انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے خدا تعالیٰ کی جانب سے قرآن مجید کا نزول ہوا۔ یہ صحیفہ خداوندی اپنے اندر تمام لوگوں کی اجتماعی و انفرادی مشکلات کا کامل حل سموئے ہوئے ہے۔ اس میں سعادت دارین کے انمول اصول بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد زبانوں میں سیکڑوں تفاسیر سامنے آچکی ہیں۔ جن میں تفاسیر بالماثور بھی شامل ہیں اور تفاسیر بالرائے بھی۔ قرآن کریم کی زیر نظر تفسیر ’تفسیر دعوۃ القرآن‘ تفسیر بالماثور پر مشتمل ہے اور تفاسیر کی دنیا میں ایک خوش کن اضافہ ہے۔ مفسر نے روز و شب کی محنت اور نہایت عرق ریزی کے ساتھ ایک ایسی تفسیر پیش کی ہے جس سے عوم و خواص یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تفسیر قرآن بالقرآن کو سامنے رکھا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں جو ایک جگہ اجمالاً بیان ہوئی ہیں جبکہ دوسری جگہ ان کی تفصیل موجود ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ کچھ احادیث قرآنی آیات کے خلاف ہیں۔ مولانا نے قرآن کی تفسیر و تبیین میں احادیث لاکر ثابت کیا ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جو قرآنی مفہوم کے مخالف ہو۔ مولانا موصوف نے تفسیر کرتے ہوئے ضعیف اور موضوع احادیث رقم کرنے سے گریز کیا ہے۔ اور صرف صحیح اور حسن احادیث سے استدلال کیا ہے۔ علاوہ ازیں تفسیر میں حسب موقع صحابہ کرام کے اقوال بھی نقل کیے گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن کریم کی تفہیم میں صحابہ کرام کے صحیح اور مستند اقوال ایک روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حضور نبی کریمﷺ کا اشاد گرامی بھی ہے کہ : چار آدمیوں سے قرآن سیکھو: عبداللہ بن مسعود، سالم مولیٰ حذیفہ، معاذ بن جبل اور ابی بن کعب سے۔ قرآن کی تفسیر میں عموماً رطب و یابس سے بھرپور اسرائیلی روایات کو بیان کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا لیکن مولانا نے ان تمام اسرائیلی روایات سے اجتناب کیا ہے جن کا جھوٹ ہونا کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ تفسیر میں موجود تمام احادیث و آثار کی مکمل تخریج و تحقیق کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صورتوں کی شان نزول کے ضمن میں صرف اور صرف مستند روایات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تفسیر کو نافع خلائق بنائے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ پاک طینت ہستیاں ہیں جنہوں نے دین اسلام کی نشر و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور دین اسلام کی شمع تاقیامت روشن رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا۔ زیر نظر کتاب ’اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ‘ میں انہیں بزرگ ہستیوں کی زندگی کے لمحات کو الفاظ جامہ پہنایا گیا ہےتاکہ اہل اسلام ان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے راہ عمل متعین کریں۔ اس کتاب میں ایسے ہزاروں صحابہ کرام کے حالات و واقعات بھی سامنے آگئے ہیں جن کے نام تک سے عموماً لوگ ناواقف ہیں۔ ان کے تقوی و للہیت، صبرو استقامت، انکسار و تواضع اور جانبازی و خوش اخلاقی دیکھ کر اندازہ ہے کہ واقعتاً یہ لوگ اس قابل تھے کہ خدا تعالیٰ ان کو بیشتر دفعہ ’ ؓ و رضوا عنہ‘ کا سرٹیفیکیٹ دیتا۔ ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے آج تک فوز و سعادت کے چراغ روشن ہیں۔ اس کتاب کے مصنف علامہ ابن اثیرعلی نب محمد الجزری ہیں جو ثقاہت و عدالت سے متصف اور حفظ و ضبط کے خصائص سے بہرہ مند ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں صحابہ کرام کے تذکرے حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیے ہیں۔ مولانا کی تالیف کردہ عربی کتاب آٹھ حصوں پر مشتمل تھی جس کے پہلے سات حصوں کا اردو ترجمہ انڈیا کے عالم دین مولانا عبدالشکور فاروقی نے کیا ہے جبکہ آٹھویں اور آخری حصے کا ترجمہ مختلف علما نے مل کر کیا ہے۔ یہ کتاب اصحاب رسولﷺ کے حالات و واقعات پر ایک اساسی تالیف ہے اور گویا ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو ابتدائی عمر میں تو دینی تعلیم حاصل نہیں سکے۔لیکن جب اللہ نے ان کے لیے ہدایت کا راستہ روشن کیا تو انہوں نے سخت محنت سے اپنا مقام بنایا۔ آپ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی میں گولڈ میڈلسٹ ہیں اور پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ کرکٹ کے جھمیلوں سے نکللنے کے بعد آپ دینی تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور مولانا عطاء اللہ حنیف کی شاگردی میں کتب احادیث اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کی۔ آپ اب تک متعدد کتب اور کتابچے لکھ چکے ہیں۔ مولانا نے تفسیر قرآن میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ’تفسیر فضل القرآن‘ کے نام سے قرآن کی تفسیر لکھی جو اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ مولانا نے اس میں تفسیر بالماثور کا اسلوب اختیار کیا ہےاور اسلاف کے نقطہ نظر کو سامنے رکھا ہے۔ جس جگہ پر آیات کی تفسیر آیات سے ہوسکتی تھی وہاں پر آیات ہی سے کی ہے پھر تشریح کے طور پر احادیث رسولﷺ سے استشہاد کیا ہے اور احادیث کو حوالوں سے مزین کیا ہے اگرچہ بہت سے مقامات ایسے بھی ہیں جہاں احادیث حوالوں سے خالی نظر آتی ہیں اور کچھ مقامات پر ضعیف احادیث بھی شامل ہو گئی ہیں۔ جا بجا اقوال صحابہ و ائمہ اور تاریخی واقعات بھی قلمبند کئے گئے ہیں۔ اس تفسیر کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ حل لغات کے عنوان سے ہر آیت کے مشکل الفاظ کے اصل معنی کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ جس سے آیت کا مدعا سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔
اس کائنات میں خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء انسانیت کے کامل نمونوں کی صورت میں موجود رہے ہیں۔جن کی زندگیاں محبت الہٰی میں گندھی ہوئی تھیں۔ دنیاوی جاہ و حشمت ان کے سامنے پرکاہ سے بڑھ کر نہیں تھی۔ اپنے رب کے حکم کی تعمیل ان کا مقصد زندگی تھا۔ پیش نظر کتاب میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نےانہیں عالی مقام کے حاملین کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انبیاء ہی کا کارنامہ ہے کہ معاشرہ میں خیر کی محبت اور شر سے نفرت کا جذبہ پیدا کر کے انہوں نے احسانات عظیم کیے۔ مصنف نے متعدد عناوین کے تحت انبیاء کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نبوت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے مزاج اور طریقہ فکر کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔تاکہ علمائے کرام، جو وارثین انبیاء کی صورت میں اصلاح معاشرہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ اس سلسلہ میں نبوی طریقہ کار سے حظ اٹھائیں۔ مولانا نے اخیر میں ختم نبوت کی ضرورت و اہمیت کو موضوع سخن بناتے ہوئے موجودہ معاشرے پر اس کے اثرات سے متعلق بھی نہایت قیمتی آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔
جب نبی مکرمﷺ کا دنیا میں بعثت ہوئی اس وقت انسانیت پستی کی آخری حدوں سے بھی آخرتک پہنچ چکی تھی۔ شرک و بدعات، مظالم و عدم مساوات ان کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا تھا۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے عقائد و اخلاق اس طور سے سنوارے کہ کل کے راہزن آج کے راہبر بن چکےتھے۔ نبی کریمﷺ کی تشکیل کردہ اسلامی تہذیب نے دنیا کے تمام معاشروں پر نہایت گہرے اثرات ثبت کئے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور جہاد، تقویٰ و للہیت ایک اجنبی تصور بن گئے تو امت کا انحطاط وزوال شروع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں ابوالحسن ندوی ؒ نے امت کے اسی عروج و زوال کو حکیمانہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اسلام سے پہلے کی معاشرت کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے اس کا محمدی معاشرے سے تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ علاوہ بریں اس عروج کی خوش کن داستان کے بعد دنیا کی امامت و قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے کیسے جاتی رہی، زمام اقتدار کس طرح مادہ پرست یورپ کے ہاتھ میں آئی۔ اور ایسے میں مسلمانوں کا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ان تمام خیالات کو مولانا احسن انداز میں الفاظ کا زیور پہنایا ہے۔
