قرآن مجید کتبِ سماویہ میں سے آخری کتاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے امت کی آسانی کی غرض سے قرآن مجید کو سات حروف پر نازل فرمایا ہے۔ یہ تمام کے تمام ساتوں حروف عین قرآن اور منزل من اللہ ہیں ۔ ان تمام پر ایمان لانا ضروری اور واجب ہے،اور ان کا انکار کرنا کفر اور قرآن کا انکار ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ کتاب الاشارات فی السبع القراءات یعنی سبعہ قرات حاشیہ‘‘ ماسٹر عبد اللہ بابڑ موسیٰ زئی کی تصنیف ہے۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں سبعہ قرأت جیسے مشکل علم کو ایک آسان خاکے میں پیش کیا ہے۔ نیز انہوں نے قراءات کو مختلف کالموں میں ترتیب دے کر اختلافی قراءات کو سمجھنے میں سہولت پیدا کر دی ہے تقریباً 35 سال قبل جب یہ کتاب منظر عام آئی تو اس طرز کی یہ پہلی کتاب تھی۔ (م۔ا)
تمام انبیاء کرام ؑ ایک ہی پیغام اور دعوت لےکر آئےکہ لوگو! صرف اللہ کی عبادت کرو او راس کےسوا تمام معبودوں سےبچو۔ انبیاء کرام سالہاسال تک مسلسل اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہے انھوں نے اس پیغام کو پہنچانےکےلیے اس قدر تکالیف برداشت کیں کہ جسکا کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتاہے حضرت نوح نے ساڑے نوسوسال کلمہ توحید کی طرف لوگوں کودعوت دی ۔ اور اللہ کے آخری رسول سید الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےبھی عقید ۂ کی دعوت کے لیے کس قدر محنت کی اور اس فریضہ کو سر انجام دیا کہ جس کے بدلے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف ومصائب سے دوچار ہوناپڑا اللہ نے قرآن کریم کی مختلف آیات مبارکہ میں عقائد وصفات کو بیان کیاہے زیر نظر کتاب میں بھی محمداسلم سلفی صاحب نے اردو دان طبقہ کے لیے قرآن مجید میں سے اللہ تعالیٰ سے متعلقہ عقائد وصفات پر مبنی آیات کو سورتوں کی بہ ترتیب تلاوت جمع کر کے ان آیات کاترجمہ وتشریح کو سنت کی روشنی میں پیش کیا ہے اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو شرف قبولیت بخشے اور اہل اسلام کے لیے اسے ذریعہ نجات بنائے (آمین)(م۔ا)
اسلام میں داخل ہونے کےلیے سب سےپہلے کلمۂ شہادت پڑھا جاتا ہےیہ کلمۂ پڑھنےوالے کو کفر کی تمام تر نجاستوں سے پاک کر دیتاہےاس لیے اسے کلمۂ طیبہ کہاجاتا ہے چونکہ اس میں اللہ وحدۂ لاشریک کی توحید کااقرار بھی ہے اس لیے اسے کلمۂ توحید بھی کہا جاتا ہےکلمۂ طیبہ کو شعوری طور پر سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کے بارے میں اکثر لوگوں نے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائی اورایسی غلط راہ پر چل نکلے جوانہیں کفر کے راستے پر گامزن کر گئی۔کلمۂ میں دوسری شہادت محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دینا ہے جن کے اسوۂ حسنہ اورسنت کو چھوڑ کرایمان کی سلامتی ممکن ہی نہیں۔کتاب میں انہی دو باتوں پر بحث کی گئی ہے ۔
آج جب ہم اعدائے دین کی طرف دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی صفوں میں ہزارہا اختلافات کے باوجود مکمل ہم آہنگی ،وحدت اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔اور جب ہم اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ایک خدا ،ایک نبی،ایک قرآن اور ایک کعبہ کے ماننے والے انتشار وخلفشار میں مبتلاء،تفرقہ بازی،دھڑے بندی اور افتراق وتشتت کے ہاتھوں قعر مذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسکتے نطر آتے ہیں۔وہ دین جو سراپا اتحاد واتفاق ہے ،اہل ہوس نے اسے فرقہ بندی کے زہر آلود خنجر سے لخت لخت کر دیا ہے اور عالمگیر انسانی اخوت کے داعی گروہ بندی کے زخموں سے چور چور نڈھال پڑے کراہ رہے ہیں اور تہذیب وانسانیت کے دشمن ہر جگہ ان کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔آج امت مسلمہ میں اتفاق اور اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ہم 58 اسلامی ممالک ہیں۔ 2 ارب مسلمان ہیں۔ ہم بہت طاقتور ہوسکتے ہیں، بشرطیہ اختلاف کے ناسور سے نکل آئیں۔ایک نقطے پر متفق ہوجائیں۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت سب سے آہم اور مشترکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ سب مل کر وقت کے طاغوت سے نجات حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔فرقہ بندی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔اس حقیقت کو لوگوں میں...
