يہ عقیدہ کہ جناب محمدرسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری پیغمبرہیں اورآپ ﷺ کے بعدکوئی نبی نہ آئے گااسلام کابنیادی ترین عقیدہ ہے ،جسے تسلیم کیے بغیرکوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا۔نبی کریم ﷺ نے پشین گوئی فرمائی تھی کہ امت میں تیس چھوٹے دجال ظاہرہوں گے جودعویٰ نبوت کریں گے ۔ہندمیں مرزاغلام احمدقادیانی بھی اسی پشین گوئی کامظہرتھا۔جس سے نبوت کاجھوٹادعوی ٰ کیااورردائے نبوت یہ ہاتھ ڈالنے یک ناپاک جسارت کی علمائے اسلام نے مسلمانوں کوقادیانی دجال کے فتنے سے بچانے کے لیے بھرپورکردارااداکیااوراس ضمن میں بے شمارکتابیں لکھیں ۔زیرنظرکتاب معروف عالم اورسیرت نگارمولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری نے تحریرکی ہے ۔اورقادیانیت کے تارویودبکھیرکررکھ دیتے ہیں جس سے قادیانی فتنے کی حقیقت طعشت ازہام ہوجاتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات کومرکز محبت قراردینامسلمانوں کابنیادی فرض ہے اوردنیوی واخروی کامرانیوں کادارومداراسی پرہے۔لیکن اس باب میں یہ نازک نکتہ پیش نظررکھناازحدضروری ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارمحبت کاوہی طریق قابل قبول ہے جس پرخودحضورختمی المرتبت ﷺ کی سہرشت ہو۔بعض لوگ محبت وعشق مصطفیٰ ﷺ کے نعرے کی آڑمیں ضعیف وموضوع روایات سے استدلال کرتے ہوئے اس بات کے داعی ہیں کہ نبی پاک ﷺ کی قبرانورکی زیارت کے لیے باقاعدہ نیت کرکے سفرکرناشرعی تقاضااورباعث اجروثواب ہے ۔لیکن یہ نقطہ نظرحدیث صحیح کے برخلاف ہے ۔چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اس کی تردیدکی ہے ۔اس سلسلہ میں قاضی السبکی نے ’شفاء السقام ‘نامی کتاب لکھ کرعلامہ ابن تیمیہ کی تردیدکرنے کی سعی کی ہے۔قاضی صاحب کی اس کتاب کاجواب علامہ کے شاگردابن عبدالہادی نے ’’الصارم المنکی‘‘کے نام سے دیاتھاجس کاجواب قاضی صاحب نہ دے سکے ۔اب بعض لوگوں نے قاضی صاحب کی کتاب کااردوترجمہ کرکے لوگوں کومغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔زیرنظرکتاب ’سفرمدینہ کی صحیح نیت ‘قاضی صاحب کی کتاب کامفصل ،علمی وتحقیقی اورمحدثانہ جواب ہے جس سے تمام شبہات کاازالہ ہوتاہے۔
اللہ عزوجل نے امت مسلمہ کامقصدوجوددعوت کوقراردیاہے ۔اسی بناءپرانہیں ’خیرامت‘کامعززلقب دیاہے۔قرآن وحدیث میں دعوت الی اللہ کے اصول وضوابط متعین کردیے ہیں اوررسول پاک ﷺ نے عملا انہیں برت کردکھابھی دیاہے ۔نبوی اسلوب دعوت کوسامنے رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے جس خوش اسلوبی سے فریضہ دعوت کوسرانجام دیااس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسلام اطراف واکناف عالم میں پھیل گیالیکن بعدازاں یہ طریقہ دعوت نظروں سے اوجھل ہوگیاتوفرقہ واریت اوراحتراق نشست امت کامقدربن گیاموجودہ ذلت ورسوائی کی وجہ بھی یہی ہے کہ تنظیموں اورجماعتوں کی دعوت انبیاء کرام کے طریقے پرنہیں ہے ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مؤثراوردلنشیں انداز میں انبیاء کے اسلوب دعوت پرروشنی ڈالی گئی ہے جویقیناً قابل مطالعہ ہے ۔
