ابن خلدون ایک عظیم سماجی مفکرتھے تاریخ عالم کے چندنمایاں ارباب علم وفکرمیں وہ ایک منفردمقام رکھتے ہیں علامہ نے سماجیات میں انسانی فکرکونئے زاویوں سے آشناکیاہے اورعمرانی علوم میں ایسے قابل قدرنکات اجاگرکیے ہیں جوآج بھی ماہرین عمرانیات کےلیے دلیل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔علامہ کےافکاروخیالات کےباب میں انکا مشہورزمانہ مقدمہ ایک خاص مقام کاحامل ہے جس میں انہوں نے مختلف علوم وفنون اورافکارونظریات پرجچی تلی اورمتوازن ومعتدل آراء کا اظہارکیاہے۔زیرنظرکتاب میں مولانامحمدحنیف ندوی ؒ نے علامہ کے مقدمہ کاانتہائی موثراوردلنشیں پیرایہ بیان میں خلاصہ کیاہے ۔جس میں تمام ضروری مباحث بڑی خوبصورتی سے سمیٹے ہیں ۔لاعق تحسین امریہ ہے کہ مولاناندوی نے خلاصہ کے آغاز میں ایک مقدمۃ المقدمہ بھی تحریرکیاہے ۔جس میں ابن خلدون کے افکاروآراء پرتجزیاتی تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کواجاگرکیاہے ۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی علمی وتجدیدی مساعی ہماری تاریخ کاایک روشن باب ہیں ۔علامہ نے ہرموضوع پرقلم اٹھایاہے اورکتاب وسنت کی روشنی میں امت کی راہنمائی کافریضہ سرانجام دیاہے ۔زیرنظرکتاب ’عقلیات ابن تیمیہ ‘علامہ کے فلسفہ ومنطق سے متعلق تبصرہ وتجزیہ پرمشتمل ہے۔مولانامحمدحنیف ندوی نے بڑے سلیقہ اورہنرمندی سے فلسفہ ومنطق کے حوالے سے علامہ کے مختلف اقتباسات کوجمع کیاہے اورانتہائی ادبی پیرائے میں علامہ کی نگارشات کواردوزبان میں ڈھالاہے۔ہم بصدمسرت یہ علمی سوغات قارئین کی نذرکررہے ہیں ،اس یادہانی کے ساتھ کہ اس کتاب کے بعض مندرجات محل نظرہیں۔
مولانامحمدحنیف ندوی علیہ الرحمۃ ایک عظیم مفکر،جلیل القدرعالم اورمنفردادیب اوربلندپایہ فلسفی تھے ۔انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پرتیس کے قریب کتابیں تحریرکیں ۔مولانانے قرآن شریف کی تفسیربھی لکھی جوسراج البیان کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ۔مولانامرحوم بے پناہ صلاحیتوں اورخوبیوں سے اتصاف پذیرتھے اوراسلام کے لیے ان کی خدمات انتہائی قابل قدرہیں ۔لیکن افسوس کہ عوام میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہیں ۔ارباب ذوق کوان سسے روشناس کرانے کے لیے زیرنظرکتاب ’’ارمغان حنیف ‘‘پیش کی جاری ہے جس میں ان کی خدمات وسوانح زندگی بیان کیے گئے ہیں ۔یہاں اس حقیقت کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مولاناکی فکرکے بعض پہلوارباب علم وتحقیق کی نگاہ میں محل نظرہیں ۔ ؒ تعالیٰ۔
