بنی اسرائیل کی تباہی کاسب سے بڑا سبب اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑنا ،احکام شریعت کامذاق اڑانا ، مختلف تاویلوں سے حرام کو حلال ،اور حلال کو حرام قرار دینا تھا۔جس کے سبب اللہ تعالی نےان پر پے درپے متعدد عذاب نازل کیے۔حرام چیزوں کابیان علمِ دین کا ایک اہم ترین جز ہے، اورجب تک آدمی حرام چیزوں سے نہ بچے ،نہ اس کا اسلام معتبر ہے او رنہ ہی عبادت قبول ہوتی ہے ۔ اسی لیے حرام چیزوں کو بیان کرنے کے لیے علماء کرام نے متعدد کتب تالیف کی ہیں زیر نظر کتاب ’’محرمات استهان بها الناس يجب الحذر منها‘‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جسے عالم اسلام کے مشہور عالمِ دین فضیلۃ الشیخ محمد صالح المنجد نےترتیب دیا ہے۔ اس میں مصنف نے شریعت اسلامیہ کے دلائل کے ساتھ حرام چیزوں کوبیان کر کے ان کی قباحتوں کا بیان بھی کیاہے۔ پاکستان کے مشہور ومعروف خطیب علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری ﷾(فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے ترجمہ کرکے اسےاپنے ادارہ جامعہ البدر ،ساہیوا ل سے شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے امت کی راہنمائی کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
دنیا کے اس چند روزہ دار امتحان کو اللہ تعالیٰ نے آخرت کے تیاری او ر نیکیاں کمانے کی مہلت قرار دیا ہے۔ اللہ کا یہ بے پایاں انعام واحسان ہے کہ اس نے انسان کو نیکی کی طرف راغب کرنےکے لیے چھوٹے چھوٹے اعمال کے بدلے عظیم نیکیاں او راجروثواب کا وعد ہ کیا ہے ۔انسان کی یہ فطرت بھی ہے کہ وہ اعمال نامے میں اضافہ کے لیے ان ترغیبات پر انحصار کرتاہے ۔جن میں اکثر مستند باتوں کی بجائے بزرگوں کے اقوال اور ضعیف احادیث کا سہار ا لیا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کے مستند فرامین میں ایسے اعمال کاتذکرہ ملتاہے جو انسان کو جنت میں لے جانے کا حقیقی سبب بن سکتے ہیں۔زیرتبصرہ کتاب ایک عرب عالم دین نایف بن ممدوح بن عبد العزیز آل سعود کی عربی کتا ب فرص کسب الثواب کا اردو ترجمہ ہے جس میں فاضل مصنف نے بڑے احسن انداز میں کتاب اللہ اورصحیح احادیث کی روشنی میں ایسے اعمال و اسباب کو جمع کردیا ہے ،جن پر عمل کر کے انسان جنت کا حق دار بن سکتاہے ۔کتاب کے ترجمےکا کام ’’ زاد الخطیب‘‘ کے مؤلف ڈاکٹر حافظ محمد اسحاق زاہد ﷾ نے سر انجام دیا ہے ۔ حافظ صاحب اس کتاب کے علاوہ متعدد کتب کے مترجم ومؤلف بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اشاعت دین کے سلسلے میں ان کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور امت مسلمہ کواس کتاب کے ذریعے اجروثواب کمانےکے تمام راستوں ، دروازوں اور مواقع سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)(م۔ا)
اس پر فتن دور میں مبارک باد کے لائق ہیں وہ والدین جو اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں ۔اور سعادت مند ہیں وہ بچے جو علم دین سےآراستہ ہو رہے ہیں، اور لائق تحسین ہیں وہ قابل فخر اساتذہ کرام جو خدمت قرآن میں مصروف ہیں۔کسی بھی دینی ادارے کی خیر وخوبی انتظام و انصرام کا انحصار اس بات پہ ہوتا ہے کہ وہاں حصول علم کےلیے آنے والے طلباء اور تعلیم دینے والے اساتذہ کرام کا باہمی تعلق آپس میں محبت یگانگت اور پڑہائی کے مسلمہ اصول وقواعد کے مطابق ہو۔یہ اصول وقواعد کیا ہوں طالب علم حصول علم کے لیے کن امور کو پیش نظر رکھیں ۔اساتذہ کن اصول وقواعد کو اختیار کریں۔ پڑہانے کا طریقہ کار کیا ہو؟ مدرسے میں رہن سہن کا طریقہ کیا ہو؟زیر تبصرہ کتاب میں انہی مذکورہ امورکو مد نظررکھتے ہوئے استاد القراء مصنف کتب کثیرہ قاری محمد ادریس العاصم ﷾ نے اپنے تدریسی تجربہ و مشاہدات اور اپنے قابل صد احترام اساتذہ عظام کے ارشادات اور ان کی کتب سےاخذ شدہ تعلیم وتعلم کے رہنما اصول وقواعد کو جمع کردیا ہے۔اورکتاب میں صرف ان امور کو زیر بحث لائے ہیں جو ایک طالب علم اور استادکے لیے نہایت ضروری ہیں۔ نیز طلباء اور اساتذہ کے لیے قابل مطالعہ کتب کے نام بھی ذکر کر دیے ہیں تاکہ طلباء اوراساتذہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا ہو۔ اپنے موضوع پریہ ایک منفرد اور مفید کتاب ہے جس میں مذکور اصول وضوابط کو اختیا ر کر کے ایک طالب علم مثالی طالب علم اور ایک استاد اچھا کامیاب استاد بن سکتاہے ۔اللہ ان کے علم و عمل میں برکت فرمائے۔ (آمین )(م۔ا)
شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے ۔قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے۔ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ تعالی انسان کے تمام گناہوں کو معاف کردیں گے لیکن شرک جیسے عظیم گناہ کو معاف نہیں کریں گے ۔شرک انسانی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہےاور انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آنا شروع ہو جاتی ہے ۔پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو شرک کے مفہوم کونہیں سمجھتے،اورشرک کرنے کےباوجود کہتے ہیں کہ وہ شرک نہیں کر رہے ۔ ان کے نزدیک شرک صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جیساکوئی اور رب بنالیا جائے او راس کی عبادت کی جائے ۔