حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اس عہد میں بلکہ جب تک دنیا باقی ہے صاحب قرآن کی سیرت وحیات مقدس کے مطالعے سے بڑھ کر نوع انسانی کے تمام امراض قلوب کا اور کوئی علاج نہیں۔ قرآ ن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت ہے۔ قرآن متن ہےاو رسیرت اس کی تشریح ہے۔ قرآ ن علم اور سیرت اس کا عمل ہے۔ قرن اول سے لے کر اب تک امام کائنا ت سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی سیرت پر ہر زبان میں بے شمار کتب لکھی جاچکی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی ۔زیر نظر کتاب مولانا ابو الکلام آزاد کے جاری کردہ اخبار ’’الہلال ‘‘اور ’’البلاغ‘‘ میں مولانا آزاد کے سیرت النبی ﷺ پر شائع ہونے والی مضامین ومقالات کا مجموعہ ہے ۔(م۔ا)
اہل بیت سے محبت رکھنا جز و ایمان ہے اس لیے کہ اس مسئلہ کی بڑی اہمیت ہے ا ہل علم نے اس مسئلہ پر مستقل رسائل تصنیف کیے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ کی اہمیت کو بیان کیا ہے چنانچہ اہل السنہ کے نزدیک فرمان نبوی ﷺ کے مطابق اہل بیت سے محبت رکھناجزو ایما ن ہے اور کسی طرح کے قول وفعل سے ان کوایذا دینا حرام ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور عبد المطلب بن ہاشم کی ایمان قبول کرنے والی ساری اولاد اہل بیت میں شامل ہے خواتین اہل بیت وہی پاکیزہ ،معزز خواتین ،مؤمنات ،طیبات ومبشرات ہیں کہ جن کاذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نہایت عزت واحترام سے کیا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی الائش سےقطعی طور پر پاک کردیا ہے. زیر نظر کتا ب رسالت مآب ﷺ کی پاکیزہ ازواج مطہرات ، بیٹیوں اور نواسیوں کی پر نور سیرت کا دل آویز اور ایمان افروز تذکرہ پر مشتمل ہے جو کہ مسلم خواتین کے لیے ایک رہنما کتاب ہے یہ عربی کتاب نساء اهل بیت کا ترجمہ ہے جس میں فاضل مصنف نے دلنشیں اور ادبی اسلوب اختیار کرتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں خواتین اہل بیت کی سوانح حیات کو شرح وبسط کے ساتھ مدلل انداز میں بیان کیا ہے ماشاء اللہ دارالابلاغ نے اس کتاب کو نہایت عمدہ اور دیدہ زیب انداز میں حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ یو ں یہ کتاب خواتین اہل اسلام کے لیے گراں قدر عظیم تحفہ ہے اللہ مومنات کواس سےخوب استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔دارالابلاغ کے بانی طاہر نقاش صاحب نہایت عمدہ ذوق رکھتے ہیں اور خود بھی ا چھے قلم کار ہیں ا، عورتوں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے کئی عمدہ کتب شائع کرچکے ہیں اللہ تعالی ان کی صلاحیتوں میں مزید برکت اور ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے (آمین)(م۔ا)
اہل حدیث مروجہ مذہبوں کی طرح کوئی مذہب نہیں ہےاورنہ ہی فرقوں کی طرح کوئی فرقہ ہے ۔ اہل حدیث ایک جماعت او رایک تحریک کا نام ہے۔ جس کا بنیادی موقف زندگی کےہر شعبے میں قرآن وحدیث کے مطابق عمل کرنا او ردوسروں کو ان دونوں پر عمل کرنے کی ترغیب دلانا ،یا یو ں کہہ لیجیئے کہ اہل حدیث کانصب العین کتاب وسنت کی دعوت او ر اہل حدیث کا منشور قرآن وحدیث ہے زیر نظر کتابچے میں مولانا حافظ جلال الدین قاسمی فاضل دار العلوم دیو بند﷾ نے لفظ اہل حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے مختصراً تاریخ اہل حدیث کو دلائل کے ساتھ بڑےاحسن انداز میں بیان کیا ہے او ر یہ ثابت کیا ہے کہ اہل سنت سے مراد اہل حدیث ہی ہیں ۔(م۔ا)
