پر پروان چڑھاتا ہے اور اسے مستحکم رکھنے کی تدبیر بتاتا ہے ۔ اسلام کی بتائی ہوئی تدابیرپر عمل کر کے پہلے بھی ایک پاکیزہ اور مثالی معاشرہ وجود میں آچکا ہے اور موجودہ دور میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر سماجی اور خاندانی انتشار واضطراب کودور کیا جاسکتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’عصرِ حاضر کا سماجی انتشار اور اسلام کی رہنمائی‘‘ مولانا سلطان احمد اصلاحی کی تصنیف ہے انہوں نے اس کتاب میں موجود سماجی اور خاندانی انتشار واضطراب پر شرح وبسط کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ انسانی سماج کےمختلف پہلوؤں کی منظر کشی اعداد وشمار اور واقعات کی روشنی میں کی گئی ہے ۔ان میں بے اعتدالی، فساد اوراننشار کو نمایاں کیا گیا ہےاور اس کی اصلاح اوردرستگی کے لیے اسلامی تعلیمات پیش کی ہیں۔ اور عام انسانی سماج کے ساتھ خاندان کو بھی خاص طور پر موضوع ِ بحث بنایاگیا ہے او رموجودہ دور میں اس کی ابتری اور انتشار واضح کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے مطلوبہ نظامِ خاندان کے خدّول خال نمایاں کیے گئے ہیں۔(م۔ا)
ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں ۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اورانبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے حکمرانوں ،علماء وفضلاء کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے ۔قرآن وحدیث میں اس فریضہ کواس قد ر اہمیت دی گئی ہے کہ تمام مومن مردوں اورتمام مومن عورتوں پر اپنے اپنے دائرہ کار اور اپنی اپنی استطاعت کےمطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپر عمل کرنا واجب ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کی ایک ایت کریمہ میں حکمرانوں کوبھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کامکلف ٹھہرایا ہے۔ نیز ان حکمرانوں سےمدد کا وعدہ فرمایا ہے جو حکومت کی قوت اور طاقت سے نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔اسلام صرف عقائد کانام نہیں ہے۔بلکہ مکمل نظام حیات ہے جس میں اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق تبلیغ ،تذکیر اوروعظ ونصیحت کے ساتھ ہے جس پر عمل کرنا والدین ، اساتذہ کرام، علماء وفضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے جس سے افراد میں ایمان، تقویٰ ،خلوص، خشیت الٰہی جیسی صفات پیدا کر کے روح کا تزکیہ اور تطہیر مطلوب ہے ۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق حکومت کی طاقت اور قوتِ نافذہ کے ساتھ ہے ۔ مثلاً نظام ِصلاۃ ، نظام ِزکاۃ ،اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی نظامِ عفت وعصمت اور قوانین حدود وغیرہ جس سے سوسائٹی میں امن وامان ، باہمی عزت واحترام اور عدل وانصاف جیسی اقدار کو غالب کر کے پورے معاشرے کی تطہیر اور تزکیہ مطلوب ہے۔ جب تک اوامرونواہی کے ان دونوں ذرائع کو موثر طریقے سےاستعمال نہ کیا جائے معاشرے کا مکمل طور پر تزکیہ اور تطہیر ممکن نہیں ۔عہد نبویﷺ میں رسول اللہ کی ذات مبارک خود بھی شریعت کے اوامر ونواہی پر عمل کرنے میں سب سے آگے تھی ۔ فرد اور پوری سوسائٹی کے تزکیہ اورتطہیر کے اعتبار سے آپ ﷺ کا عہد مبارک تمام زمانوں سے افضل اوربہتر ہے ۔رسول اکرمﷺ کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں شدید فتنے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے بڑی فراست ،دوراندیشی اور استقامت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو کر تمام فتنوں کا استیصال فرمایا۔ اوراسی طرح سیدنا عمر فاروق نے بھی بعض دوسرے سرکاری محکموں کی طرح نظام احتساب اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کابھی باقاعدہ محکمہ قائم فرمایا۔ حضرت عثمان اور حضرت علی نےبھی اپنے عہد میں اس نظام کو مضبوط بنایا لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نےنظام احتساب کے حوالے سے ایک بار پھر حضرت عمر بن خطاب کی یاد تازہ کردی۔اموی ،عباسی اوربعد میں عثمانی خلفاء کےادوارمیں بھی امر بالمعروف عن المنکر کانظام کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا ۔دین کے مرکز حجاز یعنی سعودی عرب میں آج بھی نظام احتساب کا ادارہ الرئاسة العامة لهئية الامربالمعروف والنهى عن المنكر کے نام سے بڑا موثر کردار کررہا ہے ۔روزانہ پانچ نمازوں کے اوقات میں تمام چھوٹی بڑی مارکیٹوں کے کاروبار بند کروانا گلی گلی محلے محلے نمازوں کے اوقات میں گھوم پھر کر لوگوں کونماز کےلیے مسجد میں آنے کی دعوت دینا، بے نمازوں کوتلاش کرنا ، انہیں پکڑ کر تھانے لانا چوبیس گھنٹے تک انہیں وعظ ونصیحت کرنا اورنماز پڑھنے کا وعدہ لے کر رہا کرنا ادارہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔اور اسی طرح زکاۃ کی ادائیگی کے بغیر کوئی کمپنی سعودی عرب میں اپنا کاروبار نہیں کرسکتی، رمضان المبارک کے مہینے میں غیر مسلموں پر بھی رمضان کااحترام کرنا واجب ہے ۔ ہر سال احترام رمضان کے بارے میں رمضان سےقبل شاہی فرمان جاری ہوتا ہے اگر کوئی نام نہاد مسلمان یا غیر مسلم احترام ِرمضان کےفرمان کی پابندی نہ کرے تو اس کا ویزہ منسوخ کر کے اسی وقت اسے ملک بدر کردیا جاتا ہے ۔سعودی عرب میں رہائش پذیر ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ مملکت میں واقعی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ موجود ہے ۔ اور اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دے رہا ہے۔