دین دو باتوں ،فکر وکردار یا عقیدہ وعمل سے تعبیر ہے۔قرآن مجید کی اصطلاح میں ،ایسا عقیدہ جو عمل کی اساس بنے ،کردار وسیرت کی تشکیل کرے اور بجائے خود تخلیقی نوعیت کا حامل ہو ایمان کہلاتا ہے۔اور اگر اس سے زندگی ،عمل اور تخلیق وآفرینش کی نشاط کاریاں چھین لی جائیں تو پھر وہ عقیدہ ہو سکتا ہے ،یا اسلام کا ادنی درجہ بھی اسے کہہ سکتے ہیں،ایمان نہیں۔زیر تبصرہ کتاب "اساسیات اسلام" معروف عالم دین اور متعدد کتابوں کے مصنف مولانا حنیف ندوی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسلام کے بارہ میں اسی نقطہ نگاہ کو سامنے رکھا ہے کہ اسلام زندگی اور عمل کا مذہب ہے،اور اسی بناء پر تعمیر فرد اور تعمیر معاشرہ سے متعلقہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اسلام کی روشنی میں فرد ومعاشرے کے فکری اور تہذیبی مسائل کا تجزیہ اور ان کا حل پیش کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان خدمات کو قبول فرمائے،اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ کی پہلی صفت جو قرآن کریم کی پہلی آیت میں بیان کی گئی ہے، رب العالمین ہے۔ یعنی تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا، پرورش کر کے درجہ بدرجہ اعلیٰ مقام ترقی پر پہنچانے والا ہے۔ جہاں تک اس صفتِ ربوبیت کا نوعِ انسان سے تعلق ہے، اس میں انسان کی جسمانی اور روحانی دونوں ترقیاں شامل ہیں۔ انسانی جسم اور روح میں سے ایک کی صحت مندی یا علالت دوسرے پر اچھا یا برا اثر ڈالتی ہے اور اس کی ترقی میں معاون یا مزاحم ہوتی ہے۔ روحانی ترقی کے لیے قرآن کریم اور پیغمبر اسلامﷺ نے لاثانی لائحہ عمل تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی صحت و ثبات سے متعلق ایسی تعلیم دی ہے جس کی مثال کسی اور شریعت اور مذہب میں نہیں ملتی۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ مضبوط دلائل و براہین، شہادت، تجربات و مشاہدات اور حقائق و واقعات پر مبنی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’اسلامی اصول صحت‘ میں مصنف فضل کرایم فارانی نے سیکڑوں آیات قرآنی اور احادیث نبوی سے استنباط کر کے انسانی زندگی کے ہر مرحلہ اور ہر ماحول کے لیے اسلامی اصول صحت انتہائی دلچسپ انداز میں پیش کیے ہیں۔(ع۔م)
علوم کےمیدان میں تاریخ کاایک اپنامقام ہے۔بالخصوص دور جدید میں جب اجتماعی اور معاشرتی علوم نےایک خاص اہمیت اختیا ر کی ہےتو اس میں تاریخ کی اور زیادہ اہمیت بڑھ گئی ہے۔چناچہ اس سلسلے میں قدیم اور جدید تاریخ نگاروں میں جو خاص فرق آیا ہے وہ یہ ہےکہ پہلے دور میں تاریخ کو شخصیات کےحساب سےلکھاجاتاتھاجبکہ آج کے دور میں تاریخ علوم وفنون اور عام عوام کے حساب سےلکھاجانا پسند کیاجاتاہے۔زیرنظرکتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں راقم الحروف نے ہندستانی تاریخ کا خاص باب عہدمغلیہ کو لکھاہے اور علوم وفنون کےاعتبارسے لکھنےکی کوشش کی ہے۔یہ بہت زیاد ہ مشقت طلب کام ہے۔بلکہ بقول مولاناشبلی رحمۃ اللہ علیہ چیونٹیوں کےمنہ سےدانہ دانہ جمع کرکےخرمن تیارکرناپڑتاہے۔اور بقول مصنف کےقصہ نویسی اورخوش اعتقادی کی کہرتمام لٹریچر پرچھا ئی ہوئی ہے۔جس کےاندر نہ مختلف اولیا ئے کرام کےجداگانہ خدوخال نظرآتےہیں اور نہ ان کےعملی کارناموں سے صحیح واقفیت ہوتی ہے۔تاہم پھر بھی مصنف نے حتی الوسع اس پر بطریق احسن اور واضح انداز میں روشنی ڈالنےکی کو شش کی ہے۔اللہ انہیں جزائے خیر سےنوازے۔آمین۔(ع۔ح)
...
