کل کتب 6741

دکھائیں
کتب
  • 1801 #5550

    مصنف : ڈاکٹر سید تنویر بخاری

    مشاہدات : 6909

    پاکستان میں سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ

    (جمعہ 03 اگست 2018ء) ناشر : ایورنیو بک پیلس لاہور
    #5550 Book صفحات: 520

    سیاسی جماعت  اس تنظیم کو کہتے ہیں جو بعض اصولوں کےتحت منظّم کی جائے اور جس کا مطمح نظر آئینی اور دستوری ذریعوں سے حکومت  حاصل  کر کے  ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کی غرض سے اس جماعت کو منظّم کیا گیا ہو۔ پاکستان کی سب سے پہلی سیاسی جماعت مسلم لیگ تھی جس کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔اس کے بعد بے شمار جماعتیں وجود میں آتی گئیں۔پاکستان میں   اس وقت بیسیوں سیاسی جماعتیں موجود ہیں ۔ پاکستان میں سب ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار تو ہیں، تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی نہیں  جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔یہاں ہر سیاسی جماعت کو ایک دوسرے سے مِل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو اکیلے ہی حکومت سازی کر سکے بلکہ صرف مخلوط حکومت ہی ممکن ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’پاکستان میں  سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ‘‘  جناب تنویر بخاری کی مرتب  کردہ ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں  سیاسی جماعتوں  کا بنیادی مقصد  اہمیت  وضرورت، سیاسی جماعتوں کا ارتقاء، سیاسی جماعتوں کی اقسام ،برسراقتدار  سیاسی جماعتوں کاتعارف اور ان کے منشور کو پیش کرنے کے علاوہ عام سیاسی جماعتوں کا بھی تعارف  پیش کیا ہے ۔یہ کتاب نصابی نوعیت کی ہے۔ پروفیسر محمد عثمان اور مسعود اشعر کی مرتب کردہ کتاب ’’پاکستان کی سیاسی جماعتیں‘‘بھی سائٹ پر  موجود ہے یہ دونوں کتابیں  سیاسی جماعتوں کے حوالے سے مفید کتابیں  ہے ۔سیاست کے طالب علموں کو ان کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔(م۔ا)

  • 1802 #5549

    مصنف : مسلم سجاد

    مشاہدات : 4939

    پاکستان میں جامعات کا کردار

    (جمعرات 02 اگست 2018ء) ناشر : انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد
    #5549 Book صفحات: 275

    اسلامی نقطہ نظر سے تعلیم محض حصول معلومات کا نام نہیں ،بلکہ عملی تربیت بھی اس کا جزو لاینفک ہے۔اسلام ایسا نظام تعلیم وتربیت قائم کرنا چاہتا ہے جو نہ صرف طالب علم کو دین اور دنیا  دونوں کے بارے میں صحیح علم دے بلکہ اس صحیح علم کے مطابق اس کے شخصیت کی تعمیر بھی کرے۔یہ بات اس وقت بھی نمایاں ہو سامنے آتی ہے جب ہم اسلامی نظام تعلیم کے  اہداف ومقاصد پر غور کرتے ہیں۔اسلامی نظام تعلیم کا بنیادی ہدف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا مسلمان تیار کرنا چاہتا ہے،جو اپنے مقصد حیات سے آگاہ ہو،زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزارے اور آخرت میں حصول رضائے الہی اس کا پہلا اور آخری مقصد ہو۔اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا میں ایک فعال ،متحرک اور با عزم زندگی گزارے ۔ایسی شخصیت کی تعمیر اسی وقت ممکن ہے جب تعلیم کے مفہوم میں حصول علم ہی نہیں ،بلکہ کردار سازی پر مبنی تربیت اور تخلیقی تحقیق بھی شامل ہو۔لیکن افسوس کہ  استعمار کی سازش سے ہمارے تعلیمی  اداروں میں دین ودنیا کو الگ الگ کر دیا گیا ہے۔دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی عاری ہوتے ہیں ،جبکہ دین کے طالب علم  دنیوی تعلیم کے ماہر نہیں ہو پاتے ہیں۔ جس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ  دونوں طرح کے اداروں میں ایک مسلمان اور کارآمد بندہ تیار نہیں ہوپاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ پاکستان میں جامعات کا کردار‘‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز کے زیر اہتمام تعلیم  کے موضوع پر  منعقد کیے جانے  والے سیمینار میں  پیش کیے گئے  مقالات کا مجموعہ   ہے  ۔ جناب مسلم سجاد  اور سلیم منصور صاحب نے ان مقالات کو مرتب کیا  ہے۔او ر انسٹی  ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ۔اسلام آباد نے اسے مجلہ ’’ تعلیم‘‘  کا خاص نمبر کے طور پر شائع کیا ہے ۔( م۔ا)

     

  • 1803 #5548

    مصنف : شمس الدین الذہبی

    مشاہدات : 26399

    میزان الاعتدال اردو جلد اول

    dsa (بدھ 01 اگست 2018ء) ناشر : مکتبہ رحمانیہ لاہور
    #5548 Book صفحات: 401

    راویانِ حدیث کے حالات ا ن کے  رہن سہن ،ان کا نام نسب،اساتذہ وتلامذہ،عدالت وصداقت اوران کے درجات کا پتہ چلانے کے علم کو  ’’علم جرح وتعدیل ‘‘ اور ’’علم  اسماء رجال ‘‘کہتے ہیں علم اسماء رجال میں راویانِ حدیث  کے عام حالات پر  گفتگو کی جاتی ہے  اور علم  جرح وتعدیل میں  رواۃ ِحدیث کی  عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی  ہے یہ دونوں علم ایک دوسرے  کےلیے لازم ملزوم ہیں   جرح  سے  مراد روایانِ حدیث کے وہ  عیوب بیان کرنا جن کی وجہ سے ان  کی عدالت ساقط ہوجاتی  ہے او ر او ران  کی روایت کردہ  حدیث  رد کر جاتی  ہے  اور تعدیل  سےمراد  روائ  حدیث  کے عادل ہونے کے بارے  میں بتلانا اور حکم  لگانا کہ  وہ  عادل  یاضابط ہے اس موضوع پر ائمہ حدیث  اوراصولِ حدیث کے ماہرین  نے  کئی کتب تصنیف کی ہیں لیکن یہ  کتب   زیادہ تر عربی زبان میں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ میزان الاعتدال فی  نقد الرجال  (اردو )  ‘‘ علم  اسماء الرجال وتاریخ   کی مشہور ومعروف  شخصیت  امام شمس الدین  محمد بن احمد  بن عثمان    ذہبی  کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب امام ذہبی کی لاجواب  تصنیف ہے  جو ضعیف راویوں کے بارے  میں ہے ۔ اس میں  امام ذہبی  نے شیخ ابو احمد عبد اللہ بن عدی کی کتاب  ’’ الکامل  فی ضعفاء الرجال ‘‘ کے مواد کو ااختصار اور جدید ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے ۔جرح وتعدیل کے  متعلق کتب کی تاریخ  میں امام  ذہبی کی یہ کتاب  نمایاں حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کی اہمیت  کا  اندازہ اس بات  سے  لگایا  جاسکتا ہے  کہ   شارح بخاری  حافظ ابن حجر  عسقلانی  نے اس  کتاب کی اہمیت  ، اختصار اور جامعیت  کے پیش نظر  اسے  تحقیق کا موضوع بنایا اور اس  میں  مزید مفید اضافہ  جات  کرنے کے بعد اسے ’’ لسان المیزان ‘‘ کے   نام  سے اہل علم کے سامنے پیش کیا ہے ۔ کتاب  ہذا  میز  ان الاعتدال  پر  شیخ علی محمد معوض اور شیخ  احمد عبد الموجود کے تحقیق وتعلیق شدہ  نسخہ کا  اردو ترجمہ ہے ۔  امام  ذہبی  نے تصنیف وتایف  کے  علاوہ درس  وتدریس  کی طرف بھی بھر پور توجہ دی  اور اپنے زمانے کے معروف علمی مراکز میں درس  و تدریس کے فرائض  سرانجام دیتے  رہے۔ امام  ذہبی  نے دو سو کے قریب  تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو مختصر اور طویل  دونوں قسم کی ہیں  ان   طویل تصانیف  میں کتاب ہذا میزان الاعتدال کے علاوہ  ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ اور’’ تاری الاسلام ‘‘  قابل ذکر ہیں۔میزان الاعتدال  کے  ترجمہ کی سعادت جناب  مولانا ابو سعید  نے حاصل کی  اور    مکتبہ رحمانیہ  لاہور   نے اسے  حسن ِطباعت سے آراستہ کیا ہے   یہ  ترجمہ شدہ کتاب  آٹھ   مجلدات پر مشتمل ہے جو طالبانِ علوم  حدیث کے لیے بیش قیمت تحفہ ہے ۔(م۔ا)

