کل کتب 6741

دکھائیں
کتب
  • 1726 #5451

    مصنف : خورشید احمد فاروق

    مشاہدات : 5323

    حضرت عمر ؓکے سرکاری خطوط

    (جمعرات 20 ستمبر 2018ء) ناشر : پرنٹ لائن پبلشرز لاہور
    #5451 Book صفحات: 322

    خطوط لکھنے  اورانہیں محفوظ رکھنے کاسلسلہ بہت قدیم ہے قرآن مجید میں حضرت سلیمان  ؑ کا  ملکہ سبا کو  لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے  کہ  خط ملنے پر ملکہ سبا حضرت سلیمان ؑ کی  خدمت میں حاضر ہوئی۔خطوط نگاری کا  اصل سلسلہ اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے  خود نبیﷺ نے اس  سلسلے کا آغاز فرمایا کہ جب آپ نے  مختلف بادشاہوں اور  قبائل  کے سرداروں کو خطوط ارسال  فرمائے  پھر  اس کے  بعد   خلفائے راشدین﷢  اور اموی  وعباسی  خلفاء نے  بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے  جو مختلف  کتب سیر میں  موجود ہیں ان میں  سے کچھ مکاتیب تو  کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکے ہیں ۔اہل علم اپنی تحریروں او رتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں ۔برصغیرکے مشاہیر اصحاب علم میں سے   شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی ، سید ندیر حسین محدث دہلوی، سیرسید ،مولانا ابو الکلام  آزاد، علامہ اقبال ، مولانا غلام رسول مہر اور دیگر بے شمار  حضرات کے خطوط کتابی صورت میں مطبوع  ہیں  اور نہایت دلچسپی سے  پڑ ھےجاتے ہیں۔ابتدائے اسلام کے خطوط  میں سے کسی ایک  کے بارے میں   یقین کے ساتھ یہ کنہا مشکل ہے کہ  و ہ اپنی  لفظی ومعنوی شکل میں ویسا  ہی ہے  کہ جیسا ان کو لکھا گیا تھا۔اس میں شک نہیں  کہ یہ خطوط ہمارے پاس مکتوب ومدون شکل میں آئے  ہیں لیکن قید تحریر میں آنے سے پہلے بہت عرصہ تک وہ سینہ بہ سینہ اور زبان بہ زبان نقل ہوتے رہے  ۔سینہ بہ سینہ انتقال کے دوران بعض خطوط کے مضمون بڑھ گئے اور بعض کے گھٹ گے اور بعض کے بدل گئے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’حضرت عمرفاروق ﷜ کے سرکاری خطوط‘‘  ڈاکٹر خورشید احمد فاروق کی مرتب شدہ ہے اس میں  خلیفہ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر فاروق﷜کے 454 خطوط  ہیں۔ فاضل مصنف  نے ان خطوط  کو مختلف کتب سیر وتاریخ سے تلاش کر کے اس میں   بحوالہ جمع کیا ہے ۔ سیدنا  عمر کے ان  خطوط کی ثقاہت  جاننے کے لیے  فاضل مصنف کا تمہیدی مقدمہ پڑھنا ضروری ہے ۔ جو کتاب کے صفحہ نمبر 42 سے شروع ہوتا ہے ۔ ۔نیٹ پر ان   کو محفوظ  کرنے کی  خاطر سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن 1959ء میں شائع ہوا تھا۔موجودہ ایڈیشن اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔اس ایڈیشن میں   خطوط  اور ان کے مقدموں پر نظر ثانی  کی  ہے  اور ان کو ادبی وتحقیقی اور معنوی اعتبار سے پہلے  سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور کچھ مزید خطوط  اورسیدنا عمر فاروق﷜ کے تعارف کا اضافہ کیا  گیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1727 #5450

    مصنف : خورشید احمد فاروق

    مشاہدات : 4061

    حضرت ابوبکر صدیق ؓکے سرکاری خطوط

    (بدھ 19 ستمبر 2018ء) ناشر : ادارہ اسلامیات انار کلی ،لاہور
    #5450 Book صفحات: 218

    خطوط لکھنے  اورانہیں محفوظ رکھنے کاسلسلہ بہت قدیم ہے قرآن مجید میں حضرت سلیمان  ؑ کا  ملکہ سبا کو  لکھے گئے خط کا تذکرہ موجود ہے  کہ  خط ملنے پر ملکہ سبا حضرت سلیمان ؑ کی  خدمت میں حاضر ہوئی۔خطوط نگاری کا  اصل سلسلہ اسلامی دور سے شروع ہوتا ہے  خود نبیﷺ نے اس  سلسلے کا آغاز فرمایا کہ جب آپ نے  مختلف بادشاہوں اور  قبائل  کے سرداروں کو خطوط ارسال  فرمائے  پھر  اس کے  بعد   خلفائے راشدین﷢  اور اموی  وعباسی  خلفاء نے  بھی بہت سے لوگوں کے نام خطوط لکھے  جو مختلف  کتب سیر میں  موجود ہیں ان میں  سے کچھ مکاتیب تو  کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکے ہیں ۔اہل علم اپنی تحریروں او رتقریروں میں ان کے حوالے دیتے ہیں ۔برصغیرکے مشاہیر اصحاب علم میں سے   شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی ، سید ندیر حسین محدث دہلوی، سیرسید ،مولانا ابو الکلام  آزاد، علامہ اقبال ، مولانا غلام رسول مہر اور دیگر بے شمار  حضرات کے خطوط کتابی صورت میں مطبوع  ہیں  اور نہایت دلچسپی سے  پڑ ھےجاتے ہیں۔ابتدائے اسلام کے خطوط  میں سے کسی ایک  کے بارے میں   یقین کے ساتھ یہ کنہا مشکل ہے کہ  و ہ اپنی  لفظی ومعنوی شکل میں ویسا  ہی ہے  کہ جیسا ان کو لکھا گیا تھا۔اس میں شک نہیں  کہ یہ خطوط ہمارے پاس مکتوب ومدون شکل میں آئے  ہیں لیکن قید تحریر میں آنے سے پہلے بہت عرصہ تک وہ سینہ بہ سینہ اور زبان بہ زبان نقل ہوتے رہے  ۔سینہ بہ سینہ انتقال کے دوران بعض خطوط کے مضمون بڑھ گئے اور بعض کے گھٹ گے اور بعض کے بدل گئے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کے سرکاری خطوط‘‘  ڈاکٹر خورشید احمد فاروق کی مرتب شدہ ہے اس میں  حضرت ابو بکر صدیق﷜کے 70 خطوط ہیں۔ اولاً  ان میں سے  پنتالیس خطوط برہان  دہلی میں شائع ہوئے  بعد ازاں ان  میں اضافہ کرکے ان کو کتابی صورت میں شائع کیا گیا فاضل مصنف  نے ان خطوط کی عربی عبارتیں بھی کتاب کے آخر میں درج کردی ہیں۔ ان خطوط  کے سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے  کہ   جو خط جتنا  زیادہ مختصر ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کے اصل سے قریب ہونے کا امکان ہے  اور جو خط جنتا بڑا اور طویل ہوگا اس میں اضافہ اور راویوں کے تصرف کا اتنا ہی  زیادہ احتمال ہے ۔اوران  خطوط  کی استنادی حیثیت قوی نہیں ہے ۔نیٹ پر ان   کو محفوظ  کرنے کی  خاطر سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1728 #5590

    مصنف : قاضی اطہر مبارکپوری

    مشاہدات : 5191

    دیار پورپ میں علم اور علماء

    (پیر 17 ستمبر 2018ء) ناشر : دار البلاغ، انڈیا
    #5590 Book صفحات: 515

    مسلم دورِ حکومت میں دہلی کےمشرق میں صوبۂ الہ آباد ، صوبہ او دھ اور صوبۂ عظیم آباد پر مشتمل جو وسیع او رمحدود خطہ  ہےاس کو  پُورب  کہا جاتا ہے۔ہر صوبہ  میں دار الامارت ، ہر دار الامارت  سے متعلق بڑے بڑے شہر ہر شہر میں متعلق قصبات  اور ہر قصبہ کسے متعلق دیہات تھے ۔ملک پُورب کےقصبات شہروں کےحکم میں تھےجن میں عالیشان عمارتیں، شرفاء کےمحلات  ، علماء، مشائخ ، مختلف قسم کےپیشہ ور ، مدارس اور مساجد تھیں جو جمعہ وجماعت سے  معمور تھیں اسی ملک کو دیار پُورب سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ سلطان محمود غزنوی کی  مسلسل فتوحات  کےزمانہ میں ہندوستان کا یہ علاقہ(دیار پورب)اسلام او رمسلمانوں سےآشنا ہوچکا تھا۔ خاص  طور سے بنارس کی فتوحات نے ان اطراف میں بڑی اہمیت اختیار کر لی تھی۔ ا س کےبعد  سالار مسعود غازی علوی اور ان کے رفقاء کی مجاہدانہ سرگرمیوں کی وجہ سے یہ اسلام اور مسلمانوں کاشہرہوا۔ زیر نظر کتاب ’’ دیارِ پُورب میں علم اور علماء‘‘ مبارکپور کے معروف سیرت نگار ومؤرخ جناب قاضی اطہر مبارکپوری ﷫کی  تصنیف ہے۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں  شیرازِ ہند پُورب کی سات سوسالہ اسلامی تاریخ کے  چار علمی ادوار قائم کر کے ہر دور  کی علمی دینی سرگرمی اوراربابِ عمل وفضل وکمال کا اجمالی تعارف کرایا ہے۔اس کےبعد اس دیار کےکئی خانوادہ ہائے علم وفضل کےعلماء  ومشائخ، ان کے اساتذہ وتلامذہ معاصرین اور متعلقین کاتذکرہ درج کیا ہے ۔جس سے سر زمین پوُرب میں غلام سلطنت کے قیام سےلے کر نوابئ اَودھ کےخاتمہ تک کی علمی دو دینی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔پُورپ اور علمائے پورپ کےتعارف پر یہ اولین کتاب ہے۔(م۔ا)