مذہب و سیاست حقیقتاً ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ حلیف ہیں ان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن جب دونوں کے استعمال اور طریق استعمال میں توازن برقرار نہ رہے اور باہمی کشش ختم ہو جائے تو یقیناً دونوں کے کردار مختلف شکلوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ ’لا مذہبی دور کا تاریخی پس منظر‘ مولانا تقی امینی کی ایک شاندار کاوش ہے جس میں لا مذہی دور کی اجمالی تاریخ بیان کی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے مذہب کی نشأۃ ثانیہ کے نوک پلک درست کرنے میں سہولت ہو۔ چونکہ نئے دور کا آغاز اور لا مذہبی نظریات کے فروغ کا زیادہ تعلق یورپ سے وابستہ ہے اس لیے وہیں کے حالات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ ابتدا میں وحی الٰہی کی روشنی میں چند اثرات ذکر کیے گئے ہیں کہ خواہشات و اغراض کو غلبہ ہو کر جب مذہب کی متحرک اور مستقل حیثیت باقی نہیں رہتی ہے تو زندگی میں اس قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں یہود و نصاریٰ کے حالات سے زیادہ مدد لی گئی ہے۔(ع۔م)
دین اسلام کے فروغ کے لئےجدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ زیر نظر تحریر" لاوڈ سپیکر اور نماز " آ ج سے پچھتر سال قبل ۱۹۴۰ ء میں اس وقت شائع ہوئی جب لاوڈ سپیکر اور ریڈیو نیا نیا ایجاد ہو کر عام استعمال میں آیا،اور اسے نماز ،جمعہ اور عیدین میں استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔لاوڈ سپیکر ایک جدید ایجاد تھی ،جس کے نماز میں جائز وناجائز اور استعمال یا عدم استعمال کے بارے میں اہل علم نے غور وفکر کرنا شروع کیا تو مختلف طبقات میں تقسیم ہو گئے۔بعض اس کے مطلقا استعما ل کے قائل تھے تو بعض مطلقا حرمت کے علمبردارتھےاور اسے آلہ لہو ولعب قرار دے رہے تھے۔اہل علم کے اس شدید اختلاف کو دیکھ کر عامۃ الناس حیران وپریشان ہوگئے کہ اب اس کا کیا حل نکالا جائے۔یہ بحث اس زمانے میں سب سے زیادہ بنگلور میں اٹھی ۔چنانچہ اہل بنگلور نے ایک استفتاء معروف علماء کرام کےنام بھیجا ،اور ان سے فتوی طلب کیا۔جن علماء کی طرف یہ مراسلہ بھیجا گیا ان میں سے ایک مراسلہ مدیر تنظیم محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے نام روپڑ آیا۔آپ نے مک...
