انسانی حقو ق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے قرآن حکیم کی روسے اللہ رب العزت نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔قرآن کریم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیاہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سیدنا آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضلیت عطاکی گئی ۔مغرب نے حقوقِ انسانی کا جو تصور پیش کیا ہے وہ انتہائی ناقص اور فرسودہ ہے، اس کے اندر اتنی وسعت نہیں کہ وہ زندگی کے مختلف شعبوں کا احاطہ کرسکے اس کے باوجود مغرب حقوق انسانی کی رٹ لگائے تھکتا نہیں، لیکن محمد عربی ﷺنے جو مربوط نظام، انسانی حقوق کا پیش کیا وہ زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے، جن میں احترام انسانیت، بشری نفسیات ورجحانات اور انسان کے معاشرتی، تعلیمی، شہری، ملکی، ملی، ثقافتی، تمدنی اورمعاشی تقاضوں اور ضروریات کا مکمل لحاظ کیاگیا ہے اور حقوق کی ادائیگی کو اسلام نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اگر کسی شخص نے دنیا میں کسی کا حق ادا نہیں کیا تو آخرت میں اس کو ادا کرنا پڑے گا ورنہ سزا بھگتنی پڑے گی، حتیٰ کہ جانوروں کے آپسی ظلم وستم کا انتقام بھی لیا جائے گا۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: حق والوں کو ان کے حقوق تمہیں ضرور بالضرور قیامت کے روز ادا کرنے پڑیں گے، حتیٰ کہ بے سنگھسے بکرے کو سینگھ والی بکری سے بدلہ دیا جائے گا۔ زیر تبصرہ کتاب" قرآن حکیم کی روشنی میں حقوق انسانی " محترمہ رقیہ بنت علامہ خلیل عرب پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی انڈیا کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے قرآن مجید کی روشنی میں انسانی حقوق کا جائزہ لیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولفہ کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کلمہ توحید کے اقرار کے بعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے۔ اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ بے نماز ی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ نماز فواحش و منکرات سے انسان کو روکتی ہے۔ بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے از حد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی۔ او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے۔ انہیں کے طریقے کے مطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ مذاہب فقہیہ میں نمازکے مسائل کے سلسلے میں رفع الیدین، فاتحہ خلف، آمین بالجہر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’حدیث نماز‘‘ مولانا عبدالمتین میمن کی تصنیف ہے۔ موصوف نے یہ کتاب اہل تقلید کی جانب لکھی جانے والی کتاب کے جواب میں لکھی۔ احناف نے اس کتاب میں اہل حدیث کے سنت کےمطابق نماز اداکرنے پر خاص طور پر اعتراضات کیے تھے۔ تو مولانا عبدالمتین میمن جوناگڈھی نے ’’حدیث نماز‘‘ کے نام سے یہ کتاب تالیف کی اوراس میں سنت کے مطابق اہل حدیث کے طریقہ نماز تمام مسائل کو خود حنفی مذہب کی کتابوں اورحنفی فقہاء و علماء کے اقوال و فتاویٰ سے ثابت کرنے کوشش کی ہے۔ مصنف موصوف نے خیر خواہی پر مبنی ناصحانہ اور مشفقانہ اسلوب اختیار کیا ہے اور دردمندانہ اپیل کی ہے کہ ہمارے حنفی بھائی سنت کے مطابق نماز کی ادائیگی پر اہل حدیث پر اعتراض نہ کریں اور دوسرے مسلمانوں کی بے جا مخالفت نہ کریں، بلکہ خود بھی سنت کےمطابق نماز ادا کر کے اجروثواب حاصل کریں۔ یہ اس کتاب کو جدید تحقیق شدہ ایڈیشن ہے محترم جناب عقیل احمد صاحب نے اس کتاب میں وارد شدہ احادیث وآثار کی مفصل تخریج کی ہے ۔مصنف نے جو حوالہ جات دئیے تھے وہ کتابوں کی پرانی طباعت کے تھے لیکن اس ایڈیشن میں عقیل صاحب نے قارئین کی آسانی کے لیے ان حوالوں کو جدید طباعت کے مطابق کر دیا ہے۔ اور تخریج کے مصادر و مراجع کی فہرست بھی بنادی ہے۔ پہلے یہ کتاب 177 صفحات پر مشتمل تھی اب یہ تخریج وتعلیق کے بعد یہ کتاب 330 صفحات پر مشتمل ہے۔ (م۔ا)
دنیا میں بسنے والےتمام لوگ ملاقات کے وقت اپنے اپنے مذہب ، تہذیب وتمدن اور اطوار اوخلاق کی بنا پر ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں ۔لیکن دین اسلام کی تعلیمات انتہائی اعلیٰ اور ممتاز ہیں۔ اسلام نے ملاقات کے وقت’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ او رجواباً وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے کا حکم دیا ہے ۔ اسلامی تَحِیّہ (سلام) میں ایک عالمگیر جامعیت پائی جاتی ہے ۔اس میں اللہ کا تعالیٰ کا ذکربھی ہے ۔ شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اسے آپس میں پھیلائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :’’ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پر حق ہے کہ وہ اس کے سلام کا جواب دے (صحیح بخاری) سلام کے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرنے کے لیے دعائیہ کلمات ہیں وہاں آپس میں محبت واخوت بڑھانے کا ذریعہ اوراجنبیت کو ختم کرنے کا باعث بھی ہیں۔مسلمانوں کا آپس ملاقات کے وقت زبان سےسلام کہنے کے ساتھ ہاتھ سے مصافحہ کرنا ایسی عظیم سنت ہے کہ اس پر عمل کرنے سے دل سے حسد ،بغض، اور کینہ وغیرہ دورہو جاتاہے۔ جس کی بدولت معاشرے میں امن و سکون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ باہمی بھائی چارے اور محبت کو فروغ دینے میں اہم ترین عنصر ایک دوسرے کو سلام کہنا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلم معاشرے اس قسم کی بہت سی اقدار سے تہی نظر کرتے آنے لگے ہیں۔ اپنے جاننے والے کی حد تک سلام دعا باقی ہے لیکن اجنبی کو سلام کی روش متروک ہوتی جا رہی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’احکام سلام ‘‘ مولانا عبد الغفور اثری کی تصنیف ہے۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے اہمیت سلام ، فضائل سلام، سلام کے مفصل احکام ومسائل، مصافحہ کی اہمیت اور فضلیت معانقہ کا معنیٰ اوراس کاشرعی حکم، کسی کے گھر میں داخل ہونے سے قبل اجازت لینے کا حکم شرعی اور اس کے احکام ومسائل، قیام تعظیم کی شرعی حیثیت جیسی مباحث کو بڑی تحقیق وجستجو اور عرق ریزی سے قرآن مجید اور کتب تفاسیر وکتب احادیث و غیرہ کے حوالہ جات سے مزین مفصل اور نہایت سلجھے ہوئے انداز میں پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
