سوہدرہ ضلع گوجرانوالہ کی تحصیل وزیر آباد کا ایک قصبہ ہےاور اس کاشمار پنجاب کےان قصبات میں ہوتا ہے جو اپنی علم دوستی اور دینی ودنیاوی خدمات کےلحاظ سے پاک وہند میں غیر معمولی شہرت واہمیت کے مالک ہیں ۔ اس قصبہ نے شعر وادب سے لے کر صحافت واور علم فن سےلے کر مذہب تک بہت سےایسے ارباب فکر کو جنم دیا ہے جن کا مسلمان ہند کی تقدیر بنانے میں بڑا حصہ ہے۔کئی نامور علماء کا تعلق اس قصبہ سے ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’تذکرہ بزرگان علوی سوہدرہ‘‘ پاکستان کے معروف مؤرخ وسیرت نگار جناب مولانا عبد الرشید عراقی ﷾ کی تصنیف ہے۔انہوں نے اس کتاب میں سوہدرہ کی تاریخ، سوہدرہ کے علوی خاندان کی اشاعت دین کے سلسلے میں خدمات اور ممتاز بزرگوں کا تذکرہ بڑے دلنشیں انداز میں کیا ہے۔ان بزرگوں میں مولانا غلام نبی الربانی ،مولانا عبدالحمید سوہدروی، مولانا عبد المجید خادم سوہدری، مولانا حافظ محمد یوسف سوہدروی ،مولانا محمد ادریس فاروقی ، حافظ عبدالوحید سوہدروی ، حافظ حبیب الرحمٰن سوہدروی ، وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں ۔(م۔ا)
حضرت العلام، محدث العصر جناب حافظ محمد گوندلوی اپنے وقت کے امام تھے۔ ان کی تدریس اور تالیف کے میدان میں نمایاں خدمات ہیں۔ حضرت العلام کا مطالعہ بہت وسیع اور فکر میں انتہائی گہرائی تھی ۔ ان کے حافظے کی پختگی کی وجہ سے لوگ انہیں چلتی پھرتی لائبریری کہا کرتے تھے ۔موصوف ۶ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ بمطابق ۱۸۹۷ء ضلع گوجرانوالہ کے مشہور قصبہ گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد میاں فضل الدین نے آپ کا نام اعظم رکھا تھا اور آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کا نام محمد رکھا لیکن آپ والدہ صاحبہ کے تجویز کیے ہوئے نام ہی کے ساتھ معروف ہوئے۔ پانچ سال کی عمر میں آپ کو حفظِ قرآن کے لیے ایک حافظ صاحب کے پاس بٹھا دیا گیا، تھوڑے ہی عرصے میں حفظ کی صلاحیت خاصی بڑھ گئی۔ ایک دن والد محترم کہنے لگے کہ ایک ربع پارہ روزانہ یاد کر کے سنایا کرو، ورنہ تمہیں کھانا نہیں ملے گا۔ اس دن سے آپ نے روزانہ ربع پارہ یاد کر کے سنانا شروع کر دیا۔حفظ قرآن کا کام مکمل ہوا تو والدہ ماجدہ نے مزید تعلیم کے لیے آپ کو جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں (چوک اہل حدیث) شہر گوجرانوالہ میں مولانا علاؤ الدین کے پاس بھیجا...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات ق...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺ اور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات...