موجودہ دور میں جہاں خود ساختہ قصے کہانیاں، بے سروپا نا ول و افسانے ہاتھوں ہاتھ لیے جا رہے ہیں وہیں احادیث سے محبت کا ذوق دم توڑ رہا ہے اسی کمی کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی اکادمی نے صحاح ستہ میں معتبر مقام رکھنے والی کتاب ’سنن نسائی‘ کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس کتاب کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم قارئین ’کتاب وسنت ڈاٹ کام‘ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ حسن ترتیب، طریق استدلال، صحت نقل، توضیح ابہامات اور بیان علل کے پیش نظر بعض مغاربہ نے اس کو تمام صحاح ستہ پر اولیت دی ہے۔ اس سے قبل یہ کتاب علامہ وحید الزماں کے نہایت سلیس ترجمہ اور بریکٹوں میں تشریح کے علاوہ مفید حواشی کےساتھ شائع ہوچکی ہے۔ لیکن اس کتاب میں کچھ مزید اضافہ جات کے ساتھ ہدیہ قارئین کیا جا رہا ہے۔ کتاب کے شروع میں امام نسائی اور نواب وحید الزماں کے حالات و خدمات بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔
تعلیم کا مسئلہ ہر ملک کےلیے ایک بنیادی حیثیت رکھتاہے ۔کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کے لیے یہ ایسی شاہ کلید ہے ،جس سے سارے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں ۔مسلمانوں نے جب تک اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا وہ دنیا کے منظرنامہ پر چھائے رہے اور انہوں نے دنیا کو علم کی روشنی سے بھر دیا ، لیکن جب مسلمانوں کی غفلت کے نتیجے میں پوری دنیا اخلاقی بحران کاشکار ہوگئ تو عالم اسلام خاص طور پر اس سے متاثر ہوا۔اس کی سب سےبڑی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنی بنیاد ہی فراموش کردی اور یورپ کے نظام تعلیم کو اختیار کرلیاجس نے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ خود اسلامی ملکوں میں پڑھنے والوں کا حال یہ ہے وہ جب اپنی اپنی یونیورسٹیوں سے پڑھ کرنکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہ یورپ کے پروردہ ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی ملکوں میں ایک کشمکش کی فضا پید ا ہوگئی ہے۔مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی تقریروں او رتحریر وں میں اسلامی ملکوں میں ذہنی کشمکش کا بنیادی سبب مسلمانوں میں رائج یورپی نظام تعلیم کو قرار دیا اوراز سرنو پورا نظام تعلیم وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس کوعالم اسلام کا سب سے بڑا چیلنچ قرار دیا۔ زیر نظر کتاب بھی مولانااابو الحسن علی ندوی کی اس موضوع پر اہم تقاریر ومضامین کا مجموعہ ہے جس میں مولانانے اسلامی ملکوں میں نظام تعلیم کی اہمیت اور وہاں کی قیادت، نظام تعلیم وتربیت کا معاشرہ اور اس کے رجحانات ،نظام تعلیم وتربیت کی بنیادیں،نصاب تعلیم ۔جیسے اہم موضوعات پر تفصیلی بحث کی ہےاللہ تعالی مولانا کے درجات بلند فرمائے۔(آمین)(م۔ا)
محدثین کرام نے نہایت جانفشانی کے ساتھ احادیث کی کتابوں کے مجموعے لکھے، اسماء الرجال کا علم مدون کیا اور اصول حدیث کی کتابوں کو زیب قرطاس کر کے ہمارے لیے آسانیاں فراہم کیں۔ زیر نظر کتاب ’اختصار علوم الحدیث‘ بھی دراصل اصول حدیث پر لکھی جانے والی اسماعیل بن عمر بن کثیر کی شاندار کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی کے ترجمے اور تحقیق و حواشی نے کتاب کو چار چاند لگادئیے ہیں جس سے ان کی خداداد صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں نہایت عرق ریزی کے ساتھ حدیث کی تمام اقسام مثلاً صحیح، حسن، ضعیف، معضل، منقطع اور شاذ وغیرہم کی تمام تر ضروری تفصیلات کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔
مولانا حمید الدین فراہی نے علم نحو کی اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ’اسباق النحو‘ کے نام سے کتاب لکھ کر مدارس کے طلباء کے لیے مناسب سہولت فراہم کی۔ لیکن ایک عام طالب علم کے لیے اس سے استفادہ کرنا دشوار ہے۔ مولانا خلیل الرحمٰن چشتی نے اسی مشکل کو سامنے رکھتے ہوئے ’قواعد زبان قرآن‘ کے نام سے مولانا فراہی کی کتاب کو نہایت سہل انداز میں ترتیب دیا اور جا بجا قرآنی مثالوں کے ذریعے عربی زبان کے قواعد سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ مولانا نے جدید طریقہ تدریس کے پیش نظر پہلے اصول بتایا ہے پھر مثال دی ہے اور آخر میں چند مثالوں کی تحلیل کر دی گئی ہے تاکہ طالب علم کو اصول و قواعد سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کتاب کو اس انداز سے مرتب کیا گیا ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ استاد کے بغیر خود مشقوں کو حل کر سکے۔
