اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نےاپنے نیک بندوں کےلیے سال کے کتنے ہی ایسےمواسم اور مواقع عطا کیے ہیں کہ جو بار بار آتے ر ہتےہیں جن میں وہ کثرت سے نیک کاموں کو انجام دیتے ہیں اور اپنے مالک و مولی کا قرب حاصل کرنے لیے مسابقت اورپہل کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے فضل وکرم سے انہیں ان نیک کاموں کی بدولت اجروثواب عطافرماتا ہے ۔اطاعت فرمانبرداری کے عظیم موسموں میں ذوالحجہ کے پہلے دس دن بھی ہیں جسے اللہ تعالی نے باقی سارے سال کے ایام پرفضیلت دی ہے۔عشرۂ ذی الحجہ کے ایام اپنے دن گھنٹے اورمنٹ کے لحاظ سے افضل ترین اوراللہ تعالیٰ کے نزدیک سے سب سے محبوب ایام ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان ایام کی اپنی کتاب میں قسم بھی کھائی ہےاور نبی کریم ﷺ نےاپنی زبانِ رسالت سے بھی ان ایام مبارکہ بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا :’’ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ کوسب سے زيادہ محبوب ہیں ، صحابہ نے عرض کی اللہ تعالیٰ کے راستے میں جھاد بھی نہيں !! تورسول اکرم ﷺ نے فرمایا : اورجھاد فی سبیل اللہ بھی نہيں ، لیکن وہ شخص جواپنا مال اورجان لے کر نکلے اورکچھ بھی واپس نہ لائے (صحیح بخاری:969) ‘‘عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت کے متعلق کئی مستقل کتب موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ایام مبارکہ ‘‘سعودی عرب کےدعوتی ادارے ’’ مکتب توعیہ الجالیات‘‘ کی مرتب شدہ ہے ۔ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اور احکام ومسائل کے متعلق یہ ایک عمدہ کتاب ہے ۔ مرتبین نے اس کتاب میں عشرۂ ذی الحجہ کی فضیلت اور اس کے جملہ احکام ومسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں بڑے آسان فہم انداز میں جمع کیا ہے ۔ ابوعدنان محمد طیب بھواروی صاحب نے اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔اللہ تعالیٰ مرتبین و مترجم کی تمام تحقیقی وتصنیفی اور تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
مولانا رحمت اللہ کیرانوی اسلام اور اہل سنت کے بڑے پاسبانوں میں سے تھے۔ آپ علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی ومولانا رشید احمد گنگوہی وغیرہم کے حلقۂ فکر کے ایک فرد تھے۔ جس زمانے میں ہزاروں یورپی مشنری، انگریز کی پشت پناہی میں ہندوستان کے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے، مولانا کیرانوی اور ان کے ساتھی مناظروں، تقریروں اور تحریرکے ذریعے اسلامی عقائد کے دفاع میں مصروف تھے۔ ١٨٥٤ء یعنی جنگ آزادی سے تین سال قبل مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے آگرہ میں پیش آنے والے ایک معرکہ کے مناظرہ میں عیسائیت کے مشہور مبلغ پادری فنڈر کو شکست دی۔جنگ آزادی ١٨٥٧ء میں مولانا کیرانوی حاجی امداد اللہ (مہاجر مکی) رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں انگریز کے ساتھ قصبہ تھانہ بھون میں انگریز کے خلاف جہاد میں شامل ہوئے۔ اس کےبعد مولانا کیرانوی دیگر مجاہدین کی طرح ہجرت کرکے حجاز چلے گئے۔ یہاں موصوف نے پادری فنڈر کی کتاب میزان الحق کا جواب اظہار الحق کے نام سے تحریر فرمایا۔اور ایک نیک خاتون بیگم صولت النساء کے فراہم کردہ عطیے سے مکہ مکرمہ میں ایک مدرسہ’مدرسہ صولتیہ‘قائم کیا۔ حجاز سے سلطان ترکی کے بلانے پر قسطنطنیہ (حالیہ استنبول) گئے اور وہا ں بھی عیسائیوں سے مناظرےکئے ۔مولاناکیرانوی نےساری زندگی عیسائیت کے ردّ میں عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں اورکئی کتابیں تصنیف کیں۔ زیر نظر کتاب ’’ازالۃ الشکوک‘‘عیسائیت کےردّ میں بڑی اہم اور مفصل ومدلل کتاب ہے۔ بہادر شاہ ظفرؒ کے صاحبزادے ولی عہد مرزا فخر الدین کے پاس عیسائی پادریوں کی طرف سے 29 سوالات بھیجے گئے۔ تو مرزا فخر الدین کی درخواست پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے ان سوالات کا جواب لکھنا شروع کیا جو کہ بعد میں 2 جلد میں ازالۃ الشکوک کے نام سے شائع ہوا۔ یہ کتاب سوا سو سال قبل 2 ضخیم جلدوں میں مدراس میں شائع ہوئی تهی اس کتاب کودوبارہ تحقیق و تسہیل کے ساتھ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے محقق عالم حضرت مولانا عتیق احمد بستوی نے 4 جلد میں شائع کروایا۔ (م۔ا)