متحدہ پنجاب کے جن اہل حدیث خاندانوں نے تدریس وتبلیغ اور مناظرات ومباحث میں شہرت پائی ان میں روپڑی خاندان کےعلماء کرام کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔روپڑی خاندان میں علم وفضل کے اعتبار سے سب سے برگزیدہ شخصیت حافظ عبد اللہ محدث روپڑی(1887ء۔1964) کی تھی، جو ایک عظیم محدث ،مجتہد مفتی اور محقق تھے ان کے فتاویٰ، ان کی فقاہت اور مجتہدانہ صلاحیتوں کے غماز او ر ان کی تصانیف ان کی محققانہ ژرف نگاہی کی مظہر ہیں۔ تقسیمِ ملک سے قبل روپڑ شہر (مشرقی پنجاب) سے ان کی زیر ادارت ایک ہفتہ وار پرچہ ''تنظیم اہلحدیث'' نکلتا رہا، جو پاکستان بننے کے بعد اب تک لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔ محدث روپڑی تدریس سے بھی وابستہ رہے، قیامِ پاکستان کے بعد مسجد قدس (چوک دالگراں، لاہور) میں جامعہ اہلحدیث کے نام سے درس گاہ قائم فرمائی۔ جس کے شیخ الحدیث اور صدر مدرّس اور ''تنظیم اہلحدیث'' کے مدیر وغیرہ سب کچھ وہ خود ہی تھے، علاوہ ازیں جماعت کے عظیم مفتی اور محقق بھی۔اس اعتبار سے محدث روپڑی کی علمی و دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، وہ تدریس کے شعبے سے بھی وابستہ رہے اور کئی نا...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب اور موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی،مولانا حافظ صلاحالدین یوسف، مولانا عبد الرشید عراقی مولانا محمد رمصان یوسف سلفی حفظہم اللہ وغیرہ کی خدمات قابلِ قدر...
برصغیر بالخصوص پنجاب میں دین اسلام کی نشرو اشاعت، دعوت وتبلیغ، سماجی ورفاہی خدمات لکھوی خاندان کا طرۂامتیاز رہا ہے۔ بے شمار لوگ ان کے بزرگوں کی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں توحید وسنت کی روشنی سے فیض یاب ہوئے۔عوامی خدمت کے اسی جذبے کے تحت یہ نصف صدی سے زائد عرصے سے سیاست میں بھی ہیں۔اگرچہ اس خاندان سے علمی وروحانی وابستگان کا دائرہ پورے ملک میں پھیلا ہو ا ہے، تاہم ضلع قصور کاحلقہ این اے 140 ان کی انتخابی سیاست کا مرکز ہے، جہاں سے مولانا معین الدین لکھویؒ تین بار قومی اسمبلی کے رکن رہے ۔ ۔1951ءمیں پنجاب میں ہونے والے پہلے انتخاب میں مولانا معین الدین کے بڑے بھائی اور معروف اسلامی سکالر پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی ﷾ کے والد گرامی مولانا محی الدین لکھوی تحصیل چونیاں سے ایم این اے منتخب ہوئے ۔ لکھوی خاندان بالخصوص مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا محی الدین لکھوی کے متعلق کئی رسائل وجرائد میں متعدد مضامین شائع ہوئے ہیں جو مختلف جگہ پر منتشر ہیں مؤرخ اہل حدیث مولانا اسحاق بھی نے اس کتاب’’ تذکرہ مولانا محی الدین لکھ...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب او ر موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد رمصان یوسف سلفی ، مولانا حافظ صلاحالدین یوسف وغیرہ کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ’&rsq...
ہندوستان کی فضا میں رشد وہدیٰ کی روشنیاں بکھیرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ایک ایسی شخصیت کو پید ا فرمایا جس نے اپنی قوت ایمان اور علم وتقریر کے زور سے کفر وضلالت کے بڑے بڑے بتکدوں میں زلزلہ بپا کردیا اور شرک وبدعات کے خود تراشیدہ بتوں کو پاش پاش کر کے توحید خالص کی اساس قائم کی یہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے پوتے شاہ اسماعیل محدث دہلوی تھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کے بعد دعوت واصلاح میں امت کے لیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں انہو ں نے نہ صرف قلم سےجہاد کیا بلکہ عملی طور پر حضرت سید احمد شہید کی امارت میں تحریک محاہدین میں شامل ہوکر سکھوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے 6 مئی 1831ء بالاکوٹ کے مقام پر شہادت کا درجہ حاصل کیا اور ہندوستان کے ناتواں اور محکوم مسلمانوں کے لیے حریت کی ایک عظیم مثال قائم کی جن کے بارے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا کہ ’’اگر مولانا محمد اسماعیل شہید کےبعد ان کے مرتبہ کاایک مولوی بھی پیدا ہوجاتا تو آج ہندوستان کے مسلمان ایسی ذلت کی زندگی نہ گزارتے‘‘ زیر تبصرہ کتاب’’ تذ...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب او ر موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور مقالہ نگاروں میں محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی،مولانا حافظ صلاحالدین یوسف، مولانا محمد رمصان یوسف سلفی حفظہم اللہ وغیرہ کی خدمات قابلِ قدر ہیں اللہ تعالی ان بزرگو...
