مسائل میں اختلاف کاہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔متعددوجوہ واسباب کی بناء پرایک ہی مسئلہ میں ارباب علم ونظر کی آراء میں اختلاف ہوجاتاہے ۔تاہم اس ضمن میں یہ خیال رکھناضروری ہے کہ حل اختلاف کےلیے کتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے اورجوفیصلہ قرآن وحدیث سے مل جائے اس پرصادرکیاجائے۔نیز اختلاف رائے میں ایک دوسرے پرطنز وتعریض یاتوہین وتنقیص سے اجتناب کرناچاہیے ۔لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ بعض حضرات اختلاف رائے کوفرقہ وارانہ رنگ دے کردوسروں پرنارواالزامات واتہامات لگاتے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں ایسی ہی چندتحریروں کاسنجیدہ اورٹھوس علمی جائزہ لیاگیاہے ۔امرواقعہ یہ ہےکہ جوشخص بھی کھلے دل او روسعت نگاہ سےاس کامطالعہ کرےگا‘وہ یقیناً درست نقطہ نظرکوپہچان لے گا۔اس کتاب میں بے شمارعلمی نکات موجودہیں ‘جومؤلف کے تحرعلم وفضل پرشاہدعدل ہیں ۔فجزاہ اللہ خیراً
فی زمانہ جبکےبچے بڑے جھوٹے اورلغوافسانوں ،ناولوں اورکہانیوں کے قصوں میں گرفتارنظرآتےہیں ،ایسی کتابوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے،جس میں سچےواقعات بیان کئے گئے ہوں ۔جنہیں پڑھ کرعمل کاجذبہ بیدارہو۔زیرنظرکتاب میں سیرت نبوی اورتاریخ اسلام سے ایسے ہی 70واقعات کاانتخاب پیش کیاگیاہے ،جن کےمطالعہ سے ایمان کوتازگی اورروح کوشادابی نصیب ہوتی ہے۔نیزدل میں صحابہ کرام اورسلف صالحین کی عظمت اوران سے محبت کاجذبہ پیداہوتاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اس طرح کالٹریچرعام کیاجائے اورگھروں میں خصوصاً بچوں اورخواتین کوان کےمطالعے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ جھوٹے اور فحش ناولوں میں وقت ضائع کرنےکے بجائے سیرت سلف سے روشناس ہوسکیں۔
علم حدیث ایک عظمت ورفعت پر مبنی موضوع ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات سے ہے۔جتنا یہ بلند عظمت ہے اتنا ہی اس کے عروج میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور اس کو مشکوک بنانے کی سعی ناکام کی گئی۔علمائے حدیث نے دفاع حدیث کے لیے ہر موضوع پر گرانقدر تصنیفات لکھیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی عظمت حدیث کے نام سے عبدالرشید عراقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے عظمت حدیث کےساتھ ساتھ حجیت حدیث ،مقام حدیث،تدوین حدیث،اقسام کتب حدیث،اصطلاحات حدیث،مختلف محدثین ائمہ کرام جو کہ صحاح ستہ کے مصنفین ہیں ان کے حالات اور علمی خدمات،مختلف صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف شروحات حدیث کو اپنی اس کتاب میں موضوع بنایا ہے۔
اسلام جس طرح عبادات کے بات میں ہدایات دیناہے اسی طرح معاملات میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے معاملات میں معیشت وتجارت کامسئلہ بہت اہم ہے میدان معیشت میں فی زمانہ ایسی بہت سی جدید صورتیں پیدا ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے نہ تھی انہی میں ایک مسئلہ بینکنگ کاہے علماء نے اس طرف بھی توجہ کی ہے اور اسلامک بینکنگ کے کامیات تجربے بھی کیے گئے ہیں اگرچہ بعض اہل علم کو اس پر تحفظات ہیں بینکاری میں ایک اہم مسئلہ سود کا ہے کیونکہ غیراسلامی بینکاری کی اساس ہی سود پرقائم ہے جبکہ اسلام میں یہ انتہائی شدید گناہ ہے حتی کہ اسے خدا اور رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قراردیاگیاہے لیکن اس درجہ شناعت کے باوجود بعض لوگ مروجہ بینکوں کے سود کو جائز قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں زیر نظر کتاب میں اس کا مفصل رد کیا گیاہے نیز جدید بینکاری کے حوالے سے بھی پیش قیمت او رمفید معلومات اس میں شامل ہیں جس سے بینکنگ کے متعلق شرعی معلومات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے-
