امام مہدی کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر امت مسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کر کے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ سیدنا عیسی اورامام مہدی کی آمد اور ان کی نشانیوں کی حدیث میں تفصیل موجود ہے ۔زیر نظر کتاب’’امام مہدی کے دوست ودشمن‘‘ مولانا عاصم عمر صاحب کی تصنیف ہے ۔یہ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے۔باب اول: فتنوں کا بیان...اس میں مختلف یہودی جادوئی شخصیات کے بارے میں مختصراً بیان ہے ۔باب دوم:راہ حق کے مسافر...اس با میں اسلاف کا تذکرہ ہے ۔باب سوم:اس باب میں امام مہدی سے متعلق مختصر چند بحثیں ہیں ۔(م۔ا)
شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ رحمہ اللہ(1920ء-2001ء) بھلوال کے نواحی گاؤں چک نمبر ۱۶ جنوبی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحمن نے آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا۔ بعدازاں آپ ’شیخ الحدیث‘ کے لقب کے ساتھ مشہور ہوئے۔ اکثر و بیشتر علماء و طلباء آپ کو شیخ الحدیث کے نام سے ہی یادکیا کرتے تھے۔مولانا موصوف نے ۱۹۳۳ء میں مقامی گورنمنٹ سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا، پھردینی تعلیم کی طرف رغبت کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ، چوک اہلحدیث، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا۔ اسی مدرسہ سے دینی تعلیم مکمل کرکے ۱۹۴۱ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔مدرسہٴ محمدیہ کے جن اساتذہ سے آپ نے اکتسابِ فیض کیا، ان میں سے سرفہرست اُستاذ الاساتذہ مولانا حافظ محمد گوندلوی ہیں۔ ان سے آپ نے مشکوٰة المصابیح، موطأ امام مالک، ہدایہ، شرح وقایہ، مسلم الثبوت، شرح جامی، اشارات، کافیہ اور صحیح بخاری پڑھیں۔آپ کے دوسرے نامور استاد شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ہیں جن سے آپ نے جامع ترمذی، سنن نسائی، ابوداود اور صحیح مسلم کے علاوہ مختصر المعانی اور مطوّل وغیرہ کا علم حاصل کیا۔ ۱۹۴۲ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مستقلاً مدرسہٴ محمدیہ چوک اہلحدیث میں تدریس کا آغازتدریس آغاز کیا۔ مولانا اسماعیل سلفی کی وفات (۱۹۶۸ء)کے بعد گوجرانوالہ کی جماعت اہلحدیث نے انہیں مولانا اسماعیل سلفی کا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ تقریباً دس سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔مولانا مرحوم زہد و تقویٰ، تہجد گزاری، دیانتدارانہ اور کریمانہ اخلا ق واوصاف کے حامل تھے۔۲۸؍اپریل ۲۰۰۱ء کو صبح چھ بجے گوجرانوالہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ سہ پہرساڑھے پانچ بجے شیرانوالہ باغ میں پڑھی گئی جو گوجرانوالہ شہر کی تاریخی نماز جنازہ تھی۔ جس میں بلا امتیاز ہر مکتب ِفکر کی مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی .مولانا مرحوم کی حیات وخدمات سےمختلف اہل قلم نے متعدد مضامین تحریر کیے جو مختلف جماعتی رسائل میں طبع ہوئے ۔ زیر نظر ’’ شیخ الحدیث نمبر‘‘ مرکز ی جمعیت اہل حدیث کے ترجمان رسالہ ہفت روزہ اہل حدیث کی مولانا شیخ الحدیث محمد عبد اللہ کی مجاہدانہ خدمات، حلالت علمی اور مساعی جمیلہ سے متعلق د وصفحات پر مشتمل اشاعت خاص ہے۔اس اشاعت خاص میں شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ کی زمانہ طالب علمی، تدریسی سفر، آغاز خطابت، اتباع کتاب وسنت، حق گوئی وبےباکی، امانت ودیانت، مناظرانہ گرفت،جماعت میں مثالی اورسیاست میں قائدانہ کردار۔قوت استدلال، جذبہ ایثاررووفا،حالات حاضرہ پر گہری نظر، علمی وجاہت، خود اعتمادی اور غیر ملکی تبلیغی اسفار جیسے دیگر بیسیوں موضوع اس خصوصی اشاعت میں سمیٹ دئیے گئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔(م۔ا)
تحمل؍الحلم (برداشت کرنا ) اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کی صفت ہے۔اوریہ عقلمندی کی نشانی ہےمختلف ائمہ اور علماء عظام نےاس کی مختلف تعریفیں کیں ہیں۔ حدیث نبوی کے مطابق اپنے اندر تحمل پیدا کرنا نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔قرآم وحدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحمل اور برداشت ،ٹھراؤ اور وقار، درحقیقت صبر کی ایک ذیلی قسم ہے ۔اگر انسان مصیبت کوبرداشت کرے ،شکوے شکایتیں زبان پر نہ لائے تو اسے بالعموم صبر کہا جاتا ہے۔اور اگر غضہ کی حالت میں انسان صبر سے کام لے تواسے تحمل کہتے ہیں۔جو شخص جس قدر برداشت کرنے کا عادی ہوگا تو لوگوں کےدلوں میں اسی قدر اس کی محبت اور وقار بڑھے گا۔ اور جو کوئی جس قدر عدم ِبرداشت کا شکار ہوگا تو وہ عزیز واقارب ،دوست واحباب سے محروم ہوتا جائے گا۔تحمل اور رواداری پُر امن معاشروں کی عمارت کی بنیادی اینٹ ہے۔معاشرے کی عمارت اخلاقیات، برداشت، رواداری اور محبت کے ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ اور جب یہ خصوصیات سماج سے رخصت ہوجائیں تو وہ تباہی کی طرف تیزی سے گامزن ہوجاتا ہے۔جس معاشرے سے تحمل اور رواداری اٹھ جائے وہ انسانی معاشرے کم اور جنگلی معاشرے کا نقشہ زیادہ پیش کرتا ہے۔زیر نظر کتاب’’برداشت کرنا سیکھیں‘‘معروف واعظ ومصلح پروفیسر ڈاکٹر عبید الرحمن محسن (مہتمم دارالحدیث ،راجووال) کی تصنیف ہے۔ فاصل مصنف نےاس کتاب میں برداشت کا معنیٰ ومفہوم اورقرآن وسنت کی روشنی میں برداشت کی اہمیت واضح کرنے کےعلاوہ رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے حلم وبرداشت کے چند مواقع او رواقعات قلمبند کیے ہیں ۔نیز ہمارے پاکستانی معاشرے میں بالخصوص جہاں برداشت کی زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے ، ان مواقع کی نشاندہی کی ہے۔اور آخر میں برداشت کی یک دوسری انتہا بے حمیتی، اور مداہنت پر بھی خامہ فرسائی کی ہےتاکہ برداشت کی آڑ میں بے دینی اور بے حسی کو فروغ نہ دیا جاسکے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام دعوتی وتبلیغی ،تحقیقی وتصنیفی اور تدریسی خدمات کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو لوگوں کےلیے نفع بخش بنائے۔