غصہ اطمینان اور رضامندی کی نقیض اور ضد ہے ۔غصہ اور جارحیت انسان کا فطری ،انسانی اور صحت مندغیر اخیتاری فعل ہے ۔غصہ انسان کو تباہی کے کنارے اورہلاکت کی وادیوں میں پھینک دیتا ہے اس لیے اس کے نقصانات اور ہلاکت خیزیوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ اس کے شر سے بچا جاسکے۔ نبی کریم ﷺ تو ایسے شخص کوبڑا پہلوان قرار دیتے ہیں جو غصے میں اپنے اوپر قابورکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں کسی پر ظلم اورزیاتی نہیں کرتا۔لیکن بسا اوقات غصہ انسان کی عزت نفس اور دینی غیرت وحیمت اور اللہ کی رضا کا بہت بڑا ذریعہ بھی بن جاتا ہے کہ جب یہ غصہ اللہ کی خاطر اور اس کی خوشنودی کے لیے ہو۔ زیر نظر کتاب ’’رحمۃ للعالمین غصے میں کیوں؟‘‘ محترم جناب حافظ عبد الرزاق اظہر﷾ کی کاوش ہےجسے انہوں نے بڑی محنت سے مرتب کیا ہے ۔یہ کتاب اپنے موضوع میں ایک جامع ونافع کتاب ہے ۔ فاضل مصنف نے اس میں تقریباً ان تمام امور کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنہیں دیکھ کر یا سن کر نبی کریمﷺ نے غصے کا اظہار فرمایا تاکہ عام و...
دین اسلام میں حلال ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو معیوب قرار نہیں دیا گیا چاہے اس کی مقدار کتنی ہی ہو۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہےکہ دولت انسان کوبارگاہ ایزدی سے دورنہ کرے۔ فی زمانہ جہاں امت مسلمہ کو دیگر لا تعداد مسائل کا سامنا ہے وہیں امت کےسواد اعظم کو فکر معاش بری طرح لاحق ہے۔اور لوگوں کی ایک کثیر تعداد کا باطل گمان یہ ہے ہےکہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی پابندی رزق میں کمی کا سبب ہے اس سے زیادہ تعجب اور دکھ کی بات یہ ہے کہ کچھ بظاہر دین دار لوگ بھی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ معاشی خوشی حالی اور آسودگی کے حصول کےلیے کسی حد تک اسلامی تعلیمات سے چشم پوشی کرنا ضروری ہے ۔ یہ نادان لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ کائنات کے مالک وخالق اللہ جل جلالہ کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رشد وہدایت کا ر فرما ہے وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کیو سرفراز وسربلند کرنا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ دین اس لیے بھی نازل فرمایا ہے کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی ز...
دین اسلام میں حلال ذرائع سے کمائی جانے والی دولت کو معیوب قرار نہیں دیا گیا چاہے اس کی مقدار کتنی ہی ہو۔ لیکن اس کے لیے شرط یہ ہےکہ دولت انسان کوبارگاہ ایزد سے دورنہ کرے۔ فی زمانہ جہاں امت مسلمہ کو دیگر لا تعداد مسائل کا سامنا ہے وہیں امت کےسواد اعظم کو فکر معاش بری طرح لاحق ہے۔ پیش نظر کتاب ’رزق کی کنجیاں‘ میں معاشی مسائل کا آزمودہ اور کار آمد حل نہایت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر فضل الہٰی ایک علمی و معتدل تعارف رکھنے کے ساتھ ساتھ دین کی صحیح تعبیر کا بھی علم رکھتے ہیں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں قرآن و حدیث کی واضح براہین کی روشنی میں رزق کے حصول کے اسباب کو عام فہم انداز میں بیان کیا ہے۔
سفارت کاری اور خارجہ پالیسی سے مراد ایک ریاست اور حکومت ہے جسے دوسری ریاستوں، حکومتوں اور قوموں کے ساتھ اپنے معاملات چلانے اور دنیا میں ان کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے کوئی طریق کار اور اصول و قوانین طے کرنے ہوتے ہیں۔ دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کے بارے میں قرآن کریم نے بیسیوں آیات میں احکام دیے ہیں اورنبی کریم ﷺ نے بھی اسلام کی خارجہ پالیسی کی بنیاد انہی آیات قرآنیہ پر تھی۔ نبی اکرم ﷺکی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ اسلام کا غلبہ اور اس کی بالادستی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا تھا۔ اسی وجہ سے آپﷺ صحابہ کرام کو یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ پہلے دوسری قوموں کے سامنے اسلام پیش کرو، اگر اسے قبول نہ کریں تو اس بات کی دعوت دو کہ وہ اسلام کی بالادستی اور برتری تسلیم کریں اور اس کے فروغ و نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔ اور اگر وہ اسلام بھی قبول نہ کریں اور اس کی اشاعت میں رکاوٹ بھی بنیں تو ان سے جہاد کرو۔ گویا جہاد اور جنگ اسلام قبول نہ کرنے پر نہیں ہے، بلکہ اس کی راہ میں مزاحم ہونے پر ہے۔ زیر نظر کتاب’’ رسول اکرمﷺ کی سفا...
