افراط و تفریط کے اس دور میں اگر ایک طرف مغربی تہذیب نے پوری زندگی کو کھیل کود بنا دیا ہے تو دوسری طرف بعض دین دار حلقوں نے اپنے طرز عمل سے اس تصوّر کو فروغ دیا ہے کہ اسلام صرف عبادات اور خوف و خشیت کا نام ہے جس میں کھیل، تفریح ، خوشدلی اور زندہ دلی کا کوئی گزر نہیں۔ زیر تبصرہ کتاب دراصل مصنف کی چند تقاریر اور موضوع سے متعلق ایک تفصیلی فتوٰی کا مجموعہ ہے۔جس میں تفریح اور کھیل کود کی شرعی حدود کو نہایت مدلل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز لہو و لعب کو تفریح کا نام دینے والوں کا بھرپور رد بھی ہے اور جائز و مثبت تفریح کی اسلام میں پائی جانے والی حوصلہ افزائی کا بھی زبردست بیان ہے۔
ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی ہے کہ ہم عبادات اور شخصی معاملات میں تو کسی حد تک اسلامی احکام پر عمل کرتے ہیں لیکن اجتماعی نظام کو ہم نے دین حق سے آزاد کر دیا ہے۔ معاشی بے انصافی اور اقتصادی استحصال کی اساس سود ہے۔ ہمارے عقیدے اور آئین پاکستان کا تقاضا تو یہ تھا کہ سود کی لعنت سے ہمارا ملک پاک ہوتا۔ لیکن یہاں لادین حکمران طبقہ اور مغرب کی فکری غلامی کے اسیر سود کے حامیان نے کبھی ایسی کوشش تک نہیں کی۔ بلکہ قرآنی اصطلاح ربا سے بنکوں کے سود کو مستثنٰی قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ علماء کرام کی اجتماعی کوششوں سے ۱۹۹۱ میں وفاقی شرعی عدالت نے بنکوں کے سود کو ربا قرار دیتے ہوئے ۲۰۰۱ تک سودی معیشت کا مکمل خاتمہ کرنے کا حکم جاری کیا۔ سودی معیشت کے پیشہ ور وکلاء اور علمائے کرام کے درمیان اس عدالتی جنگ میں مولانا گوہر رحمان کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت میں پیش کئے جانے والے سود کے موضوع پر تحریری بیانات کو یکجا کر کے زیر تبصرہ کتاب کی صورت میں مدون کر دیا گیا ہے۔ سود کے موضوع پر یہ کتاب بلاشبہ اپنی نوعیت کی انفرادی تصنیف ہے کہ جس میں دونوں فریقین کا موقف، مخالفین کے آئینی داؤ پیچ اور اسلامی قوانین سب یکجا پڑھنے کو ملتے ہیں۔ دور جدید کی معاشی ضروریات کے حساب سے سودی نظام کے متبادل اور عملی اسلامی نظام کی تفصیلات بھی موجود ہیں، جس سے مخالفین کا یہ شبہ باطل ہو جاتا ہے کہ علمائے کرام صرف سودی نظام کے مخالف ہیں لیکن متبادل ان کے پاس بھی موجود نہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کا ان بیانات اور دیگر علمائے کرام کی کاوشوں کی بنیاد پر سودی نظام کے پاکستان سے مکمل خاتمے کا حکم جاری کرنا ایک اہم کامیابی ہے۔ اگرچہ اس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والے سودی نظام سے جلد نجات عطا فرمائے۔ آمین۔
ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں کے متعلق عوام الناس میں عجیب عجیب قصے مشہور ہیں۔ جن کے جھوٹا ہونے میں کچھ شک نہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں شیخ بدیع الدین شاہ الراشدی ؒ نے کئی داخلی و خارجی قرائن کے ذریعے اس قصے کا موضوع و باطل ہونا ثابت کیا ہے۔ نیز اس باب میں پیش کی جانے والی احادیث کا ضعف بھی واضح کیا ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں جادو کی حقیقت، اس کے نقصانات ، جادو پر یقین رکھنے والوں کی سزا، جادو کے متعلق اہلسنت کا مؤقف نیز سحر ، کرامت اور معجزہ میں فرق، دور حاضر میں مروج تعویزات کے چند نمونے اور عملی زندگی سے کئی مثالیں پیش کر کے جادو ٹونہ کرنے اور کرانے والوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی مہیا کی گئی ہے۔
