اللہ رب العالمین کی لا تعداد انمول نعمتوں میں سے ایک عظیم ترین نعمت قرآن مجید کا نزول ہے۔ جس میں پوری انسانیت کی فلاح وبہودی کا سامان ہے۔ جو سراپا رحمت اور مینار رشد وہدایت ہے جو رب العالمین کی رسی ہے جسے مضبوطی سے پکڑنے والا دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی سے ہم کنار ہوگا۔ جو سیدھی اور سچی راہ دکھاتا ہے۔ مکمل فطری دستور حیات مہیا کرتا ہے۔ اس کی ہدایات پر عمل کر نے والا سعادت دارین سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اس کی مبارک آيات کی تلاوت کر نے والا عظیم اجر وثواب کے ساتھ ساتھ اطمینان وسکون، فرحت وانبساط اور زیادتی ایمان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ جو کثرت تلاوت سے پرانا نہیں ہوتا نہ ہی پڑھنے والا اکتاہٹ کا شکار ہوتا ہے۔ بلکہ مزید اشتیاق وچاہت کے جذبات سے شادکام ہوتا ہے کیونکہ یہ رب العالمین کا کلام ہے۔جو قوم قرآن کریم کو اپنا دستور حیات بنا لیتی ہے،خدا اسے رفعت اور بلندی سے سرفراز فرماتا ہے اور جو گروہ اس سے اعراض کا رویہ اپناتا ہے وہ ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔قرآن مجید چونکہ عربی زبان میں ہے لہذا اردو دان طبقے کے لئے اسے سمجھنا ایک مشکل کام ہے۔اہل علم نے اس مشکل کو حل کرتے ہوئے قرآن مجید کے متعدد تراجم کئے ہیں اور عامۃ الناس کو ترجمہ قرآن سکھلانے کے مختلف اندازاختیار کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تفہیم ترجمہ قرآن " محترم پروفیسر ریاض احمد طور صاحب، سابق معلم جامعہ ملک سعود، سعودی عرب کی کاوش ہے جس میں انہوں نے علامات کے ذریعے ترجمہ قرآن مجید سکھانے کا ایک منفرد اور انتہائی آسان طریقہ پیش کیا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
وقف کا لغوی معنی ٹھہرنا اور رُکنا ہے۔ جبکہ اہل فن قراء کرام کی اصطلاح میں وقف کے معنی ہیں کہ"کلمہ کے آخر پر اتنی دیر آواز کو منقطع کرنا جس میں بطور عادت سانس لیا جاسکے، اور قراء ت جاری رکھنے کا ارادہ بھی ہو، عام ہے کہ وقف کرنے کے بعد مابعد سے ابتداء کریں یا ماقبل سےاعادہ" (النشر:۱؍۲۴۰) معرفت وقف وابتداء کی اہمیت اور اس علم کی ضرورت کااحساس کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جس طرح دلائل شرعیہ یعنی قرآن وحدیث اور اجماع اُمت سےقرآن مجید کا تجوید کے ساتھ پڑھنا واجب اور ضروری ہے، اسی طرح معرفت الوقف، یعنی قرآنی وقوف کو پہچاننا اور دورانِ تلاوت حسنِ وقف وابتداء کی رعایت رکھنا اور اس کا اہتمام کرنا بھی ضروری ہے اوراس میں کسی کااختلاف نہیں ۔اوروجہ اس کی یہ ہے کہ جس طرح تجوید کے ذریعہ حروف قرآن کی تصحیح ہوتی ہے اسی طرح معرفت الوقوف کے ذریعے معانی قرآن کی تفہیم ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے :’’اورقرآن مجید کوترتیل کے ساتھ پڑھو ۔‘‘(المزمل:4) سیدنا علی ؓسے ترتیل کا معنی پوچھا گیا توآپ نے فرمایا:’’الترتیل ہو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف‘‘(الإتقان فی علوم القرآ ن:۱؍۸۵) اس تفسیر میں ترتیل کے دوجز بیان کیے گئے ہیں 1۔تجوید الحروف 2۔معرفۃ الوقوف ۔پس تجوید الحروف کی طرح معرفۃ الوقوف بھی ترتیل کا ایک جزء اور اس کا ایک حصہ ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب" تکملۃ الوقوف فی حل معرفۃ الوقوف بالسؤال والجواب "محترم قاری حبیب الرحمن جامعہ صدیقیہ، لاہور کی کاوش ہے،جس میں انہوں علم وقف کی علمی وفنی مباحث کو ایک منفرد انداز اختیار کرتے ہوئے سوالا وجوابا جمع فرمادیا ہے۔اللہ تعالی ان کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مسلک اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں۔ تمام اہل علم اس بات کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت موجود ہے تب سے یہ جماعت موجود ہے۔اسی لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے۔یہ نام دو لفظوں سے مرکب ہے۔پہلا لفظ"اہل"ہے۔جس کے معنی ہیں والے صاحب دوسرا لفظ"حدیث" ہے۔حدیث نام ہے کلام اللہ اور کلام رسولﷺ کا۔قرآن کو بھی حدیث فرمایا گیا ہے۔اور آپﷺ کے اقوال اور افعال کے مجموعہ کا نام بھی حدیث ہے۔پس اہل حدیث کے معنی ہوئے۔”قرآن و حدیث والے” جماعت اہل حدیث نے جس طریق پر حدیث کو اپنا پروگرام بنایا ہے اور کسی نے نہیں بنایا۔اسی لیے اسی جماعت کا حق ہے۔کہ وہ اپنے آپ کو اہل حدیث کہے۔مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہی جماعت حق ہے۔ اہل حدیث مروّجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں، نہ مختلف فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے، بلکہ اہل حدیث ایک جماعت اور تحریک کا نام ہے۔ اور وہ تحریک ہے زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا اور دوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا، یا یوں کہ لیجئے کہ اہل حدیث کا نصب العین کتاب وسنت کی دعوت اور اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے۔اور اصلی اہل سنت یہی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " تحریک اھلحدیث کے چند اوراق " محترم مولانا مفتی محمد عبدہ الفلاح صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نےتحریک اہل حدیث کو ابتداء سے لیکر موجودہ دور تک نہایت عمدہ تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جائے۔ تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔کتب احادیث وفقہ میں کتاب الاضاحی کے نام سے ائمہ محدثین فقہاء نے باقاعدہ ابواب بندی قائم کی ہے ۔ اور بعض اہل علم نے قربانی کےاحکام ومسائل اور فضائل کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’قربانی کے احکام ومسائل و قرآن وسنت کی روشنی میں ‘‘شیخ عبدالعلیم عبد الحفیظ کی مرتب شدہ ہے۔ یہ کتاب قربانی کے فضائل واحکام او ر مسائل پر ایک معتبر دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جوصرف قرآن کریم اور صحیح احادیث اور صحیح اسلام کے نمائندہ علماء سلفیت کےصحیح اقوال کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔ (م۔ا)