امت مسلمہ صرف ’کلمہ گو‘ جماعت نہیں بلکہ داعی الی الخیر بھی ہے ۔ یہ اس کے دینی فرائض میں داخل ہے کہ بنی نوع انسان کی دنیا کی سرافرازی اور آخرت کی سرخروئی کے لیے جو بھی بھلے کام نظر آئیں ، بنی آدم کو اس کا درس اور اس کی مخالف سمت چلنے سے ان کو روکے ۔اس فریضہ سے کوئی مسلمان بھی مستثنیٰ نہیں۔ مسلم معاشرے کے ہرفرد کا فرض ہے کہ کلمہ حق کہے ،نیکی اور بھلائی کی حمایت کرے اور معاشرے یا مملکت میں جہاں بھی غلط اور ناروا کام ہوتے نظر آئیں ان کوروکنے میں اپنی ممکن حد تک پوری کوشش صرف کردے ۔ ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں ۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اورانبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے حکمرانوں ،علماء وفضلاء کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے ۔قرآن وحدیث میں اس فریضہ کواس قد ر اہمیت دی گئی ہے کہ تمام مومن مردوں اورتمام مومن عورتوں پر اپنے اپنے دائرہ کار اور اپنی اپنی استطاعت کےمطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکرپر عمل کرنا واجب ہے ۔اوراللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کی ایک ایت کریمہ میں حکمرانوں کوبھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کامکلف ٹھہرایا ہے۔ نیز ان حکمرانوں سےمدد کا وعدہ فرمایا ہے جو حکومت کی قوت اور طاقت سے نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔اسلام صرف عقائد کانام نہیں ہے۔بلکہ مکمل نظام حیات ہے جس میں اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق تبلیغ ،تذکیر اوروعظ ونصیحت کے ساتھ ہے جس پر عمل کرنا والدین ، اساتذہ کرام، علماء وفضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے جس سے افراد میں ایمان، تقویٰ ،خلوص، خشیت الٰہی جیسی صفات پیدا کر کے روح کا تزکیہ اور تطہیر مطلوب ہے ۔ بعض اوامر ونواہی کا تعلق حکومت کی طاقت اور قوتِ نافذہ کے ساتھ ہے ۔ مثلاً نظام ِصلاۃ ، نظام ِزکاۃ ،اسلامی نظامِ معیشت، اسلامی نظامِ عفت وعصمت اور قوانین حدود وغیرہ جس سے سوسائٹی میں امن وامان ، باہمی عزت واحترام اور عدل وانصاف جیسی اقدار کو غالب کر کے پورے معاشرے کی تطہیر اور تزکیہ مطلوب ہے۔ جب تک اوامرونواہی کے ان دونوں ذرائع کو موثر طریقے سےاستعمال نہ کیا جائے معاشرے کا مکمل طور پر تزکیہ اور تطہیر ممکن نہیں ۔عہد نبویﷺ میں رسول اللہ کی ذات مبارک خود بھی شریعت کے اوامر ونواہی پر عمل کرنے میں سب سے آگے تھی ۔ فرد اور پوری سوسائٹی کے تزکیہ اورتطہیر کے اعتبار سے آپ ﷺ کا عہد مبارک تمام زمانوں سے افضل اوربہتر ہے ۔رسول اکرمﷺ کی وفات کے بعد عہد صدیقی میں شدید فتنے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ حضرت ابوبکر صدیق نے بڑی فراست ،دوراندیشی اور استقامت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو کر تمام فتنوں کا استیصال فرمایا۔ اوراسی طرح سیدنا عمر فاروق نے بھی بعض دوسرے سرکاری محکموں کی طرح نظام احتساب اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کابھی باقاعدہ محکمہ قائم فرمایا۔ حضرت عثمان اور حضرت علی نےبھی اپنے عہد میں اس نظام کو مضبوط بنایا لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نےنظام احتساب کے حوالے سے ایک بار پھر حضرت عمر بن خطاب کی یاد تازہ کردی۔اموی ،عباسی اوربعد میں عثمانی خلفاء کےادوارمیں بھی امر بالمعروف عن المنکر کانظام کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا ۔دین کے مرکز حجاز یعنی سعودی عرب میں آج بھی نظام احتساب کا ادارہ الرئاسة العامة لهئية الامربالمعروف والنهى عن المنكر کے نام سے بڑا موثر کردار کررہا ہے ۔روزانہ پانچ نمازوں کے اوقات میں تمام چھوٹی بڑی مارکیٹوں کے کاروبار بند کروانا گلی گلی محلے محلے نمازوں کے اوقات میں گھوم پھر کر لوگوں کونماز کےلیے مسجد میں آنے کی دعوت دینا، بے نمازوں کوتلاش کرنا ، انہیں پکڑ کر تھانے لانا چوبیس گھنٹے تک انہیں وعظ ونصیحت کرنا اورنماز پڑھنے کا وعدہ لے کر رہا کرنا ادارہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔اور اسی طرح زکاۃ کی ادائیگی کے بغیر کوئی کمپنی سعودی عرب میں اپنا کاروبار نہیں کرسکتی، رمضان المبارک کے مہینے میں غیر مسلموں پر بھی رمضان کااحترام کرنا واجب ہے ۔ ہر سال احترام رمضان کے بارے میں رمضان سےقبل شاہی فرمان جاری ہوتا ہے اگر کوئی نام نہاد مسلمان یا غیر مسلم احترام ِرمضان کےفرمان کی پابندی نہ کرے تو اس کا ویزہ منسوخ کر کے اسی وقت اسے ملک بدر کردیا جاتا ہے ۔سعودی عرب میں رہائش پذیر ہر آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ مملکت میں واقعی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ادارہ موجود ہے ۔ اور اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن سرانجام دے رہا ہے۔سعودی حکومت دیگر اداروں کی طرح امربالمعروف وعن المنکر اوردینی کی اشاعت وترویج میں مصروف عمل اداروں کو اسی طرح سالانہ بجٹ میں فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں جس طرح مملکت کے دیگراداروں کومہیا کیے جاتے۔بلاشبہ سعودی حکومت اس معاملے میں تمام اسلامی ممالک کےمقابلہ میں ایک امتیازی شان رکھتی ہے۔ اور قرآن وحدیث کی روسے تمام اسلامی ممالک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے ادارے قائم کریں اوراسلامی ریاست کو غیر اسلامی ممالک کے سامنے پورے اعتماد کے ساتھ ایک ماڈل کی حیثیت سے پیش کریں۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’امربالمروف اور نہی عن المنکر‘‘ معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر اسرار کا مرتب کردہ ہے اس میں انہوں نے اختصار کےساتھ نیکی کاحکم دینے اور برائی سے روکنے کی اہمیت وفضلیت اور ضرورت کو بیان کرنے کے بعد اس فریضے کو ترک کرنے کے نقصانات سے اگاہ کیا ہے ۔(م۔ا)
جب سے یہ کائنا ت معرض وجود میں آئی اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے اپنے برگزیدہ اور محبوب انبیاء اور رسل کو مبعوث فرمایا۔ جو اپنے اپنے مخصوص علاقوں، بستیوں میں لوگوں کی اصلاح فرماتے رہے۔ اسی سلسلہ کا آغاز سیدنا آدم سے ہوا اور آخر ی کڑی سیدالانبیاء سیدنا محمد ﷺ ہیں۔ آپﷺ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اور بول آپ کی ولادت سے وفات تک، کماحقہ محفوظ ہے۔ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے رسول ﷺکااسوہ حسنہ حرزجاں کی حیثیت رکھتا ہے اور قرون اولیٰ میں اسلاف کا اس پر تمسک ایک تاریخی ریکاڈ ہے مگر رفتہ رفتہ لوگوں نے اپنے اکابر، بزرگوں،ائمہ اور آباء کی پیروی شروع کر دی اور اتباع کو چھوڑ کر تقلید کو اپنا لیاتو معاشرے میں بدعات و خرافات نے جنم لیا۔مسلمانوں نے اپنے اپنے ائمہ کی تقلید کو لازم کر لیااورحنفی،شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہم کہلوانے میں فخر محسوس کرنے لگے اور اپنے مسلک کے دفاع پر اتر آئے حتی کہ ضعیف وموضوع، روایات کا سہارالیتے ہوئے اپنے اپنے مذہب کو ثابت کرنے پر کمر باندھ لی ۔