قرن اول سے لے کر اپنے اقبال کے آخری دور تک مسلمانوں نے اپنی ہر صدی کے ممتاز اکابر رجال کے سیر واخبار کا ایسا دفتر زمانہ میں یادگار چھوڑا کہ اقوام و ملل ان کی مثال سے عاجز ہیں۔ لیکن افسوس کہ برصغیر پاک و ہند کے دفتر بہت مدت تک اپنے اکابرین کے تذکرے سے خالی رہے۔ محترم عبدالرشید عراقی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو برصغیر کی اسلامی و علمی تاریخ کو گمنامی سے بچانے کے لیے میدان کارزار میں اترے۔ زیر نظر کتاب بھی اس موضوع پر موصوف کی منفرد اور قابل قدر کاوش ہے جس میں انھوں نے برصغیر کے 174 علماے کرام کے حالات قلمبند کیے ہیں۔ اس میں پہلے ان علما کا تذکرہ کیا گیا ہے جو دین اسلام کی اشاعت اور ترویج میں مصروف عمل رہےمثلاً خاندان شاہ ولی اللہ دہلوی، خاندان غزنویہ امرتسر، لکھوی خاندان اور اس کے علاوہ ان علما کا تذکرہ ہے جنھوں نے صرف ایک دو پشت سے دین اسلام کی اشاعت اور توحید و سنت کی ترقی و ترویج میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ علاوہ ازیں اس میں ایسے جلیل القدر علما کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو دو یا تین بھائی تھے اور سب ہی عالم دین تھے، ان علما نے تصنیف و تالیف، درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ میں نمای...
برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث نے اسلام کی سربلندی ، اشاعت ، توحید و سنت نبوی ﷺ ، تفسیر قرآن کےلیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے او رعلمائے اہلحدیث نے مسلک صحیحہ کی اشاعت و ترویج میں جو فارمولا پیش کیا اس سے کسی بھی پڑھے لکھے انسان نے انکار نہیں کیا ۔علمائے اہلحدیث نے اشاعت توحید و سنت نبویﷺاور اس کے ساتھ ہی ساتھ شرک و بدعت کی تردید میں جو کام کیاہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔پنجاب میں تدریسی خدمت کے سلسلہ میں مولانا حافظ عبدالمنان صاحب محدث و زیر آبادی (م1334ھ) کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔مولانا حافط عبدالمنان صاحب حضرت شیخ الکل کے ارشاد تلامذہ میں سے تھے اور فن حدیث میں اپنے تمام معاصر پر فائز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں 80 مرتبہ صحاح ستہ پڑھائی۔ آپ کے تلامذہ میں ملک کے ممتاز علمائے کرام کا نام آتاہے اورجن کی اپنی خدمات بھی اپنے اپنے وقت میں ممتاز حیثیت کی حامل ہیں۔ مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:’’علمائے اہلحدیث کی تدریسی و تصنیفی خدمات ق...
شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ 31مئی1945بروزجمعرات،شہر سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی، مولانا ابراہیم میر سیا لکوٹی کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے ذوق و شوق کی بنا پر9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن کریم سنا بھی دیا ۔ابتدائی دینی تعلیم ’’دارالسلام ‘‘ سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر جناب حافظ محمدگوندلوی کی درسگاہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے ۔ اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا ،جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر جناب مولانا شریف سواتی سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔ 1960ء میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ’’بی اے اونرز‘‘ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحا...