تفسیر کا معنیٰ بیان کرنا یا کھولنا یا کسی تحریر کےمطالب کوسامعین کےقریب ِفہم کردینا ہے ۔قرآن مجید ایک کامل ومکمل کتاب ہے مگر اس کوسمجھنے کےلیے مختلف علوم کی ضرورت ہے ۔قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ کرنا اور ان کامطلب بیان کرنا علم تفسیر ہے اور علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظِ قرآن کی کیفیت ،نطق،اور الفاظ کے معانی اور ان کےافرادی ترکیبی حالات اور ان کے تتمات کا بیان ہوتاہے ۔اور اصول تفسیر سے مراد وہ علوم ہیں جن کے ذریعے قرآن کی تشریح کی جاتی ہے۔ قرآن کلام الٰہی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ میں ایسی قابلیت پیدا کردی تھی کہ آپ منشاء الٰہی کو سمجھ جاتے تھے اور آپ کو وحی جلی اور وحی خفی کے ذریعہ سےاحکام سے آگاہ بھی کردیاجاتا تھا ۔جو سورت یاآیت نازل ہوتی آپ مسلمانوں کو اس کامطلب سمجھاتےدیتے تھے ۔اس لیے قرٖٖآن مجید کےمفسر اول حضور ﷺ اور پہلی تفسیر حدیث ِرسول ﷺہے ۔آپ ﷺ نے قرآن کی جو تفسیر بیان کی اس کا کچھ حصہ آپ کی حیات ِمبارکہ میں ہی ضبط تحریر میں آیا او رکچھ حصہ صحابہ کرام کے سینوں میں محفوظ رہا جو اس عہد کے بعد ضبطِ تحریر میں آیا ۔عہد خلافت راشد ہ میں مسلمانوں کی زیادہ توجہ حفظ قرآن اور تدوین حدیث اور ملکی معاملات پر رہی اس لیے تفسیر کے نام سے سوائے تفسیر ابی بن کعب اور تفسیر ابن عباس کےاورکوئی تفسیر کی کتاب مرتب نہیں ہوئی۔ اس کے بعد عصر حاضر تک قرآن کریم کی ہزاروں تفاسیر لکھی جا چکی ہیں اور ہر صدی میں متعدد کتب تفسیر کی کئی لکھی گئیں ۔اس کے علاوہ قرآن کریم کےمتعدد پہلوؤں پر علمی و تحقیقی کام موجود ہے ۔زیر تبصرہ کتاب" تفسیر قرآن کا مفھوم، آداب اور تقاضے "بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے پروفیسر محترم ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے ضرورت تفسیر، تفسیر اور تاویل کا مفہوم، مفسر قرآن کے لئے ضروری علوم ، مفسر قرآن کے آداب وشرائط اور تفسیر قرآن کی اقسام جیسی مباحث بیان کی ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
وقوع قیامت کا عقیدہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سےہے اور ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے ۔ قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کےساتھ بیان کیا ہے جیساکہ احادیث میں میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اورخنزیہ کو قتل کریں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گا، یا پھر تلوار ہوگی۔ آپ کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف وحدہ کے لیے ہوگا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ عیسٰی کے زمانہ میں تمام روئے زمین پر اسلام کی حکمرانی ہوگی اور اس کے علاوہ کوئی دین باقی نہ رہے گا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتب احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر کتب لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قرب قیامت کے فتنے اور جنگیں مع قیامت کےبعد کے احوال ‘‘ مشہور ومعروف مؤرخ ومفسر قرآن علامہ حافظ ابن کثیر کی کتاب النہایۃ فی الفتن والملاحم کا اردو ترجمہ ہے ۔یہ کتاب آخری زمانے کے فتنوں اور آثار قیامت کے بارے میں انتہائی اعلیٰ درجے کی کتاب ہے ۔حافظ ابن کثیر نے اس کتاب میں ان قرآنی آیات اور احادیث کو ذکر کیا ہے جو آخری زمانے کے فتنوں اور علامات قیامت سے متعلق ہیں کہ قیامت سے پہلے کون کون سے بڑے واقعات رونما ہونگے۔ چھوٹی بڑی نشانیاں کو ن سی ہیں؟ اس دار فانی سے جانے کے بعد صبح دوام زندگی تک کیا ہوگا ؟ میدان حشر میں کیا ہوگا؟شفاعت او رحساب کتاب اوردیدار الٰہی سے متعلق بہترین گفتگو کی ہے ۔خلیل مامون شیحا کی تخریج احادیث اور محمد خیر طعمہ حلبی کی تعلیق سے اس کتاب کی افادیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (م۔ا)