دین اسلام ایک فطری اور ہمہ گیر مذہب ہے جس نے انسانی زندگی سے متعلقہ کسی پہلو کو بھی رہنمائی سے تشنہ نہیں چھوڑا۔ خاندانی نظام کو بے رواہ روی سے بچانے کے لیے اسلام نے بہت اہم اقدامات کیے ہیں جو معاشرتی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔ اسلام کے بیان کردہ انہی اساسی نظریات کو سید سابق نے اپنی مشہور کتاب ’فقہ السنۃ‘ میں ایک باب کے طور پر نقل کیا جس کو انہوں نے ’نظام الاسرۃ‘ کا نام دیا۔ حافظ محمد اسلم شاہدروی نے اسی باب کو اردو قالب میں ڈھالا اور بعض مقامات پر توضیح و تشریح کر کے بھی مسئلہ کی وضاحت کی۔ اس میں منگنی، نکاح، طلاق، خلع، عدت اور پرورش وغیرہ جیسے احکام کے ضمن میں بیسیوں مسائل پر کتاب و سنت کی آرا سامنے آئی ہیں۔ کتاب کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے۔ کتاب علماے کرام ہی لائق مطالعہ نہیں بلکہ عامۃ المسلمین بھی اس سے استفادہ کر کے اسلام کے خاندانی نظام کو سمجھنے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ کتاب میں موجود احادیث و آثار کی تخریج کی گئی ہے لیکن بہت سی جگہوں پر ایسی احادیث بھی نظر آتی ہیں جو مکمل حوالہ جات سے خالی ہیں۔ بہرحال مجموعی طور پر افادہ عام کے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔
نواب صدیق حسن خاں صاحب کا شمار ان صاحب ثروت شخصیات میں سے ہوتا ہے جنہوں نے اپنی دولت کو دینی امور اور مصالح کے لیےاستعمال کیا۔ انہوں نے افادہ عام کے لیے بیسیوں کتابیں شائع کروائیں۔ ان کی زیر نظر کتاب جیسا کہ نام سے ظاہر ہے والدین اور اولاد کے حقوق پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حقوق کی تقسیم دو اعتبار سے کی ہے ایک اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں اور دوسرے اس کی مخلوق کے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان دونوں کی بجا آوری انتہائی ناگزیر ہے۔ خصوصاً حقوق العباد کے حوالے سے بندہ مسلم کو انتہائی محتاط رہنا چاہئے کیونکہ حقوق العباد کی معافی اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب صاحب حق خود معاف کر دے۔ مولانا نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ حقوق العباد میں سے والدین اور اولاد کے حقوق پر گفتگو فرمائی ہے۔ ان حقوق کی کامل ادائیگی سے ایک گھرانہ جنت نظیر کا منظر پیش کر سکتا ہے۔ لہٰذا ان حقوق کا مطالعہ کیجئے اور ان کی ادائیگی کو اپنا مطمح نظر بنائیے۔
زیر مطالعہ کتاب ’معرکہ ایمان و مادیت‘ میں سورۃ کہف کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ اس سورۃ کا اکثر حصہ قص پر مشتمل ہے۔ جس میں 1۔ اصحاب کہف کا قصہ 2۔ دو باغ والوں کا قصہ 3۔ حضرت موسیٰ و خضر ؑ کا قصہ اور 4۔ ذو القرنین کا قصہ شامل ہے۔ یہ قصے جو اپنے اسلوب بیان اور سیاق و سباق کے لحاظ سے جدا ہیں، مقصد اور روح کے لحاظ سےایک ہیں اور اس روح نے ان کو معنوی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور ایک لڑی میں منسلک کر دیا ہے۔ کہ ان میں ایمان و مادیت کے مابین کشمکش نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی جو ایک صاحب طرز قلم کار اور متعدد خوبیوں کے حامل شخص ہیں، انہوں نے سورہ کہف کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔ اس کے لیے انہوں نے تفسیر قرآن، حدیث، قدیم تاریخ اور حالات حاضرہ کی روشنی میں عبر و نصائح کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے۔
اسلام میں فتویٰ نویسی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بذات خود اسلام فتویٰ سے مراد پیش آمدہ مسائل اور مشکلات سےمتعلق دلائل کی روشنی میں شریعت کا وہ حکم ہے جو کسی سائل کےجواب میں کوئی عالم دین اور احکام شریعت کے اندر بصیرت رکھنے والا شخص بیان کرے فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کاسلسلہ رسول ﷺکےمبارک دور سے چلا آرہا ہے برصغیر پاک وہند میں قرآن کی تفاسیر شروح حدیث، حواشی وتراجم کےساتھ فتویٰ نویسی میں بھی علمائے اہل کی کاوشیں لائق تحسین ہیں تقریبا چالیس کے قریب علمائے حدیث کے فتاوی ٰ کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں زیر نظر فتاوی حصاریہ بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ الحمد للہ تقریبا 20 فتاوی ٰ جات کتا ب وسنت ویب سائٹ پر موجود ہیں۔مولاناعبدالقادر حصاروی اپنے علم اورتحقیق کے اعتبار سے اونچے مقام ومرتبے کے حامل عالم دین تھے انہوں نے مختلف دینی موضوعات پر بہت کچھ لکھا۔ ان کے مقالات وفتاویٰ بڑے مفصل اور تحقیقی ہوتے تھے اہل حدیث رسائل وجرائد مولانا حصاری کے فتاویٰ اور مقالات سےبھر ے پڑے ہیں بزرگ عالم دین مولانا محمد یوسف راجوالوی نے مولانا محمد ابراہیم خلیل﷾ سےمولانا حصاری کا فتاوی مرتب کروایا اور مولانا حصاروی کے نواسے پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف ظفر﷾ نے اسے طباعت سے آراستہ کیا ہے اللہ تعالی مولاناکے حصاری کےدرجات بلند فرمائے اور فتاوی کے مرتبین اور ناشرین کی کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین) (م۔ا)
شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی کتب کاجائزہ لیا جائے تو وہ ایک عالم باعمل اور عقیدہ اہل السنۃ پر کاربند نظر آتے ہیں۔ شیخؒ کی طرف بہت سی کرامات منسوب کی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کو ان کے عقیدت مندوں نے بلادلیل ان کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ شیخ صاحب مجموعی طور پر عقیدہ سلف کے حامل ہیں اگرچہ ان کے کچھ تفردات ہیں، جس کا معاملہ ہم اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ ’غنیۃ الطالبین‘ شیخ عبدالقادر جیلانی کی وہ شہرہ آفاق کتاب ہے جس میں انہوں نے متعدد فقہی مسائل پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کا اردو ترجمہ حافظ مبشر حسین لاہوری نے کیا ہے اور بعض فوائد کا بھی اضافہ کیا ہے۔ اس ایڈیشن کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں تمام قرآنی آیات اور احادیث و آثار وغیرہ کی تخریج بھی قلمبند کی گئی ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنے مخصوص انداز میں نماز، روزہ، حج، زکوۃ، اذکار و ادعیہ اور فضائل اعمال وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔
تعلیم وتربیت کاجو کام مدارسِ اسلامیہ نے سر انجام دیا ہے اس سے تاریخ پر نگاہ رکھنے والا ہرانسان واقف ہے ۔ان ہی مدارس نے امت کو وہ افراد فراہم کیے ہیں جنہوں نےمشکل سے مشکل ترین زمانہ میں بھی امت کی رہنمائی کا کام کیا ہے ۔ان ہی مدارس نے امت کومجددین ومصلحین بھی فراہم کیے اور علمائے کبار بھی بلکہ ان ہی مدارس سے بڑے بڑے مسلمان فلسفی، سائنس دان اور اطباء پیدا ہوئے ۔فکر اسلامی کے ماہرین اورمعتدل مزاج اور فکر رکھنے والے علماء بھی ان ہی مدارس کے فیض یافتہ نظر آتے ہیں۔اس سلسلہ کی بنیاد زمانۂ نبوت میں پڑی تھی اور دور نبوت سے ملے ہوئے اصولوں کی روشنی میں علم کا یہ سفر شروع ہوا اور نبی کریم ﷺ نے زبانِ نبو ت سے حاملین علم کے فضائل و مناقب اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان فرمایا ۔زیر کتاب’’طالبانِ نبو ت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں ‘‘ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے اس موضوع پر خطبات و تقاریر کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے علماء وطالبانِ علوم نبوت کے مقام ومرتبہ کو بیان کیاہے اور انہیں معاشرے میں ان کےکرنےکے کا م اور ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مولانا ندوی کی اشاعت دین حنیف کے سلسلے میں تمام مساعی کو قبول فرمائے او ر اس کتاب کے نفع کو عام فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
زیر مطالعہ کتاب’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘ خطہ ارضی پر واقع چھ ممالک افغانستان، ایران، لبنان، شام، عراق اور اردن کی تہذیب وثقافت اور حالات و کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مکہ مکرمہ میں ’رابطہ عالم اسلامی‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے اس ادارے نے ایک وفد ان مذکورہ ممالک میں بھیجا۔ اس وفد کی قیادت محترم مصنف ابوالحسن ندوی نے کی۔ اس پروگرام کا مقصد مسلمانوں کے حالات و کیفیات، ان کے علمی و تہذیبی ادارے، اور ان کی ضرورتوں سے واقفیت حاصل کرنا اور وہاں کے باشندوں کو اس ادارے کے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا۔ مولانا ابو الحسن ندوی نے اس دورے کی مکمل روداد سفر نامہ کے انداز میں قلمبند کر دی ہےجس سے ان ممالک کے حالات و حوادث کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ مصنف نے ان ممالک کی دینی، فکری، سیاسی واقتصادی صورتحال کی تصویر کشی کرتے ہوئے مکمل غیر جانبداری برتی ہے۔
امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں اللہ تعالی نے ایسے علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے جنہوں نے حالات کو سمجھا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے اور ان کو صحیح رخ پر لانے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں جو اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے ۔مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی شخصیت بھی ان ہی علمائے ربانیین او ر مجددین ومصلحین کے طلائی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کے ہر طبقہ کو راہنما خطوط دیئے ہیں اورپیش آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ مولانا ابو الحسن ندوی نے حالات کی روشنی میں علماء کےلیے ان کے کام کی نوعیت واضح فرمائی اور ان کی زندگی کا مقصد او ران کا مرکز عمل بتایا ہے او ردعوت الی اللہ اور اشاعت ِعلمِ دین کی طرف ان کو خاص طور پر متوجہ کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب اسی موضوع پر مولاناکے مختلف مضامین اورتقریروں کا چوتھا مجموعہ ہے جوعلماء کے مقام اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق ہے جس میں مولانا نے درج ذیل اہم موضوعات پر مفصل گفتگو کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ مولانا ندوی کی اشاعت دین حنیف کے سلسلے میں تمام مساعی کو قبول فرمائے او ر اس کتاب کے نفع کو عام فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