اصل میں وہ شرک کی حقیقت سےناواقف ہیں اسی لیے تو وہ کہتے ہیں انہوں نے کونسا کو ئی اور رب بنایا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب اسی موضوع پر ایک اہم کتاب ہے جس میں فاضل مصنف نے قرآن وسنت کی روشنی میں شرک کی حقیقت اور اس کے نقصانات پر آسان فہم تفصیلی بحث کی ہے او رشرک کے تمام پہلوؤں پر تفصیل روشنی ڈالی ہے۔ کتاب دوحصوں میں مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں شرک کی حقیقت اور دوسرے میں شرک کے نقصانات سے آگاہ کیا گیا ہے، اور بتایا گیاہےکہ جن کو اللہ کے سو ا ما فوق الاسباب پکار ا جاتاہے، وہ نہ تو سفارش کرسکیں گے اورنہ ہی کسی کی فریاد سن سکیں گے ۔ یہ کتاب شرک کےموضوع پر ایک لاجواب تحفہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہوہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والوں کے مشرکانہ عقائد کی اصلاح کر کے انہیں موحد بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
آج سے نصف صدی قبل حضرت مولانا نذیر احمدرحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک استفتاء آیا کہ '' کیا عشاء کی نماز،تراویح پڑھانے والے امام کی اقتداء میں ادا کی جاسکتی ہے؟اور کیا مقتدی کی نیت میں توافق ضروری ہے یا نہیں؟'' مولانا نے کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا کافی وشافی جواب پیش کر دیا-جس پر حنفی مسلک کے معروف عالم دین مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے تعاقب کرتے ہوئے اپنے نقطہء نظر کی وضاحت کی-مولانا رحمانی نے اس کا جواب الجواب کافی تفصیل سے دیا-جس میں تمام سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سیر حاصل بحث کی-مولانا رحمانی کا یہ جواب اور اس کا جواب الجواب مرتب انداز میں اس کتاب میں پیش کر دیا گیا ہے-کتاب کے شروع میں مولانا نذیر احمد رحمانی ؒ تعالی کے حالات زندگی کو بھی قلمبند دیا گیا ہے-مولانا طارق محمود ثاقب صاحب نے تمام حوالہ جات کی از سر نو مراجعت کی ہے اور احادیث کی صحت وسقم کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے-یقیناً اس کتاب سے عامۃ الناس کی تشفی ہوگی اور اس مسئلہ میں کتاب وسنت سے موافقت رکھنے والا مؤقف نکھر کر سامنے آجائے گا-
اللہ تعالی نے نسل انسانی کی بقاء اور اسلامی معاشرے کے تحفظ کے لیے انسانوں میں دو جذبے رکھے ہیں۔ جوفطری طور پر ہر انسان میں موجود ہوتےہیں حیاء اور غیرت،یہ دونوں جذبے ایسے ہیں کہ اگر کوئی انسان یا معاشرہ ان سے عاری ہوجائے تووہ بہت جلد حرف غلط کی طرح مٹ جاتاہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق حیا ایمان کاحصہ ہے ، اللہ نے مرد اور عورت کونظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا ہے، اور عور ت کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے، تاکہ مسلمان مرد اور مسلمان عورت دونوں پاک دامنی کی زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن آج مغرب نے مسلم معاشرے کوحیا وغیرت سے عاری کرنےکے لیے متعدد ذرائع اختیار کئے ہوئے ہیں،اور ان میں سے جو بڑا ہتھیار استعمال کیا ہے وہ ٹی وی، وی سی آر اور ویڈیو فلمیں ہیں۔ مغرب نے ہماری نسل کو ان فلموں کا اس قدر دلدادہ بنا دیا کہ وہ اس برائی کو برائی سمجھنے سے ہی انکاری ہیں ۔ ویڈیو فلمیں ہمارے معاشرے کو کس طرح کھوکھلا کرتی چلی جارہی ہیں اور اس سے ہماری نسل نو کا اخلاقی بگاڑ کس حد تک بڑھ چکا ہے اس کا اندازہ آپ کواس زیرتبصرہ کتابچہ سے ہوجائےگا ۔یہ کتابچہ ایک عربی رسالے شریط الفیدیو الذی حطم حیاتی کا اردو ترجمہ ہے، جو ایک دوشیزہ کی زندگی کے حقیقی واقعہ مشتمل ہے،جس کی زندگی ایک ویڈیو فلم دیکھنے سے تباہ وبرباد ہو گئی اور اس نے اپنے خاندان کی عزت وقار کو مٹی میں ملا دیا ۔ اللہ تعالی ہماری عفت وعصمت کی حفاظت فرمائے اور ہمارے گھروں کوبے حیائی سے بچائے ۔ (آمین ) (م۔ا)
کرسمس دو الفاظ کرائسٹ او ر ماس کا مرکب ہے کرائسٹ مسیح کو کہتے ہیں اور ماس کا مطلب اجتماع، اکٹھا ہونا ہے یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا گویا کرسمس سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ولادت منانا ہے ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہےاور عالم عیسائیت میں بڑے بڑے مسیحی فرقے اس دن کو کرسمس کے نام سے ایک مقدس مذہبی تہوارکے طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اس میں مختلف بدعات و خرافات کی جاتی ہیں ایک مسلمان کا کسی مسیحی کو اس موقع پر مبارکباد دینا یا ان تہواروں میں شرکت کرنا شرعی اعتبار سے قطعاً جائز نہیں ہے۔ زیر نظر کتابچہ ’’کرسمس کی حقیقت تاریخ کے آئینے میں ‘‘ محترم عبدالوارث گل ( جو کہ مسیحت کے خارزار سے گلشن اسلام میں آئے ہیں ) کی ایک اہم تحریر ہے جس میں انہوں نے تاریخ کےآئینے میں کرسمس کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت کو دلائل سے واضح کیاہے ۔اس سے صدق دل سے اسلام کے چشمہ صافی سے اپنی پیاس بجھانے کی جستجو کرنے والوں کو بے جا مشرکانہ رسوم اوربدعات سے کنارہ کشی کرنے کی رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالی محترم عبد الوارث کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے اور اس کتابچہ کو عوام الناس کے لیے نفع بخش بنائے ۔ (آمین)(م۔ا)