نماز دین اسلام کادوسرا اہم رکن اورقرب الہی کابہترین ذریعہ ہے ۔جہاں اللہ رب العزت نے مواظیت نماز کوفرض قراردیاہے وہاں رسول اللہ ﷺ نے (صلواکارأیتمونی أصلی)کی شرط عائدفرمائی یعنی تکبیرتحریمہ سے تسلیم تک تمام امورکاطریقہ نبوی ﷺ کے مطابق ہوناضروری ہے ۔انہی امورمیں سے نماز کے بعض مسائل ایسے ہیں جواحادیث صحیحہ اورعمل صحابہ ؓ سے ثابت ہونے کے باوجودبعض لوگوں کے اعتراضات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ۔آمین بالجہرکامسندبھی انہی میں شامل ہے ۔صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جہری نماز وں میں باجماعت نماز پڑھتے ہوئے سورہ فاتحہ کے خاتمہ پرآمین بلندآواز سے کہی جائے گی لیکن بعض لوگ ضعیف احادیث اورمردوددلائل کی بناء پرآمین بالجہرکے مخالف ہیں اورقائلین بالجہرپرنانواطعن وتشنیع کرتے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مدلل اورعلمی طریقہ سے آمین بالجہرکاثبوت پیش کیاگیاہے اوراس کے مخالف نقطہ نگاہ کے دلائل کابھی ناقدانہ جائزہ لیاگیاہے ۔
مولانامحمدحنیف ندوی علیہ الرحمۃ ایک عظیم مفکر،جلیل القدرعالم اورمنفردادیب اوربلندپایہ فلسفی تھے ۔انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پرتیس کے قریب کتابیں تحریرکیں ۔مولانانے قرآن شریف کی تفسیربھی لکھی جوسراج البیان کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ۔مولانامرحوم بے پناہ صلاحیتوں اورخوبیوں سے اتصاف پذیرتھے اوراسلام کے لیے ان کی خدمات انتہائی قابل قدرہیں ۔لیکن افسوس کہ عوام میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہیں ۔ارباب ذوق کوان سسے روشناس کرانے کے لیے زیرنظرکتاب ’’ارمغان حنیف ‘‘پیش کی جاری ہے جس میں ان کی خدمات وسوانح زندگی بیان کیے گئے ہیں ۔یہاں اس حقیقت کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مولاناکی فکرکے بعض پہلوارباب علم وتحقیق کی نگاہ میں محل نظرہیں ۔ ؒ تعالیٰ۔
مولاناسیدسلیمان ندوی ؒ ایک عظیم سیرت نگار،جلیل القدرعالم اورمنفردادیب تھے۔ان کے قلم گوہربارسے کتنی شہرہ آفاق کتابیں منصہ مشہودپرآئیں ۔خطبات مدراس بھی سیدصاحب کی ایک بے مثال کتاب ہے ،جس میں موصوف نے سیرت نبوی ہی کوموضوع بنایاہے اوربڑے ہی ادبی وعلمی انداز سے رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کواجاگرکیاہے۔اس کتاب میں چھ (6)خطبات ہیں ،جن میں متعدداورمتنوع جہات پربحث کی گئی ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ سیرت پاک کابغورمطالعہ کیاجائے اوراپنی زندگیوں کواس کے مطابق ڈھالاجائے ۔یہ کتاب اس میں یقیناً معاون ہوگی۔ان شاء اللہ
رسول اکرم ﷺ کی سیرت پربے شمارکتابیں لکھی جاچکی ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری ہے جوتاقیامت جاری رہے گا۔ان شاء اللہ ۔سیرت نگاروں نے متعدداورمتنوع اسالیب اختیارکیے ہیں ۔اس ضمن میں مولانا محمدحنیف ندوی ؒ نے قرآن شریف کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کاکام شروع کیاتھایعنی قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کے نقوش سیرت کواجاگرکیاجائے’چہرہ نبوت‘اس کے نتیجے میں منصہ شہودپرآئی ۔تاہم افسوس مولانااس کام کومکمل نہ کرسکے۔اورمولانااسحاق بھٹی نے چندابواب کااضافہ کیا۔اس پرکام کی مزیدضرورت ہنوز باقی ہے تاہم جتناکام مولانانے کیاوہ لائق تحسین اورقابل قدرکاوش ہے ۔جس سے واضح ہوتاہے کہ قرآن مقدس میں بھی نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ موجودہے۔
