مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سر ہندی 971ھ کو ہند و ستا ن کے مشر قی پنجا ب کے علاقہ سرہند میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد شیخ عبدا لا حد چشتی اپنے وقت کے جلیل القدر عالم وعارف تھے .... حضرت مجدد الف ثانی کا سلسلہ نسب 29واسطوں سے امیر المو منین سیدنا حضرت عمر فاروق سے ملتاہے۔آپ نے صغر سنی میں ہی قرآن حفظ کر کے اپنے والد سے علوم متداولہ حاصل کیے پھر سیالکوٹ جا کر مولانا کمال الدیّن کشمیری سے معقولات کی تکمیل کی اور اکابر محدثّین سے فنِ حدیث حاصل کیا ۔ آپ سترہ سال کی عمر میں تمام مراحل تعلیم سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مشغول ہوگئے ۔1599ء میں آپ نے خواجہ باقی باللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے علم و بزرگی کی شہرت اس قدر پھیلی کہ روم، شام، ماوراء النہر اور افغانستان وغیرہ تمام عالمِ اسلام کے مشائخ علماء اور ارادتمند آکر آپ سے مستفیذ ہوتے۔ یہاں تک کہ وہ ’’مجدد الف ثانی ‘‘ کے خطاب سے یاد کیے جانے لگے ۔ یہ خطاب سب سے پہلے آپ کے لیے ’’عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ نے استعمال کیا ۔ طریقت کے ساتھ وہ شریعت کے بھی سخت پابند تھے ۔...
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جس قدر بھی جہاد ہو رہا ہے اس کے بارے میں اگر یہ رائے رکھی جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس کی اساس سید احمد شہید ؒ نے رکھی تھی ۔ آپ ؒ نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب برصغیر میں کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں زوال کے آثار نمایاں تھے ۔ امت کا انتشار و افتراق اور دین سے جہالت بہت بڑھ چکی تھی ۔ انگریز اور سکھ اپنے خونی پنجے گاڑھ چکے تھے ۔ حالات میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال میں سید صاحب نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی ۔ اور ایک جماعت کی اساس رکھی ۔ آپ نے خیبر پختونخوا میں ایک ریاست اسلامیہ کی تاسیس بھی رکھی ۔ حتی کہ خطبوں میں بھی آپ کا نام لیا جانے لگا ۔ تاہم اپنے کی غداری کا شکار ہوئے ۔ آپ کے بعد بھی جماعت مجاہدین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مسلمانان برصغیر میں جذبہء جہادی و آزادی کی روح آپ کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لوگوں کے شرکیہ عقائد اور بدعی اعمال کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کو کامیابیوں سے نوازا ۔ زیرنظرکتاب مولانا ابوالحسن ندوی ؒ کی تصنیف سید احمد شہید ؒ کی خدمات و حیات...
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ نے متعدد کتب تصنیف فرمائیں اور شرک وبدعات کے خلاف میدان کارزار میں کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔آپ نے خالصتا کتاب وسنت کی دعوت کو عام کیا اور لوگوں کو شرک وبدعات سے دور کرنے کے لئے کتب لکھیں۔زیر تبصرہ کتاب(سیرت شیخ محمد بن عبد الوہاب) سعودی عرب کے مفتی اعظم اور معروف عالم دین فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز کی ایک تقریر پر مشتمل ہے،جو انہوں نے مدینہ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمائی تھی۔شیخ ابن باز اس وقت مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔اس خطاب میں انہوں نے شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی سیرت اور حالات زندگی کو مختصر مگ...
