اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑی دولت اور نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے۔ وہ نعمت اور دولت اخلاق ہے، ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہﷺ اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے، چنانچہ آپﷺ کی راز دارِ زندگی اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ عنہا فرماتی ہیں، ”آپﷺ کے اخلاق کا نمونہ قرآن کریم ہے“۔ آپﷺ نے اپنے ہر قول وفعل سے ثابت کیا کہ آپﷺ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے، چنانچہ ارشاد ہے: ”بعثت لاتتم مکارم الاخلاق“ یعنی ”میں (رسول اللہ ﷺ) اخلاق حسنہ کی تکمیل کے واسطے بھیجا گیا ہوں“۔ پس جس نے جس قدر آپﷺ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاکر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپﷺ کے دربار میں اس کو بلند مرتبہ ملا، صحیح بخاری کتاب الادب میں ہے، ”ان خیارکم احسن منکم اخلاقا“ یعنی ”تم میں سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ حضورﷺ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی، قرآن کریم نے خود گواہی دی &rdquo...
اسلام نے فرد اور معاشرے کی اصلاح ، استحکام، فلاح وبہبود اورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقرر کردیے ہیں۔اسلام کے بیان کردہ حقوق وفرائض میں سے ایک مسئلہ حقوق الزوجین کا ہے ۔ اسلام کی رو سے شادی چونکہ ایک ذمہ داری کانام ہےاس لیے شادی کےبعد خاوند پر بیوی اور بیوی پر خاوند کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں جنہیں پورا کرنا دونوں پر فرض ہے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہیں ایک دوسرے کی عزت ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کےلیے نقصان کا باعث ہے ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے۔زوجین اگر دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کےحقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں تونہ صرف بہت سےمفسدات اور خرابیوں کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ ہمارا معاشرہ سکون وطمانیت کی پیاسی مادہ پرست دنیا کے لیےبھی امید اورآرام کی سبق آموز بشارت بن جائے ۔حقوق الزوجین کےسلسلے میں قرآن وسنت میں واضح احکام موجود ہیں اور اس موضوع پر کئی اہل علم نے مستقل کتب بھی تصنیف کی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض)‘‘ عادل سہیل ظفر صاحب کی کاوش ہے۔ایک شوہر ہونے کےناطے بیوی پر اس کے...
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا اورانبیاء ورسل کےذریعے اپنےاحکامات ان تک پہنچائے۔اللہ تعالیٰ کے اوامر ونواہی کی پابندی کرنا عین عبادت ہے ۔ منہیات سے بچنا اور حرام سے اجتناب کرنا ایک حدیث کی رو سے عبادت ہی ہے۔ حرام کےاختیار کرنے سے عبادات ضائع ہوجاتی ہیں اورایک شخص کو مومن ومتقی بننے کے لیے حرام کردہ چیزوں سےبچنا ضروری ہوتا ہےاور اسلام نےبہت سی اشیاء کوحرام قرار دیا ہے جن کی تفصیل قرآن وحدیث کے صفحات پربکھری پڑی ہے۔ بعض علما ء نےاس پر مستقل کتب تصنیف کی ہیں ۔ زيرتبصره كتاب ’’حلال وحرام کاروبار شریعت کی نظر میں ‘‘ جامعۃ الدعو ۃ الاسلامیہ مریدکے شیخ الحدیث مفسر قرآن محترم جناب حافظ عبد السلام بن محمد ﷾ کی حلال وحرام کےموضوع پر مختصر اور جامع تحریر ہے جس میں انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی بنیادی ضروریات اشیائے خوردونوش کے حصول اور ان کےاستعمال کےسلسلہ میں حلال وحرام کےاحکامات کو آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کتاب کو عامۃ الناس کی اصلاح کاذریعہ بنائے۔(آمین)(م۔ا)
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذمے رکھی ہے۔وہ رعیت کی خیرخواہی کے کام سر انجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دُنوی اور اُخروی مصلحتوں کی کفیل ہو۔اورحکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ حکمرانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کے جذبے سے صحیح مشورے دیں۔انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہ راست پر قائم رہیں ۔اگر وہ راہ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہ راست کی طرف بلائیں ،ان کے حکم بجا لانے میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو تی ہو تو اسے بجا لائیں کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی ،اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ شیخ ابو عمر عبد العزیز النوستانی حفظہ اللہ نےزیر نظر کتاب ’’حکمران اور رعایا کے شرعی تعلقات‘‘ حکمرانوں اور رعایا کے
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ زیر تبصرہ کتاب"...