ابن خلدون ایک عظیم سماجی مفکرتھے تاریخ عالم کے چندنمایاں ارباب علم وفکرمیں وہ ایک منفردمقام رکھتے ہیں علامہ نے سماجیات میں انسانی فکرکونئے زاویوں سے آشناکیاہے اورعمرانی علوم میں ایسے قابل قدرنکات اجاگرکیے ہیں جوآج بھی ماہرین عمرانیات کےلیے دلیل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔علامہ کےافکاروخیالات کےباب میں انکا مشہورزمانہ مقدمہ ایک خاص مقام کاحامل ہے جس میں انہوں نے مختلف علوم وفنون اورافکارونظریات پرجچی تلی اورمتوازن ومعتدل آراء کا اظہارکیاہے۔زیرنظرکتاب میں مولانامحمدحنیف ندوی ؒ نے علامہ کے مقدمہ کاانتہائی موثراوردلنشیں پیرایہ بیان میں خلاصہ کیاہے ۔جس میں تمام ضروری مباحث بڑی خوبصورتی سے سمیٹے ہیں ۔لاعق تحسین امریہ ہے کہ مولاناندوی نے خلاصہ کے آغاز میں ایک مقدمۃ المقدمہ بھی تحریرکیاہے ۔جس میں ابن خلدون کے افکاروآراء پرتجزیاتی تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کواجاگرکیاہے ۔
انسانی زندگی ہرلمحہ متحرک اورمعتبرہے ۔دنیامیں ہروقت نت نئے مسائل ومعاملات ظہورپذیرہوتے رہتے ہیں جن کاحل درکارہوتاہے ۔دورجدیدایک ایسے نظام حیات کامتقاضی ہے جوتمام معاملات زندگی کاحل پیش کرسکے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسامذہب صرف اورصرف اسلام ہے جواگرچہ آج سے ڈیڑھ ہزاربرس پہلے مکمل ہواتاہم آج بھی تروتازہ اورشگفتہ ہے اورزندگی کے ہرگوشے سے متعلق ہدایت وراہنمائی دینے کی صلاحیت رکھتاہے ۔زیرنظرکتابچہ میں عظیم اسلامی مفکرمولاناسیدابوالاعلی ٰ مودودی نے اسی حقیقت کوبڑے ہی مؤثراورسائینٹیفک طریقے سے اجاگرکیاہے جس سے اسلام کی حقانیت لکھ کرنظروبصرکے سامنے آجاتی ہے ۔
صحائف سماوی میں قرآن حکیم وہ منفردکتاب ہے جس کے متعلق کامل وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ ہمارے پاس اسی صورت میں محفوظ ومامون ہے جس صورت میں یہ رسول اکرم ﷺ کی زبان حق ترجمان ووحی ربانی کے ذریعے سے جاری ہوئی تھی ۔نزول قرآن کااصل مقصدنفس انسانی کی تہذیب اورباطل عقائداورفاسداعمال کی تردیدہے ۔اس انقلاب انگیزنظریہ کی حامل یہ جامع کتاب ہرزمانہ میں علماءوفضلاکے لیے جاذب توجہ رہی ہے ۔اس کے غائرمطالعہ سے علم وحکمت کے چشمے سداپھوٹتے رہتے ہیں اورانسانی فکرونظرکی آبہاری ہوتی رہی ہے۔زیرنظرکتاب ’’مطالعہ قرآن‘‘مولانامحمدحنیف ندوی کے سال ہاسال کے تدبروتفقہ فی القرآن اوران کے مدت العمرکے شغف علوم دین کانتیجہ ہے۔مولانامرحوم نے انتہائی خوبصورت ادبی پیرائے میں علوم قرآن پرروشنی ڈالی ہے جولائق مطالعہ ہے ۔
اس کتاب میں مصنف نے اسلام کےبارے میں جدید ذہن میں پیداہونے والے شبہات کامدلل اورسائینٹیفک جواب دیاہے ۔اسے پڑھ کراسلام کی شدیدضرورت کااحساس ہوتاہےاوریہ معلو م ہوتاہے کہ اسلامی ہی دنیاکےموجودہ مصائب اوردکھوں کاواحدعلاج ہے۔دراصل ہمیں اپنی کوششیں مخالفین اسلام کی پھیلائی ہوئی ان غلط فہمیوں اورشبہات کے ازالہ تک ہی محدودنہیں رکھنی چاہیئں جووہ ہمیں پریشان کرنے اورمنطقی انداز دفاع اختیارکرنے پرمجبورکرنےکےلیے وقتاً فوقتاًپھیلاتے رہتے ہیں ،بلکہ ضرورت ہے کہ اب ہم زندگی کے مختلف دوائرمیں اسلامی تعلیمات کے اجابی پہلوکواجاگرکریں اوراسلامی قانون کےان پہلوؤں کودنیاکے سامنے نمایاں کریں جن سے زندگی میں اسلامی قانون کامثبت اورنگراں کردارواضح ہوتاہے ۔اس کتاب کی اشاعت میں بھی یہی مقصدکارفرمانظرآتاہے ۔
