مؤرخین کی جانب سے تاریخ اسلام پر متعدد کتب سامنے آ چکی ہیں لیکن ایسی کتب معدودے چند ہی ہیں جن میں ایسے اصولوں کی وضاحت کی گئی ہو جن کی روشنی میں معلوم کیا جا سکے کہ بیان کردہ تاریخی واقعات کا تعلق واقعی حقیقت کے ساتھ ہے۔ علامہ ابن خلدون نے تاریخ اسلام پر ’کتاب العبر و دیوان المبتداء والجز فی ایام العرب والعجم والبریر‘ کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی اور اس کے ایک حصے میں وہ اصول اور آئین بتائے جن کے مطابق تاریخی حقائق کو پرکھا جا سکے۔ انہی اصول وقوانین کا اردو قالب ’مقدمہ ابن خلدون‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے۔ کتاب کے رواں دواں ترجمے کےلیے علامہ رحمانی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مقدمے کی تقسیم چھ ابواب اور دو جلدوں میں کی گئی ہے۔ دونوں جلدیں تین، تین ابواب پر محیط ہیں۔ پہلے باب میں زمین اور اس کے شہروں کی آبادی، تمول و افلاس کی وجہ سے آبادی کے حالات میں اختلاف اور ان کے آثار سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں بدوی آبادی اوروحشی قبائل و اقوام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں دول عامہ، ملک، خلافت اور سلطانی مراتب کو قلمبند کرتے ہوئے کسی ب...
تاریخ ایک انتہائی دلچسپ علم ہے خاص طور پر اسلامی تاریخ، جس میں صداقت کو خصوصاً ملحوظ رکھا گیا ہے دنیا کی تاریخ جھوٹے سچے واقعات سے پُر ہے، جس سےاس کی افادیت کا پہلو دھندلاگیا ہے ۔ تاریخ اسلامی پر مشتمل علامہ عبدالرحمن ابن خلدون کی زیر مطالعہ کتاب کی ورق گردانی سے آپ جان سکیں گے کہ اسلامی تاریخ میں تاریخی واقعات کو حقیقی رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں کسی قسم کے رطب و یابس کا کوئی دخل نہیں ہے۔ آپ کےسامنے اس وقت ’تاریخ ابن خلدون‘ کا پہلا اور دوسرا حصہ ہے۔ پہلے حصے میں علامہ موصوف نے حضرت نوح ؑ سے لے کر حضرت عیسی ؑ کے بعد چھٹی صدی عیسوی تک کے حالات و انساب تفصیل کےساتھ درج کیے ہیں۔ ان میں انبیائے بنی اسرائیل و عرب اور بابل و نینوا و موصل و فراغہ کے صحیح اور سچے واقعات شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں حضرت عیسیٰ ؑ سے لے کر ولادت رسول ﷺ تک تقریباً چھ سو سال کے مکمل حالات، عقائد و افکار میں تغیرات، مراسم اور توہمات کی پیداوار اور ان کے نتائج کی پوری تفصیل و استناد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
کسی بھی معاشرے کی تعمیر کے لیے یہ عنصر خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ معاشرہ اپنی تاریخی روایات سے سبق سیکھتا رہے۔ تاریخ ہی اس بات سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کن اسباب کی بناء پر ایک قوم ترقی کرتی ہے کس قسم کے نقائص کی وجہ سے ایک قوم زبوں حالی کا شکار ہو جاتی ہے۔ ’تاریخ ابن خلدون‘ کی تیسری جلد کا پہلا حصہ آپ کے سامنے ہے جس میں اسلامی تاریخ کے نہایت درخشاں دور کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ زمانہ قبل ازاسلام کے واقعات کو مختصراً قلمبند کرنے کے بعد ولادت رسول ﷺ سے لے کر وفات تک کے تمام قابل ذکر واقعات کو بیان کیا ہے۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے زریں عہد خلافت پر روشنی ڈالی گئی ہے اس میں خلفائے راشدین کی زندگیوں، ان کے دور میں ہونے والی فتوحات اور مسلمانوں کے کارناموں کو پوری تفصیل و توضیح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس حصے کے ترجمے کے لیے حکیم احمد حسین الہ آبادی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور ترتیب و تبویب کے فرائض شبیر حسین قریشی نے بخوبی نبھائے ہیں۔