خریدیں اور جیتیں آج کل اشتہاری دنیا کا مقبولِ عام بول ہےجس کے اندر اس قدر کشش ہےکہ ہر بچہ اور بوڑھا ، مرد عورت اس کی طرف بے تابانہ کھنچا چلا آتاہے جیسے ہی ٹی وی سے یہ آواز سنائی دیتی ہے تمام ناظرین ہمہ تہ دید ہوجاتے ہیں۔بڑے بڑے عقل مند تعلیم یافتہ صارفین بھی ان اشتہاری بولوں کو سن کر اپنی عقل ودانش سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔روزانہ ہزاروں اشتہار سکرین پر بار بار نمودار ہوتے ہیں ۔ اخبارات ورسائل کےپورے پورے صفحے پر قبضہ کیے صارفین کامال ہتھیانے کےلیے انعامات کی دوڑ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں ۔مصنوعات تیار رنے والی کمپنیاں انعامات اور جیتنےکے جو اشتہارات دیتی ہیں ۔ انہیں انعامی سکیمیں کہاجاتا ہے۔لیکن اگر غور کیا جائے توانعامات کی اس دوڑ کے بہت سے شرعی ،معاشرتی،معاشی اورنفسیاتی نقصانات ہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں محترمہ ام عبد منیب صاحبہ نے مختلف کمپنیوں کی طرف سے اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے جو ناجائز ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں ان کےنقصانات اور ان کا شرعی دلائل کی روشنی میں جائز ہ پیش کیاہے۔ اللہ تعالیٰ محترمہ کی اس کاوش کو عوام النا س کےلیے نفع...
جس طرح سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری انتہاء ہے بالکل اسی طرح موجودہ جمہوریت شخصی اور استبدادی حکومت کی دوسری انتہاء ہے- اسلام ہر معاملہ میں راہ اعتدال کو ترجیح دیتا ہے اسی لیے اس نے خلافت کا نظام متعارف کروایا ہے جس میں ہر شخص کو اس کا جائز حق عطا کیا جاتاہے- زیر نظر کتاب میں خلافت وجمہوریت اور اس کی ضمنی مباحث کو تحقیقی اور علمی امانت کے ساتھ سپرد قلم کیا گیا ہے- کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-پہلے حصے میں خلفائے راشدین کا انتخاب کس طرح عمل میں آیا ، پر تفصیلی بحث کی گئی ہےپھر اس کے ضمن میں دیگر مباحث جن میں عورت کے ووٹ کا حق اور طلب امارت یا اس کی آرزو جیسے مسائل پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا گیاہے-کتاب کے دوسرے حصے میں دور نبوی اور خلفائے راشدین میں مشہور مجالس مشاورت اور اس کی ضمنی مباحث کو درج کیا گیاہے پھر ان تمام اعتراضات اور اشکالات کا حل پیش کیا گیا ہے جو جمہویت نوازوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں-کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں ربط ملت کے تقاضے اور اسلامی نظام کی طرف پیش رفت میں ایک مجمل سا خاکہ پیش کرتے...
خلافت و ملوکیت ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف ہے جو انہوں نے اکتوبر 1966ءمیں محمود احمد عباسی کی خلافتِ معاویہ و یزید کے جواب میں لکھی تھی۔ کتاب کا موضوع بحث خلافت کا بادشاہت میں تبدیل ہونے کے مراحل کے بارے میں ہے۔مولانا مودودی نے اپنی کتاب میں صحابہ کرام کےبارے میں بہت سی غلط فہمیوں کو پھیلایا اور بالخصوص سیدنا عثمان،سیدنا معاویہ،سیدنا مغیرہ، سیدنا عمروبن العاص اور دیگر بہت سےاصحاب رسول کےکردارکو داغدار کرنے کی مذموم کوشش کی ۔تو کئی سنی علماء نے مولانامودووی کی گمراہ کن کتاب ’’خلافت وملوکیت ‘‘ کے ردّ میں تنقیدی جوابات لکھ کر مودودی صاحب کی کتاب سے جو جو غلط فہمیاں عوام الناس میں پھیل سکتی تھیں، باحوالہ، نہایت مفصل اور مدلل ردّ کیا ۔مولانامودودی کی مذکورہ کتاب پر نقد کرنے میں مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ مولانا حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ کا نام سرفہرست ہے ۔ زیر نظر کتاب’’خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت‘‘ حاف...