اللہ عزوجل نے انسان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزارپیغمبراس دنیامیں مبعوث فرمائے۔ان سب کاپیغام دعوت ایک ہی تھااوروہ تھاکلمہ توحید۔یعنی لوگ صرف اللہ تبارک وتعالی ٰ ہی کوعبادت کامستحق جانیں اوراس کے سامنے دست سوال درازکریں ۔یہی مشترک دعوت انبیاء کی میراث ہے ۔فاضل مؤلف نے زیرنظرکتاب میں بڑی خوبصورتی سےتوحیدکی اہمیت اوراس کےمعنی ومفہوم کواجاگرکیاہے ۔انہوں نےبتایاہے کہ کلمہ لاالہ الااللہ کب انسان کےلیے مفیدہوگااوراس کی شرائط کیاہیں؟علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی واضح کیاہے کہ طاغوت سے بچناضروری ہے اورجوطاغوت سے فیصلے کرواتاہے وہ درحقیقت طاغوت پرایمان لاتاہے ۔فی زمانہ جبکہ شرعی قوانین کےبجائے خودساختہ دساتیرکی پابندی کی جارہی ہے ،یہ بحث بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔اس کےساتھ ساتھ سیاست حاضرہ کوموضوع بحث بناتے ہوئے یہ بتایاگیاہے کہ موجودہ اسمبلیوں اورایوان ہائے سیاست واقتدارمیں شمولیت کاشرعی حکم کیاہے ۔بہت ہی اہم کتاب ہے ،ہرمسلمان کواس کالازماً مطالعہ کرناچاہیے تاکہ توحیدکاتصورصحیح معنوں میں سمجھاجاسکے اورطاغوت سے بچناممکن ہوسکے۔
اسلام عقل ونقل كاايك حسين امتزاج ہے اوراس ضمن میں کمال اعتدال اورتوازن سے کام لیاگیاہے اسلام نے یہ اصول مقررکیاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے تمام افعال واعمال اورہدایات عقل ومنطق سے کسی طورمتصادم نہیں البتہ یہ ممکن ہے کہ ان کی تفہیم میں عقل انسانی عاجزآجائے ۔معجزات بھی اسی قبیل سے ہیں یعنی ایسے افعال جن کے کرنےسے انسان عاجزوقاصررہ جائیں۔ان پرایمان لاناواجب ہے اس اصولی نکتہ کونظراندازکرنے سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔چنانچہ بعض لوگ جب معجزات کوبظاہرعقل کےخلاف دیکھتے ہیں توان کے انکارکی روش اپنالیتے ہیں جوکہ صریحاً غلط ہے زیرنظرکتاب میں ایسے ہی ایک صاحب کی غلط فہمیوں کاازالہ کیاگیاہے جوعقل پرستی کاشکارہوکرمعجزات کاانکارکربیٹھے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں معجزات کاثبوت ملے گاوہیں عقل انسانی کے صحیح کردارکی بھی تعیین ہوجائے گی ۔
اس کتاب میں مصنف ارشاد الحق اثری صاحب نے پاک و ہند میں علمائے اہلحدیث کی خدمات حدیث کو بیان کیا ہے جس میں انہوں نے بے شمار جید علماء اہلحدیث کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ برصیغر میں اسلام کی آمد کیسے ہوئی , حدیث سے بے اعتنائی کے چند واقعات کو بیان کرتے ہوئے چند رجال حدیث کا بھی ذکر کیا ہے جس میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ , شاہ اسماعیل شہید ؒ , عبد الغزیز ؒ , مولانا عبد الرحمان محدث مبارکپوری ؒ , مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی ؒ مولانا وحید الزمان خاں ؒ , حضرت نواب صدیق الحسن خاں قنوجی ؒ اور اہلحدیثوں کے تدریسی مراکز , اکابرین دیوبند کا انداز تدریس , حدیث کی تعلیم اشاعت میں روکاٹ , دیوبند کا اساسی مقصد , علمائے اہلحدیث کا طریقہ درس , علمائے اہلحدیث کی خدمات کا اعتراف اور اس کی