  • 1729 #5589

    مصنف : خورشید احمد فاروق

    مشاہدات : 3878

    برصغیر اور عرب مورخین

    (اتوار 16 ستمبر 2018ء) ناشر : نفیس اکیڈمی کراچی
    #5589 Book صفحات: 373

    ہندوستانی موضوعات  پرلکھنے والے عہد وسطی کے عرب مصنفین ہندوؤں کو علم ودانش سے آراستہ قوم قرارد یتے ہیں۔ ان مصنفین نےہندو زندگی  سے متعلق موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔عربوں  نےقدیم ہندوستان کے بارے میں کیا اور کتنا لکھا یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ  ان  کی بہت سے اور بالخصوص معرکۃ الآراء کتابیں تنگ ذہن  علماء کےتعصب ،بے اعتنائی ، باہمی مسلکی او رمذہبی نزاع اور دوسرے آسمانی حوادث کی  نذر ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں  نےاپنے  ابتدائی دور میں  سندھ کو ایک نئی تہذیب او ر کلچر سے آشنا کیاتھا  ۔ اس کی  تفصیل مختلف مؤرخوں کے بیانات سے ملتی ہے۔ جناب خورشید احمد فاروق کی زیر کتاب ’’ برصغیر او رعرب مؤرخین‘‘  مختلف مؤرخوں کےایسے ہی بیانات کا مجموعہ ہے۔ نیزیہ کتا ب محمود غزنوی سے پہلے کے ہندوستان (نویں،دسویں صدی عیسوی) کے مذہب ، تمدن ، علوم ، تاریخ اور تجارت وغیرہ سے متعلق عرب مؤلفوں کے بیانات پر مشتمل ہے۔تاکہ  اس  سے  وہ محققین مستفیض ہوسکیں جو یا تو عربی نہیں جانتے یا پھر  جن کےلیے مختلف عربی  ماخذات  تک رسائی حاصل کرنا نہایت مشکل ہے ۔(م۔ا) 

  • 1730 #5455

    مصنف : کشور ناہید

    مشاہدات : 4643

    عورت زبان خلق سے زبان حال تک

    (ہفتہ 15 ستمبر 2018ء) ناشر : سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
    #5455 Book صفحات: 358

    اللہ  تعالی نے  عورت کو معظم بنایا لیکن جاہل انسانوں نےاسے لہب ولعب کاکھلونا بنا دیا  اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے  مصائب ومکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں  پھینک دی گئی لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی ۔محسن انسانیت جناب رسول اللہ  ﷺ  نے  انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا عورتوں کو ظلم ،بے حیائی ، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے  حقوق اجاگر کیے ماں،بہن ، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سےان کےفرائض بتلائے  اورانہیں شمع خانہ بناکر عزت واحترام کی سب سےاونچی  مسند پر فائز کردیااور  عورت و مرد کے شرعی احکامات کو  تفصیل سے بیان کردیا ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ عورت زبانِ خلق سے زبان حال تک ‘‘ عورت سے متعلق 26 موضوعات پر منفرد تحقیقی مضامین کا  مجموعہ ہے  محترمہ کشورناہید صاحبہ نے  ان  مضامین  کو مختلف مطبوعہ کتب سے   انتخاب  کر کے اس کتاب  میں شامل کیا اورکچھ خاص  موضوعات پر تحقیق کے ذریعے لکھوائے  گئے۔چند مضامین میں برصغیر کے بنیادی حوالے ہیں ۔ دیگر مضامین میں بین الاقوامی منظر کے توسط ، عورت اور مرد کےمقام کا تجزیہ کیا گیا ہے  اور تضادات کو سامنے لایاگیا ہے۔اس کتاب  کےمندرجات سے  ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں کیوں اس کتاب  کےاکثر مضامین  مغرب  زدہ  جدید  زہن رکھنے والی خواتین کے  افکار ونظریات پر مشتمل ہیں ۔ محض معلومات اور ا ن  افکار وخیالات پر  نقد کی خاطر اس   کتا ب کو سائٹ پر پبلش کیا  گیا ہے ۔(م۔ا)

  • 1731 #5588

    مصنف : ابن عبدالشکور

    مشاہدات : 19628

    آئینہ سیرت حضرت انس بن مالک ؓ عنہ

    (جمعہ 14 ستمبر 2018ء) ناشر : مکتبہ خلیل غزنی سٹریٹ لاہور
    #5588 Book صفحات: 509

    خادم  رسول ﷺ  سیدنا انس بن مالک ﷜ قبیلہ نجار سے تھےجو انصار مدینہ کا معزز ترین خاندان تھا،ان کنیت ابو حمزہ تھی سیدنا  انس ﷜ کی والدہ ماجدہ کا نام ام سلیم سہلہ بنت لمحان انصاریہ ہے جوکہ رشتہ میں وہ آنحضرتﷺ کی خالہ تھیں۔ سیدنا انس  ﷜ہجرت نبویﷺ سے دس سال پیشتر یثرب میں پیدا ہوئے 8،9 سال کی عمر تھی کہ ان کی والدہ   نے اسلام قبول کرلیا، ان کے والد بیوی سے ناراض ہوکر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا،ماں نے دوسرا نکاح ابو طلحہ انصاری سے کرلیا جن کا شمار قبیلۂ خزرج کے امیر اشخاص میں تھا اوراپنے ساتھ انس کو ابو طلحہ کے گھر لے گئیں، انس نے انہی کے گھر میں پرورش پائی۔ہجرت کے کچھ عرصے بعد ان کی والدہ نے انہیں بطور خادم نبی  کریم  کے سپرد کردیا۔ اس وقت ان کی عمر دس برس کی تھی۔ سیدنا  انس ﷜ زندگی بھر نبی کریم ﷺ  کے خادم رہے۔آپﷺ کی وفات تک اپنے فرض کو نہایت خوبی سے انجام دیا ،سفر وحضر اورخلوت وجلوت کی ان کے لیے کوئی تخصیص نہ تھی۔نزول حجاب سے پہلے وہ آنحضرتﷺ کے گھر میں آزادی کے ساتھ آتے جاتے تھے۔وہ کم وبیش دس برس حامل نبوتﷺ کی خدمت کرتے رہے اورہمیشہ اس شرف پر ان کو ناز رہا۔ سیدنا انس﷜  تقریباً تمام غزوات  میں شریک ہوئے۔غزوہ بدر میں کم سن ہونے کے باوجود شریک تھے۔ غزوہ خیبر میں انس،ابوطلحہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے اورآنحضرت ﷺ سے اس قدر قریب تھے کہ ان کا قدم آنحضرتﷺ کے قدم سے مس کررہا تھا،8ھ میں مکہ اور طائف میں معرکوں کا بازار گرم ہوا اور 10ھ میں آنحضرتﷺنے حجۃ الوداع یعنی آخری حج کیا، ان سب واقعات میں انس نے شرکت کی ۔ خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق﷜ نے سیدنا  انس ﷜کو بحرین میں صدقات کا افسر بنا کر بھیجا۔  خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمرفاروق ﷜نے اپنے عہد خلافت میں انہیں تعلیم فقہ کے لیے ایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ کیا، اس جماعت میں تقریباً دس اشخاص تھے،سیدنا  انس ﷜ نے مستقل بصرہ میں سکونت اختیار کی اورزندگی کا بقیہ حصہ یہیں بسر کیا۔ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں رہنے کی وجہ سے آپ سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں زیادہ تر انہیں سے احادیث روایت کی ہیں۔ سید نا انس ﷜ سے  2286 احادیث منقول ہیں  جو مختلف کتب احادیث میں موجود ہیں ۔سیدنا انس بن مالک ﷜ نے سو برس سے زیادہ عمر پائی، بصرہ کے قریب ہی ایک مقام پر93ھ میں آپ کا انتقال ہوا، بصرہ میں آخری صحابی کی وفات آپ کی ہوئی۔عربی زبان میں  توصحابہ کرام ﷢ کے حالات واقعات  کے متعلق کئی کتب  موجود  جن ابن حجر عسقلانی ﷫  کی  کتاب ’’ الاصابہ فی تمیز الصحابہ ‘‘ قابل ذکر ہے ۔ اور اسی طرح  اردو زبا اسی نوعیت کی  کتاب  سیر الصحابہ بھی ۔ صحابہ کرام ﷢ کےایمان  افروز  تذکرے سوانح حیا ت کے  حوالے  سے  ائمہ محدثین او راہل علم   نے   کئی  کتب تصنیف کی  ہیں عربی زبان  میں  الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ  قابل ذکر ہیں  ۔اور اسی طرح اردو زبان میں  کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ اردو کتب میں  سے ایک کتاب ’’سیر الصحابۃ‘‘ ہے یہ کتاب 15 حصوں میں  نو مجلدات پر مشتمل۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ آئینہ سیرت  حضرت انس بن مالک ﷜‘‘ ابن عبد الشکور  کی کاوش ہے ۔مصنف نےا س کتاب میں  سیدنا انس بن مالک کی سیرت  ،ان کے عزیر واقاب  کا ذکر کرنے کے علاوہ   سیرت النبی ﷺ  کو اس میں شامل کیا ہے  اور نبی کریم ﷺ کے کئی صحابہ کرام ﷜ کا  بھی اس میں  تذکرہ موجود ہے اور حضرت انس بن مالک سے مروی رویات کو  موضوعات وعناوین  کے  تحت  اس کتاب میں درج کردیا ہے۔  (م۔ا) 