مگر درحقیقت امت مسلمہ کی بھلائی اور نجات اطاعت نبوی ﷺ میں ہی مضمر ہے۔ ائمہ واکابرقابل احترام ہیں مگر ذریعہ نجات آپﷺ کا اسوہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "حدیث خیروشر" حافظ عبدالمتین میمن جوناگڑھی کی تصنیف ہے۔موصوف بھارت کے ممتاز عالم دین ہیں۔یہ کتاب انہوں نے "محمد پالن حقانی" کی کتاب "شریعت یا جہالت"کے جواب میں تحریر کی۔ حقانی صاحب نے اپنی کتاب میں اہل الحدیث پر طعنہ زنی کرتے ہوئے ایک ہاتھ سے مصافحہ کرنے کو یہودونصاریٰ سے مشابہت قرار دیا۔تو جناب حافظ عبدالمتین میمن جوناگڑھی نے محمد پالن حقانی کےاس اعتراض اور احناف کے کئی ایک مغالطوں کا دلائل وبراہین سےکتاب ہذا میں تعاقب کیا اور حقانی صاحب کے اعتراضات کا کتاب وسنت کی روشنی میں مدلل اور مسکت جواب تحریر کیا۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔اور ہم سب کو فرقہ واریت سے محفوظ رکھتے ہوئے خالص دین کے نور سے مالامال فرمائے۔یہ اس کتاب کا جدید محقق شدہ ایڈیشن ہے۔ اور مولانا عبداللطیف اثری صاحب نے اس پر تعلیق اور مفید حواشی کا کام بھی کیا ہے ۔جس اس کتاب کی افادیت وعلمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ (م۔ا)
اسلامی نظام حیات میں طہارت وپاکیزگی کے عنصر کوجس شدو مد سے اُجاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے اس طرح سے کسی اور مذہب میں نہیں کی گئی ۔پلیدگی ،گندگی ا ور نجاست سے حاصل کی جانے والی ایسی صفائی وستھرائی جو شرعی اصولوں کے مطابق ہو، اسے طہارت کہتے ہیں۔نجاست خواہ حقیقی ہو، جیسے پیشاب اور پاخانہ، اسے خبث کہتے ہیں یا حکمی اور معنوی ہو، جیسے دبر سے ریح (ہوا) کا خارج ہونا، اسے حدث کہتے ہیں۔ دینِ اسلام ایک پاکیزہ دین ہے اور اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بھی طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے کو کہا ہے اور اس کی فضیلت و اہمیت اور وعدووعید کا خوب تذکرہ کیا ہے۔نبی ﷺنے طہارت کی فضیلت بیان کرتے ہوءے فرمایا:الطّھور شطر الایمان (صحیح مسلم 223) طہارت نصف ایمان ہے۔ایک اور حدیث میں طہارت کی فضیلت کے متعلق ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:’’وضو کرنے سے ہاتھ، منہ،اورپاؤں کے تمام (صغیرہ) گناہ معاف ہوجاتے ہیں‘‘۔(سنن النسائی،:103)طہارت سے غفلت برتنے کی بابت نبیﷺ سے مروی ہے: ’’ قبر میں زیادہ عذاب طہارت سے غفلت برتنے پر ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح الترغیب و الترھیب: 152)۔مذکورہ احایث کی روشنی میں ایک مسلمان کے لیے واجب ہے کہ وہ اپنے بدن، کپڑے اور مکان کو نجاست سے پاک رکھے- اللہ تعالی نے اپنے نبی کو سب سے پہلے اسی بات کا حکم دیا تھا : ’’ اپنے لباس کو پاکیزہ رکھیے اور گندکی سے دور رہیے‘‘ (المدثر:5،4) مکان اور بالخصوص مقام عبادت کے سلسلہ میں سیدنا ابراہیم اور اسماعیل ؑ کو حکم دیا گیا: " میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھیں-" (البقرۃ:125)۔اللہ تعالی اپنے طاہر اور پاکیزہ بندوں ہی سے محبت کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ: ’’بلاشبہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: 222)، نیز اہل قباء کے متعلق فرمایا: "اس میں ایسے آدمی ہیں جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی پاک صاف رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ (التوبہ:108)۔لہذا روح کی طہارت کے لیے تزکیہ نفس کے وہ تمام طریقے جن کی تفصیل قرآن وحدیث میں ملتی ہے ان کا اپنے نفس کو پابند بنانا ضروری ہے ۔جب کہ طہارتِ جسمانی کے لیے بھی ان تمام تفصیلات سے اگاہی ضروری ہے جو ہمیں کتاب وسنت مہیا کر تی ہے۔ زیرتبصرہ کتابچہ ’’طہارت وصلاۃ آداب وشرائط‘‘علامہ محمد عثمانی صاحب کا مرتب شدہ ہے ۔اس مختصر کتابچہ میں مرتب موصوف نے نماز کی فرضیت واہمیت کوبیان کرنے بعدنماز کی شرط اول طہارت کے ضمن میں غسل ، وضو، تیمم وغیرہ کا مکمل مسنون طریقہ اور نواقض وضو وتیمم کو باحوالہ بیا ن کیا ہے ۔اور پھر نماز کے فرائض وواجبات او رنماز کا مسنون طریقہ تحریرکیاہے ۔(م۔ا)
بیماری اور شفاء کا نظام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔وہ جسے چاہتا ہے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے صحت جیسی عظیم الشان نعمت سے سرفراز فرما دیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہی اس نے بیماری کے وقت ادویات استعمال کرنے اور ظاہری اسباب کو بروئے کار لانے کی ترغیب دی ہے۔ذیابیطس بھی ایک خطرناک بیماری ہے لیکن اگر احتیاط اور پرہیز کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے تو اس کا بھی علاج ممکن ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دور جدید کا مرض ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ قدیم زمانہ سے ہی انسان اس کا شکار رہ اہے۔حکماء ہزاروں سال سے اس مرض سے واقف ہیں۔اور انہوں نے اس کے علاج کے بے شمار نسخے تیار کئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" ذیابیطس ایک قابل علاج مرض "محترم ڈاکٹر داؤد احمد شاہین صاحب، بی ایس سی، ایم بی بی ایس کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے ذیابیطس کا تعارف کرواتے ہوئے اس کی علامات اور علاج کے طریقوں کو ایک اچھے انداز میں جمع کر دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
انسان کی طبیعت اور اس کا مزاج ہے کہ وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے،اور اس کا یہ طرز عمل زندگی کے تمام معاملات میں ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے دین کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں بھی خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہےاور پھر دین اسلام سے بھلا اور کونسا دین خوب تر ہوگا۔ تو بہر کیف کسی مسلمان کا مقلد بب جانا ایک ایسی سائیکل پر سوار ہونے کے مترادف ہے کہ جس کے پہیے تو گھومتے ہیں مگر وہ ایک جگہ پر ہی کھڑی رہتی ہے،جس سے ورزش کاکام تو لیا جا سکتا ہے مگر سفر طے نہیں کیا جاسکتا ہے۔لہذا تقلید کو اختیار کرنا انسان کے فطری مزاج اور طبیعت کے خلاف ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں غیر مسلم ملت اسلامیہ سے ہر میدان میں پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔کاش کی ہم بھی دل کی آنکھیں کھول لیتے اور کتاب وسنت سے حقیقی راہنمائی حاصل کر کے ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتے۔ زیر تبصرہ کتاب"چار امام اور عقیدہ امام ابو حنیفہ"محترم مولانا سید معراج ربانی صاحب کی تقریر کی روشنی میں تیار کردہ ایک کتابچہ ہے، جسے سمیع اللہ انعامی فیضی صاحب نے مرتب کیاہے۔ اس کتاب میں انہوں نے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف چار امام ہی برحق نہیں ہیں بلکہ جس جس نے بھی دین حنیف کی خدمت کی ہے وہ سب برحق ہیں۔ اللہ تعالی مولف کی اس کاوش کو قبول فرمائےاور امت مسلمہ کو تقلید کے جمود سے نکال کر اجتہاد کے مقام پر فائز کر دے۔ آمین(راسخ)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اور سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمہ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز ی کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ نماز فواحش ومنکرات سےانسان کو روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے ۔ اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قد ر اہم ہے کہ سفر وحضر اور میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے ۔نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے ۔انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ایک عربی رسالہ ’’ثلاث رسائل فی الصلاۃ ‘‘ کا ترجمہ ہے اس میں نماز باجماعت کی اہمیت پر شیخ ابن باز ،بے نمازی کا شرعی حکم کے متعلق شیخ صالح العثیمین اور دوران نماز چند غلطیوں کی نشاندہی از شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمٰن الجبرین کی عربی تحریروں کا ترجمہ شامل ہے ۔ ان تینوں عربی رسائل کو اردو قالب میں اسرار الحق عبید اللہ نے ڈھالا ہے ۔(م۔ا)
مسلمانوں کا امتیازی وصف دن اور رات میں پانچ دفعہ اپنے پروردگار کےسامنے باوضوء ہوکر کھڑے ہونا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنا اور اپنے رب سے اس کی رحمت طلب کرنا ہے ۔نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمۂ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے ۔ بے نماز کافر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ قیامت کےدن اعمال میں سب سے پہلے نماز ہی سے متعلق سوال ہوگا۔ نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت اور فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر وحضر ، میدان ِجنگ اور بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔اس لیے ہرمسلمان مرد اور عورت پر پابندی کے ساتھ وقت پر سنت نبوی کے مطابق خشوع وخضوع سے نماز ادا کرنا لازمی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’رحمانی نماز‘‘ محدث العصر حافظ عبد اللہ روپڑی کے برادر خود جناب حافظ عبد الرحمٰن امرتسری کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے فرض اور نفل نمازوں کے طریقہ کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اگرچہ نئی کتب میں ان سے بھی آسان انداز میں نماز کے جملہ احکام کو درج کیا گیا ہے۔لیکن علمائے اہل حدیث کے قدیم ذخیرہ کتب کو محفوظ کرنی کی خاطرانہیں بھی ویب سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔(م۔ا)
اسلام اللہ کا کامل دین ہے جوزندگی کے تمامسائل میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ جو شخص اسے اپنا لے گا وہی کامیاب وکامران ہے اور جواس سے بے رغبتی اختیار کرے گا وہ خائب وخاسر ناکام ونامراد ہوگا۔دینِ اسلام عقادئد ونطریات اور عبادات ومعاملات میں ہماری ہر لحاظ سے رہنمائی کرتا ہے ۔اس عارضی دنیا میں ہرمرد وعورت آئیڈیل لائف کے خواہاں ہیں۔ وہ خود ایسی مثالی شخصیت بننا چاہتے ہیں جو مثالی اوصاف کی مالک ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی عارضی زندگی میں ان کی ہر جگہ عزت ہو، وقارکا تاج ان کے سر پر سجے، لوگ ان کےلیے دیدہ دل اور فرش راہ ہوں، ہر دل میں ان کے لیے احترام و تکریم اور پیار کا جذبہ ہو۔ عام طور پر تولوگوں کی سوچ اس دنیا میں ہر طرح کی کامیابی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ لیکن حقیقت میں کامیباب اور مثالی ہستی وہ ہے جو نہ صرف دنیا میں ہی عزت واحترام ،پیار، وقار، ہر دلعزیزی اور پسندیدگی کا تاج سر پرپہنے بلکہ آخرت میں مرنے کے بعد بھی کامیاب مثالی مسلمان ثابت ہو کر دودھ، شہد کی بل کھاتی نہروں چشموں اور حورو غلمان کی جلو ہ افروزیوں سے معمور جنتوں کا مالک بن جائے۔ انسان خواہ مرد ہویاعورت ہو اس کی نجات کا دار مدار اس کے نیک اعمال پر ہے ۔اوراعمال نیک سے دامن بھرنے کےلیے شریعت نے کبھی تو دوزخ کی ہولناکیاں یاد کروائی ہیں۔اور کبھی ترغیب کے لیے جنت کی حسن آرائیاں پیش کی ہیں ۔اس دنیا فانی میں انبیاء کرام کی جماعت ایسی تھی کہ وہ سارے کے سارے جنتی ہیں لیکن انبیاء کے علاوہ بھی کچھ ایسی شخصیات ہیں کہ جن کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی ہےجن میں صحابہ کرام اور صحابیات رسول، ازواج انبیاء کےنام شامل ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’جنت کی شہزادیاں‘‘ ڈکٹرمصطفیٰ مراد کی عربی تصنیف کا ترجمہ ہے ۔اس میں نے انہوں نے 11خواتین جنت حضرت سارہؑ، فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، حضرت مریم، سید فاطمہ، حضرت خدیجہ بن خویلد، سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ، سیدہ غمیصا، سیدہ ام ایمن، نسیبہ بنت کعب انصاریہ ؓن کے تذکرہ کوایک اچھوتے اور دلنشیں انداز میں پیش کیا ہے۔ اور اس کےبعد جنتی عورتوں کی صفات پیش کی ہیں۔ اس کتاب کو عربی سے ادور قالب میں ڈھالنے کی سعاد ت جنا ب حافظ عباس انجم گوندلوی﷾ نے حاصل کی ہے۔ یہ کتاب عصر حاضر میں خواتین کے لیے گراں قدر تحفہ ہے۔ اسے مرد بھی پڑھیں، بیٹیوں کوپڑھائیں، بیویوں کوپڑھنے کی تلقین کریں۔ تاکہ وہ مطمئن ہوکر اس فنا کے گھر سے جانے سے پہلے بقا کے در کے لیے زادراہ تیار کرلیں اور یورپ کی حیاء سے عاری عورتوں کی نقالی چھوڑ کر ان مثالی خواتین کونمونہ بنائیں۔ (م۔ا)