عصر حاضر کے فتنوں میں سے جو فتنہ اس وقت اہل اسلام میں سب سے زیادہ خطرناک حد تک پھیل رہا ہے وہ انکار حدیث کا فتنہ ہے۔ اس کے پھیلنے کی چند وجوہات عام ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث نے روافض کی مانند تقیہ کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے۔ یہ براہ راست حدیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ خود کو اہل قرآن یا قرآنی تعلیمات کے معلم کہلاتے ہوئے اپنے لٹریچر میں قرآن ہی پر اپنے دلائل کا انحصار کرتے ہوئے اپنے سامعین و ناظرین کو یہ ذہن نشین کرانے کی سعی کرتے ہیں کہ ہدایت کے لئے تشریح کے لئے ' تفسیر کے لئے ، سمجھنے کے لئے اور نصیحت حاصل کرنے کے لئے قرآن کافی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں۔قرآنی تعلیمات کے یہ معلم اپنے لیکچرز اور لٹریچر میں کسی دوسری کتاب کی تفصیل اور گہرائی میں نہیں جاتے لیکن وہ چند مخصوص قرآنی آیات کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے اپنے سامعین و ناظرین و قارئین کو یہ باور کرانے کی بھر پور جدوجہدکرتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ پائی جانے والی دیگر کتب اختلافات سےمحفوظ نہیں جبکہ قرآن میں کوئی بھی کسی قسم کا اختلاف موجود نہیں ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف قرآن ہی منزل من اللہ ہے چونکہ دوسری کتابوں میں روایات میں ، اسناد میں اور متون اقوال میں اختلافات بکثرت ہیں لہذا یہ دوسری کتابیں نہ تو منزل من اللہ ہیں نہ مثل قرآن ہیں نہ ہی اس لائق ہیں کہ انہیں پڑھا جائے اور ان کی روایات پر عمل کیا جائے۔ تحریف قرآن وانکار حدیث کےداعی مسٹر غلام احمد پرویز صاحب ہیں، جن کی گمراہی پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" پرویز کے بارے میں علماء کا متفقہ فتوی مع اضافات جدیدہ "مدرسہ عربیہ اسلامیہ ، نیو ٹاؤن کراچی کے شعبہ تصنیف کی کاوش ہے، جس میں غلام احمد پرویز کے بارے میں علماء کرام کے فتاوی کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم ،درس گاہ مسجد قبا ، مسجد نبوی اور اصحاب صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر ، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی ، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔اور جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم ، توضیح وتشریح ، تعمیل واتباع ، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں ، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے کہ ہر ہر انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔لیکن افسوس کہ اس وقت دینی مدارس اپنوں نے بے وفائیوں اور غیروں کی سازشوں کا نشانہ ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" آنحضور ﷺ کی تعلیمی جدوجہد " محترم پروفیسر رب نواز صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمی جدوجہد کو بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔ عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات ، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے۔ہر میدان میں کتاب و سنت کی ہی پابندی ضروری ہے۔ صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا ۔ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے ۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پیر جمانے شروع کردیئے۔ اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔وقت کے راہبوں ،صوفیوں، نفس پرستوں او رنام نہاد دعوتِ اسلامی کے دعوے داروں نے قال اللہ وقال الرسول کے مقابلے میں اپنے خود ساختہ افکار وخیالات اور طرح طرح کی بدعات وخرافات نے اسلام کے صاف وشفاف چہرے کو داغدار بنا دیا ہے جس سے اسلام کی اصل شکل گم ہوتی جارہی ہے ۔اور مسلمانوں کی اکثریت ان بدعات کو عین اسلام سمجھتی ہے۔ دن کی بدعات الگ ہیں ، ہفتے کی بدعات الگ ،مہینے کی بدعات الگ،عبادات کی بدعات الگ ،ولادت اور فوتگی کے موقع پر بدعات الگ غرض کہ ہر ہر موقع کی بدعات الگ الگ ایجاد کررکھی ہیں۔جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات و خرافات سے بچا سکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’قرآن کے متعلق لوگوں کی بدعتیں ‘‘سعودی عرب کے کبار علماء کے فتاؤں کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں لوگوں کےسوالات کا جواب انہوں نے دیا۔اس رسالہ میں قران مجید کے متعلق ان بدعات کی نشاندہی کی گئی ہے جو پاک وہند میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مترجم ومرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے قارئین کے لیے نفع بخش بنائے۔ (آمین) (م۔ا)
اللہ تعالی نے امت محمدیہ کو بے شمار فضائل ومناقب سے سرفراز فرمایا ہے اور اس پر اپنے لاتعداد انعامات فرمائے۔اللہ تعالی نے اسے امت وسط پیدا کیا ہے۔یہ امت پہلی امتوں کےلئے بطور شاہد پیش ہوگی۔سابقہ امتوں پر شرعی احکامات میں بہت سختیاں تھیں لیکن اللہ نے اس امت کے احکامات بہت آسان بنائے ہیں، مثلا: اللہ تعالی نے ساری زمین کو نماز کی جگہ اور مٹی کو طہارت -تیمم- کا ذریعہ بنا دیا ہے۔تیمم اور موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی گئی، سابقہ امتوں کی بنسبت اس امت کی عبادات بھی افضل ہیں ، یہ گنتی کی پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، لیکن اجر میں پوری پچاس ہیں، نماز میں یہ صف بندی کریں تو وہ اللہ کے ہاں فرشتوں کی صف بندی کی طرح ہے ، کیونکہ وہ بھی پہلے اگلی صفوں کو پورا کرتے ہیں اور ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں فرمانِ نبوی ہے:’’ ہمیں اللہ نے تین چیزوں کی وجہ سے لوگوں پر برتری دی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالی نے ہماری صفوں کو فرشتوں کی صفوں جیسا بنایا اور ساری کی ساری زمین کو جائے نماز قرار دے دیا، اور پانی کی عدم موجودگی میں مٹی کو ذریعہ طہارت بنادیا۔ زیر تبصرہ کتاب" امت محمدیہ کے فضائل " انڈیا کے معروف عالم دین محترم مولانا مقصود الحسن فیضی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے امت محمدیہ کے بے شمار فضائل میں سے اٹھائیس معروف فضائل کو قلمبند کر دیاہے تاکہ یہ امت اپنے مقام ومرتبے کو پہچانے اور غیروں کے ہاتھوں میں کھیلنے سے محفوظ رہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بندوں کی رشد و ہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا جانے والا ایسا کلام ہے جس کے ایک ایک حرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔اور قرآن مجید کی درست تلاوت اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے، جب اسے علم تجویدکے قواعد وضوابط اوراصول وآداب کے ساتھ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔لہٰذا قرآن کریم کو اسی طرح پڑھا جائے جس طرح اسے پڑھنے کا حق ہے۔اور ہرمسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ علمِ تجوید کے بنیادی قواعد سے آگاہی حاصل کرے۔فن تجوید پر عربی زبان میں بے شمار کتب موجود ہیں۔جن میں سے مقدمہ جزریہ ایک معروف اور مصدر کی حیثیت رکھنے والی عظیم الشان منظوم کتاب ہے،جو علم تجوید وقراءات کے امام علامہ جزری کی تصنیف ہے۔اس کتاب کی اہمیت وفضیلت کے پیش نظر متعدد اہل علم نے اس کی شاندار شروحات لکھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " المسھلۃ فی شرح المقدمۃ بالسؤال والجواب "بھی مقدمہ جزریہ کی ایک مفصل شرح ہے جو قاری حبیب الرحمن جامعہ صدیقیہ، لاہور کی کاوش ہے۔یہ کتاب شائقین علم تجوید کے لئے ایک نادر تحفہ ہے، جس میں مولف موصوف نے سوالا جوابا مقدمہ جزریہ کی شرح بیان کی ہے۔ تجوید وقراءات کے ہر طالب علم کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
آخر ت میں دوزخ سے بچنے کے لئے اللہ کے بندوں کودنیامیں جوکام کرناہے وہی دین اسلام ہے۔یعنی زندگی کے ہر معاملہ میںاپنے پیدا کرنے اور پرورش کرنے والے کے احکام وہدایات کی اطاعت وفرمانبرداری کرناہے۔انسان کےاعمال صالح اسی وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہیں جب انہیں اللہ ورسول ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات کےمطابق کیا جائے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’قبولیت عمل کے شرائط‘‘ مولانا محمد منیر قمر ﷾ کی ان تقاریر کی کتابی صورت ہے جو انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ریاست القیوین کے ریڈیو اسٹیشن کی اردو سروس سے عقیدۂ توحید، اور ردبدعات کے بارے میں پروگرام ’’ دین ودنیا‘‘ کے تحت پیش کیے تھے۔ فاضل مصنف نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت وضرورت کو واضح کرنے کےبعد عمل کی قبولیت کی شرائط کو بیان کیا ہے جس طرح عمل کی فکر ضروری ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قبولیت کی شرطوں کا لحاظ رکھا جائے ورنہ عمل محنت رائیگاں جائے گی۔نیز مصنف موصوف نے توحید وشرک کے موضوعات پر تشفی بخش روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ اتباع سنت کے سلسلے میں قرآن وسنت کی روشنی میں مختصر مگر عمدہ بحث کی ہے۔ (م۔ا)
تعلیمات اسلامیہ کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ سیدنا آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا ۔ اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ نبی نہیں بن سکتا ۔اور اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت اوروحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ شفیع امت حضرت محمد ﷺ کی زبانِ صادقہ کا فیصلہ ہے۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سےہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کرنے کے آغاز سے ہی اس کی تردید وتنقید میں ہر مکتبۂ فکر کے علماء نے بھر پور کردار ادا کیا ۔ بالخصوص علمائے اہل حدیث او ردیو بندی مکتبۂ فکر کے علماء کی قادیانیت کی تردیدمیں خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ قادیانی فرقے کے خلاف سب سے پہلا فتوئ تکفیر مولانامحمد حسین بٹالوی نے تحریرکیاجس پر برصغیر کے تقریباًدوصد تمام مسالک کے علماء نے دستخط ثبت کیے ۔اس فرقے کے خلاف مناظروں کاسب سے کامیاب مقابلہ شیخ الاسلام مولانا نثاء اللہ امرتسری نے کیا جنہیں بالاتفاق فاتح قادیان کا خطاب دیا گیا ۔تقسیم ملک کے بعدپاکستان میں اس گمراہ فرقے کواقلیت قرار دلوانے کےلیے سب سے پہلے متکلم ِاسلام مولانا محمد حنیف ندوی کا قلم حرکت میں آیا۔اوراس فرقے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کےلیے ایک علمی معرکہ مولانا عبد الرحیم اشرف کے قلم سے لڑا گیا۔ یہ سب اکابرین مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والےتھے۔مختلف انداز میں قادیانیت کی تردید میں علماء کی کاوشیں جاری وساری ہیں۔اکثر علماء نے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے عقائد کا محاسبہ کر کے قادیانیوں کو لاجواب کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تاریخ مرزا‘‘ فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تصنیف ہے اس مختصر کتاب مں انہوں نے مناظرانہ انداز کی بجائے تاریخ اند از میں صحیح حوالہ جات کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات صحیحہ مصدقہ ازولادت تاوفات درج کیے ہیں ۔یہ کتاب پہلی بار 1919ء میں اور شائع ہوئی موجودہ طبع اس کا چوتھا ایڈیشن ہے جسے 1973ء میں المکتبۃ السلفیہ کے بانی شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف نے بعض حوالہ جات کی ممکن چھان بین کر کے شائع کیا تھا۔(م۔ا)
