کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔‘‘نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ مسلمانوں کے لیے دین ودنیا کے تمام امور میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی تنہا ذات میں حاکم،قائد،مربی،مرشد اور منصف اعلیٰ کی تمام خصوصیات جمع تھیں۔جو لوگ آپ کے فیصلے پر راضی نہیں ہوئے ا ن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سنگین وعید نازل فرمائی اور اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا کہ آپ کے فیصلے تسلیم نہ کرنے والوں کو اسلا...
عدل قرآن کی کریم کی بنیادی اصطلاح ہے اوراہل ایمان کا بنیادی فریضہ ہے او رکسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔ اور عدل اسلامی معاشرے کی اجتماعی ذمہ ذاری ہے ۔ جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔ زیر نظر کتاب’’ عدل‘‘عرفان حس...
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جا بجا قیامت کے دن کی ہولناکیوں کا تذکرہ کیا ہے۔ تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا خوف دامن گیر ہو اور وہ دنیوی زندگی کو طاعت الٰہی میں گزارنے کی کوشش کریں۔ قیامت کے دن جب کچھ لوگ سورج کی دھوپ سے جھلس رہے ہوں گے اور اپنے پسینے میں ڈوب رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ کچھ خوش نصیبوں کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ایسے خوش نصیبوں کی سات قسمیں بیان ہوئی ہیں۔ زیر نظرکتاب میں محترم تفضیل احمد ضیغم نے نہایت واضح اور جامع اندازمیں ان لوگوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے اس کے علاوہ عرش کا سایہ پانے والے ان خوش نصیبوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جن کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث میں موجود نہیں ہے بلکہ دیگر احادیث میں ایسے لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس طرح ان لوگوں کی مجموعی طور پر دس قسمیں بنتی ہیں۔ مؤلف نے کتاب کے شروع میں اللہ تعالیٰ کے عرش کے حوالے سے نہایت قیمتی معلومات فراہم کی ہیں ۔ عرش کے حوالے سے متکلمین کی رائے کا تذکرہ کرتے ہوئے اس حوالے سے پائے جانے والے اشکالات کا بھی جواب دیا ہے۔کتاب کے آخر میں عرش عظیم کا سایہ پانے والے ان لوگوں کا تذکرہ موجود ہے...
سماجی ناہمواری آج کی ترقی یافتہ دنیا کا ایک بڑا اہم مسئلہ ہے ۔انسانی معاشرہ شدید انتشار اور بحران کا شاہکار ہے ۔ اخلاقی قدریں پامال ہورہی ہیں اورباہمی تعلقات خود غرضی اور مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ۔ حتیٰ کہ خاندان کا ادارہ بھی اس لپیٹ میں آگیا ہے ۔افراد خاندان جن کے درمیان عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ قریبی تعلقات ہونے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کےہم درد وغم گسار ہوناچاہیے وہ نہ صرف یہ کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بے پروا ہیں بلکہ ان پر ظلم ڈھانے اور ان کے حقوق غصب کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔جس کی وجہ سے انسانی معاشرہ حیوانی سماج کا منظر پیش کررہا ہے ۔یہی صورت عالمی سطح پر بھی ہے۔اس صورت حال میں اسلام انسانیت کے حقیقی ہم درد کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔ وہ سماج کے تمام افراد کے حقوق بیان کرتا ہے اور ان کی ادائیگی پر زور دیتا ہے خاص طور سے وہ افراد خاندان کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات پر پروان چڑھاتا ہے اور اسے مستحکم رکھنے کی تدبیر بتاتا ہے ۔ اسلام کی بتائی ہوئی تدابیرپر عمل کر کے پہلے بھی ایک پاکیزہ اور مثال...
