انبیاء کرام علیہم کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔ صحابہ کرام سے محبت کرنا اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کے فضائل بیان کیے ہیں ان کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے۔ بصورت دیگر ایمان ناقص ہے ۔ صحابہ کرام کے ایمان و وفا کا انداز اللہ کو اس قدر پسند آیا کہ اسے بعد میں آنے والے ہر ایمان لانے والے کے لیے کسوٹی قرار دے دیا۔ یوں تو حیطہ اسلام میں آنے کے بعد صحابہ کرام کی زندگی کا ہر گوشہ تابناک ہے لیکن بعض پہلو اس قدر درخشاں ،منفرد اور ایمان افروز ہیں کہ ان کو پڑھنے اور سننے والا دنیا کا کوئی بھی شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ صحابہ کرام کے ایمان افروز تذکرے سوانح حیات کے حوالے سے ائمہ محدثین اور اہل علم نے کئی کتب تصنیف کی ہیں عربی زبان میں الاصابہ اور اسد الغابہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں کئی کتب موحود ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’آسمان رسالت کے درخشندہ ستارے‘‘ابو عمار محمود مصری کی عربی تصنیف أصحاب الرسول کا اردو ترجمہ ہے۔ترجمہ کی سعادت حافظ محمد عباس انجم گوندلوی رحمہ اللہ نے حاصل کی ہے۔یہ کتاب نہایت ہی مفید اور فیضیاب کرنے والی ہے ۔ فاضل مصنف نے اس کتاب کے مقدمہ میں امت محمدیہ کے فضائل کا تذکرہ کرنے کے بعد انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بیان کیے ہیں اور پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر سب و شتم کرنے اور انہیں تبرا بازی کا نشانہ بنانے کے حرام ہونے پر قطعی اور محکم دلائل کا ذکر کیا ہے۔ کتاب کا آغاز عشرہ مبشرہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کیا ہے ان کے بعد نوے دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے۔(م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے۔فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول ﷺ کے مبارک دور سے چلا آ رہا ہے برصغیر پاک و ہند میں قرآن کی تفاسیر، شروح حدیث، حواشی و تراجم کے ساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہلحدیث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’فتاویٰ امن پوری ‘‘محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی کاوش ہے موصوف کے یہ فتاویٰ جات 150 اقساط اور 2757 صفحات پر مشتمل ہیں۔ ادارہ محدث کو یہ فائل کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے پی ڈی ایف کی صورت میں ملی ہے ۔ اس پی ڈی ایف فائل کا سائز زیادہ تھا اس لیے اس کو 6 جلدوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔25قسطوں پر ایک جلد مشتمل ہے۔ اگرچہ اس میں ابھی تبویب و ترتیب اور صفحات کی ترقیم کا کام کرنا باقی ہے اور غیر مطبوعہ ہے۔افادۂ عام کے لیے علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے، اسے امت مسلمہ کی اصلاح کا ذریعہ بنائے اور ان کی تدریسی، دعوتی ،تحقیقی و تصنیفی مساعی کو قبول فرمائے۔(م۔ا)
نبی کریمﷺ نے مختلف قدغنوں اور پابندیوں زنجیروں میں گرفتار دنیا کو انسانی حقوق سے آشنائی بخشی اور انہیں انسانیت کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا۔رسول اللہﷺ نے حقوق کی دو قسمیں بتائیں۔حقوق اللہ اور حقوق العباد حقوق اللہ سے مراد عبادات ہیں یعنی اللہ کے فرائض اور حقوق العباد باہم انسانوں کے معاملات اور تعلقات کا نام ہے۔اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت حقوق اللہ سے بھی کئی لحاظ سے زیادہ ہے۔اسلام میں ہر انسان پر دوسرے انسانوں بلکہ حیوانوں اور بےجان چیزوں تک کے حقوق رکھے گئے ہیں جنہیں ہر انسان کو اپنے امکان کے مطابق ادا کرنا ازحد ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اسلام نے حقوق کو بہت وسعت دی ہے کہ نہ صرف کائنات ارضی کے حقوق انسان کے ذمہ ہیں بلکہ خود انسان کے وجود کے ہر عضو کا حق بھی اس کے ذمہ رکھا گیا ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’اسلام اور انسانی حقوق‘‘انڈیا کے ممتاز عالم دین محترم مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ کے ایک لیکچر کی کتابی صورت ہے۔موصوف نے اس میں بڑے عالمانہ انداز میں انسانی حقوق اور اس کے تاریخی پس منظر کا معروضی مطالعہ کر کے اس کے بنیادی تصورات کو واضح کیا ہے۔یہ کتابچہ اسی مصنف کی تفصیلی کتاب ’’اسلام انسانی حقوق کا پاسبان‘‘کا خلاصہ ہے۔ (م۔ا)