ہر صاحب عقل یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ معاشروں کی اصلاح وتعمیر میں قوموں کی فلاح وکامیابی وترقی چھپی ہے۔ تاریخ گواہ ہےکہ ماضی میں جب تک مسلمانوں نےاپنے معاشرے کو اسلامی معاشرہ بنائے رکھا ،اس وقت تک مسلم قوم سر بلند رہی ،او رجیسے جیسے معاشرہ تباہ ہوگیاہے ویسے ویسے امتِ مسلمہ بھی اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوتی چلی گئی، چنانچہ معلوم ہوا کہ فوز وفلاح وکامیابی کے لیے اپنے معاشرے کی اصلاح کرنا انتہائی ضرروی ہے ۔ معاشرےکی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں اور اصولوں کو اپنانا چاہیے او راسی پاک اوربے عیب ذات سے اصلاح طلب کرنی چاہیے۔سرور کائنات ﷺ کی بعثت کے وقت عرب معاشرہ جن گھناؤنے اعمال کامرتکب تھا، قرآن وحدیث ہی کا نورتھا جس نے تاریک معاشرے کو روشن کردیا،اور ان کی برائیوں کونیکیوں میں تبدیل کردیا ۔ لوگ شرافت،دیانت،محبت ،اخوت، شرم وحیا اوراخلاق فاضلہ کے مجسمے بن گئے۔ ترقی کے زینے چڑہتے چڑہتے وہ اوج ثریا پر جا پہنچے اور قرآن نے انہیں نجات ِآخرت کی بشارتیں سنائیں۔زیرنظر کتاب ’’ اصلاح معاشرہ‘‘ معروف عالم دین مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے قرآن واحادیث کی روشنی میں انسانی زندگی میں پیش آمدہ مختلف مسائل پر سلیس او ر عام فہم انداز میں بحث کی ہے، جس پر عمل کرکے ان شاء اللہ ہمارے معاشرےکی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے۔(م۔ا)
روئے زمین پر سب سے بہترین اور مبارک جگہ مساجد ہیں۔ احتراما انہیں بیت اللہ یعنی اللہ کاگھر بھی کہا جاتاہے۔ مساجداسلا م اور مسلمانوں کے لئےمرکزی مقام کی حیثیت رکھتی ہیں،جس میں مسلمان دن اوررات میں کم ازکم پانچ مرتبہ جمع ہوتےہیں اوراسلام کا سب اہم فریضہ ادا کرکے اپنے دلو ں کوسکون پہنچاتے ہیں ۔مسجد وہ جگہ ہے جہاں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کر کے اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کااظہار کرتے ہیں۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ ﷺ میں متعدد مقامات پر مسجد کی اہمیت اور قدر منزلت کو بیان کیا ہے۔زیر تبصرہ کتا ب شام کے مشہور سلفی عالم علامہ محمد جمال الدین قاسمی کی تصنیف اصلا ح المساجد من البدع والعوائد کا اردو ترجمہ ہے ۔مؤلف نے اس میں تمام بدعات ورسومات اور متولیا ن وائمہ مساجد کی پیدا کردہ برائیوں پرخوب سیر حاصل بحث کی ہے اور مساجد سےمتعلق چھوٹی بڑی تمام باتوں پربڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ الغرض مساجد کا او ر ان میں مسلمانوں کا کیا طریقہ ہونا چاہیے اسے سمجھنے کےلیے یہ کتاب بہترین روشنی فراہم کرتی ہے۔اس کتاب کااردو ترجمہ جامعہ سلفیہ ،بنارس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہر ی نے کیاہےجو نہایت سلیس اور عام فہم ہے ۔ کتاب کی تصحیح اور احادیث کی تخریج کا کام تخریج وتحقیق کے امام محدث العصر علامہ محمدناصر الدین البانی نے سر انجام دیاہے، جس سے کتاب کی صحت اور اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اللہ اس کتاب کے مولف ومترجم اور ناشرین کو اس علمی صدقہ جاریہ پر اجر عظیم عطا فرمائے(آمین)(م۔ا)
بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور مغربی تہذیب اور کلچر کا دور ہے۔معاشرہ انسانی کے تمام شعبوں میں تنظیم سازی اسی کے مطابق کی جارہی ہے۔بلکہ اس میں کچھ کجی یا کمی رہ جائے تو غلط متصور کیا جاتا ہے۔اور اس کی اصلاح کے لیے زور بھی دیا جاتا ہے۔تمام ادارے اسی کےمطابق پروان چڑھائے جارہے ہیں۔اسی وجہ سے مادی مفادات کا بہاؤ بھی اسی کی طرف ہے۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی باقی تہذیبوں کی طرح اسے بھی دوام نہیں مل سکتا۔انسانیت کی تاریخ نے ابھی تک اکیس سے زائد تہذیبیں دیکھیں ہیں۔ وہ سب اپنے دور میں حرف آخر سمجھی گئیں۔اور ان تہذیبوں کے موجدین نے بھی یہی نقارہ بجایا کہ ہم صحیفہ کائنات کی آخری سطر ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک کہانی بن گئی ۔اسی طرح موجودہ مغربی تہذیب کے موجدین اور مقلدین اس کے سحر میں اس قدر اسیر نظر آتے ہیں کہ وہ اس کے خلاف ایک حرف شکایت بھی سننا نہیں چاہتے۔ لیکن کچھ لوگ حقیقت بینی کا رویہ اپنا کر اظہار صدق کی جرات کرہی دیتے ہیں۔ زیر نظر کتا ب میں مصنف نے ان اسباب و عوامل کی طرف نشاندہی کی جو یہ بتاتے ہیں کہ موجودہ مغربی تہذیب زوال کے قریب ہے۔ا س سلسلے میں وہ مختلف تہذیبی مظاہر کو زیر مطالعہ لے کر آئے ہیں۔ اور چونکہ مصنف مغربی تہذیب کی بقا اور دوام چاہتے ہیں اس لیے وہ ساتھ ساتھ اس طرف بھی اشارہ کرتے جاتے ہیں کہ ان خامیوں کوکیسے دور کیا جائے۔(ع۔ح)