     

  • 1804 #5547

    مصنف : ڈاکٹر اسرار احمد

    مشاہدات : 5772

    خطبات خلافت

    (منگل 31 جولائی 2018ء) ناشر : تحریک خلافت پاکستان
    #5547 Book صفحات: 211

    نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اس اسلامی مرکزیت کو برقرار رکھنے کے لیے آپ کے جانشین مقرر کرنے کا جو طریقہ اختیار کیاگیا اسے خلافت کہتے ہیں۔ پہلے چار خلفاء سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر فاروق ، سید عثمان غنی ،سیدنا علی المرتضیٰ کو عہد خلافت راشدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان نائبین رسول نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی اور مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی بھی احسن طریقےسے کی۔اور ہر طرح سے یہ خلفاء اللہ تعالیٰ کے بعد اہل اسلام کے سامنے جوابدہ تھے۔ اور ان کا چناؤ مورثی نہیں تھا بلکہ وصیت اکابر صحابہ کی مشاورت سے ان کا انتخاب کیا جاتا رہا۔خلیفہ کی صفات اور شرائط ،خلیفہ کے فرائض منصبی ،خلیفہ کے حقو ق ،خلیفہ کے اختیارات وغیرہ کا بیان کتب حدیث وسیر میں موجود ہے ۔ حتی کہ اس موضو ع پر باقاعدہ اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ خطبات خلافت‘‘ پاکستا ن میں نظام ِخلافت کے قیام کے لیے ’’ تحریک خلافت پاکستان ‘‘ کے بانی ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے خلافت کے موضوع پر چار خطبات کا مجموعہ ہے ۔موصوف نے ستمبر 1999ء میں اس مذکورہ تحریک کا آغاز کیا ۔ڈاکٹر اسرار کےیہ خطبات خلافت کی اصل حقیقت اور اس کا تاریخی پس منظر اور عہد حاضر میں اس کے دستوری وقانونی اور معاشی ومعاشرتی ڈھانچے اور اس کے قیام کے لیے سیرت نبویﷺ سے ماخوذ طریق کار کی تشریح پر مشتمل ہیں ۔(م۔ا)

  • 1805 #5385

    مصنف : سید ابو الحسن علی ندوی

    مشاہدات : 6664

    کاروان زندگی

    (منگل 31 جولائی 2018ء) ناشر : مجلس نشریات اسلامی کراچی
    #5385 Book صفحات: 521

    سیدابو الحسن علی حسنی ندوی 24 مشہور بہ علی میاں ؍نومبر 1914ء کو رائے بریلی،بھارت میں ایک علمی خاندان میں پیدہوئے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن تکیہ، رائے بریلی میں حاصل کی۔ علی میاں نے مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لکھنؤ میں واقع اسلامی درسگاہ دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا۔اور وہاں سے علوم اسلامی میں سند فضیلت حاصل کی ۔ علی میاں نے عربی اور اردو میں پچاس سے زائد متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ یہ تصانیف تاریخ، الہیات، سوانح موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سمیناوروں میں پیش کردہ ہزاروں مضامین مقالات اورتقاریر بھی موجود ہیں۔علی میاں کی ایک انتہائی مشہور عربی تصنیف’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين ‘‘ہے جس کے متعدد زبانوں میں تراجم ہوئے، اردو میں ا س کا ترجمہ’’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔آپ کی تصانیف میں ایک ضخیم تصنیف ’’ تاریخ دعوت وعزیمت‘‘ ہے جو کہ آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ موصوف بھر پورعلمی زندگی گزار کر 31؍1999ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی وفات پر پاک وہند کے کئی رسائل وجرائد میں ان کی حیات وخدمات کےمتعلق مضامین شائع ہوئے اور متعدد مجلات نےان کی حیات وخدمات پر مشتمل ضخیم خاص نمبر بھی شائع کیے اور کئی اصحاب قلم نے ان کی سیرت وسوانح ، خدمات پر مستقل کتب بھی تصنیف کیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کاروانِ زندگی ‘‘مولانا سید ابو الحسن علی ندوی﷫ کی خودنوشت سرگزشت ِ حیا ت ہے۔ اس میں سیدابو الحسن ندوی کی ذاتی زندگی کےمشاہدات وتجربات، احساسات، وتاثرات اور ہندوستان اور عالم ِاسلام کے واقعات وحوادث اور تحریکات وشخصیات کے مطالعہ کا ماحصل اس طرح گھل مل گیا ہے کہ وہ ایک دلچسپ وسبق آموز آپ بیتی او رایک مؤرخانہ وحقیقت پسندانہ جگ بیتی بن گئی ہےجس میں چودھویں صدی ہجری اوربیسویں صدی عیسوی کی تاریخ وسرگزشت کا ایک اہم باب محفوظ ہوگیا ہے جس سے مؤرخین اور دینی وعلمی کام کرنے والے حضرات رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے اپنی وفات سے سولہ سال قبل 1983ء سے میں مکمل کرلی تھی۔(م۔ا)

  • 1806 #5546

    مصنف : ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

    مشاہدات : 7452

    اسلام کا انتظامی قانون

    (پیر 30 جولائی 2018ء) ناشر : مرکز تحقیق دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری، لاہور
    #5546 Book صفحات: 491

    قرآنِ حکیم میں انتظامی امور کے لیے تدبیر کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جیسے سورۃ ’’ الرعد‘‘ اور سورۃ ’’ یونس‘‘ اور ’’ السجدۃ‘‘ میں ’’ یدبر الامر‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ انتظامی اداروں کےاختیارات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے انتظامی یا قانون ادارت کی بڑی اہمیت ہے ۔کیونکہ اس طرح عوام الناس کےحقوق کی بھی بطرز احسن پاسبانی ہوجاتی ہے۔ یہ عظمت اورخصوصیت دینِ اسلام کو ہی حاصل کہ شروع اسلام سے ہی انتظامی قوانین واضح کردئیے گئے تھے۔نبی اکرم ﷺ نےولایت مظالم جیسےادارے کا سنگ بیناد رکھا۔ اس لحاظ سےحضور اکرم دنیا کےپہلے محتسب ہیں ۔لہذااہل مغرب کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ احتساب کا نظام سویڈن میں 1809ء میں پہلی دفعہ قائم کیا گیا ۔نبی کریم ﷺ نےایسے انتظامی قوانین مقرر فرمائے کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی حتی کہ ماضی قریب کے ترقی یافتہ ممالک امریکہ اور انگلینڈ میں 19ویں صدی کے اواخر تک نظام ادارت یا قانون ادارت کا تصور مکمل طورپر نہیں تھا۔ زیر نظر کتا ب’’ اسلام کا انتظامی قانون ‘‘ جناب ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی اہم تصنیف ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب بیان نہائیت سادہ اور دلنشین ہے۔ مواد کی فراہمی میں بساط بھر تحقیق وتفتیش سے کام لے کر ایک مبسوط کتاب مرتب کی ہےفاضل مصنف نے کتاب کے شروع میں اسلامی قانون کا خاکہ پیش کیا ہے ۔ اسلامی دستور کے خدوخال اور نظام شوریٰ پر بھی باب دوم میں بحث کی گئی ہے ۔اسلامی انتظامی قانون کے مطابق عورت سربراہ مملکت نہیں بن سکتی فاضل مصنف نےاس موضوع پر بھی بحث کی ہے۔ اور مختلف انتظامی اداروں مثلاً خلافت اور نظام احتساب پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔اس کتاب میں بیان کئے گئے اصول قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں۔اسلامی تاریخ کا کوئی بھی قابل ذکر پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔مصنف نے اس کتاب میں علمائے سلف ومعاصرین کےاقوال کےعلاوہ مستشرقین کی آراء بھی نقل کی ہیں۔یہ کتاب اپنی افادیت کےپیش نظر اس لائق ہے کہ اس کے کچھ ابواب تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھائے جائیں۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو شرف قبول یت سے نوازے ۔(م۔ا)

  • 1807 #5464

    مصنف : نعیم سلہری

    مشاہدات : 5955

    جدید مغربی مفکرین نوٹس بمعہ پانچ سالہ حل شدہ پرچہ جات

    (پیر 30 جولائی 2018ء) ناشر : عبد اللہ برادرز لاہور
    #5464 Book صفحات: 218

    گذشتہ دو صدیوں میں امت مسلمہ کو فکر واعتقاد، تہذیب، سیاست ومعیشت اور تمدن ومعاشرت کی سطح پر سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے، وہ مغرب کا عالم انسانیت پر ہمہ جہتی غلبہ واستیلا ہے۔ ان دو صدیوں میں مسلمانوں کی بہترین فکری اور عملی کوششیں اسی مسئلے کے گرد گھومتی ہیں اور ان تمام تر مساعی کا نکتہ ارتکاز یہی ہے کہ اس صورت حال کے حوالے سے کیا زاویہ نظر متعین اور کس قسم کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔مغرب کا یہ غلبہ محض سیاسی وعسکری نہیں، بلکہ معاشی واقتصادی بھی ہے اور اس سے بھی اہم یہ کہ وہ ایک بالکل مختلف فلسفہ حیات اور معاشرتی اقدار کے ساتھ پوری انسانی معاشرت کی تشکیل بھی نئے خطوط پر کرنا چاہتا ہے۔  زیر تبصرہ کتاب ’’جدید مغربی مفکرین مع حل شدہ پرچہ جات ‘‘ نعیم سلہری اور سیدہ کنیز نرجس زہرہ کی مشترکہ کاو ش ہے ۔یہ ایم اے لیول کی نصابی کتاب ہے ۔ جو کہ اس موضوع کے متعلق

  • 1808 #5545

    مصنف : نا معلوم

    مشاہدات : 6760

    اسلامی قانون فوجداری ترجمہ کتاب الاختیار

    (اتوار 29 جولائی 2018ء) ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
    #5545 Book صفحات: 464

    فوجداری ضابطہ یا ضابطہ تعزیرات ایک دستاویز ہے جس میں کسی مقام پر عمل در آمد ہونے والے تمام یا بیشتر جرائم کے قوانین کو یکجا کیا جاتا ہے۔ عموماً ایک ضابطہ تعزیرات جرائم کا احاطہ کرتا ہے جو عمل در آمد علاقے میں تسلیم کیے گئے ہیں، جرمانے جو ان جرائم پر عائد ہوتے ہیں اور کچھ مخصوص پہلوفوجداری ضابطے عمومًا دیوانی قوانین مشترک ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے قانونی نظاموں کی تشکیل پاتی ہے ان ضابطوں اور اصولوں پر جو نسبتاً مبہم ہیں اور انہیں معاملوں کی اساس پر رو بعمل لایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس وہ شاذ و نادر ہی عام قانون عمل درآمد کرنے والے علاقوں میں نافذ العمل ہوتے ہیں۔انگریزوں کی واپسی کے بعد، تعزیرات ہند پاکستان کو ورثے میں ملا۔ بعد ازاں ان تعزیرات میں اسلامی قوانین فوجداری کی متعدد دفعات بھی شامل کی گئیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’اسلامی قانون فوجداری ‘‘ مولانا سلامت علی خان المعروف حذاقت خان محمد پوری کی کتاب ’’ الاختیار‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ کتاب 1212ھ میں قاضیوں اور عام تعلیم یافتہ حضرات کی رہنمائی کے لیے تیار کی گئی تھی اس کتاب کو اس وقت بڑی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ۔ قانون دان حضرات اسے استفادہ کرتے ہیں حتیٰ بعض مدارس حنفیہ میں یہ داخل نصاب ہے ۔صاحب کتاب محمد آباد میں عدالت مرافعہ میں بطور فیصلہ نویس وریسرچ آفیسر کام کرتے تھے۔انہوں نے اس کتاب میں تمام تعزیرات وجرائم کے متعلق اسلامی قانونِ فوجداری کی تمام دفعات مختلف ابواب وفصول میں فقہ حنفی کی مستند کتابوں کے حوالے سے نہایت جامعیت کے ساتھ جمع کردی ہیں ۔اس کتاب کی افادیت کےپیش نظرمیر احمد شریف وکیل حیدرآباد دکن کی فرمائش 1929ء میں ’’ دار المصنفین اعظم گڑھ‘‘ نے اس کتاب کا ارد وترجمہ کرواکر شائع کیا۔اسی ترجمے کو سنگ میل پبلی کیشنز ،لاہور نے شائع کیا ہے ۔ قانون تعزیرات ، قصاص ودیت سے متعلق اب کئی جدید کتب اردو زبان میں طبع ہوچکی ہیں۔کتاب ہذا کو محض قدیم کتاب ہونے کی وجہ سے قانون دان حضرات کے استفادے کے لیے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔کتاب کے مندرجات سے ادارے کا کلی اتفاق ضروری نہیں ہے ۔(م ۔ا)

  • 1809 #5474

    مصنف : نا معلوم

    مشاہدات : 3653

    انتہا پسندی سے نجات ممکن ہے

    (اتوار 29 جولائی 2018ء) ناشر : پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق لاہور
    #5474 Book صفحات: 268

    انتہا پسندی ایک ایسا نفسیاتی رویہ ہے جس کے باعث انسان اپنے روزمرّہ کے معمولات خصوصاَ سیاسی اورعقیدتی معاملات میں برداشت، رواداری اور اعتدال کی حد پار کرجاتا ہے ۔ ایسے میں وہ نہ صرف اپنی سوچ ، نظریے یا عقیدے کو ہی برحق قرار دیتا ہے بلکہ انہیں دوسروں پر بھی مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور معاشرے کا نظم درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اس نفسیاتی کیفیت کو شدت پسندی اور جنون بھی کہتے ہیں جس میں اگر تشدد اور زور زبردستی کا عنصر بھی شامل ہو تو یہ رویہ دہشت گردی میں بدل جاتا ہے ۔اسلام ایک معتدل و متوازن دین ہے جو میانہ روی کو پسند کرتاجبکہ غلو اور انتہا پسندی کے خلاف ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال کسے کہتے ہیں ، اس کی حدود کیا ہیں اوران کا تعیّن کیسے کیا جائے جن کے اس پارانتہا پسندی کی حد شروع ہوتی ہے ؟انتہا پسندی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی عمر ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ انتہا پسندی سے نجات ممکن ہے ‘‘ عاصمہ جہانگیر کےادارے ’’پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق‘‘ کی طرف سے شائع کردہ ہے ۔ اس کتاب میں انسانی حقوق اور انتہائی پسندی کے متعلق مختلف لبرل خواتین وحضرات کے تحریر کردہ مضامین کو مرتب کر کے سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔اس کتاب کےمندرجات سے ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب عاصمہ جہانگیر اورحنا جیلانی جیسی لبر ل مغرب زدہ خواتین وحضرات کے مضامین پر مشتمل ہے ۔ محض معلومات اور اس پرنقد،تجزیہ وتبصرہ کی غرض سے قارئین کتاب وسنت کے لیے پبل کیا گیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1810 #5543

    مصنف : نا معلوم

    مشاہدات : 5249

    ہندوستانی مسلمان

    (ہفتہ 28 جولائی 2018ء) ناشر : اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ انڈیا
    #5543 Book صفحات: 441