تحریک اس جدوجہد کا نام ہے جو کسی نصب العین کے حصول کےلیے منظم طور پر کی جائے۔تاریخ اسلام عام اصطلاح کےمطابق کسی قوم کی تاریخ نہیں ہے بلکہ تحریک کی تاریخ ہے اور ایک نظریے کےعروج وزوال کی داستان ہے ۔اسلامی تاریخ ایک نظریاتی کشمکش کی تاریخ ہے ۔جب بھی اسلامی اصولوں پر عمل درآمد کے معاملے میں کمزوری کااظہار ہوا تو مسلمان حکمرانوں اور مصلحین نے فوراً تدراک کی کوشش کی ۔انیسویں صدی کے آخر او ر بیسوی صدی کےنصف اول تک سیاسی ضرورت کےتحت ہماری مسلم دنیا میں بے شمار تحریکیں اٹھیں۔ ان اسلامی تحریکوں نےاسلام کے اچھے یا برے امیج کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔بلکہ دو رجدید میں مسلمانوں کے لیے جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان میں سب اہم مسئلہ فکر اسلامی کی تشکیل او رجدید عالم اسلام اور اس سے وابستہ تحریکوں کا کردا رہے۔عصر حاضر کی کامیاب اسلامی تحریکیں، جیسے مصر کی اخوان المسلمون، پاکستان کی جماعتِ اسلامی یا الجیریا کی الجبہتہ الاسلامیہ الانقاذ، ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ ایک چھتری نما تحریک قائم کرنے میں کامیاب رہیں
زیر تبصرہ کتاب’’عصر حاضر کی اسلامی تحر...
عقد استصناع سے مراد یہ ہے کہ کسی سے آرڈر پر سامان تیار کروانا۔منجملہ مالی معاملات میں سے ایک اہم ترین صورت عقد استصناع کی ہے۔اس کے بارے میں اگرچہ نصوص میں بھی اشارات ملتے ہیں، لیکن فقہاء کے بیان کے مطابق اس کی اصل بنیاد عرف وعادت اور تعامل ہے۔یوں تو استصناع بھی عقد معاوضہ ہی کی ایک شکل ہے، لیکن اس عقد کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ سلم کی طرح یہ بھی بیع معدوم کی ممانعت سے مستثنی ہےاور مزید ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں عوضین کو ادھار رکھا جا سکتا ہے۔اس لئے معاملات میں اس عقد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، موجودہ دور میں اسلامی مالیاتی ادارے اس کو تمویل و استثمار کی ایک شکل کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب " عقد استصناع سے متعلق بعض مسائل " ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی کی شائع کردہ ہے، جس میں اسلامک فقہ اکیڈمی کےتیئسویں فقہی سیمینار مؤرخہ1 تا 3 مارچ 2014ء بمطابق 28 ربیع الثانی تا یکم جمادی الاول منعقدہ جامعہ علوم القرآن جمبوسر گجرات انڈیا میں عقداستصناع کے بارے میں پیش کئے گئے علمی، فقہی اور تحقیقی مقالات ومناقشات کے مجموعے کو جمع کر...
دور جدید کا انسان جن سیاسی ،معاشرتی اور معاشی مسائل سے دوچار ہے اس پر زمانے کا ہر نقش فریادی ہے۔آج انسان اس رہنمائی کا شدید حاجت مند ہے کہ اسے بتلایا جائے۔ اسلام زندگی کے ان مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا وہ نقطہ اعتدال کیا ہے؟جس کی بناء پر وہ سیاسی ،معاشی اور معاشرتی دائرے میں استحکام اور سکون واطمینان سے انسان کو بہرہ ور کرتا ہے ۔اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام اپنی مصنوعی اور غیر فطری بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔ایک مغرب کا سرمایہ داری نظام ہے ،جس پر آج کل انحطاط واضطراب کا رعشہ طاری ہے۔دوسرا مشرق کا اشتراکی نظام ہے، جو تمام کی مشترکہ ملکیت کا علمبردار ہے۔ایک مادہ پرستی میں جنون کی حد تک تمام انسانی اور اخلاقی قدروں کو پھلانگ چکا ہے تو دوسرا معاشرہ پرستی اور اجتماعی ملکیت کا دلدادہ ہے۔لیکن رحم دلی،انسان دوستی اور انسانی ہمدردی کی روح ان دونوں میں ہی مفقود ہے۔دونوں کا ہدف دنیوی مفاد اور مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔اس کے برعکس اسلام ایک متوسط اور منصفانہ معاشی نظریہ پیش کرتا ہے،وہ سب سے پہلے دلوں میں خدا پرستی،انسان دوستی ا...