تحسین , اہلحدیثوں کی تصنیفی خدمات , خدمات علمائے غزنویہ کو بیان کرتے ہوئے موصوف نے بے شمار کتب حدیث کا تعارف کرایا ہے جس میں صحیح بخاری , صحیح مسلم , سنن نسائی , سنن ابی داؤد , جامع ترمذی , سنن ابن ماجہ , مؤطا امام مالک جیسی بے شمار کتب کا تعارف کروایا ہے اس کتاب کے مطالعہ سے علمائے اہل حدیث کی حدیث وسنت سے محبت اور اس کی تبلیغ واشاعت کا جذبہ نکھر کرسامنے آتا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدمت حدیث اہل حدیث کا طرۂ امتیاز ہے
اسلام وحی الہی کی اتباع وپیروی سے عبارت ہے وحی قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی حدیث وسنت کی صورت میں امت مسلمہ کے پاس محفوظ حالت میں موجود ہے اللہ تبارک وتعالی نے بھی ہمیں یہیں حکم دیا ہے کہ ’’اتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ‘‘یعنی اس شئے کی اتباع کرو جو تمہار ے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ وحی یعنی قرآن وحدیث کے سوا کچھ نہیں اہل حدیث کی صرف یہی دعوت ہے کہ امت فلاح وکامرانی او رکامیابی کا راز کتاب وسنت کی غیر مشروط اطاعت میں مضمر ہے یہ فطری سادہ اور شفاف دعوت ہر طبع سلیم کو اپنی جانب راغب کرتی ہے اور لوگ اپنے آبائی اور علاقائی مسالک ومذاہب کو چھوڑ کر اسے اپنا رہے ہیں زیر نظر کتاب میں چند ایسے ہی خوش قسمت افراد کی داستان بیان کی گئی ہے جنہوں نے وحی کی صدائے دل نواز پہ لبیک کہتےہوئے اپنی تقلیدی مسالک کو ترک کرکے عمل بالحدیث کا مذہب اختیار کیا ٹھنڈے دل اور وسعت قلب کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے انشاء اللہ حق کو قبول کرنے کا جذبہ بیدارہوگا اور خودساختہ فرقوں کی حقیقت نکھر کر نظر وبصر کے سامنے آجائے گی ہم خلوص دل کے ساتھ یہ کتاب ہدیۂ قارئین کر رہے ہیں امید ہے اسی جذبے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتا ب کا مطالعہ کیا جائے گا
حدیث نبوی ہے کہ عنقریب تم پرہرطرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھاناکھانے والے دسترخواں پرٹوٹ پڑتے ہیں۔اس وقت مسلمانوں کی تعدادکم نہیں ہوگی لیکن ان کاعالم یہ ہوگاکہ سمندرکی جھاگ کی طرح ہوں گے ۔مسلمانوں کارعب دشمنوں کے دل سے نکل جائے گا۔اوران کےدلوںمیں وہن یعنی زندگی سے محبت اورموت سے نفرت پیداہوجائے گی ۔سقوط کابل وبغدادرسول کریم ﷺ کی اسی پیش گوئی کی منہ بولتی تصویرہے ۔ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کی موجودگی میں دومسلم ریاستوں کوکفرکی اتحادی افواج نے جس طرح تہس نہس کیاہے ،یہ محض مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کانتیجہ ہے ۔زیرنظرکتاب افغان اورعراق جنگ کے دوران شائع ہونے والے ان مضامین کامجموعہ ہے جن میں کفرکی یلغارکے نتیجہ میں امت مسلمہ کے عروج وزوال کی داستان کتاب وسنت کاتاریخ اورحالات حاضرہ سے دلائل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اورساتھ یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مددکب کرتاہے اورکب مسلمان اللہ کی مددسے محروم ہوتے ہیں۔