ملوکیت یعنی بادشاہت کے معائب و نقائص اور اس کی ہلاکت خیزیوں کو ابھار کر، جمہوریت کا "الحمرا" تعمیر کرنےوالوں میں ایک نام مودودی صاحب کا بھی ہے۔ جسے انہوں نے "خلافت و ملوکیت" نامی کتاب لکھ کر خوب واضح کیا ہے۔ جس میں مودودی صاحب نے پہلے تو تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کیا ، پھر انہیں مربوط فلسفہ بنا کر پیش کیا، جزئیات سے کلیات کو اخذ کر لیا اور پھر ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات صحابہ کرام کی طرف منسوب کر کے جما دئے کہ جنہیں آج کی صدی کا فاسق ترین شخص بھی اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہ کرے۔ یہ نہ تو دین و ملت کی کوئی خدمت ہے، نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جا سکتا ہے۔ البتہ اسے تاریخ سازی کہنا بجا ہوگا۔ یہ بات طے ہے کہ جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی، اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قبائح صحابہ کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے "تحقیق" کا نام دیتے ہیں، انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسویدِ اوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے...
بسم اللہ الرحمن الرحیم کی جگہ 786کےعدد لکھنے کا رواج برصغیر میں ایک عرصے سے چلا آرہاہے ہے ا ور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بعض دینی وعلمی مضامین اور کتابوں میں بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی بجائے 786 لکھنا شروع کردیا گیا ہے ۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے اعداد کو اس کا بدل یا قائم مقام سمجھ کر لکھنا قرآن وسنت کی تعلیمات کے صریحاً منافی ہے کیونکہ اس کی بنیاد عبرانی صحائف کے22 حروف تہجی اوران کےمترادف اعداد پر ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’ خیر برکت کاسبب‘ بسم اللہ یا 786‘‘ محمد سعید ٹیلر آف کراچی کا مرتب وشائع شدہ ہے انہوں نے ا س کتابچہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ بسم اللہ کی جگہ 786 لکھنا&...
یہود ونصاری پہلے دن ہی سے دین اسلام سے حسد کرتے چلے آرہے ہیں۔ دونوں قوموں کو شروع سے "اہلِ کتاب" ہونے کا زعم تھا۔ یہود بنی اسرائیل میں آخری نبی کی آرزو لیے بیٹھے تھے۔لیکن بنی اسماعیل میں آخری نبی کے ظہور نے انہیں اسلام کا بدترین دشمن بنادیا ۔ مدینہ میں انہوں نے غزوہ خندق میں معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئےمسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کی ۔ اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہچانے کی کوششوں میں رہے اورمسلمانوں کو ان سے بعد میں بہت سی جنگیں لڑنی پڑیں۔ ان کے ان سب تخریبی کاموں کے باوجود مسلم اقوام میں کبھی تذبذب، اضطراب اور جذبہ شکستگی کا احساس تک نہ پیدا ہوا، بلکہ انہوں نے ہر میدان میں ثابت قدمی کا ثبوت پیش کیا،اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔اب دور حاضر میں یہودیوں نے اسلام کےلبادے میں ایک اورجماعت تیار کی ہے جس کا نام داعش ہے۔اس جماعت کا مقصد بھی مسلمانوں کا خون بہانا اور اسلام کو ذلیل کرنا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ داعش ایک آتش و آزمائش‘‘ سید حسین مدنی کی ہے۔اس کتاب میں باطل فرقوں اور گم راہ کن تنظیموں کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہ...