(آمین)(م۔ا)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں ۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات ، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے ۔ صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے ۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پاؤں جمانے شروع کردیئے اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ دنیا بھر بالخصوص برصغیر پاک وہند کے اندر مروجہ وبدعات وخرافات ایک ایسا کینسر ہے جو ہمارے اعمال کو ہلاک وبرباد اور غارت کررہا ہے۔جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات و خرافات سے بچا سکتے ہیں ۔زیر نظر کتاب ’’عبادات میں عجیب وغریب بدعات ‘‘ فضیلۃ الشیخ عبد السلام رحمانی کی تصنیف ہے۔فاضل مصنف نے اس کتا ب کو ایک معروف مصری عالم شیخ علی محفوظ کی بدعات ومنکرات کے موضوع پر بڑی مفید عربی تصنیف الابداع في مضار الابتداع سے استفادہ کر کے مرتب کیا ہے۔اور اس میں برصغیر کے معاشرہ میں پائی جانے والی منکرات وسیئات کی نشاندہی اور تفصیل بھی بیان کردی ہے۔اولا ًیہ1977ء کتاب پندروہ روزہ ’’ ترجمان ،دہلی‘‘ میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔بعد ازاں 1989ءاسے کتابی صورت میں مرتب کر کے افادۂ عام کےلیے کےشائع کیا گیا۔بقول شیخ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کتاب الابداع في مضار الابتداع الاعتصام للامام الشاطبی کی تلخیص ہے۔2011ء میں دار الابلاغ ،لاہور کے بانی ومدیر جناب طاہر نقاش حفظہ اللہ اس کتاب کو تحقیق وتخریج کے ساتھ شائع کیا۔اللہ تعالیٰ مصنف وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے ہمارے معاشرے میں رائج ہندوانہ ، یہودیانہ اور صلیبانہ بدعات ومنکرات اور رسومات کے خاتمے کاذریعہ بنائے ۔(آمین)( م۔ا)
امام ابو حامد غزالی اسلام کے مشہور مفکر اور متکلم تھے۔ نام محمد اور ابو حامد کنیت تھی جبکہ لقب زین الدین تھا۔ ان کی ولادت 450ھ میں طوس میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم طوس و نیشا پور میں ہوئی۔آپ انتہائی زیرک فہم کے مالک تھے، ابتدائی طور پر اپنے علاقے میں ہی فقہی علوم حاصل کیے، اس کے بعد اپنے طالب علم ساتھیوں کے ساتھ نیشاپور منتقل ہو گئے، وہاں انہوں نے امام الحرمین کی شاگردی اختیار کی، اور فقہ میں تھوڑی سی مدت کے دوران ہی اپنی مہارت کا لوہا منوایا، پھر علم کلام، علم جدل میں بھی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ مناظرین کی آنکھوں کا مرکز بن گئے۔امام غزالی کی زندگی کےمختلف مراحل ہیں۔ آپ نے آغاز فسلفے سے کیا اور اس میں رسوخ حاصل کیا پھر فسلفے سے بیزار ہوئے، اور اس پر رد ّبھی لکھا، اس کے بعد علم کلام کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے، اور اس کے اصول و ضوابط اور مقدمات ازبر کیے، لیکن اس علم کی خرابیاں، اور تضادات عیاں ہونے پر اس سے بھی رجوع کر لیا، اور ایک مرحلہ ایسا بھی تھا کہ آپکو ’’متکلم‘‘ کا درجہ حاصل تھا ، اس مرحلے میں آپ نے فسلفی حضرات کی خوب خبر لی اور اسی وجہ سے آپکو ’’حجۃ الاسلام‘‘ کا لقب ملا۔آپ کی متعدد تصانیف ہیں،ان کی مشہور تصانیف احیاء العلوم، تحافتہ الفلاسفہ، کیمیائے سعادت اور مکاشفتہ القلوب ہیں۔ ان کی کتاب’’ المنقذ من الضلال‘‘ ان کے تجربات کی آئینہ دار ہے۔ زیر نظر کتاب’’افکار ِغزالی‘‘متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ۔ یہ کتاب پانچ ابواب(علم اور اس کے متعلقات،عقل اور اس کی قسمیں ،عقائد کی تقسیم ،ظاہر وباطن کی تقسیم،ایمانیات) اورطویل علمی مقدمہ پر مشتمل ہے۔مولانا ندوی نےاس کتاب میں امام غزالی کی زندگی ،علم وعقائد اور افکار کاایک جامع جائزہ پیش کیا ہے ۔امام غزالی کو سمجھے کےلیے اردو میں یہ بہترین کتاب ہے۔(م۔ا)
آخر ت میں دوزخ سے بچنے کے لئے اللہ کے بندوں کودنیامیں جوکام کرناہے وہی دین اسلام ہے۔ یعنی زندگی کے ہر معاملہ میں اپنے پیدا کرنے اور پرورش کرنے والے کے احکام وہدایات کی اطاعت وفرمانبرداری کرناہے۔انسان کےاعمال صالح اسی وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول ہیں جب انہیں اللہ ورسول ﷺ کی دی ہوئی تعلیمات کےمطابق کیا جائے ۔کیونکہ کتنے ہی کام ایسے ہیں ، جو کرنے یا دیکھنے والوں یا دونوں ہی قسم کے لوگوں کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ ہوتے ہیں ، لیکن رب ذوالجلال کے ہاں رائی کے ذرے کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ علاوہ ازیں کتنے ہی قدر وقیمت والے اعمال ان کےکرنے والوں کی دیگر کرتوتوں کی بنا پر بے وقعت اور بے حیثیت قرار پاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ اعمال کی قبولیت ‘‘ پروفیسرڈاکٹر فضل الٰہی ﷾(مصنف کتب کثیرہ) کی تصنیف ہے۔ڈاکٹر صاحب موصوف نے اس کتاب میں حسب ذیل پانچ سوالات سے متلق گفتگو کی ہے۔1۔قبولیت اعمال کی اہمیت کیا ہے ؟2۔قبولیت اعمال کی شرائط کیا ہیں؟3۔قبولیت کی شرائط ہونے کے باوجود اعمال کو اکارت کرنے والے کام کیا ہیں ؟4۔مقبول اعمال کو برباد کرنےوالے گناہ کون سے ہیں ؟5۔قبولیت میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی تدبیریں کیا ہیں ؟ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی تمام تحقیقی وتصنیفی،تدریسی ودعوتی جہود کوقبول فرمائے اور انہیں امت مسلمہ کے لیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
