نام : مولانا محمدبشیرالطیب۔
ولدیت: ان کےوالدگرامی کانام مولاناعطاء مرحوم بن مولانامحمددین مرحوم کھوکھرہے۔
ولادت: ان کی ولادت 1949ءمیں بدّوکی سکیھواں ضلع گوجرانوالامیں ہوئی۔
تعلم وتربیت :
انہوں نےپرئمری تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول ادھوالی ضلع گوجرانوالا سےحاصل کی اورابتدائی تعلیم کےلیے حضرت مولاناعبیداللہ خطیب سمبلہ کلاں ضلع گوجرانوالامیں شاگردی اختیار کی اس کےبعدآپ جامعہ محمدیہ گوجرانوالا میں داخل ہوئے اوریہیں سے فارغ التحصیل ہوئے۔
اساتذہ کرام:
مولانا بشیرالطیب نےجن اساتذہ کرام سے اپنی علمی تشنگی دور کی ان کےنام درج ذیل ہیں۔
1۔مولانا عبیداللہ 2۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدعبداللہ۔
3۔مولانا حافظ عبدالمنان 4۔مولاناعبدالحمیدہزاروی ۔
5۔مولانا محمدرفیق 6۔مولانا جمعہ خان 7۔مولانا عبدالسلام۔
8۔مولانابشیرالرحمن 9۔مولانا عبدالرحمن لکھوی۔
درس وتدریس ودینی خدمات:
فارغ التحصیل ہونےکےبعدمولانا الطیب نےجامعہ مسجد اہل حدیث محلہ معماراں بدّّوملہی ضلع سیالکوٹ میں خطابت سےاپنی تبلیغی زندگی کا آغازکیا۔یہاں رہ کرانہوں نےبہت جماعتی کام کیاسیالکوٹ شہرمیں ہونےوالےتقریباہرجماعتی اجتماع میں شرکت کرتےاسی تعاون اور رابطے کی وجہ سےان کونائب ناظم ضلع سیالکوٹ منتخب کیا گیا۔
بدّّوملہی میں کچھ عرصہ گزارنےکےبعد ایمن آبادمنتقل ہوگئے۔
سیاسی سرگرمیاں:سیاسی سوجھ بوجھ بھی رکھتےتھے اس لیے سیاسی فضاء میں بھی پذیرائی پائی اورعلماء کونسل ایمن آبادنائب صدر۔پاکستان جمہوری پارٹی کےجنرل سیکرٹری اوراصلاحی کمیٹی کےبلامقابلہ ممبر منتخب ہوئے۔ان دنوں اخبارات میں مولاناکےمتعدد بیانات چھپتےرہتےتھے۔
کویت روانگی:
ایمن آبادقیام کےدوران ہی وزارت اوقاف کویت کےوفدکی طرف سےمنعقدہ انٹریومیں کامیابی حاصل کی اوروزارت اوقاف کویت کےزیرانتظام مسجدخالدبن بکیرالجہراء (کویت)میں نائب امامت کےمنصب پرفائزہوئے۔آج کل وہی دین کی خدمت میں مصروف کارہیں۔
تلامذہ:
بدّو ملہی میں مولاناالطیب سےبہت سےلوگوں نےقرآن مجیدکی تعلیم حاصل کی ۔ان میں خالدمحمود۔محمدشفیق بھٹی اورمحمدارشدکھوکھرقابل ذکرہیں۔
حوالہ: تذکرہ علماء اہل حدیث ازمحمدعلی جانباز۔
بند ہ مومن خطاکار تو ہے ہی ،لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق بہترین خطا کار وہ ہوتا ہے جو اپنی خطاؤں کو اللہ تعالیٰ سے معاف کروانے کے لیے ہر دم فکر مند رہتاہے اور اس کے لیے عملی طور پر جدوجہد بھی کرتا ہے تاکہ اس کے گناہ مٹ جائیں او راللہ اس پر راضی ہوجائے ۔مومن جب اپنی خطاؤں کی طرف دیکھتا ہے او ردوسری طرف اسے اللہ کے عذاب کا ڈر بھی ہوتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے او ر ان نیک اعمال کو بجا لاتا ہے جو اس کے گناہوں کاکفارہ بن جاتے ہیں ،کیونکہ نیک اعمال ہی وہ چیز ہیں جنہیں اخلاص ومحبت کے ساتھ سرانجام دیا جائے تواللہ تعالیٰ ان کے ذریعے خطا کار انسان کی خطاؤں کو معاف فرمادیتا ہے فرمان الٰہی ہے ( ان الحسنات یذهبن السیات) (هود:114)زيرنظر کتاب ’’بخشش کی راہیں ‘‘ اسی موضو ع کے متعلق آیات واحادیث کا گراں قدر مجموعہ ہے، جس میں مسلم م...