اسلامی تعلیمات کے مطابق مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے،اور تمام انبیاء کرام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ﷺ کا دائمی عمل ہے اور حضور ﷺنے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا اسلام میں داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا گناہ کبیرہ ہے۔ مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور سے مزین کیا ہے۔داڑھی مرد کی زینت ہے ،جس سے اس کا حسن اور رعب دوبالا ہو جاتا ہے۔ گویا کہ مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور سے مزین کیا ہے۔داڑھی مرد کی زینت ہے ،جس سے اس کا حسن اور رعب دوبالا ہو جاتا ہے۔داڑھی خصائل فطرت میں سے ہے ۔ تمام انبیاء کرام داڑھی کے زیور سے مزین تھے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں کو داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کاٹنے کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالی کی عطا کردہ اس فطرت کو بدلنا اپنے آپ کو عورتوں کے مشابہہ کرنا اوراللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرنا ہے ،جو بہت بڑا گناہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ داڑھی اسلامی فریضہ اور مرد مومن کا شعار &l...
شریعت ِاسلامیہ میں سفید بالوں کو خضاب لگانے کو جائز قرار دیا گیاہے۔بشرطیکہ وہ کالے کے علاوہ کوئی رنگ ہو۔سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: '' بڑھاپے کی سفیدی کو بدل دو، یہود جیسے نہ بنو۔''کالے خضاب کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ شوافع عام حالات میں اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ مالکیہ، حنابلہ اور احناف اسے حرام تو نہیں البتہ مکروہ کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں: ''بعض علما نے سیاہ خضاب کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔'' (ابن حجر، فتح الباری، دار المعرفہ، بیروت، ١٠/ ٣٥٤) ایک قول حضرت عمر بن الخطابؒ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کالا خضاب استعمال کرنے کا حکم دیتے تھے۔ (عبد الرحمن مبارک پوری، تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی، طبع دیو بند، ٥/ ٣٥٦)۔ متعدد صحابۂ کرام سے بھی اس کا استعمال ثابت ہے، مثلاً حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ،...
مردوں کی ٹھوڑی اور گالوں پر بالغ ہونے پر اگنے والے بال داڑھی اور بالعموم بلوغت کا نشان کہلاتے ہیں۔قدیم زمانے میں یورپ اور ایشیا میں اس کو تقدیس کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اور یہودیوں اور رومن کتھولک عیسائیوں میں بھی اس کو عزت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کو مصر میں غلامی کی زندگی کے دوران داڑھی منڈانے کی اجازت نہ تھی۔ اس لیے وہ اپنی ڈاڑھیوں کو لمبا چھوڑ دیا کرتے تھے اور اسی نشانی سے ان میں اور مصریوں میں تمیز ہوتی تھی ماضی قریب میں مسلم دنیا میں صرف طالبان کی حکومت ایسی گزری جس نے افغانستان میں داڑھی منڈوانا ایک جرم قرار دیا اور داڑھی نہ رکھنے والوں کو باقاعدہ سزا دی جاتی تھی۔اسلامی تعلیمات کے مطابق مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ہے،اور تمام انبیاء کرام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت ﷺ کا دائمی عمل ہے اور حضور ﷺنے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا اسلام میں داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا گناہ کبیرہ ہے۔ مرد وعورت میں ظاہری تمیز کرنے کے لئے مرد کو داڑھی جیسے خوبصورت زیور...
