مذہب و سیاست حقیقتاً ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ حلیف ہیں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن جب دونوں کے استعمال اور طریق استعمال میں توازن برقرار نہ رہے اور باہمی کشش ختم ہو جائے تو یقیناً دونوں کے کردار مختلف شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ ’لا مذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘ مولانا تقی امینی کی ایک شاندار کاوش ہے جس میں لا مذہی دور کی اجمالی تاریخ بیان کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے مذہب کی نشأۃ ثانیہ کے نوک پلک درست کرنے میں سہولت ہو۔ چونکہ نئے دور کا آغاز اور لا مذہبی نظریات کے فروغ کا زیادہ تعلق یورپ سے وابستہ ہے اس لیے وہیں کے حالات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ابتدا میں وحی الٰہی کی روشنی میں چند اثرات ذکر کیے گئے ہیں کہ خواہشات و اغراض کو غلبہ ہو کر جب مذہب کی متحرک اور مستقل حیثیت باقی نہیں رہتی ہے تو زندگی میں اس قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کے حالات سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔(ع۔م)
معاشرے کی حالت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی،بلکہ اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، یہ تبدیلی کبھی معمولی ہوتی ہے جو حالات کے اتار چڑھاو سے رونما ہوتی ہے اور کبھی ہمہ گیر ہوتی ہے جو ایک دور کے بعد دوسرے دور کے آنے سے ظہور پذیر ہو جاتی ہے۔پہلی صورت میں زیادہ کدوکاوش کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ چند احکام ومسائل کے موقع ومحل میں تبدیلی سے کام چل جاتا ہے۔لیکن دوسری صورت میں چند مسائل پر بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے قانونی نظام کو نئے انداز میں ڈھالنے اور نئے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے ،جس نے عبادت،سیاست ،عدالت اور تجارت سمیت زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق مکمل تعلیمات فراہم کی ہیں۔اور یہ ایک عالمگیر مذہب ہے جو تاقیامت پیش آنے والے مسائل کا حل اپنے پاس رکھتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" احکام شرعیہ میں حالات وزمانہ کی رعایت " مسلک دیو بند سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین مولانا محمد تقی امینی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے تاریخ اسلام کی روشنی میں اسلام کی اسی عالمگیریت کو بیان کیا ہے۔(راسخ)
دنیا میں قوموں کا عرج و زوال قانونِ فطرت ہے۔قوموں کےعروج وزوال کا مسئلہ اتنا ہی اہم اور قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کا مسئلہ ہے۔ کسی بھی قوم کا اقتدار اور عروج وزوال دیر پا ضرور ہو سکتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں ، قوموں کا عروج وزوال اگر چہ فطری قانون کے مطابق ہوتاہے تاہم ایسا نہیں ہوتاہے کہ اس میں اسباب و عوامل کو کچھ دخل نہ ہو ، کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں بہت سے اسباب و عوامل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ عروج وزوال کے بارے میں مسلم قوم کی تاریخ نہایت واضح اور مکمل نمونہ ہے۔یہ وہ قوم ہے جو اپنے عروج کے زمانے میں طوفان کی طرح اٹھی ،بجلی کی طرح چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے اپنی حکومت ومملکت کی حدیں اتنی وسیع کرلیں کہ ابھی سوسال بھی نہ گزرپائے تھے کہ مشرق ومغرب کو اپنے اقتدار میں لے لیا ۔ ، قوموں کے بارہا کے عروج وزوال کو دیکھتے ہوئے ان عوامل کو طے کر ناکوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ اہل علم نے اقوام کے ان عروج وزوال کے اسباب پر متعدد علمی تحقیقات کی ہیں،اور عروج وزوال کے اسباب کا بڑی وضاحت کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے ۔ زیر نظر...