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام۔ فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سے متعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کے جواب میں کوئی عالم دین اور احکامِ شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے۔ فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول ﷺ کے مبارک دور سے چلا آ رہا ہے برصغیر پاک و ہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی و تراجم کے ساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہلحدیث کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاویٰ جات کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’فَاسْئَلُوا أهْلَ الذِّكْرِ ‘‘ محقق العصر علامہ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کی کاوش ہے۔ موصوف نے یہ فتاوی بیان کرنے میں اختصار اور جامعیت سے کام لیا ہے ،حسب ضرورت دلائل اور استدلال کا ذکر کر دیا ہے ۔بعض مسائل میں دلائل ذکر نہیں کیے گئے، لیکن ان کی تفصیل ’’فتاویٰ امن پوری‘‘میں ذکر کر دی گئی ہے۔اگرچہ اس میں ابھی تبویب کا کام کرنا باقی ہے اور غير مطبوع ہے۔افادۂ عام کے لیے علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو کتاب و سنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ علامہ امن پوری صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے اور ان کی تدرسی، دعوتی ،تحقیقی و تصنیفی مساعی کو قبول فرمائے۔(م۔ا)
ختم نبوت سے مراد یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیاء کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہو گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی متعدد آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ما كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا(الاحزاب، 33: 40) ترجمہ:’’محمد ﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو خاتم النبیین کہہ کر یہ اعلان فرما دیا کہ آپ ﷺ ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو اس منصب پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے متعدد متواتر احادیث میں خاتم النبیین کا یہی معنیٰ متعین فرمایا ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جس پر قرون اولیٰ سے آج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔عقیدہ ختم نبوت کے اثبات اور مرزا قادیانی کی تکذیب کے سلسلے میں ہر مکتب فکر نے گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’عقیدۂ ختم نبوت کی اہمیت اور منکرین ختمِ نبوت کا تاریخی پس منظر‘‘وطن عزیز کی مشہور عالمی شخصیت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے ختم نبوت سے متعلق مضامین میں سے چند اہم مضامین کا انتخاب ہے جسے قاری جمیل الرحمن اختر نے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔یہ کتابچہ عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانی گروہ کی سرگرمیوں اور مختلف اطراف سے پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات اور اعتراضات کے پس منظر میں علماء کرام ،طلبہ، دینی کارکنوں اور جدید تعلیم یافتہ حلقوں کے لیے یکساں طور پر مفید ہے۔ (م۔ا)
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد صحابہ کرام کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل اور اعلیٰ ہے یہ عظمت اور فضیلت صرف صحابہ کرام کو ہی حاصل ہے کہ اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت،جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے، بہت سی قرآنی آیات اور احادیث اس پر شاہد ہیں۔ اللہ اور رسول ﷺ کی شہادت اور تعدیل کے بعد کسی اور شہادت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی کسی بدبخت کی ہرزہ سرائی ان کی شان کو کم کر سکتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کی افضلیت بیان کی ہے اس کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے، بصورت دیگر ایمان ناقص ہے۔ زیر نظر کتابچہ بعنوان ’’عمار بن یاسر کا قاتل کون؟ حدیث عمار محدثین کی نطر میں‘‘شہزاد علی بیکانیری صاحب کی کاوش ہے۔ انہوں نے اس کتابچہ میں بغض صحابہ رکھنے والوں کی طرف سے پیش کی جانے والی حدیث حدیثِ عمار کے بارے میں تحقیق پیش کرنے کے علاوہ ان کے تمام اشکالات کے جوابات بھی دئیے ہیں۔(م۔ا)