اسلام ایک پاکیزہ دین اور مذہب ہے ،جو اپنے ماننے والوں کو عفت وعصمت سے بھرپور زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک مسلمان خاتون کے لئے عفیف وپاکدامن ہونے کا مطلب یہ کہ وہ ان تمام شرعی واخلاقی حدود کو تھامے رکھے جو اسے مواقع تہمت و فتنہ سے دور رکھیں۔اور اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ ان امور میں سے سب سے اہم اور سرفہرست چہرے کو ڈھانپنا اور اس کا پردہ کرنا ہے۔کیونکہ چہرے کا حسن وجمال سب سے بڑھ کر فتنہ کی برانگیختی کا سبب بنتا ہے۔امہات المومنین اور صحابیات جو عفت وعصمت اور حیاء وپاکدامنی کی سب سے اونچی چوٹی پر فائز تھیں،اور پردے کی حساسیت سے بخوبی آگاہ تھیں۔ان کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ پاوں پر بھی کپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں،حالانکہ پاوں باعث فتنہ نہیں ہیں۔اور پردہ کرنے میں اس بات کا علم ہونا ضروری ہے کہ سے پردہ کیا جائے اور کس سے نہ کیا جائے۔۔ زیر تبصرہ کتاب " رشتے اور حدود"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے انسان کے رشتوں اور ان کے س...
"روایت اور جدیدیت" چند تحریروں کا مجموعہ ہے جو پہلے پہل فیس بک ٹائم لائن پر شیئر کی گئی تھیں۔ بعض دوستوں کا تقاضا تھا کہ انہیں ایک کتابچے کی صورت جمع کر دیا جائے تو اس غرض سے ان تحریروں کو ضروری ایڈیٹنگ اور کچھ اضافوں کے بعد ایک کتابچے کی صورت جمع کیا گیا ہے کہ جسے فیس بک اور واٹس ایپ گروپس میں شیئر کیا جا سکتا ہے۔ اس کتابچے کا شان نزول یہ ہے کہ ہمارے ایک قریبی دوست جناب مراد علوی صاحب جو اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ سیاسیات میں زیر تعلیم ہیں اور دین کا بہت ہی درد رکھنے والے طالب علم ہیں، کچھ عرصہ سے فکر اہل حدیث اور علمائے اہل حدیث پر گاہے بگاہے کچھ پوسٹیں لگا رہے تھے۔ خیر اہل حدیث علماء سے اختلاف یا ان پر نقد تو کوئی ایسا ایشو نہیں ہے کہ جس پر کوئی جوابی بیانیہ تیار کیا جائے کہ کسی بھی مسلک کے علماء ہوں، ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے اور ان پر نقد بھی ہو سکتا ہے لیکن فکر اہل حدیث ہماری نظر میں ایک ایسی شیء ہے کہ جس پر نقد کا جواب دینا ہم ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اور فکر اہل حدیث سے ہماری مراد کتاب وسنت کی طرف رجوع کی دعوت ہے جو کہ خ...
