مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص ان کی شخصیت وسوانح پر پہلی کتاب ہے جو شاہ جی کی زندگی میں شائع کی۔ مصنف کی اس کتاب کی تحریر میں کہیں اجنبیت اور کہیں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ قدیم وجدید اسلوبِ نگارش کا حسین امتزاج اور بے تکلفی بھی ہے۔اس کتاب میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ہنگامہ خیز زندگی کو ضبط تحریر میں لانا بہت بڑا کام کیا گیا ہے‘ یہ مختصر تو کیا ضخیم کتاب بھی کافی نہیں ہو سکتی...
برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو...
علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔شبلی نعمانی 1857ء اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے ۔۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد شیخ حبیب اللہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی سے ریاضی، فلسفہ اور عربی کا مطالعہ کیا۔ اس طرح انیس برس میں علم متدادلہ میں مہارت پیدا کر لی۔ 25 سال کی عمر میں شاعری، ملازمت، مولویت کے ساتھ ہر طرف کوشش جاری رہی،1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ وہاں فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1882 میں شبلی نے ’’علی گڑھ کالج‘‘ سے تعلق جوڑ لیا۔ یہاں وہ عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہاں سر...
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کے آباء واجداد اصل میں بخاراکے رہنے والے تھے ۔جو دہلی میں آکر سکونت پذیر ہوئے۔ آپؒ شہر دہلی میں 958ھ مطابق 1551ء پیداہوئے۔ آپ کا پورا نام شیخ ابو المجد عبدالحق بن سیف الدین دہلوی بخاری ہے، مغلیہ دور میں متحدہ ہندوستان کے مایہ ناز عالم دین اور محدث تھے۔ ہندوستان میں علم حدیث کی ترویج و اشاعت میں آپ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔آپ کی تعلیم وتربیت آپ کے والد نے بڑی محبت اور محنت سے کی ۔حضرت شخ نے صر ف تین ماہ میں پورا قرآن پاک مکمل قواعدکے ساتھ اپنے والد ماجد سے پڑھ لیا۔ اورایک ماہ میں کتابت کی قدرت اور انشاء کا سلیقہ حاصل ہو گیا اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اپنے والد ماجد سے حاصل کر لیے۔ اس دوران آپ نے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا۔ 996ھ / 1588ء میں حجاز کا رخ کیا اور کئی سال تک حرمین شریفین کے اولیاء کبار اور علماء زمانہ سے استفادہ کیا۔ بالخصوص شیخ عبد الوہاب متقی خلیفہ شیخ علی متقی کی صحبت میں علم حدیث کی تکمیل کی۔ آپ نے ایک درجن سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔1642ء میں دہلی میں وفات پائی۔ زیر ت...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدایت کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا۔ جس نے اپنی قوت ایمانی اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحید خالص کی اساس قائم کی۔ یہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل محدث دہلوی تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور امام محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک مجاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ ان کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا&nb...
علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ کا نپور میں پیدا ہوئے سال ولادت ۱۸۵۰ءہےموصوف معروف شخصیت ہیں انھو ں نے کئی کتب احادیث کے ترجمے کئے اور حنفی کتب کی شروحات بھی لکھیں۔علامہ وحید الزمان زندگی کے ابتدائی دور میں حنفی المسلک تھے بعض مسائل میں شیعہ کی طرف بھی رجحان رکھتے ہیں'تیسرا الباری شرح البخاری '' میں جا بجا اپنےآپ کو حنبلی ظاہر کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ حیات وحید الزماں‘‘ مولانا محمد عبد الحلیم چشتی کی تصنیف ہے ۔انہون نے اس کتاب میں مو لانا وحید الزمان وقار نواز جنگ رحمہ اللہ کے سوانح حیات اور علمی وعملی کارنامے جمع کیے ہیں ۔(م۔ا)
برصغیر میں علومِ اسلامیہ،خدمت ِقرآن اور عقیدہ سلف کی نصرت واشاعت کےسلسلے میں نواب صدیق حسن خاں (1832۔1890ء) صدیق حسن خان قنوجی ؒ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ علامہ مفتی صدر الدین ، شیخ عبد الحق محدث بنارسی ، شیخ قاضی حسین بن محسن انصاری خزرجی ـ شیخ یحیی بن محمد الحازمی ، قاضی عدن ، علامہ سید خیر الدین آلوسی زادہ جیسے اعلام اور اعیان سے کسب ِفیض کیا۔آپ کی مساعی جمیلہ روزِروشن کی طرح عیاں ہیں ۔ عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں دو سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں او ردوسرے علماء کو بھی تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ کیا،ان کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کیا او راسلامی علوم وفنون کے اصل مصادر ومآخذ کی از سرنو طباعت واشاعت کاوسیع اہتمام کیا۔نواب محمدصدیق حسن خان نے علوم ِاسلامیہ کے تقریبا تمام گوشوں سے متعلق مستقل تالیفات رقم کی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دینی وعلمی موضوع ہو جس پر نواب صاحب نے کوئی مستقبل رسالہ یا کتاب نہ لکھی ہو۔حدیث پاک کی ترویج کا ایک انوکھا طریقہ یہ اختیار فر...