کائنات میں امن وسکون اوراطمینان وچین اسی صورت میں ہوسکتاہے جب ہرانسان اپنی ذمہ داری پوری کرے اوردوسروں کے حقوق اداکرے۔اسلام نے حقوق العبادپربہت زوردیاہے ۔حقوق العبادمیں سرفہرست والدین کےحقوق ہیں ۔حقوق والدین کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن مجیدمیں اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی عبادت کے بعدجن ہستیوں کی اطاعت اورفکرگزاری کاحکم دیاہے وہ ہمارے والدین ہیں۔لیکن عام طورپردیکھاگیاہے کہ والدین شکوہ کرتے نظرآتے ہیں کہ بچے بات نہیں سنتے ،بچے بات نہیں مانتے ،گویاوہ والدین کے حقوق ادانہیں کررہے۔زیرنظرکتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں والدین کے حقوق اوران کےمقام ومرتبہ کےبارےمیں انتہائی مؤثراسلوب میں بحث کی گئی ہے ،جوکہ لائق مطالعہ ہے۔دعاہے کہ اللہ تعالی ہمیں والدین کاادب اوران کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین
اہل حدیث کی دعوت یہ ہے کہ وحی الہی یعنی کتاب وسنت کو زندگی کا دستور العمل بنایا جائے اور اسی کے مطابق اپنے عقیدہ وعمل کو ڈھالا جائے اس کے بالمقابل ارباب تقلید اپنے آئمہ وفقہاء کے اقوال وآراء او راجتہادات وفتاوی کی طرف دعوت دیتے ہیں خود ان کو بھی احساس ہے کہ ان کی دعوت میں قرآن وحدیث کو اولیت حاصل نہیں ہے اب بجائے اس کے کہ یہ اپنی اصلاح کریں اوراتباع سنت کو اپنانے کی فکر کریں اگر کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے ان کے عقائد واعمال کی کمزوریوں کی نشاندہی کرے او رقرآن وسنت کی طرف رجوع کی ترغیب دے تو یہ اسی پہ سرچڑ ھ دوڑتے ہیں اور اس کے خلاف اپنے غیظ وغضب کا اظہار کرتےہیں ایسی ہی صورت حال مولانا محمد یوسف جے پوری ؒ کی کتاب حقیقۃ الفقہ کے بارے میں دیکھنے میں آئی ہے کہ اس کے جواب میں اہل تقلید کے دیوبندی وبریلوی دھڑوں نے کتابیں لکھی ہیں جن میں علمی اور سنجیدہ اسلوب اپنان کے بجائے محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازی سے کام لیا گیا ہے زیر نظر کتاب اسی طرح کی دوکتابوں کا جواب ہے جس مین انتہائی مدلل اور علمی طریق سے اہل حدیث کا دفاع کیا ہے اور ارباب تقلید کے استدلال قلعی گھوبی گئی ہے ۔
اسلامی تاریخ میں جو شخصیات مسلمانوں کےلیے سرمایۂ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں ایک نمایاں نام سلطان یوسف المعروف صلاح الدین ایوبی کا ہے جنہوں نے اپنی بے مثال شجاعت اور جرأت واستقلال سے قبلۂ اول فلسطین کو صلیبیوں کے پنجۂ استبداء سے آزادکروایا ۔سلطان صلاح الدین ایوبی کی پوری زندگی ان کے دلیرانہ اور بہادرانہ کارناموں سے بھری پڑی ہے موصوف نے ہمیشہ ملت کے دفاع کااور اسلام کی سربلندی کےلیے اپنی شمشیر کو بے نیام کرتے ہوئے میدان قتال مین دادشجاعت دی ہے زیر نظر کتاب میں ان کی زندگی کے آخری چھ سالوں کے مختلف واقعات کو جمع کیا گیا ہے جو سلطان کی حیات کے سب سے قیمتی اور یادگار ایام ہیں کہ جن میں انہوں نے مسلسل صلیبیوں سے گھیر گھیر کر ان کا شکار کرتے ہوئے بیت المقدس کو ان کے ناپاک عزائم سے بچانے کےلیے اللہ کے گھر کی عزت وناموس کی رکھوالی کے لیے دن رات اپنی جان ہتھیلی پرلیے شمشیروں کی چھاوں میں ،تیروں کی بارش میں ،نیزوں کی انیوں میں،گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر اس کو شمن کی صفوں میں سرمیٹ دوڑاتے ہوئے تلوار بلند کرتے ہوئے اللہ کے باغیوں ،کافروں ،ظالموں کی گردنیں اڑاتے ہوئے بسرکیا زیر نظر صفحات میں آپ کو یہی نظارے نظر آئیں گے۔