لائبریری کا فروغ ایک انتہائی اہم اور حساس موضوع ہےجو کتب خانوں کے نظم ونسق اور خدمات میں کلیدی کردار کا حامل رہا ہے۔ در حقیقت یہی مواد کتب خانہ ہی تو ہے جو کتب خانوں کی روح رواں ہے اور جس کے دم سے کتب خانے قائم ودائم ہیں۔ کتب خانوں میں نئے مواد کی آمد‘ موجودہ مواد میں رد وبدل اور کم مستعمل مواد کا خروج لازمی امر ہے۔ جن سے کتب خانے صحیح معنوں میں پروان چڑھتے ہیں۔ لائبریری کا فروغ جیسے اہم موضوع پر ایسا نہیں کہ بالکل نہ لکھا گیا ہو۔ انگریزی زبان میں اس موضوع پر کئی کتب ومضامین موجود ہیں۔ ہمارے ہاں پاکستانی رسائل میں بھی کہیں اِکا دُکا مضامین نظر آتے ہیں لیکن ان میں عصر جدید سے ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ہمارے نصاب اور کتب خانوں کے استعمال میں جس سرعت سے تبدیلی آرہی ہے اس نسبت سے اس اہم موضوع کا احاطہ کرنے کی بہت ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔زیرِ تبصرہ کتاب اس موضوع کی کمی پوری کرنے کے لیے تصنیف کی گئی ہے اور مصنف نے اس نازک موضوع پر طبع آزمائی کی ہے اور انتہائی نفاست وبلاغت سے دور جدید کے نصاب اور تقاضوں کےمطابق مختلف اہم ذیلی عنوانات پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ گذشتہ...
معمولی سے معمولی زندگی بھی اتفاقا پیدا نہیں ہوئی ،بلکہ اس کو پیدا کرنے والی ایک عظیم ذات ہے جواس ساری کائنات کی مالک ہے۔ یہ لا محدود کائنات ،جس میں ہم رہتے ہیں،کس طرح وجود میں آئی ؟یہ تمام توازن،ہم آہنگی اور نظم وضبط کس طرح سے پیدا ہوئے؟یہ کیونکر ممکن ہوا کہ یہ زمین ہمارے رہنے کے لئے موزوں ترین اور محفوظ قیام گاہ بن گئی؟ایسے سوالات نوع انسانی کے ظہور ہی سے توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں سائنس دان اور فلسفی ،اپنی عقل ودانش اور عقل سلیم کی بدولت اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کی صورت گری اور اس میں موجود نظم وضبط کسی اعلی ترین خالق مطلق کی موجودگی کی شہادت دے رہے ہیں۔جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک ہے۔یہ ایک غیر متنازعہ سچائی ہے ،جس تک ہم اپنی ذہانت استعمال کرتے ہوئے پہنچ سکتے ہیں۔اللہ تعالی نے اس حقیقت کا اعلان اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں واشگاف الفاظ میں کر دیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " لازوال خالق کے تخلیقی عجائب "ہارون یحیی کی انگریزی کتاب کا اردو ترجمہ ہے ۔ترجمہ محترمہ گلناز کوثر نے کیا ہے ۔مصنف 1956ء میں انقر...
محترمہ مریم خنساء رحمہا اللہ کم عمری ہی تحریر وتقریر سے منسلک ہوگئی تھیں نصف درجن سے زائد کتابیں مرتب کرنے کے علاوہ بیسیوں مضامین بھی تحریر کیے جو مختلف رسائل وجرائد کے صفحات کی زینت بنے ۔مرحومہ نوجوانی کی عمر میں ہی اپنے خالقی سے جاملیں۔مرحومہ حافظ احمد شاکر (مدیر اعلی ہفت الاعتصام،لاہور)کی بہو اور معروف مصنفہ ام عبد منیب کی صاحبزادی تھیں۔زیر نظر کتاب ’’لاشوں پر رقص‘‘ مریم خنساء کے مضامین کا مجموعہ ہے۔یہ مجموعہ مضامین معاشرت ،سیاست،اسلامیات،نسوانیت جیسے عنوانات پر مشتمل ہے۔(م۔ا)
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ آدمی اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو مال اس کے ہاتھ آیا ہے وہ حلا ل ہے یا حرام(بخاری:2059) دور حاضر میں مال حرام کمانے کی بہت سی ناجائز شکلیں عام ہو چکی ہیں اور لوگ ان کے حرام یا حلال ہونے کے متعلق جانے بغیر انہیں جائز سمجھ کر اختیار کرتے جا رہے ہیں۔جن میں انعامی سکیمیں ،لاٹری،انشورنس،اور مکان گروی رکھنے کی مروجہ صورت وغیرہ ہیں۔۔ زیر تبصرہ کتاب " لاٹری"معروف مبلغہ داعیہ،مصلحہ،مصنفہ کتب کثیرہ اور کالم نگار محترمہ ام عبد منیب صاحبہ کی تصنیف ہے ۔ جس میں انہوں نے لاٹری کی حرمت،لاٹری کی مختلف شکلیں ،لاٹری کی ابتداء ،مسلم ممالک میں لاٹری کی آمد ،پاکستان میں لاٹری اور لاٹری سے متعلق متعدد دیگر موضوعات پر گفتگو فرمائی ہے۔اللہ نے ان کو بڑا رواں قلم عطا کیا تھا،انہوں نے سو کے قریب چھوٹی بڑی اصلاحی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ محترمہ ام عبد منیب صاحبہ محمد مسعود عبدہ کی اہلیہ ہیں ۔ موصوف تقریبا 23 سال قبل جامعہ لاہور الاسلامیہ میں عصری علوم کی تدریس کرتے رہے اور...
ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر کیوں کہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے،جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے،ہنسی مذاق کے ذریعے کسی کی تحقیر وتذلیل نہ کی جائے۔الا یہ کہ وہ خود اسکی اجازت دے دے اور اس پر ناراض نہ ہو۔کسی کی تحقیر کرنابڑاگناہ ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا يَسخَر قَومٌ مِن قَومٍ... ﴾ (الحجرات)’’اے ایمان والو!لوگوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کامذاق نہ اُڑائیں۔ ڈاکٹر بدر الزماں محمد شفیع نیپالی حفظہ اللہ نے زيرنظر كتاب ’’لاک ڈاؤن میں ہنسی مذاق‘‘میں کتاب وسنت کی روشنی میں ہنسی مذاق کے...
خطاطی ایک فن خط تحریر ہے۔ یہ فن دنیا کے ہر گوشے میں اور ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ یہ فن خوش خطی کے لیے ہے۔ رومن، لاطینی، عربی زبانوں میں یہ فن خطاطی کافی مقبول ہے۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت لاہور میں ساٹھ کے قریب خطاطی سیکھنے کے مراکز تھے لاہور میں خطاطی کی نمائشوں کا آغاز ممتاز خطاط عبدالواحد نادر قلم نے کیا۔ مرحوم نے عبد المجید پروین رقم سے تربیت حاصل کی تھی۔حافظ محمد یوسف سدیدی نے لاہور میں عربی خطوط (ثلث ، محقق ، طغرا) کو ایک بار پھر زندہ کیا جو مغلیہ عہد میں لکھے جاتے رہے مگر بعد ازاں آہستہ آہستہ ان کی طرف انگریزی عہد کی وجہ سے رجحان کم ہوگیا۔حافظ محمد یوسف سدیدی کا سب سے کمال یہ تھا کہ انہوں نے ان خطوط کو از خود کتب خطاطی سے سیکھا ، کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں ان خطوط کا کوئی استاد موجود نہ تھا۔عالم اسلام کے شانہ بہ شانہ آنے کی لئے ان خطوط ( ثلث ، محقق ، طغرا
قوموں کے عروج و زوال کی داستان اس حقیقت پر شاہد ہے کہ قومی دفاع اور ملکی سلامتی سے غفلت برتنے والی اقوام با لآخر اپنی آزادی اور استقلال کو کھو دیتی ہیں اور اغیار کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لی جاتی ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ برصغیر کے جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمانوں کی ایک بھرپور تحریک اور لازوال شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں ہم جس عظیم ملک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پچھلے تقریباً پچاس(50) سالوں کے دوران اس کی بقاء اور سلامتی کے تقاضوں کو کما حقہ سمجھنے، ان کے حصول کے لیے مناسب پالیسیوں کی تشکیل اور پھر ہم ان پر خلوص نیت سے عمل پیرا ہونے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں۔ ہر ملک و ملت اپنے تاریخی ورثہ، تہذیب و تمدن اور قدیم مقامات کی بقاء و سلامتی کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات اٹھاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کے قدیم شہروں میں سے نمایاں خصوصیات کا حامل شہر'لاہور' بھی ہے۔ لاہور ایک تاریخی حیثیت رکھنے کے ساتھ ساتھ دور حاضر میں ملک پاکستان کا دل شمار کیا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" لاہور گزیٹئر" نعیم اللہ ملک کی معلوماتی تصنیف ہے۔ کتاب ہذا کو مخ...