سعودی حکومت دیگر اداروں کی طرح امربالمعروف وعن المنکر اوردینی کی اشاعت وترویج میں مصروف عمل اداروں کو اسی طرح سالانہ بجٹ میں فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں جس طرح مملکت کے دیگراداروں کومہیا کیے جاتے۔بلاشبہ سعودی حکومت اس معاملے میں تمام اسلامی ممالک کےمقابلہ میں ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ اور قرآن وحدیث کی روسے تمام اسلامی ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے ادارے قائم کریں اوراسلامی ریاست کو غیر اسلامی ممالک کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ ایک ماڈل کی حیثیت سے پیش کریں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’دین کا ایک اہم رکن امر بالمعروف نہی عن المنکر ‘‘ مسجد نبوی کے مشہور امام وخطیب عبد المحسن القاسم کےمرتب شدہ عربی رسالہ ’’ الأمر باالمعروف والنهي عن المنكر أصل من أصول الدين‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔ یہ کتابچہ اگرچہ مختصر ہے لیکن اپنے موضوع پر بہت مفید اور جامع ہے جس میں شیخ محترم نے موضوع کے اہم نکات کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جناب محمد عمران سلفی صاحب نے عربی رسالہ کو اردو میں منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ اس رسالہ میں مذکور احادیث کی مکمل تخریج بھی کی ہے جس سے اس رسالے کی افادیت دو چند ہوگئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس رسالے کو امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے اور مصنف ،مترجم وناشرین کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین) م۔ا)
دنیا میں قوموں کا عرج و زوال قانونِ فطرت ہے۔قوموں کےعروج وزوال کا مسئلہ اتنا ہی اہم اور قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کا مسئلہ ہے۔ کسی بھی قوم کا اقتدار اور عروج وزوال دیر پا ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ، قوموں کا عروج وزوال اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتاہے تاہم ایسا نہیں ہوتاہے کہ اس میں اسباب و عوامل کو کچھ دخل نہ ہو ، کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ عروج وزوال کے بارے میں مسلم قوم کی تاریخ نہایت واضح اور مکمل نمونہ ہے۔یہ وہ قوم ہے جو اپنے عروج کے زمانے میں طوفان کی طرح اٹھی ،بجلی کی طرح چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی حکومت ومملکت کی حدیں اتنی وسیع کرلیں کہ ابھی سوسال بھی نہ گزرپائے تھے کہ مشرق ومغرب کو اپنے اقتدار میں لے لیا ۔ ، قوموں کے بارہا کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو طے کر ناکوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اہل علم نے اقوام کے ان عروج وزوال کے اسباب پر متعدد علمی تحقیقات کی ہیں،اور عروج وزوال کے اسباب کا بڑی وضاحت کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ عروج وزوال کا ا لٰہی نظام‘‘معروف عالم مولانا محمد تقی امینی کی تصنیف ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں قوموں کے عروج وزوال کے اسباب ، قائدین کے اوصاف و خصائل اور بہت سے نفسیاتی ، عمرانی اوراجتماعی مسائل پر قرآن وحدیث اورعلم تحقیق کی روشنی میں بصیرت افروز او رمحققانہ کلام سپرد قلم کی ہے ۔ (م۔ا)
شریعت کے قوانین انسان کے تمام شعبوں ؛ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے، کہ ایک قسم کو پرسنل لاءیعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے، جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے، اور اس کے متعلق یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، اسی تأثر کا یہ اثر ہے کہ آج جن لوگوں کو مسلم دانشور کہا جاتا ہے، وہ یہ کہتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے کہ مذہب میرا اپنا ذاتی معاملہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں چاہوں تواس پر عمل کروں اور چاہوں تو نہ کروں؛ حالاں کہ اُن کی یہ سمجھ غلط ہے؛ کیوں کہ مسلمان کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں شریعتِ اسلامی کا پابند ہے، مختار نہیں۔قرآن وحدیث میں عائلی مسائل کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کا کثیر حصہ انہی امور سے متعلق ہے او ر نساء کے نام سے مستقل سورۃ کا نزول اس بات کی علامت ہے کہ خانگی امور ، اسلامی معاشرہ میں بے پناہ اہمیت کے حامل ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں عائلی قوانین کی تدوین وتنقید نے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی افق پر بہت سے مدوجزر پیدا کئے ۔اسی مدوجزر نے مستقبل میں پاکستان کے معروضی حالات پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر صاحب کا مقالہ بعنوان ’’ عائلی قوانین اور پاکستانی سیاست‘‘ انہی نقوش وحالات کی قلمی تصویر ہے ۔جس میں عمل تحقیق کی مدد سے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔فاضل مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالہ میں عائلی قوانین کےارتقاء اور جس پس منظر میں ان قوانین کا نفاذ ہوا ان پر روشنی ڈالی ہے۔اس بارے میں میں موافقانہ اور مخالفانہ کوششوں کابھی سیر حاصل جائزہ پیش کیا ہے ۔ یہ تحقیقی مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول عائلی قوانین کی معاشرتی ومعاشی اہمیت پر ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت قرآنی آیات اور احادیث کوجمع کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں عائلی قوانین کی تدوین کا تذکرہ ہے ۔تیسرا باب طبقاتی ردّ عمل سے متعلق ہے جس میں ملک کے مختلف طبقوں مثلاً حکومت خواتین ، علماء اور دانشورں کے انفرادی اور اجتماعی رد عمل کا جائزہ لیا گی ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان اثرات کا کھوج لگانے کی کوشش بھی گئی ہے جو معاشرے کےمختلف اطراف وجوانب پر مرتب ہوئے اور ان فقہی مباحث کا تذکرہ بھی ہے جو ان قوانین کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔چوتھے باب میں ان علمی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے جو عائلی قوانین کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوئے مثلاً وہ کتب جو علماء اور دانشوروں نےاس سلگتے ہوئے موضوع پر لکھیں اور وہ مضامین جو اس عنوان کےحوالے سے مختلف علمی جرائد میں وقتاًفوقتا طبع ہوتے رہے۔اور پانچواں باب عائلی قوانین کے بارے میں تنقیدی جائزے اور تجزئیے پر مشتمل ہے۔(م-ا)
