مذہب و سیاست حقیقتاً ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ حلیف ہیں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن جب دونوں کے استعمال اور طریق استعمال میں توازن برقرار نہ رہے اور باہمی کشش ختم ہو جائے تو یقیناً دونوں کے کردار مختلف شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ ’لا مذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘ مولانا تقی امینی کی ایک شاندار کاوش ہے جس میں لا مذہی دور کی اجمالی تاریخ بیان کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے مذہب کی نشأۃ ثانیہ کے نوک پلک درست کرنے میں سہولت ہو۔ چونکہ نئے دور کا آغاز اور لا مذہبی نظریات کے فروغ کا زیادہ تعلق یورپ سے وابستہ ہے اس لیے وہیں کے حالات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ابتدا میں وحی الٰہی کی روشنی میں چند اثرات ذکر کیے گئے ہیں کہ خواہشات و اغراض کو غلبہ ہو کر جب مذہب کی متحرک اور مستقل حیثیت باقی نہیں رہتی ہے تو زندگی میں اس قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کے حالات سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔(ع۔م)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
مقدمہ |
|
11 |
قرآن حکیم کی روشنی میں پائمال شدہ مذہب کے اثرات |
|
|
نشاۃ ثانیہ سے پہلے مذہب کی حالت |
|
|
مذہب نے انسان کو فطرۃ برا قرار دیا تھا |
|
36 |
عیش پرستی کی ذہنیت عام ہوگئی تھی |
|
37 |
مذہب نے انسان کو جامد اور ناترقی پذیر قرار دے دیا تھا |
|
40 |
مذہب نے خرابیوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیاتھا |
|
41 |
تحریک نشاۃ ثانیہ |
|
42 |
تحریک نشاۃ ثانیہ اور اسلام کا احسان |
|
42 |
مذہبی اصلاح اور چند اہم شخصیتیں |
|
43 |
مصلحین اور ترقی یافتہ لوگوں کی سزا کے لیے محکمہ احتساب کا قیام |
|
44 |
مذہبی اصلاح کے مجموعی اثرات |
|
45 |
اصلاح میں بنیادی خامیاں اور کمزوریاں |
|
46 |
ان خامیوں اور کمزوریوں کے متعلق تاریخی شہادتیں |
|
47 |
اصلاح مذہب کی دوسری اہم تحریکیں |
|
49 |
نشاۃ ثانیہ کے دیگر اجزاء |
|
50 |
فہرست مکمل نہیں ہے |
|
|