ہدایت انسانی کےلیے اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ پر دو چیزوں کو نازل کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا''اعطیت القرآن ومثلہ معہ''مجھے قرآن اور اس کی مثل ایک اور چیز(یعنی حدیث)دے کر بھیجا گیا ہے اور انہی دو چیزوں کے واسطے نبی کریم ﷺ نے لوگو ں کو اللہ تعالی کا پیغام سنایا-یہ دونوں چیزیں عربی میں ہے اس لیے ان کو سمجھنے کےلیے عربی زبان کا آنا ضروری ہے -اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کتابچہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے جس میں روز مرہ استعمال کیے جانے والے الفاظ کو عربی میں استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مطالعے سے آدمی عربی زبان بولنے پر فائز ہوسکے -یہ کتابچہ بہت عمدہ ہے ضرور اس کا مطالعہ فرمایئے گا
احکام شرعیہ کے دوحصے ہیں ایک حصہ مامورات شرعیہ کہلاتاہے جس میں کچھ کاموں کوکرنے کا حکم دیا گیا ہے دوسرا حصہ منہیات کہلاتا ہے جس میں بعض امور سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے شریعت میں جس طرح مامورات کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کر منہیات کی اہمیت ہے اس لیے کہ اگر کوئی صرف منہیات سے بچتا ہے تو اسے اس کاثواب ملتا ہے جبکہ مامورات میں اس صورت میں مستحق اجر ہوتا ہے جب وہ عملاً اسے کرے پھر مامورات میں استطاعت کی قید ہے لیکن منہیات میں یہ قید نہیں ہے مزیدبرآں منہیات کاجاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان ان کے ارتکاب سے بچ سکے تاکہ خدا کی ناراضگی وعتاب کا نشانہ نہ بن سکے فی زمانہ شرعی منہیات کا بڑی دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی ایک وجہ لاعلمی اور جہالت بھی ہے زیرنظر کتاب کےمطالعہ سے یہ لاعلمی دور ہوجاتی ہے اور انسان ان تمام امور سے بچ سکتاہے جن سے شریعت میں روکا گیا ہے
ہرمسلمان کی خواہش ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت کانفاذ ہو لیکن اس کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے اس میں اختلاف ہے ایک بڑاطبقہ موجودہ جمہوری نظام کے ذریعے نفاذ اسلام کی کوششوں میں مصروف ہے اگرچہ 60 سال سے اس سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تاہم اسلامی انقلاب اور حکومت الہیہ کے نعروں کی حامل جماعتیں آج بھی اسی میدان میں زو رلگا رہی ہیں اس کےبرعکس ایک حلقے کی رائےہے کہ جمہوریت کے ذریعے اسلام نہیں آسکتا زیرنظر کتابچے میں اسی کی ترجمانی کی گئی ہے مروجہ جمہوریت کےحق میں جودلائل دیئے جاتے ہیں ان کابھي اس میں جائزہ لیا گیا ہے نیز بعض جلیل القدر اہل علم مثلاًمحمد قطب اور علامہ البانی وغیرہ کی رائے بھی شامل ہے