  • 1732 #5587

    مصنف : عرفان حسن صدیقی

    مشاہدات : 4816

    عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری

    (جمعرات 13 ستمبر 2018ء) ناشر : فیروز سنز، لاہور۔ کراچی
    #5587 Book صفحات: 242

    عدل  قرآن کی  کریم کی بنیادی اصطلاح ہے اوراہل ایمان کا بنیادی فریضہ ہے او رکسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر  وترقی کےلیے  عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے  ۔ اور عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی  ذمہ  ذاری ہے ۔ جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع  قمع اور جھگڑوں کا  فیصلہ کیا جاتا ہے  اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے  اور  دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں  ۔تاکہ معاشرے  کے ہرفرد کی جان  ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا  سکے ۔ یہی وجہ ہے  اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء ﷩ کی سنت  بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے  لوگوں میں فیصلہ کرنے کا  حکم  دیتےہوئے  فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ  کی  نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔ زیر نظر  کتاب’’ عدل‘‘عرفان حسن  صدیقی صاحب  کی کاوش ہے ۔یہ کتاب  12 ابواب پر مشتمل  ہے فاضل مصنف نے  عدل  کے  تصور کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے  اور بڑی محنت سےقرآن وحدیث  سے عدل  کے موضوع پر   مواد کو  مرتب کیا ہے ۔اس میں کائنات اور انسانی  زندگی میں عدل کی کارفرمائیوں کے علاوہ اسلامی ریاست میں عدلیہ کےمقام او رعدلیہ کی  مطلوبہ صفات پر قرآن  وحدیث کی روشنی میں  بحث کی  ہے ۔ اور اپنے ہر بیان کی تائید  میں قرآن حکیم کے حوالے   اور مثالیں دیں  ہیں ۔عصر حاضر کی اسلامی  حکومتوں کی رہنمائی  کے لیے اس کتاب  کے ایک  قیمتی باب  میں امیر المومین  خلیفہ ثانی  سید نا عمر فاروق﷜ کے دور حکومت میں عدل  کے نفاذ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔یہ کتاب محض اسلامی عدل  ہی کی نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کی شر ح ہے ۔(م۔ا) 

  • 1733 #5504

    مصنف : امیر الدین مہر

    مشاہدات : 5387

    منشیات اور ان کا سدباب جلد 2

    (منگل 11 ستمبر 2018ء) ناشر : دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی یونیورسٹی، اسلام آباد
    #5504 Book صفحات: 58

    شراب اور نشہ آور اشیاء معاشرتی آفت ہیں جو صحت کو خراب خاندان کو برباد،خاص وعام بجٹ کو تباہ اور قوت پیداوار کو کمزور کرڈالتی ہے۔ان کے استعمال کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ یہ اندازہ لگانا تو بہت مشکل ہے کہ انسان نے ام الخبائث کا استعمال کب شروع کیا اوراس کی نامسعود ایجاد کاسہرہ کس کے سر ہے ؟ تاہم اس برائی نے جتنی تیزی سے اور جتنی گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلائی ہیں اس کا ندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ تمام عالمی مذاہب نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔دین ِ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے شراب کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺ نےاس کے استعمال کرنے والے پر حد مقرر کی ہے یہ سب اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ مسکرات یعنی نشہ آور چیزوں سے پیدا شدہ خرابیوں کو روکا جائے ا ن کے مفاسد کی بیخ کنی اور ان کےمضمرات کا خاتمہ کیا جائے کتب احادیث وفقہ میں حرمت شرات اور دیگر منشیات اور اس کے استعمال کرنے پر حدود وتعزیرات کی تفصیلات موجود ہیں ۔ اور بعض اہل علم نے شراب اور نشہ اور اشیا ء پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔
    زیر تبصرہ کتابچہ ’’ منشیات اور ان کا سدِّ باب حصہ دوم ‘‘ مولانا امیر الدین مہر اور جناب مختار احمد کی مشترکہ تحریر ہے ۔یہ کتابچہ دو ابواب پر مشتمل ہے باب اول ادویات کا غلط استعمال اور منشیات کے استعمال کی وجوہات ،منشیات کے استعمال کی علامات کے متعلق ہے اور دوسرا باب منشیات کےسد باب اور نشہ میں مبتلا ہونے سے بچاؤ کی تدابیر کے متعلق ہے ۔یہ حصہ دوم ہے اگر کسی بھائی کے پاس اس کا حصہ اول ہو تو وہ ہمیں فراہم کردے تاکہ اسے بھی سائٹ پر پبلش کردیا جائے ۔(م۔ا) حلال وحرام

     

  • 1734 #5508

    مصنف : عشرت حسین بصری

    مشاہدات : 4867

    تعلیم بطور ڈسپلن

    (منگل 11 ستمبر 2018ء) ناشر : الماس سنز
    #5508 Book صفحات: 243

    ڈسپلن انگریزی زبان کا لفظ ہے جو کہ لاطینی زبان کے لفظDisciple سے ماخوذ ہے ۔ اس کےلغوی معنیٰ شاگرد کے ہیں۔ڈسپلن فرد کی شخصیت کی ہمہ پہلونشو ونما کا اعلیٰ ترین حلقہ ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیمی ماحول میں ڈسپلن کا ماحول ہونا بہت ضروری ہے۔ ڈسپلن کا صحت مندانہ ماحوال فردکی شخصیت میں تنظیم وااطاعت اور ضبط نفسی جیسی اعلیٰ کرداری صفات پیدا کرتا ہے اور اسے قوم کا مطلوبہ فرد بناتا ہے ۔ڈسپلن کےذریعے ہی طلبہ کےکردار وشخصیت کو مطلوبہ مقاصد میں ڈھالا جاتا ہے اس سے فرد کے کردار کی تشکیل وتعمیر ہوتی ہے جو کہ نظم وضبط کےعمل کے بغیر ممکن نہیں ہے
    زیر نظر کتاب ’’ تعلیم بطور ڈسپلن ‘‘ جناب عشرت حسین بصری کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے علم تعلیم کو بطور ڈسپلن پیش کیا ہے ۔کتاب میں طلبہ و اساتذہ کےلیے جو موضوعات بیان کیے گئے ہیں وہ اپنی موزونیت کے اعتبار سےانتہائی اہم ہیں جس میں خصوصاً تعلیم بطور ڈسپلن اور اس کےتاریخی پس منظر،ڈسپلن کی ضرورت واہمیت، معیار اور خصوصیات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔نیز نصاب ڈسپلن ،ڈسپلن کی مختلف اشکال خصوصاً تعلیمی تھیوری ، فوکالٹ اور ڈیریڈا کے نظریات اور ان کےتعلیم پر اثرات اور تعلیمی ڈسپلن وتحقیق جیسے موضوعات پر تفصیلی مواد اس کتاب میں موجود ہے ۔(م۔ا)

  • 1735 #5485

    مصنف : ظفر الحسن

    مشاہدات : 4534

    تاریخ عالم کا ایک جائزہ

    (پیر 10 ستمبر 2018ء) ناشر : ارفع پبلشر
    #5485 Book صفحات: 143

    لغوی اعتبار سے کسی چیز کے واقع ہونے کاوقت بتانے کو تاریخ کہتے ہیں ۔علامہ اسماعیل بن حماد الجوہری فرماتے ہیں کہ ”تاریخ اور توریخ“ دونو ں کے معنیٰ وقت سے آگاہ کرنےکے ہیں ۔اصطلاح میں تاریخ اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ بادشاہوں ، فاتحوں اورمشاہیر کے احوال، گزرے ہوئے زمانہ کے بڑے اور عظیم الشان واقعات و حوادث، زمانہٴ گزشتہ کی معاشرت ، تمدن اور اخلاق وغیرہ سے واقفیت حاصل کی جاسکے۔ بعض حضرات نے اس سے وہ سارے اُمور بھی ملحق کردیے جو بڑے واقعات و حوادث سے متعلق ہوں، جنگوں ، امورِ سلطنت ،تہذیب و تمدن ، حکومتوں کے قیام ، عروج و زوال ، رفاہِ عامہ کے کاموں کی حکایت (وغیرہ) کو بھی تاریخ کہا گیا ہے۔تاریخ سے گزشتہ اقوام کے عروج و زوال ، تعمیر و تخریب کے احوال معلوم ہوتے ہیں، جس سے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت کا سامان میسر آتا ہے، حوصلہ بلند ہوتا ہے، دانائی و بصیرت حاصل ہوتی ہے اور دل و دماغ میں تازگی و نشو نما کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، غرض تاریخ اس کائنات کا پس منظر بھی ہے اور پیش منظر بھی، اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اس سے آئندہ کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں بهی خوب مدد ملتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے سامنے کون سے اُمور اور اہداف ہونے چاہئیں یہ بات تاریخ کے مطالعہ سے زیادہ اہم ہے۔ ہاں یہ بات ہے اُس قوم کے لیے جو تاریخ پڑھتی بھی ہو اور اُس سے سبق بھی لیتی ہو. تاریخ کو پڑھنا اور اُس کے نتائج اپنے زمانے میں محسوس کرنا اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا، زندہ قوموں کیلئے یہ تینوں کڑیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔قرآن مجید بھی تاریخ بشری کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ تلاوت کرنے والا اگر صاحب بصیرت ہو تو قرآن مجید اُس کے سامنے قوموں کی کامیابی اور ناکامی کے اصول رکھتا ہے۔ اپنے مخاطبین کے مسائل اُن کی تاریخ سے جوڑتا ہے۔ اُن کے سامنے اخلاقی اور عمرانی اصول رکھتا ہے۔ ترقی اور زوال کے اصول بتاتا ہے۔
    زیر نظر کتاب’’ تاریخ عالم کا ایک جائزہ ‘‘ دل ڈیورانٹ کی انگریزی کتاب The Lessons Of History کا اردو ترجمہ ہے ۔ اپنے موضوع میں بڑی اہم کتاب ہے یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب اپنے دور کی سب سے زیادہ بکنے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہے اس کی بیس لاکھ سے زیادہ جلدیں فروخت ہوچکی ہیں اور اس کا ترجمہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے ا س کتاب کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر پروفیسر ظفر المحسن پیر زادہ نے اسے انگریزی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ یہ کتاب 13 ابواب پر مشتمل ہے ان ابواب کے عنوانات حسب ذیل ہیں ۔مطالعۂ تاریخ کے بارے شبہات واعتراضات ، ارضیات اورتاریخ، حیاتیات اور تاریخ ، نسلیات اور تاریخ،کردار اور تاریخ،اخلاقیات اور تاریخ، مذہب اور تاریخ، معاشیات اور تاریخ،سوشل از اور تاریخ ، طرز حکومت اور تاریخ ، جنگ اور تاریخ،عروج وزوال، کیا انسان نے واقعی ترقی کی ہے ؟(م۔ا)