عورت کے لیے پردے کا شرعی حکم اسلامی شریعت کا طرۂ امتیاز اور قابل فخر دینی روایت ہے۔ اسلام نے عورت کو پردے کا حکم دے کر عزت و تکریم کے اعلیٰ ترین مقام پر لاکھڑا کیا۔ پردہ کا شرعی حکم معاشرہ کو متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور مرد کی شہوانی کمزوریوں کا کافی و شافی علاج ہے۔ اس لیے دخترانِ اسلام کو پردہ کے سلسلے میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے فخریہ انداز میں اس حکم کو عام کرنا چاہیے تاکہ پوری دنیا کی خواتین اس کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کی رو سے عورت پر پردہ فرض ہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں متعدد بار آیا ہے اور کتبِ احادیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ کئی اہل علم نے عربی و اردو زبان میں پردہ کے موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’وجوبِ نقاب و حجاب‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔موصوف نے اس کتاب میں قرآن و سنت ، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم و ائمہ اور اقوالِ علماء فقہاء کی روشنی میں عورتوں کے چہرے کے پردے کے بارے میں تفصیلی بحث پیش کی ہے اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ عورتوں کے چہرے کا پردہ فرض اور واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام دعوتی و تبلیغی ، تحقیقی و تصنیفی کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ (م۔ا)
شیخ الاسلام امام محمد بن عبد الوہاب نے نجد و حجاز میں سلفی دعوت کی بنیاد رکھی اور عوام کی اصلاح کے لئے وعظ و تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا تو بدعت پرست علماء نے ان کی مخالفت کے لئے ایک محاذ بنا لیا اور کذب و افتراء کے ذریعہ تحریک اور اس کے حاملین کو بدنام کرنا شروع کر دیا۔ تحریک کے دعاۃ اور مبلغین پر جہالت اور خارجیت کے فتوے لگائے تاکہ عوام الناس کو اس تحریک سے دور رکھا جائے۔ لیکن اہل علم نے ان کے اعتراضات اور فتاوی کا مدلل اور بھرپور جواب دیا۔ ڈاکٹر عمر بن عبد الرحمٰن العمر (مدرس المعہد العالی للقضاء محمد بن سعود اسلامیہ یونیورسٹی ،الریاض) کے زیر نظر کتاب ’’وہابیت کے بارے میں ایک تاریخی غلطی کی اصلاح‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔(م۔ا)
نبی کریمﷺ نے مختلف قدغنوں اور پابندیوں زنجیروں میں گرفتار دنیا کو انسانی حقوق سے آشنائی بخشی اور انہیں انسانیت کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا۔ رسول اللہﷺ نے حقوق کی دو قسمیں بتائیں: حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ حقوق اللہ سے مراد عبادات ہیں یعنی اللہ کے فرائض اور حقوق العباد باہم انسانوں کے معاملات اور تعلقات کا نام ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’سیرۃ النبی ﷺ اور انسانی حقوق‘‘علامہ ابو عمار زاہد الراشدی صاحب کے 2018ء میں الشریعہ اکادمی ،گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سیرت نبوی اور انسانی حقوق کے محتلف پہلوؤں(سیرۃ النبیﷺ اور انسانی حقوق، معاشرتی حقوق، معاشی حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، مزدوروں کے حقوق، مسافروں کے حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، افسروں کے حقوق، مہمانوں کے حقوق، قیدیوں کے حقوق، غلاموں کے حقوق، سیرۃ ا لنبی ﷺ اور دعوتِ اسلام) پر پیش کئے گئے مختلف محاضرات کی کتابی صورت ہے۔(م۔ا)