رسول اللہ ﷺ دین حنیف کے داعی اور مبلغ بن کر مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ نے شرک و بدعات کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک اللہ رب العزت کی عبادت اور اسلامی تعلیمات کا درس دیا۔ جب آپؐ نے دعوت کا آغاز کیا تو آپ کو بے شمار تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، دیوانہ، پاگل، مجنون جیسے الفاظ کسے گئے، پتھرمارے گئے، گالیاں دی گئیں، اہل و عیال کو تنگ کیا گیا غرض یہ کہ ہر طرح سے آپ کی دعوت الیٰ اللہ کو روکنے کے لیے ہر طرح کا راستہ اختیار کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کو احسن انداز میں مکمل طور پر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آپؐ نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے دن سے لے کر اپنے رب کی جوار رحمت میں منتقل ہونے تک اس دین کی دعوت دیتے رہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت کا اعلان کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "یا ایھا النبی انا ارسلناک شاھدا و مبشرا و نذیرا"(القران)۔ رسول اللہ ﷺ نے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے کچھ وسائل، اسالیب اور طریقے اختیار کیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کیے تھے اور جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"مقام دعوت" جو کہ مولانا ابو الکلام آزادؒ کی نایاب تصنیف ہے۔ جس میں مولانا آزادؒ نے دعوت و تبلیغ کو ایک تجارت سے تشبیہ دے کر یہ بات واضح کی ہے کہ یہ بھی آخرت کی ایک تجارت ہے جس سے انسان کو کبھی نقصان اور خسارہ نہیں ہو گا۔ ایک داعی اگر اپنی نیت کو خالص کرتے ہوئے دعوت دین کرتا ہے کہ تو یہ ایک قسم کی تجارت ہے اور قرآن میں بھی یہی تاجرانہ اسلوب مدنظر رکھا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے"ان اللہ اشترٰی من المؤمنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ"(القران) مولانا ابو الکلام آزادؒ تعارف کی محتاج شخصیت نہیں انہوں نے فن صحافت، خطابت، تحریک و تصنیف میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی تصانیف کو ان کے لیے درجات میں اضافے کا سبب بنائے اور امت مسلمہ کو دعوت دین کی نشر و اشاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین(عمیر)
جہاد فی سبیل اللہ ، اللہ کو محبوب ترین اعمال میں سے ایک ہے اور اللہ تعالی نے بیش بہا انعامات جہاد فی سبیل میں شریک ایمان والوں کے لئے رکھے ہیں۔ اور تو اور مومن مجاہدین کا اللہ کی راہ میں نکلنے کا عمل اللہ کو اتنا پسندیدہ ہے کہ اس کے مقابلے میں نیک سے نیک، صالح سے صالح مومن جو گھر بیٹھا ہے ، کسی صورت بھی اس مجاہد کے برابر نہیں ہو سکتا ، جو کہ اپنے جان و مال سمیت اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو گرانے کے لئے ، کسی شہہ کی پرواہ کئے بغیر نکل کھڑا ہوا ہوتا ہےجہاد كا لغوى معنی طاقت اور وسعت كے مطابق قول و فعل كو صرف اور خرچ كرنا،اور شرعى معنى اللہ تعالى كا كلمہ اور دين بلند كرنے كے ليے مسلمانوں كا كفار كے خلاف قتال اور لڑائى كے ليے جدوجہد كرناہے۔ زیر تبصرہ کتاب" مسئلہ جہاد کشمیر اور اس کی مختصر تاریخ " محترم مولانافضل الہی وزیر آبادی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے جہاد کشمیر کی مختصر تاریخ بیان کی ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین(راسخ)
دعوت وتبلیغ ، اصلاح وارشاد انبیائی مشن ہے۔ اس کے ذریعہ بندگان اٖلہ کی صحیح رہنمائی ہوتی ہے صحیح عقیدہ کی معرفت اور باطل عقائد وخیالات کی بیخ کنی ہوتی ہے۔ شریعت اور اس کے مسائل سےآگاہی اور رسوم جاہلیت نیز اوہام و خرافات کی جڑیں کٹتی ہیں دعوت، اصلاح وارشاد کے بہت سے وسائل و اسالیب ہیں انہیں میں سے ایک مؤثر ذریعہ دروس وخطابت کا ہے۔ خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ،خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کےذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار ،اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔بلاشک و شبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت وصدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے ۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کاسامعین کے روح و قلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہےجسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے ۔اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح ، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت،معاملات میں درستگی،آخرت کا فکر اور تزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’جمعے کے خطبے‘‘ مولانا نور العین سلفی کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے معاشرے کی ضرورت کے اہم موضوعات پر قرآن وسنت کے دلائل سے مزین 24 خطبات پیش کیے ہیں ۔اور کتاب آغاز میں فاضل منصف نے ان حضرات کے لیے کہ جو خود تو خطیب اور عالم نہیں ہوتے لیکن کسی عالم نہ ہونے کی وجہ سے کتاب دیکھ مجبوراً خطبۂ جمعہ کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں ان کے لیے خطبہ جمعہ کے دونوں خطبوں میں پڑھے جانے والے عربی الفاظ اور اختتامی کلمات اور دعاؤں کوبھی شامل کردیا ہے۔ اور اس کے بعد خطباء اور سامعین ذمہ داریوں کو بیان کیا ہے۔ یہ جمعہ کے خطبے کی دوسری جلد ہے جس منہاج السنہ ڈاٹ کام سے ڈاؤن لوڈ کرکے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے اگر کسی صاحب کے پاس اس کی دوسری جلد ہے تو ہمیں عنائت کردے تاکہ اسے بھی کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا جاسکے ۔(م۔ا)
موت کی یاد سے دنیوی زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی حقیقی زندگی کے لئے حسنِ عمل کا جذبہ اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔ یادِ موت کا اہم ذریعہ زیارتِ قبور ہے۔ شہرِ خاموشاں میں جاکر ہی بدرجۂ اتم یہ احساس ہوتا ہے کہ موت کتنی بڑی حقیقت ہے جس کا مزہ ہر شخص چکھے گا۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ اسلام نے جہاں زندگی کے بارے میں احکام ومسائل بیان کئے ہیں وہیں موت کے احکام بھی بیان کر دئیے ہیں۔موت کے احکام میں سے کفن ودفن اور نماز جنازہ وغیرہ کے احکام ہیں۔جنازے کے احکام ومسائل کے متعلق علماء امت نے مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔اور کتب احادیث میں بھی کتاب الجنائز کے نام سے محدثین نے ابوا ب قائم ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ کتاب الجنائز‘‘مولانا محمدعبدلرحمٰن مبارکپوری کی تصنیف ہے ۔اس کتاب میں انہوں نے جان کنی کے وقت سے لے کر تجہیز وتکفین اور کے اس کےبعد تک کےتمام وہ ضروری احکام مسائل جمع کردئیے ہیں جو احادیث سے ثابت ہیں ۔اردو دان طبقہ اس کتاب کے مطالعہ سے تجہیز وتکفین کے احکام ومسائل سے واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔(م۔ا)