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ امرتسری 1868ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی تعلیم امرتسر میں پائی۔ سات سال کی عمر میں والد اور چودہ برس کی عمر تک پہنچتے والدہ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ بنیادی تعلیم مولانا احمد اللہ امرتسر سے حاصل کرنے کے بعد استاد پنجاب، مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی سے علم حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ ۱۸۸۹ء میں سندفراغت حاصل کرصحیحین پڑھنے دہلی میں سید نذیرحسین دہلوی کے پاس پہنچے۔مولانا ثناءاللہ امرتسری وسیع المطالعہ، وسیع النظر، وسیع المعلومات اور باہمت عالم دین ہی نہیں دین اسلام کے داعی، محقق، متکلم، متعلم، مناظر مصنف، مفسر اور نامور صحافی بھی تھے۔ مولانا کے پیش نگاہ دفاعِ اسلام اور پیغمبر اعظم جناب محمد رسول اللہﷺ کی عزت و ناموس کی حفاظت کا کام تھا۔ یہودونصاریٰ کی طرح ہندو بھی اسلام کے درپے تھے۔ مولانا کی اسلامی حمیت نے یہودونصاریٰ، ہندو اورقادیانیوں کو دندان شکن جواب دیے۔ عیسائیت اور ہند مت کے رد میں آپ نےمتعد دکتب لکھیں۔اور آپ نے جس سرگرمی و تندہی سے عقیدہ ختم نبوتﷺ کا دفاع کیا، ایسی سعادت کم ہی مسلمانوں کے حصے م...
قرآن مجید لا ریب کتاب ہے ، فرقان حمید اللہ رب العزت کی با برکت کتاب ہے۔یہ رمضان المبارک کے مہینے میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل فرمائی گئی۔پھر اسے تئیس سالوں کے عرصہ میں نبی ﷺپر اتارا گیا۔قرآن مجید ہماری زندگی کا سرمایہ اور ضابطہ ہے۔ یہ جس راستے کی طرف ہماری رہنمائی کرے ہمیں اُسی راہ پر چلتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ قرآن مجید ہماری دونوں زندگیوں کی بہترین عکاس کتاب ہے۔لہٰذا یہ قرآن ہمیں رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھ پر عمل پیرا ہونے سے تم فلاح پاؤ گے، عزت و منزلت اور وقار حاصل کرو گےاور مجھ سے دوری کا نتیجہ اخروی نعمتوں سے محرومی، ابدی نکامی اور بد بختی کے سوا کچھ نہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شاہ ولی اللہ دہلوی کی قرآنی خدمات‘‘ شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد یٰسین مظہرصدیقی اور پروفیسر ظفر الاسلام کی مشترکہ کاوش ہے۔جس میں شاہ ولی اللہ کی قرآن مجید کے حوالے سے تمام خدمات جو کہ مقالات اور سمینار کی صورت میں بیان کی گئی تھی ان سب کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762) برصغی...
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلعے کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی تھی- ابتدائی تعلیم گھر پر ہی مولوی فاروق چریاکوٹی سےحاصل کی- 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی۔ علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا۔ پروفیسر آرنلڈ سے فرانسیسی سیکھی۔ 1892ء میں روم اور شام کا سفر کیا۔ 1898ء میں ملازمت ترک کرکے اعظم گڑھ آ گئے۔ 1913ء میں دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی۔ 1914ء میں انتقال ہوا۔ علامہ شبلی نعمانی اردو کے مایہ ناز علمی و ادبی شخصیات میں سے ہیں۔ خصوصاً اردو سوانح نگاروں کی صف میں ان کی شخصیت سب سے قدآور ہے۔ مولانا شبلی نے مستقل تصنیفات کے علاوہ مختلف عنوانات پر سیکڑوں علمی و تاریخی و ادبی و سیاسی مضامین لکھے جو اخبارات و رسائل کے صفحات میں منتشر ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شبلی کا ذہنی ارتقاء‘‘ سندھ یونیورسٹی سے ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی کا (پی ایچ ڈی) کا مقالہ ہے ۔اس مقالے میں...