علامہ ابوالحسن اشعری (260۔330ھ)چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت ہیں ۔اور تقریبا یکصد سے زائدکتب کے مصنف ہیں۔زیر نظر کتاب ’’مسلمانوں کے عقاید وافکار‘‘ علامہ ابو الحسن اشعری کی مایہ ناز کتاب ’’مقالات الاسلا میین‘‘ کاترجمہ ہے ۔جس میں علامہ ابو الحسن اشعری نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ان تمام عقائد وافکار کو بغیر کسی تعصب کے بیان کردیا ہ جو صدیوں فکری وکلامی مناظروں کا محور بنے رہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں یہ معلوم ہوگاکہ مسلمانوں نے نفسیات،اخلاق اور مادہ وروح کے بارہ میں کن کن علمی جواہر پاروں کی تخلیق کی ہے وہاں یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آجائے گی کہ ماضی میں فکر ونظر کی کجی نے کن کن گمراہیوں کوجنم دیا ہے ۔اور ان گمراہیوں کےمقابلہ میں اسلام نے کس معجزانہ انداز سےاپنے وجود کو قائم اور برقرار رکھا ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے جس کے ترجمے کا کام مولانا محمد حنیف ندوی نے سر انجام دیا۔(م۔ا)
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہدایت ہے جس کا مطالعہ نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ بعض غیر مسلموں نے بھی کیا ہے۔اگرچہ ان کے اپنے مخصوص مقاصد تھے جس کے تحت انہوں نے یہ کام کیا۔زیر تبصرہ کتاب " دینی اخلاقیات کے قرآنی مفاہیم " پروفیسر از تسو کی کتاب "قرآن کریم کی اخلاقی اصطلاحات کا معنویاتی مطالعہ" کا اردو ترجمہ ہے۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1959ء میں کائیو یونیورسٹی جاپان سے شائع ہوئی تھی اور اس پر انہیں 1960ء میں اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری ملی تھی۔بعد میں انہوں نے اس پر نظر ثانی کی اور 1966ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن میکگل یونیورسٹی،مانٹریال کینیڈا سے شائع کیا۔قرآن مجید کا معنویاتی مطالعہ کیسے کیا جائے ،اس موضوع پر یہ ایک بے حد وقیع کتاب ہے۔1981ء میں اس کتاب کا فارسی میں بھی ترجمہ ہوا ۔کتاب کی اہمیت کے پیش نظر خیال ہوا کہ اسے اردو قارئین تک بھی پہنچنا چاہئے۔چنانچہ ڈاکٹر محمد خالد مسعود نے اس کا اردو ترجمہ کر دیا اور ادارہ ثقافت اسلامیہ نے اسے شائع کر کے قارئین کی نذر کردیا ہے۔اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے غیر مسلم مستشرقین ای...
شیخ محمد اکرام (1908۔1971ء)چک جھمرہ (ضلع لائل پور ) میں پیدا ہوئے۔ گورنمٹ کالج لاہور اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔ 1933ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے اور سوات ، شولا پور، بڑوچ اور پونا میں اعلٰی انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ آپ پونا کے پہلے ہندوستانی کلکٹر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اطلاعات اور نشریات کے ڈپٹی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ پھر وزارت اطلاعات و نشریات کے جائنٹ سیکرٹری اور بعد میں کچھ مدت کے لیے سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1955ء سے 1957ء تک مشرقی پاکستان میں متعین رہے ، پہلے کمشنر ڈھاکہ اور پھر ممبر بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے ۔1958ء تک محکمہ اوقاف کے ناظم اعلیٰ پاکستان مقرر ہوئے۔دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ہندی مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ لکھی جو تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ آب کوثر ، رود کوثر ، موج کوثر ، غالب اور شبلی کے سوانح بھی مرتب کیے۔ برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک مجموعہ ارمغان پاک مرتب کیا۔ جو1950 ء میں شائع ہوا۔ علمی خدمات کی بنا پر حکومت ایران نے آپ کو نشان سپاس اور حکومت پاک...
شیخ محمد اکرام (1908۔1971ء)چک جھمرہ (ضلع لائل پور ) میں پیدا ہوئے۔ گورنمٹ کالج لاہور اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی ۔ 1933ء میں انڈین سول سروس میں شامل ہوئے اور سوات ، شولا پور، بڑوچ اور پونا میں اعلٰی انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ آپ پونا کے پہلے ہندوستانی کلکٹر اور دسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اطلاعات اور نشریات کے ڈپٹی سیکرٹری مقرر ہوئے۔ پھر وزارت اطلاعات و نشریات کے جائنٹ سیکرٹری اور بعد میں کچھ مدت کے لیے سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1955ء سے 1957ء تک مشرقی پاکستان میں متعین رہے ، پہلے کمشنر ڈھاکہ اور پھر ممبر بورڈ آف ریونیو کی حیثیت سے ۔1958ء تک محکمہ اوقاف کے ناظم اعلیٰ پاکستان مقرر ہوئے۔دفتری کاموں کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ ہندی مسلمانوں کی ثقافتی اور مذہبی تاریخ لکھی جو تین جلدوں میں شائع ہوئی۔ آب کوثر ، رود کوثر ، موج کوثر ، غالب اور شبلی کے سوانح بھی مرتب کیے۔ برصغیر پاک و ہند کی فارسی شاعری کا ایک مجموعہ ارمغان پاک مرتب کیا۔ جو1950 ء میں شائع ہوا۔ علمی خدمات کی بنا پر حکومت ایران نے آپ کو نشان سپاس اور حکومت پاکستان ن...
نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کا اہم ترین حصہ دشمنان اسلام ،کفار،یہودونصاری اور منافقین سے معرکہ آرائی میں گزرا۔جس میں آپ ﷺ کو ابتداءً دفاعی اور مشروط قتال کی اجازت ملی اور پھر اقدامی جہاد کی بھی اجازت بلکہ حکم فرما دیا گیا۔نبی کریم ﷺکی یہ جنگی مہمات تاریخ اسلام کا ایک روشن اور زریں باب ہیں۔جس نے امت کو یہ بتلایا کہ دین کی دعوت میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب داعی دین کو اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھامنا پڑتا ہے اور دین کی دعوت میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے عناصر اور طاغوتی طاقتوں کو بزور طاقت روکنا پڑتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ستائیس غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی اور تقریبا سینتالیس مرتبہ صحابہ کرام کو فوجی مہمات پر روانہ فرمایا۔نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ غزوات اور مغازی پر مشمل ہے ،جس پر باقاعدہ مستقل کتب لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس پر اپنا قلم اٹھایا اور آپ ﷺ کی کے مغازی اور سیر...
سیرت نبوی ﷺ کامو ضوع ہر دور میں مسلم علماء ومفکرین کی فکر وتوجہ کا مرکز رہا ہے،اور ہر ایک نے اپنی اپنی وسعت وتوفیق کے مطابق اس پر خامہ فرسائی کی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرنا ہمارے ایمان کا حصہ بھی ہے اور حکم ربانی بھی ہے۔قرآن مجید نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کو ہمارے لئے ایک کامل نمونہ قرار دیتا ہے۔اخلاق وآداب کا کونسا ایسا معیار ہے ،جو آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے نہ ملتا ہو۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے ذریعہ دین اسلام کی تکمیل ہی نہیں ،بلکہ نبوت اور راہنمائی کے سلسلہ کو آپ کی ذات اقدس پر ختم کر کےنبوت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ سیرت انسانیت کی بھی تکمیل فرما دی کہ آج کے بعد اس سے بہتر ،ارفع واعلی اور اچھے وخوبصورت نمونہ وکردار کا تصور بھی ناممکن اور محال ہے۔آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر متعدد زبانوں میں بے شمار کتب لکھی جا چکی ہیں،اور لکھی جا رہی ہیں،جو ان مولفین کی طرف سے آپ کے ساتھ محبت کا ایک بہترین اظہار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " محمد پیغمبر انسانیتﷺ "محترم مولانا شاہ محمد جعفر پھلواری صاحب کی تصنیف ہے ۔جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ...
فقہائےکرامنے امت کو آسانی و سہولت پہنچانے کی خاطر قرآن و حدیث میں غور و فکر فرماکر ایسے اصول و جزئی مسائل مرتب کئےکہ جن پرہم صدیوں سےعمل کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے،اورآج بھی ہم اُنہی کی وجہ سےآسانی کے ساتھ حقیقی دینِ اسلام پر عمل کررہے ہیں، اور جدید وجزئی مسائل میں اُن کے رہنمایانہ اصول و ضوابط کی روشنی میں بآسانی مسائل کا حل تلاش کررہے ہیں۔یہ فقہاء ہمارے محسن ہیں ۔اور امت کا ہر ہر فردان کا احسان مند ہے۔امت کے ان اسلاف نے ہمیں شریعت سے راہنماءی حاصل کرنے کے اصول بتا دءیے ہیں ،جن پر عمل کر کے ہم اصولی نصوص سے فروعی مسائل اخذ کر سکتے ہیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق امت کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ان اسلاف کی سیرت اور حالات زندگی سے آگاہی حاصل کرنا ہمارے لئے بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ ہم ان کے نمونہ کو اپنا سکیں اور اپنے لئے راہنمائی کا بندوبست کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " فقہائے پاک وہند " پاکستان کے معروف عالم دین مورخ اہل حدیث محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب ﷾کی تصنیف ہے، جو متعدد جلدوں پر مشتمل ہے۔مولف موصوف نے اس کی متعدد جلدوں پر م...