اللہ تعالی کے احکام اور رسول ﷺ کےارشادات کو پس پشت ڈال کرجس طرح آج ہم روشن خیالی کو اپنا رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ قرآن اور فرمان رسول ﷺ سے دوری ہے۔ دین سے اس دوری کی وجہ سے ایک عا م مسلمان کےلیے حق کی تلاش مشکل ہوگئی ہے۔ بطورمسلمان ہم اپنی اسلامی اقدار اورتہذیب وتمدن کو بھولتےجا رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اس معاملےمیں سونےپرسہاگے کا کام کررہے ہیں۔غیرمسلموں کی تقلیدمیں ہم اتنے عجلت پسند واقع ہوے ہیں کہ بغیرسوچےسمجھے ان کےنقش قدم پرچلنا شروع کردیتے ہیں۔ لباس،ستر،حجاب اورزینت وزبائش کےمتعلق احکام قرآن میں موجود ہیں اور اس بارے میں رسول ﷺ کےفرمودات کتب احادیث میں دیکھے جا سکتے ہیں۔فہم قرآن انسٹی ٹیوٹ نے احکام الہی اورفرمان رسول ﷺ کو اکٹھاکرکے یہ کتابچہ تشکیل دیا ہے۔ تاکہ آپ بآسانی احکام الہی اورفرامین نبوی ﷺ سے آگاہ ہوسکیں۔ اورتہذیب مغرب کی چکاچوند کےبہکاوے سے اپنے ایمان کو محفوظ رکھ سکیں۔ اور بہترین اسلامی طرززندگی کو اپناشعار بنا سکیں۔ (ع۔ح)
سماجی تبدیلی کے لیے برپا کی گئی جدوجہد سے حکمرانوں اور محکوموں ‘ ظالموں اور مظلموں اور جابروں اور مجبوروں کے درمیان اعلیٰ وادنی اقدار کی بنا پر قائم کی گئی تفریق وامتیاز کا تصور کمزور ہونے لگتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات راسخ ہونے لگتی ہے کہ اقدر کی بنیاد پر حکمران اور محکوم طبقات کے مابین قائم کی گئی فوقیتی ترتیب فطری نوعیت کی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی ازلی وابدی اصول پر مشتمل ہوتی ہے جیسا کہ حکمران طبقات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ بلکہ اقدار کی فوقیتی ترتیب کا تصور ریاستی پروپیگنڈا مشیزی کی پیداوار ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی طاقت اور آئیڈیالوجی کا مظہر ہوتا ہے۔ جہاں استحصال‘ ظلم وجبر اور تشدد ہووہاں استحصال زدگان کا اُٹھ کھڑے ہونا فطری عمل ہے۔ا ور آج بہت سے ازم وجود میں آگئے ہیں اور ہمارا عہد دہشت گردی‘ جنگوں اور سرمایہ داری کے زوال کا دور ہے۔اس لیے زیرِ تبصرہ کتاب میں ان تمام موضوعات کو سمیٹا گیا ہے۔ مضامین پیچیدہ اور فلسفیانہ مباحث کو قدرے آسان پیرائے میں پیش کیا گیا ہے اور مصنف نے لبرل ازم یا نیولبرل ازم کی حقیقت کو آشکارہ کیا...