اسلامی تعلیمات کامقصدبنی نوع انسان کورب کریم کےقرب وحضورکااہل بناتاہے ۔اس ضمن میں خصوصیت کےساتھ اخلاقی برائیوں سےبچنے کی تلقین کی گئی ہے ،جن میں جھوٹ سرفہرست ہے۔کتاب وسنت کی روسے مومن جھوٹ کاارتکاب نہیں کرسکتا۔یہی وجہ ہے کہ جھوٹوں پرخداکی لعنت کی گئی ہےاوراسے منافق کی علامت قراردیاگیاہے ۔حقیقت یہ ہےکہ ایمان کی اصل صدق وسچائی ہےجبکہ کفرونفاق کذب وجھوٹ پراساس پذیرہے۔لیکن افسوس ہے کہ آج کل نام نہادمسلمانوں میں جھوٹ عام ہوتی ہے اوراس کی مختلف شکلیں معاشرے میں رواج پذیرنظرآتی ہے۔یہ قبیح جرم اس قدرپھیل چکاہے کہ بعض صورتوں کوتوجھوٹ سمجھاہی نہیں جاتامثلاً جھوٹامیڈیکل سرٹیفکیٹ ،جھوٹ کی وکالت کرنا،جھوٹے سابقے ولاحقے لگانا،جھوٹی خبریں اخباروں میں شائع کرناکروانا،جھوٹی ڈگریوں کی بنیادپرمعاشرے میں تعارف کرواناوغیرہ جیساکہ فی زمانہ اس کابخوبی مشاہدہ کیاجاسکتاہے ۔اس کےعلاوہ بھی بے شمارشکلوں میں جھوٹ موجودہے لیکن ہم اس پہلوسے غفلت کاشکارہیں ۔زیرنظرکتاب میں اسی مسئلہ کوموضوع بحث بنایاگیاہے اورقرآن وحدیث کی روشنی میں اس کے مختلف پہلوؤں پرمفصل کلام کیاگیاہے ،جس کےمطالعے سے یقیناً جھوٹ سے نفرت کاداعیہ بیدارہوگااوراصلاح نفس کاجذبہ پیداہوگا۔ان شاء اللہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی تجدیدی اوراصلاحی خدمات قیامت تک امت اسلامیہ پراحسان رہیں گی،اوران کی علمی ،اصلاحی اورتجدیدی یادگاریں رہتی دنیاتک عوام وخواص کے لیے مشعل راہ بنی رہیں گی۔زیرنظررسالہ الوصیۃ الصغریٰ جودراصل حضرت معاذبن جبل ؓکی اس حدیث کی مکمل تشریح ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ان کو تقوی ،حسن خلق ،اخلاص ،توکل ،توبہ ،استغفار،تفقہ فی الدین اورمداومت ذکرکی تاکیدفرمائی تھی ۔یہ وصیت اتنی جامع اورمکمل ہے کہ ہرمسلمان کواسے اپنی زندگی کادستورالعمل بنایاچاہیے کہ اسی میں امت کی فلاح اوردین ودنیا کی سعادت کارازمضمرہے ۔رب کریم ہمیں ان قیمتی نصائخ کواپنانے کی توفیق عنائیت فرمائے تاکہ ہم اپناکھویاہوا وقارپھرسے حاصل کرسکیں۔آمین
یہودی جوقرآن مقدس کی روسے مغضوب علیہم ہیں ،پوری دنیاکواپنے زیرتسلط لاناچاہتے ہیں ۔اس مقصدکے لیے وہ بہت عرصے سے جدوجہدمیں مصروف ہیں۔اس ضمن میں انہوں نے فری میسن کے نام سے ایک صیہونی تنظیم قائم کی ہے جوانتہائی خفیہ طریقے سے ان کےمفادات کےلیے کام کرتی ہے ۔اس کے اراکین بڑے بڑے افرادوامراوحکام ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے ذریعے بھی صیہونی اپنااثرورسوخ بڑھارہے ہیں۔اس کااندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ اقوام متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر73یہودی فائزہیں۔اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفترمیں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔دنیاکی معیشت پربھی یہودیوں کامضبوط کنٹرول ہے ۔یہ سب کچھ دراصل ان دستاویزات کی بنیادپرہے جویہودیوں کے دانابزرگوں نے تحریرکی ہیں۔ان میں وہ تمام اصول وتصورات درج کردیے گئے ہیں جن کی ورشنی میں پوری دنیاپریہودی اقتدارقائم ہوگا۔واضح رہے کہ یہودی انہیں جعلی دستاویزات قراردیتے ہیں،لیکن یہ محظ دھوکہ ہے ۔زیرنظرکتاب میں یہودیوں کے ان اصولوں کواردوزبان میں پیش کیاگیاہے ،جن کامطالعہ چشم کشاثابت ہوگا۔ان شاء اللہ ۔