گزشتہ صدیوں میں استعماری غلبے اور استحصال کی یہ شکل تھی کہ استعماری قوتیں بذات خود نوآبایات میں آکر استحصال کی راہیں ہموار کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب ان کا طریقہء کار بدل چکا ہے۔اگرچہ بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ دنیا مہذب ہو چکی ہے۔پہلےکی طرح ظلم و استحصال کرنا ممکن نہیں رہا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دور میں بھی لوٹنے کھسوٹنے کی وہی صورت ہے بلکہ اس سے بھی بدترین شکل میں ہے۔چنانچہ آج استعماری قوتیں خود تو نہیں آتیں لیکن انہوں نے عالمی مالیاتی نظام ایسا بنا دیا ہے کہ جس میں ترقی پذیرممالک خود بخود ہی اپنا مال و دولت ان کے عشرت کدوں میں پھینک دیتے ہیں۔اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرناک اور اساسی ترین یہ کاغذ کی کرنسی ہے۔اس کتابچہ میں مصنف نے اسی پہلو کو اجاگر کرنے کوشش کی ہے کہ اگر اسلامی ممالک بالخصوص اور دنیا بالعموم اس نظام زر کے چنگل سے نجات حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لے سکتی۔ اور اس کا صرف ایک یہی طریقہ ہے کہ دوبارہ سونے کے سکے رائج کیے جائیں۔(ع۔ح)
اس میں کو ئی شک نہیں کہ قرآن وسنت میں متعدد ایسے کام اور اصول موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے دستور کے لیے منبع واساس کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان سے انحراف کسی طرح روا نہیں۔دستور میں بیان متعدد امور کا تعلق انتظامی معاملات سے ہوتاہے ۔نظری امور ، پالیسی معاملات، بنیادی انسانی حقوق اور ہئیت حاکمہ کے فرائض کا قرآن وسنت میں بیان اصول واحکام کی روشنی میں انہیں کسی اسلامی ریاست کےدستور میں سمونا ضروری ہے جدید ریاستی تنظیم میں دستور کو سیاسی زندگی میں یوں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے کہ دستور عوام اور اصحاب الرائے کی خواہشات کا ترجمان ہوتا ہے کہ اس سے کسی قوم کے ماضی کا بیان اور مآل کی طرف سے تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقیاس ہے جس سے عوام کی امنگوں ،آرزؤں اور خواہشات کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ یہی وہ قندیل ہے جسے لے کرملک کی ترقی کے لیے کوشش کی جاتی ہے اسی کی مدد سے ادارے وجود میں آتے ہیں۔دستور ہی وہ آئینہ ہےجس میں کسی ملک تاریخ کا عکس دیکھا جاسکتا ہے اور حال کا پرتو بھی اسی دستورمیں ملتا ہے ۔دستورمستقبل کاجامِ جم ہوتا ہے ۔یہ دستور ہی ہےجو ریاست میں اداروں کےوجود کا باعث بنتا ہے لوگوں کے طرزِ زندگی...
اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضل و شرف کا معیار ظاہری افعال و اعمال نہیں بلکہ ایمان کے حقائق ہیں۔ عمال کی فضیلت و برتری صاحب عمل کے دل کے اندر قائم دلیل و برہان کے تابع ہوتی ہے یہاں تک کہ دو عمل کرنے والے بظاہر ایک رتبہ دکھائی دیتے ہیں لیکن فضیلت و برتری اور وزن میں ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ قلب کی اصلاح و تزکیہ اور اسے آفات سے پاک رکھنے اور فضائل و خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں سے اپنی نگاہ کا مرکز ان کے دلوں کو قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں ماضی قریب کے جید عرب عالم دین شیخ محمد صالح المنجد نے ’سلسلہ اعمال القلوب‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ’دل کی اصلاح‘ اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ اردو ترجمہ نہایت سلیس اور رواں ہے۔ کتاب کومتعدد عناوین میں تقسیم کرنے کے بعد دلوں کی صفائی پر نگارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان عناوین میں اخلاص و للّٰہیت، توکل، محبت، خوف و خشیت، امید کی حقیقت، تقویٰ کی حقیقت، تسلیم و رضا، شکر گزاری، صبر و تحمل، ورع اور مشتبہات سے بچاؤ، غور و فکر اور...