اسلام دینِ فطرت ہے اس لیے اس میں معاشرہ کی بنیاد فطرتِ انسانی کی رعائیت کرتے ہوئے ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ کے اصول رکھی گئی ہے ۔اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو پیدا فرما کر ان کے دائرہ کار بھی متعین کر دئیے ہیں کہ مرد کی کون کون سی ذمہ داریاں ہیں اور عورت کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔مرد چونکہ عورتوں کی نسبت زیادہ طاقتور، حوصلہ مند اور فہم وفراست کا حامل ہوتا ہے ،اس لئے اللہ تعالی اسے قیادت وسیادت جیسی ذمہ داریوں سے سرفراز فرمایا ہے جبکہ عورت نازک ،کمزور اور ناقص العقل ہوتی ہے اسلئے اللہ تعالی نے اس کی سیادت وقیادت کو قبول نہیں فرمایا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ قوم ہر گز فلاح نہیں پا سکتی جو اپنی سربراہ عورت کو بنا لیتی ہے۔لیکن 16 نومبر 1988ء کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان اس جادثے سے دورچار ہوگیا کہ ایک ایسی جماعت کو حکومت بنانے کا موقع ملاجس کی قیادت نسوانی تھی ۔ چنانچہ اس نے ملک کی باگ ڈور بھی ایک 35 سالہ خاتون کےہاتھ میں دے دی اور اسے وزیر اعظم بنا دیا۔ اس حادثہ کے ظہور...
کتاب وسنت کے دلائل کی رو سے امور حکومت کی نظامت مرد کی ذمہ داری ہے اور حکومتی و معاشرتی ذمہ داریوں سے ایک مضبوط اعصاب کا مالک مرد ہی عہدہ برآں ہو سکتاہے۔کیونکہ عورتوں کی کچھ طبعی کمزوریاں ہیں اور شرعی حدود ہیں جن کی وجہ سے نا تو وہ مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہوسکتی ہیں اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہیں ،فطرتی عقلی کمزوری بھی عورت کی حکمرانی میں رکاوٹ ہے کہ امور سلطنت کے نظام کار کے لیے ایک عالی دماغ اور پختہ سوچ کا حامل حاکم ہونا لازم ہے ۔ان اسباب کے پیش نظر عورت کی حکمرانی قطعاً درست نہیں بلکہ حدیث نبوی ﷺ کی رو سے اگر کوئی عورت کسی ملک کی حکمران بن جائے تو یہ اسکی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔زیر نظر کتاب میں کتاب وسنت کے دلائل ،تعامل صحابہ اور محدثین وشارحین کے اقوال سے فاضل مولف نے یہ ثابت کیا ہے کہ عورت کا اصل مقام گھر کی چار دیواری ہے اور دلائل شرعیہ کی رو سے عورت کبھی حکمران نہیں بن سکتی ۔پھر معترضین کے اعتراضات اور حیلہ سازیوں کا بالتفصیل رد کیا...
اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو پیدا فرما کر ان کے دائرہ کار بھی متعین کر دئیے ہیں کہ مرد کی کون کون سی ذمہ داریاں ہیں اور عورت کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔مرد چونکہ عورتوں کی نسبت زیادہ طاقتور، حوصلہ مند اور فہم وفراست کا حامل ہوتا ہے، اس لئے اللہ تعالی اسے قیادت وسیادت جیسی ذمہ داریوں سے سرفراز فرمایا ہے جبکہ عورت نازک ،کمزور اور ناقص العقل ہوتی ہے اسلئے اللہ تعالی نے اس کی سیادت وقیادت کو قبول نہیں فرمایا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ وہ قوم ہر گز فلاح نہیں پا سکتی جو اپنی سربراہ عورت کو بنا لیتی ہے۔پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران جن محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم بنی تو اہل علم نے اس پر تنقید کی اور حق کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بھی عورت حکمران یا کسی ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " عورت کی سربراہی کا مسئلہ اور شبہات ومغالطات کا ایک جائزہ "پاکستان کے معروف عالم دین اور متعدد کتب کے مصنف سابق مدیر ہفت روزہ الاعتصام لاہور محترم حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے عورت کی سربراہی کے حوالے سے...
عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فوٹو گرافی یا عکسی تصاویر کا بھی ہے، جسے عربی زبان میں صورۃ شمسیہ کہا جاتا ہے، جو دور حاضر میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔آج کوئی بھی شخص جو فوٹو گرافی کو جائز سمجھتا ہو یا ناجائز سمجھتا ہو ،بہر حال اپنی معاشی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے باعث فوٹو بنوانے پر مجبور ہے۔اس مسئلہ میں اگر افراد کے اذہان ورجحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دو متضاد انتہاؤں پر پائی جاتی ہے۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی تصاویر ،عکسی تصاویر اور مجسموں کو سجاوٹ اور (مذہبی اور غیر مذہبی)جذباتی وابستگی کے ساتھ رکھنے اور آویزاں کرنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ان میں عام طور پر وہ لوگ شامل ہیں جن کا دین سے کوئی بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔جبکہ دوسری انتہاء پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں ،جو ہر قسم کی تصاویرخواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین اور کیمرے کے ذریعے سے،انہیں مطلقا حرام سمجھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کا فارم اور بعض دیگر امو...
جس طرح اسلام عقائد وایمانیات اورعبادات یعنی اللہ تعالیٰ اوراس کے بندوں کے درمیان تعلقات کا نظام پیش کرتاہے اسی طرح دنیاوی معاملات یعنی بندوں کے باہمی تعلقات کا نظام بھی عطا کرتا ہے ۔انسانی معاملات وتعلقات اگرچہ باہم مربوط متحد ہیں تاہم تفہیم وتسہیل کے لیے ان کو سیاسی،سماجی ،اقتصادی اورتہذیبی نظاموں کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ان میں سے ہر ایک نظام کے لیے اسلام نے تمام ضروری اور محکم اصول بیان کردیئے ہیں۔اسوۂ نبوی نے ان کی عملی فروعات بھی تشکیل دے دی ہیں او ر صحابہ کرام اور خلفاء عظام اور ان کے بعد اہل علم نے ان پرعمل کر کے بھی دکھایا ہے ۔زیر نظر کتاب ''عہد نبوی کا نظام حکومت''دراصل پر وفیسر یاسین مظہر صدیقی کی کتاب ''عہد نبوی میں تنظیم حکومت وریاست '' کا اختصار ہے اس میں اصل ضخیم کتاب کے تمام اہم نکات آگئے ہیں ۔کتاب کا آغاز عہد رسالت میں ریاست کے تدریجی ارتقاء سے ہوا ہے پھر فاضل مصنف آپﷺ کے دور ِمبارک کے شہری نظم ونسق،فوجی،نظام ، مالی اور مذہبی نظام جیسے موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کتا...
اسلام ایک کامل دین اورمکمل دستور حیات ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے، اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زوردیتاہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اصول وضع کرتاہے،اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے،اسلام کاجس طرح اپنانظامِ معیشت ہے اوراپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنانظامِ سیاست وحکومت ہے،اسلام کا نظامِ سیاست وحکم رانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے،لیکن اسلام میں سیاست شجرِ ممنوعہ نہیں ہے،یہ ایسا کامل ضابطہٴ حیات ہے جو نہ صرف انسان کو معیشت ومعاشرت کے اصول وآداب سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ زمین کے کسی حصہ میں اگراس کے پیرو کاروں کواقتدار حاصل ہو جائے تووہ انہیں شفاف حکم رانی کے گُربھی سکھاتاہے، عیسائیت کی طرح اسلام”کلیسا“ اور” ریاست“ کی تفریق کاکوئی تصورپیش نہیں کرتا۔
زیر تبصرہ کتاب ’’ عہدہ اور منصب کا اسلامی تصور‘‘ شیخ اسد اعظمی کی ہے۔ جس میں منصب و عہدہ کی اہ...