سیرت طیبہ ﷺ پر تصنیف و تالیف کا سلسلہ عہد اسلام کی تاریخ جتنا ہی قدیم ہے اور یہ ایسا موضوع ہے جس کی رعنائی و زیبائی اور عطر بیزی دنیا کی ہر زندہ زبان میں دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہے ۔ شاید ہی دنیا کی کوئی ایسی زبان ہو جو سیرت النبی ﷺ کے پاکیزہ ادب کی لطافتوں اور رعنائیوں سے محروم ہو۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ کی زیر تبصرہ کتاب "رحمۃ اللعالمین" مؤلف کی مؤرخانہ بصیرت، اسلوب بیان کی ندرت ، مثبت انداز بیان، داعیانہ شیریں بیانی، جاندار اور پر حکمت اسلوب ، شستہ انداز تحریر کی بدولت اپنی نوعیت کی ایک بہت ہی منفرد تصنیف ہے۔ پوری کتاب میں ایک سطر بھی موضوع اور محل سے ہٹی ہوئی نہ ہوگی۔ استدلال کی فراوانی اور موقع محل کی مناسبت سے آیات و احادیث کے برمحل استدلال نے تصنیف کی قدرو منزلت میں اور بھی اضافہ اور شان پیدا کر دی ہے۔ ہزار سے کچھ کم صفحات پر مشتمل تین جلدوں پر پھیلی یہ کتاب مصنف کی تئیس برسوں کی محنت شاقہ اور عرق ریزی کا جیتا جاگتا شاہکار ہے۔ واقعات کی صحت کے التزام کے ساتھ سیرت نبوی ﷺ کے موضوع پر بلاشبہ یہ ایک جامع تصنیف ہے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں کی اکثریت یہود و نصاریٰ کی نقال اور ان کے رسم و رواج کی دلدادہ ہو چکی ہے۔ معاشرتی و تمدنی آزادی کے خوگر قرآن و سنت کے احکام سے آزادی اور بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اسی لادینیت اور الحاد کا نتیجہ ہے کہ بیگم عابدہ حسین (سابقہ وزیر بہبود آبادی) کا بیان اخبارات میں چھپا تھا کہ پردہ منافقت ہے۔ عورت کے نام پر قائم یہودی تنظیمیں، انجمنیں ، ہیومن رائٹس کمیشن وغیرہ مسلم بیٹی کی حیا کو اتارنے میں سرفہرست ہیں۔ ستر و حجاب اسلام کا انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ اس مختصر سے کتابچے میں صرف پردے کے شرعی حکم کی بحث ہے۔ لمبی لمبی فقہی ابحاث کو نہیں چھیڑا گیا کیونکہ مقصود اپنی مسلمان ماؤں، بہنوں تک پردے کی اہمیت اجاگر کرنا ہے اور بے حجابی و بے پردگی سے نفرت دلانا ہے۔
زیر نظر کتابچہ سعودی دارالافتاء کے جاری کردہ فتاویٰ کے اس حصے پر مشتمل ہے جس کا تعلق خواتین کے ستر و حجاب سے ہے۔ جس میں بے حجابی، چست لباسی، پتلون، سکرٹ پوشی، خودنمائی اور نگاہوں کی عشوہ طرازی کے بارے میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی روشنی میں دئے گئے سوالات کے جوابات عربی سے اردو زبان میں منتقل کئے گئے ہیں۔ فتنوں کے اس تلاطم خیز دور میں ملت مسلمہ کی وہ خواتین جو جہالت کے اندھے پن میں مبتلا ، مغرب کی تقلید اور خودنمائی کا فیشن اپنانے میں دیوانی ہو رہی ہیں ان کے لیے ان جید علماء کے فتاوٰی کی روشنی بے حد ضروری ہے۔ چنانچہ علم شریعت میں وقت کے اعلیٰ مسند نشین علماء نے ایسے تمام مسائل سے متعلقہ احکام شرعیہ کو فتاویٰ کی صورت میں شائع فرما دیا ہے جن سے علمی راہنمائی حاصل کر کے ملت مسلمہ کی خواتین اپنے دین، ملّی وقار ، آبرو، حیا اور عفّت کا تحفظ حاصل کر سکتی ہیں۔ شرعی حدود اور علم اوامر و نواہی کی آگاہی کیلئے یہ کتابچہ خواتین کیلئے ایک عمدہ تحفہ ہے۔