نماز دین اسلام کا دوسرا رکنِ عظیم ہے جو بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت و فضلیت اس قدر ہے کہ سفر و حضر اور میدانِ جنگ حتی کہ بیماری میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس پر کتب تالیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتابچہ ’’نماز کی اہمیت اور بے نمازی کا انجام ‘‘محترم جناب جاوید اقبال فانی صاحب کی کاوش ہے فاضل مرتب نے اس کتاب میں نماز کی اہمیت اور ترک نماز کی صورت میں اس فریضہ میں کوتاہی کرنے والوں کے انجام کو کتاب و سنت کی ادلہ و براہین کی روشنی میں مختصراً واضح کیا ہے۔ (م۔ا)
نماز کے لیے جسم و لباس کی طہارت کی طرح اس جگہ کا پاک ہونا بھی ضروری ہے جہاں نماز پڑھی جائے۔ جائے نماز کی طہارت و پاکیزگی اہل علم کے نزدیک نماز صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔ مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ نے زیر نظر کتاب بعنوان ’’مختصر مساجد و مقابر اور مقاماتِ نماز‘‘میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ نماز کی صحت و قبولیت کے لیے جسم و لباس کی طرح ہی جائے نماز کا بھی پاک ہونا ضروری ہے۔ کچھ مقامات ایسے ہیں جو اگرچہ بظاہر پاک ہوں گے مگر وہاں نماز پڑھنا دیگر وجوہات کی بنا پر جائز نہیں۔ مزاروں یا قبرستانوں میں پائی جانے والی مساجد کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے۔(م۔ا)
نماز ایک عظیم فریضہ ہے جس کے صحیح ہونے کے لیے پاکی شرط ہے۔ چنانچہ حدث اصغر کی صورت میں وضو اور حدث اکبر کی صورت میں غسل واجب ہے، اور پانی کی عدم موجوگی یا اس کے استعمال سے عاجزی کی صورت میں تیمّم مشروع ہے نیز جگہ اور کپڑے کی پاکی بھی ضروری ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں طہارت و پاکیزگی کے عنصر کو جس شدومد سے اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس طرح سے کسی اور مذہب میں نہیں کی گئی۔ زیر نظر کتاب ’’مصنوعی اعضاء اور خارجی اشیاء کی صورت میں احکامِ غسل‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ(مترجم و مصنف کتب کثیرہ ) کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔ مصنف موصوف نے اس کتاب میں مصنوعی اعضاء اور خارجی اشیاء کی صورت میں پیدا ہونے والے، غسل وضوء کے فقہی مسائل و احکام بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام دعوتی و تبلیغی ، تحقیقی و تصنیفی کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ (م۔ا)
عصر حاضر کے فتنوں میں ایک بڑا فتنہ منکرین حدیث کا ہے۔ مغرب کی چکا چوند سے متاثر، وضع قطع میں اسلامی شعائر سے عاری، نام نہاد روشن خیالی کے سپورٹر، دینی اصولوں میں جدت و ارتقاء کے نام پر تحریف کے قائل و فاعل، دینی احکام کی عملی تعبیر کو انتہا پسندی اور دقیانوسیت قرار دینے والے، قرآن مجید کی آڑ میں احادیث رسول ﷺ کی تاویل و تحریف کے ساتھ استہزاء کرنے والے اس گروہ کے دور حاضر کے لیڈر جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ جو میڈیا کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے باطل افکار و نظریات کو خوب پھیلا رہے ہیں۔ جن میں معتزلہ کی طرح عقل انسانی کے بجائے فطرت انسانی کو کلی اختیارات عطا کرنا، دین اسلام کی تفہیم و تشریح میں انسانی فطرت و عربی محاورات یا دورِ جاہلیت کے اشعار کو بنیادی حیثیت دینا اور احادیث کو روایات کہہ کر ثانوی یا ثالثی حیثیت دے کر اور بسااوقات قرآن سے متصادم کا لیبل چسپاں کر کے پس پشت ڈال دینا، مسئلہ تحلیل و تحریم کو شریعت سے خارج کرنا، علاقائی رسومات کو تواتر عملی کا جامہ پہنا کر اسے دین بنا ڈالنا، قرآن کے نام پر مغرب کے تمام ملحدانہ افکار و نظریات کو امپورٹ کرنا، سنت کی جدید تعریف کر کے اصطلاحات محدثین کو نشانہ ستم بنانا، قراءات سبعہ کو فتنہ عجم بتانا وغیرہ۔ ردّ فتنہ غامدیت کے سلسلے میں اولاً ماہنامہ محدث،لاہور نے آغاز کیا۔ محترم مولانا محمد رفیق چوہدری صاحب نے مسلسل غامدیت کے ردّ میں علمی و تحقیقی مضمون لکھے جو محدث کے صفحات پر شائع ہوتے رہے۔ بعد ازاں ان مضامین کو چوہدری صاحب نے اپنے ادارہ مکتبہ ’’قرآنیات‘‘کی طرف سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ جسے اہل علم کے ہاں بڑا قبول عام حاصل ہوا۔ اس کے بعد کئی اہل علم نے غامدیت کے ردّ میں مضامین و کتب تصنیف کیں جن میں مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ محترم حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کی تصنیف ’’فتنہ غامدیت ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘، ڈاکٹر حافظ زبیر کی ’’فکر غامدی ‘‘کےعلاوہ کئی کتب سامنے آئی ہیں۔ نیز مجلہ ماہنامہ ’’صفدر‘‘کی غامدیت کے ردّ میں جدوجہد بھی انتہائی لائق تحسین ہے۔ زیر نظر کتاب بعنوان ’’جاوید احمد غامدی کے حلقہ فکر کے ساتھ ایک علمی و فکری مکالمہ ‘‘بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔ مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جاوید غامدی صاحب کے بعض افکار پر نقد کیا جس کا غامدی صاحب کے بعض شاگردوں نے جواب دیا جس سے ایک مکالمہ کی فضا بن گئی یہ بحث2001 کے آغاز میں روزنامہ ’اوصاف‘،روزنامہ ’جنگ‘اور روزنامہ ’پاکستان‘ کے صفحات پر شائع ہوتی رہی۔ بعد ازاں ماہنامہ الشریعہ اور ماہنامہ اشراق میں بھی اس سلسلے میں بعض مضامین شائع ہوئے۔ اس مجموعہ میں انہی مضامین کو یکجا شائع کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو متعلقہ مسائل پر رائے قائم کرنے میں آسانی ہو ۔ نیز اس مجموعے میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کے غامدی کے افکار کے جائزہ پر مبنی بعض دیگر مضامین بھی تکملہ کے طور پر شامل اشاعت کیے گئے۔(م۔ا)
اطاعت رسول ﷺ کے بارے میں صحیح بخاری شریف کی یہ حدیث بڑی اہم ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے سب لوگ جنت میں جائیں گے سوائے اس شخص کے جس نے انکار کیا تو صحابہ کرام نے عرض کیا انکار کس نے کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کر دیا۔ اطاعتِ رسول ﷺ کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث نبویہ کے مطالعہ کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ دین میں اتباع سنت کی حیثیت کسی فروعی مسئلہ کی سی نہیں بلکہ یہ بنیادی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے۔ اتباع سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ دعوت ساری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔ جس طرح عبادات(نماز ،روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار، کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اتباع رسول ﷺ یا تقلید جامد‘‘ایڈووکیٹ محمد رحمت اللہ خان صاحب کی کاوش ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ دین کی اصلی راہ اتباعِ رسولﷺ کی راہ ہے ۔ (م۔ا)
تمام اہل سنت کے نزدیک ’سنت‘کی تعریف میں اللہ کے رسول ﷺ کے اعمال کے ساتھ ساتھ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی شامل ہیں، اسی لیے اصول فقہ کی کتب میں جب علمائے اہل سنت، سنت پر بطور مصدر شریعت بحث کرتے ہیں تو سب اسی بات کا اثبات کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کے اعمال کے علاوہ آپ کے اقوال اور تقریرات بھی مصدر شریعت ہونے کی حیثیت سے سنت کی تعریف میں شامل ہیں۔ جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت سے مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی ﷺ نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔ زیر نظر کتابچہ میں ’’غامدی صاحب کا تصور حدیث و سنت ‘‘ماہنامہ اشراق،لاہور میں غامدی صاحب کے تصور سنت کے بارے شائع ہونے والے موقف کے جواب میں علامہ زاہد الراشدی صاحب کی ان ناقدانہ تحریروں کا مجموعہ ہے جو ماہنامہ الشریعہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئیں بعد ازاں الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ نے افادۂ عام کے لیے انہیں کتابی صورت میں شائع کیا۔(م۔ا)
اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلمان خواتین ایک مسلم معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مسلمان عورت ماں کے روپ میں ہو یا بیٹی کے، بیوی ہو یا بہن اپنے گھر کو سنوارنے پر آئے تو جنت کا نمونہ بنا دیتی ہے، اور اگر بگاڑنے کی ٹھان لے تو جنت نشان گھرانے کو جہنم کی یاد دلاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں خواتین کی تعلیم و تربیت پر بے حد زور دیا جاتا رہا ہے۔ مصر کے مشہور شاعر حافظ ابراہیم کے الفاظ ہیں:’’ کہ ماں ایک درسگاہ ہے اور اس درسگاہ کو اگر سنوار دیا تو گویا ایک باصول اور پاکیزہ نسب والی قوم وجود میں آگئی۔