مؤرخین کی جانب سے تاریخ اسلام پر متعدد کتب سامنے آ چکی ہیں لیکن ایسی کتب معدودے چند ہی ہیں جن میں ایسے اصولوں کی وضاحت کی گئی ہو جن کی روشنی میں معلوم کیا جا سکے کہ بیان کردہ تاریخی واقعات کا تعلق واقعی حقیقت کے ساتھ ہے۔ علامہ ابن خلدون نے تاریخ اسلام پر ’کتاب العبر و دیوان المبتداء والجز فی ایام العرب والعجم والبریر‘ کے نام سے ایک شاندار کتاب لکھی اور اس کے ایک حصے میں وہ اصول اور آئین بتائے جن کے مطابق تاریخی حقائق کو پرکھا جا سکے۔ انہی اصول وقوانین کا اردو قالب ’مقدمہ ابن خلدون‘ کے نام سے آپ کے سامنے ہے۔ کتاب کے رواں دواں ترجمے کےلیے علامہ رحمانی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ مقدمے کی تقسیم چھ ابواب اور دو جلدوں میں کی گئی ہے۔ دونوں جلدیں تین، تین ابواب پر محیط ہیں۔ پہلے باب میں زمین اور اس کے شہروں کی آبادی، تمول و افلاس کی وجہ سے آبادی کے حالات میں اختلاف اور ان کے آثار سے بحث کی گئی ہے۔ دوسرے باب میں بدوی آبادی اوروحشی قبائل و اقوام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے باب میں دول عامہ، ملک، خلافت اور سلطانی مراتب کو قلمبند کرتے ہوئے کسی بھی سلطنت کےعروج و زوال کے اسباب واضح کیے گئے ہیں۔ چوتھے باب میں شہروں، مختلف آبادیوں اور ان کے تمدن کو واضح کیا گیا ہے نیز مساجد اور مکانوں کی تعمیر سے بھی بحث کی گئی ہے۔ پانچواں باب معاش و کسب و صنائع پر مشتمل ہے تو چھٹا اور آخری باب علوم اور ان کی اقسام، تعلیم اور اس کے طریقوں اور مختلف صورتوں پر مشتمل ہے۔
نبی کریم ﷺ نے جس طرح حدیث کو حاصل کر نے کی ترغیب دی اور اس کےحاملین کے لیے دعا فرمائی ہے، اسی طرح حدیث وضع کرنے یا حدیث کے نام پر کوئی غلط بات آپﷺ کی طرف منسوب کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور ایسے لوگوں کو جہنم کی وعید سنائی ہے۔ علماء اور محدثین نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اختیار کیا ہے،اوران کے نزدیک حدیث کووضع کرنے والا اسی سلوک کا مستحق جو سلوک مرتد اور مفسد کےساتھ کیا جاتاہے ۔ وضع حدیث کی ابتداء ہجرت نبوی ﷺ کے چالیس سال بعد ہوئی۔ حدیث وضع کرنے میں سرفہرست روافض تھے ۔خوفِ خدا اور خوف آخرت سے بے نیازی نے اس معاملہ میں ان کو اتنا جری بنا دیا تھاکہ وہ ہر چیز کو حدیث بنادیتے تھے۔ علمائے اسلام نے واضعین کے مقابلہ میں قابل قدر خدمات انجام د ی ہیں ۔انہوں نے ایسے اصول وقواعد مرتب کیے او ر موضوع حدیث کی ایسی علامتیں بتائیں جس سے موضوع احادیث کےپہچاننے میں بڑی آسانی ہوجاتی ہےانہوں نے موضوع احادیث پر مشتمل کتب لکھیں تاکہ لوگ ایسی احادیث سےباخبر ہوجائیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ’’ فتنہ وضع حدیث اور موضوع احادیث کی پہچان‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ، جس میں فاضل مصنف نے فتنۂ وضع حدیث کے داخلی وخارجی اسباب کو بیان کرتے ہو ئے اس فتنہ کے سد باب کے سلسلے میں علماء ومحدثین کی مساعی اور موضوع احادیث کن علامتوں کے ذریعہ سےبآسانی پہچانی جاسکتی ہیں کو بڑے احسن انداز سے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کو شش کو قبول فرمائے اور اہل اسلام کے لیے مفید بنائے۔ (آمین)(م۔ا)
یوں تو قرآن پاک مکمل ہی ہدایت ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو خاص طور سے مخاطب کر کے کوئی بات کہتا ہے تو اس سے ایک طرح کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اور دل خود بخود متوجہ ہوتا ہے کہ دیکھیں کیا بات کہی جا رہی ہے۔ عام زندگی میں بھی کسی کو نام لے کر پکارا جائے تو سننے والا پوری توجہ اور دھیان سے بات سننے کو تیار ہو جاتا ہے۔ اور خاص طور پر متوجہ کرنے کے لیے یہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں بار بار اللہ تعالیٰ یا ایہا الذین اٰمنو (اے ایمان والو!) کہہ کر ہمیں بڑی محبت سے بلاتا ہے۔ اس کتاب میں قرآن کے وہ تمام مقامات یکجا کر دئے گئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمارا نام لے کر مخاطب کیا ہے اتنی کامیاب ہدایات خاص ہمارے ہی لیے رب دو جہاں نے نازل فرمائی ہیں۔ یوں تو ہم ان ہدایات کو قرآن میں پڑھتے ہی ہیں لیکن ایک ہی جگہ ان سب ہدایات کے مجموعے کو پڑھنا ان شاء اللہ ضرور مفید ہوگا۔ساتھ ہی کچھ تشریحی