اذان اسلام کا شعار ہے نماز پنجگانہ کےلیے اذان کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے رائج ہے ۔حضرت بلال اسلام کے پہلے مؤذن تھے۔ بلالی اذان کے الفاظ بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہیں ۔ لیکن ایک نام نہاد جماعت نے اذان سے پہلے او ربعض مساجد میں اذان کےبعد ایک ایسا درود جاری کیا ہےجس کا ثبوت قرآن وحدیث ، صحابہ ،تابعین ، تبع تابعین ،محدثین سے نہیں ملتا۔ زیر نظر کتاب’’ اذان واقامت قرآن اور سنتِ مطہرہ کی روشنی میں ‘‘ ابو عدنان محمد طیب السلفی کی مرتب شدہ ہے . فاضل مرتب نے اس کتاب اس آسان اسلوب میں اذان واقامت کا حکم اس کا مفہوم ، فضائل وآداب کے علاوہ اذان واقامت کے تمام تر احکام ومسائل قرآن وسنت کی روشنی میں جمع کردئیے ہیں تاکہ ایک مسلمان اذان واقامت کے فقہی احکام ومسائل سے روشناس ہو سکے اور اس کے اہم شعار کو علم وبصیرت کے ساتھ قائم کرسکے ۔ مرتب موصوف اس کتاب کے علاوہ درجن سے زائد کتب کے مترجم ،مصنف ومرتب ہیں اللہ تعالیٰ فاضل مرتب کی تمام تحقیقی وتصنیفی اور تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ۔(آمین)(م۔ا)
مولانا سیدابوالاعلی مودودیؒ بیسویں صدی کے اُن اہلِ علم و دانش میں سے ہیں جن کے افکار و خیالات نے مسلم دُنیا اور بالخصوص برصغیر پاک و ہند کو غیر معمولی طور پر متاثر کیاہے۔ اُن کی تصنیفات میں بلا شبہ زندہ رہنے کی صلاحیت ہے اور تجدیدو احیائے دین کے حوالے سے اُن کی روشن تحریریں اہلِ عزم و ہمت کے لیےدلیلِ راہ ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’ تفہیم الاحادیث ‘‘سید ابوالاعلی مودودیؒ کے سرمایہ حدیث کا گرانقدر مجموعہ ہے مولانا عبدالوکیل علوی مرحوم نے تقریباً 30؍ سال قبل اسے مرتب کیا ۔1993ء میں پہلی بار شائع ہوئی ۔مرتب نے کافی محنت اور عرق ریزی سے سید مودودیؒ کی مختلف کُتب میں پھیلی تشریحاتِ حدیث کو یکجا کر دیا ہے۔ کتاب کی ترتیب اعلیٰ اور عنوانات کا انتخاب نہایت موزوں ہے۔عقائد، عبادات، سیرت النبیﷺ، معاشرت اور سیاسیات کے موضوعات کو ترتیب وار آٹھ جلدوں میں تقسیم کرکے ان کے تحت آنے والی احادیث کی تشریحات کو نقل کیا گیا ہے۔نیزمرتب نے تخریج احادیث کے ساتھ اُردو ترجمہ کرکے حدیث فہمی میں آسانی پیدا کی ہے۔سید صاحبؒ کے وسیع تحریری سرمائےمیں سے حدیث پر مبنی مواد کی ضخامت کا اندازہ ”تفہیم الاحادیث“ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔اور اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہےکہ سیدصاحب کا لٹریچر قرآن وحدیث کے حوالوں اور تشریحات کا بے بہا خزانہ ہے اور موصوف کس قدر حجیت حدیث کے قائل وفاعل تھے ۔ان کی مایہ ناز کتاب ’’ سنت کی آئینی حیثیت ‘‘ بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے ۔ لیکن بعض احادیث کو تسلیم کرنے کے متعلق مودودی صاحب کا موقف جمہو رعلمائے امت سے مختلف ہے۔ محدث دوراں حافظ عبد اللہ روپڑی اور شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ نے اپنی کتب میں اس کی نشاندہی کی ہے ۔اس لیے حدیث کے متعلق مولانا مودودی مرحوم کےتفردات سے ادارہ کتاب وسنت سائٹ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔(م۔ا)
برصغیر پاک و ہند میں لکھوی خاندان نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس سے شاید ہی کوئی پڑھا لکھا آدمی ناواقف ہو۔ تفسیر محمدی کے مصنف مولانا حافظ محمد بن حافظ بارک اللہ لکھوی (1221ھ۔1311ھ) مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے قصبہ لکھوکے میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم حافظ بارک اللہ سے کیا پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد صرف ، نحو ،فارسی ، منطق ، فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اس کے بعد لدھیانہ جاکر مختلف علماء سے مختلف علوم میں استفادہ کیا۔ بعد ازاں مولانا عبداللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی رحمہما اللہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔دہلی سے واپس آکر اپنے والد حافظ بارک اللہ مرحوم سے مل کر موضع لکھوکے میں1850ء کے لگ بھگ ’’مدرسہ محمدیہ ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ متحدہ پنجاب کےضلع فیروز پور میں اہل حدیث کا یہ اوّلین مدرسہ تھا ایک صدی تک لکھوکے اس مدرسہ کا فیض جاری رہا اور اس درسگاہ سے ہزاروں علمائے کرام مستفیض ہوئے ۔اس مدرسے میں برصغیر کے وہ متعدد حضرات حصولِ علم کے لیے تشریف لائے ، جنہوں نےآگے چل کر برصغیر کے تحقیق وتدریس کے میدان میں بے حدشہرت پائی۔ان میں مولانا حافظ عبد ا للہ روپڑی،مولانا عبد الوہاب دہلوی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبد الواحد غزنوی،مولاناعطاء اللہ حنیف،حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہم اللہ کےعلاوہ دیگر بے شمار علماء کرام کےاسمائے گرامی شامل ہیں۔ایک روایت کے مطابق فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ بھی مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بن حافظ محمد لکھوی رحمہما اللہ سے ملاقات کے لیے لکھوکے گئےتھے ۔ 1930ء میں مولانا عبدالقادر لکھوی اور ان کے صاحبزادے مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ لکھوکے کے مدرسہ کے ذمہ دار مدرس تھے ۔ تقسیم ملک (اگست 1947) کےبعد اوکاڑہ میں یہ مدرسہ ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کےنام سے قائم ہوا جو آج تک کامیابی سے جاری وساری ہےجامعہ محمد یہ کے اولین ناظم ومہتمم مولانا معین الدین لکھوی اور شیخ الحدیث مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ تھےجو کہ 26 نومبر 1952 تک یہاں شیخ الحدیث رہے ۔ صاحب تفسیر محمد ی حافظ محمد لکھوی مرحوم بہت بڑے عالم ،محقق،مصنف،مصلح اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ حافظ محمد لکھوی نے عربی، فارسی، پنجابی میں تدریسی،دعوتی وتبلیغی اور علمی نوعیت کی تقریبا تیس کتابیں تصنیف کیں ۔ قرآن مجید کا فارسی اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ ان کی پنجابی اشعار کی کتابیں بے حد شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ ان کی پنجابی نظم میں” تفسیر محمدی‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے حافظ محمد لکھوی کو ان کی تدریسی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے مصلح پنجاب کہا جاتا ہے۔ موصوف نے 27؍اگست 1893ء مطابق 13صفر 1311ھ 90سال کی عمر میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں وفات پائی ۔(رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ) حافظ محمد لکھوی کے بیٹے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی جلیل القدر عالم اور بدرجہ غایت تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ حج بیت اللہ کے لئے گئے اور مسجد نبوی میں حالت ِ سجدہ میں وفات پائی جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی مرحوم کےبیٹے مولانا محمد علی لکھوی مدنی (دادا ڈاکٹر حماد لکھوی و ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی ) نے ایک عرصے تک اپنے جد ِ امجد اور والد ِمکرم کی مَسند درس پر بیٹھ کر لکھوکے میں طلبہ کو علومِ دین کی تعلیم دی پھر مدینہ منورہ چلے گئے۔ وہاں 46سال مسجد نبوی میں قرآن وحدیث کا درس دیا اورلا تعداد تشنگانِ علوم ان سے فیض یاب ہوئے، جن میں سعودی عرب، الجزائر، شام، مصر، سوڈان، اردن، لیبیا، کویت، نجد اور افریقی ملکوں کے بے شمار علماو طلبا و شامل ہیں۔ مولانا محمد علی لکھوی قرآن وحدیث کا درس دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی بن مولانا محی الدین لکھوی(ڈین شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب ،وائس چئیرمین پیغام ٹی وی) اور ڈاکٹر عظیم الدین بن مولانا معین الدین لکھوی (ماہر امراض دل و بلڈ پریشر، معروف سیاستدان) بھی اسی خاندان کےعظیم سپوت ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں خیروبرکت کرے اور ان کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی عظیم علمی شخصیات ڈاکٹر حماد لکھوی ، مولانا حفیظ الرحمن لکھوی ، مولانا خلیل الرحمن لکھوی حفظہم اللہ کے علم وعمل اور عمر میں خیر وبرکت فرمائے کہ وہ اپنے خاندان کی علمی روایت کے امین ہیں۔ا ور اللہ تعالیٰ ان کے بعد ان کے جانشینوں کو اس خاندان کی علمی روایت کوباقی رکھنے کی توفیق دے (آمین) زیر نظر مقالہ بعنوان’’ حافظ محمد بن بارک اللہ کاتفسیری منہج‘‘ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی ﷾ کے برادر اکبر جناب محمد حمود لکھوی صاحب کا وہ تحقیقی مقالہ کے جسے انہوں 2004ء میں شعبہ علوم اسلامیہ ،پنجاب یونیورسٹی میں پیش کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مقالہ نگار نے اس تحقیقی مقالہ کو چھ ابواب میں تقسیم کرکے تفسیرمحمدی میں حافظ محمد لکھوی مرحوم کے تفسیری منہج اور انداز تفسیر کو اجاگر کیا۔پہلا باب صاحب تفسیر کے ذاتی تعارف اور حالات زندگی پر مشتمل ہے ۔ دوسرا باب حافظ محمد بن بارک اللہ کےدور کے رجحانات کی وضاحت کرتا ہے۔تیسرا باب تفسیر محمد ی کے تعارف ومنہج کے نام سے موسوم ہے ۔چوتھا باب مابعد الطبیعاتی مسائل میں تفسیر محمدی کااسلوب واضح کرتا ہے جس میں علم الکلام کے مابعد الطبیعاتی مسائل پر تفسیر محمدی کی روشنی میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔پانچویں باب میں تفسیر محمدی کاعلمی وتحقیقی جائزہ پیش کیاگیا ہے چھٹے باب میں تفسیر محمدی اور معاصر تفاسیرکا تقابلی جائزہ پیش کیاگیا۔ یہ مقالہ اس لنک ( http://prr.hec.gov.pk/jspui/handle/123456789//8925) سےڈاؤنلوڈ کر کے کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے ۔حافظ محمد لکھوی نےتفسیرمحمدی کےعلاوہ تقریبا 30 کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’ احوال الآخرت ‘‘؛’’زینت الاسلام ‘‘اور پاک وہند کے مدارس دینیہ میں شاملِ نصاب کتاب ’’ابواب الصرف‘‘ سرفہرست ہے۔اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی دینی وسماجی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
