نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ کا ایک ایک پہلو ہمارے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔آپ ﷺ کی زندگی کا اہم ترین حصہ دشمنان اسلام ،کفار،یہودونصاری اور منافقین سے معرکہ آرائی میں گزرا۔جس میں آپ ﷺ کو ابتداءً دفاعی اور مشروط قتال کی اجازت ملی اور پھر اقدامی جہاد کی بھی اجازت بلکہ حکم فرما دیا گیا۔نبی کریم ﷺکی یہ جنگی مہمات تاریخ اسلام کا ایک روشن اور زریں باب ہیں۔جس نے امت کو یہ بتلایا کہ دین کی دعوت میں ایک مرحلہ وہ بھی آتا ہے جب داعی دین کو اپنے ہاتھوں میں اسلحہ تھامنا پڑتا ہے اور دین کی دعوت میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے عناصر اور طاغوتی طاقتوں کو بزور طاقت روکنا پڑتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں ستائیس غزوات میں بنفس نفیس شرکت فرمائی اور تقریبا سینتالیس مرتبہ صحابہ کرام کو فوجی مہمات پر روانہ فرمایا۔نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ایک بہت بڑا حصہ غزوات اور مغازی پر مشمل ہے ،جس پر باقاعدہ مستقل کتب لکھی گئی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔موضوع کی اہمیت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس پر اپنا قلم اٹھایا اور آپ ﷺ کی کے مغازی اور سیرت کو سپرد قلم وقرطاس کردیا۔ زیر تبصرہ کتاب" مغازی رسول اللہ ﷺ" مغازی پر لکھی گئی سب سے اولین کتاب ہے جو صحابی رسول سیدنا زبیربن عوام کے فرزند ارجمند معروف تابعی سیدنا عروہ بن زبیرکی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کے غزوات اور ان کی تفصیل جمع فرما دی ہے۔کتاب کا اردو ترجمہ محترم محمد سعید الرحمن علوی نے کیا ہے،جبکہ مقدمہ وتحقیق محترم ڈاکٹر محمد مصطفی الاعظمی کی ہے۔اللہ تعالی مولف،مترجم اور محقق کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائےَآمین(راسخ)
عناوین |
|
صفحہ نمبر |
مقدمہ مرتب |
|
|
عروہ بن زبیر اور ان کی کتاب مغازی رسول اللہ ﷺ |
|
17 |
قرآن کریم اور نظریہ تاریخ میں اس کے اثرات |
|
19 |
قرآن کریم کے تاریخی اسباق کا تنوع |
|
24 |
حضرت معاویہ کاتاریخ کے سلسلے میں اہتمام |
|
25 |
سیرت رسول کےسلسلے میں اہتمام |
|
27 |
دور صحابہ |
|
30 |
حضرت عبد اللہ بن عباس کا سیرت نبوی کے سلسلے میں اہتمام |
|
31 |
اور اس ضمن میں ان کی تحریری کاوشیں |
|
31 |
البراء بن عازب |
|
33 |
تابعین کا دور |
|
35 |
ابان بن عثمان |
|
35 |
عروہ بن زبیر اور سیرت مبارکہ کی تالیف میں ان کا قائدانہ کردار |
|
36 |
عروہ کا خاندان |
|
37 |
عروہ کےوالد گرامی زبیر بن العوام |
|
37 |
عروہ کی والدہ محترمہ حضرت اسما بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما |
|
41 |
خاندان ، ولادت |
|
42 |
عروہ کی بیویاں ، اولاد |
|
43 |
حضرت عروہ کاجودو کرم ، ذوق عبادت |
|
45 |
حضرت عروہ کی وفات |
|
50 |
حضرت عروہ اور ان کی حیات علمیہ |
|
50 |
حضرت عروہ کے مشائخ و اساتذہ |
|
51 |
حضرت عروہ کے تلامذہ |
|
52 |
حضرت عروہ کا ذوق کتابت |
|
53 |
حضرت عروہ کی کتابیں |
|
53 |
مختلف علوم و فنون میں عروہ کا مقام اور ان کی وسعت علمی |
|
54 |
حضرت عروہ کے اشعار اور اقوال |
|
56 |
فقہ اسلامی اور حضرت عروہ |
|
57 |
حضرت عروہ ومغازی رسول اللہ ﷺ |
|
59 |
حضرت عروہ بن زبیر اور ان کی کتاب ’’المغازی‘‘ |
|
61 |
حضرت عروہ کی کتاب المغازی اور اس کے راوی حضرات |
|
62 |
کتاب المغازی لعروہ بن زبیر بروایت ابی الاسود |
|
63 |
ابوالاسود سے روایت کرنے والے حضرات |
|
64 |
ابو الاسود |
|
64 |
ابوالاسود۔ در حدیث دیگراں |
|
65 |
عبد اللہ بن لہیعہ بن عقبہ الحضرمی ۔ ولادت 96ھ ۔ وفات 174ھ |
|
66 |
ابن لہیعہ کی سلسلے میں ائمہ کی گفتگو |
|
67 |
ابو الاسود کی روایت سے مغازی عروہ کےاستخراج کا طریق |
|
68 |
کتاب المغازی کے سلسلے میں بعض فنی مباحث |
|
69 |
ابو الاسود کی روایت سے کتاب المغازی کاعلمی مقام |
|
72 |
کتاب المغازی کے مباحث |
|
77 |
الدوری کا مغازی عروہ پر تبصرہ |
|
80 |
مغازی عروہ کا مغازی موسیٰ بن عقبہ پر اثر |
|
82 |
شعب بنو ہاشم میں بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کا دخول |
|
83 |
اس معاہدے کا سلسلہ کس طرح ختم ہوا؟ |
|
85 |
بعض متفقہ نکات ۔ مابین عروہ عن ابی الاسود وموسیٰ بن عقبہ |
|
91 |
سیرت نبوی سےمتعلق بعض مستشرقین کی اٹھائی ہوئی بحثیں |
|
92 |
مغازی رسول ﷺ |
|
|
نبی کریم ﷺ کو وحی کے لیے تیار کرنا |
|
101 |
وحی کی ابتداء |
|
102 |
بعثت کی ابتدا میں نبیﷺ اور صحابہ کی صلاۃ |
|
105 |
حضور کا اپنی قوم اوردوسرے قبائل کو اللہ کے دین میں داخل ہونے کی دعوت دینا |
|
106 |
حبشہ کی طرف پہلی ہجرت |
|
107 |
حبشہ کی طرف دوسری ہجرت |
|
112 |
بنو ہاشم اور بنو المطلب کی شعب ہاشم میں اسارت |
|
116 |
حضور کا اپنے آپ کو مختلف قبائل کے پاس پیش کرنا |
|
121 |
حضور کا سفر طائف |
|
122 |
حدیث اسراء اور معراج کا ذکر |
|
123 |
عقبہ اولیٰ و ثانیہ |
|
124 |
رسول اللہ ﷺ کی مدنیہ کو ہجرت |
|
131 |
غزوہ بدر |
|
133 |
ان حضرات کے اسمائے گرامی جو بدر میں شامل ہوئے |
|
161 |
وہ حضرات جو بدر میں شریک نہیں ہوئے لیکن آنحضرتﷺ نے ان کے لیے اجر کی خوش خبری دی اور انہیں مال غنیمت میں سے حصہ دیا |
|
169 |