تعلیمات اسلامیہ کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ سیدنا آدم سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا ۔ اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ ہو وہ نبی نہیں بن سکتا ۔اور اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت اوروحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ شفیع امت حضرت محمد ﷺ کی زبانِ صادقہ کا فیصلہ ہے۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سےہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت کرنے کے آغاز سے ہی اس کی تردید وتنقید میں ہر مکتبۂ فکر کے علماء نے بھر پور کردار ادا کیا ۔ بالخصوص علمائے اہل حدیث او ردیو بندی مکتبۂ فکر کے علماء کی قادیانیت کی تردیدمیں خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ قادیانی فرقے کے خلاف سب سے پہلا فتوئ تکفیر مولانامحمد حسین بٹالوی نے تحریرکیاجس پر برصغیر کے تقریباًدوصد تمام مسالک کے علماء نے دستخط ثبت کیے ۔اس فرقے کے خلاف مناظروں کاسب سے کامیاب مقابلہ شیخ الاسلام مولانا نثاء اللہ امرتسری نے کیا جنہیں بالاتفاق فاتح قادیان کا خطاب دیا گیا ۔تقسیم ملک کے بعدپاکستان میں اس گمراہ فرقے کواقلیت قرار دلوانے کےلیے سب سے پہلے متکلم ِاسلام مولانا محمد حنیف ندوی کا قلم حرکت میں آیا۔اوراس فرقے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کےلیے ایک علمی معرکہ مولانا عبد الرحیم اشرف کے قلم سے لڑا گیا۔ یہ سب اکابرین مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والےتھے۔مختلف انداز میں قادیانیت کی تردید میں علماء کی کاوشیں جاری وساری ہیں۔اکثر علماء نے مرزا غلام احمد قادیانی ملعون کے عقائد کا محاسبہ کر کے قادیانیوں کو لاجواب کیا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ تاریخ مرزا‘‘ فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تصنیف ہے اس مختصر کتاب مں انہوں نے مناظرانہ انداز کی بجائے تاریخ اند از میں صحیح حوالہ جات کی روشنی میں مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات صحیحہ مصدقہ ازولادت تاوفات درج کیے ہیں ۔یہ کتاب پہلی بار 1919ء میں اور شائع ہوئی موجودہ طبع اس کا چوتھا ایڈیشن ہے جسے 1973ء میں المکتبۃ السلفیہ کے بانی شیخ الحدیث مولانا عطاء اللہ حنیف نے بعض حوالہ جات کی ممکن چھان بین کر کے شائع کیا تھا۔(م۔ا)
عناوین |
صفحہ نمبر |
پیش لفظ |
4 |
دیباچہ تاریخ مرزا |
5 |
تمہید |
7 |
تاریخ مرزا قبل دعوئے مسیحیت |
8 |
اشتہار انعامی پانسوروپیہ |
8 |
دوسرا اشتہار جواب سوامی دیا مانند |
10 |
اشتہار لفرض متانت اشتہار |
11 |
پیش گوئی |
14 |
اشتہار واجب الاظہار |
15 |
اشتہار صداقت آثار |
19 |
خوش خبری |
20 |
حقانی تقریر |
22 |
براہین احمدیہ کےبعد |
28 |
لیکھر ام پشاوری کےمتعلق ایک پیش گوئی |
32 |
اطلاع عام برائے اہل اسلام |
39 |
سید محمد نذیر حسین صاحب دہلوی |
43 |
اشتہار بمقابلہ مولوی سیدنذیر حسین صاحب دہلوی |
43 |
پیر مہر علی شاہ صاحب |
49 |
عجیب نظارہ |
50 |
سہ سالہ معاری پیشگوئی |
50 |
دعوائے نبوت |
52 |
ایک غلطی کاازالہ |
53 |
ڈاکٹر عبدالحکیم پیٹالوی |
57 |
دعوی الوہیت |
58 |
مرزاصاحب کی نظر عنایت خاک پر |
59 |
خاکسار پر آخری نظر عنایت |
67 |
نتیجہ یہ ہوا |
70 |
وفات مسیح |
70 |