مولانا عبد الرحمن کیلانی کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، انکی علمی و تحقیقی کتب ہی ان کا مکمل تعارف ہیں۔ موصوف جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کا حق ادا کر دیتے ہیں، مولانا كيلانى اسلامى اور دينى ادب كے پختہ كارقلم كار تھے ۔کتب کے علاوہ ان کے بیسیوں علمی وتحقیقی مقالات ملک کے معروف علمی رسائل وجرائد(ماہنامہ محدث، ترجمان الحدیث ، سہ ماہی منہاج لاہور وغیرہ ) میں شائع ہوئے ان كى بيشتر تاليفات اہل علم وبصيرت سے خراج تحسين پا چکی ہیں۔مولانا کیلانی نےفوج کی سرکاری ملازمت سے استعفی کے بعد کتابت کو بطورِ پیشہ اختیار کیا۔ آپ عربی ،اردو کے بڑے عمدہ کاتب تھے۔١٩٤٧ء سے ١٩٦٥ء تک اردو کتابت کی اور اس وقت کے سب سے بہتر ادارے ، فیروز سنز سے منسلک رہے ۔١٩٦٥ء میں قرآن مجید کی کتابت شروع کی اور تاج کمپنی کے لئے کام کرتے رہے ۔تقریباپچاس قرآن کریم کی انہوں نے کتابت کی ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ١٩٧٢ء میں حج کرنے گئے تو مکی سورتوں کی کتابت باب بلال(مسجد حرام ) میں بیٹھ کر اور مد...
حافظ عبد المنان نور پور ی(1941ء۔26فروری2012؍1360ھ ۔3ربیع الثانی 1433ھ) کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ۔آپ زہد ورع اورعلم وفضل کی جامعیت کے اعتبار سے اپنے اقران معاصر میں ممتاز تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم وتقویٰ کی خوبیوں اور اخلاق وکردار کی رفعتوں سے نوازا تھا ۔ آپ کا شمار جید اکابر علماء اہل حدیث میں ہوتاہے حافظ صاحب بلند پایا کے عالمِ دین اور مدرس تھے ۔ حافظ صاحب 1941ءکو ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور پرائمری کرنے کے بعد دینی تعلیم جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے حاصل کی ۔ حافظ صاحب کوحافظ عبد اللہ محدث روپڑی ،حافظ محمد گوندلوی ، مولانا اسماعیل سلفی وغیرہ جیسے عظیم اساتذہ سے شرفِ تلمذ کا اعزاز حاصل ہے۔ جامعہ محمدیہ سے فراغت کے بعد آپ مستقل طور پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں مسند تدریس پر فائز ہوئے او ر درس وتدریس سے...
تاریخ نام ہی اس چیز کا ہے کہ اس دنیا میں زندگی گزارنےوالوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنا تاکہ تاریخ ساز زندگیاں آئندہ آنے والی نسلوں کےلیے مشعل راہ بن سکیں اور مقصودومنزل آسان ہوجائے۔اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ کسی طے شدہ پروگرام اور نمونے کےمطابق کام کرنا آسان ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پہلی قوموں کے واقعات کو محفوظ کردیا گیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی تقسیم بھی کچھ اس طرح کی ہے کہ اس میں جنت وجہنم، بعث بعدالموت اور پہلی قوموں انبیاء وصالحین وغیرہ کے تذکرے موجود ہیں۔
لہذا نیک لوگوں کی خوبیوں اور جامع کمالات شخصیتوں کے کارناموں کا ذکر سنت ربانی ہے۔اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئےمحدثین اور اہل علم نے اس فن میں سینکڑوں کتب تصنیف کی ہیں۔جن میں صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین رحمہم اللہ اجمعین اور بہت سے اہل اللہ کی زندگیوں کے کارنامے ثبت اور محفوظ کردیئے گئے ہیں۔جو ہر وقت لوگوں کےلیے جشمۂ ہدایت اور مینارہ نور ہیں۔اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ادارہ مجلہ المکرم ایک خصوصی شمارہ خاندان سلفیہ کے جشم وچراغ حضرت مولانا اسعد محمود...
