اسلام عفت و عصمت اور پاکیزگی قلب و نگاہ کا دین ہے ۔ انسان کی عزت وعصمت کے تحفظ کی خاطر اسلام میں نکاح کا حکم دیا گیا ہے تاکہ حصول عفت کے ساتھ ساتھ نسل انسانی کی بقاء و تسلسل بھی جاری رہے۔ ایک گروہ کے ہاں نکاح کی ایک صورت متعہ کے نام پربھی رائج ہے جو اگرچہ صدراسلام میں جائزتھی ، تاہم حضورنبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ ہی میں بڑی وضاحت و صراحت سے اسے ناجائز و ممنوع قراردے دیا ۔اس کا جواز بھی بعض مخصوص اور اضطراری حالات سے خاص تھا ۔لیکن ایک مخصوص گروہ اب بھی اسے جائزسمجھتاہے اور اس کے حق میں اپنے تئیں بعض ’’دلائل‘‘بھی پیش کرتاہے ،جس سے عوام مغالطوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔زیرنظرکتاب میں علامہ محمدعلی جانباز ؒ نے اس نوع کے جملہ’’دلائل‘‘کے تاروپود بکھیرکر رکھ دیئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ متعہ قطعی حرام اور ممنوع ہے ۔اس کے لیے کتاب وسنت کے ٹھوس دلائل بھی پیش کیے ہیں ، جن سے مسئلہ پوری طرح نکھرکر سامنے آگیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر متعہ کو جائز قرار دے دیا جائے تو اس سے جنسی بے راہ روی کادروازہ چوپٹ کھل جائے گا جو اہل اسلام کی عفت وعصمت کے لئے زہرقاتل ہے ۔ امید ہے کہ زیرنظر رسالہ سے اس مسئلہ کی اصل حقیقت بے نقاب ہوکر قارئین کے سامنے آجائے گی ۔ انشاءاللہ
نکاح وہ پاکیزہ شرعی طریقہ ہے جس کے ذریعے ایک بیوی اورشوہرکاوجودہوتاہے ۔نکاح کی مشروعیت بنی نوع انسان پراللہ تعالی کاایک عظیم فضل واحسان ہے ۔یہی وہ شریف،منظم اورمحفوظ عمل ہے جس سے ان کی نسل آگے بڑھتی ہے ،نسب معلوم ہوتاہے ،خاندان،رشتے اورتعلقات بنتے ہیں ۔ایک سماج اورمعاشرہ کی تعمیروتشکیل ہوتی ہے۔لیکن اس کےلیے ضروری ہے کہ میاں بیوی میں سے ہرایک اپنے فرائض سےباخبرہواوردوسرے کےحقوق کوپہچانے تاکہ نکاح کے جملہ مقاصدکاحصول ممکن ہوسکے ۔زیرنظرکتاب میں اسی کوموضوع سخن بنایاگیاہے۔حقیقت یہ ہے کہ کتاب مذکوراپنےموضوع پربہت ہی اہم ہے ۔زبان وبیان بہت ہی عمدہ ،دلکش اورعام فہم ہے۔قرآن وحدیث کی روشنی میں دنیاکےسب سے مقدس رشتہ کے باہمی حقوق کوبڑے ہی سیکس واچھوتے انداز میں پیش کیاگیاہے ۔ظلمت وتیرگی کےاس عہدمیں جہاں نکاح جیسے مقدس وپاکیزہ رشتے کوکسی کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اورجہاں میاں بیوی کے حقوق کی پامالی ایک عام چلن بن چکی ہے ،یہ کتاب راہنمائی کاایک چراغ ثابت ہوگی۔ان شاء اللہ
عصرحاضرمیں ایسے بہت سے گروہ نظرآتےہیں جونہ صرف تجدیداسلام کے نام نہادودعوے دارہیں بلکہ ائمہ اسلام کے مرتب کردہ ان اصول وقواعدمیں بھی جدت لاناچاہتےہیں کہ جن کی روش میں علمائےسلف وخلف استدلال واستنباط اوراحادیث کی تصحیح وتضعیف کافیصلہ کیاکرتے تھے ۔حالانکہ یہ اصول دراصل قرآن وسنت سے ماخوذہیں اوران کامرجع ومصدرنصوص شرعیہ ہی ہیں ۔لیکن یہ لوگ اپنی عقل وفکرکے بل بوتے پران کی تردیدوتغلیط کرناچاہتے ہیں ،جس سے ایک نیانظام فکرونظروضع کرناان کامنتہائے نگاہ ہے ۔زیرنظررسالہ میں ایک گروہ کے ’’اصول ومبادی‘‘پرناقدانہ نگاہ ڈالی گئی ہے اورمدلل طریقے سے ثابت کیاگیاہے یہ ’’اصول ومبادی‘‘قرآن وسنت اوراجماع امت سے متصادم ہیں ولہذاناقابل التفات ہیں ۔