دنیا میں وہ کون آدمی ہے، جو اپنی ا ولاد کو اچھے اخلاق اور ستودہ صفات سے مزین نہ دیکھنا چاہتا ہو،ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باادب بامراد ہو۔لیکن ہماری ان تمناؤں کا کس طرح خون ہو رہا ہے؟ ذرا اپنے گرد وپیش پرنظر اٹھا کر دیکھیئے ، اپنے گھر ، کنبے اور خاندان ہی کو دیکھ لیجیے۔کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہماری وہ اولاد جو ہمارے ہی خون سے پیدا ہوئی ہے، اور جسے ہم بہتر سے بہتر دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس کے نزدیک ہماری حیثیت بہتر وبرتر کی بجائے خبطی اور بدتر کی ہے۔آخر اس کا سبب کیاہے۔ ان تمام خامیوں کا حل آب کو اس کتاب ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ملے گا۔ جو ان احادیث نبویہﷺ وآثار صحابہ پر مشتمل ہے، جو اخلاقیات، باہمی تعلقات، حقوق وفرائض، اورمعاشرتی مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب ایک مسلمان کی اخلاقی زندگی کےلیے وہ چشمہ ہدایت ہے،جسے دنیائے اسلام کے سب سے بڑے محدث حضرت امام بخاری ؒ نے جمع کرکے امتِ اسلامیہ تک پہنچایا ہے۔ اس کتاب سے یہ علم ہوتا ہے کہ ایک انسان اپنی زندگی کو کن ضوابط کا پابند بنا کر دنیا کی مسرتیں اور آخرت کی بلندیاں حاصل کرسکتا ہے۔(ک۔ح)
انسان ہی نہیں، جنات کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت وپرستش کےلیے پیدا فرمایا ہے۔ اور عبادات میں سے سب سے افضل ترین عبادت نماز ہے۔ نماز ہی کافر ومسلم اور مومن ومشرک کے درمیان حد فاصل ہے۔ روز محشر سب سے پہلا سوال نماز ہی کے بارے میں کیا جائے گا۔ نماز ہی وہ فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہے۔ خواہ حالت امن ہو ،یا حالت جنگ، حالت صحت ہو، یاحالت مرض، حالت اقامت ہو، یا حالت سفر۔نماز میں تخفیف کی سہولت تو موجود ہے،لیکن اس میں مکمل معافی کی گنجائش نہیں ہے۔نماز کو پابندی وقت کے ساتھ مسجد میں باجماعت ادا کرلینا ہی کافی نہیں،اور نہ ہی خشوع وخضوع ، عاجزی وانکساری اور پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوجانا نماز کی قبولیت کی علامت ہے، بلکہ اس فریضہ سے عہدہ برآ ہونے اور نماز کو قبولیت کے درجہ تک پہنچانے کےلیے یہ بھی ضروری، بلکہ انتہائی ضروری ہے کہ نماز نبی اکرم ﷺ کے طریقے اور سنت کے مطابق اداء کی جائے۔تکبیر تحریمہ سے لیکر سلام تک،قیام وقعود ہو یا رکوع وسجود، اذکار وتسبیحات ہوں یا قراءت قرآن۔ ہر چیز سنت کی روشنی میں اداء کی جائے۔ مگر ایسا کس طرح ممکن ہے؟ اس کا حل آپ کو اس کتاب میں ملے گا۔ نہ صرف قولی طور پر بلکہ تصاویر کے ساتھ عملی طور پر بھی۔ اور نہ صرف یہ کہ ہر بات مستند حوالہ جات سے مزین ہے بلکہ وضوء، تیمم او رنماز کی عام غلطیاں بھی نشان زدہ کردی گئی ہیں۔(ک۔ح)
انسان کی زندگی میں بسااوقات کچھ ایسے لمحات و واقعات پیش آجاتے ہیں، کہ وہ دنیاوی ذرائع اور وسائل کی کثرت کے باوجود اپنے آپ کو بے بس اور مجبور محض محسوس کرتا ہے۔ اس عالم بےساختہ میں اس کے ہاتھ دعا کےلیے اٹھتے ہیں اور اس کی زبان پر چند دعائیہ کلمات اداء ہوتے ہیں۔ اس صورت حال میں اپنے سے کسی بالاتر ہستی کو پکارنا، دعا اورمناجات کے زمرے میں شامل ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں دعا کا یہ تصور موجود رہا ہے، مگر اسلام نے دعا کی حقیقت کو ایک مستقل عبادت کا درجہ عطا کیا ہے۔قرآن مجیدمیں بے شمار دعائیں موجود ہیں۔ سورۃ فاتحہ سے بہتر ین دعا کی اور کیا صورت ہوسکتی ہے، اور آخری دو سورتوں (معوذتین) سے بہتر استعاذہ اور مدد کےلیے کیا اذکار ہوسکتے ہیں۔ حقیقیتِ دعا کو اسلام سے بہتر نداز میں کسی دوسرے مذہب نے پیش نہیں کیا، اور نبی کریم ﷺ سے بہتر کسی نے اس کے آداب وضوابط اور کلمات عطا نہیں فرمائے۔ مگر افسوس کہ آج بازار میں دعاوں کے نام پربعض ایسی کتب پھیلائی جارہی ہیں ،جن میں مشرکانہ اور جہل آمیز کلمات ملتے ہیں ۔جن کی ادائیگی سے پریشانیاں دور ہونے اور مصیبتیں ٹلنے کے بجائے ہمارے نامہ اعمال کی سیاہی میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے دعا اور اس سے متعلقہ مسائل، آداب، ضوابط اور قبولیت وعدم قبولیت کے اسباب سمیت دعا کے تمام مسائل سمٹ آئے ہیں۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے۔ دعا کے ساتھ منسوب غیر شرعی تصورات، جن میں توسل وغیرہ کو بہت گمراہ کن انداز میں پیش کیا جاتا ہے،کی بھی علمی وتحقیقی انداز میں شرعی دلائل کے ساتھ تردید کی گئی ہے۔ مسنون دعا ایک بندۂ مومن کو عرش الٰہی کے قریب اور قبولیت کے مقام پر فائز کر دیتی ہے، اور غیر مسنون اور من گھڑت دعائیں اسے شرک وبدعات کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گراتی ہیں ۔زیر نظر کتاب کے مطالعہ سے ہمیں قبولیت دعا کا وہ خزانہ مل جائے گا جس سے زیادہ اس دنیا میں ہماری کوئی اور ضرورت نہیں ہے۔ آئیے اس کتاب کے مطالعے سے ہم استجابت کے خزانوں کو حاصل کریں اورہر نوع کی بریشانیوں سے نجات حاصل کریں۔ اللہ تعالیٰ اس علمی اور تحقیقی کاوش کو عامۃ الناس میں مقبول بنائے۔ آمین۔(ک۔ح)