حج وعمرہ ایک ایسی عبادت ہے جو روئے زمین پرسوائے مکہ مکرمہ خانہ کعبہ کے کہیں اورادا نہیں ہو سکتی۔یہ عبادت جس کے ادا کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے، مخصوص جگہ پر مخصوص لباس میں ادا کی جاتی ہے۔ بیت اللہ کی زیارت او رفریضۂ حج کی ادائیگی ہر صاحب ایمان کی تمنا اورآرزو ہے۔ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک دفعہ فریضہ حج کی ادائیگی فرض ہے، اور اس کے انکار ی کا ایمان کامل نہیں ہے اور وہ دائرہ اسلام سےخارج ہے۔ اجر وثواب کے لحاظ سے یہ رکن بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے تمام كتبِ حديث وفقہ میں اس کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق ابو اب قائم کیے گئے ہیں اور تفصیلی مباحث موجود ہیں ۔حدیث نبوی ہے کہ آپ ﷺنےفرمایا "الحج المبرور لیس له جزاء إلا الجنة "حج مبرور کا ثواب جنت کے سوا کچھ نہیں ۔حج وعمرہ کے احکام ومسائل کے متعلق اب تک اردو و عربی زبان میں چھوٹی بڑی بیسیوں کتب لکھی جاچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ لبیک اللہم لبیک‘‘مولانا امیر حمزہ حفظہ اللہ کے سفر حرمین کے آنکھوں دیکھے مناظر کی بہترین منظر کشی...
حرمین شریفین (مکہ ومدینہ ) تمام مسلمانوں کےدینی وروحانی مرکزہیں اور حرم مکی مسلمانوں کا قبلہ امت کی وحدت کی علامت اوراتحاد واتفاق کا مظہر ہے۔ پوری دنیا کےمسلمان نمازوں کی ادائیگی کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں اوراس کے علاوہ دیگر اسلامی شعائر وعبادات حج او رعمرہ بھی یہاں ادا ہوتے ہیں ۔ دنیا کے تمام شہروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سب سے افضل ہیں اور فضیلت کی وجہ مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کا ہونا جبکہ مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کا ہونا ہے۔ان دونوں کی حرمت قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہے۔سعودی حکومت کی حرمین شریفین کے تحفظ اور دنیا بھر میں دین اسلام کی نشر واشاعت ، تبلیغ کے لیے خدمات لائق تحسین ہیں ۔ لہذا سعودی عرب کا دفاع اور حرمین شریفین کا تحفظ عالمِ اسلام کے مسلمانوں کابھی دینی فریضہ ہے ۔ کیونکہ سعودی عرب میں حرمین شریفین امتِ مسلمہ کےروحانی مرکز ہیں ۔حالیہ ایام میں سعودی اور یمن کے مسئلہ ماشاء اللہ عالم اسلام کے مسلمانوں نے سعودی عرب کے دفاع اور حرمین کے تحفظ کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔پاکستان میں بھی حرمین شریفین کےتحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تحریک شرو...
اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبزیوں کی شکل میں ایک عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے۔ سلاد بھی ایک عظیم نعمت ہے، جو انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ سلاد گاجر، کھیرا، مولی، ٹماٹر، پیاز، لیموں، ترنج، ہرا دھنیا، پودینہ، گاجر، چقندر، ادرک، بندگوبھی، امرود اور سلاد کے پتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر سلاد کھیرا، ٹماٹر، پیاز اور سلاد کے پتوں سے بنایا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ لذیذ سلاد اور رائتے‘‘ ام ّ فریحہ کی مرتب شدہ ہے انہوں نے اس کتاب میں سلاد اور اوزان وغیرہ کے حوالے سے چند خصوصی معروضات پیش کی ہیں۔ یہ کتاب ادارہ مطبوعاتِ خواتین،لاہور کی ’’خاتونِ خانہ کا دستر خوان سیریز‘‘ کا حصہ ہے۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ کاکلام اور نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ عربی زبان میں ہیں اسی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں سے عربی کا رشتہ مضبوط ومستحکم ہے عربی اسلام کی سرکاری زبان ہے ۔شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد اسی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے جس کی وجہ سے وہ فرمان الٰہی اور فرمان نبوی ﷺ کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ حتی کہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی اکثریت سکول ،کالجز ،یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل اسلامیات کے اسباق کو بھی بذات خود پڑھنے پڑھانے سے قا صر ہے ۔دنيا كي سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر اس لیے جلوہ گر ہوئی تھی کہ اس کے ذریعے اسلامی اقدار اور دینی شعائر کا احیاء ہوگا۔ اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا ہوگا اور قرآن کی زبان سرزمین پاک میں زند ہ وتابندہ ہوگی۔مگر زبان قرآن کی بے بسی وبے کسی کہ ارض پاکستان میں اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ دور غلامی میں بھی نہ پہنچی تھی۔علماء ومدارس کی اپنی حدتک...