    یہ حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ابھر نہیں سکے۔ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد سے آج تک جس قدر مسائل سے ہندوستانی مسلمان دوچار رہے ہیں، کوئی اور قوم ان حالات سے گزرتی تو ممکن تھا کہ وہ اپنا وجود ہی خطرہ میں ڈال چکی ہوتی۔ اُس کی شناخت ختم ہو جاتی اور اس کے عقائد بگڑ جاتے۔ لیکن غالباً یہ مسلمانوں کی خود کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خدا برحق کی مصلحت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں نہ صرف باقی رہیں بلکہ اپنی مکمل شناخت اور عقائد و افکار میں بھی وہ نمایاں حیثیت برقرار رکھیں۔۱۸۵۷ء کے بعد کے ہندوستانی مسلمانوں کی، اس وقت کی کسی حد تک تصویر کشی ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی کتاب’ ’ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ ہمارے ہندوستانی مسلمان‘‘ڈاکٹر سرولیم ہنٹر کی انگریزی کتاب OUR INDIAN MUSLMANS کا اردو ترجمہ ہے۔ 1944ء میں جب مترجم کتاب جناب صادق حسین نے اس کتاب کاترجمہ کیا تو اس وقت ہندوستان میں تحریک آزادی پورے شباب پر تھی۔ڈاکٹر سرولیم ہنٹر نےکتاب کے چوتھے باب میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت اور ان کی مشکلات پر بحث کی ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ: مسلمانوں کوحکومت سے بہت سی شکایات ہیں۔ ایک شکایت یہ ہے کہ حکومت نے ان کے لیے تمام اہم عہدوں کا دروازہ بند کردیا ہے۔ دوسرے ایک ایسا طریقۂ تعلیم جاری کیا ہے، جس میں ان کی قوم کے لیے کوئی انتظام نہیں۔ تیسرے قاضیوں کی موقوفی نے ہزاروں خاندانوں کو جو فقہ اور اسلامی علوم کے پاسبان تھے، بیکار اور محتاج کردیا ہے۔ چوتھے یہ کہ ان کے اوقاف کی آمدنی جو ان کی تعلیم پر خرچ ہونی چاہیے تھی، غلط مصرفوں پر خرچ ہورہی ہے۔ڈاکٹرہنٹر یہ بھی لکھتے ہیں: جب ملک ہمارے قبضے میں آیا تو مسلمان سب قوموں سے بہتر تھے۔ نہ صرف وہ دوسروں سے زیادہ بہادر اور جسمانی حیثیت سے زیادہ توانا اور مضبوط تھے بلکہ سیاسی اور انتظامی قابلیت کا ملکہ بھی ان میں زیادہ تھا، لیکن یہی مسلمان آج سرکاری ملازمتوں اور غیر سرکاری اسامیوں سے یکسر محروم ہیں۔(م۔ا)

  • 1811 #5544

    مصنف : نسیم حجازی

    مشاہدات : 7945

    انسان اور دیوتا ( نسیم حجازی )

    (ہفتہ 28 جولائی 2018ء) ناشر : جہانگیر بک ڈپو پاکستان
    #5544 Book صفحات: 410

    نسیم حجاز ی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام ’’نسیم حجازی‘‘سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔نسیم حجازی  نے تقریبا 20 کے قریب ایمان افروز  تاریخی  ناول تحریر کیے ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ انسان اور دیوتا ‘‘ بھی انہی کاتحریر کردہ ناول ہے ۔ان کایہ ناول قدیم ہندوستان(قدیم ہندوستان ایک بہت قدیم تہذیب اور ثقافت رہی ہے۔ قدیم ہندوستان میں موجودہ دور کا پاکستان، بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش شامل تھے۔) برہمن اورکھشتری ذات کے لوگوں کےشودروں پر مظالم  پرمشتمل ہے ۔نسیم حجازی کے ناول دلچسپ تاریخی معلومات پر مشتمل ہیں اس لیے  قارئین وناظرین  کتاب وسنت سائٹ کےلیے اسے سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔(م۔ا)

  • 1812 #5533

    مصنف : اینڈریو لینگے

    مشاہدات : 5715

    اوکسفرڈ ابتدائی انسائیکلوپیڈیا زمین اور کائنات

    (جمعہ 27 جولائی 2018ء) ناشر : اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس
    #5533 Book صفحات: 28

    کائنات میں زمین کے محل وقوع کی معلومات 400 برس کے دور بینی مشاہدات کا نچوڑ ہے، شروع میں زمین کو کائنات کا مرکزسمجھا جاتا تھا، اور کائنات صرف ان سیاروں پر مشتمل تھی جو ننگی آنکھ سے دیکھے جاسکتے تھے اور ان کے کنارے پر مستقل ستاروں کا کرہ تھا۔ سترہویں صدی میں شمس مرکزی نمونے کو تسلیم کئے جانے کے بعد ولیم ہرشل اور دوسروں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ سورج وسیع ستاروں کی قرص نما شکل میں موجود ہے۔بیسویں صدی تک ایڈون ہبل کے مرغولہ نما سحابیہ کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ہماری کہکشاں پھیلتی ہوئی کائنات میں موجود ارب ہا ارب کہکشاؤں میں سے ایک ہے بیسویں صدی کے اختتام تک، کائنات کی کل ساخت خاصی واضح ہو گئی تھی، جہاں فوق جھرمٹ اور خالی جگہیں ریشوں اور خالی جگہوں سے وسیع جال بن رہے تھے۔فوق جھرمٹ اور خالی جگہیں کائنات میں آپس میں بندھی ہوئی سب سے بڑی ساختیں ہیں جن کا ہم مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ چونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی مرکز یا سرحد نہیں ہے، لہٰذا کوئی بھی مخصوص نقطہ ایسا نہیں ہوگا جس کی نسبت سے ہم کائنات میں زمین کے محل وقوع کو بیان کرسکیں۔ تاہم کیونکہ قابل مشاہدہ کائنات کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ وہ کائنات کا ایسا حصّہ ہے جو ارضی مشاہدین کو نظر آتا ہے، اس تعریف کی رو سے زمین کائنات کا مرکز ہے۔ اس بات کا اب بھی تعین نہیں کیا جا سکا کہ آیا کائنات لامحدود ہے یا نہیں۔ بہت سے ایسے مفروضے بھی موجود ہیں جن کے مطابق شاید ہماری کائنات ان کثیر کائناتوں میں محض ایک مثال ہے؛ تاہم ابھی تک متعدد کائناتوں (multiverse) کے وجود کا کوئی مشاہدہ نہیں کیا جا سکا، کچھ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مفروضہ نا قابل انکار ہے۔ان سائنسی معلومات پر مشتمل ہر زبان میں بیسیوں کتب موجود ہیں اب تو بے شمار یہ سائنسی معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ اوکسفرڈ ا ابتدائی انسائیکوپیڈیا زمین اور کائنات ‘‘ ایک انگریز مصنف اینڈر یو لینگلے کی زمین اور کائنات کے متعلق سائنسی معلومات پر مشتمل انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے اس کتاب کو حکومت پنجاب نے انگریزی سے اردو زبان میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے ۔ستارے کیسے بنتے ہیں ؟ خلا نورد کتنا عرصہ خلا میں رہ سکتے ہیں ؟چاند کیسے چمکتا ہے ؟ زمین اور کائنات کے بارے میں بچوں کے ان ننّھے منّے مگر اہم سوالات کے جوابات اس کتاب میں دئیے گئے ہیں۔ یہ کتاب اپنی سادہ زبان اور رنگا رنگ تصاویر کی وجہ سے بچوں کے لیے بڑی پُرکشش اور آسان ہے ۔ یقیناَ اس کتاب کے ذریعے اساتذہ بچوں کو کھیل ہی کھیل میں’’ زمین اور کائنات‘‘ کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر سکیں گے ۔ اساتذہ اور بچوں کی آسانی کےلیے کتاب کے آخر میں فرہنگ اور اشاریے بھی دیئے گئے ہیں۔(م۔ا)

  • 1813 #5541

    مصنف : اوصاف علی سابق جج

    مشاہدات : 6378

    حقوق العباد ( اوصاف علی )

    (جمعہ 27 جولائی 2018ء) ناشر : مکتبہ امدادیہ ملتان
    #5541 Book صفحات: 378

    اللہ رب العزت نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے نبوت کا سلسلہ قائم کیا جس کی آخری کڑی جناب محمد رسول اللہﷺ تھے۔ انہوں نے امت کی ہر شعبۂ زندگی میں مکمل رہنمائی فرمائی۔ اور حقوق وفرائض سے متعلقہ تفصیل سے تعلیمات دیں کہ کچھ حقوق اللہ ہوتے ہیں اور کچھ حقوق العباد ہوتے ہیں اور حقوق اللہ تو اللہ رب العزت چاہیں تو معاف فرما دیں مگر حقوق العباد میں اللہ رب العزت نے متعلقہ بندے سے معافی مانگنے کو معلق کر رکھا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب  بھی خاص اسی موضوع پر ہے جس میں حقوق العباد‘‘ پر بڑی جامع‘مفید اور مؤثر ابحاث درج کی گئی ہیں کہ افراد واجتماع میں اختلاف کیوں ہوتا ؟ اس کے اسباب نقل کیے گئے ہیں جن میں سے مؤلف نے بڑی وجہ یہی بیان کی ہے کہ ہم حقوق العباد کا پاس نہیں کرتے جس کے نتیجے میں ہم میں اختلاف ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے دروس اور خطبات کو اس میں جمع فرما  دیا ہے۔اس کتاب میں چونکہ انداز تقریر کا ہے اور اس کا بھی لفظ بہ لفظ نقل کیا گیا ہے اس لیے اس میں سلاست کی کمی اور پڑھنے میں کچھ دقت بھی ہے۔ اور اتحاد واتفاق کی اہمیت وفضیلت اور اس  کے ثمرات کو  بیان کیا گیا ہے۔۔ یہ کتاب’’ حقوق العباد ‘‘ سید بدیع الدین راشدی  کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی اور کتب بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1814 #5540