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا اور انسان کی راہنمائی کے لیے انبیاء کرام و رسولوں کی جماعت کو انسانیت کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ مگر اس کے باوجود بھی حضرت انسان ایک اندھے کی طرح کسی کا مقلد بن کر اپنی ثقافت، شرافت، معاشرہ اور اپنی ہی دینی تعلیمات و تربیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اگر دین سے ہٹ کر بھی اسے دیکھا جائے تو عقل سلیم رکھنے والا شخص اس کو ہرگز نہیں تسلیم کرے گا کہ ایک گھر میں خوشیوں کا محفل ہو اور ساتھ والے گھر میں رنج و الم کا ماتم، ہر ایسی رسم جو اپنے ساتھ بے شمار طوفان لاتی ہے، اس کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اپریل فول منانے والےفرسٹ اپریل کوجھوٹ کی آڑ لے کر اپنے دوسرے بھائیوں کو بیوقوف بنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ ایک سازش کے تحت مسلمان نو جوانوں کو اپنی تہذیب سے دور کیا جارہا ہے نیو ائیر نائٹ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول جیسی رسمیں اپنا کر ہم نہ صرف اپنا مالی نقصان کرتے ہیں بلکہ تہذیبی موت سے بھی دو چار ہو رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"اپریل فول" عبدالوارث ساجد کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے اپریل فو...
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی اور عبادت کے لیے پیدا کیا اور انسان کی راہنمائی کے لیے انبیاء کرام و رسولوں کی جماعت کو انسانیت کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا۔ مگر اس کے باوجود بھی حضرت انسان ایک اندھے کی طرح کسی کا مقلد بن کر اپنی ثقافت، شرافت، معاشرہ اور اپنی ہی دینی تعلیمات و تربیت کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اگر دین سے ہٹ کر بھی اسے دیکھا جائے تو عقل سلیم رکھنے والا شخص اس کو ہرگز نہیں تسلیم کرے گا کہ ایک گھر میں خوشیوں کا محفل ہو اور ساتھ والے گھر میں رنج و الم کا ماتم، ہر ایسی رسم جو اپنے ساتھ بے شمار طوفان لاتی ہے، اس کا اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اپریل فول منانے والےفرسٹ اپریل کوجھوٹ کی آڑ لے کر اپنے دوسرے بھائیوں کو بیوقوف بنا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ہمیں یہ بھی احساس نہیں کہ ایک سازش کے تحت مسلمان نو جوانوں کو اپنی تہذیب سے دور کیا جارہا ہے نیو ائیر نائٹ، ویلنٹائن ڈے، اپریل فول جیسی رسمیں اپنا کر ہم نہ صرف اپنا مالی نقصان کرتے ہیں بلکہ تہذیبی موت سے بھی دو چار ہو رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب"اپریل فول" عبدالوارث ساجد کی ایک تحقیقی تصنیف ہے۔ جس میں موصوف نے اپریل فو...
ہمارے درمیان ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو کبیرہ گناہوں سے غافل و لا پروا رہتے ہوئے گناہوں اور بدکاریوں کی شاہراہ پر اندھا دھند دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔ موت کا تصور اور قبر و حشر کے تمام تر معاملات ہمارے دماغوں سے محو ہو گئے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لیے ابن النحاس الدمشقی نے ’تنبیہ الغافلین‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ جس کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ حافظ فیض اللہ ناصر نے کیا ہے جو جامعہ لاہور الاسلامیہ کے فاضل اور علمی ذوق رکھنے والی شخصیت ہیں۔ اردو ترجمہ نہایت سلیس، رواں اور جاندار ہے، جس کی خاص بات یہ ہے کہ کسی بھی موقعہ پر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اصل کتاب عربی میں تھی۔ یہ کتاب کبیرہ و صغیرہ گناہوں پر ایک جامع کتاب ہے جس میں اس چیز کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ہم کتنے ہی گناہوں کو عام طور پر بہت ہلکا، معمولی اور غیر اہم جان کر ان کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں لیکن وہ گناہ حقیقت میں ’گناہ کبیرہ‘ ہوتے ہیں نہ کہ صغیرہ۔ کتاب میں کبیرہ و صغیرہ گناہوں کی نشاندی کر کے غافل لوگوں کو جھنجوڑا گیا ہے کہ اگر وہ باز نہ ےئے تو اللہ کی پکڑ بہت سخ...