یہ ایک عظیم انتہاہی اورنفع بخش رسالہ ہےجو ایک سوال کا جواب ہے جسے محدث عصرشیخ ناصرالدین البانی ؒ نے دیا ہے او روہ سوال مجمل طور پر مندرجہ ذیل ہے ۔وہ کیا طریقہ کار ہے جومسلمانوں کو عروج کی طرف لے جائے اور وہ کیا راستہ ہے کہ جسے اختیار کرنے پراللہ تعالی انہیں زمین پر غلبہ عطاکرے گا اور دیگر امتوں کے درمیان جوان کا شایان شان مقام ہے اس پر فائز کرے گاپس علامہ البانی ؒ نے اس سوال کا نہایت ہی مفصل اور واضح جواب ارشاد فرمایاجس کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے قارئین کی خدمت میں یہ رسالہ پیش کیا جارہاہے نہایت ہی مفید مضمون ہے ۔
شیخ محمد بن عبدالوہاب ؒ کی سیرت کے بہت سے پہلو ہیں جن کو تذکرہ نگاروں اور آپ کی حیات علمیہ کے مؤرخین نے اپنے اپنے انداز سے پیش کیا ہے۔ لیکن ہر مصلح اور داعی کے حاسدین اور ناقدین بھی ضرور ہوا کرتے ہیں جو ان کی دعوت اور اصلاحی کاموں کے لئے رخنہ اندازی کے درپے رہتے ہیں۔شیخ کے مخالفین نے بھی آپ کی کتابوں، تحریروں اور آپ کے اقوال و آراء کی طرف رجوع کر کے اصل حقیقت جاننے کی بجائے ہمیشہ بہتان طرازی اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے طرح طرح کے الزامات لگائے ہیں تاکہ اس جعلی پراپیگنڈے کے ذریعے اس عظیم مصلح کی پیشانی داغدار کی جا سکے۔ انہیں جھوٹے الزامات مثلاً یہ الزام کہ وہ اہل بیت سے بغض رکھتے تھے ،نواصب سے متعلق مؤقف یا شیعہ و روافض کی طرف سے لگائی جانے والی تہمتوں کے جواب میں یہ ایک عمدہ کتاب ہے جو شیخ پر کئے جانے والے اعتراضات کے بھرپور جوابات مہیا کرتی ہے۔
قرآن مجید اس پوری انسانی دنیا کا رہنما ہے دنیا کا بہت بڑاحصہ اس حقیقت سےبے خبر ہے اس لیے گم کردہ راہ ہوکروہ تباہی و بربادی کاشکار ہورہا ہے اس بات کاعلم صرف مسلمانوں کو ہے لیکن انہوں نے بحیثیت مجموعی اپنے علم کےخلاف طرز عمل اختیار کر رکھا ہےاس لیے وہ خود بھی گم کردہ راہ ہیں اور اور دنیاکو بھی گمراہی میں چھوڑدینے کا دوہرا وبال و غلامی ،پستی اور ذلت کی صورت میں بھگت رہے ہیں اس ذلت سے نجات کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ وہ خدا کی اس کتاب کے ساتھ اطاعت وفرمانبرداری کارویہ اختیار کریں۔جب تک وہ اس کتاب سےمنحرف ہیں ساری دنیا ان سے منحرف رہے گی اور اس انحراف کی سنگین سزا وہ بھگتتے رہیں گے۔
مسلمان ہونےکےناطےہمارایہ پختہ اعتقاد ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی،سیاسی ہو یا اخلاقی،معاشرتی ہو یا معاشی جس کے متعلق دین میں اصولی رہنمائی موجود نہ ہو۔مگر بدقسمتی کی بات یہ ہےکہ آج مسلمانوں کی اکثریت دین سے بیگانگی کے باعث اسلام کےان سنہری اصولوں سےنابلد ہے جولوگ نماز روزہ کےپابند ہیں ان میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس نے دین صرف عبادات،نماز،روزہ ،حج اور زکوۃ کا نام سمجھ لیا ہے مالی معاملات کے بارہ میں احکام شریعت کواس طرح نظر انداز کیے ہوئے ہے کہ گویا ان کادین کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے بالخصوص جدید معاملات کےمتعلق ان کاانداز فکر یہ ہے کہ یہ چونکہ دور حاضر کے پیداوار ہیں عہد رسالت میں ان کاوجود ہیں نہیں تھا اس لیے یہ جائز ہیں۔ان حالات میں اہل علم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاملات جدید ہ سمجھیں او رلوگو ں کی صحیح او رکما حقہ رہنمائی کریں۔یہ کتاب دور حاضر کےمالی معاملات پر جتنے بھی سوالات واشکالات ہیں ان کاجواب ہے ۔