قرآن شریف میں نبی مکرم ﷺ کاایک وصف یہ بیان کیاگیاہے کہ آپ ﷺ پاکیزہ وطیب چیزوں کوحلال ٹھہراتے اورخبیث وناپاک اشیاء کوحرام قراردیتے ہیں ۔اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں غلط اشیاء جوانسانی صحت کےلیے نقصان دہ ہوں‘حرام وناجائز ہیں ۔سگریٹ کےبارے میں یہ طے شدہ بات ہے کہ یہ انتہائی مہلک اورمضرہے۔سگریت کابنیادی عنصرتمباکوہے جوبنگسن کی نسل سے ایک نباتات ہے،جسےکھانےسے جانوربھی اجتناب کرتے ہیں ۔لیکن بعض لوگ سگریٹ کے ذریعے تمباکونوشی کرتے ہیں اوریوں زہرپھانکتےہیں ۔اس سے بے شمارجسمانی ونفسیاتی امراض پیداہوتے ہیں۔زیرنظررسالہ میں سگریٹ کے شرعی حکم کواجاگرکیاگیاہے اوراس کے مہلک نقصانات پربھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔بہت ہی مفیدرسالہ ہے ۔
زیر نظر کتابچہ ’اردو کا آسان قاعدہ‘ مولوی موسیٰ سلیمان کرماڈی کی تالیف ہے ، جو انہوں نے چھوٹے بچوں کو اردو حروف سے واقفیت کے لیے ترتیب دیا ہے۔ 27 صفحات کا یہ قاعدہ اگر بچوں کو سبقاً پڑھا دیا جائے تو بہت جلد بچوں کو اردو زبان سے شد بد ہو جائے گی۔ قاعدہ میں مؤلف نے اس بات کو ملحوظ رکھا ہے کہ بچوں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ لکھائی کی بھی صلاحیت پیدا ہو۔ صفحہ 5 تا 10 میں ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس سے بچوں کو جلد لکھنا آ جائے۔ روز مرہ کی ضروری بول چال کے اردو جملے، دنوں اور مہینوں کے نام اور گنتی لفظوں میں بتائی گئی ہے۔ (ع۔م)
الله عزوجل نے ہمیں وحئی الہی کی اتباع وپیروی کاپابندکیاہے نہ کہ کسی خاص شخص یاگروہ کی اطاعت کا۔فلہذاہمیں براہ راست کتاب وسنت سے مسائل زندگی کاحل تلاش کرناچاہیے اوراسی کوہرشئےپرمقدم رکھناچاہیے یہ ہے اہل حدیث کاموقف ومسلک ۔لیکن بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ہم براہ راست کتاب وسنت کوسمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے لہذاکسی مخصوص امام کی فقہ کی پابندی ناگزیرہے ،اسی پربس نہیں بلکہ وہ اہل مدینہ پربےجاالزام تراشیاں اوربہتان طرازیاں بھی کرتےرہتے ہیں ۔زیرنظرکتاب بھی دراصل ایسی ہی ایک کتاب ’’حدیث اوراہل حدیث‘‘کاجواب ہے ۔مؤخرالذکرکتاب ایک دیوبندی مقلدنے تحریرکی ہے ،جس میں اہل حدیث پرنارواتنقیدکی گئی ہے اوربے شمارمغالطے دئیے گئے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں اس کامفصل ومدلل ،تحقیقی جواب دیاگیاہے۔