فقہائےکرامنے امت کو آسانی و سہولت پہنچانے کی خاطر قرآن و حدیث میں غور و فکر فرماکر ایسے اصول و جزئی مسائل مرتب کئےکہ جن پرہم صدیوں سےعمل کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے،اورآج بھی ہم اُنہی کی وجہ سےآسانی کے ساتھ حقیقی دینِ اسلام پر عمل کررہے ہیں، اور جدید وجزئی مسائل میں اُن کے رہنمایانہ اصول و ضوابط کی روشنی میں بآسانی مسائل کا حل تلاش کررہے ہیں۔یہ فقہاء ہمارے محسن ہیں ۔اور امت کا ہر ہر فردان کا احسان مند ہے۔امت کے ان اسلاف نے ہمیں شریعت سے راہنماءی حاصل کرنے کے اصول بتا دءیے ہیں ،جن پر عمل کر کے ہم اصولی نصوص سے فروعی مسائل اخذ کر سکتے ہیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق امت کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ان اسلاف کی سیرت اور حالات زندگی سے آگاہی حاصل کرنا ہمارے لئے بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ ہم ان کے نمونہ کو اپنا سکیں اور اپنے لئے راہنمائی کا بندوبست کر سکیں۔ زیر تبصرہ کتاب " فقہائے پاک وہند " پاکستان کے معروف عالم دین مورخ اہل حدیث محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب ﷾کی تصنیف ہے، جو متعدد جلدوں پر مشتمل ہے۔مولف موصوف نے اس کی متعدد جلدوں پر م...
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مسئلہ اجتہاد "ہندوستان کے معروف عالم دین محترم مولانا محمد حنیف ندوی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قرآن ،سنت ،اجماع،تعامل اور قیاس کی فقہی قدروقیمت اور ان کی حدود پر ایک نظر ڈالی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ چند دیگر اہم فقہی مباحث مث...
جب ہم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے ۔تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ چلاتے آئے ہیں ۔ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے اس طرح مذاہب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر اس وقت دنیا میں کئی مذاہب پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم،زرتشت،بدھ ازم ،سکھ ازم شامل ہیں۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"دبستان مذاہب" محترم کیخسرو اسفند یار صاحب کی فارسی تصنیف ہے،جس کا اردو ترجمہ رشید احمد جالندھری ناظم ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے غیر جانبدارانہ طریقے سے...
دینی مدارس کے طلباء ،اساتذہ ،علمائے کرام ،مشائخ عظام اصحاب صفہ او رعلوم نبویﷺ کے وارث اور امین ہیں ۔ یہی مدارس دینِ اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے قال اللہ قال الرسول ﷺکی پاکیزہ صدائیں دن رات گونجتی ہیں ۔ روزِ اول سے دینِ اسلام کا تعلق تعلیم وتعلم اور درس وتدریس سے رہا ہے ۔نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ تعلیم سے متعلق تھی۔ اس وحی کے ساتھ ہی رسول اللہﷺ نےایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے گھر میں دار ارقم کے نام سے ایک مخفی مدرسہ قائم کیا ۔صبح وشام کے اوقات میں صحابہ کرام وہاں مخفی انداز میں آتے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے یہ اسلام کی سب سے پہلی درس گاہ تھی۔ہجرت کے بعدمدینہ منورہ میں جب اسلامی ریاست کاقیام عمل میں آیا تو وہاں سب سے پہلے آپﷺ نے مسجد تعمیر کی جو مسجد نبوی کے نام سے موسوم ہے ۔اس کے ایک جانب آپ نے ایک چبوترا(صفہ) بھی تعمیر کرایا ۔ یہاں بی...