ہر دلعزیز سیرتِ سرورِ کائنات کا موضوع گلشنِ سدابہار کی طرح ہے ۔جسے شاعرِ اسلام سیدنا حسان بن ثابت سے لے کر آج تک پوری اسلامی تاریخ میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے جملہ گوشوں پر مسلسل کہااور لکھا گیا ہے اورمستقبل میں لکھا جاتا رہے گا۔اس کے باوجود یہ موضوع اتنا وسیع اور طویل ہے کہ اس پر مزید لکھنے کاتقاضا اور داعیہ موجود رہے گا۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔دنیا کی کئی زبانوں میں بالخصوص عربی اردو میں بے شمار سیرت نگار وں نے سیرت النبی ﷺ پر کتب تالیف کی ہیں۔ اردو زبان میں سرت النبی از شبلی نعمانی ، رحمۃللعالمین از قاضی سلیمان منصور پوری اور مقابلہ سیرت نویسی میں دنیا بھر میں اول آنے والی کتاب الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کو بہت قبول عام حاصل ہوا۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ہیں۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سیرۃ النبیﷺ ماخوذ تاریخ طبری ، تاریخ ابن کثیر‘‘یاسر جواد کی مرتب شدہ ہے انہوں نے تایخ کی مستند کتب تاریخ طبری از علامہ ابن جریر طبری ،البدایہ والنہایۃ(تاریخ ابن کثیر) از علامہ ابن کثیر،تاریخ ابن خلدون از علامہ ابن خلدون سے سرت النبی ﷺ سے متعلقہ مواد کو اخذ کر کے اس کتاب میں یکجا کردیا ہے۔مذکورہ تینوں تاریخوں کے مکمل اردو تراجم بھی الحمد للہ سا ئٹ پر پبلش کیے جاچکے ہیں۔(م۔ا)
معاشی نظام کے بقا واستحکام میں زر یعنی کرنسی کو بڑا دخل ہے ایک زمانہ میں کرنسی سونے اور چاندی کو بنایا جاتا تھا جس کی خود ایک قیمت اور اہمیت تھی اور آدمی کےبس کی بات نہیں تھی کہ جتنے سکے چاہے ڈھال لے کیونکہ ان سکوں کی ڈھلائی کےلیے قیمتی دھالت مطلوب ہوتی تھی ۔کرنسی یا سکّہ یا زر سے مراد ایسی چیز ہوتی ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ اور اگر یہ چیز کاغذ کی بنی ہو تو یہ کاغذی کرنسی، کاغذی سکّہ یا زر کاغذ کہلاتی ہے۔ ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔کہا جاتاہے کہ اہلِ چین نے 650ء سے 800ء کے درمیان کاغذ کے ڈرافٹ بنانے شروع کیے تھے ، انہی ڈرافٹ نے آگے چل کرکرنسی
محمد بن قاسم کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو کہ بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا۔ محمد بن قاسم نے 17 سال کی عمر میں سندھ فتح کرکے ہندوستان میں اسلام کو متعارف کرایا۔ ان کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک ہیرو کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لئے سندھ کو "باب الاسلام" کہا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر اسلام کا دروازہ یہیں سے کھلا۔محمد بن قاسم 694ء میں طائف میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد خاندان کے ممتاز افراد میں شمار کئے جاتے تھے۔ جب حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا گیا تو اس نے ثقفی خاندان کے ممتاز لوگوں کو مختلف عہدوں پر مقرر کیا۔ ان میں محمد کے والد قاسم بھی تھے جو بصرہ کی گورنری پر فائز تھے۔ اسطرح محمد بن قاسم کی ابتدائی تربیت بصرہ میں ہوئی۔ بچپن ہی سے محمد مستقبل کا ذہین اور قابل شخص نظر آتا تھا۔ غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کرسکے اس لئے ابتدائی تعلیم کے بعد فوج میں بھرتی ہوگئے۔ فنون سپہ گری کی تربیت انہوں نے دمشق میں حاصل کی اور انتہائی کم عمری میں اپنی قابلیت اور غیر معمولی صلاحیت کی بدولت فوج میں اعلی عہدہ حاصل کرکے امتیازی حیثیت حاصل کی۔ محمد بن قاسم کو 15 سال کی عمر میں 708ءکو ایران میں کردوں کی بغاوت کے خاتمے کے لئے سپہ سالاری کے فرائض سونپے گئے۔ اس وقت بنو امیہ کے حکمران ولید بن عبدالملک کا دور تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر تھا۔ اس مہم میں محمد بن قاسم نے کامیابی حاصل کی اور ایک معمولی چھاؤنی شیراز کو ایک خاص شہر بنادیا۔اس دوران محمد بن قاسم کو فارس کے دار الحکومت شیراز کا گورنر بنایا گیا،اس وقت اس کی عمر 17 برس تھی اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ حکومت کرکے اپنی قابلیت و ذہانت کا سکہ بٹھایااور 17 سال کی عمر میں ہی سندھ کی مہم پر سالار بنا کر بھیجا گیا۔ محمد بن قاسم کی فتوحات کا سلسلہ 711ء میں شروع ہوا اور 713ء تک جاری رہا۔ انہوں نے سندھ کے اہم علاقے فتح کئے اور ملتان کو فتح کرکے سندھ کی فتوحات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن شمالی ہند کی طرف بڑھنے کی خواہش حالات نے پوری نہ ہونے دی۔محمد بن قاسم کم سن تھے لیکن اس کم سنی میں بھی انہوں نے نہ صرف ایک عظیم فاتح کی حیثیت سے اپنا نام پیدا کیا بلکہ ایک کامیاب منتظم ہونے کا بھی ثبوت دیا۔ انہوں نے تقریباًً 4 سال سندھ میں گذارے لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے فتوحات کے ساتھ ساتھ سلطنت کا اعلی انتظام کیا اور سندھ میں ایسے نظام حکومت کی بنیاد ڈالی جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔جناب نسیم حجازی مرحوم نے اس ناول میں تاریخ اسلام کے عظیم فاتح محمد بن قاسم کی فتح سندھ کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے ۔کتاب وسنت سائٹ کےقارئین کی دلچسپی کے لیے اسے سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دباؤ اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔اور اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پرعملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔ ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگاؤ، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ معظّم علی ‘‘ وطن عزیز کے مشہور ومعروف ہر دلعزیز ناول نگار جناب نسیم حجازی کا سلطان ٹیپو شہید کے متعلق دلچسپ تاریخی ناول ہے ۔اس ناول میں ان مہیب آندھیوں اور طوفانوں کا ذکر کیا ہے جن کے درمیان سلطان ٹیپوکی شخصیت روشنی کے ایک مینار کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔اس کے بیشتر کردار میسور سے زیادہ بنگال کی تاریخ کے اس دور سے تعلّق رکھتے ہیں جب ملّت کے شہیدوں کی لاشوں پر وطن فروش اپنے اقتدار کی مسندیں آراستہ کر رہے تھے ۔معظّم علی اس داستان کا مرکزی کردار ہے ۔ ناو ل نگار نسیم حجازی نے اس ناول میں احساسات کے آئینے میں اس زوال پذیر قوم کے سیرت و کردار کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے جسے موت وحیات کی کش مکش میں کسی نجات دہندہ کی تلاش تھی۔(م۔ا)
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ، شخصیت، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرزعمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تصویری تاریخ اسلام‘‘ ڈاکٹر عبد الرؤف کی تاریخ اسلام کے متعلق منفرد کاوش ہے ۔تاریخ اسلام کے اہم موضوع پر اس دلچسپ کتاب کو دنیا بھر میں پہلی تصویری تصنیف ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب کی تدوین اور تشکیل وتزئین میں بہت محنت اور احتیاط سے کام لیا ہے ۔مصنف نے کتاب کا آغاز کائنات کے پہلے انسان اور پہلے نبی حضرت آدم سے شروع کیا ہے اور تمام اسلامی ملکوں کے علاوہ باقی تمام دنیا پر اجمالی نگاہ ڈالی ہے ۔وسطی اور جنوب مشرقی ایشیا روس، چین، افریقہ، یورپ،امریکہ، آسڑیلیا وغیرہ میں اسلام اور مسلمانوں کے ماضی اور حال کے بصیرت افروز خاکے بھی مصنف نے پیش کردئیے ہیں ۔نیز فاضل مصنف نے اس کتاب میں ماضی کے تاریخی واقعات کی تفاصیل کے ساتھ ساتھ موجودہ زمانے کی تمام مسلم اکثریتوں اور اقلیتوں کے حالات او ر مسائل کی واضح نشاندہی جابجا کردی ہے ۔(م۔ا)
عقائد وعبادت کی طرح معاملات بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے ، جس طرح عقائد اور عبادات کے بارے میں جزئیات واحکام بیان کیے گئے ہیں ،اسی طرح شریعت اسلامی نے معاملات کی تفصیلات بھی بیان کرنے کا اہتمام کیاہے ، حلال وحرام،مکروہ اور غیر مکروہ ، جائز اور طیب مال کے مکمل احکام قرآن وحدیث میں موجود ہیں اور شریعت کی دیگر جزئیات کی طرح اس میں بھی مکمل رہنمائی کی گئی ہے ، جولوگ نماز اور روزہ کا اہتمام کرتے ہیں مگر صفائی معاملات اور جائز وناجائز کی فکر نہیں کرتے ، وہ کبھی اللہ کے مقرب نہیں ہوسکتے۔تجارت کسب معاش کا بہترین طریقہ ہے ، اسے اگر جائز اور شرعی اصول کے مطابق انجام دیاجائے تو دنیوی اعتبارسے یہ تجارت نفع بخش ہوگی اور اخروی اعتبار سے بھی یہ بڑے اونچے مقام اور انتہائی اجروثواب کا موجب ہوگی ، تجارت ؍کا روبار اگر اسلامی اصول کی روشنی میں کیاجائے تو ایسی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے اور ایسے افراد کو انبیاء وصلحاء کی معیت کی خو شخبری دی گئی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تجارت کے اسلامی اصول وضوابط‘‘پروفیسر ڈاکٹر نور محمد غفاری‘‘ (سابق استاذ انٹرنیشنل یونیورسٹی ،اسلام آباد،سابق ممبر قومی اسمبلی ) کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب اٹھ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب تجارت کے مفہوم اور اس کی اہمیت پر ہے دوسرے باب میں قبل از اسلام عربوں کی تجارتی سرگرمیوں ، قریش کے تجارتی اسفار ، ان کے معاہدات او راس دور کی چند جائز تجارتی شکلوں پر رروشنی ڈالی ہے۔اور مسلمانوں کی تجارتی ترقیات ، ان کی تجارتی گذرگاہوں اور اشاعت اسلام کے لئے ان کی عظمت ِ کردار کے اثرات کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔باب سوم میں تجارت کےاسلامی اصول بیان کیے گئے ہیں اور باب چہارم بیع کے ا حکام پر مشتمل ہے۔ باب پنجم میں شرکت ومضاربت کے قواعد واصول ،باب ہفتم میں تجارتِ خارجہ ک مسائل کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور باب ہشتم میں اموال تجارت کی زکوٰۃ پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔یہ کتاب پہلی بار دیال سنگھ لائبریری،لاہور کی طرف سے 1986ء میں شائع ہوئی ۔ پھر 2009ء میں شیخ الہند اکیڈمی ،کراچی نے شائع کی۔یہ ایڈیشن مصنف کی طرف سے دوبارہ نظرثانی شدہ ایڈیشن ہے ۔ اس ایڈیشن میں بہت سے مقامات پر مصنف نے ضروری تبدیلیوں کےعلاوہ مفید اضافے بھی کیے ہیں اور حوالہ جات کو اصل مصادر سے ملاکر دیکھا اوردرست کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔(م۔ا)