علامہ ابن القیم الجوزیہ ؒ ایک جلیل القدرعالم ربانی تھے ۔آپ نےبے شمارکتابیں تصنیف فرمائی ہیں ان میں زیرنظرکتاب اعلام الموقعین ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔اس مفصل کتاب میں علامہ موصوف نے اصول فقہ خصوصافتوی،اجتہاداورقیاس کے موضوع پرقلم اٹھایاہے اورحق یہ ہےکہ حق اداکردیاہے ۔جولوگ تقلیداورقیاس کےباب میں افراط وتفریط کاشکارہیں ،ان کاتفصیلی ردکیاہے اورایک ایک مسئلے پربیسیوں دلائل پیش کیےہیں ۔حیلہ سازوں کی بھی تردیدفرمائی ہےاورصحابہ کرام وسلف صالحین کے حوالے سے واضح کیاہے کہ وہ ہرمسئلے میں کتاب وسنت مقدم رکھتے تھے ،لہذاہمیں بھی براہ راست کتاب وسنت کی پیروی کرنی چاہیے نہ کہ اقوال رجال کاسہارالیناچاہیے ۔ان لوگوں کی غلطی کوبھی واضح کیاہے جویہ گمان رکھتےہیں بعض احادیث خلاف قیاس ہیں ۔اس وضع کتاب کوخطیب الہندعلامہ محمدجوناگڑھی نے رواں اورشگفتہ اردوکے قالب میں ڈھالاہے ،جس سےاردودان طبقےکے لیے بھی اس سے استفادہ کی راہ آسان ہوگئی ہے۔خداوندقدوس فاضل مؤلف اورمترجم کی اس عظیم خدمت کوشرف قبولیت سے نوازےاوراہل اسلام کواس سے اکتساب فیض کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین
یہ دنیاآزمائش گاہ ہے ۔خداوندقدوس نےموت وحیات کی تخلیق کامقصدہی یہ قراردیاہے کہ وہ اس کے ذریعے ہماری آمائش کرناچاہتاہے کہ ہم میں سے کون اچھے عمل کرتاہے اورکون برے عمل اپناتاہے ۔دنیامیں انسان کوکئی طرح کی مشکلات اورمصیبتوں سے دوچارہوناپڑتاہے ۔یہ آزمائش اس لیے ہوتی ہے کہ انسان کاتعلق خداکےساتھ مضبوط ہوتاہے یاوہ اس سے دورہوجاتاہے۔زیرنظرکتابچہ میں دنیوی مصائب ومشکلات کےحوالے سے قرآن وسنت کی روشنی میں راہنمائی کی گئی ہے کہ ان میں ایک انسان سے کون سارویہ اورکردارمطلوب ہے ۔دعاء توکل علی اللہ اوراللہ سے اجروثواب کی امیدہی وہ طرز عمل ہے جومصائب کی صورت میں انسان کے لیے مناسب ہے ۔اسوۂ رسول ﷺ اورصحابہ کرام ؓ کی سیرتوں سے بھی یہی تصویرسامنے آتی ہے ۔
مادری زبان کےعلاوہ کسی دوسری زبان کو سمجھنے کےلیےڈکشنری یالغات کا ہونا ناگزیر ہے عربی زبان کے اردومعانی کے حوالے سے کئی لغات یا معاجم تیار کی گئی ہیں لیکن ان سب میں منفرد اور انتہائی مفید 'القاموس الوحید' ہے اس کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جدید عربی زبان کے اسالیب کا بھی خیال رکھاگیا ہے یہ کتاب علماء ،طلباءاور عوام سب کے لیے ایک قیمتی متاع ہے جس کے مطالعہ سے کسی بھی عربی لفظ کااردومفہوم ومدعا معلوم کیا جاسکتا ہے بعض احباب کےتقاضے پراسے اپ لوڈ کیا جارہا ہے تاکہ عربی تفہیم وتعلم میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
شرع متین میں حلت وحرمت کامسئلہ بنیادی واصولی مسائل میں شمارہوتاہے ،جسےکتاب وسنت میں مکمل شرح وبسط کےساتھ بیان کیاگیاہے ۔متعددآیات میں اسےکھول کربیان کردیاگیاہے۔شریعت میں اکل حلال کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ۔اس سلسلہ میں یہ مسئلہ بھی بہت اہم ہے کہ جن جانوروں کاگوشت کھایاجاسکتاہے ،انہیں ذبح کون کررہاہے۔قرآن کی روسے اہل کتاب کاذبیحہ توجائزہے لیکن ان کے علاوہ کفارومشرکین کے ذبح کردہ جانورحرام ہیں ۔فی زمانہ مختلف اسلامی ممالک میں غیراسلامی ریاستوں سے ذبح شدہ گوشت درآمدکیاجاتاہے ۔بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کے بارےمیں شرعی ہدایات سے آگاہ ہوں کہ کیاواقعی وہ شرعی ضوابط کےمطابق حلال ہے یانہیں ۔زیرنظرکتاب میں اسی مسئلے پرمدلل اورتحقیقی گفتگوکی گئی ہے۔جس کے مطالعے سے یقیناً یہ مسئلہ مکمل طورپرواضح ہوکرسامنے آجاتاہے ۔