برصغیرمیں دیوبندی اور اہل حدیث کی کش مکش ایک عرصے سے جاری ہے اس میں دونوں طرف سے اپنے اپنے نقطۂ نظر کے حق میں اور دوسرے کی تردید میں بہت کچھ لکھا جاچکاہے زیرنظر کتاب میں جناب حافظ زبیرعلی زئی نے دیوبندیوں سے 210 سوالات کیے ہیں کہ وہ ان کاجواب دیں اس لیے کہ ان کابھی یہی اسلوب ہے کہ وہ اہل حدیث سے سوالات ہی کرتے جاتے ہیں اگر ان سوالات کو غور سے پڑھا جائے تواوضح ہوگا کہ دیوبندی حضرات کے عقائد وافکار میں بہت سی غلطیاں موجود ہیں جن کی اصلاح ہونی چاہیے نیز ان سوالات کا جو اب بھی ان کےپاس موجود نہیں ہے کیونکہ جواب قرآن وحدیث او رامام ابوحنیفہ ؒ کے اقوال کی روشنی میں مانگاگیا ہے جبکہ ان کےعقائد ونظریات ان سے ثابت نہیں ہیں
ہمارے ہاں اہل حدیث اور حنفی حضرات کے مابین بعض اختلافی مسائل پربہت زیادہ مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے ہیں جن کی بناء پر بعض اوقات ناخوشگوار صورت حال بھی پیدا ہوجاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکرٹھنڈے دل سے ان مسائل کاحل کتاب وسنت کی روشنی میں تلاش کیاجائے زیرنظر کتاب میں ایسے ہی ایک درجن مسائل پر کتاب وسنت اور علمائے امت کےاقوال کی روشنی میں سنجیدہ اور عملی بحث کی گئی ہے ان مسائل میں رفع لیدین ،سینے پر ہاتھ باندھنا، فاتحہ خلف الامام ،آمین بالجہر،تروایح،نماز جنازہ ،ظہر احتیاطی ،ایک مجلس کی تین طلاقیں ،تقلید شخصی وغیرہ شامل ہیں کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علمائے احناف کے استدلال کو بھی پوری دیانتداری سے پیش کیا گیا ہے اور کہیں بھی اشتعال انگیز زبان اختیار نہیں کی گئی اس سے طالبان حق کو حق پہنچاننے میں مدد ملے گی-
اسلامی تعلیمات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک فکروعقیدہ اور دوسرے عملی امور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن عقیدہ زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ اعمال کی قبولیت بھی صحیح عقیدہ پر منحصر ہے علماء نے ہر دور میں فکرواعتقاد کے موضوع پرکتابیں لکھی ہیں زیرنظر کتاب امام طحاوی ؒ نے مرتب کی ہے جس میں بہت ہی مختصر انداز میں اسلامی عقائد کا احاطہ کیا گیا ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقائد بیان کیے گئے ہیں عقیدہ کی تعلیم اوراس کے عناصر سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس کامطالعہ ازحدضروری ہے کتاب مذکور کی خو بی یہ ہے کہ تمام اسلامی عقائد کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے اور باطل فرقوں کے بالمقابل اہل سنت والجماعت کے افکارونظریات کی نمائندگی کی گئی ہے اسی لیے مجلس التحقیق الاسلامی نے تصحیح ونظر ثانی کے بعد قارئین کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے خداکرے کہ اصلاح عقائد کی صورت پیدا ہو-
مسلمانوں کو کتاب وسنت پرعمل پیرا ہوتے ہوئے اپنےمسائل زندگی کےبارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اہل علم سے رہنمائی لینی چاہئے؟ یا کسی ایک فقیہ کی تقلید شخصی پرکاربند رہنا چاہیے ؟یہ نکتہ اہل تقلید اور اہل حدیث کے مابین ایک عرصہ سے بحث ونظر کاموضوع رہا ہے ایک حنفی عالم دین نے ''اجتہاد وتقلید'' کےنام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس میں ترک تقلید ہی کا رونا رویا گیا تقلید جامد کی حمایت میں لکھي گئی اس کتاب مین کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہی سطحی مغالطے ہیں جو ایک زمانے سے حلقہ مقلدین میں چلے آرہے ہیں زیرنظر کتاب میں شیخ العرب والعجم علامہ سیدبدیع الدین شاہ راشدی ؒ نے اس رسالے کامفصل علمی اور تحقیقی جواب دیاہے جس سے مقلدین کاتمام دلائل کا تاروبود بکھر کررہ جاتے ہیں اورتقلید سے متعلق سارے شبہات کامکمل ازالہ ہوجاتا ہے
محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ایک عظیم داعی قرآن تھے جن کی شبانہ روز محنت سے نہ صرف وطن عزیز بلکہ بے شمار دیگر ممالک میں بھی قرآن کریم کی دعوت پھیلی اور لوگ مطالعہ قرآن کی جانب راغب ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب قرآن حکیم کی تجدید ایمان کا وسیلہ قرار دیتے تھے اور ایمان وعمل کی تجدید سے قیام خلافت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلیے سرگرم عمل تھے اس سلسلہ میں انہوں نے انقلاب بپا کرنے کا ایک مفصل پروگرام بھی تشکیل دے رکھا تھا جو ان کے بقول قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ سے ماخوذ تھازیر نظر کتاب ''منہج انقلاب نبوی ﷺ''بھی اسی موضوع پرہے ا س میں محترم ڈاکٹر صاحب ؒ نے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں اولاً مراحل انقلاب کی تعیین فرمائی او راو ربعدازاں رسول معظم ﷺ کی سیرت کو مراحل انقلاب کی توضیح وتفصیل کے پہلو سے بیان کیا ہے کتاب مذکور میں مندرجہ جزئی تفصیلات سے تو بلاشبہ کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ان کا ثبوت کتب سیرت میں موجود ہے تاہم محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے استدلال اوراستنباط و استنتاج پربحث ونظر کی گنجائش موجود ہے خصوصاً یہ نکتہ تجزیہ ومناقشہ کا طالب ہے کہ کیا سیرت سے تشریعی امور پراشتہاد ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس لیے کہ ارباب اصول کے ہاں اخذواستدلال کے اسالیب میں حدیث وسنت کا تذکرہ توملتا ہے تاہم سیرت کا لفظ یااصطلاح مستعمل نہیں کتب سیرت میں دراصل نبی مکرم ﷺ کے احوال وآثار کو موضوع بحث بنایا جاتاہے ان سے استنباطِ امور شرعیہ مقصود نہیں ہوتا شرعی معاملات میں استدلال کے لیے کتب حدیث وسنت کی جانب رجوع کیا جاتا ہے اس اصولی نکتے کو ذہن نشین رکھتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب کی زیر نظر کتاب کامطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا کہ اس سے سیرت طیبہ ﷺ کے کئی مزید پہلو فکرو نظر کے سامنے آتے ہیں
اہل مغرب نے اپنی لادین تہذیب وثقافت کو فروغ دینے کےلیے جومختلف نعرے ایجاد کیے ہیں ان میں سے ایک آزادئ نسواں یا حقوق خواتین کابھی ہے اس کی آڑ میں وہ مسلم ممالک میں فحاشی وعریانی کاایک سیلاب لاناچاہتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان کےدام تزویر میں پھنس چکی ہے اور غیرت وحیاء کا جنازہ نکل چکاہے جس سے زنا کاری اور بدکاری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ان حالات میں ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو جانا جائے اور ان پر عمل پیرا ہواجائے اسلام نے عورت کو سب سے بڑھ کر عزت اور تحفظ دیا ہے زیرنظر کتاب میں بڑی خوبصورتی سے خواتین کےبارے میں اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا گیا ہے جن سے اسلام میں عورت کی عزت وعصمت کامقام ومرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور معاشرے میں باکیزگی اور حیاء کے جذبے فروغ پاتے ہیں
