صحائف سماوی میں قرآن حکیم وہ منفردکتاب ہے جس کے متعلق کامل وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ ہمارے پاس اسی صورت میں محفوظ ومامون ہے جس صورت میں یہ رسول اکرم ﷺ کی زبان حق ترجمان ووحی ربانی کے ذریعے سے جاری ہوئی تھی ۔نزول قرآن کااصل مقصدنفس انسانی کی تہذیب اورباطل عقائداورفاسداعمال کی تردیدہے ۔اس انقلاب انگیزنظریہ کی حامل یہ جامع کتاب ہرزمانہ میں علماءوفضلاکے لیے جاذب توجہ رہی ہے ۔اس کے غائرمطالعہ سے علم وحکمت کے چشمے سداپھوٹتے رہتے ہیں اورانسانی فکرونظرکی آبہاری ہوتی رہی ہے۔زیرنظرکتاب ’’مطالعہ قرآن‘‘مولانامحمدحنیف ندوی کے سال ہاسال کے تدبروتفقہ فی القرآن اوران کے مدت العمرکے شغف علوم دین کانتیجہ ہے۔مولانامرحوم نے انتہائی خوبصورت ادبی پیرائے میں علوم قرآن پرروشنی ڈالی ہے جولائق مطالعہ ہے ۔
اس کتاب میں ثابت کیاگیاہے کہ حدیث وسنت کی تدوین تاریخی تقاضوں کے بجائے خالصتہ دینی عوامل کی بناء پرہوئی ہے اوراپنے دامن میں یہ اس طرح سےاستناد،اتصال اورتسلسل کولیے ہوئے ہے جس کی دنیاکے تاریخی لٹریچرمیں نظیرنہیں پائی جاتی۔ہم اس میں اس حقیقت کااظہاربھی کرچکےہیں کہ محدثین کرام نے نہ صرف رواۃ کے بارے میں جرح وتعدیل سے کام لیاہے بلکہ ان پیمانوں اوراصولوں کی تشریح بھی فرمائی ہےجن کےبل پرمتن ونفس مضمون کی صحت واستواری کابھی ٹھیک ٹھیک اندازہ کیاجاسکتاہے۔رہاتیسراعتراض تواس کابھی ہم نے اس کتاب میں تفصیل سے جواب دیاہے اوربتایاہے کہ فتنہ وضع حدیث کب ابھرا،کن اسباب ووجوہ نے اس کوتقویت پہنچائی اورمحدثین کرام نے اس کے انسدادکے لیے کیاکیامساعی جمیلہ انجام دیں۔نیز اس سلسلے میں کن ایسی علمی وتحقیقی کسوٹیوں کی نشان دہی کی،جن کے ذریعے نہ صرف موضوع حدیثوں کوآسانی سے پہچاناجاسکتاہے بلکہ ان سے فن تاریخ میں ان حقائق کی تعیین بھی کی جاسکتی ہے جوصحیح اوردرست ہیں اوران واقعات کوبھی دائرہ علم وادراک میں لایاجاسکتاہے جوتصحیف والحاق کی دخل اندازیوں کاکرشمہ ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہناچاہیے کہ حدیث وسنت کے...
ابن خلدون ایک عظیم سماجی مفکرتھے تاریخ عالم کے چندنمایاں ارباب علم وفکرمیں وہ ایک منفردمقام رکھتے ہیں علامہ نے سماجیات میں انسانی فکرکونئے زاویوں سے آشناکیاہے اورعمرانی علوم میں ایسے قابل قدرنکات اجاگرکیے ہیں جوآج بھی ماہرین عمرانیات کےلیے دلیل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔علامہ کےافکاروخیالات کےباب میں انکا مشہورزمانہ مقدمہ ایک خاص مقام کاحامل ہے جس میں انہوں نے مختلف علوم وفنون اورافکارونظریات پرجچی تلی اورمتوازن ومعتدل آراء کا اظہارکیاہے۔زیرنظرکتاب میں مولانامحمدحنیف ندوی ؒ نے علامہ کے مقدمہ کاانتہائی موثراوردلنشیں پیرایہ بیان میں خلاصہ کیاہے ۔جس میں تمام ضروری مباحث بڑی خوبصورتی سے سمیٹے ہیں ۔لاعق تحسین امریہ ہے کہ مولاناندوی نے خلاصہ کے آغاز میں ایک مقدمۃ المقدمہ بھی تحریرکیاہے ۔جس میں ابن خلدون کے افکاروآراء پرتجزیاتی تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کواجاگرکیاہے ۔
شيخ الاسلام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی علمی وتجدیدی مساعی ہماری تاریخ کاایک روشن باب ہیں ۔علامہ نے ہرموضوع پرقلم اٹھایاہے اورکتاب وسنت کی روشنی میں امت کی راہنمائی کافریضہ سرانجام دیاہے ۔زیرنظرکتاب ’عقلیات ابن تیمیہ ‘علامہ کے فلسفہ ومنطق سے متعلق تبصرہ وتجزیہ پرمشتمل ہے۔مولانامحمدحنیف ندوی نے بڑے سلیقہ اورہنرمندی سے فلسفہ ومنطق کے حوالے سے علامہ کے مختلف اقتباسات کوجمع کیاہے اورانتہائی ادبی پیرائے میں علامہ کی نگارشات کواردوزبان میں ڈھالاہے۔ہم بصدمسرت یہ علمی سوغات قارئین کی نذرکررہے ہیں ،اس یادہانی کے ساتھ کہ اس کتاب کے بعض مندرجات محل نظرہیں۔