علماء علوم نبوت کے وارثوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری اسلامی درسگاہیں انہی علوم ِنبوت کی درس وتدریس، تعلیم وتعلم اوراس حوالے سے تزکیۂ نفوس کے ادارے ہیں۔برصغیر میں اسلامی درسگاہوں کی ایک مستقل اورمسلسل روایت رہی ہے۔ اٹھارویں صدی میں شاہ ولی اللہ کےخاندان نے اس روایت کا سب سےروشن مرکز تشکیل دیا۔ اس خاندان کےایک چشم وچراغ شاہ محمداسحاق دہلوی سے سید نذیر حسین محدث دہلوی نے تیرہ سال تک تعلیم حاصل کی ۔شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی نے کامل 63 سال تک درس وتدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں۔ برصغیر میں علم حدیث کی تدریس کا سب سے مضبوط مرکز اور قلعہ انہیں کی قائم کردہ درسگاہ تھی ۔جس میں شبہ قارہ کے ہر حصے سےطلبہ استفادے کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ایسے ہی تلامذہ میں ایک تلمیذ الرشید حافظ عبد المنان وزیرآبادی ہیں۔بیسویں صدی میں علوم حدیث کی روایت کومستحکم کرنے میں حافظ عبد المنان وزیر آبادی نےپنجاب میں سب سے زیاد فیض رسانی کےاسباب پیدا کیے ۔ حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی اپنےعہد میں پنجاب میں حدیث کے سب سے ممتاز استاد تھےجن کے تلامذہ پنجاب کےہر حصے میں بالعموم اوراس علمی اور سلفی روایت کے چراغ روشن کرتے ر...
مناظر اسلام حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری اہل حدیث کے نامور مناظر اور مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے نائب امیر تھے۔ وہ اپنے خطابات میں مسلک اور جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی وعظ و تبلیغ سے بے شمار لوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہو گئے۔ توحید، سیرۃ النبیﷺاور شان صحابہ ان کے خاص موضوع تھے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی مسلک اور جماعت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ حافظ صاحب مرحوم یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جب تک زندہ رہوں گا مرکزی جمعیت اہلحدیث کا خادم رہوں گا اور اس کا پیغام قریہ قریہ اور بستی بستی پہنچاتا رہوں گا۔ افسوس کہ وہ بعارضہ دل کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے اور اور 23فروری 2004ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ شیخوپورہ میں مرحوم کی نماز جنازہ امیر محترم پروفیسر ساجد میر نے بڑے حزن و ملال کی حالت میں پڑھائی۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ کمپنی باغ پہنچ گئے۔ اخبارات کے مطابق یہ شیخوپورہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ لوگوں نے بادیدہ نم مرحوم کو سپرد رحمت باری کیا۔ان کی وفات پر وطن عزیز کے...
تاریخ نویسی ہو یا سیرت نگاری ایک مشکل ترین عمل ہے ۔ اس کےلیے امانت ودیانت او رصداقت کاہونا از بس ضروری ہے۔مؤرخ کے لیے یہ بھی ضروری ہےکہ وہ تعصب ،حسد بغض، سے کوسوں دور ہو ۔تمام حالات کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتاہو ۔ذہین وفطین ہو اپنے حافظےپر کامل اعتماد رکھتا ہو۔حالات وواقعات کوحوالہ قرطاس کرتے وقت تمام کرداروں کا صحیح تذکرہ کیا گیا ہو ۔اس لیے کہ تاریخ ایک ایسا آئینہ ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنا ماضی دیکھ سکتاہے اور اسلام میں تاریخ ، رجال اور تذکرہ نگار ی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور یہ اس کے امتیازات میں سے ہے ۔بے شمارمسلمان مصنفین نے اپنے اکابرین کے تذکرے لکھ کر ان کےعلمی عملی،تصنیفی،تبلیغی اورسائنسی کارناموں کوبڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے۔ یوں تو صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی قریب او ر موجودہ دور میں تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کے میدان میں جماعت اہل حدیث میں اردو مصنفین اور سوانح نگاروں کی خدمات قابلِ ق...
شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی (1703-1762) برصغیر پاک و ہند کے ان عظیم ترین علماء ربانیین میں سے ہیں جو غیر متنازع شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ہر مسلک کے مسلمانوں کے ہاں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ان کی شہرت صرف ہندوستان گیر ہی نہیں بلکہ عالم گیر ہے۔ وہ بلاشبہ اٹھارہویں صدی کے مجدد تھے اور تاریخ کے ایک ایسے دورا ہے پر پیدا ہوئے جب زمانہ ایک نئی کروٹ لے رہا تھا، مسلم اقتدار کی سیاسی بساط لپیٹی جا رہی تھی، عقلیت پرستی اور استدلالیت کا غلبہ ہو رہا تھا۔ آپ نے حجۃ اﷲ البالغہ جیسی شہرہ آفاق کتاب اور موطا امام مالک کی شرح لکھی اورقرآن مجید کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا۔ دوران ترجمہ شاہ صاحب کے سامنے بہت سے علوم و معارف اور مسائل و مشکلات واشگاف ہوئے۔ شاہ صاحب نے ان کو حل کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے متعدد کتابیں اور رسالے لکھے۔ ترجمہ کی مشکلات کو حل کرنے کیلئے "مقدمہ در قوانین ترجمہ" کی تصنیف فرمائی۔ اس کے علاوہ شاہ صاحب نے تصوف وسلوک ، فقہ واصول فقہ، اجتہاد وتقلید کے حوالے سے کئی رسائل تالیف فرمائے۔ زیر تبصرہ کتابچہ ’’حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی شخصیت وحکم...
