سیاست اور عقیدہ یا سیاست اور اسلام دونوں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ سیاست بھی اسلام اور عقیدہ کا حصہ ہے عقیدہ دراصل لفظ "عقد" سے ماخوذ ہے ، جس کے معنیٰ ہیں کسی چیز کو باندھنا یعنی عقیدہ سے مراد کسی چیز کو حق اور سچ جان کر دل میں مضبوط اور راسخ کر لینا ہےعقیدہ انسان کے کردار و اعمال کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ انسان کے تمام اخلاق و اعمال کی بنیاد ارادے پر ہے، اور ارادے کا محرک دل ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ دل انہی چیزوں کا ارادہ کرتا ہے جو دل میں راسخ اور جمی ہوئی ہوں، اس لئے انسان کے اعمال و اخلاق کی درستگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے دل میں صحیح عقائد ہوں لہذا عقیدے کی اصلاح ضروری ہے۔سیاست Politics’’ساس‘‘ سے مشتق ہے جو یونانی زبان کا ہےاس کےمعانی شہر وشہر نشین کے ہیں اس میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کا انجام دینے سے لوگ اصلاح کےقریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں ۔ امور مملکت کانظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاست دان کہا جاتا ہے ۔ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو سیاست کےمفہوم کو واضح کرتی ہیں بلکہ قرآن کابیشتر حصہ سیاست پر مشتمل ہے مثلاً عدل وانصاف، امر بالمعروف ونہی عن المنکر ، مظلوموں سے اظہار ہمدردی و حمایت ،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیاء اوراولیاء کرام کا انداز ِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں سیاست کے معنیٰ عدل وانصاف اور تعلیم وتربیت کے ہیں ۔زیرنظر کتاب ’’کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟‘‘ جناب عارف میاں صاحب کی تصنیف ہے صاحب تصنیف نے کتاب میں سوال کاجواب نہیں رہ سکتے ہیں ،نہیں رہ سکتے یاہاں ناں میں دینے پر زور صرف نہیں کیا ہے بلکہ یہ قاری پرچھوڑ دیا ہے ۔یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے مگر سوچ اور مکالمہ کے آغاز کے لیے کافی ہے ۔(م۔ا)
فہرست زیر تکمیل