ایک صحت مند دماغ اور جسم زندگی میں پیش آمدہ امور کو صحیح طور پر نبٹا سکتا ہے او رمایوسی و نفسیاتی بیماریاں انسان کو حالات سے لڑنے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ ایک مسلمان کا ایمان و بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے کہ وہ تمام اسباب کا مالک ہے او راس کی بے پایاں رحمت جہاں کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس نے اپنے بندوں کی مشکلات اور طبائع کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی پیچیدگیوں کا شریعت میں حل رکھا ہے او روہ احکام صادر فرمائے ہیں کہ جن پر عمل پیرا ہوکر او راپنا کر انسان بامقصد اور صاف ستھری زندگی گزار سکتا ہے۔زیرنظر کتابچہ جوکہ عربی کتاب ’’لا تحزن‘‘ کا ترجمہ ہے۔ مؤلف نے اس میں وہ تمام شرعی ہدایات کہ جن کومدنظر رکھتے ہو ے مایوسی اور پریشان کن کیفیت سےدور رہا جاسکتا ہے، ذکر کردیئے ہیں اور یہ ہدایات قرآن و حدیث کی نصوص سے مزین ہیں۔روحانی و قلبی قوت کےلئے کتاب لائق مطالعہ ہے۔(ک۔ط)
دنیا دارالامتحان ہے اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے ۔آزمائش سے کسی مومن کوبھی مفر نہیں۔ دنیا میں غم ومسرت اور رنج وراحت جوڑا جوڑا ہیں ان دونوں موقعوں پر انسان کو ضبط نفس اور اپنے آپ پر قابو پانے کی ضرورت ہے یعنی نفس پر اتنا قابو ہوکہ مسرت وخوشی کے نشہ میں اس میں فخر وغرور پیدا نہ ہو اور غم وتکلیف میں وہ اداس اور بدل نہ ہو۔ انسان کو اس جہاں میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کاسامنا کرنا پڑتاہے۔ قسم قسم کےہموم وغموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔اور یہ تمام مصائب وآلام بیماری اور تکالیف سب کچھ منجانب اللہ ہے اس پر ایمان ویقین رکھنا ایک مومن کے عقیدے کا حصہ ہے کیوں کہ اچھی اور بری تقدیر کا مالک ومختار صر ف اللہ کی ذات ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سےجنہیں چاہتا ہے انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ اطاعت پرمضبوط ہوکر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جوآزمائش انہیں پہنچی ہے ۔اس پر وہ صبر کریں تاکہ انہیں بغیر حساب اجروثواب دیا جائے...
دین اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔لیکن افسوس کہ اس وقت پاکستان میں موجود تمام بینک سودی کاروبار چلا رہے ہیں۔حتی کہ وہ بینک جو اپنے آپ کو اسلامی کہلاتے ہیں وہ بھی سود کی آلائشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے۔ زیر تبصرہ کتاب''غیر سودی بنک کاری "انڈیا کے معروف عالم دین ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات کے پروفیسرمحترم ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے غیر سودی بینکاری کا خاکہ پیش کیا ہے کہ اگر صدق دل سے سودی بینکاری کی جگہ غیر سودی بینکاری...