...اس وقت آپ کے سامنے حافظ عماد الدین ابن کثیر کی شہرہ آفاق کتاب ’البدایۃ والنہایۃ‘ کا اردو قالب ’تاریخ ابن کثیر‘ کی صورت میں موجود ہے۔ اگر آپ عربی تاریخوں کامطالعہ کریں تو آپ کو صاف طور پر یہ بات معلوم ہو گی کہ عرب مؤرخوں نے اپنی تاریخوں میں تسلسل زمانی کا برابر خیال رکھا ہے ان کی ہر تاریخ آدم ؑ کی کے ذکر سے شروع ہوتی ہے اور پھر واقعات اور بیانات کا سلسلہ ان واقعات تک پہنچتا ہے جن میں ان کا لکھنے والا سانس لے رہا ہے ۔ ابن کثیر کی یہ تاریخ بھی دوسری تاریخوں کی طرح ابتدائے آفرینش سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بعد انبیاء اور مرسلین کے حالات سامنے آتے ہیں، یہ کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ اس سے پہلے جو تاریخیں لکھی گئی ہیں یا اس کے بعد جن تاریخوں کو دریافت کیا گیا ہے ان میں یہ تمام واقعات اساطیری ادب سے لیے گئے ہیں یا ان کو اسرائیلی روایتوں پر اکتفاء کرتے ہوئے آگے بڑھایا گیا ہے اس کے برعکس ابن کثیر نے اپنا تمام مواد قرآن ہی سے لیا ہے اور یہ اس کے ایمان اور یقین کے مضبوطی کی علامت ہے ۔ تاریخ ابن کثیر حضرت آدم سے لے کر ع...
وہابی تحریک در اصل اس تحریک کا نام ہے جو شیخ محمد بن عبدالوہاب النجدی ؒ نے نجد میں چلائی ۔یہ ایک اصلاحی تحریک تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں میں جو غیر ضروری اوہام اور غیر شرعی اعمال و رسوم پیدا ہو گئے ہیں انہیں ختم کر کے دین کو اپنی قدیم سادگی پر واپس لایا جائے اور دین پر مر مٹنے کی جو تمنا صحابہ کرام میں موجود تھی اسے پھر سے زندہ کر دیا جائے۔ظاہر ہے کہ اس مقصد کے حصول میں وہابیوں کو مختلف طاقتوں سے ٹکرانا پڑا اور وہ ٹکرائے۔ہندوستان کی وہابی تحریک کا اس سے حقیقتاً کوئی تعلق نہ تھا۔مگر چونکہ یہ لوگ بھی دینی جذبات سے لبریز تھے ،ان میں بھی روح جہاد کار فرماتھی اوریہ بھی دین کو عہد اول کی سادگی پر واپس لانا چاہتے تھے اس لیے یہ لوگ بھی وہابی مشہور ہو گئے یا دوسروں نے ان کی تحریک کو وہابی تحریک مشہور کر دیا۔زیر نظر کتاب میں اس تحریک کی مفصل تاریخ مستند حوالہ جات کی روشنی میں بیان کی گئی ہے ،جس سے اس کے تمام گوشے نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں اور تمام شکو ک و شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے ۔
زیر نظر کتاب تاریخ اسلامی کا بہت وسیع ذخیرہ اور تاریخی اعتبار سے ایک شاندار تالیف ہے جس میں مصنف نے بہت عرق ریزی سے کام لیا ہے۔واقعات کو بالاسناد ذکر کیا ہے جس سے محققین کے لیے واقعات کی جانچ پڑتال اور تحقیق سہل ہو گئی ہے۔یہ کتاب سیرت رسول ﷺ اور سیر صحابہ وتابعین پر یہ تالیف سند کی حیثیت رکھتی ہے اور سیرت نگاری پر لکھی جانے والی کتب کا یہ اہم ماخذ ہے المختصر سیرت نبوی اور سیرت صحابہ وتابعین پر یہ ایک عمدہ کتا ب ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کو ازمنہ ماضیہ کی یاد دلاتا ہےاور ان عبقری شخصیات کے کارہائے نمایاں قارئین میں دینی ذوق ،اسلامی محبت اور ماضی کی انقلابی شخصیات کے کردار سے الفت و یگانگت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔لہذا فحش لٹریچر ،گندے میگزین اور ایمان کش جنسی ڈائجسٹ کی بجائے ایسی تاریخی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو شخصیات میں نکھار ،ذوق میں اعتدال ،روحانیت میں استحکام اور دین سے قلبی لگاؤ کا باعث بنیں ۔