انسانوں میں مسائل ومعاملات کو سمجھنے میں فکرونظر کا اختلاف کچھ اچنبھے کی بات نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی سوچ او رفہم وفکر کی صلاحیتیں متفاوت ہیں مزیدبرآں بسااوقات شرعی نصوص میں ایک سے زیادہ معانی کی گنجائش ہوتی ہے لہذا اختلاف واقع ہوجاتاہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہاختلاف رائے میں رویہ او رانداز کیا ہونا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف ہوئے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کیا اور نہ ایک دوسرے کو کافر وفاسق کہا آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ اختلاف کو علمی دلائل تک محدود رکھاجائے اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان کو حل کرنے کی سعی کی جائے لیکن اسے باہمی بغض ونفرت اور حسدو کینہ کا سبب نہ بنانا چاہیے زیرنظر رسالے میں اسی نکتے پر زور دیا گیا ہے
اسلام کے ہر دور میں مسلمانوں میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ حدیث نبوی قرآن کریم کی وہ تشریح اور تفسیر ہے جو صاحب ِقرآن ﷺ سے صادر ہوئی ہے۔ قرآنی اصول واحکام کی تعمیل میں جاری ہونے والے آپ کے اقوال و افعال اور تقریرات کو حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم ہماری راہنمائی اس طرف کرتا ہے کہ قرآنی اصول و احکام کی تفاصیل و جزئیات کا تعین رسول کریم ﷺ کے منصب ِرسالت میں شامل تھا اور قرآن و حدیث کا مجموعہ ہی اسلام کہلاتا ہے جو آپ نے امت کے سامنے پیش فرمایا ہے، لہٰذا قرآن کریم کی طرح حدیث ِنبوی بھی شرعاً حجت ہے جس سے آج تک کسی مسلمان نے انکار نہیں کیا۔ انکارِ حدیث کے فتنہ نے دوسری صدی میں اس وقت جنم لیا جب غیر اسلامی افکار سے متاثر لوگوں نے اسلامی معاشرہ میں قدم رکھا اور غیر مسلموں سے مستعار بیج کو اسلامی سرزمین میں کاشت کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت فتنہ انکار ِ حدیث کے سرغنہ کے طور پر جو دو فریق سامنے آئے وہ خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج جو اپنے غالی افکار ونظریات کو اہل اسلام میں پھیلانے کا عزم کئے ہوئے تھے، حدیث ِنبوی کو اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اس سے فرار کی راہ تلاش کرتے تھے۔ دوسرے معتزلہ تھے جو اسلامی مسلمات کے ردّوقبول کے لئے اپنی ناقص عقل کو ایک معیار اور کسوٹی سمجھ بیٹھے تھے، لہٰذا انکارِحد رجم، انکارِ عذابِ قبر اور انکارِ سحر جیسے عقائد و نظریات اس عقل پرستی کا ہی نتیجہ ہیں جو انکارِ حدیث کا سبب بنتی ہے۔دور ِجدید میں برصغیر پاک و ہند میں فتنہ انکارِ حدیث نے خوب انتشارپیدا کیا اور اسلامی حکومت ناپید ہونے کی وجہ سے جس کے دل میں حدیث ِ نبوی کے خلاف جو کچھ آیا اس نے بے خوف وخطر کھل کر اس کا اظہار کیا۔ دین کے ان نادان دوستوں نے اسلامی نظام کے ایک بازو کو کاٹ پھینکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔ اس فتنے کی آبیاری کرنے والے بہت سے حضرات ہیں جن میں سے مولوی چراغ علی، سرسیداحمدخان، عبداللہ چکڑالوی، حشمت علی لاہوری، رفیع الدین ملتانی، احمددین امرتسری اور مسٹرغلام احمدپرویز وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان میں آخر الذکر شخص نے فتنہٴ انکار ِحدیث کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ انہیں اس فتنہ کے اکابر حضرات کی طرف سے تیارشدہ میدان دستیاب تھا جس میں صرف کسی غیر محتاط قلم کی باگیں ڈھیلی چھوڑنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس کام کا بیڑہ مسٹر غلام احمدپرویز نے اٹھا لیا جو کہ فتنوں کی آبیاری میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ زیر تبصرہ کتاب ’آئینہ پرویزیت‘ میں مدلل طریقے سے فتنہٴ انکارِ حدیث کی سرکوبی کی گئی ہے، اور مبرہن انداز میں پرویزی اعتراضات کے جوابات پیش کئے گئے ہیں-