تمباکو نوشی انسانی معاشرے کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے ، اس کے کئی جسمانی وذہنی نقصانات ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک بڑے طبقہ میں اس کا استعمال مدتوں سے مختلف شکلوں میں جاری ہے تمباکو نوشی کے رحجان کوکم کرنے اور اس پر قابو پانے کے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ انسانی صحت پر اس کے گہرے برے اثرات،اجتماعی اور اقتصادی حیثیت سے اس کے نقصانات کے جائزہ لینے کے لیے اور انسانی آبادی کے وسیع رقبے تک اس کی آواز پہچانے کے لیے نہ جانے کتنی مجالس اور کانفرسیں منعقد ہوچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’تمباکو اور اسلام ‘‘مولانا حفظ الرحمن اعظمی ندوی فاضل مدینہ یونیورسٹی کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے تمباکو نوشی کے حکم کو کتاب وسنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے تاریخی واقعات ووشواہد سے ثابت کیا ہےکہ تمباکونوشی کا جواز کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کی افادیت کوعام فرمائےاور اس کوتمباکونوشی او رنشہ آوری کی عام بیماری سے روکنے کا ذریعہ بنائے (آمین)(م۔ا)
مسلمانوں کی اصل کامیابی قرآن مجیداور احادیث نبویہ پر عمل کرنے میں ہے۔ مسلمانوں کوعملی زندگی میں قرآن وحدیث ہی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اور دین میں نئی نئی بدعات گھڑ کر اسے دین بنا لینے سے احتراز کرنا چاہئے۔دین میں گھڑی گئی متعدد بدعات میں سے ایک بدعت بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی ﷺ منانےکی ہے۔ بہت سارے مسلمان ہرسال بارہ ربیع الاول کو عید میلادالنبی ﷺ او رجشن مناتے ہیں ۔عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا ہے ، جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں، نعت خوانی کےلیے محفلیں منعقدکی جاتی ہیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور پر چھٹی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر قرآن وحدیث اور قرون اولی کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہےکہ قرآن وحدیث میں جشن عید یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔نہ نبی کریم ﷺ نے اپنا میلاد منایا او رنہ ہی اسکی ترغیب دی۔ قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ﷺ ،تابعین، اورتبع تابعین کا زمانہ جسے نبی کریم ﷺ نے بہترین زمانہ قرار دیا ان کے ہاں بھی اس عید کا کوئی تصور نہ تھا۔ معتبر ائمہ دین کےہاں بھی نہ اس عید کا کو ئی تصور تھا اور نہ وہ اسے مناتے تھے او ر نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اس کی تلقین کرتےتھے ۔ نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز نبی ﷺ کی وفات سے تقریبا چھ سو سال بعد کیا گیا ہے ۔زیر نظر کتابچہ مولانا کفایت اللہ سنابلی کی کاوش ہے جس میں انہوں نے عید میلاد کی تاریخ ،اس کی شرعی حیثیت ،عیدِ میلاد منانے والوں کے دلائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں جائزہ وغیرہ جیسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، اور ثابت کیا ہے کہ عہد نبوی ،عہد صحابہ اوربعدکے ادوار میں اس مروجہ جشن میلا النبی ﷺ کا کو ئی ثبوت نہیں ملتا،اس کو منانا بدعت ہے ۔ اللہ تعالی اس کتابچہ کو عوام الناس کےلیے نفع بخش بنائے (آمین)(م۔ا)