ابن بطوطہ چھٹی صدی ہجری کا ایک معروف مسلمان سیاح تھأ۔اس زمانے میں سفر کی سہولیات بہت کم تھیں ۔اس عالم میں ابن بطوطہ نے رفت سفر باندھا اور کامل پچیس برس تک سمندر کی لہروں سے لڑتا،ہولناک ریگستانوں سے گرزتا،ہرشور دریاؤں کو کھگالتا اور اپنے ذوق سیاحت کو تسکین پہنچاتا رہا۔اس عرصے میں اس نے بے شمار خطوں اور ملکوں کی سیر کی اور جب وطن لوٹا تو پچاس برس کا بوڑھا ہو چکا تھا۔اس کا یہ طویل ،صبر آزما اور پرمشقت سفر،تفریحی نہیں تھا،علمی تھا۔اس نے جس ژدف نگاہی سے سب کچھ دیکھا ،جس قابلیت سے مشاہدات سفر مرتب کیے،جس خوبی سے اکابر رجال کے احوال وسوانح پر روشنی ڈالی وہ اسی کا حق ہے۔ابن بطوطہ کو مورخوں کے ہاں جونمایاں حیثیت حاصل ہے وہ اسی سفر نامے کی بدولت ہے۔یہ سفر نامہ لکھ کر اس نے تاریخ کے عظیم الشان دور کو زندہ کیا ہے۔یہ سفر نامہ ابن بطوطہ کی آپ بیتی بھی ہے اس نے اپنی روداد کچھ اس طرح لکھی ہے کہ روداد جہاں بھی اس میں شامل ہو گئی ہے۔اس عظیم سفر نامے کو اردو دان طبقے کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے امید ہے ارباب ذوق اس سے محفوظ ہوں گے۔(ط۔ا)
صلح حدیبیہ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عظیم الشان واقعہ ہے اس کے نہایت دور رس نتائج اور مفید اثرات رونما ہوئے۔ صلح حدیبیہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے اس کو ’’فتح مبین‘‘ اور ’’نصر عزیز‘‘ کا نام دیا ہے۔ تمام مسلمان مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ صلح حدیبیہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی سیاسی بصیرت اور فہم و فراست کا ایک شاہکار واقعہ ہے۔ حتیٰ کہ مشہور مؤرخ اور فاضل عالم دین ڈاکٹر حمید اللہ نے صلح حدیبیہ کو عہد نبوی کی سیاست خارجہ کا شاہکار قرار دیا ہے۔ زیر نظر کتاب علامہ محمد أحمد باشمیل کی تألیف لطیف ہے اور اس کو اردو قالب میں منتقل کرنے کا فریضہ ’’اختر فتح پوری‘‘ نے انجام دیا ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں صلح حدیبیہ کے مفید اثرات کے ساتھ ساتھ اس وقت کے تاریخی تناظر کے حوالے سے صلح حدیبیہ سے متعلق تمام علمی مباحث کو ایک جگہ سمیٹ دیا ہے۔ موصوف نے اس موضوع کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے اور عالمانہ انداز میں تمام ضروری مباحث کا جائزہ پیش کیا ہے۔ صلح حدیبیہ سے متعلق سیاسی و...
اسلام کے فیصلہ کن معرکوں میں غزوہ حنین کی حیثیت بالکل نمایاں ہے کیونکہ یہ معرکہ عسکری نقطۂ نگاہ سے ایک اہم معرکہ ہے جس میں مسلمانوں نے آنحضرت ﷺ کی زیرِ قیادت شمولیت اختیار کی۔ بارہ ہزار جانبازوں نے شرکت کی اور اتنی تعداد پہلے کسی معرکہ میں نظر نہیں آئی۔ نیز اس معرکہ میں مسلمانوں کی فیصلہ کن فتح، جزیرہ عرب میں بت پرستی کے تابوت، میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ زیر نظر کتاب علامہ محمد احمد باشمیل کی تصنیف ہے جیسے اردو قالب میں مولانا اختر فتح پوری نے منتقل کیا ہے۔ کتاب شاندار تعلیمات اور دقیق قیمتی تحلیلات پر مشتمل ہے۔ بنو ثقیف اور بنو حیوازن کا کس طرح قلعہ قمع کیا گیا اور دوران معرکہ کس قسم کے حالات پیش آئے۔ مخالفین کے کتنے لوگ مقتول ہوئے اور مسلمانوں کے کتنے لوگوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جزیرۂ عرب میں بت پرستی کا خاتمہ کیسے ہوا، یہ سب معلومات کتاب ھذا میں رقم کر دی گئی ہیں۔ ہر وہ شخص جو تاریخ اسلامی کے خزائن و معارف کے اکتشاف کا خواہاں ہے اسے اس کتاب کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے اور مؤلف کے قیمتی تاریخی سلسلہ کی بقید کتابوں کی تعلیمات و تحلیلات کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے۔ غزوۂ حنین میں جو...