     

  • 1736 #5510

    مصنف : مرتضی احمد مے کش

    مشاہدات : 8492

    تاریخ اقوام عالم

    (پیر 10 ستمبر 2018ء) ناشر : مجلس ترقی ادب لاہور
    #5510 Book صفحات: 697

    علمی تحقیقات کے ذوق نے عصر حاضر کے انسان پر نئی نئی دریافتوں اور ایجادوں کے دروازے کھول دئیے ہیں ۔جدید انکشافات اور ایجادات نے نوع انسانی کو ایک کنبے اور سطح ارضی کو ایک محدود رقبے کی حیثیت دےدی ہے ہر انسان دنیا بھر کےدور دراز مقامات کی آوازیں اسی طرح سن سکتا ہے جس طرح اپنے ہمسائے کے گھر کی آوازیں سنتا ہے ۔ جدید ذارئع ابلاغ ہر شخص کو ہر صبح دنیا بھر کے حالات سے باخبر کردیتے ہیں۔ دنیا کےایک سرے میں واقعات وحالات کی تبدیلیاں فوری طور پر دوسرے سرے کی آبادیوں پ اثر ڈالتی ہیں ۔ انسان کے فکر وعمل کی تحریکیں عالم گیر حیثیتیں اختیار کررہی ہیں۔ان حالات میں محض کسی ایک قوم ایک گروہ یا ایک ملک کی تاریخ کا مطالعہ انسانی فکر ونظر میں وہ وسعت پیدا نہیں کرسکتا ہے جو موجودہ دور میں زندگی بسر کرنے کے لیے ضروری ہے ۔عصر حاضر کی عالم گیر تحریکات کو جو ساری دنیا کےانسانوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں اسے سمجھنے ، جانچنے اور پرکھنے کےلیے ہر فرد ، بشر کو نوع انسانی کی تاریخ سے آگاہ ہونا ضروری ہے ۔ تاکہ اس کے فکر کی قوتوں میں عصر حاضر کی تحریکات کی صحیح طور پر جائزہ لینے کی اہلیت پیدا ہو اور اس کا زاویہ نگاہ وسیع ہوجائے۔یورپی اقوام کے لٹریچر میں ہرقوم ، ہر ملک اور چھوٹے بڑے موجود یا گزشتہ گروہ کی بیسیوں مبسوط اورجامع تاریخوں کےعلاوہ نوع بشر کےتاریخی حالات یک جا بتا نےوالی متعدد کتابیں موجود ہیں ۔جبکہ تاریخ کی ایسی کتابوں سے اردو زبان کا دامن تہی نظر آتا ہے ۔
    زیر تبصرہ کتا ب’’ تاریخ اقوام عالم ‘‘ مرتضیٰ احمد خاں مے کش کی تصنیف ہے اس کتاب میں انہوں نے اقوام عالم کے حالات کی ایک مجمل داستان رقم کردی ہے ۔اس کتاب کے استفادہ سے قارئین کو اقوام عالم کی سرگزشت اور مختلف ادوار میں انسانی زندگی کے کوائف وافکار کے متعلق عام واقفیت حاصل ہوسکتی ہے ۔اورہر شخص کو اپنے ملک ، اپنی قوم ، اپنے جامعہ، اپنے مذہب اوراپنے سماجی افکار کی صحیح صحیح تاریخ معلوم ہوسکتی ہے ۔۔(م۔ا) تاریخ

     

  • 1737 #5484

    مصنف : پروفیسر محمد سلیم

    مشاہدات : 15758

    تاریخ نظریہ پاکستان

    (اتوار 09 ستمبر 2018ء) ناشر : ادارہ تعلیمی تحقیق مزنگ لاہور
    #5484 Book صفحات: 315

    نظریہ پاکستان سے مراد یہ تصور ہے کہ متحدہ ہندوستان کے مسلمان، ہندوؤں، سکھوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ہر لحاظ سے مختلف اور منفرد ہیں ہندوستانی مسلمانوں کی صحیح اساس دین اسلام ہے اور دوسرے سب مذاہب سے بالکل مختلف ہے، مسلمانوں کا طریق عبادت کلچر اور روایات ہندوؤں کے طریق عبادت، کلچر اور روایات سے بالکل مختلف ہے۔ اسی نظریہ کو دو قومی نظریہ بھی کہتے ہیں جس کی بنیاد پر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔پاکستان کی تاریخ پر لکھی ہوئی کتابوں میں عموماً منفی نقطۂ نظر پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ مسلمانان ہند وپاکستان کی عظیم تاریخ ساز جدو جہدکو محض منفی رد عمل بتانا ان کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
    زیر نظر کتاب ’’ تاریخ نظریہ پاکستان ‘‘ محترم جناب پروفیسر سید محمد سلیم کی کاوش ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں مطالعہ پاکستان کےلیے مثبت بنیادوں کو نمایاں کیا ہے مزیدبرآں پاکستان کی جدوجہد کو ملت اسلامیہ کی عمومی تاریخ سےمربوط انداز میں پیش کیاگیا ہے ۔اکثر مصنفین اور محققین نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کا فہم حاصل کرنےمیں ناکام رہے ۔تحریک پاکستان کے حقیقی محرکات دریافت نہ کرسکے اور اسی باعث جدّوجہد پاکستان کی صحیح تاریخ لکھنے سے قاصر رہے ۔ کتاب ہذا کےمصنف کے پیش نظر قیام پاکستان کی صحیح مگر مختصر تاریخ لکھنا ہے ۔ بعید اور قریب عوامل کی نشاندہی کرنا ہے ہندوستان میں دستوری اصلاحات کا ارتقاء یا مسلم لیگ کی تاریخ لکھنا پیش نظر نہیں ہےبلکہ نظریہ پاکستان کے ارتقاء کو واضح کرنا ہے ۔(م۔ا)

  • 1738 #5509

    مصنف : عبد الرحمن فاتح

    مشاہدات : 6055

    ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کی تاریخ

    (اتوار 09 ستمبر 2018ء) ناشر : نیو بک پلس
    #5509 Book صفحات: 208

    ترقی یافتہ ملک یا زیادہ ترقی یافتہ ملک ایک خود مختار ملک ہے جس کی معیشت انتہائی ترقی یافتہ اور کم ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں اسکا بنیادی ڈھانچہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔اور کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے اور اس کو اپنے ملک کی ترقی کیلئے ناگزیر نہیں سمجھ لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہم جائزہ لیں تو وہی ملک ترقی کی بلندیوں پر نظر آتے ہیں جنہوں نے علم کی اہمیت کو تسلیم کیا۔چونکہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ علم کے بغیر کسی شعبہ میں انسان ترقی و تعمیرکا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں معاشی واقتصادی ترقی کے لیے بھی اگر جدید علوم ، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق ومعلومات نہ ہوں تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اس لئے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
    زیر تبصرہ کتا ب’’ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کی تاریخ‘‘ جناب عبد الرحمٰن فاتح کی تصنیف ہے کتاب کا طرزِ بیان دلنشیں اور عام فہم ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں سات ترقی یافتہ ممالک ( فرانس ، چین ، جاپان ،انگلستان ،جرمنی ، سوویت یونین ،امریکہ) کی معاشی ترقی کو جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہےاور گرافوں اور گوشواروں سے مدد لی ہے یہ کتاب پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے ایم اے معاشیات کے پرچہ ’’ ترقی یافتہ ممالک کی معاشی ترقی کی تاریخ‘‘ کے سلیبس کے مطابق مرتب کی گئی ہے طلبہ وطالبات کے لیے اس کتاب کا مطالعہ پاکستان کی اقتصادی ترقی اور منصوبہ بندی کےسلسلہ میں مفید ہے کیونکہ اس طرح طالب علم ترقی یافتہ ممالک سے پاکستان کا موازنہ کر کے ان خامیوں کو تلاش کرسکتا ہے جو ہماری معیشت اور منصوبہ بندی میں ہیں۔(م۔ا)