اسلام كاايك نماياں وصف یہ ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہرمسئلے کےبارے میں رہنمائی دی گئی ہے ۔حتی کہ مردوعورت کے جنسی تعلقات کےبارےمیں بھی اہم ہدایات عطاکی گئی ہیں ۔زیرنظرکتابچہ میں طبی وشرعی نقتہ نگاہ سے آداب مباشرت تحریرکیےگئےہیں ۔جن کامطالعہ ہرمسلمان کےلیے مفیدثابت ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان لاعلمی کی بناء پرایسے بہت سے کام کربیٹھتاہے جوشریعت میں صریح حرام ہوتے ہیں اوران کےنتائج بھی انتہائی خطرناک نکلتے ہیں ۔اس رسالہ کے مطالعہ سے دانش وحکمت کی بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔عقل سلیم کاتقاضاہے کہ ان نادرتجربات ،سبق آموزمشاہدات اورآزمودہ کارافرادکی ہدایات سے بھرپورفائدہ اٹھایاجائے ۔زن وشوہرکے تعلقات کوصرف حیوانی جذبات کی تسکین کاآلہ کارنہ سمجھناچاہیے بلکہ زندگی کامتبرک وظیفہ خیال کرکے ہرسلیم الطبع کوان پرکاربندہونے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہی اس کتاب کا پیغام ہے
مسائل میں اختلاف کاہونا کوئی بڑی بات نہیں ۔متعددوجوہ واسباب کی بناء پرایک ہی مسئلہ میں ارباب علم ونظر کی آراء میں اختلاف ہوجاتاہے ۔تاہم اس ضمن میں یہ خیال رکھناضروری ہے کہ حل اختلاف کےلیے کتاب وسنت کی طرف رجوع کیاجائے اورجوفیصلہ قرآن وحدیث سے مل جائے اس پرصادرکیاجائے۔نیز اختلاف رائے میں ایک دوسرے پرطنز وتعریض یاتوہین وتنقیص سے اجتناب کرناچاہیے ۔لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ بعض حضرات اختلاف رائے کوفرقہ وارانہ رنگ دے کردوسروں پرنارواالزامات واتہامات لگاتے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں ایسی ہی چندتحریروں کاسنجیدہ اورٹھوس علمی جائزہ لیاگیاہے ۔امرواقعہ یہ ہےکہ جوشخص بھی کھلے دل او روسعت نگاہ سےاس کامطالعہ کرےگا‘وہ یقیناً درست نقطہ نظرکوپہچان لے گا۔اس کتاب میں بے شمارعلمی نکات موجودہیں ‘جومؤلف کے تحرعلم وفضل پرشاہدعدل ہیں ۔فجزاہ اللہ خیراً
فی زمانہ جبکےبچے بڑے جھوٹے اورلغوافسانوں ،ناولوں اورکہانیوں کے قصوں میں گرفتارنظرآتےہیں ،ایسی کتابوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے،جس میں سچےواقعات بیان کئے گئے ہوں ۔جنہیں پڑھ کرعمل کاجذبہ بیدارہو۔زیرنظرکتاب میں سیرت نبوی اورتاریخ اسلام سے ایسے ہی 70واقعات کاانتخاب پیش کیاگیاہے ،جن کےمطالعہ سے ایمان کوتازگی اورروح کوشادابی نصیب ہوتی ہے۔نیزدل میں صحابہ کرام اورسلف صالحین کی عظمت اوران سے محبت کاجذبہ پیداہوتاہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اس طرح کالٹریچرعام کیاجائے اورگھروں میں خصوصاً بچوں اورخواتین کوان کےمطالعے کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ جھوٹے اور فحش ناولوں میں وقت ضائع کرنےکے بجائے سیرت سلف سے روشناس ہوسکیں۔