بلاشبہ غزوہ تبوک اس لحاظ سے تاریخ عہد نبوی ﷺ کا سب سے بڑا غزوہ ہے کہ جس میں اسلامی فوج کے جانبازوں کی تعداد تیس ہزار تھی اور عہد نبوی کی تاریخ میں رسولِ کریم ﷺ کی زیر کمان اتنی تعداد پہلے جمع نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح یہ غزوہ سب سے بڑا فوجی حملہ تھا اور رسولِ کریم ﷺ کی آخری فوجی کاروائی تھی حتیٰ کہ آپ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ زیر نظر کتاب علامہ محمد أحمد باشمیل کی تصنیف لطیف ہے جس کو اردو قالب میں منتقل کرنے کی سعادت مولانا اختر فتح پوری کو ملی ہے۔ قابل مؤلف نے اس کتاب کو پانچ فصول میں تقسیم کیا ہے اور ہر فصل میں قیمتی اور تحقیقی معلومات نقل کی ہیں۔ فصل اول میں غزوہ حنین اور تبوک کی درمیانی مدت میں وقوع پذیر ہونے والے مختصر فوجی حالات و واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ فصل دوم میں قبائل شام کی تاریخ، تخریبی عناصر کا مدینہ میں متحرک ہونا، منافقین کے تعرفات کے نمونے اور دیگر حالات کا بیان ہے۔ فصل سوم میں غزوہ تبوک کے لئے مسلمانوں کی روانگی، غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے مؤمنین، حجۃ الوداع کے خطبہ کی مانند رسول کریم ﷺ کا خطبہ اور تربیت نبوی ﷺ کا ایک واقعہ اور دیگر مختلف واقعات کا...
اسلام کی سنہری تاریخ، قیمتی خزانوں اور بہادرانہ اور قابل تعریف کارناموں سے بھرپور ہے۔ اسلام کے فیصلہ کن معرکوں میں سے ایک ’’معرکہ خیبر‘‘ ہے۔ محرم ۷ہجری کا یہ واقعہ اپنے عوامل اور عواقب کے اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس واقعے کے نتیجے میں نہ صرف یہودیوں کی سطوت اور طاقت پارہ پارہ ہو گئی بلکہ مسلمانوں کو بھی ان کی جانب سے مکمل تحفظ حاصل ہو گیا۔ زیرِ نظر کتاب ’’علامہ محمد أحمد باشمیل‘‘ کی تصنیف ہے جس کو ’’اختر فتح پوری‘‘ نے اردو قالب میں منتقل کیا ہے۔ قابل مصنف نے اسلام کے فیصلہ کن معرکے کے عنوان پر سلسلہ وار مختلف معرکوں پر کتب لکھی ہیں۔ ان میں ہر واقعہ کے پس منظر، محرکات اور جزئیات پر بحث کی ہے اور ایک ایک نقطہ اور ایک ایک مقام کو اپنی وسعت فکر و نظر کا موضوع بنایا ہے۔ واقعہ خیبر اس سے پہلے اتنی مفصل اور مستند معلومات کے ساتھ شاید ہی کسی کتاب میں مذکور ہوا ہو۔ قابل مصنف نے کتاب کو چار فصول میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی فصل میں یہود خیبر کی مختصر تاریخ اور خیبر کے جغرافیے پر بحث کی ہے۔ دوسری فصل میں خیبر کی فتح...