اولیاء اللہ سے محبت وعقیدت ان کی عزت وتعظیم ورانکی قدر ومنزلت کااحترام جزوایمان اور دین اسلام کا حصہ ہے ان کے حالات ومقالات اوران کی سیرت کے نقوش رہبروان راہ اور آخرت کےلیےمشعلِ راہ ہیں۔محدثین نےدین ِاسلام اورحدیث کی حفاظت کےلیے جو خدمات سرانجام دی ہیں ان کےاثرات تاقیامت باقی رہیں گے یہ لوگ صرف محدث فقیہ اور مصنف ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگی کاعملی نمونہ بھی امت کےسامنے پیش کیا اور صحیح طور پر ورثۃ الانبیاء بن کر دکھایا۔ ان محدثین میں کچھ ایسی ہستیاں بھی تھی جو زہد وتقویٰ میں ضرب المثل تھیں اور ان کے زہد وتقویٰ کےاثرات ان کےتلامذہ میں منتقل ہوگئے ان میں فقراء میں حضرت فضیل بن عیاض بھی ممتاز تھے جن کےزہد وتقویٰ نے عوام سے آگے گزر کر خلفاء وملوک اور امراء وزراء کو متأثر کیا اور اپنے تلامذہ کا ایک ایسا گروہ چھوڑ گیے جو حلیۃ الاولیاء اور دیگر کتبِ زہد کی زینت بنے۔ زیر نظر کتاب’’حضرت فضیل بن عیاض ‘‘ مولانا عبدالرحمن مالیرکوٹلوی کی کاوش ہے جس میں انہوں ...
شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی (1805۔1902ء) برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہیں۔ آپ نے سولہ برس کی عمر میں قرآن مجید سورج گڑھا کے فضلا سے پڑھا، پھر الہ آباد چلے گئے جہاں مختلف علما سے مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، جزومی، شرح مائۃ عامل، مصباح ہزیری اور ہدایۃ النحو جیسی کتب پڑھیں اور ۱۲۴۲ھ میں دہلی کا رخ کیا وہاں مسجد اورنگ آبادی محلہ پنجابی کٹرہ میں پانچ سال قیام کیااور دہلی شہر کے فاضل اور مشہور علما سے کسب ِفیض کیا۔ آخری سال ۱۲۴۶ھ میں ان کے استادِ گرامی مولانا شاہ عبدالخالق دہلوی نے اپنی دختر نیک اختر آپ کے نکاح میں دے دی۔میاں صاحب نے شاہ محمد اسحق محدث دہلوی سےبھی بیش قیمت علمی خزینے سمیٹے۔ جب حضرت شاہ محمد اسحق دہلوی شوال ۱۲۵۸ھ کو حج بیت اللہ کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے تو اپنے تلمیذ ِرشید حضرت میاں صاحب کو مسند ِحدیث پر بیٹھا کر گئے بلکہ تعلیم نبویؐ اور سنت ِرسول اللہؐ کے لئے انہیں سرزمین ہند میں اپنا خلیفہ قرار دیا ۔ عالمِ اسلام بالخصوص برصغیر کے مختلف علاقوں او رخطوں کے...