رسول اکرم ﷺ کی سیرت پربے شمارکتابیں لکھی جاچکی ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری ہے جوتاقیامت جاری رہے گا۔ان شاء اللہ ۔سیرت نگاروں نے متعدداورمتنوع اسالیب اختیارکیے ہیں ۔اس ضمن میں مولانا محمدحنیف ندوی ؒ نے قرآن شریف کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کاکام شروع کیاتھایعنی قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کے نقوش سیرت کواجاگرکیاجائے’چہرہ نبوت‘اس کے نتیجے میں منصہ شہودپرآئی ۔تاہم افسوس مولانااس کام کومکمل نہ کرسکے۔اورمولانااسحاق بھٹی نے چندابواب کااضافہ کیا۔اس پرکام کی مزیدضرورت ہنوز باقی ہے تاہم جتناکام مولانانے کیاوہ لائق تحسین اورقابل قدرکاوش ہے ۔جس سے واضح ہوتاہے کہ قرآن مقدس میں بھی نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ موجودہے۔
دین دو باتوں ،فکر وکردار یا عقیدہ وعمل سے تعبیر ہے۔قرآن مجید کی اصطلاح میں ،ایسا عقیدہ جو عمل کی اساس بنے ،کردار وسیرت کی تشکیل کرے اور بجائے خود تخلیقی نوعیت کا حامل ہو ایمان کہلاتا ہے۔اور اگر اس سے زندگی ،عمل اور تخلیق وآفرینش کی نشاط کاریاں چھین لی جائیں تو پھر وہ عقیدہ ہو سکتا ہے ،یا اسلام کا ادنی درجہ بھی اسے کہہ سکتے ہیں،ایمان نہیں۔زیر تبصرہ کتاب "اساسیات اسلام" معروف عالم دین اور متعدد کتابوں کے مصنف مولانا حنیف ندوی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسلام کے بارہ میں اسی نقطہ نگاہ کو سامنے رکھا ہے کہ اسلام زندگی اور عمل کا مذہب ہے،اور اسی بناء پر تعمیر فرد اور تعمیر معاشرہ سے متعلقہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اسلام کی روشنی میں فرد ومعاشرے کے فکری اور تہذیبی مسائل کا تجزیہ اور ان کا حل پیش کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان خدمات کو قبول فرمائے،اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
اردو دان طبقے کے لیے مفاہیم قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کو اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا از حد ضروری ہے صرف ناظرہ قرآن سے قرآن کریم کے اغراض و مقاصد کا ادراک ناممکن ہے۔ زیر نظر تفسیر سراج البیان اسی سلسلہ کی اہم کڑی ہے۔ اس میں ترجمہ قرآن شاہ عبدالقادر دہلوی اور شاہ رفیع الدین دہلوی کا شامل کیا گیا ہے جو کہ تمام علماء ربانیین کے نزدیک مستند اور معتمد ہے۔ قرآنی آیات کی تفسیر کا بیڑہ علامہ حنیف ندوی نے اٹھایا ہے اور حقیقی معنوں میں تفسیر قرآن کا حق ادا کیا ہے۔ علامہ موصوف کی علمیت کا اندازہ تفسیر سراج البیان کی ورق گردانی سے بخوبی ہو جائے گا۔ علامہ موصوف نے محققانہ انداز میں ہر صفحہ کے اہم مضامین کی تبویب کے ساتھ ساتھ ادبی و لغوی نکات کا تذکرہ کیاہے اور جدید مسائل سے آگاہی بھی فراہم کی ہے۔ اس کےعلاوہ مذہب سلف کی برتری اور تفوق کا اظہار کرتے ہوئے قصری علوم و معارف سے موقع بہ موقع استفادہ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اس کا مطالعہ کرکے یہ محسوس کریں گے کہ قرآن دنیائے عرب میں سب سے عمدہ اضافہ ہے۔
نبوت کا سلسلہ رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ آپ ﷺ کے بعد کوئی بھی نبی دنیا میں ظہور پذیر نہیں ہوگا۔ لیکن ملک و ملت کے دشمنوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد کا رنگ دیا جو بعد میں مسیح موعود اور نبی و رسول کا روپ دھار گیا۔ ایسے میں مولانا حنیف ندوی کا قلم کیسے خاموش رہ سکتا تھا کیونکہ مولانا حنیف ندوی علم و فضل کی جس وسعت اور فکر و نظر کی جس گہرائی سے مالا مال تھے شاید ہی کوئی اور شخص ان کے اس مقام بلند کو چھو سکنے والا ہو۔ زیر نظر کتاب ’مرزائیت نئے زاویوں سے‘ مولانا کی وہ شاہکار تصنیف ہے جس نے مرزائیت کے علمبرداروں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ مولانا نے ابطال باطل اور احقاق حق کا فریضہ پوری تندہی سے ادا کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا پیش کردہ تصور نہایت گھٹیا اور غیر حکیمانہ ہے۔ اور اس سے سوا قیل و قال اور چند حوالوں اور مناظرانہ ہتھکنڈوں کے اور کچھ حاصل نہیں۔ کتاب سے وہ لوگ بہت مستفید ہوں گے جو غلط فہمی سے مرزائیت کا شکار ہو گئے ہیں۔ کتاب میں جہاں مولانا نے ختم نبوت پر آیات و احادیث کے حقائق پیش کرتے...