  • 1739 #5486

    مصنف : محمد حسین ہیکل

    مشاہدات : 13425

    سیدنا حضرت ابو بکر صدیق

    (ہفتہ 08 ستمبر 2018ء) ناشر : طاہر سنز اردو بازار لاہور
    #5486 Book صفحات: 364

    سیدنا ابوبکر صدیق قبیلہ قریش کی ایک مشہور شاخ تیم بن مرہ بن کعب کے فرد تھے۔ساتویں پشت میں مرہ پر ان کا نسب رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے ہے ۔ایک سچے مسلمان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ انبیاء ورسل کے بعد اس کائنات میں سب سے اعلیٰ اور ارفع شخصیت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں ۔ سیدنا ابو بکر صدیق ہی وہ خو ش نصیب ہیں جو رسول اللہﷺ کےبچپن کے دوست اور ساتھی تھے ۔آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل کی اور زندگی کی آخری سانس تک آپ ﷺ کی خدمت واطاعت کرتے رہے اور اسلامی احکام کے سامنے سرجھکاتے رہے ۔ رسول اللہ سے عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت کے لیے تن من دھن سب کچھ پیش کر دیا ۔نبی کریم ﷺ بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے ۔آپ ﷺ نے ان کو یہ اعزاز بخشا کہ ہجرت کے موقع پر ان ہی کو اپنی رفاقت کے لیے منتخب فرمایا۔ بیماری کے وقت اللہ کے رسول ﷺ نے حکماً ان ان کو اپنے مصلیٰ پر مسلمانوں کی امامت کے لیے کھڑا کیا اورارشاد فرمایا کہ اللہ ابو بکر صدیق کے علاوہ کسی اور کی امامت پر راضی نہیں ہیں۔خلیفہ راشد اول سیدنا صدیق اکبر نے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں ہر قدم پر آپ کا ساتھ دیا اور جب اللہ کے رسول اللہ وفات پا گئے سب صحابہ کرام کی نگاہیں سیدنا ابو بکر صدیق کی شخصیت پر لگی ہو ئی تھیں۔امت نے بلا تاخیر صدیق اکبر کو مسند خلافت پر بٹھا دیا ۔ تو صدیق اکبر ؓ نے مسلمانوں کی قیادت ایسے شاندار طریقے سے فرمائی کہ تمام طوفانوں کا رخ اپنی خدا داد بصیرت وصلاحیت سے کام لے کر موڑ دیا اور اسلام کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگا دیا۔ آپ نے اپنے مختصر عہدِ خلافت میں ایک مضبوط اور مستحکم اسلامی حکومت کی بنیادیں استوار کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے بعد اس کی سرحدیں ایشیا میں ہندوستان اور چین تک جا پہنچیں افریقہ میں مصر، تیونس او رمراکش سے جاملیں اوریورپ میں اندلس اور فرانس تک پہنچ گئیں۔سیدنا ابو بکر صدیق کی زندگی کے شب وروز کے معمولات کو الفاظ کے نقوش میں محفوظ کرنے سعادت نامور شخصیات کو حاصل ہے۔
    زیر تبصرہ کتاب’’سیدنا حضرۃ ابو بکر صدیق ‘‘ محمد حسین ہیکل کی خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق کی سیرت وسوانح ،خدمات پر انگریزی تصنیف کا اردو ترجمہ ہےاس کتاب میں انہوں نے سیدنا ابو بکر صدیق کی حیات مبارکہ کے تعارف،آپ کی خلافت کی تشریح آپ کی حکمت عملیوں کو واضح کوبڑے احسن انداز میں واضح کر دیا ہے کتاب ہذا کے مصنف موصوف نے اس کتاب کے علاوہ سیرت النبی ﷺ پر حیات محمدﷺ کےنام سے اور سیدنا عمر فاروق ،سیدنا عثمان غنی ، سیدنا علی المرتضیٰ کی سوانح حیات بھی کتب تصنیف کی ہیں ۔ اللہ تمام اہل اسلام کو صحابہ کرام کی طرح زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین) (م۔ا)

  • 1740 #5507

    مصنف : ڈاکٹر پروین خان

    مشاہدات : 8130

    صحت اور غذائیت

    (ہفتہ 08 ستمبر 2018ء) ناشر : علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
    #5507 Book صفحات: 310

    خوراک یا غذاء سے مراد نشاستوں ،اشحام ، لحمیات اور پانی پر مشتمل کوئی بھی ایسی چیز ہے جسے انسان یا حیوان غذائیت کیلئے کھا یا پی سکیں۔ اس کے علاوہ خوراک سے مراد کسی بھی قسم کے کھانے کی چیز بھی لی جاسکتی ہے۔کھانا کھانے کا بنیادی مقصد جسم کووہ ایندھن مہیا کرنا ہے جس سے انسانی مشین چلتی ر ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ جسم جب تک زندہ ہے یہ ایک توانائی سےچلنے والی مشین ہے ۔اور اس غذا سے ہی ہر جاندار کی صحت برقرار رہتی ہے ۔
    زیر تبصرہ کتاب ’’ صحت اور غذائیت ‘‘ ڈاکٹر پروین خان کی تصنیف ہے یہ کتاب انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد کے بی۔ ایس۔ سی کے نصاب کے لیے مرتب کی ہے ۔ اس کتاب میں عمر کے مختلف حصوں میں غذائی اجزاء کی روزہ مرہ ضروریات جیسے اہم موضوع پر تفصیلاً روشنی ڈالی ہے بالخصوص چھوٹے بچوں کی غذائی ضروریات پر تبصرہ کیا گیا ہے ۔ جو کہ موجودہ دور کی ماؤں کےلیے رہنمائی کا باعث ہے ۔(م۔ا) 

     

  • 1741 #5487

    مصنف : عبدالکریم ثمر

    مشاہدات : 3736

    رسول کائنات سید دارین حضرت محمد مصطفیٰ

    (جمعہ 07 ستمبر 2018ء) ناشر : جمہوری پبلیکیشنز لاہور
    #5487 Book صفحات: 178

    اس روئے ارض پر انسانی ہدایت کے لیے حق تعالیٰ نے جن برگزیدہ بندوں کو منتخب فرمایا ہم انہیں انبیاء ورسل﷩ کی مقدس اصطلاح سے یاد رکرتے ہیں اس کائنات کے انسانِ اول اور پیغمبرِاول ایک ہی شخصیت حضرت آدم کی صورت میں فریضۂ ہدایت کےلیے مبعوث ہوئے ۔ اور پھر یہ کاروانِ رسالت مختلف صدیوں اور مختلف علاقوں میں انسانی ہدایت کے فریضے ادا کرتے ہوئے پاکیزہ سیرتوں کی ایک کہکشاں ہمارے سامنے منور کردیتاہے ۔درخشندگی اور تابندگی کے اس ماحول میں ایک شخصیت خورشید جہاں تاب کی صورت میں زمانےاور زمین کی ظلمتوں کو مٹانے اورانسان کےلیے ہدایت کا آخری پیغام لے کر مبعوث ہوئی جسے محمد رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں ۔ آج انسانیت کےپاس آسمانی ہدایت کا یہی ایک نمونہ باقی ہے۔ جسے قرآن مجید نےاسوۂ حسنہ قراردیا اور اس اسوۂ حسنہ کےحامل کی سیرت سراج منیر بن کر ظلمت کدۂ عالم میں روشنی پھیلارہی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔حضرت محمد ﷺ ہی اللہ تعالیٰ کے بعد ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پوراسامان رکھتی ہے ۔ انسان کے لکھنے پڑھنے کی ابتدا سے اب تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے سوانح وسیرت سے متعلق دنیا کی مختلف زبانوں میں جس قدر محمد رسول اللہ ﷺ سے لکھا جاچکا ہے اور لکھا جارہا ہے ۔اردو زبان بھی اس معاملے میں کسی بھی زبان سے پیچھے نہیں رہی اس میں حضورﷺ سے متعلق بہت کچھ لکھا گیا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے ۔حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر ابن اسحاق اورابن ہشام سے لے کر گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد بھی کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔یہ سب اس بات کا بیّن ثبوت ہے کا انسانوں میں سے ایک انسان ایسا بھی تھا اور ہے کہ جس کی ذات کامل واکمل پر جس قدر بھی لکھا جائے کم ہے اور انسانیت اس کی صفات ِ عالیہ پر جس قدر بھی فخر کرے کم ہے ۔
    زیر تبصرہ کتاب ’’ رسول کائنات سید دارین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ‘‘تحریک پاکستان کےسرگرم رکن جناب عبد لکریم ثمر کی پنجابی زبان میں لکھی سیرت نبوی ’’سچی سرکارﷺ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے یہ اردو ترجمہ بھی مصنف نے خود ہی کیا تھا ۔اس کتاب میں نبی آخر الزماں ﷺ کی ولادت ، خاندان ، اہم تاریخی واقعات ، دین کی تبلیغ ، غزوات ، عہد نبوی کی تعمیرات الغرض دور نبوت کے تمام اہم امور اور پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مصنف کتاب عبد الکریم ثمر بنیادی طور پر شاعر تھے ۔ان کی شاعری حب الوطنی اوراسلامی جذبے سے سرشار تھی۔ مصنف کو اس کتاب کی تالیف پر کتب سیرت النبی کے قومی مقابلہ برائے1404ھ میں خصوصی انعام سے بھی نوازا گیا ہے۔(م۔ا)

     

  • 1742 #5505

    مصنف : ذو الفقار علی ملک

    مشاہدات : 4649

    اورنٹیل کالج میگزین 1990ء(پروفیسر عبدالقیوم نمبر)