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو جتنی تاکید کے ساتھ شرکیہ امور سے بچنے کی ہدایت فرمائی تھی ۔افسوس ہے کہ آپﷺ کی یہ نام لیوا امت اسی قدر مشرکانہ عقائد واعمال میں مبتلا ہے اور اپنے پیغمبر کی تمام ہدایات کو فراموش کر چکی ہے ۔آپ ﷺ نے واضح الفاظ میں اعلان فرمادیا تھا :أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِك۔ ’’لوگو کان کھول کر سن لو تم سے پہلی امت کے لوگوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں ،اولیاء وصالحین کی قبروں کو عبادت گاہ (مساجد) بنالیا تھا ،خبر دار !تم قبروں کو مساجد نہ بنالینا۔میں تم کواس سے روکتا ہوں۔اور آپ ﷺ اپنی مرض الموت میں یہود ونصاریٰ کے اس مشرکانہ عمل پر لعنت کرتےہوئے فرما یا: لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى،اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ قبرپرستی شرک اورگناہ کبیرہ ہے نبی کریم ﷺ نے سختی سے اس سےمنع فرمایا اور اپنی وفات کے وقت کے بھی اپنے صحابہ کرام کو اس سے بچنے کی تلقین کی ۔ صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا اور پھر ائمہ کرام اور محدثین نے لوگوں کو تقریر وتحریر کے ذریعے اس فتنہ عباد ت ِقبور سے اگاہ کیا ۔ زیر تبصرہ کتاب’’قبروں کے فتنے اور ان کی بدعات‘‘ کی سعودی عرب ،ریاض کے نوجوان عالم دین شیخ ابو عبداللہ صالح بن مقبل العصیمی کی عربی تصنیف’’بدعات القبور‘‘ کا اردو ترجمہ ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں قرآن وسنت نیز اجماع علماء امت سے دلائل کے ساتھ عقیدہ اہل سنت والجماعت کی روشنی میں قبروں سے متعلقہ بدعات کا رد کیا ہے نیز قبرستان اور قبروں میں عقیدہ سے متعلق مشہور بدعات کا ائمہ اکرام اور بعض علماء کےاقوال کی شہادت پیش کر کے ثابت کیا ہے واقعتاً یہ بعدعت ہیں۔فتنہ قبر پرستی پر یہ جامع اور مستند کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف اور مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اوراسے عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے۔(آمین)(م۔ا)
جس خلوص اور محنت کے ساتھ تبلیغی جماعت اپنی تبلیغی محنت کو جاری وساری رکھے ہوئے ہے۔ان کی اس محنت اور خلوص میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔لیکن کیا صرف محنت اور خلوص ہی جنت کے حصول کے لئے شرط ہے۔اگر جواب اثبات میں ہے تو عیسائیوں کے گرجوں میں دنیا سے تعلق توڑ کر راہبانہ زندگی بسر کرنے والے افراد کا کیا قصور ہے جو اللہ کی رضا اور جنت کے حصول کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔تبلیغی جماعت والوں کی اہم ترین کتاب کا نام ’’تبلیغی نصاب‘‘ ہے۔ اس کتاب کو ان کی جماعت کے بڑے رئیس محمد ذکریا کاندھلوی صاحب نے لکھا ہے۔ تبلیغی اس کتاب کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں جیسا کہ اہل سنت صحیحین اور دیگر کتب حدیث کی تعظیم کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت والوں نے اس کتاب کو ہندی اور دیگر عجمی لوگوں کے لئے بہترین نمونہ بنا رکھا ہے۔ حالانکہ اس میں شرکیات‘ بدعات‘ اور خرافات بھری پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں موضوع اور ضعیف حدیثوں کا ذخیرہ موجود ہے اور درحقیقت یہ کتاب گمراہی کا ذریعہ ہے۔ تبلیغی جماعت والے اسی کے ذریعے اپنی بدعت اور گمراہیاں پھیلاتے ہیں اور لوگوں کے عقائد خراب کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" تبلیغی جماعت کا اسلام "محترم پروفیسر سید طالب الرحمن صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے تبلیغی جماعت کی انہی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ اور عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقیدہ کا حامل ہے۔ نبی آخر الزماں خاتم المرسلین حضرت محمدپر رسالت ونبوت کا سلسلہ ختم کردیاگیاہے ۔اب آپﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اسی عقیدہ پر پوری امت مسلمہ کا اجماع ہوچکا ہے۔ آپ ﷺ کےبعد جوبھی نبوت کا دعوی کرےگا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا او رجو کوئی بھی توحید ورسالت کے شعوری اقرار ویقین کےبعد کسی دوسرے کو اپنا نبی تسلیم کر ے گا وہ بھی ملت اسلامیہ سے خارج ہوگا اوراگر توبہ کیے بغیر مرجائے تو جہنم رسید ہوگا۔نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازا کوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سے ہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت او روحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی زبان صادقہ کا فیصلہ ہے ۔ علمائے اسلام نے قادیانی فتنے کے خلاف ہرمیدان میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دی ہیں او ردے رہے ہیں۔تحریری میدان میں بھی علماء کرام کی یادگار خدمات ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’’قادیانیت جہنم کےراستہ ‘‘جناب شمس الدین صاحب کی رد قادیانیت کے موضوع مختصر اورجامع تحریر ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے قادیانی فتنے اور قادیانی عقائد کے تار پوت بکھیر رکھ دئیے ہیں اوران کی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے تاکہ ہر ایک مسلمان قادیانی مذہب کی گمراہیوں اور ہتھنکندوں سے واقف ہوکر خود بھی محفوظ ر ہے اور اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو قادیانی عقائد سے بچائے۔