حفاظتِ حدیث کے نقطہ نگاہ سے جب رویانِ حدیث کی جانچ پڑتال شروع ہوئی توان کے عہد اور ان کی معاصرت کی تلاش شروع ہوئی۔ اس طرح علم طبقات الرجال وجود میں آیا۔ تذکرہ رجال کی قدیم ترین کتابوں میں سے ایک مہتم بالشان کتاب ’طبقات الکبیر‘ کا اردو قالب اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ کتاب ایک بہت ہی وسیع تذکرہ ہے بلکہ ایسے جزئی واقعات پر بھی اس کا احاطہ ہے جن کے ذکر سے دوسری کتب خالی ہیں۔ ’طبقات ابن سعد‘ کی ترتیب طبقات پر ہے۔ مصنف سب سے پہلے محمد رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ایک ایک چیز کے لیے متعدد روایتیں پیش کرتے ہیں۔ عہد رسالت کے بعد وہ ایک ایک مقام کی تعیین کے ساتھ وہاں کے رہنے والے صحابہ کرام اور تابعین کے حالات طبقہ بہ طبقہ بیان کرتے ہیں۔ ابن سعد سب سے پہلے بدری صحابی کا ذکرکرتے ہیں اس کے بعد سابقون الاولون کا پھر مدینہ منورہ کے دیگر صحابہ کا اس کے بعد مدینہ منورہ کے تابعین کا۔ اس کے بعد اسی ترتیب کے بموجب بصریین، کوفیین اور دیگر مقامات میں رہنے والے صحابہ و تابعین کا طبقات پر مرتب تذکرہ اس کتاب میں ملتا ہے۔ آخری حصہ خواتین کے تذک...
غزوات سے متعلق تاریخی کتب میں بہت سا مواد موجود ہے لیکن ان غزوات کے اسباب وعلل اور دیگر متعلقہ واقعات کو الگ کتابی شکل میں پیش کرنا یقیناً ایک مبارک کام ہے۔ علامہ محمد احمد باشمیل صاحب نے غزوات سے متعلق جو سلسلہ شروع کیا ہے یہ اس سلسلے کی آٹھویں کڑی ہے۔ اس سے قبل آپ غزوہ بدر، احد، احزاب، بنی قریظہ، صلح حدیبیہ، غزوہ خیبر اور غزوہ موتہ پر قیمتی معلومات فراہم کر چکے ہیں۔ ان کتب کو عوام و خواص سند قبولیت عطا کر چکے ہیں۔ اس کتاب کا موضوع فتح مکہ ہے جس کا معاملہ بڑا حیرت انگیز ہے اس لیے کہ یہ فتح بغیر جنگ کے ہوئی ہے اور یہ عظیم ترین قائد نبی کریم ﷺ کی دور اندیشی کا پختہ پھل ہے۔ یقیناً اس غزوے کا مطالعہ مسلمانوں کے ایمان کی تازگی کا باعث ہو گا۔ (ع۔م)
علامہ محمد احمد باشمیل صاحب زیر نظر کتاب ’غزوہ احزاب‘ سے قبل ابتدائی دو غزوات غزوہ بدر اور غزوہ احد پر خامہ فرسائی کر چکے ہیں۔ جس میں انھوں نے ان دونوں غزوات کے تفصیلی حالات و واقعات قلمبند کیے۔ اس کتاب میں بھی مصنف نے نہ صرف غزوہ احزاب کے تفصیلی واقعات کو بیان کیا ہے بلکہ ان تمام فوجی اور سیاسی واقعات کا بھی تذکرہ کیا ہے جن میں مسلمان غزوہ احد اور غزوہ احزاب کے درمیان زندگی گزارتے رہے۔ مصنف نے ان سات سریع اور فوجی حملوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اسلامی فوج نے مسلمانوں کے مرکز کی مضبوطی اور اس ہیبت کو پختہ کرنے کے لیے کیے جو غزوہ احد کے بعد دلوں سے اکھڑ چکی تھی۔ (عین۔ م)
علامہ محمد احمد باشمیل صاحب نے غزوات کے حالات و واقعات کو قلمبند کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ’غزوہ بنو قریظہ‘ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی ہے۔ غزوات سے متعلق تاریخی کتب میں بہت سا مواد موجود ہے لیکن ان غزوات کے اسباب وعلل اور دیگر متعلقہ واقعات کو الگ کتابی شکل میں پیش کرنا یقیناً ایک مبارک کام ہے۔ ’غزوہ بنو قریظہ‘ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ اس غزوہ نے مسلمانوں کی تقدیر میں نہ صرف انقلاب برپا کر دیا بلکہ دنیا کے پردے سے گمراہی اور ظلمتوں کی گھٹائیں بھی ہٹا دیں۔اس معرکے نے یہودی عنصر کا کا صفایا کیااور جزیرہ عرب کو اس کے شرور آثام اور اس کی سازشوں سے نجات دلا دی۔ یہ سازشیں ایسی تھیں جو صرف اس خبیث عنصر کے اڈوں پر ضرب لگانے سے ہی رک سکتی تھیں۔ (عین۔ م)
