تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کی اصلیت وحقیقت معلوم کرنے کے لئے چھان بین اور تفتیش کرنا۔اصطلاحا تحقیق کا مطلب ہے کہ کسی منتخب موضوع کے متعلق چھان بین کر کے کھرے کھوٹے اور اصلی ونقلی مواد میں امتیاز کرنا،پھر تحقیقی قواعد وضوابط کے مطابق اسے استعمال میں لانا اور اس سے نتائج اخذ کرنا ۔ایسا تحقیقی کام سندی تحقیق میں کیا جاتا ہے ،جو ہر مقالہ کی آخری منزل ہوتی ہے۔ترقی یافتہ علمی دنیا میں تحقیقی مقالہ لکھنے یا "رسمیات تحقیق" کو سائنٹیفک اور معیاری بنانے کا کام اور اس پر عمل کا آغاز اٹھارویں صدی ہی میں شروع ہوچکا تھا- چنانچہ حواشی و کتابیات کے معیاری اصول اور اشاریہ سازی کا اہتمام مغربی زبانوں میں لکھی جانے والی کتابوں میں اسی عرصے میں نظر آنے لگا تھا۔ معاشرتی علوم اور ادبیات میں علمی نوعیت کی جدید رسمیات پر مبنی کتابیں اور تحقیقی مجلے اس وقت عام ہونے لگے تھے جب رائل ایشیا ٹک سوسائٹی نے خصوصا تاریخ کے موضوعات پر اپنے مطالعات کو جدید اصولوں کے تحت شائع کرنے کا آغاز کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں جیسے جرمنی، اٹلی، فرانس اور ہالینڈ کے ت...
تحقیق ایک اہم علمی فریضہ ہے۔ تحقیق کے ذریعے ہم نامعلوم کا علم حاصل کرتے ہیں۔ غیر محسوس کو محسوس بناتے ہیں۔ جو باتیں پردۂ غیب میں ہوتی ہیں، انہیں منصۂ شہود پر لاتے ہیں تا کہ کسی امر میں یقینی علم ہم کو حاصل ہو، اور اس کی بنیاد پر مزید تحقیق جاری رکھی جا سکے۔تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔مزید واقعاتی حقائق کا جائزہ لینے اور ان کے اثرات معلوم کرنے کا نام بھی تحقیق ہے ۔ تحقیق کے عربی لفظ کا مفہوم حق کو ثابت کرنا یا حق کی طرف پھیرنا ہے۔تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ ’’تحقیق کے لیے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ ریسرچ ہے…اس کے ایک معنیٰ توجہ سے تلاش کرنے کے ہیں، دوسرے معنیٰ دوبارہ تلاش کرنا ہے۔دور حاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً...
اللہ رب العزت نے دنیا ومافیہا کی رہنمائی کے لیے انبیاء کا سلسلہ جاری کیا اور ہر نبی اور رسول کو اپنے اپنے دور کے مطابق تعلیمات سے نوازا لیکن سب سے آخری نبی کو جو تعلیمات دیں وہ نہایت جامع ہیں۔ دینی تعلیمات نے اپنے ماننے والوں کو ہر شعبے (وہ چاہے معاشی ہو‘ سیاسی ہو‘ معاشرتی ہو) میں جامع اور کبھی تفصیل کے ساتھ رہنمائی فرمائی ہے اور انسانیت کو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف عوارض پیش آتے رہتے ہیں اور بیماری کا لگ جانا اللہ رب العزت کی رحمت کی نشانی ہے اور اللہ رب العزت نے کوئی بھی بیماری ایسی دنیا میں نازل نہیں کی جس کا علاج یا شفاء نازل نا کی ہو‘ وہ الگ بات ہے کہ ہماری اس علاج تک دسترس نا ہو۔زیرِ تبصرہ کتاب میں مختلف بیماریوں میں استعمال ہونے والی دواؤں‘ ان کے مضر اثرات‘ استعمال اور انتخاب سے متعلق تفصیلی معلومات ہیں۔ دوا کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ مروجہ اور جدید دواؤں کے پس منظر‘ پیش منظر‘ ذیلی اثرات اور ان کے بے خطا انتخاب پر مستند‘ مربوط اور مبسوط راہنمائی کی گئی ہے۔ دوا کے ساتھ ساتھ دُعا پر...
فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے محبت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔فلسفہ علم و آگہی کا علم ہے، یہ ایک ہمہ گیر علم ہے جو وجود کے اغراض اور مقاصد دریافت کرنے کی سعی کرتا ہے۔ افلاطون کے مطابق فلسفہ اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام ہے۔ جبکہ ارسطو کے نزدیک فلسفہ کا مقصد یہ دریافت کرنا ہے کہ وجود بذات خود اپنی فطرت میں کیا ہیں۔ کانٹ اسے ادراک و تعقل کے انتقاد کا علم قرار دیتا ہے۔فلسفہ کو ان معنوں میں ’’ام العلوم‘‘ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موجودہ دور کے تقریباً تمام علوم کا منبع و ماخذ ہے۔ ریاضی، علم طبیعیات، علم کیمیا، علم منطق، علم نفسیات، معاشرتی علوم سب اسی فلسفہ کے عطایا ہیں۔پانی کے اجزائے ترکیبی عناصر (آکسیجن، ہائیڈروجن) معلوم کرنا سائنس ہے اور یہ دریافت کرنا کہ کیا اس ترکیب اور نظام کے پیچھے کوئی دماغ مصروف عمل ہے ؟ فلسفہ ہے ۔ فلسفی کائناتی مسائل کی حقیقت تلاش کرتا اور اقدار و معانی کا مطالعہ کرتا ہے ۔ افلاطون کہتا ہے کہ فلسفہ تلاش حقیقت کا نام ہے...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک ڈاکٹر جمیل جالبی بھی ہیں جو ایک اہم مفکر اور بلند پایہ مصنف ہیں اور انہوں نے اس کتاب میں مختلف اہل علم کے لکھے مواد پر اپنا ایک مضمون لکھا جس میں متعلقہ مصنف کا تعارف اور حالات بھی لکھے۔زیرِ تبصرہ کتاب میں مصنف نے ان تمام مضامین کو ارسطو سے لے کر ایلیٹ تک کے تمام نامور مصنفین پر لکھے مضامین کو جمع کیا ہے۔اس کتاب کا یہ ساتواں ایڈیشن ہے اس ایڈیشن میں اس کتاب کو خط نستعلیق میں کمپوز کروایا گیا ہے جس کی وجہ...
مسلمانوں میں جو حکماء وفلاسفہ پیدا ہوئے ان میں کچھ تو ملحد وبے دین اور اکثر ضعیف العقیدہ تھے۔ یا کم ازکم ان کی مذہبی حالت بہتر نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے میں بھی ان کے سوانح وحالات کی طرف بہت کم مؤرخین نے توجہ دی۔اس لیے عوام الناس ان کے حالات سے بالکل ناآشنا رہے ۔قدیم زمانے میں اگرچہ بعض آزاد خیال لوگوں نے ان کے حالات پر چند کتابیں لکھیں لیکن اولاً تو یہ کتابیں خاص طور ان کے زمانے کے حکماء کے حالات تک محدود ہیں ۔ثانیاً ان کتابوں میں حکمائے اسلام کے ساتھ ساتھ زیادہ تر حکمائے یونان ، عیسائی فلاسفہ او راطباء کے نام مذکور ہیں۔ خالص حکمائے اسلام کے حالات میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔لہذا اس ضرورت کے پیش نظر مولانا عبد السلام ندوی نے زیر نظر کتاب ’’ حکمائے اسلام ‘‘ تحریر کی یہ کتاب دو حصوں میں ہے ۔ مصنف نے اس کتا ب میں حکمائے اسلام کی ہر قسم کی مذہبی اخلاقی اور فلسفیانہ خدمات کو نمایاں کیا ہے حصہ اول میں پانچویں صدی تک&nbs...
ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا آغاز ، برصغیر پاک و ہند میں بتدریج مسلمان فتح کے دوران ہوا ، جس کا آغاز بنیادی طور پر فتح محمد بن قاسم کی زیرقیادت فتح سندھ اور ملتان کے بعد ہوا تھا۔ پنجاب میں غزنویوں کی حکمرانی کے بعد ، غور میں سلطان محمد کو عام طور پر ہندوستان میں مسلم حکمرانی کی بنیاد رکھنے کا سہرا دیا جاتا ہے زیرنظر کتاب’’ہندوستان کے سلاطین علماء اورمشائخ کےتعلقات پر ایک نظر‘‘ سیدصباح الدین عبد الرحمٰن ایم اے کی مرتب شدہ ہے۔فاضل مرتب نے اس کتاب میں اسلامی ہند کی مذہبی،ذہنی اور فکری تاریخ پر اجمالی تبصرہ کیا ہے۔(م۔ا)