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدایت کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا۔ جس نے اپنی قوت ایمانی اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحید خالص کی اساس قائم کی۔ یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل محدث دہلوی تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ ان کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے‘‘ زیر نظر کتاب برصغیر پاک وہند کی اسلامی تاریخ کے اسی عظیم جرنیل شاہ اسماعیل شہید کی حیات مبارکہ پر مشتمل ہے کتاب کے پہلے حصہ میں شاہ اسماعیل شہید اور دوسرے حصہ میں سید احمد شہید کا تذکرہ ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالی نے عورت کو معظم بنایا، لیکن جاہل انسانوں نےاسے لہب ولعب کاکھلونا بنا دیا اس کی بدترین توہین کی اور اس پر ظلم وستم کی انتہا کردی۔ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتاہے کہ ہر عہد میں عورت کیسے کیسے مصائب ومکروہات جھیلتی رہی اور کتنی بے دردی سے کیسی کیسی پستیوں میں پھینک دی گئی۔ لیکن جب اسلام کا ابر رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکدم بدل گئی ۔محسن انسانیت جناب رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج پر احسان ِعظیم فرمایا ۔عورتوں کو ظلم ،بے حیائی ، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا انہیں تحفظ بخشا ان کے حقوق اجاگر کیے ماں،بہن ، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سےان کےفرائض بتلائے اورانہیں شمع خانہ بناکر عزت واحترام کی سب سےاونچی مسند پر فائز کردیااور عورت و مرد کے شرعی احکامات کو تفصیل سے بیان کردیا ۔زیر نظر کتا ب ’’عورت اور اسلام ‘‘مولانا حافظ جلال الدین قاسمی تالیف ہے جس میں انہوں اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے عورتوں کے احکام ومسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں احسن سے بیان کیا ہے یہ کتاب ایک علمی اور اپنےموضوع پر منفرد ،ہر گھر میں رکھے جانے کے لائق ہے ۔ فاضل مصنف ایک وسیع النظر عالم دین اورکئی کتب کے مصنف ہیں جن کی کتابوں کو علمی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے اللہ تعالی اس کتاب کومفید عوام وخواص بنائے (آمین)(م۔ا)
حیدر آباد شہر(انڈیا) کے مشہور دیو بندی عالم دین مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ’’’راہ اعتدال‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی، جس میں انہوں نے چند مشہور مسائل تقلید ، اما م ابو حنیفہ کا مقام ،قراءت خلف الامام ،رفع الیدین ،آمین بالجھر ،مصافحہ کا مسنون طریقہ، عورتوں اور مردوں کی نماز میں فرق ،خواتین کا مساجد میں آنا وغیرہ جیسے موضوعات پر خامہ فرسائی فرمائی ،اور انہوں نے ان مسائل میں اپنے مذہب کے اثبات میں آیات قرآنیہ کی تحریف سے بھی گریز نہیں کیا اور اپنے موقف کی تائید میں ہر ہر قدم پر روایات ضعیفہ کاسہارا لیا اور غیر مقلدیت کوگمراہی کا دروازہ کہا جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے ساری خرابیوں اورگمراہیوں کی جڑ تو تقلید ہے ۔ زیر نظر کتا ب ’’احسن الجدال بہ جواب راہ اعتدال ‘‘مولانا حافظ جلال الدین قاسمی فاضل دار العلوم دیو بند﷾ کی اہم تالیف ہے۔ جس میں انہوں نے رحمانی صاحب کی کتاب ’’ راہ اعتدال ‘‘کا تحقیقی جائزہ لیاہے اوررحمانی صاحب کی بے اعتدالیوں کا خوب محاسبہ کیا ہے۔ فاضل مصنف ایک وسیع النظر عالم دین اورکئی کتب کے مصنف ہیں ۔آپ کی کتابوں کو علمی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے اللہ تعالی مصنف کی اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے اور اس کتاب کومفید عوام وخواص بنائے (آمین)(م۔ا)
بنی نوع انسان کی ہدایت ورہنمائی کےلیے اللہ عزو جل نے مختلف اوقات میں حضرات انبیاء ورسل ؑ پر مختلف کتابیں نازل کیں لیکن وہ تحریف وتبدل کا شکار ہوگئیں قرآن کریم جوآخری صحیفۂ ہدایت ہے آج بھی اسی طرح محفوظ ہے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے نازل ہوا تھا یہی کتاب رہنما ،انسانیت کی ہدایت،فوزوفلاح اور کامیابی وکامرانی کی ضامن ہے ارشادنبوی ﷺ کے مطابق اللہ عزوجل اس کتاب کے ذریعے بہت سی قوموں کو رفعت وبلندی سے ہمکنار کرے گا او راس کو نظر انداز کرنے کی بناء پر بہت سوں کو ذلت ورسوائی کے گڑھوں میں دفن کردے گا آج امت مسلمہ کے ادباروذلت کی اصل وجہ قرآن حکیم سے دوری ہے آئیے قرآن کریم کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی تلاوت کریں اور اس کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تاکہ پھر سے کھوئی ہوئی شان وشوکت بحال کرسکیں۔