برصغیر پاک و ہند میں لکھوی خاندان نے اسلام کی جو خدمت کی ہے اس سے شاید ہی کوئی پڑھا لکھا آدمی ناواقف ہو۔ تفسیر محمدی کے مصنف مولانا حافظ محمد بن حافظ بارک اللہ لکھوی (1221ھ۔1311ھ) مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور کے قصبہ لکھوکے میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم حافظ بارک اللہ سے کیا پہلے قرآن مجید حفظ کیا اس کے بعد صرف ، نحو ،فارسی ، منطق ، فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں بھی اپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اس کے بعد لدھیانہ جاکر مختلف علماء سے مختلف علوم میں استفادہ کیا۔ بعد ازاں مولانا عبداللہ غزنوی اور مولانا غلام رسول قلعوی رحمہما اللہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے اور شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین دہلوی سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔دہلی سے واپس آکر اپنے والد حافظ بارک اللہ مرحوم سے مل کر موضع لکھوکے میں1850ء کے لگ بھگ ’’مدرسہ محمدیہ ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ متحدہ پنجاب کےضلع فیروز پور میں اہل حدیث کا یہ اوّلین مدرسہ تھا ایک صدی تک لکھوکے اس مدرسہ کا فیض جاری رہا اور اس درسگاہ سے ہزاروں علمائے کرام مستفیض ہوئے ۔اس مدرسے میں برصغیر کے وہ متعدد حضرات حصولِ علم کے لیے تشریف لائے ، جنہوں نےآگے چل کر برصغیر کے تحقیق وتدریس کے میدان میں بے حدشہرت پائی۔ان میں مولانا حافظ عبد ا للہ روپڑی،مولانا عبد الوہاب دہلوی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبد الواحد غزنوی،مولاناعطاء اللہ حنیف،حافظ عبداللہ بڈھیمالوی رحمہم اللہ کےعلاوہ دیگر بے شمار علماء کرام کےاسمائے گرامی شامل ہیں۔ایک روایت کے مطابق فاتح قادیان شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ بھی مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بن حافظ محمد لکھوی رحمہما اللہ سے ملاقات کے لیے لکھوکے گئےتھے ۔ 1930ء میں مولانا عبدالقادر لکھوی اور ان کے صاحبزادے مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ لکھوکے کے مدرسہ کے ذمہ دار مدرس تھے ۔ تقسیم ملک (اگست 1947) کےبعد اوکاڑہ میں یہ مدرسہ ’’جامعہ محمدیہ‘‘ کےنام سے قائم ہوا جو آج تک کامیابی سے جاری وساری ہےجامعہ محمد یہ کے اولین ناظم ومہتمم مولانا معین الدین لکھوی اور شیخ الحدیث مولانا عطاءاللہ لکھوی رحمہما اللہ تھےجو کہ 26 نومبر 1952 تک یہاں شیخ الحدیث رہے ۔ صاحب تفسیر محمد ی حافظ محمد لکھوی مرحوم بہت بڑے عالم ،محقق،مصنف،مصلح اور پنجابی کے بہت بڑے شاعر تھے۔ حافظ محمد لکھوی نے عربی، فارسی، پنجابی میں تدریسی،دعوتی وتبلیغی اور علمی نوعیت کی تقریبا تیس کتابیں تصنیف کیں ۔ قرآن مجید کا فارسی اور پنجابی میں ترجمہ کیا۔ ان کی پنجابی اشعار کی کتابیں بے حد شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ ان کی پنجابی نظم میں” تفسیر محمدی‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے حافظ محمد لکھوی کو ان کی تدریسی اور تصنیفی خدمات کی وجہ سے مصلح پنجاب کہا جاتا ہے۔ موصوف نے 27؍اگست 1893ء مطابق 13صفر 1311ھ 90سال کی عمر میں لکھوکے ضلع فیروز پور میں وفات پائی ۔(رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ) حافظ محمد لکھوی کے بیٹے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی جلیل القدر عالم اور بدرجہ غایت تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ حج بیت اللہ کے لئے گئے اور مسجد نبوی میں حالت ِ سجدہ میں وفات پائی جنت البقیع میں دفن کئے گئے۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی مرحوم کےبیٹے مولانا محمد علی لکھوی مدنی (دادا ڈاکٹر حماد لکھوی و ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی ) نے ایک عرصے تک اپنے جد ِ امجد اور والد ِمکرم کی مَسند درس پر بیٹھ کر لکھوکے میں طلبہ کو علومِ دین کی تعلیم دی پھر مدینہ منورہ چلے گئے۔ وہاں 46سال مسجد نبوی میں قرآن وحدیث کا درس دیا اورلا تعداد تشنگانِ علوم ان سے فیض یاب ہوئے، جن میں سعودی عرب، الجزائر، شام، مصر، سوڈان، اردن، لیبیا، کویت، نجد اور افریقی ملکوں کے بے شمار علماو طلبا و شامل ہیں۔ مولانا محمد علی لکھوی قرآن وحدیث کا درس دیتے ہوئے مدینہ منورہ میں فوت ہوئے اور جنت البقیع میں انہیں دفن کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر حماد لکھوی بن مولانا محی الدین لکھوی(ڈین شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ پنجاب ،وائس چئیرمین پیغام ٹی وی) اور ڈاکٹر عظیم الدین بن مولانا معین الدین لکھوی (ماہر امراض دل و بلڈ پریشر، معروف سیاستدان) بھی اسی خاندان کےعظیم سپوت ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل میں خیروبرکت کرے اور ان کی مساعی کو شرفِ قبولیت سے نوازے ۔ اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی عظیم علمی شخصیات ڈاکٹر حماد لکھوی ، مولانا حفیظ الرحمن لکھوی ، مولانا خلیل الرحمن لکھوی حفظہم اللہ کے علم وعمل اور عمر میں خیر وبرکت فرمائے کہ وہ اپنے خاندان کی علمی روایت کے امین ہیں۔ا ور اللہ تعالیٰ ان کے بعد ان کے جانشینوں کو اس خاندان کی علمی روایت کوباقی رکھنے کی توفیق دے (آمین) حافظ محمد لکھوی کی زیر نظر کتاب ’’تفسیر محمدی ملقب بہ موضع فرقان ‘‘ اولین منطوم پنجابی تفسیر ہےیہ قدیم پنجابی تفسیر قرآن مجید کی سات منازل کے مطابق سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔یہ تفسیر ’’موضع فرقان‘‘ کے نام سے تالیف کی گئی جوکہ ’’تفسیر محمدی‘‘ کےنام سے معروف ہے۔ صاحب تصنیف نے 1286ھ بمطابق 1869ء میں اس تفسیر کی ابتداء کی اور دس سالوں میں اسے مکمل کیا ۔1288ھ بمطابق 1871ءمیں اس کی پہلی منزل(جلداول) طبع ہوئی بعد ازاں یہ تفسیر کئی بارشائع ہوئی یہ پہلی پنجابی تفسیر ہے کہ اس سے پنجابی خواص وعوام کو بے حدفائدہ پہنچا۔محدث لائبریری،لاہور میں اس کی مختلف طباعت ( 1301،1302،1309،1315،1339،1340، 1342ھ) کی متفرق جلدیں موجود ہیں جن کی فوٹو کاپی ،سکیننگ کرنا مشکل تھی ۔ تو پروفیسر ڈاکٹر حمادلکھوی صاحب کی ذاتی لائبریری سے یہ کتاب لے کر سکین کی گئی ہےاور اسے کتاب وسنت پر سائٹ پر پبلش کیا گیا ہے تاکہ اس قدیم اور نایاب تفسیر کو انٹرنیٹ پر محفوظ کیا جاسکے ۔یہ نسخہ مکتبہ اصحاب الحدیث ،لاہور کا مطبوعہ ہے۔مکتبہ اصحاب الحدیث نے75سال قبل طبع ہونے والے قدیم نسخہ کا عکس لے کر 2002ء میں طبع کیا تھا ۔ تفسیر محمدی میں قرآن مجید کے دو ترجمے بھی شاملِ اشاعت ہیں ایک ترجمہ فارسی زبان میں جو شاہ ولی اللہ دہلوی کی فارسی تفسیر تفسیر فتح الرحمٰن سے لیاگیا ہے اور دوسرا ترجمہ پنجابی نثر میں ہے جو صاحب تفسیر کا اپنا ترجمہ ہے۔حافظ محمد لکھوی نےتفسیرمحمدی کےعلاوہ تقریبا 30 کتابیں تصنیف کیں جن میں ’’ احوال الآخرت ‘‘؛’’زینت الاسلام ‘‘اور پاک وہند کے مدارس دینیہ میں شامل نصاب کتاب ’’ابواب الصرف‘‘ سرفہرست ہیں۔اللہ تعالیٰ لکھوی خاندان کی دینی وسماجی خدمات کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
سیدنا ابو ہریرۃ کی ان138؍139 روایات کا مجموعہ ہےجوانہوں نے اپنے شاگرد ہمام بن منبہ بن کامل الصنعانی کو لکھوائی تھیں اسے ’صحیفہ ہمام بن منبہ‘ کہا جاتا ہے۔ صحیفہ ہمام بن منبہ اگرچہ کتِب احادیث میں متعدد جگہوں میں بکھرا ہوا تھا لیکن اصل صحیفہ مفقود تھا۔ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے دمشق اور برلن کی لائبریری سے مکمل صحیفے کو دریافت کیا اور 1953ء میں پہلی بار اسے شائع کیا جس میں احادیث کی تعداد 138 ہے ۔بعدازاں مصر کے ڈاکٹر رفعت فوزی کومصر کی ایک لائبریری’ دار الکتب المصریہ ‘‘ سے اس صحیفہ کا ایک مخطوطہ ملا۔اس میں احادیث کی تعداد 139 ہے ۔اسے المکتبہ الخانجی ،مصر نے ’’صحیفہ ہمام بن منبہ عن ابی ہریرہ‘ ‘ کے نام سے 1985ء میں شائع کیا۔مختلف اہل علم نے صحیفہ ہمام بن منبہ کے اردو تراجم وحواشی بھی تحریر کیے ہیں ۔زیر نظر صحیفہ ہما م بن منبہ میں موجود 138 ؍احادیث کو بمع عربی متن اردو وانگریزی ترجمہ کےساتھ بیکن ہاؤس ،لاہور نے شائع کیا ہے ۔ آخر میں احادیث کی تخریج اوراختلاف روایات کو بھی درج کردیا ہے(آمین)( م۔ ا)
دینِ اسلام میں علماء کا ایک عظیم مقام ہے، جو ان کی عزت و اکرام کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے لوگ اس میں تساہل کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ بعض طالب علم بھی علماء کے بارے میں غیر شعوری طور پر نامناسب گفتگو کر جاتے ہیں اور صحیح منہج پر ہونے کے باوجود اکثر داعی حضرات اس معاملے کو حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بعض منظم منافقوں کے ٹولے اور سیکولر جماعتیں بھی یہود و نصاریٰ کی پیروی میں علماء پر چڑھ دوڑی ہیں۔ فی زمانہ علماء کی شان و شوکت، عزت وتقدیس،ان کی عظمت و رفعت اور حق گوئی جیسی صفات پر لوگوں نے انگلیاں اٹھانی شروع کردی ہیں۔حالانکہ مقصود و مطلوب یہ تھا کہ علمائے حقہ پر اٹھائے جانے والے ان اعتراضات کا قلع قمع کیا جاتا اور لوگوں کو اس قسم کے طرز عمل سے روکا جاتا کہ وہ علماء کی ہرگز تحقیر نہ کریں اور نہ ہی ان کی عزتوں سے کھیلیں۔اس مختصر رسالہ میں ”علماء کی تحقیر کے اسباب و نقصانات، معاشرے پر اس کے خطرناک اثرات اور ہمارے طرز عمل“سے متعلقہ گفتگو کی گئی ہے جس میں اہلِ علم کی حرمت و تقدیس کے تقاضوں پر محدثین کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔ اس مختصر تحریر میں ،جس کا نام راقم نے ”دفاعِ اہلِ حق“ رکھا ہے، معترضین کے ہتھکنڈوں، علماء کے خلاف پھیلائے گئے اشکالات اور اہل حق کو بدنام کرنے والے وسائل و ذرائع کو جمع کرکے عوام الناس و طلبہ کو ان سے بچنے کی تلقین کی ہے نیز ان کے پہچاننے کے طریقے بھی درج کیے ہیں۔یہ رسالہ راقم نے سن 2015ء میں تحریر کیاتھا لیکن مصروفیت کی نذر رہا۔ اب اسے آن لائن نشر کیا جارہا ہے، جس سے مقصود محض خیر کا پہلو سامنے لانا ہے۔ اس لیے راقم اس کتابچہ کو کسی قسم کے حقوق کے ساتھ نشر نہیں کر رہا اگر کوئی شخص یا ادارہ اس کو کتابی شکل میں شائع کرنا چاہے تو میری طرف سے اجازتِ عامہ ہے۔(ع۔م)