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالی نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکستِ فاش دی۔ سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دئیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء میں قومی اسمبلی پاکستان نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور اس کے بعد پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے فیصلے جاری کیے ۔قادیانیوں نے جماعت کی تشکیل کے 100 برس پورے ہونے پردنیا بھر کے دوسرے احمدیوں کی طرح ربوہ کے احمدیوں نے بھی 23 مارچ 1989ء سے صدسالہ جشن کی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا ۔ان تقریبات کو شایان شان طریقہ سےمنانے کے لیے نئے ملبوسات زیب تن کرنے ،بچوں میں مٹھائیاں بانٹنے ، محتاجوں کو کھانا کھلانے اور بغرض اجلاس جمع ہونے کاپروگرام بنایا تاکہ جلسہ عام میں احمدیہ جماعت کی 100سالہ تاریخ کے اہم واقعات پر روشنی ڈالی جائے ۔قادیانی جماعت کی اس تیاری پر اسلامیان پاکستان کو تشویش لاحق ہوئی۔عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے فوری طور پر 12 مارچ 1989ء کو اجلاس طلب کیا اور لاہور ، کراچی ، ملتان، راولپنڈی کے تمام اہم اخبارات کے تمام ایڈیشنوں میں آخری صفحہ پر ہزاروں روپیہ کی لاگت سے اشتہار دیا جس میں قادیانیوں کے جشن پر پابندی لگانے کا پر زور مطالبہ کیا اور بابندی نہ لگنے کی صورت میں 23 مارچ کو آل پاکستان ختم نبوت ریلی منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔اور ملک بھر عظیم الشان احتجاجی کانفرنسز منعقد کی گئیں۔علماء کرام نے بھرپور جدوجہد سے عوام الناس اور حکمران طبقہ کو قادیانیوں کی خرافات سے اگاہ کیا۔بالآخر پنجاب کے ہوم سیکرٹری نے مؤرحہ 20 مارچ 1989ء کو قادیانیوں کے صدسالہ جشن کی تقریبات پر بابندی کا اعلان کردیا۔یوں ایک بار پھرکفر ہار گیا اوراسلام اور مسلمان جیت گئے۔بعد ازاں قادیانیوں نے اس جشن پر لگائی گئی پابندی کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔اس کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس خلیل الرحمٰن نےکی 22 مئی 1991ء کو اس کیس کی سماعت مکمل ہوئی اور 17 ستمبر 1991ء کو جسٹس خلیل الرحمٰن نے قادیانیوں کے خلاف اپنا فیصلہ سنایا اور صد صالہ جشن پر پابندی کو جائز قرار دیا ۔جس سے مرزائیت پر اوس پڑ گئی اور انکے چہرے ان کے دلوں کی طرح سیاہ ہوگئے۔زیر نظر کتابچہ لائی ہائی کورٹ کےاسی تاریخی فیصلہ پر مشتمل ہے ۔(م۔ا)
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالی نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سےہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت او روحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی زبان صادقہ کا فیصلہ ہے ۔ قادیانیت کے رد میں اہل اسلام کے تقریبا ہر مکتب فکر علماء نے مختلف انداز میں خدمات سرانجام دی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’رد قادیانیت کے زریں اصول‘‘ ربوہ کے پڑوس میں رہ کرقادیانیت کے خلاف نصف صدی سے زائد عرصہ تک جھوٹی نبوت سے ایک زبردست جنگ لرنے والے مرد مجاہد مولانا منظور احمد چنیوٹی کی زندگی کا حاصل ہے ۔مولانا نے اس کتاب میں حقانیت عقیدہ ختم نبوت پر قرآن وحدیث کے فولادی دلائل، حیات ونزول مسیح پر آفتاب روشن سے براہین کا انباراور قادیانی دجل وتلبیس اور ان کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کاعلمی جائزہ پیش کیا ہے ۔الغرض یہ کتاب رد قادیانیت کا انسائیکلوپیڈیا اورمرزا قادیانی کا شناختی کارڈ ہے ۔۔ اللہ تعالیٰ قادیانیت کے رد میں مولانا منظور چنیوٹی کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور آخرت میں ان کی نجات کا ذریعہ بنائے ۔ (آمین) (م۔ا)
روزہ اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،برکتوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کا مہینہ ہے۔ اپنی عظمتوں اور برکتوں کے لحاظ سے دیگر مہینوں سے ممتاز ہے۔ رمضان المبارک وہی مہینہ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کا نزول لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ہوا۔ ماہ رمضان میں اللہ تعالی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے او رجہنم کے دروازے بند کردیتا ہے اور شیطان کوجکڑ دیتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندے کو اس طر ح گمراہ نہ کرسکے جس طرح عام دنوں میں کرتا ہے اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی خصوصی طور پر اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے اور سب سے زیاد ہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی کا انعام عطا کرتا ہے۔ رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن، صدقہ خیرات، اعتکاف، عبادت لیلۃ القدر وغیرہ) کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے۔ لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سےلا علم ہوتے ہیں، بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتا ب’رمضان ماہ غفران‘ شیخ عائض بن عبد اللہ القرنی کی عربی تصنیف دروس المسجد فی رمضان ‘ کا اردور ترجمہ ہے۔ یہ کتاب ماہ رمضان کی فضلیت، احکام ومسائل پر مشتمل ہے۔ اور اس میں ایسا اسلوب نگارش اختیار کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کے دل ودماغ میں رمضان کے حوالے سے اسرار و رموز اترتے چلے جاتے ہیں۔ بقول مترجم کتاب ہذا یہ کتاب واقعی اس قابل ہے کہ اسے طلبہ اور طالبات کے دینی مدارس میں داخل نصاب کیا جائے بلا یہ شبہ روحانی انقلاب بپا کرنے والے کتاب ہے۔ (م۔ا)