عذاب قبر دین اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ایک اہم عقیدہ ہے۔ عقلی وعلمی گمراہیوں میں غرق بے دین افراد عذاب قبر کا انکار کرتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہی ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور اس کے اثبات پر کتاب وسنت میں بے شمار دلائل موجود ہیں۔تمام اہل علم کا اس کے اثبات پر اجماع ہے، اور وہ اسے برحق مانتے ہوئے اس پرایمان رکھتے ہیں۔ عقیدہ عذاب قبر اس قدر اہم ہے کہ اس پر امام بیہقی ،امام ابن قیم ، اما م جلال الدین سیوطی ، اورامام ابن رجب جیسے کبار محدثین اور آئمہ کرام نے باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہیں۔ نبی کریمﷺ کی صحابہ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی تلقین، اور دور نبویﷺ میں پیش آنے والے کئی واقعات عذاب قبر کےبرحق ہونے پر دال ہیں۔مگر عقلی گمراہیوں میں مستغرق بعض بے دین حضرات نے محض اس وجہ سے عذاب قبر کا انکارکردیا کہ یہ ہمیں نظر نہیں آتا ہے، اور ہماری عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ان کی یہ بات انتہائی جاہلانہ اور احمقانہ ہے، کیونکہ اس کائنات میں کتنی ہی ایسی اشیاء ہیں، جن کا وجود مسلم ہے، لیکن ہمیں وہ نظر نہیں آتی ہیں۔ زیر نظر کتاب ابو انشاء قاری خلیل الرحمن جاوید کی کاوش ہے ،جس میں عذاب قبرکے متعلق جو مختلف شکوک شبہات ونظریات محض عقلی بنیادوں پر پائے جاتے ہیں، کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا کافی وشافی جواب دیا گیا ہے اور دلائل وبراہین سے ثابت کیا گیا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے ۔(م۔ا)
انسان کی یہ فطرتی مجبوری ہے کہ وہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے لوگوں کے ساتھ باہمی طور پرمیل جول رکھتا ہے،تعلقات قائم کرتا ہے اور دوست واحباب بناتا ہے،تا کہ اپنی دنیوی ذمہ داریوں سے بحسن وخوبی عہدہ براہو سکے۔لیکن ایک مسلمان آدمی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے تعلقات کے قیام میں شرعی تعلیمات کو سامنے رکھے۔اس کے تعلقات اور دوستیاں صرف اللہ کے مطیع اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ قائم ہوں ،اللہ کے باغی اور نافرمان لوگوں سے وہ نفرت کرتا ہو۔اس کی دوستی اور دشمنی کا معیار دنیوی مفادات کی بجائے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے حصول پر مبنی ہو۔اسلام نے عقیدہ الولاء والبراء کے تحت دستی ودشمنی کے معیار کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب (دوست کسے بنائیں؟)شیخ عبد اللہ علی بن الجعیثن کی کاوش ہے ،جوسعودی عرب کے معروف عالم دین ہیں ،انہوں نے اپنی اس کتاب میں دوستی کے معیار،اوردوست کے انتخاب پر بڑے خوبصورت انداز میں گفتگو کی ہے،اور اس کے اصول وضوابط کو شرعی نقطہ نظر سے واضح کیا ہے،کہ کسے دوست بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے۔محترم خبیب احمد سلیم نے اس کا سلیس اردو ترجمہ کر اسے چار چاند لگا دیئے ہیں،اور اردو دان طبقہ کے لئے مفید بنا دیا ہے،اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مؤلف ،مترجم اور ناشر کے علم وعمل میں اضافہ فرمائے،اور اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لے۔آمین(راسخ)
ولی کا معنی دوست اورولاء کا معنی دوستی ہے،اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کی خصوصی مدد فرماتے ہیں ، انہیں مشکلات و مصاءب سے بچا کر رکھتے ہیں،اور بسا اوقات ان کے ہاتھوں دنیا کو اپنی قدرت کا کوئی ایسا کرشمہ دکھلا دیتے ہیں ،جو فطرتی قوانین سے بالا ہوتا ہے۔کسی نیک بندے کے ہاتھوں فطرتی قوانین سے بالا ان کرشموں کے ظہورکو کرامت کہا جاتا ہے۔لیکن یاد رہے کہ یہ کرامت کسی ولی کاکوئی کمال نہیں ہوتا،اور نہ ہی اس کی مرضی اورچاہت سے اس کا ظہورہوتا ہے، بلکہ یہ تو صرف اللہ کی دی ہوئی عزت ہوتی ہے، جس سے اللہ اپنے بندوں کونوازتاہے ۔ قرآن مجید ، کتب تفسیر، کتب سیرت وتاریخ میں کرامات اولیاء کے متعدد مستند واقعات موجود ہیں۔لیکن بد عقیدہ لوگوں نے اس کو ذریعہ معاش بنا لیا ،اور اپنی طرف جھوٹی کرامات بیان کر کر کے سادہ لوح مسلمانوں کے مال پر ڈاکہ ڈالنا شروع کردیا۔ایسے ہی من گھڑت اور جھوٹےقصے کہانیوں پر مشتمل بے شمار کتب بازار میں موجو د ہیں جو عقیدے کی خرابی کاباعث بن رہی ہیں ۔زیر تبصرہ کتاب ’’ کتاب وسنت کی روشنی میں مومن عورتوں کی کرامات ‘‘میں مولاناامیر حمزہ صاحب نے صحیح و مستند واقعات پرمشتمل اللہ کی نیک بندیوں کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والی کرامات کو جمع کر دیا ہے،جو ہمارے دعوت عمل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مصنف نے اس کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے ۔۱۔دور نبویﷺ سے پہلے کی مومن عورتیں۲۔رسول کریم ﷺ کی بیویاں، مومنوں کی مائیں۳۔صحابیات اور دیگرمومنا ت کی کراماتفاضل مؤلف نے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ایسا انداز اختیار کیاہے کہ یہ کتاب ہر عورت کی اصلاح کےلیے ایک ایسا گلدستہ بن گءی ہے، جوجہیز میں دینےکے لیے ایک گراں قد ر تحفہ ہے۔ نیز عقیدے کی اصلاح اور معاشرتی زندگی میں مرداور عورت کی اصلاح کےلیے ایک انقلاب آفریں تحریر ہے اللہ تعالی اس کتاب کومسلم خواتین کے لیے صراط مستقیم پرگامزن ہونےکاذریعہ بنائے(آمین)(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا، اوراسلام کو بحیثیت دین بھی مکمل کردیا، اور اسے تمام مسلمانوں کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے۔ یہی وہ عقید ہ ہے جس پر قرون اولیٰ سے لیکرآج تک تمام امت اسلامیہ کا اجماع ہے ۔ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔حضورﷺ کےبعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند تسلیم کرنا ہر زمانے میں تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ رہا ہے، اور اس میں مسلمانوں کا کوئی بھی اختلاف نہیں رہا کہ جو شخص حضرت محمدﷺ کے بعد رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کرے، او رجو اس کے دعویٰ کو مانے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔آنحضرت ﷺ نے متعدد احادیث میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ میں خاتم النبین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ برطانوی سامراج نے برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے اور دین اسلام کے بنیادی اصول احکام کو مٹانے کے لیے قادیان سے مزرا احمد قادیانی کو اپنا آلہ کار بنایا۔ مرزا قادیانی نے انگریزوں کی حمایت میں جہاد کو حرام قرار دیا، اورانگریزوں کی حمایت اور وفاداری میں اتنا لٹریچر شائع کیا کہ اس نے خود لکھا کہ میں نے انگریزی حکومت کی حمایت اوروفاداری میں اس قدرلٹریچر شائع کیا ہے کہ اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ اس نے جنوری 1891ء میں اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان اور 1901ء میں نبوت ورسالت کا دعویٰ کردیا جس پر وہ اپنی موت تک قائم رہا۔قادیانی فتنہ کی تردید میں پاک ہند کے علمائے اہل حدیث نے جو تحریری وتقریری خدمات سر انجام دی ہیں،اور اس وقت بھی دے رہے ہیں وہ روزورشن کی طرح عیاں ہیں ۔جب مرزا غلام احمد نے 1891ء میں مسیح موعود نے کا اعلان کیا تو سب سے پہلے علمائے اہل حدیث میدان عمل میں آئے اورمرزا صاحب کی تردید میں تحریر وتقریر کے ذریعہ سدباب کیا علمائے اہل حدیث نے اس فتنے کی تردید وبیخ کنی میں تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں پیش پیش رہ کر گراں قدر خدمات سرانجام دی اس سلسلے میں علمائے اہل حدیث کی بے مثال خدمات کی چند اولیات یہ ہیں ۔1901ء میں جب مرزا نے نبوت کا دعویٰ کیا تو سب پہلے مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد حسین بٹالوی نے نے برصغیر کے دوصد علماء سے مرزا قادیانی کی تکفیر پر فتویٰ حاصل کر کے شائع کیا اس فتویٰ پر سب سے پہلے سید نذیرحسین محدث دہلوی نے دستخط فرمائے۔مرزا قادیانی سے مقابلے کے لیے سب سے پہلے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے قادیا ن جاکرمرزا کو للکارا، لیکن وہ مقابلے کے لیے نہیں نکلا ،مرزائیوں سے مناظروں اور مباحثوں کا سلسلہ سب سے پہلے مولانا محمدحسین بٹالوی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری نے شروع کیا،مولانا ثناء اللہ امرتسری نے مرزائیوں سے سب سے زیادہ مناظرے کیے، مرزا قادیانی کو مباہلے کا چیلنج سب سے پہلے اہل حدیث علماء نے دیا،مسلمانان برصغیر کی طرف سے فاتح قادیان کا لقب مولانا ثناء اللہ امرتسری کو ہی دیا گیا ،مرزا قادیانی کی تردید میں اولین کتاب قاضی سلیمان منصورپوری نے ’’غایت المرام‘‘ کے نام سے لکھی ، قیام پاکستان کے بعد سے ملک کے دستور میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تحریری صورت میں سب سے پہلے مولانا حنیف ندوی نے کیا۔ اس سے ہمار ا مقصد علمائے اہل حدیث کی خدمات کو اجاگر کرنا ہے نہ کہ کسی کی تنقیص۔ مولانا محمد رمصان یوسف سلفی ﷾ جماعت اہل حدیث پاکستان کےمعروف قلمکار ہیں ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے ہیں رہتے ہیں ۔سلفی صاحب کی اس کتاب کے علاوہ تقریبا چار کتابیں اوربھی ہیں۔ سلفی صاحب نے زیرتبصرہ کتا ب ’’ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات‘‘ میں قادیانی فتنہ کی ترید میں علماء اہل حدیث کی خدمات اور جہود ومساعی کو بڑے احسن انداز سے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ یہ کتاب یقینا شائقینِ مطالعہ اورا ہل علم کے لیے ایک دستاویز اور گراں قدرعلمی تحفہ ہے ۔(م۔ا)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،اس کی تعلیمات انسانی فطرت کے مطابق اور اس سے ہم آہنگ ہیں،اور اپنے اندر بے پناہ جامعیت ،ہمہ گیری اور عالمگیریت رکھنے کے سبب ہر دم رواں ،پیہم دواں زندگی کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔زندگی کے عملی احکام عبادات ،معاملات ،معاشرتی اور مالیاتی قوانین،اجتماعی اور تعزیری احکام،وہ امور ہیں ،جن میں حالات وزمانہ کی تبدیلی ،اور عرف وعادت کے تغیر کی وجہ سےبہت کچھ تبدیلی بھی روا رکھی جاتی ہے۔اور اجتہاد کے ذریعے پیش آمدہ مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ کتاب کے مؤلف مولانا بدر الحسن القاسمی دار العلوم دیو بند کے فاضل ،ایک ذہین،بالغ نظر اور باخبر عالم ہیں۔آپ کو فقہ اسلامی اور جدید علم کلام سے خصوصی دلچسپی ہے۔آپ نے اس کتاب میں جدید فقہی مسائل کو دلائل کے ساتھ بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ،اوراجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر مسئلہ میں راجح موقف کو بیان کرنے کی زبر دست کوشش کی ہے،آپ سے اختلاف رائے تو ہو سکتا ہے ،مگر آپ نے تحقیق کا جو معیار قائم کیا ہے وہ ایک مثالی اور منفرد ہے۔(راسخ)