اسلام میں داخل ہونے کےلیے سب سےپہلے کلمۂ شہادت پڑھا جاتا ہےیہ کلمۂ پڑھنےوالے کو کفر کی تمام تر نجاستوں سے پاک کر دیتاہےاس لیے اسے کلمۂ طیبہ کہاجاتا ہے چونکہ اس میں اللہ وحدۂ لاشریک کی توحید کااقرار بھی ہے اس لیے اسے کلمۂ توحید بھی کہا جاتا ہےکلمۂ طیبہ کو شعوری طور پر سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کے بارے میں اکثر لوگوں نے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائی اورایسی غلط راہ پر چل نکلے جوانہیں کفر کے راستے پر گامزن کر گئی۔کلمۂ میں دوسری شہادت محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دینا ہے جن کے اسوۂ حسنہ اورسنت کو چھوڑ کرایمان کی سلامتی ممکن ہی نہیں۔کتاب میں انہی دو باتوں پر بحث کی گئی ہے ۔
بسااوقات انسان اپنےوسائل سےاپنی ضروریات یااپنےکاروباری منصوبےپورےنہیں کرسکتاایسے حالات میں پیدا ہونے والے سوالات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔کیا وہ قرض لے سکتاہے؟،قرض کی ادائیگی کس حد تک ضروری ہے؟،ادائیگی میں کیساطرزعمل اختیار کرناچاہیے؟،قرض واپس کروانےکےلیے شریعت اسلامیہ میں کون سے اخلاقی اقدامات ہیں ؟قرض لیتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے؟ اس کتاب میں ان سوالات کےعلاوہ اور بھی بہت سارے سولات کےجوابات سمجھنےسمجھانےکی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات مسلم ہے کہ انتشار واختلاف،تشتت اوافتراق اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والی کوئی چیز ہے تو وہ تقلید ہے آغاز نبوت سے تکمیل دین تک اللہ تعالی او ررسول اکرم ﷺ نےنو ع انسانی کےلیے یہ (تقلید)ناکارہ لفظ قرآن وسنت میں کہیں ذکر نہیں کیا۔ذرا غور فرمائیے اگر اپنے باپ کے ساتھ دوسرے باپ کا تصور نہیں ہوسکتاتو اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اور معبودو مسجوداور ہادئ برحق پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے بالمقابل کوئی او رمطاع کیسے ہوسکتا ہے ؟اس رسالے میں فرقہ واریت او رتقلید جیسے اہم مضامیں پر قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیل بیان کی گئی ہے ۔جو متلاشیان حق کے لیے مینارۂ نور کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔
ایک مصری بزرگ ڈاکٹر محمد بہی کی تصنیف "الفکر الاسلامی فی تطورہ" جس میں امام محمد بن عبدالوہاب ؒ اور آپ کی تحریک احیاء و تجدید دین سے متعلق نہایت کچی، سطحی اور سنی سنائی باتوں پر انحصار کرتے ہوئے خوب زور قلم صرف کیا گیا ہے، کا نہایت متین اور شستہ انداز میں جواب زیر تبصرہ کتاب میں سعودی عرب کے ڈاکٹر محمد خلیل راس نے دیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور ایک ایک غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ثقاہت اور متانت کیلئے یہ عرض کر دینا شاید کافی ہو کہ اسے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منوّرہ نے زیور طباعت سے آراستہ کرایا ہے۔