    (جمعہ 07 ستمبر 2018ء) ناشر : یونیورسٹی اورینٹل کالج
    #5505 Book صفحات: 274

    پروفیسر عبد القیوم﷫ علمی دنیا خصوصاً حاملین علو مِ اسلامیہ و عربیہ کے حلقہ میں محتاج تعارف نہیں ۔ موصوف 1909ء کو لاہور کے ایک معزز کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد میاں فضل دین علماء وفضلا کے خدمت گذار اور بڑے قدر دان تھے ۔پروفیسر صاحب کے ایک بھائی پروفیسر عبد الحی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ ،لاہور کے پرنسپل اور تین بھائی پاکستان کی فضائیہ میں ذمہ دار عہدوں پر فائزہ رہے ۔ سب سے بڑے بھائی عبد اللہ بٹ مشہور صحافی جو لاہور کی علمی ،ادبی اور سیاسی محفلوں کی جان تھے۔پروفیسر مرحوم کےخاندان کی علمی اور دینی یادگاروں میں مسجد مبارک کی تاسیس اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں حصہ لینابھی شامل ہے ۔ جس میں پروفیسر صاحب کے والد محترم او رنانا مولوی سلطان دونوں کابڑا حصہ ہے ۔آپ کےخاندان کی نیک شہرت کا اندازہ اس ا مر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کےہاں متعدد اہل علم ، مثلاً مولانا محمد حسین بٹالوی،مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی،مولانا قاضی سلیمان سلمان منصورپوری، مولانا سید سلیمان ندوی ، شیخ الاسلام مولانانثاء اللہ امرتسری﷭ جب بھی لاہور آتے تو ان کے ہاں قیام کرتے ۔اس طرح پروفیسر صاحب نے دینی اور علمی ماحول میں پرورش پائی۔پروفیسر صاحب نے ابتدائی عمر میں قرآن مجیدناظرہ پڑھنے کےبعد اپنی تعلیم کا آغاز منشی فاضل کےامتحان سےکیا۔1934ء میں اورنٹیل کالج سے ایم عربی کا امتحان پاس کیا۔اور پھرآپ نے1939ء سے لے کر1968ء تک تقریباتیس سال کا عرصہ مختلف کالجز میں عربی زبان وادب کی تدریس اور تحقیق میں صرف کیا ۔ لاہور میں نصف صدی سے زیادہ انہوں نےتعلیم وتعلّم کی زندگی گزاری۔ موصوف 1947ء کے بعد تقریباً اکیس برس تک یونیورسٹی اورنٹیل کالج کے شبعہ میں عربی میں بلامعاوضہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ر ہے اور اس کےبعداکیس برس تک شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کےادارۂ تحریر کے ممتاز رکن رہے ۔ان کی تدریس سے سیکڑوں نہیں ہزاروں طلبہ واور طالبات نے فیض پایاان کے سیکڑوں شاگرد تعلیم تدریس اورتحقیق کے میدان میں مصروف عمل ہیں ۔علمی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی توجہ محبت اور خدمت کا مرکز کالج کی سرگرمیاں ، مقالات نویسی اور مسجد مبارک تھی جس کی وہ بے لوث خدمت کرتے رہے ۔اور مختلف ادوار میں انہوں نے علمی وتحقیقی مقالات بھی تحریر کیے ۔پروفیسر صاحب تقریباً دس سال تک جامعہ پنجاب کی عربک اینڈ پرشین سوسائٹی کےسیکرٹری رہے اور انہوں نے متعد کانفرنسوں میں اعلیٰ تخلیقی وتحقیقی مقالات پیش کیے ۔اور لسان العرب کا ایسا اشاریہ تیار کیا جسے اندروں وبیرون ملک کے ماہرین نےبے حد سراہا۔ ’’مقالات پروفیسر عبدالقیوم ‘‘ پروفیسر عبدالقیوم ﷫ کے تحریر کردہ علمی وتحقیقی مقالات کا مجموعہ ہے ۔ان مضامین کو موصوف نے خودہی مرتب کرنے کا آغاز کیا تھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی آپ چار ماہ بستر پر گزار کر 8ستمبر1989ء کواسی برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔بعد ازاں ان کےبیٹے میجر زبیرقیوم بٹ کے شوق وتعاون سے پرو فیسر موصوف کے شاگرد ڈاکٹر محمودالحسن عارف نے پروفیسر مرحوم کے بکھرے ہوئے مضامین اور بعض غیر مطبوعہ مقالات کو دو جلدو ں میں مرتب کیا۔ایک جلد علمی وتحقیقی مقالات اور دو سری جلد عام مضامین وخطبات پر مشتمل ہےیہ دونوں جلدیں کتاب وسنت سائٹ پر موجود ہیں۔۔اب ماشاء اللہ تقریباً دس سال سے پروفیسر عبد القیوم مرحوم کے بیٹے میجر زبیرقیوم بٹ اپنے وسیع کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے والد گرامی کی باقیات صالحات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں مسجد مبارک کےانتظام وانصرام کے علاوہ وہاں ایک تحقیقی ادارہ ’’ دار لمعارف ‘‘ کے نام سے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں تحقیق وتصنیف کا کام جاری ہے۔اس ادارے میں ریسرچ سکالرز کے لیے عربی مراجع مصادر کی عظیم الشان وسیع لائبریری بھی موجود ہے ۔
    زیر تبصرہ ’’اورنٹیل کالج میگزین‘‘ (جلد 64 شمارہ :1،2؍ 1990ء )کا خاص نمبر ہے جو پروفیسر عبد القیوم  کے علمی وتحقیقی کارناموں اوران کی خدمات جلیلہ پر مشتمل ہے۔ یہ خاص شمارہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک(پرنسپل یونیورسٹی اورنٹیل کالج ،لاہور) کی ادارت میں 1990ء میں شائع ہوا۔اس شمارے کے حصہ اول میں شیخ نذیر حسین ،مولانا فضل الرحمٰن بن محمد الازہری،ڈاکٹر محمود الحسن عارف، میجر زبیر قیوم بٹ ،مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھی  وغیرہ کے قیمتی مضامین شامل ہیں ۔اور دوسرے حصے میں ایسے موضوعات پرشیخ نذیر حسین ،ڈاکٹر محمود الحسن عارف کے تحقیقی مقالات شامل ہیں جن سے پروفیسر مرحوم کو زندگی بھر دلچسپی رہی۔اور آخری مقالہ انگریزی زبان میں خود مرحوم پروفیسر عبد القیوم صاحب کی غیر مطبوعہ تحریر ہے ۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر مرحوم کی مرقدپر رحمتوں کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائے اور ان کے بیٹے زبیر قیوم بٹ کے قائم کردہ ادارہ ’’ دار المعارف ‘‘ کو ان کےلیے صدقہ جاریہ بنائے اورزبیر بٹ صاحب کی دینی کاوشوں کو شرف قبولیت سے نوازے ۔(آمین)(م۔ا)

  • 1743 #5290

    مصنف : محمد سليم ساقی

    مشاہدات : 3140

    مقام و احترام قائد اعظم

    (جمعرات 06 ستمبر 2018ء) ناشر : نذیر سنز پبلشرز لاہور
    #5290 Book صفحات: 484

    قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو پید اہوئے۔ آپ ایک نامور وکیل، سیاست دان اور بانی پاکستان تھے۔۔ آپ 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے۔ آل انڈیا کانگرس اور آل انڈیا مسلم لیگ متحدہ ہندوستان میں اختیارات کے توازن کے لئے کسی صیغے پر متفق نا ہوسکے نتیجتاً تمام جماعتیں اس امر پر متفق ہوگئیں کہ ہندوستان کے دو حصے کئے جائیں جن میں ایک مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان جبکہ باقی ماندہ علاقوں میں بھارت کا قیام ہو اور آج اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے لیڈروں اور رہنماؤں کی سیرت کو اپنے بچوں کی زندگی کا حصہ بنائیں اور خدائے برتر رحمن ورحیم نے ہمیں ایک خطۂ زمین جو حسین مناظر اور قدرت کی فیاضیوں سے مالا مال ہے جہاں بلند پہاڑ اور ان کی سفید برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں تیز وتند دریا‘ زرخیز میدانی علاقے‘ معدنی دولت سے بھر پور ہیں اور کئی جگہوں میں خشک پتھریلے پہاڑ اور وسیع ریگستانی علاقے ہیں آسمانی ماحول چاند ستارے سیارے سب کے سب جگ مگ کرتے ہیں اور سورج کی روشنی فصلوں اور صحت کو فیضیاب کرتی ہے‘ قدیم تہذیبی‘ ثقافت لاثانی ہے اور خطہ زمین ذہانت اور قلبی لگاؤ کا ثبوت ہے کہ یہاں بزرگان دین مشعل اسلام بن کر آئے اور اسلام کا یہ خطہ قائد اعظم محمد علی جناح کی بڑی کاوشوں ‘ لگاتار جد وجہد‘ سیاسی قوت‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی رہنمائی میں حاصل ہوا ۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص قائد اعظم کے حالات زندگی‘ کارناموں اور ان کی خدمات کی عکاسی کرتی ہے۔ اور اس کتاب میں قائد اعظم کے شخصیت پر کیے جانے والے اعتراضات اور الزامات کو بیان کر کے انہیں زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور دو قومی نظریے کے حامے اور منکرین کے نظریات اور شخصیات کو بیان کر کے قرآن وحدیث سے دو قومی نظریے کو بیان کرنے کی عظیم کاوش کی گئی ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ مقام و احترام قا ئد اعظم ‘‘ محمد سلیم سامی کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1744 #5291

    مصنف : پروفیسر محمد اسلم

    مشاہدات : 3501

    محمد بن قاسم اور اسکے جانشین

    (جمعرات 06 ستمبر 2018ء) ناشر : ریاض برادرز اردوبازارلاہور
    #5291 Book صفحات: 140

    مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک محمد بن قاسم  بھی ہیں۔اور تاریخ کسی بھی قوم کے عروج وزوال کی عینی شاہد ہوا کرتی ہے اور اس کے بنا ہر قوم نامکمل یا ادھوری کہلاتی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص محمد بن قاسم کے حوالے سے ہی ہے اور اس کتاب کو لکھنے والے مصنف بہت اچھے مؤرخ اور ادیب بھی ہیں ۔ مصنف نے اس کتاب میں تاریخ اور خاص طور پرپاک وہند اور بنگلہ دیش کے اسلامی دور کی تاریخ کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ اس میں انہوں نے عربی ماخذ کی مدد سے محمد بن قاسم کے بارے میں کئی نئے انکشافات کیے ہیں‘ اور باقی مؤرخین کے طرز سے ہٹ کر انہوں نے کئی نئے حقائق اور تاریخ کو کتاب کی زینت بنایا ہے۔یہ کتاب نہایت عرق ریزی کے ساتھ لکھی گئی ہے۔حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ محمد بن قاسم اور اسکے جانشین ‘‘ پروفیسر محمد اسلم کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1745 #5288

    مصنف : ابن عبدالشکور

    مشاہدات : 4156

    محافظ امت حضرت عثمان

    (بدھ 05 ستمبر 2018ء) ناشر : حرا پبلی کیشنز لاہور
    #5288 Book صفحات: 212

    سر آج کا دور مصرفیتوں کا دور ہے۔ ہماری معاشرت کا انداز بڑی حد تک مشینی ہو گیا ہے۔ زندگی کی بدلتی ہوئی قدروں سے دلوں کی آبادیاں ویران ہو رہی ہیں۔ فکرونظر کا ذوق اور سوچ کا انداز بدل جانے سے ہمارے ہاں ہیرو شپ کا معیار بھی بہت پست سطح پر آگیا ہے۔ آج کھلاڑی‘ ٹی وی اور بڑی سکرین کے فن کار ہماری نسلوں کے آئیڈیل اور ہیرو قرار پائے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کے وہ عظیم سپوت اور روشنی کی وہ برتر قندیلیں ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں۔ آج بڑی شدت سے اس بات کی ضرورت ہے کہ عہد ماضی کے ان نامور سپوتوں اور رجال عظیم کی پاکیزہ سیرتوں اور ان کے اُجلے اُجلے کردار کو منظر عام پر لایا جائے اور سیرت وکردار کی تعمیر میں ان کی زندگیوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی حوالے سے ہے جس میں حضرت عثمانؓ کی سیرت اور ان کے کردار کو بیان کیا گیا ہے کیونکہ صحابہ کرامؓ کی باکمال جماعت ان قدسی صفات انسانوں پر مشتمل تھی جن کے دلوں کی سر زمین خدا خوفی‘ خدا ترسی‘ جود وسخا‘ عدل ومساوات صدق وصفا اور دیانت داری سے مرصع ومزین تھی۔ صحابہ میں سے ایک بے مثال‘ حق کی تلاش میں مسلسل سر گرداں اور دنیا وآخرت کی سرفرازیوں سے نوازے جانے والے، حیاء کے پیکر حضرت عثمانؓ بھی ہیں۔اس کتاب کے لکھے جانے سے قبل حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی سیرت پر بہت سی عربی اور اردو کتب اور عربی کتب کا اردو ترجمہ منظر عام پر آ چکا ہے لیکن حضرت عثمانؓ کی سیرت پر کوئی بھی مربوط یا مبسوط کتاب نہیں لکھی گئی اس لیے یہ کتاب حضرت عثمانؓ کی سیرت کو اُجاگر کرتی ہے۔ اس میں ان کے نام ونسب اور تاریخ پیدائش سے لے کر وفات تک کے تمام حالات کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب سلاست اور روانی کی عجب شان رکھتی ہے۔حوالہ جات سے کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ محافظ امت حضرت عثمان ‘‘ ابن عبد الشکور کی مرتب کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1746 #5402

    مصنف : محمد موسی بھٹو

    مشاہدات : 3377

    مادیت کی دلدل اور بچاؤ کی تدابیر

    (منگل 04 ستمبر 2018ء) ناشر : سندھ نیشنل اکیڈمی ٹرسٹ
    #5402 Book صفحات: 140

    آج ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں‘ یہ مغربی تہذیب کے غلبہ کا دور ہے۔یہ تہذیب اپنے طاقتور آلات کے ذریعہ ملکی سرحدوں کی حدود‘ درسگاہوں اور گھروں کی دیواروں کو عبور کر کے‘ افراد کے دل کی گہرائیوں تک پہنچ  چکی ہے۔ عورت ومرد اس تہذیب کے مظاہر پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ اس تہذیب کی پیدا کردہ ایجادات نے اگرچہ انسان کو بہت ساری سہولتیں بھی پہنچائی ہیں‘ آمد ورفت اور رابطہ میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں‘ گرمی وسردی سے بچاؤ کےلیے انتظامات ہو گئے ہیں‘ خوبصورتی اور زیب وزینت کے نت نئے سامان ایجاد ہوئے ہیں‘ انسانی جسم کو لاحق بعض اہم بیماریوں کے علاج میں سہولتیں پیدا ہو گئی اور ظاہری روشنی اور چمک دمک میں اضافہ ہو ا ہے لیکن اس کے کئی ایک نقصانات بھی جیسا کہ رشتوں کی اہمیت گنوا دی گئی ہے لوگ ڈپریشن کے مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں اور مالداروں کو احساس برتری اور غریبوں کو احساس کمتری کے امراض میں مبتلا کر دیا گیا ہے غرض اس مادی تہذیب نے رونق اور زیب وزینت کے نت نئے سامان کی قیمت پر انسان کے دل اور روح کو آخری حد تک بے چین کر دیا ہے۔ دل روح کی بڑھتی ہوئی اس بے چینی نے ہی انسان سے انسانیت اور محبت ورواداری‘ ہمدردی اور مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آنے کی حسوں کو مسدود کر دیا ہے۔۔زیرِ تبصرہ کتاب  میں حقیقی بندہ مومن کے حالات‘ احساسات اور تفکرات کے حوالے سے انہی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور معاشرہ کی مختلف طبقات کی کمزوریوں کی بڑی دردمندی وفکر مندی اور تفصیل سے نشاندہی کر کے‘ اصلاح کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ مادیت کی دلدل اور بچاؤکی تدابیر ‘‘محمد موسیٰ بھٹو کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1747 #5477

    مصنف : ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری

    مشاہدات : 10798

    مغربی تہذیب ایک معاصرانہ تجزیہ

    (منگل 04 ستمبر 2018ء) ناشر : شیخ زاید اسلامک ریسرچ سنٹر جامعہ کراچی
    #5477 Book صفحات: 152

    مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا ۔ مغربی تہذیب اور اسلام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب فلسفہ کی بنیاد پر قائم ہے اور اسلام وحی کی بنیاد پر قائم ہے۔چنانچہ مغربی تہذیب کسی خاص مذہب کا نام نہیں جو الہامی یا خدائی تعلیمات پر عمل کرنے کامدعی ہو۔مغربی تہذیب اپنے اپنے مذہب پر نجی اور پرائیویٹ زندگی میں عمل کرنے کی اجازت ضرور دیتی ہے۔ لیکن یہ خاص مذہبی طرز فکر، عقائد اور وحی پر مبنی تعلیمات کا نام نہیں۔چنانچہ مغربی تہذیب کی بعض تعلیمات، دنیا کے تمام مذاہب کی مشتر کہ تعلیمات سے ہٹ کر بھی موجود ہیں۔ مثلاً شادی کے بغیر کسی عورت کے ساتھ تعلق تقریباً ہر بڑے مذہب میں شرم وحیا اور اخلاق کے منافی سمجھا گیا۔لیکن مغربی تہذیب اس کو کسی قسم کی ادنیٰ قباحت سمجھنے کو تیار نہیں۔ مادیت ، زرپرستی اور دولت سے انتہاء درجے کی محبت کو تمام مذاہب نے مذموم قرار دیا، لیکن مغربی تہذیب اس کو کسی قسم کا عیب سمجھنے کی روا دار نہیں۔
    زیر نظر کتاب ’’مغربی تہذیب ایک معاصرانہ تجزیہ ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری کے ان چار خطبات ؍لیکچرز کا مجموعہ ہے جو انہوں نے شیح زاید اسلامک سنٹر پنجاب یونیورسٹی ،لاہور کی دعوت پر 24،25؍ اپریل 2001ء کو منعقدہ خطبات لاہور کی مجلس میں پیش کیے۔موصوف معاشیات میں تخصص کے علاوہ جدید فلسفہ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک تعلیم وتدریس میں مصروف رہے۔ مغرب میں قیام کےدوران انہیں اس معاشرہ اور تہذیب کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا اور گہرائی سے اس کامطالعہ بھی کیا۔موصوف کے کتاب ہذا میں موجو د چاروں خطبات ان کے مطالعہ کی وسعت او ردین سے وابستگی کا بیّن ثبوت ہیں ۔ان کے خطبات کا مرکزی محور عصر حاضر کی بالا دست تہذیبوں کے اہداف ومقاصد کو اجاگر کرنا ہے ۔ عصری تہذیب کا ہدف مساوات اور جمہوریت کے خوش کن نعروں کے ساتھ سرمایہ دارانہ تہذیب کو ترقی پزیر معاشروں بالخصوص مسلمان معاشروں میں رواج دینا ہے ۔ ڈاکٹر صا حب نے دلائل وبراہین کے ساتھ ان خطبات میں اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب نے قوموں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو اخلاق عالیہ سے محروم کیا ہے اور رزائلِ اخلاق کو فروغ دیا ہے ۔ نیز انہوں نےاس حقیقت کوبھی واضح کیا ہے کہ عالمی غالب تہذیب کے مقاصد کے حصول کے لیے NGOs اور IMF جیسے ادارے ہر وقت معاونت کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔جس کے نتیجے میں نت نئی جسمانی وروحانی بیماریاں وعوارض روز افزوں ہیں ۔ان خطبات کا بنیادی پیغام یہ ہےکہ غلبہ اسلام کی تڑپ رکھنے والوں کےلیے ضروری ہے کہ وہ مغربی نظام فکر ،اس کی بنیادوں اور اس کے وسیلوں سے کما حقہ آگاہی حاصل کریں۔(م۔ا)مغربی تہذیب