بھگود گیتا؍بھگوت گیتا (Bhagavad Gītā) ہندو مت کا سب سے مقدس الہامی صحیفہ اور بھگود گیتا وشنو بھگوان کے اوتار شری کرشن اور پانڈؤ خاندان کے بہادر جنگجو ارجن کے مابین مکالمے کی منظوم صورت ہے ۔ نیز اس میں ہندودھرم کی تمام سماجی وروحانی اصول وقواعد بھی زیر بحث لائے گئے ہیں ۔بھگود گیتا کے لفظی معنی نغماتِ حب یا محبت کے گیت کے ہیں ۔ گیتا کے دنیا کی ہر معروف زبان میں تراجم ہوچکے ہیں۔ اردو میں خواجہ دل محمد اور رئیس امروہوی کے ترجمے مستند مانے جاتے ہیں۔مصنف کتاب ہذا روشن لعل نے گیتا کے نمائندہ اشعار اور ان کی تشریح کےذریعہ گیتا کاجوہر اس مختصر سی کتاب(بھگوت گیتا) کی صورت میں مجسم کردیاد ہے ۔انٹرنیٹ پرمختلف پی ڈی ایف کی صورت میں گیتا کےمتعدد نسخہ جات موجود ہیں۔جن میں ایک آسان فہم نسخہ کتاب وسنت سائٹ بھی پبلش کیاگیا ہے تاکہ قارئین ہندومت کے سماجی وروحانی اصول وقواعد سے متعارف ہوسکیں۔ہندومت پر تحقیق وتنقیداور کے عقائد ونظریات سے متعارف ہونے کے لیے کتاب وسنت سائٹ پرموجوان کتب(حق پرکاش بجواب ستیارتھ پرکاش از شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری ،ہندو مذہب کی تاریخ اور ہندی مسلمان از عزیز احمد صدیقی،اسلام اور ہندومت ایک تقابلی مطالعہ از ذاکر نائیک، مسلمانوں میں ہندوانہ رسوم و رواج از مولانا عبد السلام بھٹوی) کا مطالعہ مفید ہے ۔(م۔ا)
تحقیق کے لغوی معنیٰ کسی شئے کی حقیقت کا اثبات ہے۔دور ِحاضر میں اصول تحقیق ایک فن سے ترقی کرتاہوا باقاعدہ ایک علم بلکہ ایک اہم علم کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ عالمِ اسلام کی تمام یونیورسٹیوں ، علمی اداروں ، مدارس اور کلیات میں تمام علوم پر تحقیق زور شور سے جاری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اصول تحقیق کا مادہ تمام عالمِ اسلام کی یونیورسٹیوں میں عموماً ا ور برصغیر کی جامعات اور متعدد اداروں میں خصوصاً نصاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ان تمام اداروں میں بھی جہاں گریجویٹ اوراس کے بعد کی کلاسوں میں مقالہ لکھوایا جاتا ہے یا ایم فل وڈاکٹریٹ کی باقاعدہ کلاسیں ہوتی ہیں وہاں تحقیق نگاری یا اصول تحقیق کی بھی باقاعدہ تدریس ہوتی ہے ۔اس طرح اصول تحقیق ، تحقیق نگاری، فن تحقیق یا تحقیق کا علم جامعات اور علمی اداروں میں بہت زیادہ اہمیت حاصل کرچکا ہےتحقیق واصول تحقیق پر متعدد کتب موجود ہیں ۔ زير نظركتاب’’اصول تحقیق‘‘ جناب پروفیسرڈاکٹر محی الدین ہاشمی ومحبوب الرحمٰن کی مشترکہ کاوش ہے ۔یہ کتاب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،اسلام آباد کے کلیہ عربی وعلوم اسلامیہ کےشعبہ فکرِ اسلامی،تاریخ وثقافت کے ایم اے کورس کی نصابی کتاب ہے جوکہ 9؍یونٹس پر مشتمل ہے ۔اس کتاب میں تحقیق کی مبادیات، موضوع کے انتخاب، خاکہ سازی، مقالہ کی تیاری اور حصول مواد کے مختلف ذرائع اور طریقوں سے آگاہ کیاگیا ہے ۔نیز املا، ہجا، رموزِ اوقاف،کمپوزنگ، پروف خوانی، حاشیہ،نگاری، حوالہ نگاری، اشاریہ سازی اور تحقیقی مجلات کی تیاری کے حوالے سےطلبہ میں تحقیقی مہارتوں کو فروغ دینا بھی اس نصابی کتاب کی تیاری کا ایک اہم مقصد ہے ۔اصولِ تحقیق کے طلبہ کی رہنمائی کےلیے یہ ایک مفید کتاب ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنفین کی اس کاوش کوشرفِ قبولیت سے نوازے اور طلبہ میں تحقیقی رویوں کے فروغ کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہےقرآن مجید نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے ۔ قرآن مجید کےساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔لیکن بعض گمراہ ا و رگمراہ گر حضرا ت(منکرین حدیث) حدیث کی حجیت واہمیت کومشکوک بنانے کی ناکام کوششوں میں دن رات مصروف ہیں او رآئے دن حدیث کے متعلق طرح طرح کے شکوک شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن الحمد للہ ہر دور میں علماء نے ان گمراہوں کاخوب تعاقب کیا اور ان کے بودے اور تارِعنکبوت سےبھی کمزور اعتراضات کے خوب مدلل ومسکت جوابات دیے ہیں ۔منکرین کےرد میں کئی کتب اور بعض مجلات کے خاص نمبر ز موجود ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’تاریخ وعقائد ومنکرین حدیث ‘‘حافظ صلاح الدین صاحب کا وہ علمی وتحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے انہوں نے گومل یونیورسٹی،ڈیرہ غازی خاں میں پیش کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔یہ تحقیقی مقالہ حسب ذیل چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔پہلا باب:آغاز منکرین حدیث،دوسرا باب:منکرین حدیث کےتاریخی اور اہم اصول،تیسرا باب: اہل قرآن کی آراء اور ا ن کا ردّ، چوتھاباب: تفسیر کے بارے میں منکرین حدیث کا موقف،پانچواں باب:عقائد منکرین حدیث ،چھٹا باب: منکرین حدیث کی تشریعی آراء۔(م۔ا)