یہ بات واضح ہے کہ اعمال کی صحت کا دارومدار نیتوں پر ہے۔اور ساری اسلایم عبادات جیسے نماز ،روزہ، حج، زکاۃ، اور دیگر سارے کار خیر کی بنیاد اخلاص اوراتباع سنت ہےان دونوں میں سے کسی ایک کا نہ پایا جانا عمل وعبادت کی صحت پر اتنا اثر ڈالتا ہےکہ وہ عمل نہ یہ کہ صحت کے درجہ کو نہیں پہنچتا بلکہ الٹا عامل کے لیے بوجھ اور سبب گناہ بن جاتا ہے ۔ کیونکہ اخلاص کافقدان عمل کو نہایت ہی خطرناک راہ یعنی ریاء کاری اور دکھاوے کی راہ پر ڈال دیتا ہے جسے نصوصِ کتاب وسنت میں شرک سے تعبیر کیاگیا ہے ۔کسی شخص کو اخلاص اور للہیت کا مل جانا اس کے کے لئے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم ﷺنے اپنی احادیث نبویہ میں اعمال میں جا بجا اخلاص کو ختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔خلوص نیت کے ساتھ کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ الٰہی میں بڑی قدروقیمت رکھتا ہے۔جبکہ عدم اخلاص ،شہرت اور ریاکاری پر مبنی بڑے سے بڑا عمل بھی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ریاکاری انسان کے اعمال کو دنیا میں تباہ کر دیتی ہے۔نبی کریم کے فرمان کے م...
زبان اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ یہ وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہے انسان اسی کی وجہ سے باعزت مانا جاتاہے اور اسی کی وجہ سے ذلت ورسوائی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ اس نعمت کی اہمیت کو وہ شخص سمجھ سکتا ہے جس کے منہ میں زبان ہے لیکن وہ اپنامافی ضمیر ادا نہیں کرسکتاہے۔اللہ کا فرمان ہے : أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ(سورۃالبلد) ’’ کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں بنایا۔‘‘سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے ہی کرتا ہے۔لہٰذا عقلمند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں زبان کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’زبان کی حفاظت ‘‘ نیویارک میں مقیم مولانا عبد اللہ دانش کی صاحبزادی اور شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم کی بہو محترم مریم دانش صاحبہ کی کاوش ہے ۔ اس...
’’زر کا تحقیقی مطالعہ شرعی نقطہ نظر سے‘‘کے نام سے ڈاکٹر مولانا عصمت اللہ کی یہ تالیف اقتصادیات پر جامع اور نہایت مفید کاوش ہے ۔ یہ اصل میں پی۔ایچ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے بعد میں اس کی جامعیت و انفرادیت کی بناء پر کتابی شکل دی گئی ۔ موصوف نے جس مہارت اورآسان انداز سے اس پچیدہ موضوع کا احاط کیا ہے وہ لائق تحسین ہے ۔اگرچہ اس موضوع پربہت سا مواد قرطاس کی نذر کیا جا چکا ہے اور مختلف مولفین کی قلم آزمائی کی وجہ سے بیشتر کتابیں بھی اہل علم کے ہاتھوں میں آ چکی ہیں لیکن یہ کتاب بہت سی خصوصیات کی وجہ سے اپنے اندر انفرادیت رکھتی ہے مثلا اس میں اقتصادیات کی جملہ ضروری مباحث پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے،ڈیبٹ کارڈ،چارج کارڈ،کریڈٹ کارڈ،بینک ڈرافٹ،بانڈز،اور شیئرز وغیرہ جیسے جدید اور دقیق مسائل کی بڑی جامعیت اور عمدگی سے وضاحت کی گئی ہے ،اس کے علاوہ زر جو اقتصادیات کی بنیاد ہے کا بڑی شرح وبسط سے احاط کیا گیا ہے اسی طرح سود خور ماہرین اقتصادیات کے سود کو حلال قرار دینے کے تمام پہلوں کی شرعی دلائل اور معاصر ماہرین کے نقطہ نظر سے تردید کی گئی ہے ۔میری رائے میں مذکورہ تالیف...