موجود ہ زمانے میں مادیت کی چکا چوند ہر انسان کو اپناگرویدہ کررکھا ہے اور لوگ محض دنیوی مال ومتاع کے حصول میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں تخلیق انسانی کااصل مقصد یعنی عقیدہ توحید کو کو اختیار کرتے ہوئے عبادت الہی کی بجا آوری کافریضہ نگاہوں سے اوجھل ہوچکاہے بلکہ دین سے جہالت او رلاعلمی کی صورت حال یہ ہے کہ لوگ توحید کی اہیمت سے بے خبر ہیں او ران امور کابڑی لاپرواہی سے ارتکاب کرتے ہیں جو اسلام ہی کو ختم کردیتے ہیں ان کو نواقض اسلام کہا جاتا ہے زیرنظر کتاب میں اختصار کے ساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں توحیدوشرک اور نواقض اسلام سے متعلق بعض تنبیہات ذکر کی گئی ہیں جن کامطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے تاکہ وہ عقیدہ توحید پرکاربند رہ سکیں اور اس کےمنافی امور سے بچ سکیں کتابچہ کے مضامین کو سابق مفتی اعظم سعودی عرب علامہ ابن باز ؒ کی سند توثیق حاصل ہے جس سے اس کی وقعت میں اضافہ ہوجاتا ہے
اسلام کی نظر میں منافق مشرک وکافر سے بڑا مجرم ہےاسی لیے فرمایا گیا ہے کہ منافق جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے یہ تو اعتقادی نفاق کی سزا ہے تاہم عملی نفاق ہی کم خطرناک نہیں ہے جو آج کل کثرت سے نظر آتاہے حدیث کی رو سے جو شخص منافقوں کی حصلتیں اپناتا جاتا ہے وہ منافق ہوتا جاتا ہے تاں آنکہ وہ پکا اور خالص منافق بن جاتا ہے امام ابن القیم الجوزیہ ؒ نےزیر نظر رسالہ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں منافقوں کی مذموم صفات کو اجاگر کیا ہے تاکہ ان سے بچا جاسکے اس رسالے کامطالعہ کرکے ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر منافقوں کی صفات وعلامات تو موجود نہیں اگر ایسا ہوتو فوراً اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے
اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضل و شرف کا معیار ظاہری افعال و اعمال نہیں بلکہ ایمان کے حقائق ہیں۔ عمال کی فضیلت و برتری صاحب عمل کے دل کے اندر قائم دلیل و برہان کے تابع ہوتی ہے یہاں تک کہ دو عمل کرنے والے بظاہر ایک رتبہ دکھائی دیتے ہیں لیکن فضیلت و برتری اور وزن میں ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ قلب کی اصلاح و تزکیہ اور اسے آفات سے پاک رکھنے اور فضائل و خوبیوں سے آراستہ کرنے کی ضرورت پر زور دینے والی چیزوں میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےاپنے بندوں سے اپنی نگاہ کا مرکز ان کے دلوں کو قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں ماضی قریب کے جید عرب عالم دین شیخ محمد صالح المنجد نے ’سلسلہ اعمال القلوب‘ کے نام سے کتاب لکھی جس کا اردو ترجمہ ’دل کی اصلاح‘ اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ اردو ترجمہ نہایت سلیس اور رواں ہے۔ کتاب کومتعدد عناوین میں تقسیم کرنے کے بعد دلوں کی صفائی پر نگارشات پیش کی گئی ہیں۔ ان عناوین میں اخلاص و للّٰہیت، توکل، محبت، خوف و خشیت، امید کی حقیقت، تقویٰ کی حقیقت، تسلیم و رضا، شکر گزاری، صبر و تحمل، ورع اور مشتبہات سے بچاؤ، غور و فکر اور نفس کا محاسبہ شامل ہیں۔ 750 سے زائد صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ہر عنوان کے تحت الگ سے مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور ہر بحث کا مکمل تعارف کروانے کے بعد اصل موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ انسان کی تمام تر کامیابی کا دارو مدار اسی پر ہے کہ دنیا میں وہ اپنی اصلاح کر لے اور اپنے آپ کو آخرت کےلیےتیار کر لے۔ اس ضمن میں یہ کتاب نہایت مددگار ثابت ہو گی۔