علم حدیث ایک عظمت ورفعت پر مبنی موضوع ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات سے ہے۔جتنا یہ بلند عظمت ہے اتنا ہی اس کے عروج میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور اس کو مشکوک بنانے کی سعی ناکام کی گئی۔علمائے حدیث نے دفاع حدیث کے لیے ہر موضوع پر گرانقدر تصنیفات لکھیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی عظمت حدیث کے نام سے عبدالرشید عراقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے عظمت حدیث کےساتھ ساتھ حجیت حدیث ،مقام حدیث،تدوین حدیث،اقسام کتب حدیث،اصطلاحات حدیث،مختلف محدثین ائمہ کرام جو کہ صحاح ستہ کے مصنفین ہیں ان کے حالات اور علمی خدمات،مختلف صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف شروحات حدیث کو اپنی اس کتاب میں موضوع بنایا ہے۔
اسلام جس طرح عبادات کے بات میں ہدایات دیناہے اسی طرح معاملات میں بھی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے معاملات میں معیشت وتجارت کامسئلہ بہت اہم ہے میدان معیشت میں فی زمانہ ایسی بہت سی جدید صورتیں پیدا ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے نہ تھی انہی میں ایک مسئلہ بینکنگ کاہے علماء نے اس طرف بھی توجہ کی ہے اور اسلامک بینکنگ کے کامیات تجربے بھی کیے گئے ہیں اگرچہ بعض اہل علم کو اس پر تحفظات ہیں بینکاری میں ایک اہم مسئلہ سود کا ہے کیونکہ غیراسلامی بینکاری کی اساس ہی سود پرقائم ہے جبکہ اسلام میں یہ انتہائی شدید گناہ ہے حتی کہ اسے خدا اور رسول ﷺ سے جنگ کے مترادف قراردیاگیاہے لیکن اس درجہ شناعت کے باوجود بعض لوگ مروجہ بینکوں کے سود کو جائز قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں زیر نظر کتاب میں اس کا مفصل رد کیا گیاہے نیز جدید بینکاری کے حوالے سے بھی پیش قیمت او رمفید معلومات اس میں شامل ہیں جس سے بینکنگ کے متعلق شرعی معلومات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے-
ہدایت انسانی کےلیے اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ پر دو چیزوں کو نازل کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا''اعطیت القرآن ومثلہ معہ''مجھے قرآن اور اس کی مثل ایک اور چیز(یعنی حدیث)دے کر بھیجا گیا ہے اور انہی دو چیزوں کے واسطے نبی کریم ﷺ نے لوگو ں کو اللہ تعالی کا پیغام سنایا-یہ دونوں چیزیں عربی میں ہے اس لیے ان کو سمجھنے کےلیے عربی زبان کا آنا ضروری ہے -اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کتابچہ آپ کے سامنے پیش کیا جارہا ہے جس میں روز مرہ استعمال کیے جانے والے الفاظ کو عربی میں استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مطالعے سے آدمی عربی زبان بولنے پر فائز ہوسکے -یہ کتابچہ بہت عمدہ ہے ضرور اس کا مطالعہ فرمایئے گا