    مصنف : شورش کاشمیری

    مشاہدات : 5450

    فیضان اقبال رحمۃ اللہ علیہ

    (جمعرات 26 جولائی 2018ء) ناشر : نظریہ پاکستان ٹرسٹ
    #5540 Book صفحات: 210

    علامہ محمد اقبال بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف،قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ ،بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ پاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہےاور آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔ علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء (بمطابق 3 ذیقعد 1294ھ) کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔مؤرخین کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت میں اختلاف لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے۔اقبال کے آبا ؤ اجداد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے۔علامہ نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ زمانہ طالبعلمی میں انھیں میر حسن جیسے استاد ملے جنہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ اور ان کے اوصاف خیالات کے مطابق آپ کی صحیح رہنمائی کی۔علامہ اقبال کی شخصیت ، سوانح حیات ، خدمات اور شاعری کے متعلق بیسیوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ہنوز شائع ہورہی ہیں اور اور ہرسال یوم ِاقبال کے موقع پر علامہ اقبال کے متعلق سیکڑوں مضامین دنیابھر سے شائع ہونے والے رسائل وجرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ۔ زیرتبصرہ کتا ب’’ فیضانِ اقبال ‘‘ آغا شورش کاشمیری کی تصنیف ہے ۔شورش کاشمیری ایک سچے محبّ رسول تھےاورروح اقبال سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب میں دریائے اقبال کو ایک کوزے میں بند کردیا ہے۔ اور معانی میں آسانی ویکسانی پیدا کرنے کے لیے ان کلمات اوراقتباسات کو موضوع کی مناسبت سے اس کتاب کو دس حصوں میں تقسیم کر کے پرستاران اقبال کے لیے آسانی کا سامان پیدا کردیا ہے۔ یہ کتاب نہ صر ف طلبا اور طالبات کے لیے ایک گراں قدر تحفہ ہے۔بلکہ اس سے علامہ اقبال کے عقیدت مند اور خوشہ چین بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔(م۔ا)

  • 1815 #5530

    مصنف : مہر اختر وہاب

    مشاہدات : 12234

    اردو میں اسلامی ادب کی تحریک

    (بدھ 25 جولائی 2018ء) ناشر : پورب اکادمی
    #5530 Book صفحات: 253

    اسلامی ادب کی تحریک اردو ادب کی اہم ادبی تحریک ہے ۔ اسلامی ادب کا نظریہ ہر عہد ، ہر ملک اور ہر زبان کے ادب میں ایک توانا فکر رہا ہے۔اسلامی ادب کی تحریک کی فکری اساس میں توحید ، رسالت اور آخرت میں جواب دہی کے تصورات بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اس نظریہ کی ہمہ گیری یہ ہے کہ حیات کائنات اور انسان کے بارے میں کوئی ایسا سوال نہیں ہے جس کا واضح اور تسلی بخش جواب اس کے پاس نہ ہو۔ادب اسلامی کی اصطلاح کو ماضی میں اعتراضات اور غلط فہمیوں کی متعدد یلغاروں کا سامنا کرنا پڑا ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک ادب اسلامی کے ابتدائی ایّام میں اس کی صف میں کہنہ مشق مقام و مرتبہ رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے شامل ہونے کی زحمت گوارہ نہ کی ۔ تحریک ادب اسلامی نے اردو ادب کو بلاشبہ ایک سمت و رفتار عطا کی ہے عصر حاضر میں ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان ایک تیسرا واضح اور نمایاں رجحان تعمیری ادب یا اسلامی ادب کا سامنے آیا ہے اس حلقہ سے وابستہ فنکاروں نے ہر صنف ادب میں کچھ نمایاں کوششیں ضرور کی ہیں ۔پروفیسر فروغ احمد اسلامی ادیبوں میں ممتاز مقام کے حامل ہیں ، ڈھاکہ میں رہتے ہوئے وہ اردو ادب میں اسلامی رجحانات کے فروغ میں ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ 1968ء میں ان کی ایک کتاب ’’ اسلامی ادب کا جائزہ‘‘ لاہور سے شائع ہوئی تھی جس میں اسلامی ادب کی نظریاتی اساس،اس کا تاریخی پس منظر اور اردو ادب پر اسلامی تحریکات کے اثرات پر مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح پروفیسر اسرار حمد سہاوری نے ’’ادب اور اسلامی قدریں ‘‘ کے عنوان سے باہمی تعلق، ادب اور مقصدیت ،ادب کے اجزائے ترکیبی جذبہ و حسن ادا ، اسلامی ادب کی خصوصیات ،اسلامی ادب کے موضوع وغیرہ پر بہت تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اسلامی تحقیق و تنقید کے میدان میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ آپ نے ’’اسلامی ادب‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مضامین شائع کیا جس سے پہلی بار اسلامی ادب کے خدوخال نمایاں ہوئے۔ زیر نظر کتاب ’’اردو میں اسلامی ادب کی تحریک‘‘ مہر اختر وہاب کی تصنیف ہے اس کتاب میں ان سیاسی ،تہذیبی ، دینی اور ادبی روایات کا جائزہ لیاگیا ہے جس کی روشنی میں اسلامی ادب کی تحریک نے اپنا سفر شروع کیا ۔ اسلامی ادب کی تحریک کا آغاز ، نشور وارتقاء اس کے مختلف ادوار اور اسلامی ادب کی خصوصیات وغیرہ کو اس کتاب میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔اس تحریک کے فروغ میں محمد حسن عسکری کے کردار کو بالخصوص اجاگر کیا گیا ہے ۔نیز اس کتاب میں اسلامی ادب کی تحریک کے ردِّ عمل کا جائزہ لیتے ہوئے برصغیر کے اہم ادبیوں اور نقادوں کے اسلامی ادب پر کیے گئے اہم اعتراضات کا تنقیدی تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس میں اسلامی ادب کی تحریک پر مفصل بحث گئی ہے ۔(م۔ا)

  • 1816 #5528

    مصنف : عطاء الرحمن

    مشاہدات : 4114

    سوویت یونین کا زوال نظریہ عمل و رد عمل

    (منگل 24 جولائی 2018ء) ناشر : انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد
    #5528 Book صفحات: 262