تاريخ ايک ايسا مضمون ہے جس ميں ماضی ميں پيش آنے والے لوگوں اور واقعات کے بارے ميں معلومات ہوتی ہيں۔تاریخ کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے اور اپنی اساس میں اَرخ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دن (عرصہ / وقت وغیرہ) لکھنے کے ہوتے ہیں۔ تاریخ جامع انسانی کے انفرادی و اجتماعی عمال و افعال اور کردار کا آئینہ دار ہے۔ تاریخ انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں گزشتہ نسلوں کے بیش بہا تجربات آئندہ نسلوں تک پہنچاتی ہے، تاکہ تمذن انسانی کا کارواں رواں دواں رہے۔تاريخ دان مختلف جگہوں سے اپنی معلومات حاصل کرتے ہيں جن ميں پرانے نسخے، شہادتيں اور پرانی چيزوں کی تحقيق شامل ہے۔ البتہ مختلف ادوار ميں مختلف ذرائع معلومات کو اہميت دی گئی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ اس کے توسط سے افراد و قوم ماضی کے دریچے سے اپنے کردہ اور نا کردہ اعمال و افعال پر تنقیدی نظر ڈال کر اپنے حال و استقبال کو اپنے منشا و مرضی کے مطابق ڈھال سکے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ مورخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض نقال نہ ہو بلکہ تاریخ سے متعلقہ تمام علوم کو جانتا ہو۔ اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی و سیاست کے قواعد کیا ہیں؟ تاريخ ايک بہت وسيع موضوع ہے، اس لیےاس کی کئی طرح سے قسم بندی کی گئی ہے۔ زنظر کتاب ’’ تاریخ میں سفر‘‘ جناب عدنان طارق کی تاریخی معلومات کے متعلق ایک منفرد کاوش ہے ۔یہ کتاب تاریخی معلومات کاایک قابل قدر ذخیرہ ہے اور غالباً اردو زبان میں اپنی نوعیت کی اولین کوشش ہے جس میں واقعات کو سن وار بیان کرتے ہوئےتمام معلوم تاریخ کا احاطہ کیا ہے ۔ مصنف نے تاریخ کے تجزیہ سے گریز کرتے ہوئے اسے محض واقعاتی تناظر میں ترتیب دیا ہے ۔ مصنف نے انسانی تاریخ کےآغاز سے سن 2004ء کے تاریخی واقعات زمانی ترتیب سے اس کتاب میں درج کردئیے ہیں۔مصنف نے فیض احمد فیض، لیڈڈیانا ، ،نورجہاں ،ملک معراج خالد ،نوابزادہ نصر اللہ خان،ایڈورڈ سعید، ، مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات حکیم محمد سعید اور مولانا اعظم طارق کاقتل جیسے واقعات کو تو اس کتاب میں درج کیا ہے لیکن 1987ء کے عظیم سانحہ عرب وعجم کے بے باک خطیب شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کےالم ناک واقعہ کو اس تاریخی کتاب میں نہ جانے کیوں ذکر نہیں کیا...؟؟؟ اور اسی طرح اور کئی عالمی نوعیت کے واقعات ہیں جنہیں اس کتاب میں شامل نہیں گیا(م۔ا)
زندگی کل کے انتظار کیلئے بہت چھوٹی ہے۔ اکثر ہم اپنے روزمرہ کے مشکل کاموں کو کل پر ملتوی کر کے ان سے جان چھڑانے کی بیکار کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ اس طرح کام سے جان نہیں چھوٹتی بلکہ یہ محض وقت کا ضیاع ہو تا ہے ۔ اس لئے ہمیں آج کا کام کل پر چھوڑنے کی غلط عادت کی اصلاح کر لینی چاہئے کیونکہ زندگی میں وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو وقت کی قدر کرتا ہے اور مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔اداروں کے ذمہ داران ؍نگران حضرات کو اپنے ماتحت کام کرنےوالےافراد اور والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں آج کا کام آج ہی کرنے جیسی اچھی عادت اپنانے کی تلقین بھی کرنی چاہئے۔ اس سے نہ صرف انہیں وقت کی قدر کرنا آئے گی بلکہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی جرأت بھی پیدا ہو گی جو انہیں کامیابی کی راہ پر گامزن ہونے میں مدد دے گی۔ معروف سکالر جناب محمد بشیر جمعہ نے زیر نظر کتاب ’’ آج نہیں تو کبھی نہیں ‘‘ میں بڑے احسن انداز میں مذکورہ بالا مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے اور انسان کے اندر پائی جانے والی سستی ، کاہلی اور تن آسانی کی وجوہات ، اسباب اور اس کا علاج پیش کیا ہے (م۔ا)
صحافت کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنیٰ کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔اردو اخبار نویسی کی تاریح انتہائی پرانی بھی نہیں ۔ دراصل اس کی شروعات چھاپہ خانے کے رواج کے بعد سے ہوئی سب سے پہلا اردو کا اخبار ”اخبار دہلی “تھا جسے مولوی باقر نے دہلی سے جاری کیا تھا ۔ بہت سے معلومات افزا مضامین علمی ، ادبی ،تاریخی اورتعلیمی موضوعات پر اس میں شائع ہوتے تھے ۔ 1857کی جنگ آزادی میں اس اخبار کا بڑااہم کردار رہا ہے ۔چونکہ اس کی پالیسی آزاد خیالی تھی ، اس لئے اس زمانہ میں سامراجی حکومت کے خلاف خوب لکھا گیا ۔ ہندوستانی قوم پرستی یعنی حبِ وطنی کی حمایت کی ۔ یہی وجہ ہے کہ غدر فرو ہونے پر مولوی باقرکو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا اور اس طرح حب الوطنی کے محاذ کی قربان گاہ پر اردو صحافت کے پہلے قوم پرور اورمحب وطن کی قربانی ہوئی ۔اردوکے دوسرے اخبار کے طورپر ”سید الاخبار“کا نا م سامنے آتا ہے ۔ اس کی ابتدا ءدہلی میں ہی سرسید کے بھائی محمد کے ہاتھوں ہو ئی تھی ۔ یہی وہ اخبار ہے جس کے ذریعہ سرسید کے خیالات سے عوام متعارف ہوئے ۔ اس کے بعد سے اردو اخبار کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ، جوانمرد ، محب وطن ، بےباک و نڈر بہت سے قلم کے شہ سوار صحافتی افق پر نمودار ہوتے ہیں ، آسمان ِ صحافت کے اولین ستاروں میں مولانا ظفر علی خان ، مولانا ابو لکلام آزاد ، مولانا محمدعلی جوہر ، مولانا حسرت موہانی اورمولانا عبد الحمید سالک وغیرہ ہیں ۔ زير تبصره کتاب ’’ تاریخ صحافت ‘‘ جناب محمد افتخار کھوکھر کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے مولانا امداد صابری کی کتاب ’’ تاریخ صحافت اردو ‘‘ اور صحافت کے موضوع پر محمد عتیق صدیقی، ڈاکٹر عبد السلام خورشید ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل کی تحقیقی کاوشوں سے استفادہ کر کے صرف ان مطالب کا احاطہ کیا ہے جو ایم ۔ اے ابلاغیات کی نصابی ضروتوں کوپورا کرتے ہیں ۔ اس کتاب میں برصغیر کی مسلم صحافت کو جس دلچسپ اور عام فہم اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے نہ صرف متعلقہ مضمون کے اساتذہ اور طلبہ مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ صحافت اور ابلاغیات سے دلچسپی رکھنے والے عام قارئین بھی اس کتاب سے استفادہ کرسکتے ہیں۔(م۔ا)