احکام شرعیہ کے دوحصے ہیں ایک حصہ مامورات شرعیہ کہلاتاہے جس میں کچھ کاموں کوکرنے کا حکم دیا گیا ہے دوسرا حصہ منہیات کہلاتا ہے جس میں بعض امور سے باز رہنے کا حکم دیا گیا ہے شریعت میں جس طرح مامورات کی اہمیت ہے اس سے کہیں بڑھ کر منہیات کی اہمیت ہے اس لیے کہ اگر کوئی صرف منہیات سے بچتا ہے تو اسے اس کاثواب ملتا ہے جبکہ مامورات میں اس صورت میں مستحق اجر ہوتا ہے جب وہ عملاً اسے کرے پھر مامورات میں استطاعت کی قید ہے لیکن منہیات میں یہ قید نہیں ہے مزیدبرآں منہیات کاجاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ انسان ان کے ارتکاب سے بچ سکے تاکہ خدا کی ناراضگی وعتاب کا نشانہ نہ بن سکے فی زمانہ شرعی منہیات کا بڑی دیدہ دلیری سے ارتکاب کیا جاتا ہے اس کی ایک وجہ لاعلمی اور جہالت بھی ہے زیرنظر کتاب کےمطالعہ سے یہ لاعلمی دور ہوجاتی ہے اور انسان ان تمام امور سے بچ سکتاہے جن سے شریعت میں روکا گیا ہے
ہرمسلمان کی خواہش ہے کہ ملک میں اسلامی شریعت کانفاذ ہو لیکن اس کے لیے کیا طریقہ کار اپنانا چاہیے اس میں اختلاف ہے ایک بڑاطبقہ موجودہ جمہوری نظام کے ذریعے نفاذ اسلام کی کوششوں میں مصروف ہے اگرچہ 60 سال سے اس سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تاہم اسلامی انقلاب اور حکومت الہیہ کے نعروں کی حامل جماعتیں آج بھی اسی میدان میں زو رلگا رہی ہیں اس کےبرعکس ایک حلقے کی رائےہے کہ جمہوریت کے ذریعے اسلام نہیں آسکتا زیرنظر کتابچے میں اسی کی ترجمانی کی گئی ہے مروجہ جمہوریت کےحق میں جودلائل دیئے جاتے ہیں ان کابھي اس میں جائزہ لیا گیا ہے نیز بعض جلیل القدر اہل علم مثلاًمحمد قطب اور علامہ البانی وغیرہ کی رائے بھی شامل ہے
برصغیرمیں دیوبندی اور اہل حدیث کی کش مکش ایک عرصے سے جاری ہے اس میں دونوں طرف سے اپنے اپنے نقطۂ نظر کے حق میں اور دوسرے کی تردید میں بہت کچھ لکھا جاچکاہے زیرنظر کتاب میں جناب حافظ زبیرعلی زئی نے دیوبندیوں سے 210 سوالات کیے ہیں کہ وہ ان کاجواب دیں اس لیے کہ ان کابھی یہی اسلوب ہے کہ وہ اہل حدیث سے سوالات ہی کرتے جاتے ہیں اگر ان سوالات کو غور سے پڑھا جائے تواوضح ہوگا کہ دیوبندی حضرات کے عقائد وافکار میں بہت سی غلطیاں موجود ہیں جن کی اصلاح ہونی چاہیے نیز ان سوالات کا جو اب بھی ان کےپاس موجود نہیں ہے کیونکہ جواب قرآن وحدیث او رامام ابوحنیفہ ؒ کے اقوال کی روشنی میں مانگاگیا ہے جبکہ ان کےعقائد ونظریات ان سے ثابت نہیں ہیں
ہمارے ہاں اہل حدیث اور حنفی حضرات کے مابین بعض اختلافی مسائل پربہت زیادہ مناظرے اور مباحثے ہوتے رہتے ہیں جن کی بناء پر بعض اوقات ناخوشگوار صورت حال بھی پیدا ہوجاتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب سے بالاتر ہوکرٹھنڈے دل سے ان مسائل کاحل کتاب وسنت کی روشنی میں تلاش کیاجائے زیرنظر کتاب میں ایسے ہی ایک درجن مسائل پر کتاب وسنت اور علمائے امت کےاقوال کی روشنی میں سنجیدہ اور عملی بحث کی گئی ہے ان مسائل میں رفع لیدین ،سینے پر ہاتھ باندھنا، فاتحہ خلف الامام ،آمین بالجہر،تروایح،نماز جنازہ ،ظہر احتیاطی ،ایک مجلس کی تین طلاقیں ،تقلید شخصی وغیرہ شامل ہیں کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علمائے احناف کے استدلال کو بھی پوری دیانتداری سے پیش کیا گیا ہے اور کہیں بھی اشتعال انگیز زبان اختیار نہیں کی گئی اس سے طالبان حق کو حق پہنچاننے میں مدد ملے گی-