     

  • 1748 #5478

    مصنف : سراج منیر

    مشاہدات : 3798

    ملت اسلامیہ

    (منگل 04 ستمبر 2018ء) ناشر : مکتبہ روایت لاہور
    #5478 Book صفحات: 238

    اسلامی تہذیب پانچ بنیادی عقائد پر مبنی ہے جو اجزائے ایمان بھی کہلاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی اور اصولی تعلیم ہے جو ہر زمانے کے نبی اپنے پیرو کاروں کو دیتے رہے ہیں ۔ اسلامی عقائد میں ایک خدا کو ماننا ، اس کے فرشتوں اور رسولوں ، آسمانی کتابوں اور آخرت کی زندگی پر ایمان لانا ضروری ہے ۔ اسلامی زندگی میں جوکام بھی بطور فرائض ( حکم ربی ، ہدایت رسول ﷺ) کیے جاتے ہیں وہ سب اسلامی تہذیب کے عنصر ہیں ۔ لہٰذ ا دین اسلام پر ایمان لانے والے شخص کی فکر اسلامی تعلیمات کے تابع ہوتی ہے اور یہی نظریات اس کی عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ نے ملتِ اسلامیہ کی زندگی کے ہر پہلو کے لئے راہنمائی فراہم کی ہے۔ ان میں سے ایک پہلو ثقافتی اور تہذیبی بھی ہے۔ دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کے مقابلے میں اسلام کی تہذیب و ثقافت بالکل منفرد اور امتیازی خصوصیات کی حامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ وہ اُصول و ضوابط اور افکار و نظریات ہیں جو نبی اکرم ﷺ نے اپنے اُسوہ حسنہ کے ذریعے اُمتِ مسلمہ کو عطا فرمائے ہیں۔ ثقافت کی تمام ترجہات میں اُسوہ حسنہ سے ہمیں ایسی جامع راہنمائی میسر آتی ہے جس سے بیک وقت نظری، فکری اور عملی گوشوں کا احاطہ ہوتا ہے۔ ایسی جامعیت دنیا کی کسی دوسری تہذیب یا ثقافت میں موجود نہیں ہے۔ مغربی مفکرین اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں اپنے تمام تر تعصبات کے باوجود اسلام کی عظیم الشان تہذیب اور ثقافت کی نفی نہیں کر سکے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ملت اسلامیہ تہذیب وتقدیر ‘‘ جناب سراج منیر صاحب کی تصنیف ہے ۔اس کتاب کو انہوں دس ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔ان ابواب کے عناوین حسب ذیل ہیں ۔ اسلامیہ اور ادیان سامیہ کا مزاج، تاریخ اسلامی ک مطالعے کا مغربی منہاج، تاریخ اسلام وحدت وکثرت کےاصول ،مطالعۂ تہذیب کے اصول،اسلامی تہذیب بنیادی مباحث، روایت اور ذہن جدید کی کشمکش،روایتی اسلامی تہذیب میں فنون کا تصور،اسلام میں فنون مقدسہ کی جمالیاتی بنیادیں،عہد جدید میں ملت اسلامیہ مسائل اور امکانات، اسلامی تہذیب ایک گفتگو ۔ آخری باب صاحب کتاب جناب سراج منیر اور تحسین فراقی صاحب کی اسلامی تہذیب کے متعلق باہمی گفتگو پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)

  • 1749 #5401

    مصنف : رؤف پاریکھ

    مشاہدات : 8820

    لغت نویسی اور لفات روایت اور تجزیہ

    (پیر 03 ستمبر 2018ء) ناشر : فضلی سنز کراچی
    #5401 Book صفحات: 347

    لغت میں کسی زبان کے الفاظ کو کسی خاص ترتیب کے لحاظ سے املا، تلفظ، ماخذ اور مادہ بیان کرتے ہوئے حقیقی، مجازی، یا اصطلاحی معنوں کے ساتھ درج کیا جاتا ہے۔ ضرورت کے مطابق الفاظ کی شکلوں میں تبدیلی اور صحیح محل استعمال کی وضاحت کی جاتی ہے۔لغت نویسی کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے بولنے والے افراد، گروہ یا جماعتیں، جب ایک دوسرے سے زندگی کے مختلف شعبوں میں ربط پیدا کرتی اور اسے برقرار رکھتی ہیں تو انھیں ایک دوسرے کی زبان کے الفاظ سیکھنے پڑتے ہیں۔ تعلقات کے استحکام، وسعت اور ہمہ گیری سے ذخیرہ الفاظ میں اضافے ہوتے جاتے ہیں۔ قربت بڑھتی ہے تو ایک قوم کی زبان کے الفاظ دوسری قوم کی زبان میں داخل ہو جاتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک قوم کا ادب جب ارتقائی دمارج طے کرتا ہے تو اس سفر میں الفاظ کی شکلیں بدلتی ہیں۔ معانی میں تبدیلی آتی ہے۔ ادب کے نقاد ان تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور استعمال کے مطابع الفاظ کو معنی دیے جاتے ہیں۔ ۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص  لغت نویسی پر ترتیب دی گئی ہے کیونکہ یہ ایسا موضوع ہے جو ایم اے اور ایم فل سطح پر مضمون کی طور پر بھی پڑھایا جاتا ہے لیکن اس پر اس کتاب سے پھلے کوئی ایسا مواد ترتیب نہیں دیا گیا۔  اس کتاب میں مصنف  نے مختلف اہل علم کے علمی مضامین کو جمع وترتیب دیا ہے اور کئی ایک اضافہ جات کیے گئے ہیں۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ لغت نو یسی اور لغات روا یت اور تجزیہ ‘‘ رؤف پاریکھ  کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں  کتب اور  بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

  • 1750 #5287

    مصنف : پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صوفی

    مشاہدات : 2802

    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح حیات و افکار

    (پیر 03 ستمبر 2018ء) ناشر : علم و عرفان پبلشرز، لاہور
    #5287 Book صفحات: 364

    خدائے برتر رحمن ورحیم نے ہمیں ایک خطۂ زمین جو حسین مناظر اور قدرت کی فیاضیوں سے مالا مال ہے جہاں بلند پہاڑ اور ان کی سفید برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں تیز وتند دریا‘ زرخیز میدانی علاقے‘ معدنی دولت سے بھر پور ہیں اور کئی جگہوں میں خشک پتھریلے پہاڑ اور وسیع ریگستانی علاقے ہیں آسمانی ماحول چاند ستارے سیارے سب کے سب جگ مگ کرتے ہیں اور سورج کی روشنی فصلوں اور صحت کو فیضیاب کرتی ہے‘ قدیم تہذیبی‘ ثقافت لاثانی ہے اور خطہ زمین ذہانت اور قلبی لگاؤ کا ثبوت ہے کہ یہاں بزرگان دین مشعل اسلام بن کر آئے اور اسلام کا یہ خطہ قائد اعظم محمد علی جناح کی بڑی کاوشوں ‘ لگاتار جد وجہد‘ سیاسی قوت‘ آل انڈیا مسلم لیگ کی رہنمائی میں حاصل ہوا اور اس سفر آزادی میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی خدمات بے شمار اور ان گنت ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص محترمہ فاطمہ جناح کی سیرت اور کردار اور ان کے شخصی تعارف پر مبنی ہے۔ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ انہوں نے کس طرح تحریک پاکستان مین برصغیر کی مسلمان خواتین میں سیاسی شعور بیدار کیا۔ مادر ملت نےکیسے ہندوستان کی مسلم خواتین کو تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا اور ان کو تعلیم حاصل کرنے‘ سماجی خدمت کے لیے راغب کیا اور انہیں ان کے حقوق کا احساس دلایا اور قائد اعظم کی وفات کے بعد انہوں نے کیسے حالات کو سنبھالا اور کیا کیا خدمات سر انجام دیں تفصیل کے ساتھ کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کا اسلوب نہایت عمدہ‘سادہ اور عام فہم ہے۔ یہ کتاب’’ مادرمحترم فاطمہ جناح حیات و افکار ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر ایم اے صُوفی کی تصنیف کردہ ہے۔آپ تصنیف وتالیف کا عمدہ شوق رکھتے ہیں‘ اس کتاب کے علاوہ آپ کی درجنوں کتب اور بھی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤلف وجملہ معاونین ومساعدین کو اجر جزیل سے نوازے اور اس کتاب کو ان کی میزان میں حسنات کا ذخیرہ بنا دے اور اس کا نفع عام فرما دے۔(آمین)( ح۔م۔ا )

< 1 2 ... 67 68 69 70 71 72 73 ... 269 270 >

ایڈ وانس سرچ

اعدادو شمار

  • آج کے قارئین 379
  • اس ہفتے کے قارئین 253056
  • اس ماہ کے قارئین 202227
  • کل قارئین101762743
  • کل کتب8723

موضوعاتی فہرست