مبارک پور ضلع اعظم گڑھ بھارت کا ایک مشہور و معروف قصبہ ہے، ریشمی ساڑیوں اور الجامعۃ الاشرفیہ اور کبار علمائے مبارکپور نے قصبہ مبارک پور کو عالمی سطح پر شہرت دلائی ہے۔ یہ قصبہ شہر اعظم گڑھ سے 16 کلو میٹر مشرق میں واقع ہے۔ علم و ادب، شعر و سخن، اخلاق و کردار، ایثار و قربانی اور اپنی دست کاری کے باعث یہاں کے لوگوں نے ہندوستان بھر میں اپنی ایک شناخت قائم کی ہے۔سیرۃ البخاری کے مصنف مولانا عبد السلام مبارکپوری، شارح جامع ترمذی مولانا عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری ،عالمی مقابلہ سیرت میں اول انعام یافتہ مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری ، مؤرخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کا تعلق بھی اسی مبارکپور سے ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ شجرۂ مبارکہ یعنی تذکرۂ علماء مبارکپور‘‘مؤرخ اسلام مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کی تصنیف ہے ۔ انہوں نے اس کتاب میں ہدوستان کے مشہور علمی ودینی اور صنعتی قبصہ مبارکپور اور اس کے ملحقات کی ساڑھے چاسوسالہ اجمالی تاریخ اور قصبہ و سوا قصبہ کے مشائخ وبزرگان دین علماء، فقہا ، محدثین ومصنفین، شعراء وادباؤ اور دیگر ارباب علم وفضل کے حال...
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ پر مشتمل برصغیر کی علمی، دینی، سیاسی، تحریکی اور فکری جدوجہد کے دو عظیم نام ہیں۔ جن کے تذکرہ کے بغیر اس خطہ کے کسی ملی شعبہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، اور خاص طور پر دینی و سیاسی تحریکات کا کوئی بھی راہ نما یا کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ سے ہو ان سے راہ نمائی لیے بغیر آزادی کی عظیم جدوجہد کے خد و خال سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ دارالعلوم دیوبند کے اولین طالب علم تھے جو اپنی خداداد صلاحیتوں اور توفیق سے اسی مادر علمی کے سب سے بڑے علمی منصب صدر المدرسین تک پہنچے۔ وہ تعلیمی اور روحانی محاذوں کے سرخیل تھے لیکن ان کی نظر ہمیشہ قومی جدوجہد اور ملی اہداف و مقاصد پر رہی۔ حتیٰ کہ ان کا راتوں کا سوز و گداز اور مسند تدریس کی علمی و فنی موشگافیاں بھی ان کے لیے ہدف سے غافل کرنے کی بجائے اسی منزل کی جانب سفر میں مہمیز ثابت ہوئیں۔ اور بالآخر انہوں نے خود کو برطانوی استعمار کے تسلط سے ملک...
سرزمین فیصل آباد کو جن نفوس قدسیہ نے کتاب و سنت کے علم سے سیراب کیا ان میں سے ایک استاذ العلماء ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ محدث امرتسری ہیں ۔ کلیہ دارالقرآن و الحدیث انہی کی یاد گار ہے جو تقریبا نصف صدی سے علم و عمل کے میدان میں اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے ۔ یہ درسگاہ انہوں نے آزادی برصغیر کے بعد قائم کی تھی ۔ جس سے بے شمار حضرات استفادہ کر چکے ہیں ۔ مولانا نے ہمیشہ ہی دنیا سے بے رغبتی اختیار کی بلکہ وغظ و تبلیغ اور تدریس کی جو خدمات سرانجام دیتے اس کا بھی معاوضہ نہ لیتے اور اپنی تجارت شروع کی ۔ انہوں نے اپنی تمام دلچسپیوں کا مرکز اپنے طلباء کو بنا رکھا تھا انہیں اللہ کے دین سے روشناس کرانا ان کی زندگی کا مقصد اولین تھا ۔ آپ نحو ، صرف ، منطق ، بلاغت ، معانی میں یکتائے روز گار تھے ۔ اور علم الفرائض کے تو گویہ امام تھے ۔ اس علم کی معروف کتاب السراجی کی انہوں نے شرح بھی لکھی ہے ۔ آپ علوم میں بہت زیادہ رسوخ رکھتے تھے ۔ اسی وجہ سے آپ کے اساتذہ آپ پر مکمل اعتماد کر تے تھے ۔ ان کی علالت یا عدم موجودگی میں آپ ہی مسند تدریس ارشاد فرمایا کر تے تھے ۔...
شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ الل علیہ کے نام سے کون واقف نہیں۔ علمی مرتبہ، تقویٰ و للّٰہیت اور تزکیہ نفس کے حوالے سے شیخ کی بے مثال خدمات چہار دانگ عالم میں عقیدت و احترام کے ساتھ تسلیم کی جاتی ہیں۔ مگر شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے فرطِ عقیدت میں شیخ کی خدمات و تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک ایسا متوازی دین وضع کر رکھا ہے جو نہ صرف قرآن و سنت کے صریح منافی ہے بلکہ خود شیخ کی مبنی بر حق تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ زیر نظر کتاب میں اسی موضوع کو بالتفصیل بیان کیا گیا ہے۔ مبشر حسین لاہوری ایک علمی ذوق رکھنے والے شخص ہیں موصوف کی متعدد کتب زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ اس کتاب کو حافظ صاحب نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب شیخ جیلانی کے مستند سوانح حیات پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں شیخ کے عقائد و نظریات اور دینی تعلیمات کے بارے میں بحث کی گئی ہے جبکہ تیسرے باب میں ان غلط عقائد کی بھرپور نشاندہی کی گئی ہے جنھیں شیخ کے بعض عقیدت مندوں نے شعوری یا غیر شعوری طور پر عوام میں پھیلا رکھا ہے۔(ع۔م)
شیخ محمد الغزالی مصر کی ایک ممتاز علمی ودینی اور تحریکی شخصیت ہیں جنہوں نے ساری عمر مصر میں الحاد وبےدینی کے طوفان کا پوری جرات، دلیری اور عالمانہ فراست کے ساتھ مقابلہ کیا۔آپ نے شاہ فاروق کا دور بھی دیکھا اور پھر جمال عبد الناصر اور سادات کے اقتدار میں جبر وتشدد کا پورے صبر واستقلال اور جرات وہمت کے ساتھ سامنا کیا۔ زیر تبصرہ کتاب" شیخ محمد الغزالی خود نوشت سوانح حیات، نظریات، تالیفات "شیخ محمد الغزالی کی تصنیف ہے، جو یوں تو ان کی ایک خود نوشت ہے، لیکن درحقیقت مصر کے ایک طویل تاریک دور کی تاریخ ہے، جس کا ایک ایک لمحہ جبرواستبداد، فرعونی آمریت اور اسلام دشمنی کا آئینہ دار ہے۔صدر ناصر نے جس طرح اسلامی تحریک کی علمبردار اخوان المسلمون کو کچلنے اور اس کی تنظیم کو تباہ کرنے کے لئے ظلم وتشدد کے ناقابل تصور حربے استعمال کئے اور اسلام کا نام لینے والوں کو قید وبند، پھانسیوں اور کوڑوں اور جیلوں میں انتہائی وحشیانہ سلوک کا نشانہ بنایا اس کی ادنی سی جھلک اس خود نوشت میں دیکھی جا سکتی ہے۔نیز اس میں ان کے نظریات اور تصنیفات کا تعارف بھی بیان کیا گیا ہے۔کتاب...
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب ( 1703 - 1792 م) کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب (کتاب التوحید) ہے۔مسائل توحید پر یہ آپ کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے،اور سند وقبولیت کے اعتبار سے اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ شیخ موصوف کی دعوتی تحریک تاریخ اسلام کی ان تحریکوں میں سے ہے جن کو بہت زیادہ مقبولیت وشہرت حاصل ہوئی ۔اور یہی وجہ ہےکہ دنیائے اسلام کےہرخطہ میں میں ان کے معاندین ومؤیدین بہت کافی تعداد میں موجود ہیں ۔ زیر تبصرہ رسالہ’’ شیخ محمد بن عبدالوہاب اوران کی دعوت‘‘ شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کی الجامعۃالاسلامیۃ مدینہ منورہ میں ایک تقریر کا ترجمہ ہے جو انہو ں نےیون...