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ خلافت مختصر ہونے کے باوجود کمال سے بھرپور اور اعمال صالحہ سے آراستہ و پیراستہ تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا عہد خلافت لوگوں کے لیے پرسکون اور پر امن زمانہ تھا۔ سیرت کی بہت سی کتابوں میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں دو کتب سب سے ممتاز نظر آتی ہیں۔ جن میں سے ایک مؤرخ ابن جوزی کی ’سیرت عمر بن عبدالعزیز‘ جبکہ دوسری ابن الحکیم کی’سیرت عمر بن عبدالعزیز‘ہے۔ یہ دونوں کتب چونکہ قدیم ہیں اس لیے ان کا اسلوب بھی قدیم ہے ان میں تنقید اور بحث و مباحثہ سے گریز کرتے ہوئے روایات کو جمع کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتاب میں مصنف نے ان کتب کے واقعات و روایات کو جدید اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ان کتابوں میں بیان کردہ تقریباً تمام اہم واقعات اس کتاب کا حصہ ہیں۔ جس میں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کی پوری تاریخ جمع ہو گئی ہے اور مدت خلافت کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے۔ نیز آپ رحمۃ اللہ علیہ کے لا زوال کارنامے تفصیل کے ساتھ قلمبند کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
حضور نبی کریمﷺ کی حیات طیبہ تمام مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور چراغ راہ ہے۔ دین اسلام کی تعلیمات نہایت سادہ، واضح اور عام فہم ہیں، ان میں کسی قسم کی پیچیدگی کا گزر نہیں ہے۔ ان تعلیمات و ہدایات کا مکمل نمونہ آنحضرتﷺ کی ذات گرامی تھی فلہٰذا جب تک آپﷺ کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے نہ ہو اس وقت تک نہ ہم اسلام کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی صحیح طور پر اس پر عمل کر سکتے ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے ’زاد المعاد‘ کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی۔ جس میں پوری صحت و استناد کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ اور اسوہ حسنہ کا تفصیلی، تحقیقی اور دقت نظر کے ساتھ ذکر موجود ہے۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کو اردو دان طبقہ کے لیے پیش کیا جا رہا ہے اور اردو ترجمہ کے سلسلہ میں رئیس احمد جعفری صاحب کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیاہے، پہلا حصہ آپﷺ کے حلیہ، عادات و شمائل اور طرز زندگی پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسرے حصے میں آپﷺ کے غزوات و مجاہدات اور حالات و سوانح وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد اور یگانہ ہے۔ اسی طرح کتاب کا ترجمہ ب...