برصغیر میں علومِ اسلامیہ،خدمت ِقرآن اور عقیدہ سلف کی نصرت واشاعت کےسلسلے میں نواب صدیق حسن خاں (1832۔1890ء) صدیق حسن خان قنوجی ؒ کی ذات والا صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ علامہ مفتی صدر الدین ، شیخ عبد الحق محدث بنارسی ، شیخ قاضی حسین بن محسن انصاری خزرجی ـ شیخ یحیی بن محمد الحازمی ، قاضی عدن ، علامہ سید خیر الدین آلوسی زادہ جیسے اعلام اور اعیان سے کسب ِفیض کیا۔آپ کی مساعی جمیلہ روزِروشن کی طرح عیاں ہیں ۔ عربی ، فارسی ، اردو تینوں زبانوں میں دو سو سے زائد کتابیں تصنیف کیں او ردوسرے علماء کو بھی تصنیف وتالیف کی طرف متوجہ کیا،ان کے لیے خصوصی وظائف کا بندوبست کیا او راسلامی علوم وفنون کے اصل مصادر ومآخذ کی از سرنو طباعت واشاعت کاوسیع اہتمام کیا۔نواب محمدصدیق حسن خان نے علوم ِاسلامیہ کے تقریبا تمام گوشوں سے متعلق مستقل تالیفات رقم کی ہیں اور شاید ہی کوئی ایسا دینی وعلمی موضوع ہو جس پر نواب صاحب نے کوئی مستقبل رسالہ یا کتاب نہ لکھی ہو۔حدیث پاک کی ترویج کا ایک انوکھا طریقہ یہ اختیار فرمایا کہ کتب ِاحادیث کے حفظ کا اعلان کیا ـ اور اس پر معقول انعام مقرر کیا...
حدیث پاک کی نشرواشاعت اور خدمت میں برصغیر کے علمائے کرام کا کردار انتہائی اہم ہے ۔تاریخ کے اوراق میں ان کے کارہائے نمایاں محفوظ ہیں۔اس خطے میں پیدا ہونے والے علمائے حدیث نے کتب حدیث کی بے مثال شروحات لکھیں اور اپنے اپنے انداز میں یہ عظیم خدمت سرانجام دی۔اس ضمن میں اہل حدیث علما کی مساعی بہ طور خاص لائق تذکر ہ ہیں،کیونکہ یہ کسی خاص شخصیت یا مکتب فکر کے اصولوں کی روشنی میں حدیث کی تشریح نہیں کرتے بلکہ حدیث کو اصل قرار دیتے ہوئے اس سے مسائل اخذ کرتے ہیں ۔جماعت اہل حدیث کے معروف قلمکار جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب نے زیر نظر کتاب میں برصغیر کے ان ساٹھ اہل حدیث علمائے کرام کا تذکرہ کیا ہے ،جنہوں نے نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ کی تدریسی یا تصنیفی صورت میں تبلیغ واشاعت کا اہتمام کیا یا کسی مدرسے میں طلبا کو کتب حدیث پڑھائیں یا حدیث کی کئی کتب کا ترجمہ کیا یا اس کی شرح لکھی یا فتوی نویسی کی۔اس سے علمائے اہل حدیث کی سوانح زندگی اور حدیث شریف سے ان کی محبت وتعلق سے آگاہی حاصل ہوگی۔(ط۔ا)
برصغیر پاک و ہند میں کچھ ایسی شخصیات نے جنم لیا جو علم و ادب اور صحافت کے افق پر ایک قطبی ستارے کی طرح نمودار ہوئے اور دیر تک چھائے رہے۔ ان شخصیات میں سے مولانا ابو الکلام آزادؒ سرِ فہرست ہیں، مولانا کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازہ تھا۔ مولانا آزادؒ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی کے عظیم سکالر تھے، آپ نہایت ہی زیرک اور بے باک انسان تھے۔ مولانا آزادؒ مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور بعد میں دہلی میں ہی قیام پذیر رہے آپ کا گھرانہ خالص دینی ماحول سے ہمکنار تھا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت آپ نے مسلمانوں کو فرنگیوں کی چالوں سے آگاہ ہی نہیں کیا بلکہ تحریری و تقریری میدان میں بھی ہر لحاظ سے مصروف عمل رہے، آپ فن خطابت کے شہسوار شمارکئے جاتے تھے سامعین فرط حیرت میں مبہوت ہو کر رہ جاتے۔ زیر نظر کتاب"ذکر آزاد" مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی مولانا آزادؒ کے ساتھ اڑتیس (38) سال کی رفاقت کو قلمی شکل میں ڈھالا گیا ہے جس میں مولانا آزادؒ کے اخلاق و عادات کی جھلکیاں، بے تکلف صحبتوں کو قلمبند کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی محنتوں کو قبول و منظور ف...