اس عالم فانی کی چند روزہ زندگی محض افسانہ ہے۔ آج یا کل اس دار مکافات سے ہرایک لازما کوچ کرنا ہے۔ موت سے کسی کو مفر نہیں۔ پھر غور کرنا چاہیے کہ موت کے بعد کیا ہوگا؟ کہاں جائیں گے؟ کیا پیش آئے گا؟ کہاں رہیں گے؟ امن وچین ملے گا یا درد وعذاب سے دو چار ہونگے ؟ کن احوال وظروف کا سامنا ہوگا ٰ؟ جو شخص موت کے بعد کے احوال وکوائف اور حالات وواقعات پر نظر نہیں رکھتا، وہ بڑا غافل اور ناعاقبت اندیش انسان ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اس مادی دور میں مسلمان آخرت کو بھلا چکے ہیں ۔ دنیا کی زیب وزینت اور آرائش، اس کی حلاوت وطراوت ، تازگی وخنکی، عیش وشادمانی، خوشی وخرمی، نقش ونگار، حسن وجمال، دل فریبی اور دل ربائی کے نشے میں ایسے چور ہیں کہ اس مدہوشی اور بے خودی میں آخرت کے بارے میں ضعیف الاعتقاد ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ کے قرآن مجید نے توحید کے بعد آخرت ، قیامت اور معاد کےعقیدےپر بڑا زور دیا ہے۔ اور قیامت و آ خرت کےمنکر کو کافر قرار دیا ہے۔ زیر تبصرہ یہ کتاب معروف عالم دین مولانا حکیم محمد صادق سیالکوٹی کی کاوش ہے۔اس میں انہوں نے برزخ، بعثت، حشر، نشر، قیامت، میزان، صراط، احوال حشر، مسلہ شفاعت، زندگی کا حساب، جنت اور دوزخ کے حالات کو کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کیا ہے۔جن پر یقین واعتقاد رکھنا ہرمسلمان پر واجب اور ضروری ہے۔اللہ تعالی ہم سب کی دنیا وآخرت دونوں کو بہترین بنائے۔آمین(ک۔ح)
روح اور بدن کی جدائی کا نام موت ہے۔ موت عالم دنیا سے عالم آخرت میں داخلے کا ذریعہ ہے،جہاں سے انسان کی ابدی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ عالم آخرت کے دو مرحلے ہیں ایک عالم برزخ ،یعنی موت سے لے کر حساب وکتاب کےلیے دوبارہ اٹھائےجانے تک، اور دوسرا مرحلہ دوبارہ اٹھائے جانے کے بعد یعنی عالم حشر سے شروع ہوگا۔ عالم برزخ میں ملنے والی سزا کو عذاب قبر کہا جاتا ہے۔ عقیدہ عذاب قبر اس قدر اہم ہے کہ اس پر بڑے بڑے محدثین اور آئمہ کرام رحمہم اللہ اجمعین نے باقاعدہ کتب تالیف فرمائی ہیں۔ جیسا کہ امام بیہقی نے ’’ اثبات عذاب قبر‘‘ امام ابن ابی الدنیا نے ’’کتاب القبول اور کتاب الاہوال‘‘ امام قرطبی نے ’’التذکرہ‘‘ امام ابن رجب نے ’’اھوال القبور ‘‘ امام ابن قیم نے ’’ کتاب الروح‘‘ اورامام جلال الدین سیوطی نے ’’ شرح الصدور‘‘ جیسی گراں قدر کتب تالیف فرمائیں۔ مگر عقلی گمراہیوں میں مستغرق بعض بے دین حضرات نے محض اس وجہ سے عذاب قبر کا انکارکردیا کہ یہ ہمیں نظر نہیں آتا ہے، اور ہماری عقل اسے تسلیم نہیں کرتی ہے۔ ان کی یہ بات انتہائی جاہلانہ اور احمقانہ ہے، کیونکہ اس کائنات میں کتنی ہی ایسی اشیاء ہیں، جن کا وجود مسلم ہے، لیکن ہمیں وہ نظر نہیں آتی ہیں۔زیر تبصرہ کتاب ’’ المسند فی عذاب القبر ‘‘ فاضل مؤلف محمد ارشد کمال کاوش ہے۔اس میں انہوں نے عذاب قبر کے اثبات پر ڈیڑھ سو کے قریب صحیح وصریح مرفوع وموقوف احادیث جمع کر دی ہیں،اورعذاب قبر کےحوالے سے پیدا ہونے والے بعض اہم مسائل پر تسلی بخش اور مدلل بحث کی ہے۔اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔آمین(ک،ح)
دنیا کی ہر مہذب قوم میں یہ رسم پا ئی جاتی ہے کہ جب وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملتے ہیں، توچند مخصوص الفاظ کسی خاص انداز سے ادا کرتے ہیں۔ان کے یہ الفاظ و انداز ان کا ملی وقومی شعار بن جاتا ہے۔جیسے ہندو رام رام،سکھ جئے گرو، اور انگریز گڈ مورننگ،گڈ مون اور گڈ ایوننگ وغیرہ جیسے الفاظ ادا کرتے ہیں۔اسلام نے بھی طرز ملاقات کے آداب کو بیان کرتے ہو ئے باہمی ملاقات کرتے وقت(السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ) جیسے عظیم الشان الفاظ کہنے کاحکم دیا ہے۔ ان سے بہتر کوئی دعائیہ کلمات نہیں ہیں۔کیونکہ ان میں دنیا وآخرتدونوں جہانوں کی کامیابی کے راز مضمر ہیں،اور یہ محبت و دعا گوئی کا بہترین اظہار ہیں۔ چونکہ سلام کے احکام ومسائل سے آگاہ ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ،چنانچہ فاضل مؤلف مولانا عبد الغفور اثری نے خالصتا اصلاحی جذبہ سے سرشار ہو کر نہایت عرق ریزی،تحقیق اور مستند دلائل کے ساتھ نہایت سلجھے ہوئے اسلوب میں یہ کتابچہ مرتب فرمایا ہے ،جو اپنے موضوع ایک منفرد کاوش ہے،اور مطالعہ کے لائق ہے۔اللہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔(راسخ)
اسلامی تاریخ ہمارے سامنے مسلمان عورت کابہترین اورپاکیزہ نمونہ پیش کرتی ہے۔آج جب زمانہ بدل رہا ہے،مغربی تہذیب و تمدن او رطرزِ معاشرت ہمارے گھروں میں سرایت کررہا ہے، تہذیب مغرب کی دلدادہ مسلمان خواتین او رلڑکیاں اسلام کی ممتاز اور برگزیدہ خواتین کے اسوہ حسنہ کوچھوڑ کر گمراہ اور ذرائع ابلاغ کی زینت خواتین کواپنے لیے آئیڈل سمجھ رہی ہیں۔ہمیں اپنے اسلاف کی خدمات کو پڑھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسلام کے ہردور میں عورتوں نےمختلف حیثیتوں سے امتیاز حاصل کیا ہے ،اور بڑے بڑے عظیم کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ ازواجِ مطہرات طیباتؓ اور اکابر صحابیاتؓ کی زندگیاں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ان کے دینی ،اخلاقی معاشرتی اور علمی کارنامے نہ صرف دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں نجات کا ذریعہ ہیں ،بلکہ موجودہ دور کےتمام معاشرتی خطرات سے محفوظ رکھنے کے بھی ضامن ہیں۔ زیر نظر کتاب کے پہلے حصے’’مسلمان خواتین کے لیے اسوۂ صحابیات ‘‘ میں مولانا عبد السلام ندوی ،او ر دوسرے حصے ’’مسلمان عورتوں کی بہادری ‘‘ میں سید سلیمان ندوی نے دور حاضر کی خواتین اور لڑکیوں کے لیے ازواج مطہرا ت طیباتؓ ، اکابر صحابیات ؓاو ر نامور مسلمان بہادرخواتین کے مستند اور مؤثر واقعات کو ایک جگہ مرتب کردیا ہے، تاکہ دور حاضر کی خواتین اورلڑکیاں ان کی اخلاقی،معاشرتی اوربہادری کے واقعات کو اپنے لیے نمونہ بنا ئیں،اور ان کی زندگیوں کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔(م۔ا)