مسلمانوں کو کتاب وسنت پرعمل پیرا ہوتے ہوئے اپنےمسائل زندگی کےبارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اہل علم سے رہنمائی لینی چاہئے؟ یا کسی ایک فقیہ کی تقلید شخصی پرکاربند رہنا چاہیے ؟یہ نکتہ اہل تقلید اور اہل حدیث کے مابین ایک عرصہ سے بحث ونظر کاموضوع رہا ہے ایک حنفی عالم دین نے ''اجتہاد وتقلید'' کےنام سے ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس میں ترک تقلید ہی کا رونا رویا گیا تقلید جامد کی حمایت میں لکھي گئی اس کتاب مین کوئی نئی بات نہیں بلکہ وہی سطحی مغالطے ہیں جو ایک زمانے سے حلقہ مقلدین میں چلے آرہے ہیں زیرنظر کتاب میں شیخ العرب والعجم علامہ سیدبدیع الدین شاہ راشدی ؒ نے اس رسالے کامفصل علمی اور تحقیقی جواب دیاہے جس سے مقلدین کاتمام دلائل کا تاروبود بکھر کررہ جاتے ہیں اورتقلید سے متعلق سارے شبہات کامکمل ازالہ ہوجاتا ہے
اسلامی تعلیمات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک فکروعقیدہ اور دوسرے عملی امور ان دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے لیکن عقیدہ زیادہ اہم اور ضروری ہے کہ اعمال کی قبولیت بھی صحیح عقیدہ پر منحصر ہے علماء نے ہر دور میں فکرواعتقاد کے موضوع پرکتابیں لکھی ہیں زیرنظر کتاب امام طحاوی ؒ نے مرتب کی ہے جس میں بہت ہی مختصر انداز میں اسلامی عقائد کا احاطہ کیا گیا ہے اور اہل سنت والجماعت کے عقائد بیان کیے گئے ہیں عقیدہ کی تعلیم اوراس کے عناصر سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس کامطالعہ ازحدضروری ہے کتاب مذکور کی خو بی یہ ہے کہ تمام اسلامی عقائد کو مختصراً بیان کردیا گیا ہے اور باطل فرقوں کے بالمقابل اہل سنت والجماعت کے افکارونظریات کی نمائندگی کی گئی ہے اسی لیے مجلس التحقیق الاسلامی نے تصحیح ونظر ثانی کے بعد قارئین کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے خداکرے کہ اصلاح عقائد کی صورت پیدا ہو-
محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ایک عظیم داعی قرآن تھے جن کی شبانہ روز محنت سے نہ صرف وطن عزیز بلکہ بے شمار دیگر ممالک میں بھی قرآن کریم کی دعوت پھیلی اور لوگ مطالعہ قرآن کی جانب راغب ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب قرآن حکیم کی تجدید ایمان کا وسیلہ قرار دیتے تھے اور ایمان وعمل کی تجدید سے قیام خلافت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کےلیے سرگرم عمل تھے اس سلسلہ میں انہوں نے انقلاب بپا کرنے کا ایک مفصل پروگرام بھی تشکیل دے رکھا تھا جو ان کے بقول قرآن مجید اور سیرت نبوی ﷺ سے ماخوذ تھازیر نظر کتاب ''منہج انقلاب نبوی ﷺ''بھی اسی موضوع پرہے ا س میں محترم ڈاکٹر صاحب ؒ نے سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں اولاً مراحل انقلاب کی تعیین فرمائی او