قرآن پاک کی تعلیمات اور رسول مقبولﷺ کی پاکیزہ زندگی کا مکمل اسوۂ حسنہ ہماری اصلاح اور رہنمائی کے لیے کافی ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جب تک مسلمانوں نے اپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنائے رکھا اس وقت تک مسلم قوم سر بلند رہی- جب مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا امتِ مسلمہ میں اخلاقی زبوں حالی جڑ پکٹرتی چلی گئی اس لیے فلاح و کامیابی کے لیے اپنے معاشرے کی اصلاح کرنا ضرروی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ دو مکھیاں دو کردار‘‘ مولانا عبد اللہ دانش صاحب کی اصلاح معاشرہ سے متعلق ایک تحریر کی کتابی صورت ہے موصوف نے قرآن مجید میں مذکور ایک چھوٹی سی مخلوق کا موازنہ پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ کہنے کو تو دونوں مکھیاں ہی ہیں مگر کام اور انجام کے اعتبار سے دونوں میں بعد المشرقین ہے ایک شہد تیار کرتی ہے جو سراسر شفا ہی شفا ہے اور دوسری گندے جراثیم پھلا کر کئی قسم کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔بالکل یہی حال اشرف المخلوقات کا ہے کہ جس کا کوئی فرد تو توحید و سنت کا علم بلند کر کے جہالت اور ظلمت کے بادل دور ہٹا رہا ہے اور کوئی شرک و بدعت کے افسانے سنا...
مسلمان ہونےکےناطےہمارایہ پختہ اعتقاد ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی،سیاسی ہو یا اخلاقی،معاشرتی ہو یا معاشی جس کے متعلق دین میں اصولی رہنمائی موجود نہ ہو۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہےکہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین سے بیگانگی کے باعث اسلام کےان سنہری اصولوں سےنابلد ہے جولوگ نماز روزہ کےپابند ہیں ان میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس نے دین صرف عبادات،نماز،روزہ ،حج اور زکوۃ کا نام سمجھ لیا ہے مالی معاملات کے بارہ میں احکام شریعت کواس طرح نظر انداز کیے ہوئے ہے کہ گویا ان کادین کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے بالخصوص جدید معاملات کےمتعلق ان کاانداز فکر یہ ہے کہ یہ چونکہ دور حاضر کے پیداوار ہیں عہد رسالت میں ان کاوجود ہیں نہیں تھا اس لیے یہ جائز ہیں۔ان حالات میں اہل علم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات جدید ہ سمجھیں او رلوگو ں کی صحیح او رکما حقہ رہنمائی کریں۔یہ کتاب دور حاضر کےمالی معاملات پر جتنے بھی سوالات واشکالات ہیں ان کاجواب ہے ۔
جس طرح اسلام عقائد وایمانیات اورعبادات یعنی اللہ تعالیٰ اوراس کے بندوں کے درمیان تعلقات کا نظام پیش کرتاہے اسی طرح دنیاوی معاملات یعنی بندوں کے باہمی تعلقات کا نظام بھی عطا کرتا ہے ۔اسلامی تہذیب وتمدن اور ثفاقت ومدنیت کے خاص اصول واحکام اور مبادی واقدار ہیں۔ جودوسروں سے ممتاز ومنفرد ہیں۔ اس کی مدنیت کے جو ظواہر اور ٹھوس معاملات امور وجود میں آئے وہ ان ہی بنیادی اقدار واصول کے عطاکردہ ہیں۔اور وہ بھی دوسری تہذیبوں ،تمدن اور ثقافتوں کے ظواہر سے جداگانہ اور ممتاز ہیں ۔اسلامی تہذیب وتمدن بالخصوص نبوی عہد کے تمدن کےدو اہم پہلو ہیں ۔ایک آفاقی وعالمی پہلو ہے اوردوسرا مقامی اور علاقائی پہلوہے۔ عہد نبوی کا تمدن اپنی بنیاد ونہاد میں عربی اسلامی تمدن ہے ۔جس میں عربی مقامی روایات بھی موجود ہیں ۔ ان خالص مقامی روایات وظواہر میں سے بھی بعض میں اسلامی آفاقیت موجود ہے اور وہ تمام اقدار واصول کی طرح تمام مسلمانوں اور مسلم علاقوں کےلیے لازمی اگر نہیں بنتی تو پسندیدہ ومسنون ضرور قرار پاتی ہے۔ زير نظر كتاب’’&nbs...