جس طرح امام ابن تیمیہ کی تجدید دین کی خدمات کا انکار ناممکن ہے اسی طرح ہندوستان میں اسلا می روح اور سلفی عقیدے کی ترویج و اشاعت میں جو خدمات شاہ ولی اللہ کے خاندان نے سر انجام دی ہیں ان کوبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا-تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل شہید کی ایک جاندار اور لا جواب تصنیف ہے۔ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کا موضوع توحید ہے جو دین کی بنیاد ہے اس موضوع پر بے شمار کتابیں اور رسالے لکھے جاچکے ہیں۔ تقویۃ الایمان بھی انہی کتب میں سے ایک اہم کتاب ہے ۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1826ء میں شائع ہوئی جب شاہ اسماعیل شہید سید احمد بریلوی اور ان کی جماعت مجاہدین کےہمراہ وطن مالوف سے ہجرت کر کے جا چکے تھے ۔اور ہند وستان کی آزادی و تطہیر کے لیے جہاد بالسیف کا آغاز ہورہا تھا۔کتاب تقویۃ الایمان اب تک لاکھوں کی تعداد میں چھپ کر کروڑوں آدمیوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ بن چکے ہے۔ شاہ اسماعیل شہید کا اندازِ بحث اور طرزِ استدلال سب سے نرالا ہے اور مصلحانہ ہے علمائے حق کی طرح انہوں نے صرف کتاب و سنت کومدار بنایا ہے۔ آیات وآحادیث پیش کر کے وہ نہایت سادہ اور سلیس میں ان کی تشریح فرمادیتے ہیں اور توحید کے مخالف جتنی بھی غیر شرعی رسمیں معاشرے میں مروج تھیں ان کی اصل حقیقیت دل نشیں انداز میں آشکارا کردیتے ہیں۔ انہوں نے عقیدہ وعمل کی ان تمام خوفناک غلطیوں کوجو اسلام کی تعلیم توحید کے خلاف تھیں مختلف عنوانات کے تحت جمع کردیا۔مثلاً شرک فی العلم، شرک فی التصرف، شرک فی العبادات، شرک فی العادت۔ یوں تقویۃ الایمان توحید کے موضوع پر ایک جامع اور یگانہ کتاب بن گئی۔ اردو زبان میں یہ کتاب معمولی پڑھے لکھے آدمی سے لے کر متبحر عالم دین تک سب کے لیے یکساں مفید ہے۔ زیر تبصرہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ در اصل عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا ابو الحسن ندوی کے ان حواشی کاترجمہ ہے جوانہوں نے تقویۃ الایمان کو عربی زبان میں منتقل کرتے ہوئے اس پر ایک گرانقدر مقدمہ اور شاہ صاحب کے مختصر جامع حالات زندگی کی دلکش تصویر کشی بھی کی او رجگہ جگہ بہت سےقیمتی تشریحی حواشی اور جلیل القدر علماء ومشائخ کےتائیدی بیانات وارشادات بھی نقل فرمائے۔ اور اس کا نام ’’رسالہ التوحید ‘‘ رکھا بلاد عربیہ میں اسے شرف قبول حاصل ہوا اور اسے دار العلوم ندوۃ العلماء کے نصاب میں شامل کر لیاگیا۔محترم مولانا شمس الحق ندوی صاحب (ایڈیٹر تعمیر حیات ‘‘ نے مولانا ابو الحسن ندوی کے تقویۃ الایمان پر تحریر کردہ حواشی کو اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اصل کتاب کی طرح یہ حواشی بھی مشرکانہ ومبتدعانہ رسم ورواج کا خاتمہ کریں گے۔ (ان شاء اللہ)(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے او رعبادات کی مختلف اقسام ہیں ۔مثلاً قولی،فعلی ، مالی اور مالی عبادت میں ایک عبادت قربانی بھی ہے۔قربانی وہ جانور ہے جو اللہ کی راہ میں قربان کیا جائے اور یہ وہ عمل ذبیحی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیا جاتا ہے ۔تخلیق انسانیت کے آغازہی سے قربانی کا جذبہ کار فرما ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت آدم کے دو بیٹوں کی قربانی کا واقعہ موجود ہے۔اور قربانی جد الانبیاء سیدنا حضرت ابراہیم کی عظیم ترین سنت ہے ۔یہ عمل اللہ تعالیٰ کواتنا پسند آیا کہ اس عمل کوقیامت تک کےلیے مسلمانوں کے لیے عظیم سنت قرار دیا گیا۔ قرآن مجید نے بھی حضر ت ابراہیم کی قربانی کے واقعہ کوتفصیل سے بیان کیا ہے ۔ پھر اہلِ اسلام کواس اہم عمل کی خاصی تاکید ہے اور نبی کریم ﷺ نے زندگی بھر قربانی کے اہم فریضہ کو ادا کیا اور قرآن احادیث میں اس کے واضح احکام ومسائل اور تعلیمات موجو د ہیں ۔عید الفطر کا بنیادی مقصد اور فلسفہ رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ رب العزت کے خصوصی احسانات ،انعامات او رنوازشات، کاشکرادا کرنا اور دربار الٰہی میں بصد عجز وانکسار اپنی کم ہستی ، کم مائیگی او رکوتاہ عملی کا اعتراف کر کے اس ذات عظیم وبرتر سے معافی اور عفو ودرگزر کی دہا والتجاء کرنا ہے۔ اور عیدالاضحیٰ امام الموحدین، جد الانبیاء سیدناابراہیم کی قربانی ، ایثار، اخلاص اور وفا کی یاد تازہ کر کے سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے جانورذبح کر کے اللہ ارحم الراحمین کی بارگاہ سے بے پناہ اجروثواب اور نیکیاں حاصل کرنے کا دن ہے ۔کتب احادیث وفقہ میں کتاب الاضاحی کے نام سے ائمہ محدثین فقہاء نے باقاعدہ ابواب بندی قائم کی ہے ۔ اور کئی اہل علم نے قربانی کےاحکام ومسائل اور فضائل کے سلسلے میں کتابیں تالیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’عیدین وقربانی فضیلت واہمیت ،احکام ومسائل ‘‘ مولانا محمد منیر قمر﷾( مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے۔یہ کتا ب اپنے موضوع پ ایک منفرد ، مستند اور باحوالہ کتاب ہے ۔ جس میں مصنف موصوف نے بڑی تحقیق ، تدقیق اور عرق ریزی سے عیدین اور قربانی کے مسائل کی وضاحت فرمائی ہے۔ او رموضوع کو پورا کرنے کا حق ادا کردیا ہے ۔ نیز اس ضمن میں پیدا ہونے والے بعض جدید مسائل اور الجھنوں کا بڑی شرح وبسط سے ذکر کیا ہے اور قرآن وسنت سے ان کا حل پیش فرمایا ہے اور ان مواقع پر عام رواج پاجانے والی رسوم اور بدعات کا مدلل طریقے سے رد کرتے ہوئے بڑے ناصحانہ اور مشفقانہ انداز میں عوام کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے او رعیدین کوایک مذہبی اور دینی تہوار بنانے کی ضرورت پرزور دیا ہے۔ کتاب میں مسائل کے استنباط واستخراج میں صرف صحیح اور حسن احادیث سے استفادہ کیاگیا ہے ۔مولانا حافظ عبد الرؤف (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) بڑی محنت اور جانفشانی سے کتاب میں درج تمام احادیث ،ائمہ کے اقوال اور فتاویٰ کی تخریج کر کے کتاب کی اہمیت و افادیت کو دو چند کردیا ہے۔(م۔ا)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ (661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے، آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا۔ او رباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت، کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔تفسیر، حدیث، فقہ، علم فقہ، علم کلام، منطق، فلسلفہ، مذاہب وفرق اورعربی زبان وادب کاگوشہ ایسا نہیں ہے جس پر آب نےگراں قدر علمی سرمایہ نہ چھوڑا ہو۔ آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔شیخ الاسلام کو قرآن سے گہرا لگاؤ تھا۔ فتاوی کی 37 جلدوں میں سے جلد 15،16،17 قرآن مجید کی مختلف آیات وسور کی تفسیر پر مشتمل ہیں ۔تفسیرآیت کریمہ ، تفسیر سورت اخلاص، تفسیرمعوذتین الگ کتابی صورت میں شائع ہوئی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تفسیر امام ابن تیمیہ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تفسیری اجزاء پر مشتمل ہے ۔اس مجموعہ میں اصول تفسیر، تفسیر آیت کریمہ، تفسیر سورۃ الکوثر، تفسیر سورۂ اخلاص، تفسیر سورۃ الفلق والناس کے نام سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے تفسیری اجزاء شامل ہیں۔ ان سب اجزاء کاترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی، مولاناعبدالرحیم پشاوری، اور مولانا غلام ربانی نے کیا ہے۔ اصول تفسیر پر گراں قدر اور مفید حواشی مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کےقلم سے ہیں۔ شیخ الاسلام کے یہ تفسیری اجزاء اگرچہ اس پہلے الگ الگ شائع ہوئے ہیں لیکن مولانا رفیق اخمد رئیس سلفی نے ان کو ایک جگہ مرتب کر کے ان کی نظر ثانی کہ ہے۔ اور ان کی قدیم اردو کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ آیات قرآنی کے مکمل حوالہ جات لگادئیے ہیں۔ (م۔ا)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ او رباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت کی تردید وتوضیح میں بسرکی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔ آپ کا فتاوی ٰ 37 ضخیم جلد وں میں مشتمل ہے۔ امام صاحب صرف زبان اور قلم کے غازی ہی نہ تھے بلکہ وہ صاحب سیف وسنان بھی تھے ۔جنہوں نے محراب ومنبر کے ساتھ اچھے سپاہی اور مجاہد کی طرح میدان کارزار میں بھی شجاعت دکھائی۔جہاد کی تڑپ اور لگن ان کی رگ رگ اور نس نس میں رچی بسی تھی۔تاتاریوں کی بربریت کے خلاف جہاد بالقلم والسیف والسنان کا علم سب سے پہلے انہوں نےہی بلند کیا تھا۔عین اس وقت جب مصر وشام پر سراسیمگی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ان حالات میں امام ابن تیمیہ نے ایک خط لکھ کر وقت کے حکمرانوں او رعوام کو جہاد کی ترغیب دی جس کے نتیجے میں عالم اسلام کو تارتاریوں کی بربریت سے چھٹکارا نصیب ہوا۔ زیر تبصرہ کتا ب’’ دعوت وعزیمت ‘‘ شیح الاسلام ابن تیمیہ کے جہاد کے حوالے سے تحریر کردہ ایک مجاہدانہ مکتوب گرامی ’’جہاد بالقلم والسیف والسنان‘‘کا اردو ترجمہ ہے ۔اس خط میں اہمیت وجہاد اور فضلیت جہاد کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے لیے قیامت تک کے لیے جہادکامیابیوں او رکامرانیوں کی جس طرح ضمانت مہیا کرتاہے اس خط میں اس پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔جہاد افغانستان کے دوران پروفیسر چوہدری عبد الحفیظ نے اس خط کا ترجمہ کیا او رخط کے شروع میں پروفیسر موصوف نے خط کا پس منظر بیان کرنے کے لیے ایک جامع مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جواس دور کی تصویر پیش کرتاہے ۔(م۔ا)
مسلمانوں کے دینی مدارس تعلیم و تربیت کے ادارے ہیں ۔ یہاں ذمہ دار شہری بنائے جاتے ہیں۔ یہاں سے فارغ ہوکر مسلمان بچے قوم او رملک کی اپنی سکت اور صلاحیت کے مطابق خدمت کرتے ہیں۔ لیکن ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور شرپسند عناصر مسلمانوں اور تعمیرملت کے دینی اداروں کی تصویر خراب کرنے میں شب وروز مصروف ہے۔ دنیا کا ابلیسی نظام مسلمانوں کی بیداری سے ہمیشہ خائف رہتا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ یہ امت کسی طرح اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکے۔ چنانچہ اس کے و سائل کو برباد کیا جارہا ہے یا ان کو اپنی جاگیر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور مسلمانوں کو ہرجگہ قدامت پرست، متشدد اور دہشت گردقرار دیا جارہا ہے۔ ہمارے سربراہان مملکت اور دینی رہنماؤں کو حق بات کہنے کی جرأت نہیں ہے بلکہ بہت سے وظیفہ یاب سادہ مزاج، دین پسند اور مخلص عوام کو مسلسل گمراہ کر رہے ہیں۔ اور لاکھوں مسلمانوں کو خاک وخون میں تڑپانے کی اصل حقیقت سے رورشناس نہیں کراتے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تعمیر ملت اور دینی ادارے‘‘ مولانا رفیق احمد رئیس سلفی کی تصنیف ہے۔ اس میں انہوں نے مسلمانوں کے کئی حساس مسائل پر بحث کی ہے۔ خاص طور پر مدارس پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی گئی ہے اور عالمی سطح پر مسلمانوں پر جو الزامات عائد کیے جاتے ہیں ان کی حقیقت کا جائزہ لیاکیا ہے۔ اور ان کے پس پردہ جو ذہنیت کارفرما ہےاسے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ نیز مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال کا تجزیہ کیا ہے اور اس پہلو سے ان کی زبوں حالی کو دور کرنےکے لیے چند تجاویز پیش کی گی ہیں۔ (م۔ا)
جہاد فی سبیل اللہ ، اللہ کو محبوب ترین اعمال میں سے ایک ہے اور اللہ تعالی نے بیش بہا انعامات جہاد فی سبیل میں شریک ایمان والوں کے لئے رکھے ہیں۔ اور تو اور مومن مجاہدین کا اللہ کی راہ میں نکلنے کا عمل اللہ کو اتنا پسندیدہ ہے کہ اس کے مقابلے میں نیک سے نیک، صالح سے صالح مومن جو گھر بیٹھا ہے ، کسی صورت بھی اس مجاہد کے برابر نہیں ہو سکتا ، جو کہ اپنے جان و مال سمیت اللہ کے دین کی سربلدی اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو گرانے کے لئے ، کسی شہہ کی پرواہ کئے بغیر نکل کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ذیل میں ہم جہاد فی سبیل بارے کچھ اسلامی تعلیمات اور اس راہ میں اپنی جانیں لٹانے والوں کے فضائل پیش کریں گے۔ جہاد كا لغوى معنی طاقت اور وسعت كے مطابق قول و فعل كو صرف اور خرچ كرنا،اور شرعى معنى اللہ تعالى كا كلمہ اور دين بلند كرنے كے ليے مسلمانوں كا كفار كے خلاف قتال اور لڑائى كے ليے جدوجہد كرناہے۔ زیر تبصرہ کتاب" بوسنیا کے عرب شہداء " جماعۃ الدعوہ پاکستان کے مرکزی رہنما محترم مولانا امیر حمزہ صاحب کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نےبوسنیا میں عرب شہداء کی ایمان افروز داستانیں بیان کی ہیں۔یہ کتاب اپنے اس موضوع پر ایک شاندار اور مفید کتاب ہے ،جس کا ہر طالب علم کو مطالعہ کرنا چاہئے۔اللہ تعالی مولف کی اس محنت کو قبول فرمائے۔آمین(راسخ)
تعزیہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کا مادہ عین، زاء اور ی سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں مصیبت میں صبر کرنا ، دلاسہ دینا ،تسلی دینا ، پرسہ دینا کے ہیں۔ انہیں الفاظ سے سے تعزیت اور تعزیہ وجود میں آئے۔ اہل تشیع کے ہاں تعزیہ ایک ایسی شبیہ ہے جوکہ سیدنا حسین کے روضہ کی طرز پر تعمیر کی جاتی ہے۔ یہ تعزیے مختلف شکلوں مختلف اشیاء سونے،چاندی،لکڑی،بانس اور سٹیل سے تیار کئے جاتے ہیں، جوکہ شیعوں کی طرف سے محرم کے مہینے میں ایک جلوس کے ہمراہ برآمد کئے جاتے ہیں۔ برصغیر میں تعزیے کا بانی بادشاہ امیر تیمور تھا۔ تیمور کے باپ، دادا اسلام قبول کر چکے تھے۔ مگر تیمور کا تعلق تلوار اور ملکوں کی فتوحات تک ہی تھا۔ تعزیہ کا تعلق عہد تیمور سے ہے۔ یعنی تعزیہ کی شروعات عہد تیموری سے ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کی شکل میں مختلف تبدیلیوں رائج ہوتی چلی گئیں۔ عجیب بات یہ کہ ان بدعات و رسومات کو دین کی خدمت سمجھ کر انجام دیا جاتا ہے جبکہ اسلام نے ان تمام شرکیہ افعال اور بدعات و خرافات سے واضح طور سے منع کیا ہے اور ایسے موقع پر صبر سے کام لینے کی تعلیم دی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "تعزیہ داری علمائے امت کی نظر میں" جامعہ سلفیہ بنارس انڈیا کے استاد مولانا حافظ اسعد اعظمی صاحب کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے بریلوی، اہل حدیث اور حقیقت پسند شیعی علماء کے فتاوی کی روشنی میں تعزیے کی غلطی کو واضح کیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺدینِ اسلامی کے بنیادی مآخذ ہیں۔اور اللہ تعالی کی رسی یعنی قرآن کریم کے ساتھ انسان کا تعلق اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کریم کی تشریح وتفسیر رسول اللہ ﷺ کی سنت ،حدیث یعنی آپ کے طریقہ سے نہ ہو اور آپ ﷺ کےطریقہ کےساتھ وابستہ ہونا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اس علم پر عمل نہ کیا جائے۔ احادیث رسول ﷺ کو محفوظ کرنے کے لیے کئی پہلوؤں اور اعتبارات سے اہل علم نے خدمات انجام دیں۔ تدوینِ حدیث کا آغاز عہد نبوی ﷺ سے ہوا صحابہ وتابعین کے دور میں پروان چڑھا او ر ائمہ محدثین کےدور میں خوب پھلا پھولا ۔مختلف ائمہ محدثین نے احادیث کے کئی مجموعے مرتب کئے او رپھر بعدمیں اہل علم نے ان مجموعات کے اختصار اور ترجمہ وتشریح ،تحقیق وتخریج او رحواشی کا کام کیا۔ائمہ اسلاف کی طرح برصغیر میں بھی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لےکر عصر حاضر کے متعدد علماء کرام نے احادیث کے مختلف مجموعات مرتب کیے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’طریق النجاۃ الصحاح من المشکوٰۃ‘‘بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑھی ہے ۔اس کتاب کو1305ھ میں مولااابو محمدابراہیم آراوی نے مشکوٰۃ المصابیح سے متفق علیہ احادیث کاانتخاب کر کے مشکوٰۃ المصابیح کے ہی طرز پرمرتب کیا حتیٰ کہ مشکوٰۃ المصابیح کے کتاب وباب کی ترتیب کوبھی برقرار رکھا ۔اور صحیح بخاری وصحیح مسلم ہی کی حدیثوں کاترجمہ نہایت سلیس اور بامحاورہ اردو میں لکھا۔قارئین کی آسانی کےلیے بخاری ومسلم کی احادیث کے لیے (ق)، صحیح بخاری کے لیے (ب) ،صحیح مسلم کے لیے (م) کے رموز درج کیے ۔(م۔ا)
وقت اس کائنات میں انسان کی عزیز ترین اور نہایت بیش قیمت متاع ہے۔ جن لوگوں نے وقت کی قدر و قیمت کا ادراک کر کے اپنی زندگی میں اس کابہتر استعمال کیا و ہی لوگ کائنات کے سینے پر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب ٹھہرے۔ در حقیقت انسان اس وقت تک ’’وقت‘‘ کے درست مصرف پر اپنی تو جہات کا ارتکاز نہیں کرسکتا جب تک اس کے سامنے اس کی زندگی کا کوئی متعین مقصد اور نصب العین نہ ہو۔جو انسان اپنی زندگی کو مقصدیت کے دائرے میں لے آیا ہو اور وہ اپنے اسی مقصد اور آدرش کے لیے ہی زندگی کے شب و روز بسرکرنا چاہتا ہو اس کی ساری توجہ اپنے مقصد پر لگ جاتی ہے۔ اِدھر اُدھر کے لا یعنی مسائل میں الجھ کر وہ اپنا وقت برباد نہیں کرتا۔ایک بندۂ مومن کے لیے وقت کسی نعمت کبریٰ سے کم نہیں۔ ایمان انسان کا ایک ایسا وصف ہے جوگزر ے ہوئے وقت کو اس کے لیے ختم یا محو نہیں ہونے دیتا لکہ اس کو ہمیشہ کےلیے امر بنا دیتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تحفۂ وقت‘‘ محترم شفیق الرحمٰن الدراوی﷾ کی گراں قدر کاوش ہے۔ اس میں انہوں نے امت مسلمہ کے افراد کے لیے راہنمائی کے لیے قرآن وسنت کی روشنی میں ایسے اصول بیان کیے ہیں جن کی روشنی میں انسان وقت کی صحیح قدر سمجھ سکتا ہے اللہ تعالیٰ اور نبی مکرﷺ کی اطاعت میں رہتے ہوئے دین ودنیا کی کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ فاضل مصنف نے وقت کی قدر و قیمت کو خاص طور اسلامی نقطہ نظر سے اجاگر کرکے ایک سچے اور راست باز مومن کو تضیع اوقات کے نقصان سے آگاہ کیا ہے۔ اس کتاب میں ایک عام انسان کے لیے بھی اور امت مسلمہ کے علمبرداروں کے لیے بھی رہنمائی کا بیش قیمت لوازمہ مہیا کیاگیا ہے۔ (م۔ا)
دعوت وتبلیغ ، اصلاح وارشاد انبیائی مشن ہے۔ اس کے ذریعہ بندگان اٖلہ کی صحیح رہنمائی ہوتی ہے صحیح عقیدہ کی معرفت اور باطل عقائد وخیالات کی بیخ کنی ہوتی ہے ۔شریعت اور اس کے مسائل سے آگاہی اور رسوم جاہلیت نیز اوہام وخرافات کی جڑیں کٹتی ہیں۔ دعوت وتبلیغ ، اصلاح وارشاد کے بہت سے و سائل واسالیب ہیں انہیں میں سے ایک مؤثر ذریعہ دروس و خطابت کا ہے۔ خطابت اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ، خاص استعداد وصلاحیت کا نام ہے جس کے ذریعے ایک مبلغ اپنے مافی الضمیر کے اظہار، اپنے جذبات واحساسات دوسروں تک منتقل کرنے اور عوام الناس کو اپنے افکار ونظریات کا قائل بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ بلاشک وشبہ قدرتِ بیان ایسی نعمت جلیلہ اور ہدیۂ عظمیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کوعطا فرماتا ہے اور خطابت وبیان کے ذریعے انسان قیادت و صدارت کی بلندیوں کوحاصل کرتا ہے۔ جوخطیب کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے مزین خطاب کرتا ہے اس کی بات میں وزن ہوتا ہےجس کا سامعین کے روح وقلب پر اثر پڑتا ہے۔ اور خطبۂ جمعہ کوئی عام درس یا تقریر نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے جسے شریعتِ اسلامیہ میں فرض قرار دیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہےکہ اس میں بہت سارے وہ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں جو عام کسی درس وتقریر وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ اس لیے خطبا حضرات کے لیےضروری ہے کہ وہ خطبات میں انتہائی اہم مضامین پر گفتگو فرمائیں جن میں عقائد کی اصلاح، عبادات کی ترغیب، اخلاقِ حسنہ کی تربیت، معاملات میں درستگی، آخرت کا فکر اورتزکیۂ نفس ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تخفۃ الواعظین‘‘ مولانا حافظ ظہیر احمدعبد الاحد کی کاوش ہے۔ یہ کتاب قمری سال کےماہ وسال ایام کےلحاظ سے ضرورت زندگی کے تین سو ساٹھ دروس واسباق پر مشتمل ہے۔ اس کی ابتداء ماہ محرم الحرام اورانتہا ماہ ذی الحجہ پر ہے ہر ماہ کے آغاز پر اس کی وجہ تسمیہ اور اشارۃً کچھ تاریخی واقعات قلمبند ہیں۔یہ کتاب بڑی معیاری اور دعوتی منہج کے مطابق ہے اس کے مشمولات ومضامین آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ وحسنہ پر ہی مبنی ہیں اور یہ دروس مختصر ڈھائی تین صفحات پر مشتمل ہیں۔ خاص وعام سبھی لوگ اس کوبعد نماز پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کتاب ہذامیں اگرچہ سے ہر ماہ کی مناسبت سے ماہ کے کچھ اسباق و دروس شامل ہیں لیکن موقع و محل اور مقتضائے حال کی رعایت سے ہر قاری و واعظ اسے اپنی سماجی ضرورت کے مطابق مختلف مناسب ترتیب دیکر استعمال کرسکتا ہے۔ (م۔ا)