راو ربعدازاں رسول معظم ﷺ کی سیرت کو مراحل انقلاب کی توضیح وتفصیل کے پہلو سے بیان کیا ہے کتاب مذکور میں مندرجہ جزئی تفصیلات سے تو بلاشبہ کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ان کا ثبوت کتب سیرت میں موجود ہے تاہم محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم کے استدلال اوراستنباط و استنتاج پربحث ونظر کی گنجائش موجود ہے خصوصاً یہ نکتہ تجزیہ ومناقشہ کا طالب ہے کہ کیا سیرت سے تشریعی امور پراشتہاد ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس لیے کہ ارباب اصول کے ہاں اخذواستدلال کے اسالیب میں حدیث وسنت کا تذکرہ توملتا ہے تاہم سیرت کا لفظ یااصطلاح مستعمل نہیں کتب سیرت میں دراصل نبی مکرم ﷺ کے احوال وآثار کو موضوع بحث بنایا جاتاہے ان سے استنباطِ امور شرعیہ مقصود نہیں ہوتا شرعی معاملات میں استدلال کے لیے کتب حدیث وسنت کی جانب رجوع کیا جاتا ہے اس اصولی نکتے کو ذہن نشین رکھتے ہوئے محترم ڈاکٹر صاحب کی زیر نظر کتاب کامطالعہ انتہائی مفید ثابت ہوگا کہ اس سے سیرت طیبہ ﷺ کے کئی مزید پہلو فکرو نظر کے سامنے آتے ہیں
اہل مغرب نے اپنی لادین تہذیب وثقافت کو فروغ دینے کےلیے جومختلف نعرے ایجاد کیے ہیں ان میں سے ایک آزادئ نسواں یا حقوق خواتین کابھی ہے اس کی آڑ میں وہ مسلم ممالک میں فحاشی وعریانی کاایک سیلاب لاناچاہتے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہیں جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت ان کےدام تزویر میں پھنس چکی ہے اور غیرت وحیاء کا جنازہ نکل چکاہے جس سے زنا کاری اور بدکاری بہت تیزی سے پھیل رہی ہے ان حالات میں ضروری ہے کہ اسلامی تعلیمات کو جانا جائے اور ان پر عمل پیرا ہواجائے اسلام نے عورت کو سب سے بڑھ کر عزت اور تحفظ دیا ہے زیرنظر کتاب میں بڑی خوبصورتی سے خواتین کےبارے میں اسلامی تعلیمات کو اجاگر کیا گیا ہے جن سے اسلام میں عورت کی عزت وعصمت کامقام ومرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور معاشرے میں باکیزگی اور حیاء کے جذبے فروغ پاتے ہیں
انسانوں میں مسائل ومعاملات کو سمجھنے میں فکرونظر کا اختلاف کچھ اچنبھے کی بات نہیں اس لیے کہ ہر شخص کی سوچ او رفہم وفکر کی صلاحیتیں متفاوت ہیں مزیدبرآں بسااوقات شرعی نصوص میں ایک سے زیادہ معانی کی گنجائش ہوتی ہے لہذا اختلاف واقع ہوجاتاہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہاختلاف رائے میں رویہ او رانداز کیا ہونا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی اختلاف ہوئے لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی نیت پر حملہ کیا اور نہ ایک دوسرے کو کافر وفاسق کہا آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ اختلاف کو علمی دلائل تک محدود رکھاجائے اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان کو حل کرنے کی سعی کی جائے لیکن اسے باہمی بغض ونفرت اور حسدو کینہ کا سبب نہ بنانا چاہیے زیرنظر رسالے میں اسی نکتے پر زور دیا گیا ہے