اصول فقہ سے مراد ایسے قواعد و ضوابط ہیں جن سے کتاب سنت سے احکام کشید کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ پیش نظر کتاب ’اصول فقہ پر ایک نظر‘ میں فاضل مؤلف محمد عاصم الحداد نے مختلف مکاتب فکر کے اختیار کردہ انہی اصولوں پر ناقدانہ نگاہ ڈالی ہے۔ اور کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کا صحیح فہم حاصل کرنے کے طریقوں کی وضاحت کی ہے۔ کتاب لکھتے ہوئے ان کے پیش نظر یہ مقصد یہ تھا کہ اصول فقہ کی صورت میں ہمارے پاس موجود موادکا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور اس کی افادیت اور عدم افادیت سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔ تاکہ امت مسلمہ چند مشہور ائمہ دین کے بیان کردہ اصولوں ہی پر تکیہ نہ کرے بلکہ ہر فرد کو فرمودات باری تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات عالیہ سے پوری طرح مستفید ہونے کا موقع میسر آ سکے۔
عبادات سے متعلق بیسیوں نہیں سیکڑوں کتب طباعت کے مراحل طے کر چکی ہیں جو افادہ عوام کا کام بہت کامیابی سے کر رہی ہیں۔ لیکن مولانا ابوالحسن ندوی نے زیر نظر کتاب ’ارکان اربعہ‘ میں جس ادبی پیرائے اور عصری اسلوب میں ارکان اسلام میں سے چار ارکان نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی وضاحت کی ہے اور جس طرح ان کے مقاصد و اسرار کی جھلک دکھائی ہے یہ صرف انہی کا خاصہ ہے۔ محترم مصنف نے سب سے پہلے قرآن و حدیث کو سامنے رکھا، ان اراکین اربعہ کی حقیقت اور مقاصد و طریقہ کار کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مطالعہ کیا پھر اس سلسلہ میں اَئمہ کرام کی کی گئی تشریحات کو سامنے رکھا پھر خدا تعالیٰ نے آپ پر ان ارکان کی حقیقتوں اور حکمتوں کے جو پہلو آشکار کئے ان کو قرطاس پر منتقل کرتے چلے گئے۔ اس کتاب میں وہ لوگ بھی کشش محسوس کریں گے جو متقدمین کے اسلوب کو قدیم خیال کرتے ہوئے ان کی فیوض و برکات سے محروم چلے آرہے ہیں۔ کتاب کی تیار ی میں شاہ ولی اللہ کی مشہور زمانہ کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ سے بھی کافی حد تک مدد لی گئی ہے۔ مصنف نے کتاب میں کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی علمی وتجدیدی مساعی ہماری تاریخ کاایک روشن باب ہیں ۔علامہ نے ہرموضوع پرقلم اٹھایاہے اورکتاب وسنت کی روشنی میں امت کی راہنمائی کافریضہ سرانجام دیاہے ۔زیرنظرکتاب ’عقلیات ابن تیمیہ ‘علامہ کے فلسفہ ومنطق سے متعلق تبصرہ وتجزیہ پرمشتمل ہے۔مولانامحمدحنیف ندوی نے بڑے سلیقہ اورہنرمندی سے فلسفہ ومنطق کے حوالے سے علامہ کے مختلف اقتباسات کوجمع کیاہے اورانتہائی ادبی پیرائے میں علامہ کی نگارشات کواردوزبان میں ڈھالاہے۔ہم بصدمسرت یہ علمی سوغات قارئین کی نذرکررہے ہیں ،اس یادہانی کے ساتھ کہ اس کتاب کے بعض مندرجات محل نظرہیں۔
بند ہ مومن خطاکار تو ہے ہی ،لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق بہترین خطا کار وہ ہوتا ہے جو اپنی خطاؤں کو اللہ تعالیٰ سے معاف کروانے کے لیے ہر دم فکر مند رہتاہے اور اس کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرتا ہے تاکہ اس کے گناہ مٹ جائیں او راللہ اس پر راضی ہوجائے ۔مومن جب اپنی خطاؤں کی طرف دیکھتا ہے او ردوسری طرف اسے اللہ کے عذاب کا ڈر بھی ہوتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے او ر ان نیک اعمال کو بجا لاتا ہے جو اس کے گناہوں کاکفارہ بن جاتے ہیں ،کیونکہ نیک اعمال ہی وہ چیز ہیں جنہیں اخلاص ومحبت کے ساتھ سرانجام دیا جائے تواللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطا کار انسان کی خطاؤں کو معاف فرمادیتا ہے فرمان الٰہی ہے ( ان الحسنات یذهبن السیات) (هود:114)زيرنظر کتاب ’’بخشش کی راہیں ‘‘ اسی موضو ع کے متعلق آیات واحادیث کا گراں قدر مجموعہ ہے، جس میں مسلم معاشرہ میں سرزد ہونے والے گناہوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ توبہ او راعمال صالحہ کے ذریعے انہیں معاف کروانے کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے پچاس کے قریب ایسے اعمال ذکر کئے ہیں جو کتاب وسنت کی روشنی میں گناہوں کاکفارہ بن سکتے ہیں۔ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ یہ قرآن وسنت کے دلائل سے مزین ہے اوراپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے ۔ عوام وخواص کے لیے یکساں مفید ہے۔ اسے ہر دردمند مسلمان کے پاس ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کوشش کو دنیا میں شرف قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے سرمایہ آخرت بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
جادوکا موضوع ان اہم موضوعات میں سے ہے جن کا بحث وتحقیق اور تصنیف وتالیف کے ذریعے تعاقب کرنا علماء کےلیے ضروری ہے کیونکہ جادو عملی طور پر ہمارے معاشروں میں بھر پور انداز سے موجود ہے اور جادوگرچند روپوں کے بدلے دن رات فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں جنہیں وہ کمزور ایمان والے اور ان کینہ پرور لوگوں سے وصو ل کرتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائیوں سے بغض رکھتے ہیں او رانہیں جادو کے عذاب میں مبتلا دیکھ کر خوشی محسوس کرتےہیں لہذا علماء کے لیے ضروری ہے کہ جادو کے خطرے او راس کے نقصانات کے متعلق لوگوں کوخبر دارکریں اور جادو کا شرعی طریقے سے علاج کریں تاکہ لوگ اس کے توڑ اور علاج کے لیے نام نہادجادوگروں عاملوں کی طرف رخ نہ کریں۔ زیرنظر کتاب مشہور عالمِ دین اور جادو وغیرہ کے شرعی علاج کے ماہر شیخ وحید عبدالسلام بالی﷾ کے کی عربی تصنیف الصارم البتار فى التصدى للسحرة الأشرار كاترجمہ ہے جس میں انہوں نے جادو کی حقیقت،کتاب وسنت میں جادوگری کا حکم ، جادوکی مختلف صورتیں او رجادوگروں کے مختلف طریقے ہائےواردات ،جادو کاشرعی علاج او راس سے بچاؤ کے طریقے، نظربد کی حقیقت اوراس کا علاج وغیرہ جیسے اہم موضوعا ت سیر حاصل بحث کی ہے ۔ کتاب کے ترجمےکا کام ’’ زاد الخطیب‘‘ کے مؤلف ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد ﷾ نے سر انجام دیا ہے۔ حافظ صاحب اس کتاب کے علاوہ متعدد کتب کے مترجم ومؤلف بھی ہیں۔ سب سے پہلے اس کتاب کا اردوترجمہ شائع کرنے کااعزاز ادارہ محدث ،لاہور کو حاصل ہوا ۔کتاب کی افادیت کےپیش نظر اب تک اس کتاب کے پاک وہند او رسعودی عرب میں کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں ۔ جس کو بہت زیادہ قبول عام حاصل ہوا۔ الحمد للہ بے شمارلوگ اس سے مستفید ہوچکے ہیں اور اس کتاب کوپڑھ انہوں نے خود اپنا علاج کیا او ر وہ شفا یاب ہوئے ۔ زیر تبصرہ ایڈیشن مکتبہ اسلامیہ ،لاہور کا شائع شدہ ہے جس کا شمار پاکستان میں منہج سلف پر معیاری کتب شائع کرنے والے صف اول کے ناشرین میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اشاعت دین کے سلسلے میں مصنف ومترجم او ر ناشرین کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور عوام الناس کواس کتاب سے مزید راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
تمام انبیاء کرام ؑ ایک ہی پیغام اور دعوت لےکر آئےکہ لوگو! صرف ایک اللہ کی عبادت کرو او راس کےسوا تمام معبودوں سےبچو۔ انبیاء کرام سالہاسال تک مسلسل اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے ۔انھوں نے اس پیغام کو پہنچانےکےلیے اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ جسکا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتاہے۔ حضرت نوح نے ساڑھے نوسوسال کلمہ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی لا اله الا الله کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا۔زیرنظر كتاب ’’مفتاح الجنۃ‘‘ بھی اس موضوع پر شیخ محمد حسین ظاہر ی کے خطبات کا مجموعہ ہے۔ اس میں موصوف نے انتہائی عمدہ انداز میں کتاب وسنت کے دلائل کی روشنی میں لا اله الا الله کا معنی ومفہوم،حقیقت ،شرائط کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔ اللہ تمام مسلمانوں کو صحیح معنوں میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا معنی ومفہوم جاننے او راس کے مطابق عقیدہ وعمل صالح اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
