اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کےاندر بصیرت رکھنے والاشخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے اپنی زبانِ ر سالت سے سوال کرنے اور اس سوال کاجواب دینے کےادب آداب بھی سکھلائے ہیں ۔کتب فقہ وحدیث میں یہ بحثیں موجود ہیں او رباقاعدہ آداب المفتی والمستفتی کے نام سے کتب بھی لکھی گئیں ہیں اب عصر حاضر میں تو مفتی کورس بھی کروائے جاتے ہیں۔ ہر دور میں فتاویٰ کےاثرات دیر پار ہے ہیں ۔فتاوی کےاثرات کبھی کبھی تاریخ ساز ہوتے ہیں ۔ہندوستان میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتوےکاہی اثر تھا کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید کی قیادت میں مجاہدوں کی ایک تحریک اٹھی جس نےملک کو انگریزی استبداد سےنجات دلانے کےلیے کمر کس لی اور اس کی راہ کی صعوبتیں براداشت کرتے ہوئے 1831ء میں جام شہادت نوش کیا ۔ یہ اس فتویٰ کااثر تھا کہ ہندوستانیوں میں قومی شعور پیدا ہوا، ان میں آزادی کا احساس جاگا اور 1857ء میں انگریزوں کےخلاف ایک فیصلہ کن جنگ چھیڑ دی۔ہندوستان میں آزادی کےبعد افتا کافریضہ کافی اہمیت اختیار کرگیا۔لیکن ہمارا دستور آئینِ اسلام کے شرعی قوانین سے قعطا ًمیل نہیں کھاتا ۔ افتا کے نفاذ اور اس پر عمل کی آزادی بہت ہی محدود ہوچکی ہے ۔ حکومتی عدالتیں دار الافتا کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتی ۔بر صغیر پاک وہند کےعدالتی نظام نے انصاف کےحصول کوبہت پچیدہ اوردشوار بنادیا ہے ۔پاک ہند میں دار الافتاء کی تعد اد عربی مدارس سے کم نہیں مگر افسوس کہ ان میں باہمی ربط اور ہم آہنگی نہیں ہے ۔ برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل حد یث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں ۔ زیر نظر مقالہ بعنوان’’ برصغیر میں علمائے اہل حدیث کی کتبِ فتاویٰ تعارفی وتحقیقی مطالعہ ‘‘ جناب محمد افضل صاحب کا ایم فل علوم اسلامیہ کے لیے تیارکیا گیا وہ تحقیقی کامقالہ ہے جسے انہوں نے معروف اہل حدیث پروفیسر ڈاکٹر خالدظفراللہ ﷾ آف سمندری کی نگرانی میں مکمل کر کے 2007ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پیش کیا ۔مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالے میں مسلک اہل حدیث کی سترہ مستقل کتب فتاویٰ کا مفصل تعارف پیش کیا ہے ۔یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول میں برصغیر میں مسلک اہل حدیث ۔ ایک تعارف کےعنوان کے تحت برصغیر میں علم حدیث کی خدمت کرنے والے نمایاں علماء ومدثین کا تذکرہ ہے ۔باب دوم میں فتویٰ کامفہوم اور اہمیت بیان کرنے کےکے بعد برصغیر کے علمائے اہل حدیث کی کتب فتاویٰ کاتعارف وتحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے ۔باب سوم میں عصری کتبِ فتاویٰ کہ جن کہ مؤلفین حیات ہیں کا تعارفی وتحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے(اس مقالہ کو تیار کرتے وقت مولانا حافظ عبد المنان نوری اور مولانا حافظ زبیر علی زئی حیات تھے مولانا نور پوری 2012ء اور مولانا حافظ زبیر علی زئی نومبر2013ء میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون)۔باب چہارم میں علمائے اہل حدیث کی کتبِ فتاویٰ کی روشنی میں اصول دین اورمسائل کا بیان کیا گیا ہے اس ضمن میں وہ عقائد ومسائل بیان کیے گئے ہیں کہ جن پر علمائےاہل حدیث کی اکثریت کا اتفاق ہے ۔باب پنجم میں جدید عصری مسائل کےبارے میں علمائے اہلحدیث کی آراء کوبیان کیاگیا ہے ۔مقالہ نگار نے یہ مقالہ خود کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کےلیے عنایت کیا ہے ۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