اس روئے ارضی پر انسانی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد حضرت محمد ﷺ ہی ،وہ کامل ترین ہستی ہیں جن کی زندگی اپنے اندر عالمِ انسانیت کی مکمل رہنمائی کا پور سامان رکھتی ہے ۔ رہبر انسانیت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ قیامت تک آنے والےانسانوں کےلیے’’اسوۂ حسنہ‘‘ ہیں ۔ گزشتہ چودہ صدیوں میں اس ہادئ کامل ﷺ کی سیرت وصورت پر ہزاروں کتابیں اورلاکھوں مضامین لکھے جا چکے ہیں ۔اورکئی ادارے صرف سیرت نگاری پر کام کرنے کےلیےمعرض وجود میں آئے ۔اور پورے عالمِ اسلام میں سیرت النبی ﷺ کے مختلف گوشوں پر سالانہ کانفرنسوں اور سیمینار کا انعقاد کیا جاتاہے جس میں مختلف اہل علم اپنے تحریری مقالات پیش کرتے ہیں۔ ہنوذ یہ سلسلہ جاری وساری ہے ۔ زیر نظر کتاب’’ سیرت رحمت عالمﷺ ‘‘ ڈاکٹر ضیاء العمری کی سیرت النبی پر مستند عربی تصنیف السيرة النبوية الصححية کا اردوترجمہ ہے ۔یہ کتاب مصنف کے عالم عرب میں مختلف یونیورسٹیوں میں تیس سالہ تدریس وتحقیق کا نچوڑ ہے ۔ یہ کتاب اپنے منہج اور اسلوب کےاعتبار سےعربی زبان میں سیرت کی ایک منفرد ومستند کتاب ہے جو اپنے منہج سیرت،اسلوبِ تحقیق،واقعاتی صحت واستناد، حدیث وتاریخ میں تطبیق، مستشرقین کے اعتراضات کی مدلل تردید اور محدثانہ سیرت نگاری کاایک جامع شاہکار ہے اور ایک ایسا آئینہ سیرت ہے جس میں اسلامی تصور کی خصوصیات، دعوت وعزیمت کی حقیقی روداد، مدنی معاشرے کی تشکیل اور ریاستِ مدینہ کے آئینی وثیقہ جات،تاریخ یہود فقہی احکام اوران کی قانون سازی کی تاریخ اور اسوہ حسنہ کی علمی وعملی تفصیلات کوتحقیقی میزان میں تول کر پیش گیا۔عربی زبان کے ممتاز مترجم جناب خدابخش کلیار﷾ کے سلیس ترجمہ ، حواشی وتعلیقات کےالتزام نے اس کتاب کوطالبان ِسیرت کے لیے ایک حوالے کی کتاب بنادیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ مؤلف ومترجم کی اس عمدہ کاوش کو قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ کا ذریعہ بنائے ۔ آمین(م۔ا)
شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہے۔ طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔ ۔ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اوراہل فرانس کی پالیسیوں نے اس سرزمین کو چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کرادیا،لیکن قرآن وسنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ پورا خطہ مراد ہے جو عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم میں بھی ملک شام کی سرزمین کا بابرکت ہونا متعدد آیات میں مذکور ہے اوراسی مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرمﷺ کے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں مثلاً اسی مبارک سرزمین کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرماکر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ غرضیکہ یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔ زیر نظر رسالہ ’’سر زمین شام قرآن واحادیث کی روشنی میں‘‘ مولانا اعجاز حسین المدنی کی کاوش ہے انہوں نے اس میں سرزمین شام کے متعلق 9؍قرآنی آیات مع ترجمہ وتفسیر اور کتب احادیث سے 15 ؍احادیث مکمل تحقیق وتخریج اور فوائد کےساتھ اس میں درج کردی ہیں۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔آمین(م۔ا)
اسلام کی فلک بوس عمارت عقیدہ کی اسا س پر قائم ہے ۔ اگر اس بنیاد میں ضعف یا کجی پیدا ہو جائے تو دین کی عظیم عمارت کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عقائد کی تصحیح اخروی فوزو فلاح کے لیے اولین شرط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجی جانے والی برگزیدہ شخصیات سب سے پہلے توحید کا علم بلند کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ اور نبی کریم ﷺ نے بھی مکہ معظمہ میں تیرا سال کا طویل عرصہ صرف اصلاح ِعقائدکی جد وجہد میں صرف کیا عقیدہ توحید کی تعلیم وتفہیم کے لیے جہاں نبی کریم ﷺ او رآپ کے صحابہ کرا م نے بے شمار قربانیاں دیں اور تکالیف کو برداشت کیا وہاں علماء اسلام نےبھی دن رات اپنی تحریروں اور تقریروں میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا ۔ عقائد کے باب میں اب تک بہت سی کتب ہر زبان میں شائع ہو چکی ہیں اردو زبان میں بھی اس موضوع پر قابل قدر تصانیف اور تراجم سامنے آئے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے زیرنظر کتاب’’رسالہ نجاتیہ درعقائد حدیثیۃ‘‘ بارہویں صدی ہجری کے ایک سلفی عالم دین مولانا محمدفاخر زائرالہ آبادی کی تصنیف ہے ۔