دین اسلام مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔اسلام اللہ تعالی کی جانب سے انسانوں کے تمام مادی اورروحانی معاملات میں رہنمائی کے لئے آیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے یہی کام اپنی مبارک زندگی میں عملی طور پر کر کے دکھایا ہے۔ اسلام میں یہ عقیدہ اور تصور باہر سے آیا ہے کہ دین کی روحانی اور معنوی تعلیمات پر ایک علیحدہ طبقہ عمل کرے گا اور سیاست، نظامِ حکومت اور معاشرے کے معاملات دوسرا طبقہ سنبھالے گا۔ اسی لیے تو آپﷺاور ان کے بعد خلفائے راشدین مسلمانوں کی حکومت اور نظام کے رہنما بھی تھے اور ان کے دینی رہنماء اور امام مسجد بھی۔ تاریخِ اسلام میں جب بھی معاشرے کو سیاسی اعتبار سے مسجد اور محراب سے قیادت اور رہنمائی ملی ہے،مسلمان قوت، سر بلندی اور فتوحات حاصل کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب بھی مسلمانوں کی سیاسی قیادت قوم پرستوں نے کی تو مسلمان ذلت اور آپسی جنگوں کا شکار ہو کر حکومت اور نظام گنوا بیٹھے۔ مذہب اور سیاست کے درمیان علیحدگی کے نظریہ کومغربی اصطلاح میں سیکولرازم بھی کہا جاتا ہے، جو کلیسا کے منحرف دین کے خلاف یورپ کی الحادی بغاو...
انسانی زندگی میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ہر دور میں اہتمام کیا جاتا رہا ہے ،لیکن اسلام نے تعلیم کی اہمیت پر جو خاص زور دیا ہے اور تعلیم کو جو فضیلت دی ہے دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظام نے وہ اہمیت اور فضیلت نہیں دی ہے۔ اسلام سے قبل جہاں دنیا میں بہت سی اجارہ داریاں قائم تھیں وہاں تعلیم پر بھی بڑی افسوس ناک اجارہ داری قائم تھی۔اسلام کی آمد سے یہ اجارہ داری ختم ہوئی۔ دنیا کے تمام انسانوں کو چاہے وہ کالے ہوں یا گورے، عورت ہو یامرد،بچے ہوں یا بڑے، سب کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینے کی ہدایت دی۔اسلام نے نہ صرف یہ کہ علم حاصل کرنے کی دعوت دی،بلکہ ہر شخص کا فرض قرار دیا ہے۔آسمان وزمین، نظام فلکیات، نظام شب وروز،بادوباراں ،بحرودریا ،صحرا و کوہستان،جان دار بے جان ،پرندو چرند، غرض یہ کہ وہ کون سی چیز ہے جس کا مطالعہ کرنے اور اس کی پوشیدہ حکمتوں کا پتہ چلانے کی اسلام میں ترغیب نہیں دی گئی؟ زیر تبصرہ کتاب"تاریخ تعلیم وتربیت اسلامیہ" محترم ڈاکٹر احمد شلبی کی عربی تصنیف کا اردو ترجمہ ہے۔اردو ترجمہ محترم محمد حسین خان زبیر...
جب ہم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔ ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے اس طرح مذاہب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر اس وقت دنیا میں کئی مذاہب پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے مشہور مذاہب، اسلام، عیسائیت، یہودیت، ہندو ازم، زرتشت، بدھ ازم، سکھ ازم شامل ہیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ دنیا کے تمام مذاہب کسی نہ کسی درجے میں قتل، چوری ،زنااور لڑائی جھگڑے کو سختی سے ممنوع قرار دیتے ہیں اور تمام قسم کی اچھائیوں کو اپنانے ک...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواس کی رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے جو انسان کے لیے ضابطۂ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک مولانا محمد حنیف ندوی بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب میں مصنف نے حنیف ندوی کی علمی وفکری خدمات اور ان کے نظریات کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور ان کے عظیم کارناموں‘ تصانیف اور تالیفات کوپیش کیا ہے۔ ان کے طرز تحریر اور اسلوب کو نمایاں کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے بہت زیادہ مفید معلومات اخذ کی جا سکتی ہیں۔ یہ کتاب’’ مولانا محمد حنیف ندوی ایک ت...