قادیانیت کے یوم پیدائش سے لے کر آج تک اسلام اور قادیانیت میں جنگ جار ی ہے یہ جنگ گلیوں ،بازاروں سے لے کر حکومت کے ایوانوں اور عدالت کےکمروں تک لڑی گئی اہل علم نے قادیانیوں کا ہر میدان میں تعاقب کیا تحریر و تقریر ، خطاب وسیاست میں قانون اور عدالت میں غرض کہ ہر میدان میں انہیں شکست فاش دی سب سے پہلے قادیانیوں سے فیصلہ کن قانونی معرکہ آرائی بہاولپور کی سر زمیں میں ہوئی جہاں ڈسٹرکٹ جج بہاولپور نے مقدمہ تنسیخ نکاح میں مسماۃ عائشہ بی بی کانکاح عبد الرزاق قادیانی سے فسخ کردیاکہ ایک مسلمان عورت مرتد کے نکاح میں نہیں رہ سکتی 1926ء سے 1935 تک یہ مقدمہ زیر سماعت رہا جید اکابر علمائے کرام نے عدالت کے سامنے قادیانیوں کے خلاف دلائل کے انبار لگا دئیے کہ ان دلائل کی روشنی میں پہلی بار عدالت کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ۔ پھر اس کے بعد بھی قادیانیوں کے خلاف یہ محاذ جاری رہا بالآخر تحریک ختم نبوت کی کوششوں سے 1974ء میں قومی اسمبلی پاکستان نے بھی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا اور اس کے بعد پاکستان کی اعلی عدالتوں نے بھی قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے فیصلے جاری کیے زیرنظر کتاب بھی 1984ء میں قادیانیوں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت اسلام آباد کی طرف سے دئیے گے فیصلے کے انگریز متن کا مکمل اردوترجمہ ہے ۔ یہ ترجمہ وفاقی شرعی عدالت ،اسلام آباد کی اجازت سے اردو دان حضرات کےلیے کیاگیا ۔ ترجمہ کا کا م عربی ادب کے ماہر دار العلم ،اسلام آباد کے مدیر جناب مولانا محمدبشیر ایم اے سیالکوٹی ﷾ نے کیا ہے رد قادیانیت کے سلسلے میں اللہ تعالی تمام اہل اسلام کی کوششوں کو قبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم نے کئی کتب تصنیف کی ہیں زیر تبصرہ کتاب ’’ علماء صحابہ کرام ‘‘ ڈاکٹر احمد خلیل جمعہ کی عربی تصنیف کا ترجمہ ہے ۔یہ کتاب میں دوحصوں پر مشتمل ہے ۔حصہ اول میں ان علماء صحابہ کا تذکرہ ہے جن کا نام عبداللہ تھا اس حصے میں پانچ جلیل القدر علماء صحابہ کرام(سیدنا عبد اللہ بن عباس ،سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص، سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا عبد اللہ بن مسعود) کا تذکرہ شرح وبسط کے ساتھ کیا گیا ہے۔اور اس کتاب کے دوسرے حصے میں سیدنا ابو ہریرہ ،سیدنا انس بن مالک ، سیدنا جابر بن عبد اللہ ، سیدنا ابوسعید خذری کے سوانح حیات تفصیل سے ساتھ بیان کیے ہیں۔کتاب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کس طرح شدت سے رسول رحمت کی زبان نکلنے والے ایک ایک لفظ کے امین، نگران اور محافظ تھے اور آپﷺ کی ذات کے ساتھ کس قدر محبت رکھتے تھے ۔(م۔ا)
تحریک حزب اللہ، تحریک جہاد، تحریک ہجرت، تحریک نظم جماعت اور سب سے بڑھ کر تحریک الہلال جو ادب ، صحافت، احیائے اسلام، تجدید علوم دین، قیام ملت اور استقلال وطن کی تحریکات کی جامع تھی۔یہ تمام تحریکات فی الحقیقت ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں تھیں یا ایک ہی اصل کی فروع اور ایک ہی نخل تمنا کے برگ وبار تھے۔مقصود ومطلوب ان سب کا ایک تھا احیائے اسلام اور قیام ملت اسلامیہ۔ہندوستان سے مسلمانوں کے عرب وحجاز اور دوسرے ممالک کو ہجرت کرنے کے واقعات تاریخ کے ہر دور میں ملتے ہیں۔ہجرت کا یہ سلسلہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتوی دار الحرب سے پہلے بھی جاری تھااور بعد میں بھی جاری رہا۔لیکن یہ ہجرتیں افراد کی یا زیادہ سے زیادہ خاندانوں کی ہوتی تھیں۔ہندوستان سے اجتماعی ہجرت کا کوئی واقعہ 1920ء سے پہلے پیش نہیں آیا۔البتہ اس صدی میں جب مسلمان سات کروڑ سے زیادہ تھے تو ایک اجتماعی ہجرت کی تحریک پیدا ہوئی۔ زیر تبصرہ کتاب"تحریک ہجرت "محترم شاہد حسین خاں صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے اسی تحریک ہجرت کا تذکرہ کیا ہے۔جس میں انہوں نے تحریک کی تاریخ، افکار اور دستاویزات کو جمع کر دیا ہے۔یہ کتاب ہندوستان سے اٹھنے والی تحریکوں کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔(راسخ)
جیسے جیسے قیامت کا وقت قریب آرہا ہے گمراہ فرقے جنگل میں آگ کی طرح پھیلتے جارہے ہیں۔اور اپنے دام ہم رنگ زمانہ میں ناسمجھ مسلمین کو پھنسا رہے ہیں۔قدیم زمانے میں نجد عراق میں کوفہ کا شہر گمراہ فرقوں کی جنم بھومی اور آماجگاہ تھا۔مثلا خوارج ،روافض ،جہمیہ ،مرجئہ ،معتزلہ وغیرہ ۔انہی فرقوں میں سے ایک نام نہاد جماعت المسلمین بھی ہے جوکراچی کی پیداوار ہے ۔اس جماعت کے بانی مبانی مسعود احمد صاحب بی ایس سی ہیں۔اس فرقے نے "جماعت المسلمین " کا خوبصورت لقب اختیار کر رکھا ہے جس طرح لبنان میں رافضیوں نے "حزب اللہ "کا نام اختیار کر رکھا ہے۔یہ فرقہ اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو گمراہ سمجھتا ہے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا قائل نہیں ہے۔جو شخص ا س کے بانی مسعود احمد صاحب کی بیعت نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک مسلمان نہیں ہے،چاہے وہ قرآن وحدیث کا جتنا بڑا عالم وعامل ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے امام ابن حجرسمیت متعدد محدثین کی تکفیر کی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مسعود بی ایس سی کی جماعت المسلمین پر ایک نظر "جمعیت اہل حدیث بہاولپور کی طرف سے شائع کی گئ ہے جس پر کسی مولف کا نام موجود نہیں ہے۔اس کتاب میں جماعت المسلمین کے تمام باطل نظریات کا مدلل رد کیا گیاہے اور ان کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔اللہ تعالی جمعیت اہل حدیث کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔آمین(راسخ)
توحید دین کی اساس ہے باقی سب چیزیں وسائل توحید ہیں ۔ توحید کے بغیر انسان کی پہنچان ہی نہیں ہوتی۔ توحید نے انسان کو حقیقی شعور بخشا ہے ۔ زمین پر کوئی بھی مخلوق ایسی نہیں جوتوحید پرست نہ ہو۔ ایک انسان ایسی مخلوق ہے جو توحید اور شرک کےدرمیان رہتا ہے سوائے انبیاء کے جو توحید والے ہوتے ہیں اور توحید کی طرف بلاتے ہیں۔اخروی نجات ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے جو صرف اور صرف توحید خالص پرعمل پیرا ہونے سے پورا ہوسکتا ہے۔ جبکہ مشرکانہ عقائد واعمال انسان کو تباہی کی راہ پر ڈالتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکوں کے لیے وعید سنائی ہے ’’ اللہ تعالیٰ شرک کو ہرگز معاف نہیں کرے گا او اس کے سوا جسے چاہے معاف کردے گا۔‘‘ (النساء:48) لہذا شرک کی الائشوں سے بچنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے ۔اس کے بغیر آخرت کی نجات ممکن ہی نہیں ۔ حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمۂ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ توحید کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔ عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علمائے اسلام نےبھی عوام الناس کوتوحید اور شرک کی حقیقت سےآشنا کرنے کےلیے دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ہنوز یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’ عقیدہ ایمان او رمنہج اسلام ‘‘شیخ عبدللہ بن عبد الحمید الاثری﷾ کی عقیدہ توحید کے موضوع پر بہترین جامع عربی تصنیف ’’الوجیز فی عقیدۃ السلف الصالح‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔یہ کتاب سلف صالحین اہل السنہ والجماعۃ کے عقیدہ کامختصر اور جامع بیان ہے۔فاضل مؤلف نے اس میں بہت مفید ومضبوط معلومات جمع کی ہیں۔ ہربات کی تائید کےلیے دلیل کا التزام کیا ہے ۔اورتوحید کی تمام اقسام ، ایمان اور قضاء وقدر کے بارے میں علماء اہل السنۃ والحدیث کے اقوال کا مکمل ذکر موجود ہے ۔انہوں نے ہے سلف صالحین کے عقیدہ کو ایسی وسعت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ہر مسلمان آدمی اسے آسانی سے پڑھ کر اس موضوع کی مختلف تحقیقی باتوں پر مطلع ہو سکتا ہے۔ اس اہم مفید کتاب کاترجمہ متعدد ضخیم کتب کے مصنف ومترجم ابو یحیٰ محمد زکریا زاہد ﷾ نے اپنی فنی مہارت کے ساتھ اس انداز میں کیا ہے کہ یہ ترجمہ اصل تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ترجمہ بامحاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ آسان فہم اوراردو ادب کی چاشنی سے یوں لبریز ہےکہ پڑھنے والے کا دل کرتا ہے کتاب شروع کرے تو مکمل کر کے ہی دم لے ۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو اہل ایمان کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور مصنف،مترجم وناشرین کی خدمات کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
صحابہ نام ہے ان نفوس قدسیہ کا جنہوں نے محبوب ومصدوق رسول ﷺ کے روئے مبارک کو دیکھا اور اس خیر القرون کی تجلیات ِایمانی کو اپنے ایمان وعمل میں پوری طرح سمونے کی کوشش کی ۔ صحابی کا مطلب ہے دوست یاساتھی شرعی اصطلاح میں صحابی سے مراد رسول اکرم ﷺکا وہ ساتھی ہے جو آ پ پر ایمان لایا،آپ ﷺ کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوا ۔ صحابی کالفظ رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کے ساتھ کے خاص ہے لہذاب یہ لفظ کوئی دوسراا شخص اپنے ساتھیوں کےلیے استعمال نہیں کرسکتا۔ انبیاء کرام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جوان کی افضلیت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کاحصہ ہے ۔بصورت دیگرایما ن ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان ووفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔یو ں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کاہر گوشہ تاب ناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑہنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام کےایمان افروز تذکرے سوانح حیا ت کے حوالے سے ائمہ محدثین او راہل علم کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔اور اسی طرح اردو زبان میں کئی مو جو د کتب موحود ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ اسوۂ صحابہ کامل‘‘مولانا عبد السلام ندوی کی مرتب شدہ ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے صحابہ کرام کی حیات طیبہ، علم وعمل،امن وآشتی، عدل وانصاف، شفقت ورافت ، عزم وہمت جرات وشجات صدق وصفا اوراخلاق وتمدن کے دلنشیں تذکروں کو بڑے آسان اندا ز میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)