مشہور زمانہ کتاب "الفکر الصوفی" کے مصنف کی خطرناک صوفیانہ افکار کے رد میں ایک مختصر کاوش ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ صوفیانہ افکار امت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ تزکیہ نفس، احسان، سلوک کے خوشنما الفاظ میں چھپائی گئی شریعت کے متوازی طریقت کے نام سے دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی صوفیت کی اصل حقیقت کو جاننے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ ازحد مفید ہے۔ اس کتاب میں اہل تصوف کے ساتھ بحث و گفتگو کا ایک مختصر نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے تاکہ طالب علموں کو ان کے ساتھ بحث و گفتگو کی تربیت حاصل ہو جائے اور وہ یہ سیکھ لیں کہ اہل تصوف پر کس طرح حجت قائم کی جا سکتی ہے یا انہیں کس طرح صراط مستقیم کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
زبان عجائبات صفت الٰہی سے ہے اگرچہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں اور صنائع لطیفہ میں سے ہے۔ اس کا گناہ بھی سب سے زیادہ ہے اور طاعت بھی سب سے بڑھ کر، کیوں کہ ایمان و کفر کی شہادت زبان ہی سے ظاہر ہوتی ہے۔ دور حاضر میں عوام و خواص ایسی چیزوں میں مبتلا ہیں جو زبان سے صادر ہونے والی مصیبتیں اور گناہ ہیں۔ اس چھوٹی سی زبان میں کیا کیا خوبیاں اور کیا کیا خرابیاں ہیں اس طرف لوگوں کا ذہن جاتا ہی نہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں زبان کی بڑی بڑی آفتوں اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کو یکجا کیا گیا ہے ، جن سے بے توجہی اور غفلت عام اور شدید ہے۔ حتی کہ ادراک و احساس اور گناہ کا تصور بھی ختم ہو چکا ہے۔
امت محمدیہ کے افراد کی تلاشی لی جائے تو کسی کی گردن میں کاغذی تعویز لٹک رہا ہوگا، کسی میں چھوٹا سا قرآنی نسخہ۔ کسی میں کوڑیاں اور مونگے تو کوئی کالا دھاگہ باندھے ہوگا۔ کوئی امام ضامن پر تکیہ کئے ہوئے ہے تو کسی کو کالی بلی سامنے سے گزر جانے کا خوف ہے۔ کوئی مصیبت سے بچنے کیلئے تعویذ پہنتا ہے تو کوئی محبت کروانے کیلئے تعویذ کروا رہا ہے۔ قرآن سے دوری نے آج ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ شرک امت کی رگ رگ میں رچتا بستا چلا جا رہا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب شرک کے اسی اہم پہلو یعنی تعویذ گنڈوں اور جائز دم کے درمیان فرق اور احادیث کی روشنی میں ان کے تفصیلی جائزے پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آخر میں تعویذ پہننے کو جائز قرار دینے والوں کے شبہات پر مشتمل ایک کتابچہ کا بھی بھرپور جواب دیا گیا ہے۔
قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل ایک ایسی تصنیف ہے جس میں قرٍآن کو مرکزی ہدایت قرار دے کر عصر حاضر کے مسائل پر ایک گہری نگاہ ڈالی گئی ہے اور اس سلسلے میں تاریخ فکر کی نمایاں شخصیتوں پر گفتگو کے علاوہ پاکستان اوراسلامی معاشرے کے اعتبار سے تاریخ کے رجحانات اور ان رجحانات پر غلبہ حاصل کرنے کے منہدج سے متعلق تفصیل سے غور کیا گیا ہے ان معنوں میں یہ ایک غیر معمولی تصنیف ہے اورمطالعے میں بھی ایک گہری توجہ اور ارتکاز کا تقاضا کرتی ہے علمیات کے بنیادی مسائل سے طریق انقلاب کی تفصیلات تک پھیلتی یہ کتاب عمر بھر کے تفکر کا ثمر ہے اور ہماری تاریخ فکر میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے ۔
زیر نظر کتاب میں شیخ ابوبکر الجزائری حفظہ اللہ نے شیعہ کی سب سے مستندکتاب’’الکافی‘‘الکلینی کا بنظر غائر مطالعہ کرکے سات ایسے بدیہی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جوقرآن وسنت سے بالکل متصادم ہیں اور فکری ومذہبی تعصب کی عینک کو اتار کرشیعہ حضرات کو اپنے مذہب کی ان باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے کی نصیحت واپیل کی ہے تاکہ حق کو حق سمجھ کرباطل سے کنارہ کشی اختیار کریں مذہب شیعہ سے تعلق رکھنے والےباضمیر،صاحب عقل اور ہر حق کے متلاشی کےلیے نہایت ہی گرانقدرتحفہ ہے۔