اسرائیل ،امت مسلمہ کے لیے انتہائی خطرناک دشمن کی حیثیت رکھتاہے ۔دنیابھرکے صیہونی اسے اپنامرکزسمجھتےہیں۔انتہاپسندصیہونیوں میں یہودی بھی ہیں اورعیسائی بھی جوبائبل کی نصوص کی بنیادپراسرائیل کوپوری دنیاپرغالب دیکھناچاہتے ہیں ۔لیکن خوداہل کتاب کے مخالف اورحقائق وواقعات واضح طورپراس امرکی نشاندہی کررہے ہیں کہ اسرائیل اب روبہ زوال ہے ۔یہ صورت حال امت مسلمہ کے لیے بہت ہی امیدافزاہے ۔زیرنظرکتاب میں اسی پہلوکواجاگرکیاہے۔اس کے ساتھ ساتھ دشمن کامورال نیچالانے کی بےحدمعقول اورحقیقی وجوہات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے ۔یہاں تک کہ دشمن کے اپنے ہی دینی مصادرسے اس پرشواہدلے کرآتی ہے ۔علاوہ ازیں امت اسلام کےکچھ تاریخی خصائص اوراس کاانبیاء کاوراث ہوناہے ۔بےحدعلمی وتاریخی شواہدسے سامنے لایاگیاہے ۔اس باب میں اہل کتاب کے تناقضات اوران کےبلندبانگ دعووں کابے حقیقت ہوناجووہ اپنی اقوام کوامت خاتم الرسل کےخلاف اس معرکے میں جوش دلانے کے لیے کررہے ہیں،ان کے سب مزاعم کابے بنیادہونامدلل طورپرواضح کیاگیاہے ،یہاں تک کہ مغرب کے ایک منصف مزاج اہل کتاب کے لیے ان حقائق سے آنکھیں بندرکھنابے حدمشکل ہوجاتاہے۔زیرنظرکتاب میں صیہونیت کے عیسائی عنصرپربھی خصوصی روشنی ڈالی گئی ہے ۔کتاب کااصل موضوع نصرانی صیہونیوں کی کھڑی کی ہوئی وہ فکری عمارت گراناہے جواس وقت کے اسلام دشمن ،یہودوہنوددوست مغرب کے ذہنی پس منظرمیں بآہنگ بول رہی ہے
خدائی نظرمیں پسندیدہ اورکامل نظام زندگی صرف اسلام ہے ۔اس کوغالب کرنے کے لیے اللہ عزوجل نے جناب محمدرسول اللہ ﷺ کومعبوث فرمایااورضمانت دی کہ دین حق کاچراغ گل کرنے کی ہرسازش کووہ ناکام بنائے گا۔توسورۃ توبہ فطرت کی اپنی حقیقتوں کی ترجمان ہے ۔اس سورہ میں اللہ تبارک وتعالی نے یہودونصاریٰ ،کفارومشرکین،منافقین اورمومنین کوواضح طورپرچارگروہوں میں تقسیم کیاہے اورہرایک کے کردارپرسیرحاصل بحث کی ہے ۔خاص طورپردنیاکی نام نہادسپرطاقتوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کوغلبہ اسلام اورکفرکی دہشت گردی سے نجات کاطریقہ واضح کیاہے ۔یہ سورہ مبارکہ عصرحاضرکےمسلمانوں کے لیے ستارہ نوراورکفارومشرکین کےلیے تازمانہ عبرت کی حیثیت رکھتی ہے ۔موصوف تحریکی شخصیت جناب پروفیسرحافظ محمدسعیدنے عصرحاصرکے تناظرمیں اس سورہ مبارکہ کی تفسیربہت ہی خوبصورت اورعام فہم انداز میں کی ہے ،جس سے اس کے جملہ مفاہیم ومطالب نکھرکرسامنے آجاتےہیں ۔نیزقلب وذہن میں اس پرعمل کاجذبہ بیدارہوتاہے ۔
افغان جہادکےنتیجےمیں جب روس ٹکڑے ٹکڑے ہواتوکروڑوں مسلمانوں کے علاوہ دیگراقوام بھی روسی تسلط سےآزادہوئیں ۔مساجداورمدارس جوشراب خانے اورسینماگھربنادیئے گئے تھے ،دوبارہ اللہ اکبرکی صداؤں سےمعمورہونےلگے۔اسی دوران خداکی توفیق سے زیرنظرکتاب کے مؤلف نےطورخم سے کوہ قاف تک کاسفرکیا۔انہوں نےجہادکے ثمرات کامشاہدہ کیااواپنی آنکھوں کے سامنے دنیاسے کیمونزم کاجنازہ اٹھتے اوراسے دفن ہوتےہوتے دیکھا۔اس سفرسے واپسی پرانہوں نے اپنے تاثرات قلم بندکیے اوریوں یہ کتاب منصہ شہودپرآئی ۔اس کےمطالعہ سے شکست خوردہ روس کی مکمل تصویرنگاہوں کے سامنے آجاتی ہے جومصنف کے دلنشین پیرائہ اظہارکامنہ بولتاثبوت ہے ۔