(ع۔م)
ہمارے معاشرے میں دینی مسائل سے ناواقفیت کی بناء پرلوگ کثرت سےنام نہاد عاملوں ،جادوگروں اور بنگالی بابوں کے دام تزویر میں پھنس کر متاع دنیا کےساتھ دولت ایمان بھی لٹا بیٹھتے ہیں قرآن وسنت کی روشنی میں جادوٹونہ،علم نجوم اور جفرورمل وغیرہ قطعی ممنوع امور ہیں لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان میں مشغول ہے زیر نظرکتاب میں فاضل مؤلف نے ان تمام معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں بے لاگ جائزہ لیا ہے اور ان کی ممانعت وقباحت ثابت کرنے کےساتھ ساتھ نجومیوں ،رملوں جفریوں ،کاہنوں اور نام نہاد عاملوں وغیر ہ کی کتابوں ،مقالوں ،اشتہاروں اور ان کےمنہ پھٹ دعوؤں کی روشنی میں ان کی کذب وتضادبیانیاں پيش کرکے انہیں جھوٹا ثابت کیا ہے اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین نہ صرف جھوٹے عاملوں کے مکروفریب سے بچ سکیں گے بلکہ جادو او رجنات کے توڑ کے شرعی طریقوں سے بھی آگاہی حاصل کرسکیں گے –(انشاء اللہ )
افراد امت تک دین کا پیغام پہنچانا نبوی مشن ہے جسے ارباب علم نےسنبھال رکھا ہے اور بخیر وخوبی سرانجام دے رہے ہیں لیکن بعض لوگ دین ومذہب کے نام پر لوگوں کا جذباتی ،مذہبی اورمعاشی استحصال کررہے ہیں افسوس کہ جناب طاہر القادری صاحب کا نام بھی انہی میں شامل ہے موصوف دین اور عشق رسول ﷺ کے نام پرمعاشرے میں بدعات کو فروغ دے رہے ہیں ان کےنام سے بہت سی کتابیں منصۂ شہود پر آچکی ہیں لیکن ان میں محکم استدلال کے بجائے من گھڑت اور ضعیف وواہی روایات سے دلیل اخذ کی جانے کی کوشش کی جاتی ہے اسی طرح تفسیر میں بھی موصوف کامنہج درست نہیں جناب ڈاکٹر رفض وتشیع کی طرف بھی میلان رکھتے ہیں جیسا کہ وہ باقاعدہ مجالس عزا میں جاکر خطاب کرتے ہیں زیرنظر کتاب میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی علمی خیانتوں کو طشت ازبام کیا گیا ہے جس سے ان کااصل چہرہ بے نقاب ہوکر سامنے آگیا ہے امیدہے کہ اس کےمطالعہ سے قارئین کو جناب ''شیخ الاسلام '' کو پہنچاننے میں آسانی رہے گی-
موجودہ مادی دور میں جب کہ ہرشخص دنیوی آسائشات کےحصول میں مگن ہے ایسے لٹریچر کی اشد ضرورت ہے جو مختصر ہو اور اس سے فائدہ اٹھانے میں سہولت ہو اسی کے پیش نظر یہ کتاب مرتب کی گئی ہے تاکہ قرآن حکیم کی کم ازکم ان آیات کو جن کاجاننا اور ان پر اپنی روز مرہ زندگی میں عمل کرنا ہرمسلمان کے لیے نہ صرف انتہائی ضروری ہےبلکہ فرض ہے ہر ایک کے علم میں لایا جاسکے بقول مؤلف یہ کتاب قرآن کے حوالے سے اللہ تعالی کا بتایا ہوا امن وسلامتی کاسیدھا راستہ دکھانے کی ایک عاجزانہ کوشش ہے یہاں یہ پہلو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ دینی تعلیمات کےلیے صرف اسی ایک کتاب پرانحصار کرنا سنگین غلطی ہوگی-
حج اورعمرہ دوعظیم عبادتیں ہیں ان کی ادائیگی کےلیے مکہ مکرمہ کاقصد کرنا پڑتا ہے او روہاں جاکر مناسک حج و عمرہ اداکرنے ہوتے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے حج او رعمرہ کےمسائل معلوم ہوں تاکہ سنت کےمطابق ان سے عہدبرآ ہواجاسکے زیرنظر کتاب میں انتہائی مختصر اور جامع انداز میں حج وعمرہ کے تمام مسائل بیان کردیئے گئے ہیں ہربات کا قرآن وسنت سے حوالہ بھی دیا گیا ہے بعض اہم مسائل سے متعلق علماء کے فتاوی بھی اس میں شامل ہیں اس کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تصاویر اور نقشوں کا بھی اہتمام کیا گیاہے جس سے عام قاری کو مسائل کے سمجھنے میں سہولت رہتی ہے
