عروض عربی زبان کا لفظ ہے اور لغت میں اس کے دس سے زائد معنی ہیں۔ علمِ عروض ایک ایسے علم کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شعر کے وزن کی صحت دریافت کی جاتی ہے یعنی یہ جانچا جاتا ہے کہ آیا کلام موزوں ہے یا ناموزوں یعنی وزن میں ہے یا نہیں۔ یہ علم ایک طرح سے منظوم کلام کی کسوٹی ہے اور اس علم کے، دیگر تمام علوم کی طرح، کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی پاسداری کرنا کلامِ موزوں کہنے کے لیے لازم ہے۔ اس علم کے ذریعے کسی بھی کلام کی بحر بھی متعین کی جاتی ہے۔ اس علم کے بانی یا سب سے پہلے جنہوں نے اشعار پر اس علم کے قوانین کا اطلاق کیا وہ ابو عبد الرحمٰن خلیل بن احمد بصری ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ مبادیات عروض‘‘ جناب صاحب علی تصنیف ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں علم عروض کو آسان اور عام فہم طریقے سےذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے ۔اس کتاب کا پہلا حصہ علم عروض کی مبادیات پر مشتمل ہے جس میں عروض کے اصطلاحی الفاظ کی تشریح کے ساتھ ساتھ بحروں کےنام اور ان کی تعداد نیز مفرد اور مرکب زحافات، علل اور احکام کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔دوسرے حصے میں ہندی پنگل کی مبادیات ماترا، ورن، چھند، چرن ،ماترائی گن ، ورنگ گن اور ماترائیں شمار کرنے کےاصول بیان کیے گیے ہیں ۔تیسرا حصہ قواعد تقطیع پر مشتمل ہے اور چوتھے حصے میں اردو شاعری میں استعمال ہونے والی مفرد اور مرکب بحروں کے سالم ا ور مزاحف مثالوں کے ذریعے پیش کیاگیا ہے ۔ (م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
حرف آغاز |
4 |
عروض کی مبادیات |
7 |
ہندی پنگل کی مبادیات1 |
17 |
قواعد تقطیع |
59 |
اوزان بحور مستعملہ مع امثلہ |
104 |
کتابیات |
192 |