    روسی سوشلسٹ ریاستوں کا مجموعہ عام طور پر سوویت اتحاد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ آئینی اعتبار سے اشتراکی ریاست تھی جو یوریشیا میں 1922ء سے 1991ء تک قائم رہی۔ اس کو بالعموم روس (Russia) بھی کہا جاتا تھا جو غلط ہے۔ روس یعنی رشیا اس اتحاد کی سب سے زیادہ طاقتور ریاست کا نام ہے۔ 1945ء سے لے کر 1991ء تک اس کو امریکہ کے ساتھ دنیا کی ایک عظیم طاقت (Super Power) مانا جاتا تھا۔سوویت اتحاد کو 1917ء کے انقلاب کے دوران بننے والے ریاستی علاقے میں قائم کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی سرحدیں تبدیل ہوتی رہیں، لیکن آخری بڑی ٹوٹ پھوٹ کے بعد، جو بالٹک ریاستوں، مشرقی پولینڈ، مشرقی یورپ کا کچھ حصہ اور کچھ دوسری ریاستوں کے اضافے اور فن لینڈ اور پولینڈ کی علیحدگی کے بعد 1945ء سے لے کر تحلیل تک شاہی دور والے روس جیسی ہی رہیں۔سوویت حکومت اور سیاسی تنظیموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا کام ملک کی واحد سیاسی جماعت، سوویت اتحاد کی کمیونسٹ پارٹی کے پاس رہا۔1956ء تک سوویت سوشلسٹ ریاستوں کی تعداد چار سے بڑھ کر پندرہ ہوگئی ۔1991ء میں سوویت اتحاد تحلیل ہوگیا اور اس کے بعد تمام ریاستیں آزاد ہوگئیں۔ ان میں سے گیارہ ریاستوں نے مل کر ایک ڈھیلی ڈھالی سا وفاق (Confederation) بنالیا ہے جسے "آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ" کہا جاتا ہے۔ زیرنظر کتاب ’’سویت یونین کا زوال ‘‘ جناب عطاء الرحمٰن صاحب کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب صاحب کتاب نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز ،اسلام آباد کی جانب 1991ء میں سوویت یونین کا مطالعاتی دورہ کرنے کےبعد مرتب کی ہے ۔موصوف نےاپنے اس دورے میں روسی پارلیمنٹ کے چند ارکان صحافیوں، کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین،ماسکو میں مقیم سوویت مسلم علاقوں کے آزاد پسند سرگرم کارکنوں سے ملاقاتیں کیں ۔ نیز ازبکستان کے صدر اسلام کریموف اور تاجکستان کے نائب صدر نذر اللہ دوستوف ، مفتی اعظم تاشقند محمد صادق اور حزب اختلاف کے کئی ایک رہنماؤں ، ادیبوں ، صحافیوں اور علماء سے ملاقاتیں کی اور ان کے انٹرویو بھی کیے اور تاشقند ریڈیو پر تقریربھی کی اور اپنے مشاہدات بیان کیے ۔فاضل مصنف نے وطن واپسی پرسوویت یونین کے ززال کے اسباب اور وسطی ایشیا کے احوال پر اپنے مشاہدات وتاثرات اور تجزیے سپرد قلم کیے یہ کتاب فاضل مصنف کے انہی تاثرات ، مشاہدات کا مجموعہ ہے خاص طور اس میں ان مسلمان علاقوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن پر روس نےوسطی ایشیا کے علاقوں سے بھی بہت پہلے قبضہ کیا اوراُس وقت آزاد نہیں ہوئے تھے بین الاقوامی قانون کی رو سے روسی فیڈریشن کا حصہ تسلیم کیے جاتے تھے اور جہاں آزادی کی تحریکیں روزبروز قوت حاصل کرتی جارہی ہیں ۔اشتراکیت کی ناکامی اور سوویت یونین کے زوال پر یہ کتاب نہ خالصتاً علمی یا موضوعاتی ہے اور نہ محض تاثرات ہی کا مجموعہ ہے اس میں فکری ونظری مباحث اور تاریخی پس منظر کے ساتھ ساتھ مصنف کے ذاتی مشاہد پر مبنی خیالات وتاثرات بھی ہیں۔(م۔ا)

  • 1817 #5542

    مصنف : شیر نوروز خان

    مشاہدات : 5374

    حضرت محمد ﷺ منتخب کتابیات اردو کتب و مقالات

    (منگل 24 جولائی 2018ء) ناشر : ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد
    #5542 Book صفحات: 582

    اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل﷩ کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پوراسامان رکھتی ہے ۔ انسان کے لکھنے پڑھنے کی ابتدا سے اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے سوانح وسیرت سے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں جس قدر محمد رسول اللہ ﷺ سے لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے ۔اردو زبان بھی اس معاملے میں کسی بھی زبان سے پیچھے نہیں رہی اس میں حضورﷺ سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ابن اسحاق اورابن ہشام سے لے کر گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔یہ سب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کا انسانوں میں سے ایک انسان ایسا بھی تھا اور ہے کہ جس کی ذات کامل واکمل پر جس قدر بھی لکھا جائے کم ہے اور انسانیت اس کی صفات ِ عالیہ پر جس قدر بھی فخر کرے کم ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حضرت محمدﷺ منتخب کتابیات اردو کتب ومقالات‘‘ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد کے چیف لائبریرین جناب شیر نورز خان کی برس ہا برس کی شبانہ روز محنت سے تیار ہونے والا شاہکار ہے۔کتابیات کو انگزیزی زبان میںBibliography کہتے ہیں اس سے مراد کتابوں یا غیر کتابی مواد کی وہ فہرست جو ان کے مآخذ کا پتہ دےیاکتابی یا غیر کتابی مواد کی فہرستوں کی تیاری کسی خاص مبحث کے متعلق کتابوں کی فہرست اسے فہرستِ کتب، کتاب نامہ، کتاب شناسی، کتاب نما سے بھی موسم کیا جاتا ہے۔مرتب موصوف نے سیرت النبی ﷺ کے متعلق تقریباً 45 موضوعات کے تحت اس سے متعلقہ کتب کے نام اس کتاب میں درج کیے ہیں ۔مرتب کی یہ کاوش لائق تحسین ہے۔اس کتابیات سیرت سے اہل علم وتحقیق ، بالخصوص اس فن میں تحقیق کرنے والوں خاص طور پر ایم فل اورڈاکٹریٹ کے محقق طلبہ وطالبات کو نہ صرف موضوع ِ تحقیق کے انتخاب میں خاصی مدد ملے گی بلکہ اردو میں سیرت طیبہ کے تمام علمی ذخیرہ تک ان کی رسائی آسان ہوجائے گئی ۔راقم کے پاس یہ کتاب پی ڈی ایف فارمیٹ ہے دوران تبصرہ چند مقامات سے ملاحظہ کیا تو معلوم ہواکہ فاضل مرتب نے اردو کتب سیرت کا مکمل احاطہ نہیں کیا مثلاً عمومی کتب سیرت میں ڈاکٹر مہدی رزق اللہ کی کتاب’’ السیرۃ النبویہ فی ضوء مصادر الاصلیہ‘‘ کا اردو ترجمہ سیرت نبوی کےنام شائع ہو ا ہے اس کا نام اس کتاب میں موجود نہیں ہے اور اسی طرح مولانا منیر قمر ﷾ کی کتاب ’’ سیرت امام االانبیاء‘‘ کا بھی نام نہیں ہے ۔ مجلہ رشد ،لاہور کے حرمت رسول نمبر جون 2008ءکا بھی تذکرہ نہیں ہے ۔ اور مولد النبی کے ضمن میں مولانا منیر قمرصاحب کی کتاب’’ صحیح تاریخ ولادت مصطفیٰﷺ اور عطاء الرحمٰن صاحب کتاب ’’ جشن عید میلاد النبیﷺ کی تاریخی وشرعی حیثیت ‘‘مولانا محمد طیب محمدی صاحب کی کتاب’’ اللہ کی قسم جشن عید میلاد النبی قرآن وحدیث سے ثابت نہیں‘‘ کا بھی تذکر ہ نہیں ہے جن کتب کا میں نے ذکر کیا ہے یہ ساری کتابیں الحمد للہ کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہیں ۔کتاب کی مکمل ورق گردانی سے کئی کتب ومضامین سیرت کا علم ہوسکتا ہے کہ جن کو اس کتاب میں شامل نہیں کیاگیا۔اس کتاب میں مذکور کتب سیرت کے ناموں کو حروف تہجی کے اعتبار سے پیش کردیا جاتا تو زیادہ مفید تھا ۔(م۔ا)

  • 1818 #5430

    مصنف : تفضیل احمد ضیغم ایم اے

    مشاہدات : 5596

    شہادت کا اجر پانے والے خوش نصیب

    (پیر 23 جولائی 2018ء) ناشر : طیبہ قرآن محل فیصل آباد
    #5430 Book صفحات: 82

    جہاد اسلام کی کوہان ہے ارکان اسلام کو برقرار رکھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے جہاد جہاں حکم خداوندی ہے وہاں زمین میں امن وشانتی کو قائم رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اس عظیم کام میں شامل لوگوں کے لیے اخروی زندگی کو بہتر بنانےمیں اس عمل سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں جس میں شامل انسان دنیا میں رب کی رضا اور وح نکلتے ہی جنتی مہمان بن جاتا ہے ۔شہادت فی سبیل اللہ کو وہ مقام حاصل ہے کہ (نبوّت و صدیقیت کے بعد) کوئی بڑے سے بڑا عمل بھی اس کی گرد کو نہیں پاسکتا۔ اسلام کے مثالی دور میں اسلام اور مسلمانوں کو جو ترقی نصیب ہوئی وہ ان شہداء کی جاں نثاری و جانبازی کا فیض تھا، جنھوں نے اللہ رَبّ العزّت کی خوشنودی اور کلمہٴ اِسلام کی سربلندی کے لئے اپنے خون سے اسلام کے سدا بہار چمن کو سیراب کیا۔ شہادت سے ایک ایسی پائیدار زندگی نصیب ہوتی ہے، جس کا نقشِ دوام جریدہٴ عالم پر ثبت رہتا ہے، جسے صدیوں کا گرد و غبار بھی نہیں دُھندلا سکتا، اور جس کے نتائج و ثمرات انسانی معاشرے میں رہتی دُنیا تک قائم و دائم رہتے ہیں۔ کتاب اللہ کی آیات اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں شہادت اور شہید کے اس قدر فضائل بیان ہوئے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور شک و شبہ کی ادنیٰ گنجائش باقی نہیں رہتی۔یقیناً شہید کے بہت سے فضائل ہیں اور کتب احادیث میں بہت سی احادیث ان کے مقام ومرتبہ کو واضح کرتی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’ شہادت کا اجر پانے والے خوش نصیب‘‘ ڈاکٹر تفضیل احمد ضیغم ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کا مرتب کردہ ہے ۔ اس مختصر کتابچہ میں انہوں نے شہید کے فضائل ومناقب اور شہداء کی اقسام کو احادیث کی روشنی میں بیان کرنے کے بعد شہادت کا اجر پانے والے ایسے افراد کا تذکرہ کیا ہےکہ جو میدان قتال میں جائے بغیر شہادت کادرجہ پانے والے ہیں لیکن یہ شہداء کے حکم میں ہیں ۔ان افراد کا ذکر کتب احادیث میں مختلف مقامات پر بکھرا ہوا ہے فاضل مصنف نے کتب احادیث سے ان احادیث کو تلاش کر کے اس کتابچہ بمعہ ترجمہ مکمل حوالہ کے ساتھ درج کردیا ہے ۔آخر میں شہید کیےمتعلق کتب حدیث میں وارد شدہ ایسی دس احادیث کو پیش کیا ہے جو ضعیف اور موضوع ہیں ۔ اللہ تعالی ٰ مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے۔(آمین)