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔شیخ نے اپنی دعوت پر عقائدکی اصلاح پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور اس سلسلے میں کئی کتب تصنیف کی ہیں ۔شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی تصنیفات کاجائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نےاجتہاد او راستنباط کے ہر علم اور فن میں طبع آزمائی کی ہے ۔ آپ نے قرآن کی فضیلت اور قرآنی علوم پر بھی قلم اٹھایا ۔ قرآن کے بعض مقامات کی تفسیر بھی کی اور کسی حد تک اجتہاد کو ترجیح دی ۔شیخ محمد بن عبدالوہاب نے علم فقہ کے ابواب کے مطابق احادیث نبوی کو پانچ جلدوں میں جمع کیا اور فقہ کی کتابوں کا بڑا عمیق مطالعہ کیا اور اس موضوع پر چند کتابیں مرتب کیں۔علم فقہ کی بعض آراء کاتنقیدی جائزہ بھی لیا اور...
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب ( 1703 - 1792 م) کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب’’کتاب التوحید‘‘ بڑی معر وف ہے۔شیخ موصوف کی حیات وخدمات سے متعلق مختلف اہل علم نے عربی اردو زبان میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر نظر کتاب’’ شیخ محمد بن عبد الوہاب
بارہویں صدی ہجری میں عالم اسلام کا زوال وانحطاط اپنی حدکو پہنچ چکا تھا۔ مسلمان ہراعتبارسے پستی اور تخلف کا شکارتھے۔ سیاسی،ثقافتی،اخلاقی اور علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ دینی اعتبارسے بھی یہ سخت زبوں حالی کاشکارتھے۔ دین کی گرفت نہ صرف یہ کہ مسلمانوں پرڈھیلی پڑچکی تھی بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ دین ان کی زندگی سے پورے طور پر نکل چکا تھا۔ان پرآشوب حالات میں عالم اسلام خصوصاً جزیرۃ العرب پراللہ کافیضان ہوا، اورشیخ الاسلام امام محمدبن عبدالوہاب تیمی نجدی نے نجدکی’ عیُیَیْنَہ‘‘نامی بستی میں ایک علمی خانوادہ کے اندر ۱۱۱۵ھ مطابق ۱۷۰۳ء میں آنکھیں کھولیں،اورسن شعورکو پہونچنے کے بعدتحصیل علم میں لگ گئے، اپنے والد شیخ عبدالوہاب سے جونجدکے علماء میں ممتاز تھے کسب فیض کیا اورمزید علم کی تلاش میں حجاز کا رخ کیا اورمدینۃ الرسول پہونچ کر وہاں کے علماء ومشائخ سے حدیث کا درس لیا اورپھر مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے بصرہ کاقصدکیا اور وہاں پہونچ کر حدیث وادب میں مزید مہارت پیداکی، اور اس کے بعدآپ اپنے علاقہ نجدمیں واپس آکر دعوت وتبلیغ میں مصروف ہوگئے۔آپ انتہائی ذکی...
طاہر القادری صاحب کا نام محتاج تعارف نہیں ان کے معتقدین انہیں مفکر اسلام،نابغہ عصر، قائد انقلاب اور شیخ الاسلام ایسے پر فخر القاب سے یاد کرتے ہیں جبکہ ان کے ناقدین انہیں احسان فراموش، شہرت کا بھوکا اور حب جاہ و منصب کا حریص قرار دیتے ہیں۔موصوف کے ناقدین میں محض مسلکی مخالفین ہی شامل نہیں بلکہ بریلوی علما بھی ،جن کی طرف قادری صاحب اپنا انتساب کرتے ہیں،موصوف کو خطرے کی گھنٹی سمجھتے ہوئے اہل سنت میں شمار کرنے پر تیار نہیں۔شہرت و ناموری کی خاطر قادری صاحب کرسمس کا کیک کاٹنے اور دشمنان صحابہ روافض کی مجالس کو رونق بخشنے سے بھی ذرا نہیں شرماتے اور اب تو نوبت بایں جا رسید کہ انہوں نے اعداے ملت یہود ونصاریٰ کے حق میں بھی فتاویٰ صادر کرنے شروع کر دیے ہیں۔زیر نظر کتاب جناب قادری کے نقاب سنیت کو الٹ کر ان کے باطنی رفض وتشیع کوآشکار کرتی ہے۔اس کتاب کے فاضل مصنف قبل ازیں طاہرالقادری کی علمی خیانتیں کے نام سے بھی ایک کتاب تحریر کر چکے ہیں۔اس کے جواب میں ایک صاحب نے قادری صاحب کا دفع کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے جواب میں زیر تبصرہ کتاب منصہ شہود پر آئی ہے۔بہ حیثیت مجموعی اس کے مندرجات سے اتفاق ہونے...