ہجرت کے بعد مسلمانوں کا سب سے پہلا غزوہ بدر کےمقام پر لڑی جانےوالی جنگ ہے۔ اس معرکہ میں کفار مکہ کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی اور ان کا پورا سراپا لوہے کے ہتھیاروں سے آراستہ تھا ۔ جبکہ مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی، ان کے ہتھیار ٹوٹے ہوئے اور ان کی تلواریں کند تھیں۔ لیکن پھر بھی مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی مدد اور توحید کے سچے جذبے کے ساتھ دشمنان اسلام پر فتح پائی۔ زیر مطالعہ کتاب میں محترم احمد باشمیل نے اسی غزوہ کو ایک منفرد انداز میں صفحات پر بکھیر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف غزوہ بدر کی تمام جزئیات سامنے آگئی ہیں بلکہ اس وقت کے مسلمانوں کا جذبہ جہاد اور جوش ایمانی کا بھی بھرپور اندازہ ہو جاتا ہے۔ کتاب کا سلیس اردو ترجمہ مولانا اختر فتح پوری نے کیا ہے۔(ع۔ م)
دنیا میں وہ کون آدمی ہے، جو اپنی ا ولاد کو اچھے اخلاق اور ستودہ صفات سے مزین نہ دیکھنا چاہتا ہو،ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باادب بامراد ہو۔لیکن ہماری ان تمناؤں کا کس طرح خون ہو رہا ہے؟ ذرا اپنے گرد وپیش پرنظر اٹھا کر دیکھیئے ، اپنے گھر ، کنبے اور خاندان ہی کو دیکھ لیجیے۔کیا یہ امر واقعہ نہیں ہے کہ ہماری وہ اولاد جو ہمارے ہی خون سے پیدا ہوئی ہے، اور جسے ہم بہتر سے بہتر دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اس کے نزدیک ہماری حیثیت بہتر وبرتر کی بجائے خبطی اور بدتر کی ہے۔آخر اس کا سبب کیاہے۔ ان تمام خامیوں کا حل آب کو اس کتاب ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ملے گا۔ جو ان احادیث نبویہﷺ وآثار صحابہ پر مشتمل ہے، جو اخلاقیات، باہمی تعلقات، حقوق وفرائض، اورمعاشرتی مسائل سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب ایک مسلمان کی اخلاقی زندگی کےلیے وہ چشمہ ہدایت ہے،جسے دنیائے اسلام کے سب سے بڑے محدث حضرت امام بخاری ؒ نے جمع کرکے امتِ اسلامیہ تک پہنچایا ہے۔ اس کتاب سے&nb...
غزوۂ موتہ کا شمار اسلام کے فیصلہ کن معرکوںمیں ہوتا ہے یہ جنگ روم کے عیسائیوں کے خلاف لڑی گئی اس میں آپﷺ نے تین سپہ سالاروں کومقررکیا لیکن وہ تینوں شہید ہوگئے تو مسلمانوں کو انتہائی پسپائی اور شکست کا سامنا کرنا پڑا۔تو اس صورت حال میں حضرت خالد بن ولید نے اسلامی فوج کی قیادت سبنھالی اور مسلمانوں کو جمع کرکے رومیوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ زیر نظر کتاب عرب کے مشہو ر تاریخ دان احمد باشمیل کی عربی کتاب کاسلیس آسان ترجمہ ہے فاضل مؤلف نے اس کتاب میں شام کے حالات وواقعات اس کاتاریخی پس منظر او رہجرت کے بعد واقع ہونے واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے ان امورکی وضاحت بھی پیش کی جن کےنتیجہ میں غزوۂ موتہ پیش آیا تھا او راس غزوہ کے حالات واقعات کو تفصیلاً پیش کیا ہے ۔(م۔ا)
لفظ فلسفہ یونانی لفظ فلوسوفی یعنی حکمت سے نکلا ہے۔ فلسفہ کو تعریف کے کوزے میں بند کرنا ممکن نہیں، لہذا ازمنہ قدیم سے اس کی تعریف متعین نہ ہوسکی۔ فلسفہ کا موضوع وجود ہے۔ پس کائنات کی ہر شئی اس علم میں داخل ہے۔ لیکن وجودِ عام سے بحث کرتا ہے۔ فلسفہ کسی بھی شئ کے متعلق اٹھنے والے بنیادی سوالات کا جواب فراہم کرتا ہے۔ اب اگر وہ دین ہو تو فلسفہ دین، اگر تاریخ ہو توفلسفہ تاریخ، اگر اخلاق ہو تو فلسفہ اخلاق، اگر وجود ہوتو فلسفہ وجود کہا جاتا ہے۔دین اسلام میں، دو الفاظ بعض اوقات فلسفے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں، پہلا فلسفہ اور اس کے ساتھ منطق، ریاضی اور طبیعیات جبکہ دوسرے سے مراد علم الکلام ہے جو ارسطویت اور نو افلاطونیت کی تشریحات پر مبنی فلسفہ ہے۔ اسلامی فلسفہ بھی زندگی کے ساتھ منسلک مسائل کی منظم تحقیقات کے طور پر بیان کیا گیا ہے، کائنات، اخلاقیات اور تہذیب وغیرہ کا فلسفہ عالم اسلام میں پیش کیا گیا۔ فلسفہ کے متعلق متعدد کتب موجود ہیں جن میں غزالی اور ابن رشد کی کتب قابل ذکر ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تاریخ فلاسفۃ الاسلام ‘‘ محمد لطفی جمعہ ک...