  • 1819 #5465

    مصنف : نسیم حجازی

    مشاہدات : 9228

    داستان مجاہد

    (پیر 23 جولائی 2018ء) ناشر : جہانگیر بک ڈپو پاکستان
    #5465 Book صفحات: 241

    نسیم حجاز ی اردو کے مشہور ناول نگار تھے جو تاریخی ناول نگاری کی صف میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان کا اصل نام شریف حسین تھا لیکن وہ زیادہ تر اپنے قلمی نام "نسیم حجازی" سے معروف ہیں۔ وہ تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے ضلع گرداسپور میں 1914ء میں پیدا ہوئے۔ برطانوی راج سے آزادی کے وقت ان کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور باقی کی زندگی انہوں نے پاکستان میں گزاری۔ وہ مارچ 1996ء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے ناول مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ پر مبنی ہیں جنہوں نے اردو خواں طبقے کی کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔ وہ صرف تاریخی واقعات بیان کر کے نہیں رہ جاتے بلکہ حالات کی ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ قاری خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور ناول کے کرداروں کے مکالموں سے براہ راست اثر لیتا ہے۔نسیم حجازی  نے تقریبا 20 کے قریب ایمان افروز ناول تحریر کیے ہیں ۔ زیر نظر  کتاب ’’ داستان مجاہد ‘‘ بھی انہی کاتحریر کردہ ناول ہے ۔ان کایہ تاریخی ناول خلافت امویہ، فتح اندلس، فتح سندھ،, فتح وسط ایشیاء اور فتح المغرب کے دلچسپ  واقعات پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)

  • 1820 #5539

    مصنف : شہزاد اقبال شام

    مشاہدات : 7985

    دساتیر پاکستان کی اسلامی دفعات ایک تجزیاتی مطالعہ

    (اتوار 22 جولائی 2018ء) ناشر : شریعہ اکیڈمی اسلام آباد
    #5539 Book صفحات: 268

    اس میں کو ئی شک نہیں کہ قرآن وسنت میں متعدد ایسے کام اور اصول موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے دستور کے لیے منبع واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے انحراف کسی طرح روا نہیں۔دستور میں بیان متعدد امور کا تعلق انتظامی معاملات سے ہوتاہے ۔نظری امور ، پالیسی معاملات، بنیادی انسانی حقوق اور ہئیت حاکمہ کے فرائض کا قرآن وسنت میں بیان اصول واحکام کی روشنی میں انہیں کسی اسلامی ریاست کےدستور میں سمونا ضروری ہے جدید ریاستی تنظیم میں دستور کو سیاسی زندگی میں یوں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ دستور عوام اور اصحاب الرائے کی خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے کہ اس سے کسی قوم کے ماضی کا بیان اور مآل کی طرف سے تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقیاس ہے جس سے عوام کی امنگوں ،آرزؤں اور خواہشات کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ یہی وہ قندیل ہے جسے لے کرملک کی ترقی کے لیے کوشش کی جاتی ہے اسی کی مدد سے ادارے وجود میں آتے ہیں۔دستور ہی وہ آئینہ ہےجس میں کسی ملک تاریخ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے اور حال کا پرتو بھی اسی دستورمیں ملتا ہے ۔دستورمستقبل کاجامِ جم ہوتا ہے ۔یہ دستور ہی ہےجو ریاست میں اداروں کےوجود کا باعث بنتا ہے لوگوں کے طرزِ زندگی پر اثرات ڈالتا ہے،قانونی نظام اسی کے ذریعے اپنا رخ متعین کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ دستور کے اندر رہتے ہوئے ہی لوگوں کےقلوب واذہان مسخر کرتے ہیں نظام تعلیم دستور ہی کی روشنی میں مرتب ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ دساتیر پاکستان کی اسلامی دفعات ایک تجزیاتی مطالعہ ‘‘ جناب ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کے تحقیقی مقالہ ایم فل کی کتابی صورت ہے۔یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے ان ابواب میں دستورِ پاکستان کی فلسفیانہ بنیادوں کاجائزہ لے کر ابتداً پاکستان کے لیے اسلامی دستور کی جدوجہد کامطالعہ کرنے کے بعد وطنِ عزیز کے تینوں دساتیر کی اسلامی دفعات کا اصل ماخذ کی بنیاد پر تجزیاتی، تقابلی اور تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔(م۔ا)

  • 1821 #5448

    مصنف : علی اصغر چودھری

    مشاہدات : 3396

    سید الانبیاء ﷺ کی مبارک مجلسیں

    (اتوار 22 جولائی 2018ء) ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
    #5448 Book صفحات: 193

    انسان شروع سےہی اس دنیا میں تمدنی او رمجلسی زندگی گزارتا آیا ہے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اسے زندگی میں ہر دم مختلف مجلسوں سے واسطہ پڑتا ہے خاندان ،برادری اور معاشرے کی یہ مجالس جہاں ا س کے اقبال میں بلندی ،عزت وشہرت میں اضافے او ر نیک نامی کا باغث بنتی ہیں وہیں اس کی بدنامی ،ذلت اور بے عزتی کاباعث بنتی ہیں انسان کو ان مجلسوں میں شریک ہو کر کیسا رویہ اختیار کرناچاہیے کہ جو اسے لوگوں کی نظروں میں ایسا وقار اور عزت وتکریم والا مقام بخش دے کہ لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی اسے یاد رکھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سید الانبیاءﷺ کی مبارک مجلسیں ‘‘ علی اصغر چوہدری کی تصنیف ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں محسن انسانیت اور خیر البشر حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی مبارک مجلسوں کا آئینہ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ وہ اس میں اپنا چہرہ دیکھ کر اسے تاباں اور شاداں بنانے کی کوشش کریں اور اپنی مجالس میں سیرت طیبہ کا رنگ اختیار کریں ۔(م۔ا)

  • 1822 #5538

    مصنف : ڈاکٹر محمد عارف عمری

    مشاہدات : 2775

    دار المصنفین کی عربی خدمات

    (ہفتہ 21 جولائی 2018ء) ناشر : ادبی دائرہ اعظم گڑھ یوپی
    #5538 Book صفحات: 274

    دار المصنّفین ایک علمی و تحقیقاتی ادارہ ہے جو بھارت کے شہر اعظم گڑھ میں واقع ہے۔دار المصنّفین اعظم گڑھ کا شمار ہندوستان کے انتہائی اہم علمی اداروں میں ہوتا ہے، یہ ادارہ صرف علامہ شبلی مرحوم کے خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی کی علمی کاوشوں اور مولانا مسعود علی ندوی کی عملی جدوجہد کی زندہ تصویر بھی ہے۔1915ء میں  جب اس کی تاسیس ہوئی تو مسلمانوں کا ایسا کوئی دوسرا ادارہ پورے ہندوستان میں موجود نہیں تھا ، اپنی تاسیس کے بعد اس ادارے نے جس طرح مصنّفین کی متعدد نسلوں کی تربیت کی یہ اس  ادارے  کی  انفرادیت ہے سید سلیمان ندوی،شاہ معین الدین احمد ندوی،صباح الدین عبد الرحمن، ضیاء الدین اصلاحی ، اشتیاق احمد ظلی  جیسی اہم شخصیات  اس  ادارے  کے ناظم رہ چکے ہیں ۔دار المصنّفین کی  متعدد اور متنوع موضوعات پر تصنیفی  خدمات ہیں  ان میں سے ایک موضوع ’’ دار المصنّفین‘‘ کی عربی خدمات بھی ہے ۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ دار المصنّفین کی عربی خدمات ‘‘  ڈاکٹر  محمد عارف  عمری  کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب داراصل   ان کا ڈاکٹریٹ  کا  وہ تحقیقی  مقالہ  ہے  جس  پر  لکھنؤ یونیورسٹی نے انہیں  پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کی ۔فاضل مصنف نے  اس    کتاب میں  دار  المصنّفین   کا  مختصر تعارف  پیش  کر نے  کے بعد اس  ادارے کی عربی خدمات کا جائزہ پیش کیا ہے ۔ (م۔ا)