شریعت اسلامی کے بنیادی مآخد عربی زبان میں ہیں لہذا قرآن وسنت اور شریعتِ اسلامیہ پر عبور حاصل کرنےکا واحد ذریعہ عربی زبان ہے۔ اس لحاظ سے عربی سیکھنا اور سکھانا امت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے ۔ لیکن مسلمانوں کی اکثریت عربی زبان سے ناواقف ہے جس کی وجہ سے وہ فرمان الٰہی اور فرمان نبوی ﷺ کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ حتی کہ تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی اکثریت سکول ،کالجز ،یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل اسلامیات کے اسباق کو بھی بذات خود پڑھنے پڑھانے سے قا صر ہے ۔دنيا كي سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر اس لیے جلوہ گر ہوئی تھی کہ اس کے ذریعے اسلامی اقدار اور دینی شعائر کا احیاء ہوگا۔ اسلامی تہذیب وثقافت کا بول بالا ہوگا اور قرآن کی زبان سرزمین پاک میں زند ہ وتابندہ ہوگی۔مگر زبان قرآن کی بے بسی وبے کسی کہ ارض پاکستان میں اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ دور غلامی میں بھی نہ پہنچی تھی۔علماء ومدارس کی اپنی حدتک عربی زبان کی نشرواشاعت کے لیے کوششیں وکاوشیں قابل ذکر ہیں۔ لیکن سرکاری طور پر حکومت کی طرف کماحقہ جدوجہد نہیں کی گئی۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ لسان القرآن...
عربی ایک مبارک زبان ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا نزول بھی اسی زبان میں کیا۔ عربی زبان کی تفہیم کے لیے بہت سے قواعد مرتب کیے جا چکے ہیں اور اس پر تقریباً ہر بڑی زبان میں بہت سی قیمتی کتب منظر عام پر آ چکی ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب ’لسان القرآن‘ بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کاوش ہے۔ جس میں عربی کو سمجھنے کے لیے طالبان علم کی سہولت کی خاطر قواعد و ضوابط رقم کیے گئے ہیں۔ اس علمی کام کے پیچھے کراچی میں واقع مدرسہ عائشہ صدیقہ ؓ کے اساتذہ کی محنت کارفرما ہے، جنھوں نے نہایت جانفشانی کے ساتھ آسان اسلوب میں یہ کتاب مرتب کی تاکہ ہر سطح کے طالب علم حتیٰ کہ عوام الناس بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ کتاب تین جلدوں مشتمل ہے اور اس کو ’النحو الواضح‘ کے طرز پر مرتب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلے چند اسباق کے علاوہ ہر سبق کا آغاز عربی جملوں سے کیا گیا ہے جن کی روشنی میں زیر بحث قاعدہ کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے بعد بقدر کفایت تمرینات ہیں جن کے ذریعے طالب علم قاعدہ کی عملی تطبیق کی مشق حاصل کر سکتا ہے۔ بیشتر اسباق کے آخر میں ایک تمرین ایسی ہے جو آیات قرآنیہ پر مشتمل ہے تاکہ طلبا ابتدا ہی سے ق...