‘‘ دنیا کے کسی مذہب اور کسی نظریۂ حیات نے عورت کو وہ عظمت نہیں بخشی جو اسلام نے عطا فرمائی۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی کا فیضان تھا کہ مسلمانوں کے معاشرے میں امہات المومنین اور صحابیات مبشرات جیسی عظمت مآب مثالی خواتین پیدا ہوئیں جن کے سایۂ عاطفت میں عظیم علماء اور مجاہدینِ اسلام تربیت پاتے رہے۔ اسلام نے تقسیم کاری کے اصول پر مرد اور عورت کا دائرہ عمل الگ الگ کر دیا ہے۔ عورت کا فرض ہے کہ وہ گھر میں رہتے ہوئے اولاد کی سیرت سازی کے کام کو پوری یکسوئی اور سکونِ قلب کے ساتھ انجام دے۔ اور مرد کا فرض ہے کہ وہ معاشی ذمہ داریوں کا بار اپنے کندھوں پر اٹھائے۔ مسلمان عورت کے لیے اسلامی تعلیمات کا جاننا بے حد ضروری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’مسلم خواتین کی خوبیاں‘‘دار الوطن ۔ریاض کی علمی کمیٹی کے تیار کردہ کتابچہ بعنوان صفات المرأة المسلمة کا اردو ترجمہ ہے۔ اس کتاب میں اختصار کے ساتھ ایک مسلمان عورت کی اچھی صفات اور خصوصیات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر محترم کے ابو یاسر امین الرحمٰن عمری مدنی صاحب نے اسے اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے۔(م۔ا)
نماز کے لیے جسم و لباس کی طہارت کی طرح اس جگہ کا پاک ہونا بھی ضروری ہے جہاں نماز پڑھی جائے۔ جائے نماز کی طہارت و پاکیزگی اہل علم کے نزدیک نماز صحیح ہونے کے لیے شرط ہے۔ مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ نے زیر نظر کتاب بعنوان ’’مساجد و مقابر اور مقاماتِ نماز‘‘میں اس بات کو واضح کیا ہے کہ نماز کی صحت و قبولیت کے لیے جسم و لباس کی طرح جائے نماز کا بھی پاک ہونا ضروری ہے، اور کچھ مقامات ایسے ہیں کہ وہ اگرچہ بظاہر پاک ہوں گے مگر وہاں نماز پڑھنا دیگر وجوہات کی بنا پر جائز نہیں۔ مزاروں یا قبرستان میں پائی جانے والی مساجد کے بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ اس کی تفصیل بھی اس کتاب میں موجود ہے۔(م۔ا)
دعا ایک ایسی عبادت ہے جو انسان ہر لمحہ کر سکتا ہے اور اپنے خالق و مالق اللہ رب العزت سے اپنی حاجات پوری کروا سکتا ہے۔ مگر یہ یاد رہے انسان کی دعا اسے تب ہی فائدہ دیتی ہے جب وہ دعا کرتے وقت دعا کے آداب و شرائط کو بھی ملحوظ رکھے۔ نبی کریم ﷺ نے ہمیں سونے جاگنے، کھانے پینے، لباس پہننے، مسجد اور گھر میں داخل ہونے اور باہر جانے، بیت الخلاء میں داخل ہونے اور باہر آنے، الغرض ہر کام کرتے وقت کی دعائیں اور آداب بیان فرمائیں ہیں۔ بہت سارے اہل علم نے قرآن و حدیث سے مسنون ادعیہ پر مشتمل بڑی و چھوٹی کئی کتب تالیف کی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’صحیح دعائیں اور اللہ تعالیٰ کی حمد‘‘ڈاکٹر عبد اللہ بن حمود الفریح حفظ اللہ کی دعاؤں کے متعلق جامع کتاب صحيح الدعا و الثنا على الله تعالىٰ کا اردو ترجمہ ہے۔ ٹائٹل پر موجود عنوانات لنک شدہ ہیں ایک کلک کے ذریعہ مطلوبہ عنوان پر پہنچ کر آسانی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔(م۔ا)
اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاد کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا نہیں بلکہ ہر وہ کوشش جو دین اسلام کی سربلندی کے لیے کی جائے وہ جہاد ہے۔ خواہ وہ کوشش انفرادی ہو یا اجتماعی، زبانی ہو یا قلمی ہو، مالی ہو یا جانی، بشرطیکہ اس کوشش میں نصب العین غلبہ دین ہو۔ جہاد فی سبیل اللہ، اللہ کو محبوب ترین اعمال میں سے ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیش بہا انعامات جہاد فی سبیل میں شریک ایمان والوں کے لئے رکھے ہیں۔ اور تو اور مومن مجاہدین کا اللہ کی راہ میں نکلنے کا عمل اللہ کو اتنا پسندیدہ ہے کہ اس کے مقابلے میں نیک سے نیک، صالح سے صالح مومن جو گھر بیٹھا ہے، کسی صورت بھی اس مجاہد کے برابر نہیں ہو سکتا۔ نصوص کتاب و سنت میں جہاد و مجاہد کے باقاعدہ فضائل موجود ہیں جس کی تفصیل قرآنی آیات اور کتب حدیث میں موجود ہے۔ زیر نظر کتاب ’’جہاد اسلامی فضائل، مسائل، حقائق‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں جہاد کے فضائل، حقائق کو پیش کرنے کے علاوہ جہاد کے متعلق جدید ذہن کی طرف سے پیدا ہونے والے تمام شبہات و اعتراضات کا بخوبی ازالہ کیا ہے۔ (م۔ا)