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری 1868ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سندفراغت حاصل کرصحیحین پڑھنے دہلی میں سید نذیر حسین دہلوی کے پاس پہنچے۔ مولانا ثناءاللہ امرتسری وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اورقادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت اور ہند مت کے رد میں آپ نےمتعد دکتب لکھیں۔اور آپ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں...
شیخ محمد بن جمیل زینو سعودی عرب کے جلیل القدر عالم اور معروف مصنف ہیں۔ان کی تحریر کا اصل موضوع ’اصلاح عقائد‘ ہے اور اس سلسلہ میں متعدد کتابیں ان کے قلم سے نکل عوام و خواص میں سند قبولیت حاصل کر چکی ہیں۔شیخ صاحب موصوف تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ میدان تدریس کے بھی شہسوار ہیں۔آپ شام کے شہر حلب میں 29سال تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔بعدازاں شیخ ابن باز ؒ کے کہنے پر اردن میں دعوت و تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد مکہ مکرمہ کے ’دارالحدیث الخیریہ‘میں بطور مدرس مقرر ہوئے اور تفسیر ،حدیث اور عقیدہ کے اسباق پڑھانے لگے۔زیر نظر کتابچے میں شیخ نے اپنے ذاتی حالات و کوائف بیان کیے ہیں کہ کس طرح انہوں نے خالص عقیدہ توحید اختیار کیا۔یہ بات قارئین کے لیے یقیناً دلچسپ ہوگی کہ شیخ صاحب پہلے نقشبندی صوفی تھی،بعد ازاں سلفی عقیدہ کی نعمت سے مالا مال ہوئے ۔یہ کیسے ہوا،اس کتابچے میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔
علامہ سید بدیع الدین راشدی کا شمار ان کبار علماء کرام اور مشائخ عظام میں ہوتا ہے، جنہوں نے توحید وسنت کی اشاعت،باطل مذاہب کی تردید اور باطل وکفریہ عقائد کے خلاف جہاد میں اپنی زندگی کھپا دی۔آپ کی شخصیت راشدی خاندان کے ماتھے کا جھومر ہے۔آپ نے عالم اسلام کو بالعموم اور اہل سندھ کو بالخصوص شرعی تعلیم سے روشن کرتے ہوئے صحیح منہج ودرست عقائد پر گامزن کیا اور ان کو تقلید شخصی اور غیر اسلامی رسومات کے خلاف جہاد کرنے کا حوصلہ بخشا۔آپ تقریر وتحریر دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔آپ کا علمی وادبی مقام ومرتبہ بہت بلند ہے۔آپ ان علماء حق میں سے تھے جو باطل کے سامنے سینہ سپر ہوجاتے تھے۔آپ عربی ،اردو،سندھی اور فارسی کے ماہر تھے۔آپ نے مختلف علوم وفنون پر ڈیڈھ سو کے قریب کتب تصنیف فرمائی ہیں،جو ہمارے لئے ایک سرمایہ صد افتخار ہے۔المختصر آپ گلشن اہل حدیث کے وہ پھول تھے،جس کی خوشبو آج بھی علمی ،ادبی سیاسی اور مذہبی میدان میں مہک رہی ہے۔زیر تبصرہ کتابچہ "رموز راشدیہ"آپ کے ایک طویل انٹرویو پر مشتمل ہے ،جو 1982ء میں آپ سے لیا گیا تھا،یہ انٹرویو آپ کی زندگی کے حوالے سے ایک...