اسلامی آداب و اخلاقیات حسنِ معاشرت کی بنیاد ہیں،ان کے نہ پائے جانے سے انسانی زندگی اپنا حسن کھو دیتی ہے ۔ حسنِ اخلاق کی اہمیت اسی سے دو چند ہو جاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں عبادت و ریاضت میں کمال رکھنے والوں کے اعمال کو صرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیا گیا۔حسن ِاخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ امور کو بہتر بنانا ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی تہذیب کے تمام تر پہلوؤں کو اپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے ۔زیر نظر کتاب ''زندگی ایسے گزاریں'' امام بیہقی ،ابوبکر احمد بن حسین بن علی (384۔458ھ) کی اخلاقیات و آداب کے موضوع پر مایہ ناز کتاب ''الآداب'' کا اردو ترجمہ ہے ۔ اس کتاب کا رواں اور سلیس ترجمہ کرنے کی سعادت مولانا حافظ فیض اللہ ناصر﷾(فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور) کو حاصل ہوئی۔محترم حافظ صاحب نے ترجمہ کے ساتھ ساتھ انتہائی محنت شاقہ سے بہترین فوائد،نادر اضافہ جات کرتے ہوئے صرف صحیح اور حسن روایات پر مشتمل مجموعۂ احادیث پیش کرنے کی خواہش کے پیش نظر ضعیف...
خوشگوار زندگی گزارنا ہر انسان کا ایک خواب ہوتا ہے۔ وہ پر سکون زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب کہ انسان دین اسلام پر عمل کرے‘ کیونکہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو زندگی کے ہر گوشہ میں انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت کے نازل کردہ دین میں جہاں اُخروی معاملات میں رُشد وہدایت دی گئی ہے‘ وہاں اس میں دنیوی امور میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی گئی ہے۔ اس دین کا مقصد جس طرح انسان کی اخروی کامیابی ہے‘ اسی طرح اس دین کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسانیت اس دین سے وابستہ ہو کر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندی کی زندگی بسر کرے۔۔زیرِ تبصرہ کتاب خالص قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں زندگی گزارنے کے سنہرے اسلامی اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ احادیث کی تشریح میں روایت انداز کے بجائے عملی اسلوب کو اختیار کیا گیا ہے‘ تاکہ قارئین آسانی سے سمجھ سکے۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر فرد کے لیے ضروری ہے اور کتاب کے مطالعے کے بعد قاری خوشگوار زندگی گزار سکے گا۔اس کتاب میں بہت سے اہم مضامین اور اسلامی اقدار کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے جیسا کہ صبر‘ نرمی‘ تواضع‘ غص...
کسی انسان کا طرزِ زندگی یاایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے کوئی انسان جس پیشے کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کا کیرئیر کہلاتا ہے۔اگر یہ انسان کا طرزِ زندگی ہے تو پھر اس کی سوچ،اس کا علم و ہنر، اس کی عقل و دانش، اس کی صلا حیتیں اور مہارتیں اور اس کی خوبیاں اور خامیاں۔یہ سب اجزاء مل کر ہی اس کے طرزِ زندگی کی تشکیل کر سکتے ہیں۔لیکن ان تمام اجزاء کی نشو و نما تعلیم و تربیت کا تقاضا کرتی ہے۔لہٰذا ایک مناسب تعلیم و تربیت کے حصول کے بغیر ایک بہتر اور معیاری طرزِ زندگی کا حصول ممکن ہی نہیں ہے۔ایک درست کیرئیر کا انتخاب وہ فیصلہ کن مرحلہ ہے جو آپ کی زندگی کا معیار بدل سکتا ہے۔مگر اس فیصلے کے لیے بہت سوچ بچار اور گہرے تجزیے کی ضرورت ہوتی ہے۔وسیع تر معلومات اور اپنی مہارتوں اور صلاحتوں کا صحیح ادراک اور تجزیہ ایک درست کیرئیر کے انتخاب میں مدد کر سکتا ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب بھی خاص اسی حوالے سے ہے جس میں کیریر گائیڈینس اور کیریر پلاننگ کی رہنمائی دی گئی ہے اور یہ کتاب پاکستان کے ہر حصے کے طلبہ‘ والدین اور اساتذہ کے لیے مفید ہے اور اس میں نوجوانوں کی دلچسپی کے حوالے سے ب...