دعاء کا مؤمن کاہتھیار ہے جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کواستعمال کرکے دشمن سےاپنادفاع کرتا ہے اسی طرح مؤمن کوجب کسی پریشانی مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تووہ فوراً اللہ کےحضو ر دعا گو ہوتا ہے دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کےلیے مؤثر ترین ہتھیارہے انسان اس دنیا کی زندگی میں جہاں ان گنت ولاتعداد نعمتوں سےفائدہ اٹھاتا ہے وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار وسقیم ہو جاتاہے اس دنیاکی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہدے میں ہےکہ بعض انسان فالج ،کینسر،یرقان،بخاروغیرہ اوراسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلاہیں ان تمام بیماریوں سےنجات وشفا دینےوالا اللہ تعالی ہے ان بیماریوں کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔ حدیث نبوی کےمطابق دعا کرنے سے بری تقدیر ٹل جاتی ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے دعا کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس کے مبارک اور قبولیت کےاوقات بھی شمار فرمائے ہیں۔مثلاً رات کےپچھلے پہر میں ، اذان اور اقامت کے دوران ، میں ، نماز میں سجدے میں ،نمازوں کے بعد ، جمعہ کے دن کی خاص گھڑی میں ، یوم عرفہ میں ، لیلۃ القدر میں ، بارش برستے وقت م...
ایمان باللہ کے بعد دینی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیناسب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔ امر بالمعروف کامطلب ہے نیکی کا حکم دینا اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے برائی سے روکنا یہ بات تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی اور نیک لوگوں کو پسند فرماتےہیں ۔ برائی اور برے لوگوں کو ناپسند فرماتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ نیک لوگ زیاد ہ ہوں او ر نیکی کا غلبہ رہے۔ برے لوگ کم ہوں اور برائی مغلوب رہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو محض خود نیک بن کر رہنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہی نہیں دیا بلکہ ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا حکم بھی دیا ہے ۔ اسی عظیم مقصد کی خاطر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اورانبیاء کرام کاسلسلہ ختم ہونے کے بعد امت محمدیہ کے حکمرانوں ،علماء وفضلاء کو خصوصا اورامت کے دیگر افراد کوعموماً اس کا مکلف ٹھہرایا ہے ۔قرآن وحدیث ...
دیور اور بہنوئی یہ دونوں رشتے بھی بڑے عجیب ہیں۔ایک رشتہ بہن کا خاوند ہے تو دوسرا خاوند کا بھائی ہے۔خاوند اور بہن دونوں ہی انتہائی قریبی رشتے ہیں۔اس لئے دیور اور بہنوئی کی اہمیت بھی مسلم ہے۔موجودہ معاشرے میں ان سے تعلقات کی نوعیت جو بھی ہو دونوں میں ایک قدرِ مشترک ضرور ہے کہ سالی کا بہنوئی سے اور دیور کا بھابھی سے ہنسی ،مذاق اور بے تکلفی اور بعض اوقات تو یہ مذاق بے ہودگی اور بے حیائی تک جا پہنچتا ہے۔اسلامی معاشرت میں باہمی ادب واحترام اور شائستگی کو اولیت حاصل ہے،اس لئے بیہودہ گفتگو یا غیر شائستہ مذاق کی کسی رشتے کے ساتھ کوئی گنجائش نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " دیور اور بہنوئی"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نےدیور اور بہنوئی کے ساتھ تعلقات کی حدود وقیود اور ان سے شرعی پردے کی اہمیت وضرورت پر گفتگو کی ہے ۔کیونکہ وہ قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اس عورت کے لئے نامحر م ہی رہتے ہیں ،جن سے پردہ کرنا از حد ضروری اور فرض ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چ...
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعدر رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی دین اسلام کی نشرواشاعت ،کتاب وسنت کی ترویج وترقی اور شرک وبدعت اور مذاہب باطلہ کی تردید وتوضیح میں بسر کردی ۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیا۔آپ نے مختلف موضوعات پر 500 سے زائد کتابیں لکھیں۔فکر وعقیدہ کی گمراہیوں میں سے شرک اور بدعت دو بڑی گمراہیاں ہیں۔ امام ابن تیمیہ ؒ کی کتب میں ان دونوں گمراہیوں پر مفصل کلام موجود ہے۔آپ کی کتابوں میں سے ’’اقتضاء الصراط المستقیم فی مخالفۃ اصحاب لجحیم&lsquo...
دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔لیکن افسوس کہ اس وقت پاکستان میں موجود تمام بینک سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔حتی کہ وہ بینک جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی سود کی آلائشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔سود کو عربی زبان میں ”ربو“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ : ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں۔&q...