انسا ن کو بیماری کا لاحق ہو نا من جانب اللہ ہے اوراللہ تعالی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل فرمایا ہے جیسے کہ ارشاد نبویﷺ ہے ’’ اللہ تعالی نے ہر بیماری کی دواء نازل کی ہے یہ الگ بات ہے کہ کسی نےمعلوم کر لی اور کسی نے نہ کی ‘‘بیماریوں کے علاج کے لیے معروف طریقوں(روحانی علاج،دواء اور غذا کے ساتھ علاج،حجامہ سے علاج) سے علاج کرنا سنت سے ثابت ہے ۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں سےنجات کے لیے ایمان او ر علاج کے درمیان ایک مضبوط تعلق ہے اگر ایمان کی کیفیت میں پختگی ہو گی تو بیماری سے شفاء بھی اسی قدر تیزی سے ہوگی ۔نبی کریم ﷺ جسمانی وروحانی بیماریوں کا علاج جن وظائف اور ادویات سے کیا کرتے تھے یاجن مختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے آپﷺنے جن چیزوں کی نشاندہی کی اور ان کے فوائد ونقصان کو بیان کیا ان کا ذکر بھی حدیث وسیرت کی کتب میں موجو د ہے ۔ کئی اہل علم نے ان چیزوں ک یکجا کر کے ان کو طب ِنبوی کا نام دیا ہے ۔ان میں امام ابن قیم کی کتاب طب نبوی قابل ذکر ہے او ردور جدید میں ڈاکٹر خالد غزنوی کی کتب بھی لائق مطالعہ ہیں۔طب کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کو بطور علم پڑھا جاتارہا ہے اور کئی نامور ائمہ ومحدثین ماہر طبیب بھی ہوا کرتے تھے۔ہندوستان میں بھی طب کو باقاعدہ مدارس ِ اسلامیہ میں پڑھایا جاتا رہا ہے اور الگ سے طبیہ کالج میں بھی قائم تھے ۔ اور ہندوستان کے کئی نامور علماء کرام اور شیوخ الحدیث ماہر طبیب وحکیم تھے ۔محدث العصر علامہ حافظ محمد گوندلوی نے طبیہ کالج دہلی سے علم طب پڑھا اور کالج میں اول پوزیشن حاصل کی ۔کئی علماء کرام نے علم طب حاصل کر کے اسے اپنے روزگار کا ذریعہ بنائے اور دین کی تبلیغ واشاعت کا فریضہ فی سبیل اللہ انجام دیا ۔ لیکن رفتہ رفتہ علماء میں یہ سلسلہ ختم ہوتاگیا اب خال خال ہی ایسے علماء نظر آتے ہیں کہ جوجید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر ومستند حکیم وڈاکٹر بھی ہوں۔ زير تبصره كتاب ’’تربیت معالجین قانون مفرد اعضاء ‘‘ حکیم محمد یٰسین دنیاپوری کی کا وش ہے انہوں نےاپنے بیس سالہ طبی تجربات کا ما حاصل اس کتاب میں درج کردیا ہے اس میں ا س بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ کوئی بات ایسی نہ لکھی جائے جو تجربہ ومشاہدہ اور تحقیق میں درست ثابت نہ ہوئی ہو ۔محض سنی سنائی باتوں کتابوں کی بے معنی نقل اور بغیر غور وفکر کئے مسئلہ کولکھنے سے اخترا ز کیا ہے اور مصنف نے کوشش کی ہے کہ طب کے قدیم مسائل کو بڑی وضاحت سے اور عام فہم الفاظ میں آسان اور سہل خیالات کےساتھ ذہن نشین کرایا ہے ۔(م۔ا)
مغربی مفکّرینِ تعلیم کے تعلیمی افکار تعلیمی دنیا میں ایک نمایاں اورجداگانہ مقام رکھتے ہیں ان دوامی شہرت کے مالک مفکرین نےتعلیمی فلسفہ کے میدان میں مختلف تعلیمی نظریات کے جو خوش رنگ نقوش چھوڑے ہیں وہ آج بھی فلسفۂ تعلیم اور تاریخ تعلیم کے رخ پرنمایاں ہیں ان نظریات کی قدر وقیمت اور اہمیت مسلّمہ ہے جس کے نتیجے میں دور جدید کے تعلیمی نظریات میں دور قدیم کے فلسفیوں ومفکرینِ تعلیم کے تعلیمی افکار کا عکس جابجا دکھا دتیا ہے ۔مغربی تعلیمی افکار پر انگریزی زبان میں تو بے شمار کتب موجود ہیں لیکن اردو زبان میں اس قسم کی کتب کم وبیش نایاب ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’تعلیم اور مغربی فکر ‘‘ پر وفیسر عشرت حسین بصری کی کی کاوش ہے ۔ اس کتاب میں قدیم وجدید کے ان دس مشہور مغربی مفکرینِ تعلیم کےتعلیمی افکار کو شامل کیا گیا ہےجن کے تعلیمی نظریات نے نظامِ تعلیم خصوصاً مغربی نظام تعلیم کو یکسر بدل کے رکھ دیا ہے ۔ فاضل مصنف نے ہر مفکرِ تعلیم کی مختصر سوانح حیات ، فلاسفی آف لائف، فلسفۂ تعلیم ، ضرورت واہمیت، مقاصد تعلیم، تعلیمی نصاب، تعلیم نسواں، طریقۂ تدریس ، نظام تعلیم کی خصوصیات اور ان کے تعلیمی افکار کی خوبیوں وخامیوں پر تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے مفصل بحث پیش کی ہے ۔ یہ کتاب طلباء کی ضروریات کے پیش نظر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے جدید سلیبس کے مطابق بی ایڈ کے مغربی مفکرینِ تعلیم کےپرچہ کی تیاری کے لیے خاص طور پر تیار کی گئی ہے طلباء اس کتاب سے استفادہ کر کے امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کرسکتے ہیں ۔(م۔ا)
ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ قدیم تاریخ ہند‘‘ دی ۔اے۔ سمتھ کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتا ب اکیسویں صدی میں متعدد حوالوں سے اہم ہے ۔یہ کتا ب درج ذیل خوبیوں کی حامل ہے ۔ اول: یہ بنیادی تاریخی حوالوں کو ایک عہد بہ عہد سلسلے میں پیش کرتی ہے ۔ دو م: اس میں عیسوی دور کے پہلے ایک ہزارسال کے ہندوستان کے بارے میں کافی مواد موجود ہے۔سوم: مصنف کی استعمال کردہ حوالہ جاتی کتب مزید تحقیق کی راہ کھولتی ہیں ۔ چہارم: اس کے ذریعہ سے ہمارے ذہن میں قدیم ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا ایک واضح خاکہ تشکیل پاتا ہے ۔پنجم:یہ کتاب رومانی وجذباتی خیالات کی بجائے مستند ماخذوں پر مبنی ہونے کے باعث حقیقی معنیٰ میں ایک تاریخ کی کتاب ہے۔(م۔ا)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی ۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء کو قومی اسمبلی ، پاکستان نے ایک تاریخی بحث اور ملزموں کو مکمل صفائی کا موقع فراہم کرنے اور ان کے دلائل کما حقہ سننے کےبعد یہ فیصلہ صادر کیا کہ اب سے قادیانی آئین او رملکی قانون کی رو سے بھی غیر مسلم ہیں ۔محترم جنا ب مولانا اللہ وسایا صاحب کی مرتب شدہ زیر نظر کتاب ’’ پارلیمنٹ میں قادیانی شکست ‘‘ قومی اسمبلی میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے جانے کی قومی اسمبلی کے انہی 13 دنوں کی مکمل روداد اور کاروائی پر مشتمل ہے۔عموماً قادیانیوں کو مسلمانوں کے ساتھ مناظروں اور کج بحثی کا بہت شوق ہوتا ہے ہر قادیانی اپنے مذموم عزائم کے پیش نظر مخصوص موضوعات پر اپنے تئیں بھر پور تیاری کے ساتھ ’’ مسلح‘‘ ہوتا ہے ۔اس کے برعکس عام مسلمان ان موضوعات سے تقریباً نابلد ہوتا ہے ۔ یوں بظاہر قادیانی کو ایک مسلمان پر عارضی برتری حاصل ہوجاتی ہے پھر پراپیگنڈ ےکے زور پر قادیانی فاتح اور مسلمان مفتوح کہلاتا ہے ۔اگر کوئی مسلمان زیر تبصرہ کتاب؍ روداد کا بنظر عمیق مطالعہ کرلے تو دنیا کا کو ئی قادیانی اس سے مناظرے اور مجادلے کی جرأت نہیں کرے گا ۔ ان شاء اللہ(م۔ا)
سیاسی جماعت اس تنظیم کو کہتے ہیں جو بعض اصولوں کےتحت منظّم کی جائے اور جس کا مطمح نظر آئینی اور دستوری ذریعوں سے حکومت حاصل کر کے ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کی غرض سے اس جماعت کو منظّم کیا گیا ہو۔ پاکستان کی سب سے پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔اس کے بعد بے شمار جماعتیں وجود میں آتی گئیں۔پاکستان میں اس وقت بیسیوں سیاسی جماعتیں موجود ہیں ۔ پاکستان میں سب ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار تو ہیں، تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی نہیں جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔یہاں ہر سیاسی جماعت کو ایک دوسرے سے مِل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو اکیلے ہی حکومت سازی کر سکے بلکہ صرف مخلوط حکومت ہی ممکن ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ‘‘ جناب تنویر بخاری کی مرتب کردہ ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد اہمیت وضرورت، سیاسی جماعتوں کا ارتقاء، سیاسی جماعتوں کی اقسام ،برسراقتدار سیاسی جماعتوں کاتعارف اور ان کے منشور کو پیش کرنے کے علاوہ عام سیاسی جماعتوں کا بھی تعارف پیش کیا ہے ۔یہ کتاب نصابی نوعیت کی ہے۔ پروفیسر محمد عثمان اور مسعود اشعر کی مرتب کردہ کتاب ’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں‘‘بھی سائٹ پر موجود ہے یہ دونوں کتابیں سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مفید کتابیں ہے ۔سیاست کے طالب علموں کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔(م۔ا)
اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم محض حصول معلومات کا نام نہیں ،بلکہ عملی تربیت بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔اسلام ایسا نظام تعلیم وتربیت قائم کرنا چاہتا ہے جو نہ صرف طالب علم کو دین اور دنیا دونوں کے بارے میں صحیح علم دے بلکہ اس صحیح علم کے مطابق اس کے شخصیت کی تعمیر بھی کرے۔یہ بات اس وقت بھی نمایاں ہو سامنے آتی ہے جب ہم اسلامی نظام تعلیم کے اہداف ومقاصد پر غور کرتے ہیں۔اسلامی نظام تعلیم کا بنیادی ہدف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا مسلمان تیار کرنا چاہتا ہے،جو اپنے مقصد حیات سے آگاہ ہو،زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اور آخرت میں حصول رضائے الہی اس کا پہلا اور آخری مقصد ہو۔اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں ایک فعال ،متحرک اور با عزم زندگی گزارے ۔ایسی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کے مفہوم میں حصول علم ہی نہیں ،بلکہ کردار سازی پر مبنی تربیت اور تخلیقی تحقیق بھی شامل ہو۔لیکن افسوس کہ استعمار کی سازش سے ہمارے تعلیمی اداروں میں دین ودنیا کو الگ الگ کر دیا گیا ہے۔دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی عاری ہوتے ہیں ،جبکہ دین کے طالب علم دنیوی تعلیم کے ماہر نہیں ہو پاتے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ دونوں طرح کے اداروں میں ایک مسلمان اور کارآمد بندہ تیار نہیں ہوپاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ پاکستان میں جامعات کا کردار‘‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے زیر اہتمام تعلیم کے موضوع پر منعقد کیے جانے والے سیمینار میں پیش کیے گئے مقالات کا مجموعہ ہے ۔ جناب مسلم سجاد اور سلیم منصور صاحب نے ان مقالات کو مرتب کیا ہے۔او ر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ۔اسلام آباد نے اسے مجلہ ’’ تعلیم‘‘ کا خاص نمبر کے طور پر شائع کیا ہے ۔( م۔ا)