سرزمین سیالکوٹ نے بہت سی عظیم علمی شخصیات کو جنم دیا ہے جن میں مولانا ابراہیم سیالکوٹی ،علامہ محمد اقبال، علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست ہیں مولانا ابراہیم میر 1874ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ سیالکوٹ مرے کالج میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہم جماعت رہے ۔مولاناکا گھرانہ دینی تھا ۔لہذا والدین کی خواہش پر کالج کوخیر آباد کہہ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوگے ۔اور شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے حضور زانوے تلمذ طے کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی سید صاحب کے آخری دور کےشاگرد ہیں اور انہیں ایک ماہ میں قرآن مجید کو حفظ کرنےکااعزاز حاصل ہے ۔مولانا سیالکوٹی نے جنوری1956ء میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے پڑہائی اللہ ان کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے ۔(آمین ) مولانا مرحوم نے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف، دعوت ومناظرہ، وعظ وتذکیر غرض ہر محاذ پر کام کیا۔ ردّقادیانیت میں مولانا نےنمایاں کردار اداکیا مرزائیوں سے بیسیوں مناظرے ومباحثے کیے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست وبازوبنے رہے۔ مرزائیت کے خلا ف انھوں نے17 کتابیں تصنیف فرمائیں۔ شہادۃ القرآن قادیانیت کے رد میں ان کی ایک اہم ترین کتاب ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں حیاۃ عیسی علیہ لسلام پر بحث کی گئی ہے اور قر آن مجیدکی روشنی میں مرزائیوں کے دلائل واعتراضات کا مکمل رد کیا گیا ہے اس کتاب کی افادیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس کتا ب کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبو ت کے مرکزی دفتر ،ملتان نے بارہا شائع کیااور بعض مدارس نے اس کو شامل بھی نصاب کیا ہے۔(م۔ا)
انسانیت کے لیے سب سے قیمتی چیز توحید ہے۔توحید وہ گوہر نایاب ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے تمام انبیا کو مبعوث کیا ہے، اور یہ اللہ کا بندوں پر پہلا حق ہے۔ جس کے بغیر انسان کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے۔ زیر نظر کتاب میں مولانا گوہر رحمان نے توحید کے موضوع پر بہترین انداز میں قلم کاری کی ہے ، اور عقلی طرز استدلال کے ذریعے توحید کے موضوع کو واضح کیا ہے ۔ غیر مسلم فلاسفہ اور مفکرین کے اقوال کو استعمال میں لاتے ہو ئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ توحید انسانی فطرت ہے اور انسانوں کی اکثریت کا عقیدہ ہے۔ غیر اسلامی دنیا میں دعوت توحید کی ذمہ داری ادا کرنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک بے نظیر کتاب ہے۔(م۔ا)
جس طرح مفسرین کرام نے ’احکام القرآن‘ کے نام سے احکام سے متعلقہ قرآنی آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تفاسیر مرتب کی ہیں اسی طرح محدثین عظام نے بھی ایسی احادیث کے مجموعے مرتب کیے ہیں جو صرف احکام پر مشتمل ہوں۔ ان مجموعات میں سے علامہ ابن حجر ؒ کی ’بلوغ المرام‘ اور علامہ عبد الغنی مقدسی کی کتاب’ عمدہ الاحکام‘ اورامام عبد السلام بن ابن تیمیہ کی کتاب ’المنتقی فی اخبار المصطفی‘ بہت معروف ہوئیںیہاں تک کہ یہ تینوں کتابیں مدارس اسلامیہ میں درسی کتب میں شمارہونے لگیں۔ ان تین کتابوں کے علاوہ احادیث احکام میں جو کتاب معروف ہوئی وہ امام ابن دقیق العید(متوفی ۶۱۲ھ) کی کتاب ’الالمام باحادیث الاحکام‘ ہے۔ اس کتاب میں امام صاحب نے عبادات سے لے کر حدود وتعزیرات تک کے احکام سے متعلقہ احادیث جمع کر دی ہیں۔ اس کتاب کی کئی ایک عربی شروحات بھی لکھی گئی ہیں۔ مولانا محمود احمد غضنفر صاحب نے اس کتاب کی اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ و تشریح کی ہیں۔کتاب کا اسلوب یہ ہے کہ سب سے پہلے حدیث کی عربی عبارت اور سامنے ہی اس کا ترجمہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس حدیث کی تحقیق وتخریج کے عنوان سے اس کے مصادر اور اس کی صحت وضعف کی بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد فوائد کے عنوان سے حدیث سے اخذ شدہ مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب اور بیان کے اعتبار سے مستند احادیث احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے ایک بہت ہی مفید کتاب ہے۔ مصنف کے صحیح حدیث کے التزام کی وجہ سے بعض اہل علم نے یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اس کتاب میں موجود ہر حدیث مستند ہے اور اسے بطور دلیل پیش کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو احادیث کا فہم حاصل کرنے اور ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!