تاریخ اسلام کے مطالعہ سے یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلام کو خارجی حملوں سے کہیں زیادہ نقصان اس کے داخلی فتنوں ،تحریف وتاویل کے نظریوں ،بدعت وتشیع ،شعوبیت وعجمیت اور منافقانہ تحریکوں سے پہنچا ہے،جو اس سدا بہار وثمر بار درخت کو گھن کی طرح کھوکھلا کرتی رہی ہیں ،جن میں سر فہرست شیعیت اور رافضیت کی خطرناک اور فتنہ پرور تحریکیں ہیں ۔جس نے ایک طویل عرصے سے اسلام کے بالمقابل اور متوازی ایک مستقل دین ومذہب کی شکل اختیار کر لی ہے۔زیر نظر کتاب’’شیعیت آغاز، مراحل و ارتقاء‘‘علامہ ڈاکٹر احمد حمدان الغامدی رحمہ اللہ کی مشہور عربی تالیف التشيع تاريخه ومراحل تكوينه‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔یہ کتاب اپنے باب میں ایک شاندار اضافہ ہے۔مصنف موصوف نے اس کتاب میں اپنے شاندار اور دل لبہاتے اسلوب میں شیعہ کی تاریخ اور ان کے ارتقائی مراحل پر بحث کر کے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔یہ کتاب ہرطالب علم کے پاس موجود ہونی چاہیے ۔اس کتاب کوپڑھنے کےبعد بصیرت اور علم میں انتہائی مثبت اضافہ ہوتاہے۔مترجم کتاب جناب فضیلۃ الشیخ پیر زادہ سید شفیق الرحمن شاہ الدراوی حفظہ اللہ ٰ نے اس کا کتاب شاندار سلیس ترجمہ کرنے کےعلاوہ اس میں مفید حواشی وتعلیقات بھی تحریر کیے ہیں ۔اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم کی اس کا وش کو قبول فرمائے اور اسے امت مسلمہ کےلیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
دینِ اسلام نے سود کو حرام قرار دیا ہے اور تمام مسلمانوں کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے۔سود کو عربی زبان میں ”ربو“کہتے ہیں ،جس کا لغوی معنیٰ زیادہ ہونا ، پروان چڑھنا ، او ر بلندی کی طرف جانا ہے ۔ اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ ” کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا “۔سودخواہ کسی غریب ونادار سے لیاجائے یا کسی امیر اور سرمایہ دار سے ، یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال، مفت خوری ، حرص وطمع، خود غرضی ، شقاوت وسنگدلی، مفاد پرستی ، زر پرستی اور بخل جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں بلکہ معاشی اور اقتصادی تباہ کاریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اس لیے دین اسلام اسے کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیاہے ۔ زیر نظرکتاب’’سود گناہ اور نقصانات‘‘شیخ ابراہیم بن محمدالحقیل کی مایہ ناز تالیف الربا آثا واصرار كا اردو ترجمہ ہے شیخ موصوف نے اس کتابچہ میں کتاب وسنت کےبین دلائل سے سود کی حرمت اور اس کے دینی ودنیاوی نقصانات کا ذکر کیا ہے۔یہ کتابچہ اپنے موضوع میں انتہائی مفید اور اہم ہے اس کی افادیت کے پیش نظر محترم جنا ب مولانا عبد الولی عبد القوی صاحب نے انتہائی سادہ اورسہل انداز میں اس کی ترجمانی کی ہے تاکہ ہر خاص وعام بآسانی اس سے مستفید ہوسکے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ،مترجم وناشر کی اس کاوش کوقبول فرمائے ۔(م۔ا)
شیخ الاسلام ،مجدد العصر محمد بن عبد الوہاب ( 1703 - 1792 م) کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔آپ ایک متبحر عالم دین،قرآن وحدیث اور متعدد علوم وفنون میں یگانہ روز گار تھے۔آپ نے اپنی ذہانت وفطانت اور دینی علوم پر استدراک کے باعث اپنے زمانے کے بڑے بڑے علماء دین کو متاثر کیا اور انہیں اپنا ہم خیال بنایا۔آپ نے قرآن وسنت کی توضیحات کے ساتھ ساتھ شرک وبدعات کے خلاف علمی وعملی دونوں میدانوں میں زبر دست جہاد کیا۔آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔جن میں سے ایک کتاب’’کتاب التوحید‘‘ بڑی معر وف ہے۔شیخ موصوف کی حیات وخدمات سے متعلق مختلف اہل علم نے عربی اردو زبان میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں ۔زیر نظر کتاب’’ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی سیرت ،دعوت اور اثرات‘‘جمال الدین زرا بوزو کی عربی کتاب محمد بن عبد الوهاب حیاته تعالیمه وتأثيره کا اردو ترجمہ ہے ۔اردو ترجمہ کا فریضہ اسد اللہ عثمان المدنی صاحب نے انجام دیا ہے۔ مصنف کی یہ کتاب ان کی اصل کتاب’’ امام محمد بن عبد الوہاب کی سیرت، دعوت اور اثرات‘‘ کااختصار شدہ نسخہ ہے۔اصل کتاب میں مذکور بہت ساری تفصیلات ترک کرنےکے علاوہ طویل بحثوں کو مختصر کردیا گیا ہے اور شیخ محمد بن عبد الوہاب سےمتعلق انگریزی مواد زیر مطالعہ کتاب سے یکسر حذف کر کے تمام موضوعات کو مختصر اور جامع انداز میں پیش کرتے ہوئے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی سوانح حیات اور تعلیمات کو منصفانہ طور پر صحیح انداز میں مستند مصادر ومراجع سے اخذ کر کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ شیخ محمد بن عبد الوہاب کی مرقد پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی ٰ وارفع مقام عطا فرمائے ۔آمین (م۔ا)
علم وجہِ فضیلت ِآدم ہے علم ہی انسان کے فکری ارتقاء کاذریعہ ہے ۔ علم ہی کے ذریعے سے ایک نسل کے تجربات دوسری نسل کو منتقل ہوتے ہیں۔سید الانام خیر البشر حضرت محمد ﷺ کو خالق کائنات نے بے شمار انعامات وامتیازات سے سرفراز فرمایا تھا مگر جب علم کی دولت سے سرفراز فرمانے کا ارشاد گرامی ہوا تو اسے ’’ فضلِ عظیم‘‘ قرار دیا ارشاد ربانی ہے :وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا(النساء:113) ’’ اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تم کو وہ کچھ بتایا ہے جو تمہیں معلوم نہ تھا اور اس کا فضل تم پر بہت ہے‘‘انسانی تاریخ میں علم سےمتعلق مختلف نظریات موجود ہیں ۔اٹھارویں صدی تک انسان متعدد علمی نظریات کو اپنا کر انہیں رد کرچکاتھا۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں انسانی شعور اپنی بلندیوں کو پہنچا اور اس نے دنیا کو نت نئے علمی نظریات سے روشناس کرایا۔ جناب افتخار احمد افتخار صاحب زیر نظر کتاب ’’قطرہ قلزم‘‘ میں علم سے متعلق مختلف نظریات کی علمی کشمکش کو زیر بحث لاتے ہوئے مروجہ علمی تشریحات کاجائزہ لیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔(م۔ا)