انسان خیروشرکا مجموعہ ہےاور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی کی صلاحیتیں یکساں طور پر ودیعت کی گئی ہیں۔اورایساکیا جاناضروری بھی تھااس لئے کہ اسے اس کائنات میں محض آزمائش اور امتحان کےلئے بھیجاگیاہے،اگروہ خالق کائنات کے اس امتحان میں پورا اترا جائے تواس سا کوئی خوش نصیب نہیں،اور اگر اس کے پائے استقامت نے ٹھوکرکھائی اور وہ اس امتحان میں کامیاب نہ ہوسکا تو اس سا کوئی بدنصیب نہیں۔انسان کی یہی دوہری صلاحیت ہے جو ہمیشہ باہم معرکہ آراء رہتی ہے،خدا ترسی نے غلبہ پایاتوعمل صالح کا صدور ہوتا ہے ،شر ور نفس نے فتح پائی تو انسان شیطان کے’’دام ہمرانگ زمین‘‘ میں گرتا ہے اور خدا کی نافرمانی کر گزرتا ہے،پھریہ نافرمانی بھی مختلف درجات کی ہوتیں ہیں،مثلا کوئی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور کوئی گناہ صغیرہ کا ،اور گناہ کبیرہ ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے اور رب العالمین کی نارضگی کا سبب بنتے ہیں ۔اسلئے کبائر کا معاملہ بٹرا سخت اور اہم ہے،یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین ن...
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی ا...
عہدجدید کو عہدِ معاشیات کے نام سے موسوم کرنا غلط نہ ہوگا۔ ان معنوں میں کہ عصرِ حاضر میں جتنے انقلابات ممالکِ عالم میں رونما ہوئے اکثر وبیشتر ان کی اساس معاشی تھی۔ فوڈلزم کا نظام شکست وریخت کا شکار ہوا۔ بادشاہتیں رخصت ہوئیں اور ذرائع معاش میں وسعت پیدا ہوئی۔ نئی ایجادات ہوئیں‘ سائنس نے ترقی کی‘ کارخانے قائم ہوئے‘ رسل ورسائل ابلاغ عامہ کے سلسلے وسعت پذیر ہوئے‘ برسوں کے سفر منٹوں میں طے ہونے لگے۔ لا سلکی ذرائع ظاہر ہوئے پھر الیکڑانک کا دور آ گیا اور آپ پوری دنیا ایک کنبہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان تمام ترقیات کو سرمایہ درانہ نظام نے جنم دیا اور بھر پور تحفظ فراہم کیا لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ سرمایہ درانہ نظام در اصل ظالم ترین استحصالی نظام ہے جس نے طبقات جنم دیے اور صرف افراد ہی کو نہیں بلکہ ملکوں کو جبر واستحصال کا شکار بنایا۔۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں سرمایہ درانہ نظام انشورنس اور اسلام کے نظام کفالت عامہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہ کتاب نہایت مفید اور جامع انداز میں لکھی گئی ہے۔اس میں آٹ...
عہدجدید کو عہدِ معاشیات کے نام سے موسوم کرنا غلط نہ ہوگا۔ ان معنوں میں کہ عصرِ حاضر میں جتنے انقلابات ممالکِ عالم میں رونما ہوئے اکثر وبیشتر ان کی اساس معاشی تھی۔ فوڈلزم کا نظام شکست وریخت کا شکار ہوا۔ بادشاہتیں رخصت ہوئیں اور ذرائع معاش میں وسعت پیدا ہوئی۔ نئی ایجادات ہوئیں‘ سائنس نے ترقی کی‘ کارخانے قائم ہوئے‘ رسل ورسائل ابلاغ عامہ کے سلسلے وسعت پذیر ہوئے‘ برسوں کے سفر منٹوں میں طے ہونے لگے۔ لا سلکی ذرائع ظاہر ہوئے پھر الیکڑانک کا دور آ گیا اور آپ پوری دنیا ایک کنبہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ان تمام ترقیات کو سرمایہ درانہ نظام نے جنم دیا اور بھر پور تحفظ فراہم کیا لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ سرمایہ درانہ نظام در اصل ظالم ترین استحصالی نظام ہے جس نے طبقات جنم دیے اور صرف افراد ہی کو نہیں بلکہ ملکوں کو جبر واستحصال کا شکار بنایا۔۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص اسی موضوع پر ہے جس میں سرمایہ درانہ نظام انشورنس اور اسلام کے نظام کفالت عامہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔یہ کتاب نہایت مفید اور جامع انداز میں لکھی گئی ہے۔اس میں آٹ...