دیباچہ |
|
باب اول: برصغیر میں مسلک اہل حدیث ایک تعارف |
1 |
فصل اول: برصغیر میں مسلک اہل حدیث آغاز وفکر |
2 |
مبحث اول: برصغیر میں مسلک اہل حدیث کا آغاز وارتقاء |
2 |
مبحث دوم: شاہ ولی اللہ فکر واثرات |
6 |
مبحث سوم: مسلک اہل حدیث کے بارے میں باضابطہ تعریفات |
14 |
فصل دوم: برصغیر کے اہل حدیث علماء اور ان کی مساعی |
|
مبحث اول: سید مولانا نذیر حسین محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ |
19 |
مبحث دوم: نواب صدیق حسن بھوپالوی اور ان کی خدمات |
29 |
مبحث سوم: برصغیر میں اہل حدیث کے اہم مراکز وخاندان |
36 |
باب دوم: برصغیر کی علمائے اہل حدیث کی کتب فتاویٰ کا تعارف وتحقیقی جائزہ |
51 |
فصل اول : فتوی کا مفہوم اہمیت اور آداب وشرائط |
52 |
فصل دوم: برصغیر کےعلمائے اہل حدیث مشہور کتب فتاویٰ تعارف وتحقیقی جائزہ |
57 |
مبحث اول: فتاوی نذیریہ از سیدنا نذیر حسین محدث دہلوی |
57 |
مبحث دوم: مجموعہ فتاوی از نواب سید صدیق حسن خاں |
68 |
مبحث سوم: فتاویٰ غزنویہ مولانا عبد الجبار غزنوی |
73 |
مبحث چہارم: فتاوی مولانا شمس الحق عظیم آبادی |
78 |
مبحث پنجم: فتاوی ثانیہ مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری |
84 |
مبحث ششم: فتاوی اہل حدیث از مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی |
93 |
مبحث ہفتم: فتاوی سلفیہ از مولانا اسماعیل سلفی |
102 |
مبحث ہشتم: فتاوی ستاریہ از ابو محمد عبد الستار بن محمد عبد الوہاب دہلوی |
107 |
مبحث نہم: اسلامی فتاوی از مولانا عبد السلام بستوی |
119 |
مبحث دہم: فتاوی رفیقیہ از مولانا محمد رفیق پسروری |
123 |
مبحث یاز دہم: فتاوی برکاتیہ از مولانا ابو البرکات احمد بن حمد اسماعیل |
128 |
مبحث دوازدہم: دیگر فتاوی جات |
136 |
باب سوم: علمائے اہل حدیث کی عصری کتب فتاوی |
140 |
فصل اول : فتاوی ثنائیہ مدنیہ واحکام ومسائل |
|
مبحث اول: فتاوی ثنائیہ مدنیہ از مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی |
141 |
مبحث دوم: احکام ومسائل از حافظ عبد المنان نور پوری |
151 |
فصل دوم: فتاوی اصحاب الحدیث وآپ کے مسائ اور ان کا کاحل |
|
مبحث اول: فتاوی اصحاب الحدیث از باو محمد حافظ عبد الستار حماد |
160 |
مبحث دوم: آپ کے مسائل اور ان کا حل از مولانا ابو الحسن احمد ربانی |
171 |
فصل سوم: فتاوی علمیہ وآپ کے مسائل کا حل |
|
مبحث اول: فتاوی علمیہ اور حفاظ زبیر علی زئی |
179 |
مبحث دوم: آپ کے مسائل از حافظ ابتسام الہیٰ ظہیر |
186 |
باب چہارم : علمائے اہل حدیث کی کتب فتاوی کی روشنی میں عقائد ومسائل کا بیان |
191 |
فصل اول: عقائد کا بیان |
192 |
فصل دوم: عبادات |
195 |
فصل سوم: معاملات |
198 |
باب پنجم: جدید عصری مسائل کا حل علمائے اہل حدیث کی کتب فتاوی کی روشنی میں |
200 |
فصل اول: معاشرتی وطبی مسائل |
201 |
فصل دوم: اقتصادی مسائل |
204 |
فصل سوم: سیاسی مسائل |
207 |
نتائج تحقیق وسفارشات |
209 |
فہرست آیات واحادیث |
211 |
مصادر ومراجع |
21 |