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اوردستور زندگی ہے۔اس کی اپنی تہذیب، اپنی ثقافت، اپنےرہنے سہنے کے طور طریقے اور اپنے تہوار ہیں ،جو دیگر مذاہب سے یکسر مختلف ہیں۔تہوار یاجشن کسی بھی قوم کی پہچان ہوتے ہیں،اور ان کے مخصوص افعال کسی قوم کو دوسری اقوام سے جدا کرتے ہیں۔جو چیز کسی قوم کی خاص علامت یا پہچان ہو ،اسلامی اصطلاح میں اسے شعیرہ کہا جاتا ہے،جس کی جمع شعائر ہے۔اسلام میں شعائر مقرر کرنے کا حق صرف اللہ تعالی کو ہے۔اسی لئے شعائر کو اللہ تعالی نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔لہذا مسلمانوں کے لئے صرف وہی تہوار منانا جائز ہے جو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں،ان کے علاوہ دیگر اقوام کے تہوار میں حصہ لینا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ غیر مسلم تہوار، اسلامی تہذیب کے سینے پر خنجر ‘‘ محترم تفضیل احمد ضیغم صاحب کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے کافر اقوام کے بے شمار تہواروں کو جمع کر کے مسلمانوں کو ان بچنے اور ان میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دی ہے،کیونکہ غیر اسلامی تہوار منانا مسلمانوں کے لئ...
اپنی حقیقت ،اپنی صورت، ہیئت اور وجود کو چھوڑ کر دوسری قوم کی حقیقت ، اس کی صورت اختیار کرنے اور اس کے وجود میں مدغم ہو جانے کا نام تشبہ ہے۔ شریعتِ مطہرہ مسلم وغیر مسلم کے درمیان ایک خاص قسم کا امتیاز چاہتی ہے کہ مسلم اپنی وضع قطع،رہن سہن اور چال ڈھال میں غیر مسلم پر غالب اوراس سے ممتاز ہو،اس امتیاز کے لیے ظاہری علامت داڑھی اور لباس وغیرہ مقرر کی گئی کہ لباس ظاہری اور خارجی علامت ہے۔اور خود انسانی جسم میں داڑھی اور ختنہ کو فارق قراردیا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے موقع بہ موقع اپنے اصحاب کو غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ تمام ادیان میں صرف دینِ اسلام کو ہی جامع، کامل و اکمل ہونے کا شرف حاصل ہے، دنیا کے کسی خطے میں رہنے والا، کوئی بھی انسان ہو ، کسی بھی زبان کا ہو، کسی بھی نسل کا ہو، اگر وہ اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے کے بارے میں راہنمائی لینا چاہتا ہو ،تواس کے لیے اسلام میں مکمل راہنمائی کا سامان موجود ہے،اگر کوئی انسان اسلام میں داخل ہو کر اسلام کی راہنمائی کے مطاب...
غیر ت آدمی کا اندرونی ڈر اور خوف ہے جو اس لیے رونما ہوتا ہےکہ وہ سمجھتا ہےکہ اس کے بالمقابل ایک مزاحم پید ہوا ہے عربی لغت کے مطابق غیرت خوداری اور بڑائی کا وہ جذبہ ہے جو غیر کی شرکت کو لمحہ بھر کے لیے برداشت نہیں کرتا ۔ غیرت کا تعلق فطرت سے ہے فطری طور پر تخلیق میں غیرت ودیعت کی گئی ہے غیرت سے محروم شخص پاکیزہ زندگی سے محروم ہے او رجس کے اندر پاکیزہ زندگی معدوم ہو تو پھر اس کی زندگی جانوروں کی زندگی سے بھی گئی گزری ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات کے سلسلہ میں غیرت مند او رمنفعل بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی مجبور ولاچار کیوں نہ ہو لیکن آخری دم تک اپنی عزت وآبرو کی حفاظت وصیانت میں جان کی بازی لگائے رکھتا ہے ۔جس قوم کے اندر غیرت وحمیت کا جذبہ موجود ہوگا اس کی نسل اور تعمیری زندگی گزار سکے گی اور وہی معاشرہ حسنِ اخلاق کا پیکر بن کر اعلیٰ اقدار کا مستحق بھی ہوگا۔حدیث کی رُو سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غیرت دو طرح کی ہے غیر ت مبغوض اور غیر محبوب۔محبوب غیر ت وہ ہے جو&nb...