یہودیت او رشیعیت کےمشترکہ عقائد:یہ کتاب مصنف حفظہ اللہ کی عمدہ ونادر شاہکار میں سے ایک ہےجس کے اندر یہودیت اور شیعیت کی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے اوریہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام کے خلاف سب سےپہلا فکری یلغار عبداللہ بن سبایہودی یمنی کی طرف سے کیا گیا جس نےبظاہر اسلامی لبادہ پہن کر اسلام کے خلاف ایسا رکیک حملہ کیا جس کا زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکا۔نیز یہ ثابت کیا گیا کہ یہودیت اور شیعیت کےافکاروعقائدکافی حد تک مماثل ومشابہ ہیں گویا کہ شیعیت یہودیت کی شاخ وپیداوار یہ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔
’’صالحہ بیوی کی صفات‘‘یا ’’اللہ سبحانہ وتعالی نےخاوند کے اس کی اہلیہ پر جو حقوق فرض کیے ہیں ‘‘یہ اس کتاب کا موضوع ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دور کی خواتین کو اس موضوع کی معرفت حاصل کرنے کی انتہائی ضرورت ہے اوریہ اس لیے ہے کہ امت عمومی طور پر اس مسئلے میں کوتاہی وسستی کا شکار ہے جبکہ خواتین خاص طور پر انتشاروخلفشاراو رپس وپیش کا شکار ہیں وہ عمومی طورپر بری خصلتوں او ربرائیوں پر راضی ہیں ابلیس او راس کے لشکر کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں او ریہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے اس چیز سے اعراض کیے ہوئے ہیں جسے اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے مشروع کیا تھا کہ وہ اس کی حیات کےلیے منہج او ران کی نجات کے لیے سبیل ہو۔پس یہ وہ ہمہ گیر تباہی پھیلادینے والا ریلا تھا جس کی وجہ سے دل او رچہرے اپنے رب او راپنے خالق سبحانہ وتعالی سے پھیر دیئے گئے اور شیطان ان پر مسلط ہوگیا تو اس نے اس امت کو اس کادین بھلادیا۔یہ کتاب مسلمان زوجہ کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے شوہر او راس کے گھر کے متعلق جو ذمہ داریاں اس پر عاید کی ہیں وہ انہیں اداکرےاور یہ مختصر سی کتاب مسلمان بہنوں کو ان کے خاوندوں کے حقوق کی وضاحت کے بارے میں ایک یاددہانی ہے امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے انہیں فائدہ پہنچائے گا او رہ اپنے شوہروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گی وہ بے حیائی کی تشہیر کرنے والی عورتوں کے پیچھے نہیں چلیں گی جنہوں نے دختران عصر سے حیا کی چادر اتار ڈالی۔
ہمارے معاشرے میں آج اکثر لوگ تمام امور زندگی میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ معاملات میں اعتدال اور میانہ روی نہیں، جس کی وجہ سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہےا ور افراد خانہ میں محبت و الفت مفقود ہو جاتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور قرآن و سنت سے نا آشنائی ہے۔ زیر تبصرہ رسالہ میں اسی معاشرتی مسئلہ پر گفتگو کی گئی ہے۔ اور گھریلو اور ازدواجی زندگی کو باسعادت، خوشگوار اور پرسکون بنانے کیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی مہیا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس رسالے کے مطالعہ سے خاوند اور بیوی دونوں کو کتاب و سنت کے مطابق نہ صرف اپنی تربیت کا موقع میسر آئے گا بلکہ خوشگوار اور پرسکون زندگی گزارنے کا ڈھنگ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔
سیدنا انس ؓامیہ کے دور میں رویاکرتے تھے کہ عہداول کادین باقی نہیں رہا لیکن اگر وہ ہمارے اس دور کو دیکھتے تو کیاکہتے ؟کیا وہ ہمیں مشرک قرار نہ دیتے اور ہم انہیں کوئی برا نام نہ دیتے کیونکہ اس وقت اور آج کے اسلام میں اب اگر کوئی مشترک چیز باقی رہ گئی ہے تووہ فقط لفظ اسلام ہے یا چند ظاہری ورسمی عبادات ہیں اور وہ بھی بدعت کی آمیزش سے پاک نہیں ۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہمارے پاس محفوظ تو ہیں لیکن بدنصیبی یہ ہے کو دونوں مہجور و متروک ہیں طاقوں او رالماریوں کی زینت یا کنڈوں ،تعویذوں میں مستعمل ہیں۔مسلمان اپنی عملی زندگی میں ان سے بالکل آزاد ہیں اوربا وجود ادعائے اتباع ان سے مخالف چل رہے ہیں ۔اجمیر کا عرس دیکھنے کےبعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی مسلمان ہیں جوعامل قرآن اور علمبردارتوحید تھے ؟یہ کتابچہ قبرپرستی کیوں کر پھیلی ،اسباب اور فتنہ قبرپرستی کے انسداد کےلیے وسائل وذرائع کی اہم مباحث پر مشتمل ہے ۔نیزیہ کتابچہ مصلحین امت کو یہ سبق دیتاہے کہ وہ اٹھیں او رعلماء سوء کے اس شرذمۂ مشومہ کے چہرہ سے نقاب الٹ دیں تاکہ مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ان بڑی بڑی پگڑیوں کے نیچے شیطان کو سجدہ کرنے والے سر ہیں او ران لمبی گھنی ڈاڑھیوں کی اوٹ میں کفروریا کی سیاہی چھپی ہوئی ہے ؟
اپنے موضوع پر یہ اردو میں پہلی کتاب ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں خانہ کعبہ یا مسجد حرام کی مکمل تاریخ نہیں لکھی گئی۔ البتہ بہت سی باتیں بطور مناسبت ذکر کی گئی ہیں۔ خانۂ کعبہ اور مسجد حرام کے حدود اور ان اضافوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں۔ نیز فضائل کعبہ کی بحث بھی شامل ہے تاکہ مقام مقدّس کے زائرین کے لئے مزید توضیح کا سبب ہو۔ ضمناً کچھ بیان حجر اسماعیل اور غار کعبہ کے بارے میں بھی آ گیا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عمدہ کتاب ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے بیس سودی قوانین کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینے کے سلسلے میں ایک سوالنامہ جاری کیا تھا۔ جس کے ذریعے ملک کے معروف علماء و ماہرین معیشت اور ماہرین قانون سے ربا (سود) کی تعریف، غیر سودی بینکاری کی عملی صورت، حکومت کی جانب سے جاری کردہ قرضوں پر سود کا مسئلہ، بینکوں سے غیر سودی قرضے حاصل کرنے کی متبادل تجاویز، نجی سرکاری بنکاری میں امتیاز کا مسئلہ، زر نقد کے استعمال پر معاوضہ لینے کےمسئلہ کرنسی کی قیمت میں کمی کے اثرات، ملکی و غیر ملکی تجارت کو کامیابی سے چلانے کے سلسلے میں تجاویز، پراویڈنٹ فنڈ اور سیونگ اکاؤنٹ پر نفع، تجارتی و غیر تجارتی قرضے وغیرہ کے بارے میں ان کی ماہرانہ آراء اور متبادل تجاویز طلب کی تھیں۔ فاضل مصنف نے اس سوالنامے کا نہایت دقیع اور تحقیقی جواب دیا تھا جو کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ عوام الناس میں سود کو حلال قرار دینے کیلئے مختلف شبہات پھیلانے والوں کو بھرپور جوابات دینے کے ساتھ اسلامی متبادل نقشہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