ہندوپاک اور بنگلہ دیش کے اکثر مدارس میں مروج نصاب تعلیم ’’درس نظامی‘‘ کے نام سے معروف ومشہور ہے۔ اس کو بارہویں صدی کے مشہور عالم اور مقدس بزرگ مولانا نظام الدین سہالویؒ نے اپنی فکراور دور اندیشی کے ذریعہ مرتب کیا تھا۔ مولانا کا مرتب کردہ نصاب تعلیم اتنا کامل ومکمل تھا کہ اس کی تکمیل کرنے والے فضلاء جس طرح علوم دینیہ کے ماہر ہوتے تھے اسی طرح دفتری ضروریات اور ملکی خدمات کے انجام دینے میں بھی ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس زمانے میں فارسی زبان ملکی اور سرکاری زبان تھی اور منطق وفلسفہ کو یہ اہمیت حاصل تھی کہ یہ فنون معیار فضیلت تھے اسی طرح علم ریاضی (علم حساب) کی بھی بڑی اہمیت تھی ،چنانچہ مولانا نے اپنی ترتیب میں حالات کے تقاضے کے مطابق قرآن حدیث فقہ اور ان کے متعلقات کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے عصری علوم کو شامل کیا اور حالات سے ہم آہنگ اور میل کھانے والا نصاب مرتب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ نصاب اس وقت بہت ہی مقبول ہوا اور اس وقت کے تقریباً تمام مدارس میں رائج ہوگیا۔آج بھی تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ نصاب دینی مدارس میں رائج ہے۔ زیر تبصرہ کتاب"...
شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ 1330ھ کو سعودی عرب کے شہر الریاض میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ سولہ برس کی عمر میں شیخ صاحب کی بینائی کمزور ہونا شروع ہوئی اور تقریباً بیس سال کی عمر تک آپ بینائی سے محروم ہو گئے۔ لیکن اس محرومی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آپ سے آگے سے آگے بڑھتے رہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بصارت سے محروم کیا تو حافظہ کی قوت اور بصیرت کی بے پناہ دولت سے مالا مال کیا۔ پیش نظر کتاب میں فضیلۃ الشیخ محمد منیر قمر شیخ موصوف کی زندگی کے عوام الناس سے پوشیدہ بہت سے گوشوں کو منظر عام پر لائے ہیں۔ شیخ صاحب کی علمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سعودی عرب کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس علامہ عبداللہ بن سلیمان المنیع نے شیخ ابن باز کو عہد حاضر کے مجدد، امام فن رجال، امام حدیث، امام کرم نفس و دست، امام نصیحت، امام سماحت، امام تواضع، امام قناعت، امام تقویٰ، امام صلاح و اصلاح جیسے القابات سے نوازا۔ ایسے شخص کی زندگی یقیناً عوام و خواص کے لیے نظیر ہے۔ اردو زبان میں علامہ صاحب کی زندگی سے متعلق اس قدر تفصیلی اور معتبر مواد سے اس سے قبل سامنے نہیں آیا۔ (عین۔ م)
مالک ارض وسما نے جب انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر اتارا تواسے رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔ شروع سے لے کر آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے۔ اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدﷺ تک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور اس سب کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے ما بین عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔ انبیاء کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبیﷺ کے بعد امت محمدیہ کے علماء نے اس فریضے کی ترویج کی۔ ان عظیم شخصیات میں سے ایک علامہ ابن باز بھی ہیں، علامہ ابن باز بصارت سے اگرچہ محروم تھے لیکن بصیرت سے مالا مال تھے۔زیرِ تبصرہ کتاب خاص علامہ ابن باز کے حالات زندگی‘ کارناموں اور ان کی علمی خدمات کی عکاسی کرتی ہے، کیونکہ ایسی شخصیت کا عوام الناس میں تعارف بہت ضروری ہے کیونکہ ایسی شخصیات نسل در نسل میں روح اور اسپرٹ پیدا کرتی ہیں جس کا اسلام تقاضا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگیوں میں بہت سارے لوگوں کی زندگیاں اور تجربات سے گزرے ہوتے ہیں۔ یہ ک...
شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کی شخصیت کی تعارف کی محتاج نہیں۔آپ 31 مئی1945ء بروز جمعرات شہر سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی، مولانا ابراہیم میر سیا لکوٹی کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ا ور دینی ابتدائی تعلیم ’’دارالسلام ‘‘ سیالکوٹ سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر جناب حافظ محمدگوندلوی کی درسگاہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے ۔ 1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ’’بی اے اونرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا۔اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کیلئے مدینۃ الرّسولﷺمیں، ملتِ اسلامیہ کی عظیم عالمی یونیورسٹی’’ مدینہ یونیورسٹی ‘‘ میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ وہاں آپ نے وقت کے ممتاز علماء کرام سے علم حاصل کیا ،ان میں سرفہر...
23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی ﷺ میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی تقریر کے بعد جناب علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا ،آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا، ابھی آپ 20منٹ کی تقریر کرپائے تھے کہ بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا ،تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ،دور دور تک دروبام دھماکے سے لرز اٹھے، ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا، دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت، بزدل دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا ۔اس حادثہ میں مولانا حبیب الرحمٰن یزدانی ، مولانا عبد الخالق قدوسی، محمد خان نجیب، حافظ عمران ، شیخ احسان الحق، سلیم پردیسی نے جام شہادت نوش کیا اور تقریبا 90 سامعین نے زخمی ہوئے ۔ خطیب ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر، بھی اس دھماکہ میں شدید زخمی ہوئے میوہسپتال میں زیر علاج رہے ۔ 29 مارچ کو سعودی ائیر لائن کی خاص پرواز کے ذریعہ شاہ فہد کی دعوت پر سعودی عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملیٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا، ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن آپ کا وقتِ موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھن...
نماز، روزہ، زکاۃ اور حج ارکان اسلام میں سے ہیں۔ یہ وہ احکامات ہیں جن کی فرضیت پر امت مسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے۔ ان ارکان اسلام کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے ان کا انکار کرنے والا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ارکان خمسہ کی اسی اہمیت کے پیش نظر علمائے اسلام اپنے دروس اور کتب میں ان کو موضوع بحث بناتے رہتے ہیں۔ علامہ ابن بازؒ کا شمار ماضی قریب کے نہایت متبحر علما میں ہوتا ہے۔ جن کے فتاویٰ پوری دنیا میں معتبر سمجھے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بصارت جیسی نعمت سے محروم کیا لیکن بصیرت کی دولت سے مالا مال کیا۔ یہی وجہ ہے مولانا نے اپنی زندگی میں دین اسلام کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو قبول فرمائے اور دین کے لیے ان کی خدمات کو ان کے لیے توشہ آخرت بنائے۔ کتاب ہذا علامہ موصوف کے بعض رسائل و تقاریر کے مجموعے کا اردو ترجمہ ہے جو عربی زبان میں ’المجموع المفید‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ کتاب کو اردو میں منتقل کرنے کا فریضہ اسداللہ عثمان صاحب نے ادا کیا ہے۔(ع۔م)