اللہ تعالیٰ کے کچھ خوش نصیب بندے ایسے ہیں جو ایسے اعمال سرانجام دیتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور درود کا مطلب علمائے کرام نے انسان کے لیے فرشتوں کو دعا و استغفار کرنا بتلایا ہے۔ اور کچھ بدقسمت ایسے ہیں جو ایسے کاموں میں بدمست رہتے ہیں جو اللہ اور اس کے فرشتوں کی لعنت کا موجب بنتے ہیں۔ قرآن وسنت میں ایسے اعمال کی بالتفصیل بیان کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فضل الہٰی نے زیر تبصرہ کتاب میں قرآن وحدیث کی نصوص سے ایسے ہی خوش قسمت اور بدقسمت لوگوں کی فہرست مرتب کی ہے۔ مولانا نے احادیث شریفہ کو ان کے اصلی مراجع سے نقل کیا ہے۔ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے منقولہ احادیث سے متعلق علمائے امت کے اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ سے استدلال کرتے وقت مفسرین اور محدثین کی تفاسیر اور شروح سے مقدور بھر استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ ہمارا شمار کس فہرست میں ہوتا ہے۔ اور اگر اس سلسلہ میں کوئی کمی کوتاہی موجود ہے تو اس کو دور کرتے ہوئے اپنے آپ کو فرشتوں کے درود کے مستحق بنانے کی کوشش کریں۔ (ع۔...
اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں صحت اور فراغت بھی ہیں ان کا صحیح استعمال اور قدر دانی انسان کو عام انسانوں سےممتاز کرتی ، دنیا میں ترقی کے عروج سے نوازتی اور اُخروی کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے، مسلمان کی زندگی میں اصل تو یہ ہے کہ اس میں فراغت کا کوئی بیکار وقت ہوتا ہی نہیں کیونکہ مسلمان کا وقت اور اس کی عمر اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیم و تربیت نوجوانوں میں یہ شعور پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ اور ہر گھڑی کواللہ تعالیٰ کی امانت سمجھیں اور اسے خیر و بھلائی کے کاموں میں صرف کریں ، خود نبی اکرم ﷺ نے ہماری فرصت و فراغت کی ہر گھڑی سے استفادہ کرنے کی دعوت دی ہے؛ فرمایا’’ پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کے وجود کو غنیمت سمجھیں ۔‘‘ان پانچ چیزوں میں سےایک مشغولیت سے پہلے فراغت ہے۔ زیر نظر کتاب’’ فرصت کے لمحات ‘‘ تین ائمہ حرم فضیلۃ الشیخ سعود الشریم ، فضیلۃ الشیخ عبد الباری الثبيتي،فضیلۃ الشیخ صلاح البدیر حفظہم اللہ کے خطبات سےوقت کی قدر وقیمت سے متعلق&n...
عصر حاضر کے جدید مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ فوٹو گرافی یا عکسی تصاویر کا بھی ہے، جسے عربی زبان میں صورۃ شمسیہ کہا جاتا ہے، جو دور حاضر میں انسانی زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔آج کوئی بھی شخص جو فوٹو گرافی کو جائز سمجھتا ہو یا ناجائز سمجھتا ہو ،بہر حال اپنی معاشی ،معاشرتی اور سماجی تقاضوں کے باعث فوٹو بنوانے پر مجبور ہے۔اس مسئلہ میں اگر افراد کے اذہان ورجحانات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دو متضاد انتہاؤں پر پائی جاتی ہے۔کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہر قسم کی تصاویر ،عکسی تصاویر اور مجسموں کو سجاوٹ اور (مذہبی اور غیر مذہبی)جذباتی وابستگی کے ساتھ رکھنے اور آویزاں کرنے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔ان میں عام طور پر وہ لوگ شامل ہیں جن کا دین سے کوئی بھی تعلق برائے نام ہی ہے۔جبکہ دوسری انتہاء پر وہ لوگ پائے جاتے ہیں ،جو ہر قسم کی تصاویرخواہ وہ ہاتھ سے بنائی گئی ہوں یا مشین اور کیمرے کے ذریعے سے،انہیں مطلقا حرام سمجھتے ہیں ،مگر اس کے باوجود قومی شناختی کارڈ،پاسپورٹ ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کا فارم اور بعض دی...