نماز انتہائی اہم ترین فریضہ اورا سلام کا دوسرا رکن ِ عظیم ہے جوکہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ کلمہ توحید کے اقرار کےبعد سب سے پہلے جو فریضہ انسان پر عائد ہوتا ہے وہ نماز ہی ہے ۔اسی سے ایک مومن اور کافر میں تمیز ہوتی ہے۔ نماز فواحش ومنکرات سےانسان کو روکتی ہے۔ فرد ومعاشرہ کی اصلاح کے لیے نماز ازحد ضروری ہے ۔ ۔بچوں کی صحیح تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان کوبچپن ہی سےنماز کا پابند بنایا جائے ۔ قرآن وحدیث میں نماز کو بر وقت اور باجماعت اداکرنے کی بہت زیاد ہ تلقین کی گئی ہے اور نمازکی عدم ادائیگی پر وعید کی گئی ہے ۔ نماز کی اہمیت وفضیلت کے متعلق بے شمار احادیث ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں او ر بیسیوں اہل علم نے مختلف انداز میں اس موضوع پر کتب تالیف کی ہیں ۔ نماز کی ادائیگی کا طریقہ جاننا ہر مسلمان مرد وزن کےلیے ازحد ضروری ہے کیونکہ اللہ عزوجل کے ہاں وہی نماز قابل قبول ہوگی جو رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق ادا کی جائے گی ۔او ر ہمارے لیے نبی اکرم ﷺکی ذات گرامی ہی اسوۂ حسنہ ہے ۔انہیں کے طریقے کےمطابق نماز ادا کی جائے گئی تو اللہ کے ہاں مقبول ہے ۔ اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا صلو كما رأيتموني اصلي لہذا ہر مسلمان کےلیے رسول للہ ﷺ کے طریقۂ نماز کو جاننا بہت ضروری ہے۔ زیر نظر کتاب’’نماز باجماعت کےلیےمسجدجانےکےاحکام وآداب ‘‘جناب عبد الولی عبدالقوی﷾( مکتب دعوۃوتوعیۃ الجالیات ،سعودی عرب )کی کی کاوش ہے یہ کتاب چار فصلوں پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف نماز کی اہمیت وفضیلت ،حکم ِنماز اور بے نمازی کےحکم کو مختصراً بیان کرنے کے بعداس کتاب کی چار فصلوں میں نماز باجماعت کےلیے مسجد جانے کاحکم،نماز باجماعت کےفضائل،نماز باجماعت کےلیے نکلنے کےآداب، عورتوں کے لیے مسجد جانے کاحکم اور اس کےآداب کو قرآن وسنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے ۔مصنف کتاب ہذا اس کتاب کےعلاوہ تقریبا ایک درجن کتب کے مترجم ومرتب ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی تحقیقی وتصنیفی تمام کا وشوں کو کو قبول فرمائے اور لوگوں کے لیےنفع بخش بنائے ۔(آمین)(م۔ا)
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان مسلمانوں کے چھٹے خلیفۂ راشد بعثت نبوی ﷺ سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔سیدنا معاویہ کی نبی کریمﷺ سے کئی قرابتیں تھیں،جن میں سب سے قریب کی رشتے داری یہ تھی کہ سیدنا معاویہ کی بہن سیدہ ام حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ نبی کریمﷺ کی زوجیت میں تھیں۔سیدنا معاویہ ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابتِ وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن و اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردوغبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے۔ کئی اہل علم اور نامور صاحب قلم حضرات نے سیدنا معاویہ ابی سفیان کے متعلق مستند کتب لکھ کر سیدنا معاویہ کے فضائل ومناقب،اسلا م کی خاطر ان کی عظیم قربانیوں کا ذکر کے ان کے خلاف کیےجانے والےاعتراضات کی حقیقت کو خوب واضح کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب’’ خلیفۂ راشدسیدنا معاویہ کی سیاسی زندگی ‘‘ مولانا علی احمد عباسی کی تصنیف ہے۔فاضل مصنف نے اس کتاب میں نہایت ہی سلیس اور آسان فہم انداز میں سیدنا معاویہ کی سیاسی زندگی سے متعلق بحث کی ہے۔یہ کتاب سیدنا معاویہ کےحالات ِ زندگی اور مشاجراتِ صحابہ سے متعلق نہایت جامع ، مختصر اور متعدل تحقیق ہے۔ اور شروع سے لے کر آخر تک انتہائی دلچسپ اوراپنے اندر نہایت وقیع معلومات رکھتی ہے۔یہ کتاب 1970ء کی دہائی میں لکھی گئی جوکہ عرصۂ دراز سے ناپید تھی۔ناشر کتاب ہذا جناب فہد حارث صاحب نے مختصر ومفیدتعلیقات و حواشی کے ساتھ 2019ء میں اس کوطبع کروایا ہے۔اس ایڈیشن کے شروع میں سیدنا معاویہ کے فضائل ومناقب اوران کے دفاع کے سلسلہ میں فہد حارث صاحب کا تحریر کردہ مقدمہ لائق مطالعہ ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فرمائے ۔(م۔ا)
مولانا امین احسن اصلاحی(1904ء۔1947ء) اعظم گڑھ کے ایک گاؤں موضع بمہور میں پیداہوئے۔موصوف مدرسہ فراہی کے ایک جلیل القدر عالم دین، مفسر قرآن اور ممتاز ریسرچ سکالر تھے آپ امام حمید الدین فراہی کے آخری عمر کے تلمیذ خاص اور ان کے افکار ونظریات کے ارتقا کی پہلی کرن ثابت ہوئے۔مولانا امین احسن اصلاحی کی ابتدائی تعلیم وتربیت گاؤں کے دو مکتبوں میں ہوئی سرکاری مکتب میں مولوی بشیر احمد جبکہ دینی مکتب میں مولوی فصیح احمد ان کے استاد تھے یہاں سے آپ نے قرآن مجید اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔دس سال کی عمر میں مدرستہ الاصلاح سرائے میر میں داخل ہوئے یہاں آٹھ سال تعلیم حاصل کی ۔اس عرصے میں آپ نے عربی زبان،قرآن، حدیث،فقہ اور کلامی علوم کی تحصیل کی ،اردو ،فارسی ،انگریزی اور بالخصوص عربی میں اس قدر دسترس حاصل کی کہ آئندہ کے تحقیق وتدبر کی راہیں خود طے کرسکیں مولانا امین احسن اصلاحی دوران تعلیم ایک ذہین اور قابل طالب علم کی حیثیت سے نمایاں رہے۔مدرسہ سے فارغ ہوتے ہی صحافت سے منسلک ہوگئے۔1925ء میں مولانا اصلاحی صحافت کو خیر باد کہہ کر حمید الدین فراہی کی خواہش پر علوم قرآن میں تخصص کی غرض سے ہمہ وقت مدرستہ الاصلاح سے وابستہ ہو گئے، مدرسہ میں تدریسی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کے ساتھ مولانا فراہی سے درس قرآن لینے لگے آپ نے مولانا فراہی سے صرف علوم تفسیر ہی نہیں پڑھے بلکہ استاد کے طریقہ تفسیر میں مہارت بھی حاصل کی ،عربی شاعری کی مشکلات میں ان سے مدد لینے کے ساتھ ساتھ سیاسیات اور فلسفہ کی بعض کتب بھی ان سے پڑھیں۔مولانا فراہی کی محنتوں کا نتیجہ تھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی نے’’تدبر قرآن ‘‘ کےنام سے ایک ایسی تفسیر لکھی جو حقیقی معنوں میں فکر فراہی کی غماز ہے،مولانا اصلاحی صاحب نےاپنے استاد فراہی صاحب سے متأثر ہوکر انکار حدیث کے نظریے کو اختیار کیا۔