يورپ کے مستشرقین کی نقالی میں ہمارے ہاں بھی بہت سے ایسے متجددین پیدا ہوچکے ہیں جو حدیث وسنت کی تاریخیت ،حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک اور مشتبہ قرار دے کر اس سے انحراف کی راہ نکالنے میں ہمہ تن گوش ہیں-کبھی تدوین حدیث کے عمل کو تیسری صدی ہجری کی پیداوار قرار دیا جاتا ہے تو کبھی صحابہ کرا م کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بنا کر حدیث میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے-اس سلسلے میں صحیح بخاری وصحیح مسلم پر بھی شکوک وشبہات کا اظہار کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا-اسی سلسلے کی ایک کڑی مولانا حبیب الرحمان کاندھلوی کی کتاب ''مذہبی داستانیں'' ہے-جس میں صحیح بخاری ومسلم کو شدید نکتہ چینی کا نشانہ بناتے ہوئے محدثین کرام اور بعض صحابہ کرام بالخصوص حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسین وغیرہ شامل ہیں، کے بارے میں اخلاقی گرواٹ کا مظاہرہ کیا گیا - زیر نظر کتاب میں ارشاد الحق اثری صاحب نے خالص علمی اور تحقیقی انداز میں تمام اعتراضات کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے صحیح بخاری وصحیح مسلم کی ان تمام روایات کا دفاع کیا ہے جن کو '' مذہبی داستانیں'' میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے-
مذہب امامیہ، اہل تشیع کے رد میں تحفہ اثنا عشریہ کے بعد زیر تبصرہ کتاب آیات بینات اپنی نوعیت اور شان کی یہ منفرد تصنیف ہے۔ اس کتاب کا انداز مناظرانہ ہے لیکن اسلوب بیان میں اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔ اس کی اہمیت اس لئے بھی دو چند ہو جاتی ہے کہ مصنف پہلے خود شیعہ مذہب سے منسلک رہے اور پھردونوں مذاہب کے اصول و فروع کا عمیق مطالعہ کر کے شیعہ مذہب کو خیرباد کہا اور پھر یہ کتاب تصنیف کی۔ اس کتاب کا انداز بیان نہایت دل کش ہے، اس میں سنجیدگی، وقار اور اثر و تاثیر ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔ ہر بات کی تائید یا تردید میں کئی کئی دلائل پیش کئے گئے ہیں اور وہ سب ہی قوی ہیں۔ یہ کتاب مناظرہ کرنے والوں کے لیے تو ایک قیمتی تحفہ ہے ہی، ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایک قابل مطالعہ کتاب ہے۔ ہر شخص کے واسطے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایمان کو تازہ اور عقائد کو مضبوط کرنے کے لیے یہ کتاب نہایت توجہ سے پڑھے۔ اور جہاں تک ممکن ہو گمراہی کے گڑھے میں گرے دیگر بھائیوں کی اصلاح کے لیے اس کتاب کو عام کریں۔
ہمارے معاشر ے میں شریعت سے لاعلمی اور ناواقفیت کی بناء پر دینی مسائل سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں استحارہ کا مسئلہ بھی انہی میں شامل ہے لوگوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض دین فروش لوگوں نے اسے ذریعہ معاش بنارکھاہے اوروہ دولت ودنیا کے ساتھ لوگوں کی متاع ایمان بھی چھین رہے ہیں ان حالات میں ای ایسی کتاب کی اشدضرورت تھی جس میں استخارہ کا شرعی تصور اجاگر کیا گیا ہو اور قرآن وسنت کی روشنی میں اس کے صحیح طریقہ کی وضاحت کی گئی ہو زیرنظر کتاب ’’استخارہ‘‘اسی ضرورت کو بحسن خوبی پورا کرتی ہے جس کے مطالعہ سے ایک عام قاری بھی استخارہ کے تمام مسائل سے پوری طرح واقف ہوجاتا ہے اور اسے مزید کسی شے کے دریافت کی ضرورت نہیں رہتی ۔