اس کائنات ہست وبود کی ہرشے کاایک مقصد وجود ہے انسان جو اشرف المخلوقات ہے یقیناً اس کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہونا چاہیے قرآن کریم میں بتایاگیا ہے کہ انسان اور جن کی تخلیق کامقصد اللہ عزوجل کی عبادت ہے اللہ رب العزت جو اس کائنات کاخالق ومالک اوررازق ہے وہی بندگی او رپرستش کا اصل مستحق ہے عقل بھی اس نتیجے تک پہنچاتی ہے کہ جس ذات نےہمیں پیدا کیا ہماری پرورش اور تربیت کاانتظام کی اسی کے سامنے اپنی جبیں نیاز کو جھکانا چا ہئے تمام انبیاء علیم السلام کی دعوت بھی یہی تھی کہ لوگو !اللہ کی بندگی کرو اور اس میں کسی کوشریک نہ ٹھہراؤ زیرنظر کتاب میں اسی حقیقت کو انتہائی خوبصورت اور مؤثر پیرایے میں بیان کیا گیا ہے جس کے مطالعہ سے انسان اپنےمقصد وجود کی جانب متوجہ ہوسکتا ہے او راپنا حقیقی فرض جان سکتا ہے ۔
موجودہ مادی دور میں جہاں اور بہت سے مسائل باعث پریشانی ہیں وہاں ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کیونکر کی جائے معاشرے میں عمومی طورپر الحادولادینیت کا دور دورہ ہے درس گاہوں کی حالت بھی ابتر ہے اس کےلیے یقیناً بہت احیتاط کی ضرورت ہے لہذا ہمہ وقت بارگاہ ایزدی میں دست بدعا رہنا چاہئے کہ وہ نونہالان وطن کی صحیح تعلیم وتربیت کے لیے ذرائع وسائل مہیا فرمائے بچوں کی تربیت کاایک اہم طریقہ حکایات اور کہانیاں بھی ہیں بچوں میں طبعی طور پر کہانیوں سے ایک لگاؤ ہوتا ہے لیکن عموماً جنوں اور پریوں با بادشاہوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں کوئی اخلاقی سبق نہیں ہوتا بلکہ الٹا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں زیرنظر کتاب میں بچوں کےلیے اسلامی نقطہ نظر سے بہت ہی عمدہ کہانیاں تحریر کی گئی ہیں جن سے بچوں میں اسلامی عقائد وآداب مستحکم ہوں گے البتہ اس کایہ پہلو کھٹکتا ہے کہ یہ فرضی کہانیاں ہیں بہتر ہوتا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام اور تاریخ کے سچے واقعات کو کہانی کے انداز میں بیان کیاجاتا۔
یہ عقیدہ کہ سلسلہ نبوت ورسالت سیدنا محمدعربی ﷺ پرختم ہوچکا اور اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اسلام کا بنیادی ترین عقیدہ ہے جسے تسلیم کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا تاریخ میں ایسی کئی روسیاہیوں کا تذکرہ ملتا ہے جنہوں نے ردائے نبوت پر ہاتھ ڈالنےکی ناپاک جسارت کی۔انہی میں مرزا غلام احمد قادیانی کانام بھی آتا ہے جس نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا لیکن مسلمانان برصغیر نے اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں بالآخرپاکستان میں انہیں آئینی طور پر کافرقرار دے دیاگیا لیکن اس کےلیے اسلام اور جانثار ختم نبوت نے بےشمار قربانیاں دیں جن کی تفصیل معروف صحافی جناب آغاشورش کاشمیری نے ’’تحرک ختم نبوت‘‘ میں کی ہے جس میں 1891 ء سے لیکر 1974 ء تک اس عظیم تحریک کی تفصیلات کو انتہائی خوبصورت اور مؤثر اسلوب نگارش میں قلمبند کیا گیا ہے اس کتاب کے بعض مندرجات سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن مجموعی طور پر یہ کتاب انتہائی مفید اور لائق مطالعہ ہے ۔