مولانا فکری تضاد اور انتشار کا شکار تھے ان کی تصانیف اس پر شاہد ہیں۔مولانااصلاحی نے فکرفراہی کواپنی تفسیرتدبرقرآن اور دیگر کتب کے واسطے سے انہیں عامۃ الناس میں پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ۔بہت سے جید علماء نے مولانا اصلاحی کےتفسیری تفردات اور ان کی فکری گمراہیوں کو واضح کیا ہےجن میں عصر حاضر کی نامور شخصیت مفسرقرآن حافظ صلاح الدین یوسف صاحب سرفہرست ہیں ۔زیر نظر کتاب’’مولانا امین احسن اصلاحی اپنے حدیثی وتفسیری نظریات کی روشنی میں ‘‘مفسر قرآن مصنف کتب کثیرہ حافظ صلاح الدین یوسف ﷾ کی تصنیف ہے اور المدینہ اسلامک ریسرچ سنٹر،کراچی کے دفاع حدیث انسائیکلوپیڈیا کی پہلی جلد ہے۔اس کتاب میں حافظ صاحب نے مولانا اصلاحی کےافکار کابھر پور علمی انداز میں تعاقب کیا ہے ،مولانا اصلاحی نےاپنا قلم کس بے رحمی سے استعمال کیا ہے، مقدس ہستیوں خصوصاً صحابہ اور راویانِ حدیث پر کس انداز سے قلم چلایا ہےیہ سب ناقابل بیان اور دل آزار ہے وہ سب کتاب ہذاکے مطالعہ سے واضح ہوگا اور اس حوالے سے مولانا اصلاحی کے چہرے پر پڑا دبیز پردہ ہٹ جائے گا اور اصل چہرہ سامنے آجائے گا۔حافظ صاحب نے مولانا اصلاحی صاحب کی شرح’’ صحیح بخاری‘‘ اور تفسیر’’ تدبر قرآن‘‘ میں موجودمیں اصلاحی صاحب کی تمام انحرافات اور گمراہیوں کااس کتاب میں تفصیل سے اور مدلل انداز میں جائزہ لیا ہے۔مولانا اصلاحی کےجمہور علماء امت سے مختلف حدیثی وتفسیری نظریات اور گمراہ کن اثرات سے واقفیت کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حدمفید ہے ۔اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کی تحقیقی وتصنیفی ، دعوتی اور صحافتی خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں صحت وتندروستی والی زندگی دے ۔(آمین)(م۔ا)
کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و باطنی اور اکتسابی و غیر اکتسابی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرصے کے دوران ان میں تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پر ایک شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں سے مختلف رویے اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسان کی خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں، یہ غیر اکتسابی یا فطری صفات کہلاتی ہیں۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کرسکتا ہے یا پھر اپنی فطری صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔فطری صفات میں ہمارا رنگ، نسل، شکل و صورت، جسمانی ساخت، ذہنی صلاحتیں وغیرہ شامل ہیں۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔ شخصیت کی تعمیر ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے ۔ ظاہری و باطنی طور پر شخصیت کے باب میں ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہے۔محترم جناب مبشر نذیر صاحب نے اپنی زیر نظر مختصر تصنیف ’’اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے ؟‘‘میں انسان کی شخصیت کےدونوں پہلوؤں کی تفصیلی صفات ذکر کی ہیں جنہیں اختیار کر کے انسان اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر احسن انداز میں کرسکتا ہے۔ (م۔ا)
اسلامی آداب واخلاقیات حسنِ معاشرت کی بنیاد ہیں،ان کے نہ پائے جانے سے انسانی زندگی اپنا حسن کھو دیتی ہے ۔ حسنِ اخلاق کی اہمیت اسی سے دوچند ہوجاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں عبادت وریاضت میں کمال رکھنے والوں کےاعمال کوصرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیاگیا۔حسن ِاخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ امور کوبہتر بنانا ہی نہیں ہے بلکہ اسلامی تہذیب کے تمام تر پہلوؤں کواپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے ۔ کتب احادیث میں دیگر عنوانات کے ساتھ ایک اہم عنوان الآداب یا البر والصلۃ والآداب بھی شامل ہے ۔جس میں معاشرتی زندگی کے آداب ومعاملات شخصی عادات کی اصلاح وتحسین ،اقربا واحباب کے حقوق ، جانوروں کے حقوق ، عام اشیاء کے استعمال کرنے سے متعلق احادیث ائمہ محدثین نے جمع کیں ہے ۔ زیر نظر کتا ب’’ آداب زندگی‘‘ دار الوطن للنشر ،ریاض کی ’’علمی کمیٹی ‘‘ کی طرف سےمرتب شدہ عربی کتابچہ آداب المسلم في اليوم والليلة كا اردو ترجمہ ہے۔مرتبین نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سےمتعلق صرف صحیح وحسن قسم کی مستند احادیث سےاخذ کر کے مختلف عناوین کےتحت (373) آدابِ زندگی اس کتاب میں جمع کردیے ہیں ۔یہ کتاب اگرچہ انتہائی مختصر ہے لیکن عامۃ الناس کے لیےبہت مفید ہے۔اس کتاب کی افادیت کےپیش نظر جناب کے۔امین الرحمٰن عمرمدنی صاحب نے اس کتاب کا سلیس اردو ترجمہ کرنے کےساتھ ساتھ مفید اضافہ جات بھی کیے ہیں جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔اللہ تعالیٰ مرتبین ،مترجم وناشرین کی اس کا وش کو قبول فرمائے اور اسےہر عام وخاص کےلیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
مولانا عبد الماجد دریابادی 16 مارچ 1892 کو دریاباد،ضلع بارہ بنکی، بھارت قدوائی خاندان میں پیدا ہوئے۔ اُن کے دادا مفتی مظہر کریم کو انگریز سرکار کے خلاف ایک فتویٰ پر دستخط کرنے کے جرم میں جزائر انڈومان میں بطور سزا کے بھیج دیا گیاتھا۔ آپ ہندوستانی مسلمان محقق اور مفسر قرآن تھے۔آپ بہت سی تنظیموں سے منسلک رہے اور بہت سی اسلامی اور ادبی انجمنوں کے رکن تھے۔ عبدالماجد دریاآبادی نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی ایک جامع تفسیر قرآن لکھی ہے۔ اُن کی اردو اور انگریزی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ تفاسیر اسلام پر عیسائیت کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھی ہے۔ آپ نے 6 جنوری 1977 کو وفات پائی۔ان کے حالات وخدمات پر متعدد رسائل وجرائد کے خصوصی شمارے شائع کیے گئے ہیں اور متعدد کتب بھی لکھی گئی ہیں اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں میں ان پر تحقیقی مقالہ جات بھی لکھے گئے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب’’آپ بیتی‘‘ اردو کے مشہور صاحبِ طرز ادیب اور مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے قلم سے نکلی ہوئی آپ بیتی او رخودنوشت سوانح عمری ہے جس میں لکھنؤ اور اودہ کی ثقافت وتہذیب ،مشاہیر دین وادب ، اور ممتاز معاصرین واحباب کے تذکرے اور چلتی پھرتی تصویریں بھی موجود ہیں ۔اس آپ بیتی میں مولانا عبد الماجد دریاآباد کے جادونگار قلم نےاپنی زندگی کےعہد رفتہ کو اس طرح آواز دی کہ وہ حال معلوم ہونے لگا۔(م۔ا)