زیر نظر کتاب ’’ جنت کی تلاش میں ‘‘ ان احادیث مبارکہ پر مشتمل ہے ،جو جنت کو واجب کردینے والے اعمال واسباب سے متعلق ہیں۔ کتاب مختصر مگر جامع ہے۔ کتاب میں ذکر کردہ احادیث مبارکہ کی صحت وضعف کو بیان کرنےکا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ قارئین کرام اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے پہلے دوباتیں ذہن میں رکھیں۔اول: اس کتاب میں وہ احادیث بیان کی گئی ہیں، جن میں جنت میں لے جانے والے اعمال کا ذکر ہے۔دوم: شرعی طور پریہ بات بالکل واضح اور طے شدہ ہے کہ جنت میں داخلہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سےہو گا۔ بندے کا عمل اس میں داخلے کی اصل بنیاد نہیں ہے،ہاں البتہ اعمال جنت میں دخول کا سبب ضرور ہیں۔یہ کتاب سعودی عرب کے معروف عالم دین شیخ عبد اللہ بن علی الجعیثن کی تالیف ہے ،جسے اردو قالب میں ڈھالنے اور نشر کرنے کی سعادت محترم طاہر نقاش کے حصے میں آءی ہے۔انہوں نے امت مسلمہ کو جنت میں داخل ہونے کےلیے کءے جانے والے ضروری اعمال کی ترغیب دی ہے کہ اگر جنت میں جانا چاہتے ہوتو کفروشرک کی پرزور آندھیوں میں اپنے عقیدے کے چراغ کو روشن رکھنا ہوگا، تاکہ اس کی روشنی میں روز قیامت آسانی سے پل صراط پار کرکے جنت الفردوس تک پہنچ جائیں۔ان انعامات کے حصول کےلیے عقیدہ کا قرآن وسنت کے مطابق ہونا ضروری ہے، عقائد کی درستگی اور جنت کے حصول کےلیے ’’ اصلاح عقیدہ ‘‘ اور ’’ جنت کی تلاش میں ‘‘ جیسی کتب کا مطالعہ کریں۔(ک۔ح)
اسلام ایک ایسا عادلانہ آسمانی دین ہے جو انسانی زندگی کی ہمہ جہت ترقی کاضامن ہے۔خالق کائنات انسان کی جملہ ضرورتوں ، حاجتوں سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس لیے شریعت اسلامی میں ان تمام پہلوؤں کانہایت حسن و کمال کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہےجن کے ذریعہ انسان کی رہنمائی ہوتی ہے اور اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔اور راست جہت میں سنورتا اور ترقی کرتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو منصب قیادت پر سرفراز فرمایاہے۔یہ منصب بہت ساری صلاحیتوں اور خوبیوں کا متقاضی ہے۔ ان میں سے سب سے اہم ترین یہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کیا جائے۔اس سلسلے میں علمائے اصول جس علم سے استمداد لیتے ہیں اسے اصول فقہ کہتے ہیں۔ جس کا ایک گوشہ تسہیل وتیسیر، رفع حرج، تخفیف وترخیص، اعتدال و توازن ، تسامح او راباحت کے اصولوں کا ہے۔اسلام نے بندوں کے مفادات و مصالح اور ضروریات کی مکمل رعایت رکھی ہے اس لیے مقاصد شریعت میں رفع حرج، دفع ضرر او رمصالح کو نمایاں مقام حاصل ہے۔فقہاء نے ان اصولوں کی روشنی میں امت کی ضرورتوں کا دائرہ متعین کرتے ہوئے ان کا حق پیش کرنے او ردین ،نفس، عقل، مال اور نسل کی حفاظت و رعایت رکھنے کے لیے ہر پہلو پر غور و خوض کیا اور اپنے قیمتی اجتہادات پیش کئے ہیں۔زیر نظر کتاب اصلا ضرورت و حاجت کے اصولوں پر مبنی منتخب مقالات کا مجموعہ ہے۔جو اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے زیرنگرانی منعقدہ سالانہ پروگرام میں اہل علم نے پڑھے تھے۔بعد میں انہیں کتابی شکل میں پیش کر دیا گیا ہے۔(اصول فقہ)(ع۔ح)
برصغیر پاک و ہند میں حضرت سید احمد شہید ؒ کی ذات بابرکات محتاج تعارف نہیں ۔آپ ؒ ایک دور، صدی اور عہد کا نام ہیں۔ جب برصغیر کے مسلمانوں پر مایوسی کے گہرے بادل چھائے ہوتے تھے۔ مسلمان ہر طرف سے سکھوں اور انگریزں اور دیگر قوتوں کے ظلم و استبداد کے شکار تھے۔کسی جگہ کوئی امید نہیں نظر آتی تھی۔ علماو شیوخ اور صوفیا اپنے اپنے مدارس، خانقاہوں اور حلقہ ارادت میں مصروف تھے۔ اگرچہ کچھ کو انتہائی زیادہ قلق و اضطراب کے ساتھ فکر امت دامن گیر تھی۔ہر طرف طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ کے فکری جانشین یعنی ان کی فکر کے عسکری گوشے کو عملی رخ دینے والے جناب حضرت سید احمد شہید نے علم جہاد بلند کیا ۔ اور امت کو بیدار کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ نے آپ کی اعانت فرمائی اور ایک اسلامی ریاست قائم بھی کردی۔ لیکن اپنے غداری رنگ لائی اور آپ بظاہر تو ناکام ہوئے لیکن حقیقت میں کامیاب ہوئے۔آپ کی پیدا کی ہوئی جہادی روح ابھی تک امت کے اندر موجود ہے بلکہ وہ ایک پودے سے تناور درخت بن چکی ہے۔زیرنظر کتاب آب کی سیرت و سوانح کے مختلف پہلوؤں پر بطریق احسن روشنی ڈالتی ہے۔(ع۔ح)