ہندوستانی موضوعات پرلکھنے والے عہد وسطی کے عرب مصنفین ہندوؤں کو علم ودانش سے آراستہ قوم قرارد یتے ہیں۔ ان مصنفین نےہندو زندگی سے متعلق موضوعات پر بہت کچھ لکھا ہے۔عربوں نےقدیم ہندوستان کے بارے میں کیا اور کتنا لکھا یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی بہت سے اور بالخصوص معرکۃ الآراء کتابیں تنگ ذہن علماء کےتعصب ،بے اعتنائی ، باہمی مسلکی او رمذہبی نزاع اور دوسرے آسمانی حوادث کی نذر ہوگئی ہیں۔ مسلمانوں نےاپنے ابتدائی دور میں سندھ کو ایک نئی تہذیب او ر کلچر سے آشنا کیاتھا ۔ اس کی تفصیل مختلف مؤرخوں کے بیانات سے ملتی ہے۔ جناب خورشید احمد فاروق کی زیر کتاب ’’ برصغیر او رعرب مؤرخین‘‘ مختلف مؤرخوں کےایسے ہی بیانات کا مجموعہ ہے۔ نیزیہ کتا ب محمود غزنوی سے پہلے کے ہندوستان (نویں،دسویں صدی عیسوی) کے مذہب ، تمدن ، علوم ، تاریخ اور تجارت وغیرہ سے متعلق عرب مؤلفوں کے بیانات پر مشتمل ہے۔تاکہ اس سے وہ محققین مستفیض ہوسکیں جو یا تو عربی نہیں...
ایک آیت قرآنی کے مطابق روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے ۔قرآن پاک کی آیات میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ انسان ناقابل تذکرہ شئے تھا۔ ہم نے اس کے اندر اپنی روح ڈال دی ہے۔ یہ بولتا، سنتا، سمجھتا، محسوس کرتا انسان بن گیا۔درحقیقت انسان گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے کے اعتبار سے ناقابل تذکرہ شئے ہے۔ اس کے اندر اللہ کی پھونکی ہوئی روح نے اس کی تمام صلاحیتوں اور زندگی کے تمام اعمال و حرکات کو متحرک کیا ہوا ہے۔جب کوئی مر جاتا ہے تواس کا پورا جسم موجود ہونے کے باوجود اس کی حرکت ختم ہو جاتی ہے۔یعنی حرکت تابع ہے، روح کے۔ درحقیقت روح زندگی ہے اور روح کے اوپر ہی تمام اعمال و حرکات کا انحصار ہے۔ اور جان اور روح آپس میں جُڑی ہوئی ہیں لیکن الگ ہونے کے قابل ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ کتاب الروح ‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے نامور شاگرد علامہ ابن قیم کی روح کے متعلق تحریر شدہ کتاب ’’ کتاب الروح‘‘ کا اردو ترجمہ ہے مولانا راغب رحمانی نے اس کتا ب کو اردو قال...
قوموں کی زندگی میں تاریخ کی اہمیت وہی ہے جو کہ ایک فرد کی زندگی میں اس کی یادداشت کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد واحد کی سوچ ، شخصیت ، کردار اور نظریات پر سب سے بڑا اثر اس کی یادداشت کا ہوتا ہے اسی طرح ایک قوم کے مجموعی طرز عمل پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز اس کی تاریخ ہوتی ہے ۔ کوئی بھی قوم اس وقت تک اپنی اصلاح نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے اسلاف کی تاریخ اور ان کی خدمات کو محفوظ نہ رکھے۔ اسلامی تاریخ مسلمانوں کی روشن اور تابندہ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’تاریخ یعقوبی ‘‘ تیسری صدی ہجری کے معروف مؤرخ اور جغرافیہ دان احمد بن ابی یعقوب بن جعفر بن وَہْب بن واضح یعقوبی کی تصنیف ہے یعقوبی بنو عباس کے دربار کا کاتب تھا۔ انہوں نے 284ھ میں وفات پائی۔ تاریخ یعقوبی دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ جلد اول کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے ہوتا ہے اس جلد میں سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیائے بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ جبکہ دوسری جلد نبی کریم ﷺ کی ولادت سے شروع ہوتی ہے اس جلد میں 259ھ تک کی اسلامی تاریخ مرقوم ہے ۔(م۔ا)