قیامت آثار قیامت کو نبی کریم ﷺ نے احادیث میں وضاحت کےساتھ بیان کیا ہے جیساکہ احادیث میں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم نازل نہ ہوں گے ۔ وہ دجال اورخنزیر کو قتل کریں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے۔ مال عام ہو جائے گا اور جزیہ کو ساقط کر دیں گے اور اسلام کے علاوہ کوئی اور دین قبول نہ کیا جائے گااس زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کے سوا سب ادیان کو ختم کر دے گا اور سجدہ صرف اللہ وحدہ کے لیے ہوگا۔علامات قیامت کے حوالے سے ائمہ محدثین نے کتبِ احادیث میں ابواب بندی بھی کی ہے اور بعض اہل علم نے اس موضوع پر مستقل بھی کتب لکھی ہیں ۔ زیر نظر کتاب ’’ آثار قیامت اور فتنہ دجال کی حقیقت قرآن وحدیث کی روشنی میں ‘‘ عمدۃ المفسرین شاہ رفیع الدین دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ قیامت نامہ ‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔مترجم کتاب جناب مولانا محمد اسلم زاہد صاحب نے مولانا نور محمد صاحب کے قدیم ترجمہ ’’قیامت نامہ‘‘ کو جدید لباس میں بڑے احسن انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔عنوانات لگانے کےعلاوہ آیات واحادیث کی تخریح بھی کردی ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ۔ نیز مترجم نے کتاب کےدوسرے حصے کے طور پر اس میں کچھ تحقیقی مضامین کااضافہ بھی کیا ہے۔ان مضامین میں ان شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جواکثر منکرین حدیث کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔دوسرے حصے کاعنوان’’فتنہ دجال کی حقیقت ‘‘ ہےجس میں اس فتنےکےخدوخال اورمنکرین حدیث کےاجاگرکئے ہوئے شبہات کاازالہ ہے۔(م۔ا)
کتب خانوں کی تاریخ چار ہزار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔کتب خانہ یا دارُالکُتُب یا مکتبہ (Library)، ایک ایسی جگہ یا مقام جہاں اُن لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں مہیّا کی جاتی ہیں جو لوگ (مالی یا دوسری وجوہات کی بنا پر) کتابیں خریدنے سے قاصر ہوتے ہیں۔جدید درالکتب میں کوئی بھی شخص ہر قسم کی معلومات تک کسی بھی شکل و ذریعہ سے بے روک رَسائی حاصل کر سکتا ہے۔ مع معلومات کے، یہ دارالکتب ماہرین یعنی کِتاب داروں کی خدمات بھی مہیا کرتی ہیں جو معلومات کو ڈھونڈنے اور اُن کو منظّم کرنے میں تجربہ کار ہوتے ہیں۔کسی بھی تعلیم یافتہ معاشرے میں لائبریری اور قارئین کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔افرادکی تربیت اور ترقی میں لائبریریاں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔دنیا بھر میں تاریخی کتب خانے موجود ہیں جوآج بھی مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔برصغیر پاک وہند کے میں بھی تاریخی حیثیت کے حامل کتب خانے موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ اسلامی کتب خانے ‘‘ جناب عبد الحلیم چشتی صاحب کا وہ تحقیقی ومقالہ ہےجسے انہوں نے جامعہ کراچی میں پیش کر کے19181ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔بعد ازاں اسے کتابی صورت میں شائع کیاگیا۔۔ فاضل مصنف نے اس کتاب میں عہد عباسی میں کتب خانوں کی ترویج واشاعت کے اسباب،انکی شناخت کے رہنما اصول ، فروغ علم اور کتب خانوں کےارتقاء ، عباسی خلفاء اور ان سے الحاق رکھنے والے اور ہم سری کرنے والے فرمانواؤں کے کتب خانوں پر روشنی ڈالی ہے ۔یہ کتاب اسلامی کتب خانوں کے اہم مباحث کاجامع ہے صاحب کتاب نے مختلف زبانوں کے رسائل کے علاوہ چھ سو سے زائد کتابوں سے استفادہ کرکےاس کتا ب میں تین ہزار حوالہ جات پیش کیے ہیں ۔یہ مقالہ اپنے موضوع پر نادر معلومات وگرانقدر تحقیقات کا مرقع ہے۔لائبریری سائنس کے طلبہ ومحققین نیز اسلامی تہذیب وثقافت اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کےلیے نہایت مفید ونادر علمی تحفہ ہے۔(م۔ا)
شیخ الاسلام والمسلمین امام ابن تیمیہ(661۔728ھ) کی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ ساتویں صدی ہجری کی عظیم شخصیت تھے،آپ بہ یک وقت مفکر بھی تھے اور مجاہد بھی ، آپ نے جس طر ح اپنے قلم سے باطل کی سرکوبی کی۔ اسی طرح اپنی تلوار کو بھی ان کے خلاف خو ب استعمال کیا ۔ اورباطل افکار وخیالات کے خلاف ہردم سرگرم عمل او رمستعد رہے جن کے علمی کارہائے نمایاں کے اثرات آج بھی پوری آب وتاب سے موجود ہیں۔امام صاحب علوم اسلامیہ کا بحر ذخار تھے اور تمام علوم وفنون پر مکمل دسترس اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے۔آپ نے ہر علم کا مطالعہ کیا اور اسے قرآن وحدیث کے معیار پر جانچ کر اس کی قدر وقیمت کا صحیح تعین کیااورمتکلمین، فلاسفہ اور منطقیین کا خوب ردّ کیا ۔امام ابن تیمیہ کی حیات وخدمات کےحوالے سے عربی زبان میں کئی کتب اور یونیورسٹیوں میں ایم فل ، پی ایچ ڈی کے مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں ۔ اردو زبان میں امام صاحب کے حوالے سے کئی کتب اور رسائل وجرائد میں سیکڑوں مضامین ومقالات شائع ہوچکے ہیں ۔ زیر نظر تحقیقی مقالہ بعنوان’’امامابن تیمیہ اور علم کلام (ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ)‘‘ حافظ محمد شریف(اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج ،گوجرانوالہ ) کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے شعبہ علوم اسلامیہ ،جامعہ پنجاب میں پیش کر کےڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔پہلا باب امام ابن تیمیہ کی زندگی کے حوالے سے مختصر حالات وواقعات پرمشتمل ہے۔جس میں آپ کی پیدائش،پرورش، تعلیم وتربیت،دینی اور علمی خدمات وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ دوسرے باب میں آغاز سےامام ابن تیمیہ تک تمام ادوار کےعلم کلام کامختصر جائزہ پیش کیا گیاہے۔نیزعلم کلام کی تعریف، موضوع ،غرض وغایت اور شرعی حیثیت سے متعلق مختصرا بحث کی گئی ہے۔اور تیسرا باب فرق باطلہ کے افکار ونظریات کےردّ پر مشتمل ہے۔چوتھے باب میں منطق کی تعریف، اصطلاحات، مناطقہ پر امام صاحب کی تنقیدات کو پیش کیا گیا ہے۔آخری باب میں امام صاحب کے بیان کردہ کلامی مسائل کو دو فصلوں میں تقسیم کر کے تحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے۔(م۔ا)
اولاد کی تربیت صالح ہوتو ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے ۔ دین وشریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں اسی طرح اولاد کےوالدین پر حقوق ہیں اور جیسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے اورانکو آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی کرنا دھوکہ اور خیانت ہے۔ کتاب وسنت کے دلائل میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے ۔ ان کی امانت کوادا کیا جائے ، ان کوآزاد چھوڑنے اوران کےحقوق میں کتاہیوں سے بچا جائے ۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑ جائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے تو وہی اولاد آزمائش بن جاتی ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے مستقبل کےبارے میں بہت سہانے خواب دیکھتے ہیں اور اپنا مال ودولت بھی کھلے دل سے ان کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں مگردین کے لحاظ سے ان کی تربیت کا پہلو بہت کمزور رہ جاتا ہے ۔نتیجتاً اولاد صدقہ جاریہ بننے کی بجائے نافرمان بن جاتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کوانکے پچپن میں ہی اخلاقیات کی تربیت کےساتھ ساتھ مسنون دعائیں،قرآنی آیات وسورتیں او راحادیث نبویہ پڑھا ئیں اور زبانی یاد کرائیں تاکہ ان کی صحیح تربیت ہوسکے ۔زیر نظر کتابچہ ’’ چالیس حدیثیں برائے اطفال‘‘مشہور سعودی عالم فضیلۃ الشیخ محمدبن سلیمان المھنا حفظہ اللہ کے تربیت اولاد سےمتعلق مرتب شدہ رسالہ الأربعون الوالدانية کا سلیس اردو ترجمہ ہے۔شیخ موصوف نے اس کتابچہ میں مختلف موضوعات (عقائد،عبادات،معاملات،اخلاق اورآداب وغیرہ) سے متعلق چالیس صحیح احادیث کو مختصر ومفید شرح کےساتھ جمع کیا ہے۔یہ کتاب اگرچہ چھوٹے بچوں کےلیے مرتب کی گئی لیکن سبھی عمر کے لوگوں کےلیے یہ کتاب نفع بخش ہے اور ہرشخص کو ان تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔شفیق الرحمٰن ضیاء اللہ مدنی صاحب نےاس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے تاکہ اردو دان طبقہ بھی اس سے مستفید ہوسکے ۔اللہ تعالیٰ مصنف ومترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(آمین )یہ اس کتاب کا انٹرنیٹ ایڈیشن ہے ۔ مترجم نے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کرنے کے لیے اس کی پی ڈی ایف فائل ادارہ محدث کوخود بھیجی ہے ۔(م۔ا)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اس کے لیے کچھ ایسے مواسم کا انتخاب فرمایا ہے جن میں عبادت باقی ایام کی بہ نسبت زیادہ افضل ہوتی ہے‘انہی مواسم میں سےذوالحجہ کے پہلے عشرہ میں عبادت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دن رمضان کے آخری دس دنوں سے بھی افضل ہیں۔ زیر نظر کتابچہ بعنوان’’عشرہ ذی الحجہ اور قربانی فضائل ومسائل ‘‘ مولا السلام بن صلاح الدین مدنی(داعی ومترجم جمعیۃ الدعوۃ والارشاد،طائف) کا مرتب شدہ ہے اس کتابچہ میں انہوں نے عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل،اس میں کرنے کے کام اور قربانی کے احکام ومسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں پیش کیا ہے اللہ تعالیٰ مرتب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عامۃ الناس کےلیے نفع بخش بنائے ۔(م۔ا)
شیطان سے انسان کی دشمنی سیدنا آدم کی تخلیق کےوقت سے چلی آرہی ہے۔ قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف توجہ دلائی ہے کہ شیطان مردود سےبچ کر رہنا یہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ارشاد باری تعالی إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ’’ یقیناًشیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے دشمن ہی سمجھو ۔‘‘ اللہ کریم نے شیطان کوقیامت تک کے لیے زندگی دے کر انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی قوت دی ہے اس عطا شدہ قوت کے بل بوتے پر شیطان نے اللہ تعالیٰ کوچیلنج کردیا کہ وہ آدم کے بیٹوں کو اللہ کا باغی ونافرمان بناکر جہنم کا ایدھن بنادے گا ۔لیکن اللہ کریم نے شیطان کو جواب دیا کہ تو لاکھ کوشش کر کے دیکھ لینا حو میرے مخلص بندے ہوں گے وہ تیری پیروی نہیں کریں گے او رتیرے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔ابلیس کے وار سے محفوظ رہنے کےلیے علمائے اسلام اور صلحائے ملت نے کئی کتب تالیف کیں او ردعوت وتبلیغ اوروعظ وارشاد کےذریعے بھی راہنمائی فرمائی۔جیسے مکاید الشیطان از امام ابن ابی الدنیا، تلبیس ابلیس از امام ابن جوزی،اغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان از امام ابن قیم الجوزیہ اور اسی طرح اردو زبان میں بھی متعدد کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ آخری جنگ (شیطان کے خلاف انسان کا اعلان جنگ)‘‘ جناب ابو یحییٰ صاحب کی ناول کے انداز میں آسان فہم دلچسپ تصنیف ہے۔