قبر پرستی شرک اور گناہ کبیرہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت سختی سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس سے بچنے کی تلقین کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خود بھی رسول اللہ ﷺکے حکم پر عمل کیا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا۔ ائمہ کرام اور محدثین نے لوگوں کو تقریر و تحریر کے ذریعے اس فتنہ یعنی عبادتِ قبور سے آگاہ کیا۔ ابو سلمان جاوید اقبال محمدی کا مرتب شدہ زیر نظر کتابچہ ’’ اسلام میں قبروں کے احکام‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اس کتابچہ میں موصوف نے اختصار کے ساتھ احکامِ قبور کو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچہ کو لوگوں کے لیے قبر پرستی کے مذموم جہنمی فعل سے بچانے کا ذریعہ بنائے ۔ آمین (م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین مخلوق کے اعزاز سے نوازا۔ فضیلت و بزرگی اور علم و شرف کے قابلِ فخر تمغے عطا فرما کر اسے مسجودِ ملائکہ بنایا۔ اور اپنی عظیم کتاب میں انسانی جان کی حُرمت کا اعلان فرمایا۔ انسانی جان کو جو رِفعت و بلندی اسلام نے عطا کی ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ اسلام نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے مُتَرادِف قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جس نے ایک انسان کو قتل کیا ،اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے ایک شخص کو بچایا، اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا‘‘(المائدہ:32) نیز محسنِ انسانیت ﷺ نے کئی احادیث میں قتلِ انسانی کی مذمت بیان فرمائی ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی ﷺ ہے ’’سب سے بڑے گناہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، کسی جان کو قتل کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری : 6871) اور خود نبیِّ ﷺ نے مسلمان کی جان کی حُرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ انسانی جان کی حفاظت کے لیے اسلام فقط اخلاقی طریقہ ہی اختیار نہیں کرتا، بلکہ سزا کے ذریعہ بھی اس کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ انسان کے قتل کی سخت سزا متعین کی گئی ہے ۔ اسلامی قانون کے مطابق قاتل کی سزا قتل ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اسلام میں انسانی جان کی قدر و قیمت اور فلسفۂ جہاد‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔ (م۔ا)
ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا اہم ذمہ داری ہے۔ یہ بات ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتے ہیں اور اسلام صرف عقائد کا نام نہیں ہے بلکہ مکمل نظام حیات ہے۔ جس میں اوامر بھی ہیں اور نواہی بھی۔ بعض اوامر و نواہی کا تعلق تبلیغ ،تذکیر اور وعظ و نصیحت کے ساتھ ہے جس پر عمل کرنا والدین ،اساتذہ کرام، علماء و فضلاء اور معاشرے کے دیگر افراد پر واجب ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور ضرورت جہاد‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے جو کہ ان کے ریڈیو ام القیوین متحدہ عرب امارات کی اردو سروس میں پیش کیے گئے پروگرامز کی کتابی صورت ہے۔ (م۔ا)
اسلام سے قبل رائج نظام غلامی کی اسلام نے اصلاح کی اور غلاموں کو ان کے حقوق دئیے۔ قرون وسطی کی غلامی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ غلامی کا مسئلہ ہمیشہ دانشوران یورپ کی زبان پر رہتا ہے بلکہ یہ اسلام و پیغمبر اسلام ﷺ پر اعتراض کے سلسلہ میں ان کا بہت مشہور ہتھیار ہے۔ اسلام کے روئے روشن کو داغدار کرنے کی غرض سے دانشوران یورپ کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کی ہر کتاب میں یہ اعتراض بڑے اہتمام سے موجو ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’اسیران ِجہاد اور مسئلہ غلامی‘‘مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی تصنیف ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں اسلام میں غلاموں کے حقوق اور مسئلہ غلامی کے خاتمہ کے لیے کیے گئے اقدامات کا تذکرہ کر کے معاندین کے شکوک و شبہات اور اعتراضات و الزامات کا ازالہ کیا ہے اور ساتھ ہی مسئلہ فلسطین وغیرہ جیسے جدید مسائل کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ (م۔ا)