راویانِ حدیث کے حالات ا ن کے رہن سہن ،ان کا نام نسب،اساتذہ وتلامذہ،عدالت وصداقت اوران کے درجات کا پتہ چلانے کے علم کو ’’علم جرح وتعدیل ‘‘ اور ’’علم اسماء رجال ‘‘کہتے ہیں علم اسماء رجال میں راویانِ حدیث کے عام حالات پر گفتگو کی جاتی ہے اور علم جرح وتعدیل میں رواۃ ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے یہ دونوں علم ایک دوسرے کےلیے لازم ملزوم ہیں جرح سے مراد روایانِ حدیث کے وہ عیوب بیان کرنا جن کی وجہ سے ان کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے او ر او ران کی روایت کردہ حدیث رد کر جاتی ہے اور تعدیل سےمراد روائ حدیث کے عادل ہونے کے بارے میں بتلانا اور حکم لگانا کہ وہ عادل یاضابط ہے اس موضوع پر ائمہ حدیث اوراصولِ حدیث کے ماہرین نے کئی کتب تصنیف کی ہیں لیکن یہ کتب زیادہ تر عربی زبان میں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ میزان الاعتدال فی نقد الرجال (اردو ) ‘‘ علم اسماء الرجال وتاریخ کی مشہور ومعروف شخصیت امام شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان ذہبی کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب امام ذہبی کی لاجواب تصنیف ہے جو ضعیف راویوں کے بارے میں ہے ۔ اس میں امام ذہبی نے شیخ ابو احمد عبد اللہ بن عدی کی کتاب ’’ الکامل فی ضعفاء الرجال ‘‘ کے مواد کو ااختصار اور جدید ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے ۔جرح وتعدیل کے متعلق کتب کی تاریخ میں امام ذہبی کی یہ کتاب نمایاں حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کتاب کی اہمیت ، اختصار اور جامعیت کے پیش نظر اسے تحقیق کا موضوع بنایا اور اس میں مزید مفید اضافہ جات کرنے کے بعد اسے ’’ لسان المیزان ‘‘ کے نام سے اہل علم کے سامنے پیش کیا ہے ۔ کتاب ہذا میز ان الاعتدال پر شیخ علی محمد معوض اور شیخ احمد عبد الموجود کے تحقیق وتعلیق شدہ نسخہ کا اردو ترجمہ ہے ۔ امام ذہبی نے تصنیف وتایف کے علاوہ درس وتدریس کی طرف بھی بھر پور توجہ دی اور اپنے زمانے کے معروف علمی مراکز میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ امام ذہبی نے دو سو کے قریب تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو مختصر اور طویل دونوں قسم کی ہیں ان طویل تصانیف میں کتاب ہذا میزان الاعتدال کے علاوہ ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ اور’’ تاری الاسلام ‘‘ قابل ذکر ہیں۔میزان الاعتدال کے ترجمہ کی سعادت جناب مولانا ابو سعید نے حاصل کی اور مکتبہ رحمانیہ لاہور نے اسے حسن ِطباعت سے آراستہ کیا ہے یہ ترجمہ شدہ کتاب آٹھ مجلدات پر مشتمل ہے جو طالبانِ علوم حدیث کے لیے بیش قیمت تحفہ ہے ۔(م۔ا)
نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیاگیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر فاروق ، سید عثمان غنی ،سیدنا علی المرتضیٰ کو عہد خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان نائبین رسول نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقےسے کی۔اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ مورثی نہیں تھا بلکہ وصیت اکابر صحابہ کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔خلیفہ کی صفات اور شرائط ،خلیفہ کے فرائض منصبی ،خلیفہ کے حقو ق ،خلیفہ کے اختیارات وغیرہ کا بیان کتب حدیث وسیر میں موجود ہے ۔ حتی کہ اس موضو ع پر باقاعدہ اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات خلافت‘‘ پاکستا ن میں نظام ِخلافت کے قیام کے لیے ’’ تحریک خلافت پاکستان ‘‘ کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے خلافت کے موضوع پر چار خطبات کا مجموعہ ہے ۔موصوف نے ستمبر 1999ء میں اس مذکورہ تحریک کا آغاز کیا ۔ڈاکٹر اسرار کےیہ خطبات خلافت کی اصل حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر اور عہد حاضر میں اس کے دستوری وقانونی اور معاشی ومعاشرتی ڈھانچے اور اس کے قیام کے لیے سیرت نبویﷺ سے ماخوذ طریق کار کی تشریح پر مشتمل ہیں ۔(م۔ا)
سیدابو الحسن علی حسنی ندوی 24 مشہور بہ علی میاں ؍نومبر 1914ء کو رائے بریلی،بھارت میں ایک علمی خاندان میں پیدہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی ۔ علی میاں نے عربی اور اردو میں پچاس سے زائد متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ یہ تصانیف تاریخ، الہیات، سوانح موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناوروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین مقالات اورتقاریر بھی موجود ہیں۔علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ‘‘ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں ا س کا ترجمہ’’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔آپ کی تصانیف میں ایک ضخیم تصنیف ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ ہے جو کہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ موصوف بھر پورعلمی زندگی گزار کر 31؍1999ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی وفات پر پاک وہند کے کئی رسائل وجرائد میں ان کی حیات وخدمات کےمتعلق مضامین شائع ہوئے اور متعدد مجلات نےان کی حیات وخدمات پر مشتمل ضخیم خاص نمبر بھی شائع کیے اور کئی اصحاب قلم نے ان کی سیرت وسوانح ، خدمات پر مستقل کتب بھی تصنیف کیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کاروانِ زندگی ‘‘مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی خودنوشت سرگزشت ِ حیا ت ہے۔ اس میں سیدابو الحسن ندوی کی ذاتی زندگی کےمشاہدات وتجربات، احساسات، وتاثرات اور ہندوستان اور عالم ِاسلام کے واقعات وحوادث اور تحریکات وشخصیات کے مطالعہ کا ماحصل اس طرح گھل مل گیا ہے کہ وہ ایک دلچسپ وسبق آموز آپ بیتی او رایک مؤرخانہ وحقیقت پسندانہ جگ بیتی بن گئی ہےجس میں چودھویں صدی ہجری اوربیسویں صدی عیسوی کی تاریخ وسرگزشت کا ایک اہم باب محفوظ ہوگیا ہے جس سے مؤرخین اور دینی وعلمی کام کرنے والے حضرات رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے اپنی وفات سے سولہ سال قبل 1983ء سے میں مکمل کرلی تھی۔(م۔ا)