اس کتاب میں صاحب کتاب نے آسان فہم انداز میں اس بات کو واضح کیا ہے انسان کا ابلیس سے جنگ کاآغاز اس وقت ہوا جب اس نے ہمارے باپ سیدنا آدم کوسجدہ کرنے سے انکار کردیا۔شیطان اور انسان کی اس جنگ میں امت مسلمہ ایک انتہائی اہمیت کاحامل گروہ ہے ۔ وہ اگر اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں تو انسانیت کی بڑی تعداد کو شیطان کے چنگل سے چھڑا سکتے ہیں۔اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو وہ گویا خود شیطان کے مشن میں اس کے مدد گار بن جائیں گے۔شیطان کے شر سے بچنے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ لوگ قرآن مجید کو اپنی خواہشات اور تعصبات پر ترجیح دینے لگیں۔چنانچہ انسان اور شیطان کی اس جنگ میں ا مت مسلمہ کی اہمیت اور شیطان کاطریقہ کار ہی صاحب تحریر کے زیر تبصرہ ناول’’ آخری جنگ‘‘ کامرکزی خیال ہے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے ازلی دشمن شیطان کی فریب کاریوں سےمحفوظ فرمائے ۔آمین (م۔ا)
ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ کائنات کی افضل اور بزرگ ترین ہستیاں انبیاء ہیں ۔جن کا مقام عام انسانوں سے بلند ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے دین کی تبلیغ کے لیے منتخب فرمایا لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کےلیے انہیں مختلف علاقوں اورقوموں کی طرف مبعوث فرمایا۔اور انہوں نے بھی تبلیغ دین اوراشاعتِ توحید کےلیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ اشاعت ِ حق کے لیے شب رروز انتھک محنت و کوشش کی اور عظیم قربانیاں پیش کر کے پرچمِ اسلام بلند کیا ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جابجا ان پاکیزہ نفوس کا واقعاتی انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔ جس کا مقصد محمد ﷺ کو سابقہ انبیاء واقوام کے حالات سے باخبر کرنا، آپ کو تسلی دینا اور لوگوں کو عبرت ونصیحت پکڑنے کی دعوت دینا ہے کتب حدیث وتفسیر اور تاریخ میں انبیاء ﷺ کےقصص وواقعات بیان کیے گئے ہیں۔انبیاء کے واقعات وقصص پر مشتمل مستقل کتب بھی موجود ہیں۔ زیر نظرکتاب ’’آدم سے محمدﷺ تک ‘‘ مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی مرتب شدہ ہے۔انہوں نےاس کتاب میں آسان فہم اندازمیں انسان ونبی اول سیدنا آدم سے لے کر آخر الزمان خاتم النبیین سیدنا محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام کے مختصراً حالات وواقعات اس کتاب میں جمع کردئیے ہیں ۔بچوں اوربڑوں کو قرآن مجید سے واقف کرانے اور شوق دلانے کےلیے یہ بہترین کتاب ہے۔(م۔ا)
قربانی و عیدین کے سے متعلقہ بے شمار سوالات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی اعتبار سے ان موضوعات پر بہت سے اہل قلم نے کتب تحریر فرمائیں ہیں۔ ان میں سے بہت کتاب و سنت ڈاٹ کام پر موجود بھی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اس موضوع پر ایک عمدہ اضافہ ہے۔ قریب دو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب نوجوان مصنف نعیم الغفور کی تصنیف ہے۔ کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ ہر مسئلہ کو وضاحت کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا جائے تاکہ ایک عام قاری بھی مکمل استفادہ کر سکے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے موضوع سے متعلقہ تمام چیزوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسی طرح دین کی خدمت جاری رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ (ع۔ا)
دینِ اسلام ایک سیدھا اور مکمل دستورِ حیات ہے جس کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی کامرانیاں پنہاں ہیں ۔ یہ ایک ایسی روشن شاہراہ ہے جہاں رات دن کا کوئی فرق نہیں اور نہ ہی اس میں کہیں پیچ خم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کو انسانیت کے لیے پسند فرمایا اوررسول پاکﷺ کی زندگی ہی میں اس کی تکمیل فرمادی۔عقائد،عبادات ، معاملات، اخلاقیات ، غرضیکہ جملہ شبہائے زندگی میں کتاب وسنت ہی دلیل ورہنما ہے ۔ صحابہ کرام نے کتاب وسنت کو جان سے لگائے رکھا ا ن کے معاشرے میں کتاب وسنت کو قیادی حیثیت حاصل رہی اور وہ اسی شاہراہ پر گامزن رہ کر دنیا وآخرت کی کامرانیوں سے ہمکنار ہوئے ۔ لیکن جو ں جوں زمانہ گزرتا گیا لوگ کتاب وسنت سے دور ہوتے گئے اور بدعات وخرافات نے ہر شعبہ میں اپنے پاؤں جمانے شروع کردیئے اور اس وقت بدعات وخرافات اور علماء سوء نے پورے دین کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ دنیا بھر بالخصوص برصغیر پاک وہند کے اندر مروجہ وبدعات وخرافات ایک ایسا کینسر ہے جو ہمارے اعمال کو ہلاک وبرباد اور غارت کررہا ہے۔جید اہل علم نے بدعات اور اس کے نقصانات سے روشناس کروانے کے لیے اردو وعربی زبان میں متعدد چھوٹی بڑی کتب لکھیں ہیں جن کے مطالعہ سے اہل اسلام اپنے دامن کو بدعات سے خرافات سے بچا سکتے ہیں ۔زیر نظر کتاب’’بدعات اور ان کی ہلاکت خیزیاں‘‘ مولانا عبد السلام صلاح الدین مدنی حفظہ اللہ کی علمی وتحقیقی کاوش ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع میں ایک کافی اورشافی کتاب ہے فاضل مصنف نے اس کتاب میں قرآن وسنت اور سلف صالحین وائمہ دین کے اقوال کی روشنی میں اتباع سنت کی اہمیت اوربدعت کی ہلاکت خیزیوں کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور ہمارے اسلامی معاشرے میں موجود تقریباً تمام بدعتوں کاشرعی پوسٹ مارٹم کرتے ہوئےاسلامی سماج میں رائج بدعات کی خطرناکیوں اورہلاکت خیزیوں کوتفصیلاً بیان کیا ہے ۔شیخ احمد مجتبیٰ السلفی المدنی حفظہ اللہ کی نظرثانی اور مراجعت سےکتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف وناشر کی اس علمی وتحقیقی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے عوام الناس کی اصلاح کا ذریعہ بنائے (آمین) (م۔ا)