متحدہ پنجاب کے جن اہل حدیث خاندانوں نے تدریس وتبلیغ اور مناظرات ومباحث میں شہرت پائی ان میں روپڑی خاندان کےعلماء کرام کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔روپڑی خاندان میں علم وفضل کے اعتبار سے سب سے برگزیدہ شخصیت حافظ عبد اللہ محدث روپڑی(1887ء۔1964) کی تھی، جو ایک عظیم محدث ،مجتہد مفتی اور محقق تھے ان کے فتاویٰ، ان کی فقاہت اور مجتہدانہ صلاحیتوں کے غماز او ر ان کی تصانیف ان کی محققانہ ژرف نگاہی کی مظہر ہیں۔ تقسیمِ ملک سے قبل روپڑ شہر (مشرقی پنجاب) سے ان کی زیر ادارت ایک ہفتہ وار پرچہ ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ نکلتا رہا، جو پاکستان بننے کے بعد اب تک لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔ محدث روپڑی تدریس سے بھی وابستہ رہے، قیامِ پاکستان کے بعد مسجد قدس (چوک دالگراں، لاہور) میں جامعہ اہلحدیث کے نام سے درس گاہ قائم فرمائی۔ جس کے شیخ الحدیث اور صدر مدرّس اور ’’تنظیم اہلحدیث‘‘ کے مدیر وغیرہ سب کچھ وہ خود ہی تھے، علاوہ ازیں جماعت کے عظیم مفتی اور محقق بھی۔اس اعتبار سے محدث روپڑی کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ بہت وس...
برصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص جن لوگوں نے علم دین اور مسلک سلف کی اشاعت میں اپنی زندگی لگائی ہے ان میں نمایاں ترین نام سلطان محمود محدث کا ہے ۔ انہوں نے اپنے اس فرض منصبی سے عہدہ برآ ہونے کے لیے راحت و آرام کو تج دیا اور صدہا قربانیاں بے دریغ دے دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاک و ہند میں ان کے ہزاروں قابل اور لائق شاگردان رشید خدمت دین کے لئے شبانہ روز وقف کئے بیٹھے ہیں ۔ شیخ موصوف کا اپنے مشن کے لئے اخلاص اور ورع بے انتہاء تھا ۔ اللہ تعالی نے انہیں بے پناہ ہمت اور حوصلے سے نوازا تھا ۔ وہ صبر و قناعت میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے ۔ بستر مرگ پر بھی وہ ذکر و تسبیح اور مناجات میں مصروف تھے ۔ اپنے تلامذہ و رفقاء سے بڑی طمانیت کے ساتھ مخاطب ہو تے تھے ۔ زیر نظر کتاب انہی کے ایک تلمیذ خاص جو اپنی تعریف آپ ہیں جناب رفیق اثری صاحب نے اپنے استاذ کے حیات و خدمات کی یاد میں رقم فرمائی ہے ۔ جس میں ان کی سیرت وکردار کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ان کی دینی خدمات کو انتہائی احسن طریقے کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا گیا ہے ۔ الل...
مولانا عبد الخالق رحمانی کا کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ ان کے والد محترم استاد العلماء مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی نامور عالم دین، مدرس اور مصنف تھے۔ مولانا عبد الخالق رحمانی 25 نومبر1925ء بروز بدھ کھنڈیلہ ضلع جے پور، بھارت میں پیدا ہوئے۔ موصوف کی عصری تعلیم مڈل تھی۔ دینی تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید کیا۔ بعد ازاں دین اسلام کی ابتدائی کتابیں اپنے والد محترم سے مدرسہ مصباح العلوم، کھنڈیلہ میں پڑھیں۔ اس کے بعد دارالحدیث رحمانیہ ،دہلی میں علوم عالیہ وآالیہ کی تحصیل کی۔ وہاں سے فراغت کے بعد 8 برس تک مدرسہ قاسم العلوم آگرہ میں تدریس فرمائی اورشیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔ اس کے بعد درس و تدریس کو خیر آباد کہ ذریعہ معاش کے لیے تجارت شروع کی اور اس سلسلہ میں کئی شہروں کے سفر کیے۔ آپ جہاں اور جس شہر میں جاتے تجارت کےساتھ ساتھ وعظ وتبلیغ درس و افتاء کاسلسلہ جاری رہتا۔ مولانا عبد الخالق رحمانی علم وفضل کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے۔ تمام علوم اسلامیہ ودینیہ میں ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔قدرت کی طرف سے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ٹھوس اور قیمتی مطالع...