ماہ اگست میں جمعیۃ علماء ہند کا ایک نیر تاباں یعنی مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ نے وفات پائی۔ آپ ۱۹۰۰ء میں سیو ہارہ ضلع بجنور کے ایک تعلیم یافتہ معزز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم مدرسہ فیض عام سیوہارہ میں حاصل کی اور دورۂ حدیث کے لئے دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے ۔ ۱۹۲۲ء میں سندِ فراغت حاصل کی پھر دار العلوم دیوبند، ڈابھیل اورکلکتہ وغیرہ کے مدرسوں میں تدریس کے فرائض انجام دیئے ۔نو عمری ہی سے آپ کے اندرخدمت خلق کا جذبہ موجزن تھا ،چنانچہ جلد ہی سیاست کی خاردار وادی میں کود پڑے ۔۱۹۳۰ء میں گاندھی جی کی نمک سازی کی تحریک میں عملی طور پر حصہ لیا، جمعیۃ علماء ہند کے اجلاس امروہہ میں جنگ آزادی میں کانگریس کے ساتھ اشتراک کا ریزیولیوشن پیش کیا جس کو منظور کیا گیا ۔ آپ تا عمر بیک وقت جمعیۃ علماء ہند کے ایک سر گرم کارکن اور کانگریس کے ممبر رہے۔بارہا جیل گئے مگر اپنی مذہبی شناخت کو ہمیشہ بر قرار رکھا ،مدتوں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے اہم ترین رکن رہے ۔تقریر و خطابت کا خدا داد ملکہ تھا ۔نیز تصنیف و تالیف کے بھی عظیم شہ سوار تھے ۔ ۱۹۳۸ء میں &rsqu...
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا کیا ہے، یہ محض رسوم عبادت یا چند اخلاقی نصائح کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس دین کو ماننے والوں کے لئے صرف یہی ضروری نہیں کہ وہ اس دین کو نظریاتی طور پر مان لیں بلکہ ا س کا عملی زندگی میں اطلاق بھی ان کی ذمہ داری ہے۔دین کا عملی زندگی میں اطلاق صرف یہی تقاضانہیں کرتا کہ اس پر خود عمل کیا جائے بلکہ یہ بات بھی دین کے تقاضے میں شامل ہے کہ اس دین کو دوسروں تک پہنچایا بھی جائے اور ایک دوسرے کی اصلاح کی جائے۔ جہاں کہیں بھی کوئی شرعی یا اخلاقی خرابی نظر آئے، ا س کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے۔دنیا کا کوئی بھی کام احسن انداز میں کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کام میں پہلے اچھی طرح مہارت حاصل کی جائے اور پھر اس کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔ جو لوگ اللہ کے دین کی دعوت کا کام سوچ سمجھ کر کرنا چاہتے ہوں ، ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خود میں وہ صلاحیتیں پیدا کریں جو دعوت دین کے لئے ضروری ہیں اور پھر اس کام کو مناسب حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے انجام دیں۔ زیر تبصرہ کتاب"...
شیخ الکل فی الکل شمس العلما، استاذالاساتذہ سید میاں محمد نذیر حسین محدث دہلوی (1805۔1902ء) برصغیر پاک وہند کی عظیم المرتبت شخصیت ہی نہیں بلکہ اپنے دور میں شیخ العرب و العجم، نابغہ روز گار فردِ وحید تھےسید نذیر حسین بن سید جواد علی بن سید عظمت اللہ حسنی، حسینی بہاری، جو کہ میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے، کا سلسلہ نسب حضرت علی اور آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔آپ نے سولہ برس کی عمر میں قرآن مجید سورج گڑھا کے فضلا سے پڑھا، پھر الہ آباد چلے گئے جہاں مختلف علما سے مراح الارواح، زنجانی، نقود الصرف، جزومی، شرح مائۃ عامل، مصباح ہزیری اور ہدایۃ النحو جیسی کتب پڑھیں۔پھر آپ نے ۱۲۴۲ھ میں دہلی کا رخ کیا۔ وہاں مسجد اورنگ آبادی محلہ پنجابی کٹرہ میں قیام کیا۔ اسی قیام کے دوران دہلی شہر کے فاضل اور مشہور علما سے کسب ِفیض کیاجن میں مولانا عبدالخالق دہلوی، مولانا شیرمحمد قندھاروی، مولانا جلال الدین ہروی اور مولانا کرامت علی صاحب ِسیرتِ احمدیہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں آپ کا قیام پانچ سال رہا۔ آخری سال ۱۲۴۶ھ کو استادِ گرامی مولانا شاہ عبدالخالق دہلوی نے اپن...