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہرشخص فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے ۔اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں...
سرمایہ دارانہ نظام انگریزی ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ جملہ حقوق، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی وہ خصوصیات ہیں جس سے سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین کے مطابق غریبوں کا خون چوسا جاتا ہے۔ جدید دانشوروں کے مطابق آج سرمایہ دارانہ نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی آوازیں شدت سے اٹھنا شروع ہو گئیں ہیں۔ مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل...
زیر نظر کتاب’’سرمایہ دارِی کا مستقبل‘‘ پانچ مغربی مصنفین(عمانویل الرسٹائن، رنڈل کولنز، مائیکل مین، جارجی درلوگاں کریگ کلہون) کی مشترکہ تصنیفDoes Capitalism Have a Future? کا اردو ترجمہ ہے ۔تفہیم مغرب کے سلسلہ میں جناب صابر علی صاحب نے اس کتاب کا اردو ترجمہ کرکے افادۂ عام کے لیے پیش کیا ہے۔اس کتاب میں مذکورہ پانچ ماہرین سماجیات تاریخ عالم کے اپنے اپنے علم کی بنیاد پر اپنے اپنے انداز میں بحث کرتے ہیں کہ آنے والے دور میں کیا چیلنج اور مواقع پیدا ہوں گے ۔ کتاب ہذا میں حسب ِذیل عنوانات قائم کر کے (سرمایہ داروں کے لیے سرمایہ دار منافع بخش کیوں رہے گی۔مڈل کلاس کا خاتمہ ،خاتمہ قریب ہو سکتا ہے لیکن کن کےلیے ؟کمیونزم کیاتھا؟اب سرمایہ داری کو کیا خطرات ہیں؟) سرمایہ داری کے مستقبل کو پیش کیا گیا۔ (م۔ا)
سرمایہ دارانہ نظام ایک معاشی و معاشرتی نظام ہے جس میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں کرنسی چھاپنے کا اختیار حکومت کی بجائے کسی پرائیوٹ بینک کے اختیار میں ہوتا ہے۔اشتراکی نظام کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام میں نجی شعبہ کی ترقی معکوس نہیں ہوتی بلکہ سرمایہ داروں کی ملکیت میں سرمایہ کا ارتکاز ہوتا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے۔سرمایہ داری کاغلبہ آج عالمگیر صورت اختیار کر گیا ہے سرمایہ دارانہ علمیت نےاسلام کےعلاوہ تمام علمی تہذیوں کو مسخر کرلیا ہے ۔زیر نظر کتاب’’ سرماداری کےنقیب‘‘ وطنِ عزیز پاکستان کے ماہر اقتصادیات جناب ڈاکٹرجاوید اکبر انصاری کی تصنیف ہے۔یہ کتاب سرمایہ داری کی تاریخ کےاہم ترین نقیبوں کی فکر تجزیہ پیش کرتی ہے ۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں سرماداری کے نقیبوں کو چھےگروہوں میں تقسیم کر کےہر گروہ سے تعلق رکھنے والے اہم مفکرین کو الگ سیکشن میں جمع کردیا ...
کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کےلیے دین ودنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی،مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے &nb...
قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سماج میں پائی جانے والی برائیوں کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ اسے ایمان کا تقاضا قرار دیا کہ مومن برائی کو برائی سمجھے اور حتی الوسع اس کی روک تھام کی کوشش کرے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اس کے فرائض میں شامل اور داخل ہے ۔قرآن کریم نے اخلاق اور حقوق کےادا کرنے پر پورا زور دیا ہے۔ وہ والدین کے حقوق ہوں یا رشتہ داورں اور پڑسیوں کے یا عام انسانوں کے۔ جھوٹ، جھوٹی گواہی، حسد، غیبت، بہتان، تمسخر، کبر وغرور، فتنہ وفساد، چوری، ناحق قتل، ظلم وتشدد، ڈاکہ زنی، رہزنی، دھوکہ دہی اور باہمی کشیدگی سے روکا ہے کیونکہ یہ چیزیں سماج کو کھوکھلا کرنے والی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’سماجی برائیوں کا انسداد اور قرآنی تعلیمات‘‘ ادارہ علوم القرآن علی گڑھ کے زیراہتما م مذکورہ موضوع پر منعقد کیے گئے سیمینار میں پیش کیے گئے تقریباً پچیش تحقیقی وعلمی مقالات کا مجموعہ ہے۔ ان مقالات کو جناب اشہد رفیق ندوی صاحب نے حسن ترتیب سے مرتب کرکے عامۃ الناس کے استفادہ کے لیے پیش کیا ہے۔ (م۔ا)
دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھنے کی صلاحیت ایک ایسی صلاحیت ہے جو اعلیٰ انسانی خوبی قرار دی جا سکتی ہے۔ وہ لوگ جو سماج میں اعلیٰ رتبوں پر فائز ہوتے ہیں ان میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں سے اچھے تعلقات بنا کر رکھتے ہیں اور وہ ایسا صرف اپنے عہدوں کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ ان کی کامیابی اور سماجی مرتبے کی وجہ ہی بنیادی طور پر یہی ہوتی ہے کہ وہ ہر قسم کے لوگوں سے بآسانی میل جول بڑھا سکتے ہیں۔ گھریلو اور دفتری تعلقات کے علاوہ انسان کو بہت سے دیگر تعلقات بھی نبھانا پڑتے ہیں۔ دوستوں اور شناساؤں کے علاوہ کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے روز آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر لفٹ مین، مالی، گھریلو ملازم اور گارڈ وغیرہ۔ بازار جائیں تو وہاں دکانداروں، سیلزمینوں اور ان کے مددگاروں سے بات کرنا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ گوالا جو آپ کو دودھ دینے آتا ہے، وہ ڈاکیا جو آپ کے خط گھر چھوڑنے آتا ہے اور وہ دھوبی جو آپ کے کپڑے دھو کر گھر دے جاتا ہے اس سے بھی ملنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات گہرے نہیں ہوتے اور انہیں متعین بھی نہیں کیا جا سکتا مگر بہر حال یہ سب تعلق ہماری...
سنت مراد الٰہی تک پہنچنے کا اولین ماخذ ہے اور سنت کی موافقت کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے بنیادی شرط ہے ۔اگر سنت کو ترک کردیاجائے تو نہ قرآن کی تفہیم ممکن ہے اور نہ ہی کسی عمل کی قبولیت ۔اسی وجہ سے کتاب اللہ میں جابجا اتباع سنت کی ترغیب دکھائی دیتی ہے ۔ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’سنت کے خزانے ‘‘ ڈاکٹر محمد عبد الرحمن الترکیت کی کتاب من كنوز السنة کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ موصوف نے اس کتاب میں قرآن کریم اور سنت مطہرہ کی روشنی میں ان مسائل کو بیان کیا ہے۔جو انسانی معاشرہ کی اصلاح کےلیے ضروری ہیں۔(م ا)
بیوٹی پالر سے مراد ایسے مقامات ہیں جہاں عورتیں ،مرد اور بچے اپنے جسم کے فطری حسن اور فطری رنگ و روپ کی بجائے اضافی زیب وزینت اور من پسند رنگ وروپ حاصل کرنے کے لئے رجوع کرتے ہیں۔ایسے بیوٹی پالرز کا خیال سب سے پہلے رومی قوم میں پیدا ہوا جو لوگ روح کی بجائے جسم کے عیش، آرام ،اس کی لذتوں اور آرائش کو ترجیح دیتے تھے۔وہ اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرنے کے لئے زر خرید لونڈیوں کی جسمانی نگہداشت کرتے ،انہیں طرح طرح کے فیش کروا کر سجاتے بناتے اور پھر ان کے اپنی نفسانی خواہشات پوری کرتے تھے۔موجودہ زمانے کے بیوٹی پالر بھی انہی قباحتوں اور برائیوں کو اپنے اندار لئے ہوئے ہیں،اور ان کی آڑ میں ہونے والے بے حیائی کے واقعات دیکھ اور سن کر انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب "سنگھار خانے "معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے جسمانی زیب وزینت کے لئے شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھنے ،اور برائی وبے حیائی کے ان اڈوں سے دور رہنے کی ترغیب دی ہے ۔ محتر...