امت مسلمہ کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کی بے شمار قربانیاں اور بے مثال کارنامے ہیں ان کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے آنحضرت محمدﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے اختلاف کے باوجود لشکر اسامہ کو روانہ فرمایا۔ آپ کے اس کارنامے میں بہت سے دروس پنہا ہیں۔ زیر نظر کتابچہ میں انھی دروس و عبرتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ حدیث، سیرت اور تاریخ کے بنیادی مراجع کی روشنی میں حضرت ابوبکر ؓکے لشکر اسامہ کو ارسال کرنے کے واقعات کو اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓکے لشکر اسامہ کو روانہ کرنے کے متعلقہ واقعات سے سولہ دروس اور عبرت و نصیحت کی باتوں کا استنباط کیا گیا ہے۔ ان حاصل شدہ دروس اور عبرتوں کے بیان کے دوران، تائید و وضاحت کی غرض سے کتاب و سنت کے دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ (ع۔م)
خوشی طبعی اور مزاح، زندگی اور زندہ دلی کی علامت ہے بشرطیکہ فحش ،عریانی اور عبث گوئی سے پاک ہو ۔واقعات ِمزاح نفسِ انسانی کے لیے باعث نشاط او رموجب ِحیات نو اور تازگی کاسبب بنتے ہے مزا ح اس خوش طبعی کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ کی جاتی ہے او راس میں تنقیص یا تحقیر کا پہلو نہیں ہوتا ۔او ر اس طرح کامزاح یعنی خوش طبعی کرنا جائز ہے اور نبیﷺ نے بھی ایسے مزاح او ر خوش طبعی کو اختیار کیا جس کی مثالیں اور واقعات کتب ِاحادیث میں موجود ہیں او ر جس مزاح سے منع کیا گیا ہے وہ اس نوعیت کی خوش طبعی اور مذاق ہوتا ہے جس میں جھوٹ اور زیادتی کا عنصر پایا جاتاہے اس نوعیت کا مذاق زیادہ ہنسی اور دل کی سختی کا باعث بنتا ہے اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور انسان کارعب ودبدبہ اور وقار ختم ہو جاتاہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ لطائف علمیہ ‘&l...
لعنت ایک بددعا ہے لعنت کے معنی اللہ کی رحمت سے دور ہونے اور محروم ہونے کے ہیں جب کوئی کسی پر لعنت کرتا ہے توگویا وہ اس کے حق میں بدعا کرتا ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاؤ رسول کریم ﷺ نے کسی پر لعنت کرنے کو بڑی سختی سے منع کیا فرمایا ہے یہاں تک کہ بے جان چیزوں پر بھی لعنت کرنے سے منع کیا فرمایا ہے لعنت اور ناشکری جہنم میں جانے کا باعث بن سکتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا'' اے عورتو! صدقہ کیا کرو میں نےجہنم میں دیکھاکہ عورتوں کی تعدادزیادہ ہے عورتوں نےعرض کیا یارسول اللہﷺ اس کی کیاوجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ''تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو ''زیر تبصرہ کتا ب ''لعنت اور رحمت ''کی مؤلفہ نے اسی مذکورہ حدیث کے پیش نظر خصوصا خواتین کے لیے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے کتاب کے پہلے حصے میں لعنت کا مفہوم،لعنت کی ممانعت لعنت کی سزا،اللہ ورسول اورفرشتوں کی لعنت کے مستحق لوگ اور دوسرے حصہ میں رحمت کامفہوم اس کے متعلق مزید تفصیلات کوقرآن واحادیث کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہےاللہ تعالیٰ اس کتا...
قرآن و سنت میں بہت سے مقامات پر ایسے لوگوں کا تذکرہ موجود ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی۔ مفسرین نے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ ایسا بد نصیب شخص دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوگیا۔ فلہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ شعوری طور پر ایسے کاموں اور اعمال سے گریز کرے جو اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ٹھیراتے ہوں۔ زیر نظر کتابچہ مولانا عبدالستار حماد نے اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے کتاب و سنت کی نصوص سے ایسے اعمال کی فہرست مرتب کر دی ہے جن کی وجہ سے کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی لعنت کا سزاوار ہو سکتا ہے۔ تاکہ ایسے اعمال سے کنارہ کیا جائے اور ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو اللہ کی رحمت کا مستحق بناتے ہوں۔ جب انسان اللہ کی لعنت پانے والے اعمال سے اجتناب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ کتابچہ 61 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسلوب نہایت واضح اور سادہ ہے۔ کوئی بھی عام فہم شخص اس کا مطالعہ کر کے اپنے آپ کو ایسے قبیح اعمال سے بچانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ (ع۔م)