  • 1823 #5439

    مصنف : محمد احمد حافظ

    مشاہدات : 5284

    سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ

    (ہفتہ 21 جولائی 2018ء) ناشر : الغزالی پبلی کیشنز کراچی
    #5439 Book صفحات: 288

    سرمایہ دارانہ نظام انگریزی ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے  کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔ مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسا‏‏ئل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد (%100)سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کا سارا نظام سود پر مبنی ہیں۔ سود ہی کے ذریعے مغربی طاقتیں پورے پورے ممالک کو تباہ کر دیتی ہیں۔ سودی نظام جب ایک معاشرے میں کئی دہائیوں تک چلے تو اس کے بُرے اثرات نمایاں ہو جاتے ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ غریب، غریب تر ہو جاتا ہے جبکہ امیر، امیر تر ہو جاتا ہے۔ معاشرے کی ساری دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے اور ملک کی معیشت پر چند افراد کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ سرمایہ دارانہ نظام ایک تنقیدی جائزہ ‘‘ جناب محمد احمد حافظ صاحب نے ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کی نگرانی میں مرتب کی ہے ۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے چھٹا باب خوصی مطالعہ کے عنوان سے اس کتاب میں شامل ہے جو کہ پوری کتاب کا حاصل ہے اس حصے میں ڈاکٹر جاوید اکبرانصاری کا خصوصی مقالہ بعنوان’’ عالم اسلام اور مغرب کی کشمکش ایک نئے تناظر میں ‘‘ شامل ہے اس مقالے میں ڈاکٹر صاحب نے سرمایہ داری پر نہایت بصیرت افروز نقد کیا ہے اور آخر میں اس خبیث نظام کے انہدام کی حکمت عملی کی طرف اشارات بھی دئیے ہیں جونہایت قابل توجہ ہیں ۔اس کتاب میں دوسرا اہم مقالہ علی محمد رضوی صاحب ’فلسفۂ یونان کا ابطال : امام غزالی کاطریقہ کار ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے یہ مقالہ انگریزی سے اردو زبان مین منتقل کر کے اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب مدارس دینیہ کے علماء وطلباءلیے کے بیش قیمت تحفہ ہے تاکہ وہ اس کے مطالعہ سے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کو جان سکیں۔(م۔ا)

  • 1824 #5537

    مصنف : مرتضٰی انجم

    مشاہدات : 7869

    بیسویں صدی کے اہم واقعات

    (جمعہ 20 جولائی 2018ء) ناشر : یو پبلشرز لاہور
    #5537 Book صفحات: 490

    بیسویں صدی جب  شروع ہوئی تو جنگ بوئر شروع ہوچکی تھی۔ابھی جنگ بوئر جاری تھی کہ روس جاپان جنگ کےلیے  راہ  ہموار ہونے لگی۔ اسی دوران جنگ بلقان شروع ہوگئی ۔ ادھر جنگ بلقان ختم ہوئی ادھر پہلی جنگ عظیم     کے بادل  دنیائے آسمان پر چھانے لگ جنگ عظیم لاکھوں انسانوں کےلہو سےہاتھ رنگنے کےبعد اپنے انجام   کو پہنچی تو ہٹلر نےاتحادیوں  کےہاتھوں جرمن قوم کی ذلت ورسوائی کا بدلہ لینے کے لیے دوسری جنگ عظیم کی منصوبہ بندی شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں ہیرو شیما اور ناگا سا کی  پر ایٹم بم پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے اور دنیا کو پہلی مرتبہ انسانی خون کی ارزانی کا احساس ہوا۔الغرض بیسویں صدی اپنے آغاز سےہی ہنگامہ خیز واقعات سے بھر پور اور کروڑوں انسانوں کےلہو سےرنگین نظرآتی ہے۔اس صدی نے جہاں انسان کو جنگوں کی ہولناکیوں کے سپرد کرنے کااہتمام کیا وہاں  انسان نے سیاسی تہذیبی ، تمدنی ، سائنسی ، معاشی ، طبی، اور لسانی میدان میں حیرت انگیز حدتک پیش رفت کی ۔ نئی ایجادات نے انسان کو تیز رفتار زندگی کی طرف مائل کیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی بڑی سلطنتیں سکڑ کر رہ گئیں اور نظریات  پھیلنا شروع ہوئے۔ برطانیہ کےاقتدار  کا سورج غروب ہوا اور دنیا کے نقشے پر نئی ریاستیں نمودار  ہوئیں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں  نےقائد اعظم  کی قیادت میں برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ۔ بیسویں صدی کی ایجادات  نےانسان کو چاند پرپہنچا دیا کمپیوٹر کی ایجاد نےدنیا میں ایک انقلاب  برپا کردیا انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ کی بدولت دنیا  گلوبل ولج کی صورت  اختیا کرگئی ۔مرتضیٰ انجم صاحب نے زیرنظر کتاب’’بیسویں صدی کے اہم واقعات‘‘ میں اس صدی کےاہم واقعات کو اخباری حوالہ جات کے ساتھ یکجا کیا ہے جو اپنے اندر قارئین کےلیے دلچسپی کاساماں رکھتے  ہیں ۔(م۔ا)

  • 1825 #5426

    مصنف : سید میر حسین علی کرمانی

    مشاہدات : 3883

    نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان

    (جمعہ 20 جولائی 2018ء) ناشر : شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور ، حیدرآباد ، کراچی
    #5426 Book صفحات: 402

    ٹیپوسلطان برصغیرِ کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت ِفکر، آزادی وطن اور دینِ اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔ ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آباؤ اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی آکر آباد ہوگیا تھا۔ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ’’نائیک‘‘ سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ’’سلطنت خداداد میسور‘‘ (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دباؤ اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔اور اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پرعملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ’’گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘ غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔ ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگاؤ، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔ وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں ۔ زیر نظرکتاب ’’ نشان حیدری ‘‘سید میر حسین علی کرمانی کی تصنیف ہے مصنف خود سلطان شہید کی ملازمت میں رہا اس کی آنکھوں کے سامنے وہ سارے واقعات گزرے ہیں جو اس مختصر عرصہ میں پیش آئے ان واقعات کو مصنف نے بلا کسی رنگ آمیزی کے اس کتاب میں قلم بند کردیا ہے ۔یہ کتاب ٹیپو سلطان کی شہادت کے آٹھ سال بعد لکھی گئی یہ کتاب حیدرعلی خاں اور ٹیپو سلطان کی متعلق سب سے پہلی مستند کتاب ہے اصل کتاب فارسی زبان میں تھی 1960ء میں محمود احمد فاروقی نے تاریخ ٹیپو سلطان کےنا م سے اس کتاب کا اردو زبان میں ترجمہ کیااس کتاب میں ہندوستانی شہزادے ٹیپوسلطان کے تذکرہ پیش کیا گیا ہے ۔ جس نے انگریزوں کے خلاف گراں قدر مزاحمت سرانجام دی۔ اس کی شدید مزاحمت سے انگریز بوکھلا گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ موجود ہ حکمرانوں میں ٹیپو سلطان جیسی بہادر ی او رجذبۂ جہاد پیدا فرمائے (آمین)(م۔ا)

< 1 2 ... 70 71 72 73 74 75 76 ... 269 270 >

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 2468
  • اس ہفتے کے قارئین 255145
  • اس ماہ کے قارئین 204316
  • کل قارئین101764832
  • کل کتب8723

موضوعاتی فہرست