علوم قرآن سے مراد وہ تمام علوم و فنون ہیں جو قرآن فہمی میں مدد دیتے ہیں اور جن کے ذریعے قرآن کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ ان علوم میں وحی کی کیفیت، نزولِ قرآن کی ابتدا اور تکمیل، جمع قرآن، تاریخ تدوین قرآن، شانِ نزول، مکی و مدنی سورتوں کی پہچان، ناسخ و منسوخ، علم قراءات، محکم و متشابہ آیات وغیرہ، اعجاز القرآن، علم تفسیر، اور اصول تفسیر وغیرہ جیسے علوم شامل ہیں۔ علومِ قرآن کے مباحث کی ابتداء عہد نبوی اور دورِ صحابہ کرام سے ہی ہو چکی تھی تاہم دوسرے اسلامی علوم کی طرح اس موضوع پر بھی مدون کتب لکھنے کا رواج بہت بعد میں ہوا۔ قرآن کریم کو سمجھنے اور سمجھانے کے بنیادی اصول اور ضابطے یہی ہیں کہ قرآن کریم کو قرآن اور نبوی علوم کی روشنی میں ہی سمجھا جائے۔ علوم قرآن کو اکثر جامعات و مدارس میں بطور مادہ پڑھایا جاتا ہے اور اس کے متعلق عربی و اردو زبان میں بیسیوں کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ مناہل العرفان فی علوم القرآن‘‘شیخ محمد عبد العظیم زرقانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے جو علوم قرآن پر لکھی گئی کتابوں میں ایک اہم ترین، مرجع کی حیثیت رکھنے والی، مفید معلومات پر مشتمل، عمدہ ترین کتاب ہے۔ زرقانی کے بعد علوم القرآن پر کتابیں تصنیف کرنے والے اکثر علما نے اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے اور ترتیب و تبویب میں بھی مناہل العرفان کی ترتیب کی اتباع کی ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ نے اس کتاب میں علوم القرآن کے اہم ترین مباحث کو پیش کیا ہے۔ یہ کتاب علوم قرآن کے سترہ مباحث پر مشتمل ہے۔ مصنف نے ہر مبحث کے تحت متعدد اہم مسائل کا ذکر کیا ہے، ان مسائل اور تقسیمات کو ذکر کرنے کے لیے مختلف عناوین بھی قائم کیے ہیں ، ضرورت کے تحت ان عناوین کے معانی بھی بیان کیے ہیں اور ہر مبحث کے آخر میں اس سے متعلق اعدائے اسلام کے شکوک و شبہات کا ذکر کر کے ان کا جواب بھی دیا ہے ۔ الغرض یہ کتاب علوم القرآن کے حساس موضوع پر تحریر کردہ بنیادی و حوالہ جاتی کتاب ہے، جس میں ملحدین اور مستشرقین کے شبہات کے تشفی بخش جوابات دئیے گئے ہیں۔ (م۔ا)
نماز دینِ اسلام کا دوسرا رکنِ عظیم ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کو بروقت اور باجماعت ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی گئی ہے۔ نماز کی ادائیگی اور اس کی اہمیت و فضلیت اس قدر اہم ہے کہ سفر و حضر، میدانِ جنگ اور بیماری کی حالت میں بھی نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کی اہمیت و فضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں اور بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس پر کتب تالیف کی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد و زن کے لیے ازحد ضروری ہے، کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہو گی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا "صلو كما رأيتموني اصلي" لہذا ہر مسلمان کے لیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ مختصر فقہ الصلاۃ نماز نبوی ‘‘ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ کی ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ریاست ام القیوین کے ریڈیو اسٹیشن کی اردو سروس سے نماز کے بارے میں روزانہ نشر ہونے والے پروگرام ’’ دین و دنیا‘‘میں تقریباً 786 نشتوں میں پیش کیے۔ بعد ازاں مولانا حافظ ارشاد الحق (فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے انہیں بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں استقبال قبلہ سے لے کر سلام پھیرنے تک کے مسائلِ نماز کو صحیح و حسن اجادیث کی روشنی میں نبی کریمﷺ کی نماز کی صحیح کیفیت اور اس کا مسنون طریقہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے اس سے قبل یہ کتاب 3؍ ضخیم جلدوں میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ (م۔ا)