امام ابن حزم کی شخصیت علمی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ یہ امام ابن حزم کی کردارسازی کے موضوع پر لکھی کتاب الاخلاق والسیر کا اردو ترجمہ ہے۔اس میں انہوں نے اخلاق اور معاشرتی روایات کا تجزیہ کیاہے۔ انہوں نے اس کتاب کی بنیاد کتاب و سنت کے راہنما اصولوں کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی تجربات ومشاہدات اورافکار وخیالات پر رکھی ہے ۔ اور زیادہ تر اپنے ذاتی تجرباتِ زندگی اور پند ونصائح کو ذکر کرتے ہوئے عنوانات قائم کئے ہیں۔اس کتاب کے معروف عنوانات تزکیۂ نفس، عقل مندی ،راحت وسکون،علم وعرفان،اخلاق وکردار، دوستی وخیر خواہی ، محبت ، عادات وخصال ، بری عادتیں اوران کا علاج،مدح پسندی کی خواہش،انسان کی عجیب وغریب عادتیں،اور علمی محفلیں وغیرہ ہیں۔اصل کتاب عربی میں ہے ،اورعربی سے اردو ترجمے کا کام مولانامحمد یوسف ﷾آف راجووال کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف نےسرانجام دیا ہے۔ اس کو شائع کرنےمیں حافظ عبد اللہ حسین روپڑی آف کراچی اور عارف جاوید محمدی﷾ نےنمایاں کردار اداکیاہے۔اللہ ان سب کی محنتوں کو قبول فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
آج ہر شخص پریشان نظر آتاہے،اورکسی کو بھی حقیقی سکون میسر نہیں ہے۔ اس پریشان حالی اور غیر مطمئن حالت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل حل کرنےکےلیے دین حنیف سے رہنمائی نہیں لیتے۔ بلکہ ان مادہ پرست لوگوں کے پاس جاتےہیں جو اسلام کے دشمن اور مسلمانوں کے قاتل ہیں۔اسلام وہ عظیم دستور زندگی ہے جس نے فرد اورمعاشرے کی اصلاح،فلاح بہبوداورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقررکردیے ہیں، جن پر عمل کر کے ہرانسان اپنےمعاملات کو بطریق احسن حل کرسکتا ہے۔مولانا عبد الروف رحمانی جھنڈانگری برصغیر کے معروف عالم دین اوربلند پایہ واعظ تھے ۔ آپ کو خطیب الہنداور خطیب الاسلام کے پر فخر القابات سے نوازا گیا تھا۔ آپ نے تصنیف وتالیف کے میدان میں بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔آپ نےمتعددعلمی واصلاحی موضوعات پر لکھا ہے اورتقریباپچاس سے زیادہ کتب کے مؤلف بھی ہیں۔زیرتبصرہ کتاب ’’ حقوق ومعالات ‘‘ مولانا موصوف کی ہی ایک اہم کتاب ہے ، جس میں انہوں قرآن واحادیث ، وتاریخ اسلام، سیر وسوانح کی کتابوں سے حقوق ومعاملات کے موضوع پر ان نصوص وواقعات کو یکجاکردیا ہے جس سے ہماری زندگی میں روز مرہ کا واسطہ پڑ تا ہے ۔اللہ ان کی اس کاوش کو قبول ومنظور فرمائے۔آمین(م۔ا)