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جنہیں سیرت سرور عالم پر لکھنے کی سعادت ملی ہے۔آپ کا اسم گرامی جیسے زبان پر آتا ہے ویسے ہی آپ کی عظیم ترین کاوش الرحیق المختوم یاد آجاتی ہے۔آپ عصر حاضر کے ان علماء میں سے تھے جو رسوخ فی العلم رکھتے تھے۔آپ اعظم گڑھ، مبارکپور کی سرزمین پرچھے جون انیس سو بیالیس میں پیدا ہوئے تھے۔بستی کا نام حسین آباد جو قصبہ مبارکپور کے شمال میں تقریبا دو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسی طرح مولانا کی تعلیم ، تدریس اور دیگر کار ہائےنمایاں کے بارےمیں یہ کتاب رقم کی گئی ہے۔جسے موصوف مرتب انتہائی زیادہ کاوشوں کے ساتھ منصہ شہود پر لے کر آئے ہیں۔ساتھ ان کی طرف سے یہ شکوہ کیا گیا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک اتنی بڑی شخصیت کے آنکھوں سے اوجل ہونے کے باوجود بھی سلفی حضرات کی طرف سے کسی معروف جریدے میں کوئی کلمہء تاسف نہ لکھا گیا۔ اللہ تعالی محتر م مؤلف کی اس عظیم کاوش کو قبول فرمائے۔(ع۔ح)
علامہ عبدالعزیز میمن 23 اکتوبر، 1888ء کو پڑدھری، راجکوٹ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔راجکوٹ اور جوناگڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دہلی پہنچے جہاں سید نذیر حسین محدث دہلوی سے شرف تلمذ حاصل کرنے کےعلاوہ ڈپٹی نذیر احمد اور دیگر علماء سے اکتساب علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے۔ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں شعبہ تحقیقات اسلامی اور کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی قائم کیا پھر 1964ء سے 1966ء تک پنجاب یونیورسٹی میں صدر شعبہ عربی کے فرائض انجام دیے۔پروفیسر علامہ عبدالعزیز میمن پاکستان سے تعلق رکھنے والے عربی زبان و ادب کے نامور عالم، استاد اور 30 سے زیادہ کتابوں کے مصنف، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر تھے۔موصوف عربی لغت کی باریکیوں سے واقفیت کی بناپر دنیا پر چھاگئے اور کی عربی دانی کا پوری دنیا میں ڈنکا پیٹا اور عربوں نے کھل کر نہ صرف یہ...
علم وعمل کے اعتبار سے برصغیر کی سرزمین ہمیشہ سرسبز وشادات رہی ہے ۔ اس میں مختلف اوقات میں بے شماراصحاب علم اور ارباب فضل پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بے پناہ علمی خدمات سرانجام دیں اور عملی میدان میں بھی بے حد تگ وتاز کی ۔ تدریس وتصنیف ، تبلیغ واشاعت دین ، وعظ ونصیحت غرض ہر شعبۂ عمل ان کا سلسلہ جدوجہد جاری رہا۔انہی شخصیات کی فہرست میں تحریک پاکستان اور تحریک ختم نبوت میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنےوالے عظیم مجاہد علامہ یوسف کلکتوی کا نام گرامی بھی شامل ہے ۔ موصوف سن 1900ء میں گوداس پور کے ایک قصبہ بھٹویہ تحصیل دینا نگر میں پیدا ہوئے او راپنے عہد کے متعدد جلیل القدر علمائے کرام سےاستفادہ کیا ۔پھر ایک وقت آیا کہ خود مسندِ تدریس پر فائز ہوئے اور خطابت وتقریر میں بھی بڑا نام پایا۔موصوف پُر جوش خطیب تھے کلکتہ میں خطابت کے ساتھ ساتھ سیاہی وعطریات کا کاروباربھی کرتے تھے ۔خود کماکر اپنی گھریلو ضروریات پوری کرتے تھے ۔انہوں نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور تحریک پاکستان کے سلسلے میں پورے بنگال میں سرگرم عمل رہے ۔قیام پاکستان کےبعد کراچی آگئے اور اسی شہر میں...