حضرت عبداللہ بن زبیر ؓتاریخ اسلام کی نہایت اہم اور قدآور شخصیت ہیں۔اگرچہ سرور کائنات کی رحلت کےوقت ان کی عمر نودس برس سے زیادہ نہ تھی ،تاہم اپنےشرف خاندانی فضل وکمال ،زہدوتقوی ،حق گوئی ،شجاعت اور دوسری متعدد خصوصیات کی بناپران کاشمار اکابرصحابہ میں ہوتاہے۔اسلام کی تاریخ مرتب کرتےوقت کسی مؤرخ کیلےیہ ممکن نہیں کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکی شخصیت کو نظر انداز کرسکے۔تاریخ اسلام یا صحابہ میں سے عبداللہ کےنام کی چار شخصیات ملتی ہیں ،عبداللہ بن عمر ؓ،عبداللہ بن عباس ؓ،عبداللہ بن مسعود ؓاورعبداللہ بن زبیر ؓ۔ اگرچہ ان سب کے اپنے اپنے کارہائے نمایاں ہیں لیکن عبداللہ بن زبیر ؓکی اپنی شخصیت ہے۔یہ کتاب اسلام کےاسی فرزندجلیل کےحالات پر مشتمل ہے۔جناب طالب ہاشمی صاحب نےاسے مرتب کرتےوقت حتی المقدور کوشش کی ہےکہ اس رجل عظیم کی زندگی کا اہم واقعہ چھوٹنے نہ پائے۔اللہ انہیں جزائےخیر سے نوازے۔آمین۔(ع۔ح)
شمالی افریقہ میں المرابطین اور الموحدون کا دور حکومت پانچویں صدی ہجری کے وسط سے ساتویں صدی ہجری کے وسط تک تقریبا دو صدیوں پر محیط ہے۔یہ زمانہ اس خطہ ارض کی تاریخ کا ایک شاندار اور ولولہ انگیز باب ہے۔مجاہد کبیر یوسف بن تاشفین کے بعد دولت مرابطین تو جلد ہی زوال پذیر ہو گئی لیکن اس کی جانشین دولت موحدین تقریبا ڈیڈھ صدی تک طبل وعلم کی مالک بنی رہی۔اگر ایک طرف افریقہ میں اس کے اقتدار کا پھریرا مراکش،تیونس،الجزائر اور لیبیا وغیرہ پر اڑ رہا تھا تو دوسری طرف یورپ میں اس کا پرچم اقبال اسپین اور پرتگال پر لہرا رہا تھا۔تیسرے موحد فرمانروا ابو یوسف یعقوب المنصور باللہ کا عہد حکومت سلطنت موحدین کے منتہائے عروج کا زمانہ تھا۔اس کی شان وشوکت،معارف پروری اور جہادی معرکوں کی کامیابیوں نے اس کے مداحین کی آنکھوں کو خیرہ دیا تھا۔زیر تبصرہ کتاب " ابو یوسف یعقوب المنصور باللہ "اسی فرمانروا ابو یوسف یعقوب المنصور باللہ کے حالات زندگی پر مشتمل ہے ،جسے نامور مورخ جناب طالب ہاشمی نے نہایت تحقیق وتفحص کے ساتھ دلآویز پیرایہ میں قلمبند کیا ہے۔اور اس میں تاریخ اسلا...
لغت میں وقت سے آگاہ کرنے کو "تاریخ" کہتے ہیں یعنی کسی چیز کے وقوع پذیر ہونے کاوقت بتانے کولغتہً "تاریخ" کا نام دیا جاتا ہے۔ اصطلاح میں تاریخ اس وقت کےبتانے کا نام ہےجس سے راویوں کے احوال وابستہ ہیں،ان کی ولادت و وفات،صحت وفراست،حصول علم کے لیے تگ ودو،ان کاحفظ وضبط،ان کا قابل اعتبار یا قابل جرح و نقدہونا،غرض اسی قسم کی وہ ساری باتیں جن کاتعلق راویوں کے احوال کی چھان بین سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے مفہوم میں وسعت کر کے واقعات و حوادثات،مصائب وآفات کا ظہور، خلفاء و وزراء کے حالات اور امور سلطنت کا بیان وغیرہ کو تاریخ میں شامل کیا جانے لگا۔جہاں تک اسلام میں تاریخ نگاری کے سلسلہ آغاز کا تعلق ہے اسکی ابتدائی نوعیت یہ تھی کہ صحابہ کرام ؓ محمد عر بی ﷺ کے غزوات و سرایا کی تفاصیل کواپنے سینوں میں محفوظ رکھتے تھے۔ ان کےبعد تابعین اور اسی طرح یہ سلسلہ رواں دواں رہااور ہردور میں مؤرخین کی ایک جماعت نے اس فن کو اجاگر رکھا۔دوسری صدی ہجری میں محمد بن اسحاق نے "السیرۃ والمبتداوالمغازی" تالیف فرمائی۔ جس سے مؤرخین نے بھرپور فائدہ حاصل کیا۔اسی طرح علم...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحید خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل محدث دہلوی تھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک محاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے‘‘ زیر تبصرہ کتاب ’’شاہ اسماعیل شہید‘&ls...
ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور&lsqu...