سلطنت فاطمیہ یا خلافت فاطمیہ خلافت عباسیہ کے خاتمے کے بعد 297ھ میں شمالی افریقا کے شہر قیروان میں قائم ہوئی۔ اس سلطنت کا بانی عبیداللہ مہدی چونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد میں سے تھا (بعض محققین کو اس سے اختلاف ہے) اس لئے اسے سلطنت فاطمیہ کہا جاتا ہے ۔ عبید اللہ تاریخ میں مہدی کے لقب سے مشہور ہے۔ فاطمین حضرت فاطمہ کی نسل سے ہیں کہ نہیں اس بارے میں مورخین میں اختلاف ہے ۔ صرف ابن خلدون اور مقریزی اس بارے میں متفق ہیں کہ یہ فاطمی نسب ہیں۔ خود فاطمین یا ان کے داعیوں نے اثبات نسب میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔ معتدد دفعہ ظہور کے زمانے میں نسب کا سوال اٹھایا گیا ، لیکن کسی امام نے اس کا جواب نہیں دیا ۔ معز سے مصر میں کسی نہ یہ سوال کیا کہ آپ کا نسب کیا ہے ۔ اس جواب میں معز نے ایک جلسے میں تلوار اپنی میان سے نکال کر کہا کہ یہ میرا نسب ہے اور پھر سونا حاصرینپر سونا اچھالتے ہوئے کہا کہ یہ میرا حسب ۔ اس زمانے میں جو خطبہ پڑھا جاتا تھا اس میں بھی ائمہ مستورین کی جگہ ممتخنین یا مستضعفین جیسے الفاظ پڑھا کرتے تھے ۔ زمانہ ظہور کے داعیوں نے...
دین اسلام کی بنیاد وحی الٰہی پر قائم ہے اور اس کے سرمدی اصول غیر متبدل اور ناقابل تغیر ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ وحی الٰہی کی بنیاد پر ترتیب پانے والا معاشرہ نہ تو غیر مہذب ہوتا ہے اور نہ پسماندہ۔ مفکرین یورپ کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ کونسی چیز ہو جس کی بنیاد پر مسلم معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے نئی سے نئی تھیوری و فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ گذشتہ صدی ’’جدیدیت‘‘ کی صدی تھی۔ جدیدیت اصل میں ان نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی تحریکوں کا نام ہے جو گزشتہ دو صدیوں کے یورپ میں ’’روایت پسندی‘‘ Traditionalism اور کلیسائی استبداد کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اور ’’ما بعد جدیدیت‘‘ ان افکار کے مجموعے کا نام ہے جو جدیدیت کے بعد اور اکثر اس کے ردّ عمل میں ظہور پذیر ہوئے۔ ما بعد جدیدیت کے نظریہ کا گہرائی سے عام لوگوں کو اگرچہ علم نہیں ہوتا لیکن وہ محسوس و غیر محسوس طریقوں سے اپنی عملی زندگی اور روّیوں...
امام بخاری کی شخصیت اور ان کی صحیح بخاری کسی تعارف کی محتاج نہیں سولہ سال کے طویل عرصہ میں امام بخاری نے 6 لاکھ احادیث سے اس کا انتخاب کیا اور اس کتاب کے ابواب کی ترتیب روضۃ من ریاض الجنۃ میں بیٹھ کر فرمائی اور اس میں صرف صحیح احادیث کو شامل کیا ۔یہی وجہ ہےکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اصح الکتب بعد کتاب الله صحیح البخاری بے شماراہل علم اور ائمہ حدیث ننے مختلف انداز میں صحیح بخاری کی شروحات لکھی ہیں ان میں فتح الباری از ابن حافظ ابن حجر عسقلانی کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شروح صحیح بخاری‘‘ پنجاب یونورسٹی سے محترمہ غزالہ بٹ (ایم فل اسلامیات) کا مقالہ ہے۔ جس میں صحیح بخاری کی تقریبا دو سو سے زائد شروح کا سراغ لگا کر کام کیا گیا ہے۔ اس مقالے کا پہلا باب حدیث کی فضیلت واہمیت پر مبنی ہے۔دوسرےباب میں امام بخاری کی حالات زندگی کو بیان کیا ہے۔تیسرے باب میں صحیح بخاری کی افادیت کو بیان کیا ہے۔ چوتھے باب میں شروح صحیح بخاری کو بیان کیا ہے۔گویا کہ کے صاحب تالیف اور ان کے رفقاء نے نہایت دیانت اور استقامت اور باریک بین...