ہمارا عمومی مشاہدہ یہ ہے کہ کالجوں،یونیورسٹیوں کے وہ جرائد جنہیں طلبہ اپنے اَساتذہ کی رہنمائی میں مرتب کرتے ہیں عموماً معیاری اور تحقیقی نہیں ہوتے بلکہ ان کا اجراء اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ طلبہ کو تحریر وتدوین کی مشق کا موقع ملے جائے اور عملی کام کر کے اس شعبے میں ان کی صلاحیتیں نکھر جائیں۔ دینی جامعات کے ترجمان جرائد کا حال خاصہ پتلا ہے چہ جائیکہ کسی دینی جامعہ کے ایسے جریدے کی وقیع علمی حیثیت مشاہدے میں آئے جو اصلاً طلبہ مجلہ ہو۔ اس لحاظ سے ماہنامہ رشد کازیر نظر شمارہ ایک استثنائی مثال ہے جو دقیع علمی وتحقیقی حیثیت کا حامل ہے ۔ اس میں علم قراء ات جیسے ادق موضوع پر خصوصی علمی و تحقیقی مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ماہنامہ’ رشد‘ کے اس شمارے کے مطالعے سے اس کے مضامین کے تنوع کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک طرف منکرین قراء ات اورمستشرقین کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا گیا ہے تو دوسر ی طرف قراءات کے اثبات اوران کے شرعی دلائل اورعقلی استدلالات وفوائد کابھی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی عمدہ اسلوب میں مترددین ومتشکّکین کی عقلی گرہیں کھولتا ہے۔ مزید یہ کہ مرتبین نے اس مجلہ میں علم تجوید وقراءات کے متعلق رسائل وجرائد میں شائع ہونے والے مضامین کا اشاریہ شائع کر کے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس شمارہ میں 1933ء سے لے کر اب تک 400 سے زائد مضامین کا اشاریہ مرتب کیا گیا ہے اور اسے علم قراءات ، حجیت و انکار قراءات، تدوین آداب تلاوت، قرآنی معلومات، فتاویٰ، قراء کا تعارف اور انٹرویو ز جیسے عنوانات کے تحت مصنف وار اور الف بائی ترتیب سے جمع کیا گیاہے، جس نے طالبان علم کے لئے اس ذخیرہٴ علم سے استفادے کو آسان بنا دیا ہے۔
جناب امین احسن اصلاحی صاحب اور ان کے تلمیذ رشید غامدی صاحب نے انکار حدیث کا اپنے انداز سے علمی اور عقلی اسلوب اپنایا ہے۔ جو "روشن خیال" مسلمانوں میں مغربیت پسندانہ ذہن سے موافقت رکھنے کی وجہ سے خوب پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔ ان حضرات نے امت مسلمہ کے کئی اجماعی مسائل سے روگردانی کی ہے جس کی قلعی کئی اہل علم حضرات نے کھولی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں حدیث و سنت کے درمیان فرق کے دعوٰی کی حقیقت کو علمی اصول و مصادر سے واضح کیا ہے۔ خالص علمی و اصولی ابحاث پر مشتمل منکرین حدیث کی موشگافیوں کو آشکارہ کرتی شاندار تصنیف ہے۔
علم حدیث کی قدرومنزلت او رشرف وقار صرف اس لیے ہے کہ یہ شریعت اسلامی میں قرآن پاک کے بعد دوسرا بڑا مصدر ہے علم حدیث ارشادات واعمال رسول ﷺ کا مظہر ،حضرت محمد ﷺ فداہ امی وابی کی پاکیزہ زندگی کاعملی عکس ہے جو ہر مسلمان کی شب وروز زندگی کےلیے بہترین نمہونہ ہے علم حدیث رفیع القدر،عظیم الفخر اور شریف الذکر ہے اس کے شیدائی فدائی رسول ﷺ ہیں جو لقب ’’محدثین ‘‘کے نام سے معروف ہیں۔اس کے مطالعہ سے ان شاءاللہ تعالی اس گروہ جو حدیث ختم رسل ﷺ کا دل وجان سے مخالف جوبزعم خود اہل قرآن کہلاتا ہے اگرچہ قرآن پاک سے انکا کوئی قطعی تعلق نہیں ان کے پیدا کردہ شکوک وشبہات کا خاطر خواہ ازالہ ہوگا چونکہ منکرین حدیث حدیث رسول ﷺ کے خلاف سادہ لوح لوگوں میں یہ تأثر پید ا کرتے ہیں کہ حدیث غیر محفوظ قرآن کے خلاف او رحدیث خود حدیث کے مخالف ہوتی ہے حالانکہ یہ صریحاً دروغ گوئی ہے۔اس میں نبی کریم ﷺ کی سنت کا تعارف ،اس کے عمومی خدوخال ،تدوین حدیث،کتابت حدیث،حفاظت حدیث اور حجیت حدیث پر بنیادی معلومات فراہم کی گئی ہیں نیز دینی رسائل میں حجیت حدیث پر مضامین کا اشاریہ بھی پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہر عام وخاص علوم حدیث جیسے اہم علوم کی گہرائی تک باآسانی رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔
تاریخ،تہذیب وتمدن کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں انسانیت کے خدوخال اپنی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ بڑی وضاحت سے اجاگر ہوتے ہیں انسانی تہذیب نے خوب سے خوب تر کی تلاش میں جو ارتقائی سفر طے کیا اور جن وادیوں اور منزلوں سے یہ کاروان رنگ وبو گزرا ہے ان کی روداد جب الفاظ کا پیکر اختیار کرتی ہے تو ’’تاریخ‘‘ بن جاتی ہے لیکن تاریخ ماضی کےواقعات کو دہرا دینے کا ہی نام نہیں بلکہ ماضی کی بازیافت کا فن ہے ۔ظاہر ہے کہ کچھ مخصوص افراد کےنام گنواکر یا کچھ چیدہ شخصیتوں کے حالات لکھ کر عہد گزشتہ کو زندہ نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ واقعات کے اسباب ونتائج کو گہری نظر سے دیکھا جائے اور احتجاجی زندگی کی ان قدروں کا جائزہ لیا جائے جو اقوام وملل کے عروج وزوال سے گہرا تعلق رکھتی ہیں ۔اور علم تاریخ ایک ایسا علم ہے کہ ہردور میں اس سے لوگوں کو دلچسپی رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے ماضی سے لگاؤ رہا ہے وہ اپنے پیچھے پھیلے ہوئے لامتناہی ارتقائی راستوں کی طرف مڑکر دیکھنا پسند کرتاہے کیونکہ ہر گزرا ہوا لمحہ اور اس سے وابستہ یادیں عزیز ہی نہیں ہوتیں بلکہ متاع حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ ماضی کا مطالعہ حال کو سجھنے اور مستقبل کے بہتر بنانے میں بڑی مدد دیتاہے گزرے ہوئے زمانےکو فراموش کرکے حال ومستقبل کو ساز گار بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔
’’تاریخ اسلام‘‘میں رسول اکر م ﷺ کی ولادت باسعادت سے لےکر زوال خلافت تک کا دور نہایت شاندار انداز میں بیان کیا گیاہے کتاب کا انداز ایسا دلچسپ اور پرسوز ہے کہ قاری جہاں سے بھی پڑھے ،پڑھتا چلا جائے۔
’تفسیر قرطبی‘ ایک ایسا نام ہے جو گزشتہ آٹھ صدیوں سے اہل علم کے ہر طبقہ میں یکساں مقبول ہے۔ اس کی جامعیت اور علمی وسعت کے پیش نظر اگر اسے مسلم سپین کی تہذیب و ثقافت کی درخشاں یادگار تالیف کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ کہنے کو تو یہ بھی قرآن کریم کے قانونی مطالعہ کی کتاب ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مطالعہ قرآن کا قانونی پہلو ہو یا عام تفسیری انداز، تفسیر قرطبی علوم اسلامیہ کے تمام پہلوؤں پر ایک جامع دستاویز ہے۔ فقہ و اصول فقہ میں تمام مروجہ مکتب ہائے فکر کا تقابلی مطالعہ اس کا امتیاز ہے۔ اس طرح قانون دان طبقہ کے لیے یہ کتاب حوالہ کا درجہ رکھتی ہے، علما و محققین کے لیے علوم دینیہ کا دائرہ معارف ہے، خطبا اور واعظین کے لیے لا تعداد موضوعات کا خزینہ ہے اورذاکرین کے لیے فضائل و معارف کا مجموعہ ہے۔ اردودان طبقہ کی سہولت کے لیے اس کو اردو قالب میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ترجمہ میں آسان اردو محاورہ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ احادیث کی تخریج حتی الامکان مستند کتب سے کی گئی ہے اور حسب ضرورت توضیحی حواشی کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ کےتعلیمی مراحل اور علمی مقام کا ایک مربوط خاکہ ان کی اپنی تالیفات کے شواہد کے ساتھ شروع میں پیش کردیا گیا ہے۔ (ع۔ م)
گھر انسان کی جان اور اس کے ایمان ،مال واولاداور فتنوں کے دور میں تمام قسم کی برائیوں سےحفاظت کی ضمانت ہوتاہے۔ ہرگھر معاشرہ کے لیے مکان میں اینٹ کی طرح ہوتاہے۔ جس طرح عمارت کی ایک ایک اینٹ کا درست ہونا ضرروی ہے، اسی طرح ہر گھر کا اسلامی طرزِ زندگی گزارنا معاشرہ کی اصلاح کے لیے ضروری ہے۔ جب ہر گھر اپنی اخلاقی، معاشرتی ،دینی ذمہ داری سے نبردآزما ہوگا تو یقیناً ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جہاں نیکی کاہرکام کرنا ممکن ہو سکے گا۔ برائی کےاسباب کم ہونگےاور رحمت الٰہی کانزول ہوگا ۔معاشرےمیں امن وسکون اور ہر انسان اپنےگھر میں اطمینان کی نیند سوئے گا۔زیر تبصرہ کتاب جسے حافظ محمد عباس صدیق ﷾نے اصلا ح البیوت کے نام سے کتاب وسنت اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں معاشرہ کی اصلاح کے لیے مرتب کیاہے ،اس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ اصلاح البیوت سے مراد گھروں کی عمارات کی تزئین وآرائش نہیں بلکہ گھرو ں میں بسنے والے افراد کے عقائد واعمال کی اصلاح ہے ،کیوں کہ عقیدےکی درستگی کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ کے ہاں قابل قبو ل نہیں۔اوراہل خانہ کی اصلاح وتربیت ہر انسان پر لازم ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ مقصد کافی حد تک پور ہوجاتا ہے۔ ان شا ء اللہ (م۔ا)