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک امام غزالی بھی ہیں۔زیرِ تبصرہ کتاب مولانا یوسف بنوری کی عربی کتاب’’الاستاذ المودودی وشیئ من حیاتہ وافکارہ‘‘ کا اردو ترجمہ ہے جس میں مودودی صاحب کے افکارونظریات کا منصفانہ تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب در اصل عالم عرب کے لیے لکھی گئی تھی لیکن افادۂ عام کے لیے اس کا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ مودودی صاحب کے افکار ونظریات کی کجی اور ان کے قلم کی شوخی وبے احتیاطی سے لوگ واقف...
سیداحمدشہید 1786ء بھارت کے صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک قصبہ دائرہ شاہ علم اللہ میں پیداہوئے۔ بچپن سے ہی گھڑ سواری، مردانہ و سپاہیانہ کھیلوں اور ورزشوں سے خاصا شغف تھا۔ والد کے انتقال کے بعد تلاشِ معاش کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لکھنؤ اور وہاں سے دہلی روانہ ہوئے، جہاں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی سے ملاقات ہوئی، ان دونوں حضرات کی صحبت میں سلوک و ارشاد کی منزلیں طے کی۔ خیالات میں انقلاب آگیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک اور انکے تجدیدی کام کو لے کر میدانِ عمل میں آگئے۔یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت فنا ہو رہی تھی، مشرکانہ رسوم و بدعات اسلامی معاشرہ میں زور پکڑ رہے تھے، سارے پنجاب پر سکھ اور بقیہ ہندوستان پر انگریز قابض ہو چکے تھے۔ سید احمد شہید نے اسلام کے پرچم تلے فرزندانِ توحید کو جمع کرنا شروع کیا اور جہاد کی صدا بلند کی، جس کی بازگشت ہمالیہ کی چوٹیوں اور نیپال کی ترائیوں سے لیکر خلیج بنگال کے کناروں تک سنائی دی جانے لگی، اور نتیجتاً تحریک مجاہدین وجود میں آئی ۔سید صاحب نے اپنی مہم کا آغاز...
برصغیر پاک وہند کے معروف سیرت نگار اور مؤرخ مولانا سید سلیمان ندوی اردو ادب کے نامور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور چند قابل قدر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سیرت النبی کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربانگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔ عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ انکی علمی اور ادبی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیر...
سید عطا اللہ شاہ بخاری دینی اور سیاسی رہنما مجلس احرار اسلام کے بانی تھے ۔1891ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ آبائی وطن موضع ناگڑیاں ضلع گجرات پنجاب، پاکستان) تھا۔سید صاحب زمانہ طالب علمی ہی میں سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے لگے تھے۔ لیکن آپ کی سیاسی زندگی کی ابتدا 1918ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے ایک مشترکہ جلسے سے ہوئی۔ جو تحریک خلافت کی حمایت میں امرتسر میں منعقد ہوا تھا۔ سیاسی زندگی بھر پور سفروں میں گزاری اور ہندوستان کے تمام علاقوں کے دورے کیے۔ قدرت نے آپ کو خطابت کا بے پناہ ملکہ ودیعت کر رکھا تھا ۔اپنے زمانے کے معروف ترین مقرر تھے اور لوگ ان کی تقریریں سننے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔ اردو، فارسی کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔ خود بھی شاعر تھے ۔ ان کی زیادہ تر شاعری فارسی میں تھی۔ سیاست میں ’’پنڈت کرپا رام برہمچاری، امیر شریعت اور ڈنڈے والا پیر ‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ آپ نےمجموعی طور پر 18 سال جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں...