شریعت اسلامی انسانیت کے لئے اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے ،جس میں زندگی کے تمام مسائل کے بارے میں تفصیلی یا اجمالی راہنمائی موجود ہے۔شریعت کے بعض احکام ایسے ہیں ،جو یقینی ذرائع سے ثابت ہیں،اور الفاظ وتعبیرات کے اعتبار سے اس قدر واضح ہیں کہ ان میں کسی دوسرے معنی ومفہوم کا کوئی احتمال نہیں ہے۔ان کو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ کہا جاتا ہے،اور شریعت کے بیشتر احکام اسی نوعیت کے ہیں۔جبکہ بعض احکام ہمیں ایسی دلیلوں سے ملتے ہیں،جن کے سندا صحیح ہونے کا یقین نہیں کیا جا سکتا ہے،یا ان میں متعدد معانی کا احتمال ہوتا ہے۔اسی طرح بعض مسائل قیاس پر مبنی ہوتے ہیں اور ان میں قیاس کی بعض جہتیں پائی جاتی ہیں۔تو ایسے مسائل میں اہل علم اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق فتوی دیتے ہیں،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " مسئلہ اجتہاد "ہندوستان کے معروف عالم دین محترم مولانا محمد حنیف ندوی صاحب کی تصنیف ہے،جس میں انہوں نے قرآن ،سنت ،اجماع،تعامل اور قیاس کی فقہی قدروقیمت اور ان کی حدود پر ایک نظر ڈالی ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ چند دیگر اہم فقہی مباحث مث...
امام ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔آپ انتہائی زیرک فہم کے مالک تھے، ابتدائی طور پر اپنے علاقے میں ہی فقہی علوم حاصل کیے، اس کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ نیشاپور منتقل ہو گئے، وہاں انہوں نے امام الحرمین کی شاگردی اختیار کی، اور فقہ میں تھوڑی سی مدت کے دوران ہی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، پھر علم کلام، علم جدل میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ مناظرین کی آنکھوں کا مرکز بن گئے۔امام غزالی کی زندگی کےمختلف مراحل ہیں۔ آپ نے آغاز فسلفے سے کیا اور اس میں رسوخ حاصل کیا پھر فسلفے سے بیزار ہوئے، اور اس پر رد ّبھی لکھا، اس کے بعد علم کلام کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے، اور اس کے اصول و ضوابط اور مقدمات ازبر کیے، لیکن اس علم کی خرابیاں، اور تضادات عیاں ہونے پر اس سے بھی رجوع کر لیا، اور ایک مرحلہ ایسا بھی تھا کہ آپکو ’’متکلم‘‘ ک...
علامہ ابوالحسن اشعری (260۔330ھ)چوتھی صدی ہجری کی جلیل القدر شخصیت ہیں ۔اور تقریبا یکصد سے زائدکتب کے مصنف ہیں۔زیر نظر کتاب ’’مسلمانوں کے عقاید وافکار‘‘ علامہ ابو الحسن اشعری کی مایہ ناز کتاب ’’مقالات الاسلا میین‘‘ کاترجمہ ہے ۔جس میں علامہ ابو الحسن اشعری نے چوتھی صدی ہجری کے اوائل کے ان تمام عقائد وافکار کو بغیر کسی تعصب کے بیان کردیا ہ جو صدیوں فکری وکلامی مناظروں کا محور بنے رہے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں یہ معلوم ہوگاکہ مسلمانوں نے نفسیات،اخلاق اور مادہ وروح کے بارہ میں کن کن علمی جواہر پاروں کی تخلیق کی ہے وہاں یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آجائے گی کہ ماضی میں فکر ونظر کی کجی نے کن کن گمراہیوں کوجنم دیا ہے ۔اور ان گمراہیوں کےمقابلہ میں اسلام نے کس معجزانہ انداز سےاپنے وجود کو قائم اور برقرار رکھا ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے جس کے ترجمے کا کام مولانا محمد حنیف ندوی نے سر انجام دیا۔(م۔ا)