مولانا ابو الکلام آزاد کی ذات تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ ایک منفرد حیثیت کی حامل شخصیت تھے ۔ آپ علوم اسلامیہ کے بحرذ خار تھے ۔ وہ اپنے علمی تبحر اور اپنے علم و فضل کے ساتھ جامع الکمالات شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ بیک وقت مفسر قرآن ، محدث ، مؤرخ ، محقق ، متکلم ، فلسفی ، فقیہ ، معلم ، ادیب ، شاعر ، نقاد ، دانشور ، سیاست دان اور مبصر بھی تھے ۔ غرض ان کے راہوار قلم کی جولانیوں سے کوئی میدان بھی محروم نہیں رہا ۔ ادب و تنقید کا میدان ہو ، یا تاریخ و سیر کا ، قرآن مجید کی تفسیر ہو یا حدیث نبوی ﷺ کی تشریح و توضیح ، سیاسی موضوعات ہو یا دقیق علمی مباحث ، ہر موضوع پر ہر وقت ان کا اشہب قلم یکساں جولانی دکھاتا تھا۔ اور ان سب تخلیقات کے پس منظر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی رنگا رنگ شخصیت قوس و قزح کی طرح نمایاں رہتی ہے ۔ ان اعتدال اور توازن بدرجہ اتم موجود تھا ۔ خود آرئی سے نفرت ، انکسار، تواضع ، سادگی ، خاکساری حق گوئی ، عالی ظرفی ، ثابت قدمی جیسی صفات پائی جاتی تھیں ۔ وہ اپنی ذات میں مرقع حیات تھے ۔ شورش کے الفاظ میں وہ ہندستان کے ابن تیمیہ تھے ۔ زیرنظر کتاب میں بھی ان کی شخصی...
مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی 971ھ کو ہند و ستا ن کے مشر قی پنجا ب کے علاقہ سرہند میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد شیخ عبدا لا حد چشتی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم وعارف تھے .... حضرت مجدد الف ثانی کا سلسلہ نسب 29واسطوں سے امیر المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق سے ملتاہے۔آپ نے صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فنِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالمِ اسلام کے مشائخ علماء اور ارادتمند آکر آپ سے مستفیذ ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے ۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا ۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے ۔...
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جس قدر بھی جہاد ہو رہا ہے اس کے بارے میں اگر یہ رائے رکھی جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس کی اساس سید احمد شہید ؒ نے رکھی تھی ۔ آپ ؒ نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب برصغیر میں کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں زوال کے آثار نمایاں تھے ۔ امت کا انتشار و افتراق اور دین سے جہالت بہت بڑھ چکی تھی ۔ انگریز اور سکھ اپنے خونی پنجے گاڑھ چکے تھے ۔ حالات میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال میں سید صاحب نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی ۔ اور ایک جماعت کی اساس رکھی ۔ آپ نے خیبر پختونخوا میں ایک ریاست اسلامیہ کی تاسیس بھی رکھی ۔ حتی کہ خطبوں میں بھی آپ کا نام لیا جانے لگا ۔ تاہم اپنے کی غداری کا شکار ہوئے ۔ آپ کے بعد بھی جماعت مجاہدین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مسلمانان برصغیر میں جذبہء جہادی و آزادی کی روح آپ کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لوگوں کے شرکیہ عقائد اور بدعی اعمال کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کو کامیابیوں سے نوازا ۔ زیرنظرکتاب مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کی تصنیف سید احمد شہید ؒ کی خدمات و حیات...
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں اور شرک وبدعات کے خلاف میدان کارزار میں کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔آپ نے خالصتا کتاب وسنت کی دعوت کو عام کیا اور لوگوں کو شرک وبدعات سے دور کرنے کے لئے کتب لکھیں۔زیر تبصرہ کتاب(سیرت شیخ محمد بن عبد الوہاب) سعودی عرب کے مفتی اعظم اور معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کی ایک تقریر پر مشتمل ہے،جو انہوں نے مدینہ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی تھی۔شیخ ابن باز اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔اس خطاب میں انہوں نے شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی سیرت اور حالات زندگی کو مختصر مگ...
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری 1868ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سندفراغت حاصل کرصحیحین پڑھنے دہلی میں سید نذیرحسین دہلوی کے پاس پہنچے۔مولانا ثناءاللہ امرتسری وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اورقادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت اور ہند مت کے رد میں آپ نےمتعد دکتب لکھیں۔اور آپ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں کے حصے م...