اصل کتاب فارسی میں ہے اس کا اولین خلاصہ نما اردو ترجمہ علامہ نواب صدیق حسن خان نے کیا ۔دوسرا ترجمہ مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم کی خواش پر حافظ محمد اسحاق مرحوم (شیخ الحدیث دارالعلوم تقویۃ الاسلام،لاہور نے کیا جسے جمیعت اہل حدیث لاہور نے شائع کیا۔کتاب ہذا کےاردوایڈیشن کی تحقیق وشرح کےساتھ مزین یہ تیسری اشاعت ہے ۔تحقیق وشرح کامحنت طلب کام کرنے کی سعادت مولانا محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی اور ابوخزیمہ عمران معصوم انصاری حفظہما اللہ نے حاصل کی ہے ۔شرح وتحقیق سے اس رسالہ کی افادیت دوچند ہوگئی ہے ۔اللہ تعالیٰ مترجمین ،محققین وناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس رسالے کوگمراہی کی دلدل میں پھنسے ہوئے عوام و خواص کی صحیح رہنمائی کا ذریعہ اور آخرت میں سرخروئی کا باعث بنائے ۔آمین (م۔ا)
عیسائیت کے بارے میں جہاں عوام میں پھیلانے کے لئے مختصر اور عام فہم لٹریچر کی ضرورت ہے وہاں اس امر کی بھی شدید ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ کو اس مذہب کی تحقیقی معلومات فراہم کی جائیں اور جو لوگ تقریر وتحریر کے ذریعے عیسائیوں میں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ان کو عیسائیت کے صحیح خدو خال سے آگاہ کیا جائے،ورنہ نامکمل معلومات کی بنیاد پر جو کام کیا جائے وہ بعض اوقات الٹے نتائج پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ زیرنظرکتاب’’البرہان مذہب عیسائیت کا تحقیقی جائزہ‘‘ جناب عبد الرحمن صاحب کی تصنیف ہےجوکہ اپنے موضوع میں ایک شاہکار ، دلائل وبراہین کا خزینہ اور عیسائیت کی حقیقت تک پہنچنے کاسفینہ ہے۔فاضل مصنف نے عیسائیت کے قدیم وجدید مراجع وامہات الکتب سے استفادہ کر کے تحقیقی انداز میں اسے مرتب کیا ہے اور بڑے عمدہ انداز میں اس کتاب میں مسیحیت کے تقریباً تمام چنیدہ مسائل کوزیر بحث لاکر نا صرف ان کی حقیقت کو واضح کرنے کی ایک خوبصورت سعی کی ہے بلکہ سیدنا مسیح کی پیش کردہ تعلیمات کی روشنی میں مسیحیت کی اصلاح کی ممکنہ کوششوں کوبھی بروئے کار لائےہیں ۔اللہ تعالیٰ مصنف وناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائے اور اسے غیرمسلموں کی رشدوہدایت کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
صحابہ کرام کی مقدس جماعت ہی وہ پاکیزہ جماعت ہے جس کی تعدیل قرآن نے بیان کی ہے ۔ متعدد آیات میں ان کے فضائل ومناقب پر زور دیا ہے اوران کے اوصاف حمیدہ کو ’’اسوہ‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔ اوران کی راہ سے انحراف کو غیر سبیل المؤمنین کی اتباع سے تعبیر کیا ہے ۔ الغرض ہر جہت سے صحابہ کرا م کی عدالت وثقاہت پر اعتماد کرنے پر زور دیا ہے۔ اور علماء امت نے قرآن وحدیث کےساتھ تعامل ِ صحابہؓ کو بھی شرعی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔اور محدثین نے ’’الصحابۃ کلہم عدول‘‘ کے قاعدہ کےتحت رواۃ حدیث پر جرح وتعدیل کا آغاز تابعین سے کیا ہے۔اگر صحابہ پر کسی پہلو سے تنقید جائز ہوتی توکوئی وجہ نہ تھی کہ محدثین اس سے صرفِ نظر کرتے ۔ لہذا تمام صحابہ کرام کی شخصیت ،کردار، سیرت اور عدالت بے غبار ہے اور قیامت تک بے غبار رہے گی ۔ لیکن مخالفینِ اسلام نے جب کتاب وسنت کو مشکوک بنانے کے لیے سازشیں کیں تو انہوں نے سب سے پہلے صحابہ کرامؓ ہی کو ہدف تنقید بنایا۔علماء حق نےہردور میں صحابہ کرام پر طعن تشنیع کرنے والوں کاردّ کر کے صحابہ کرام کی عفت وعظمت کو ثابت کیا۔زیرنظر کتاب بعنوان ’’ پرسکون علمی مباحثہ ‘‘ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔یہ کتاب دراصل ایک ایرانی شیعہ مذہبی سکالر پروفیسر ڈاکٹر ابو مہدی محمد حسینی قزوینی اور پروفیسر ڈاکٹر احمد بن سعد حمدان الغامدی ﷾ (مکہ مکرمہ ) کے مابین اہل السنہ اور شیعہ کے درمیان اختلافی پرطویل خط و کتابت کی کتابی صورت کا ترجمہ ہے ۔ ڈاکٹر احمد بن سعد حمدان الغامدی نےاس طویل خط وکتابت کو حوارهادی مع الدکتور القزوینی الشیعی الاثنی عشری کے نام سے مرتب کر کے افادۂ عام کےلیے شائع کیا۔عدالت صحابہ و عصمت ائمہ اور وصیت مزعومہ پر یہ شاندار کتاب ہے ۔مولاناالجبار سلفی ﷾ نےمصنف کی خواہش پر اس کتاب کو اردو قالب میں ڈھالنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔اللہ تعالیٰ مرتب ،مترجم و ناشرین کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے صحابہ کرام پرطعن وتشنیع کرنے والوں کےلیے ہدایت کا ذریعہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا مشکل کا شکار ہے۔ اس وبائی مرض نے نظامِ حیات تباہ کر کےرکھ دیا ہے ہنستے کھیلتے شہر وایرانی کا منظر پیش کررہے ہیں اور انسانوں کو گھروں تک محدود کردیا ہے ۔ہر طرف نفسا نفسی اور افراتفری کا عالم ہے ۔جنگلی جانوروں نےشہروں میں بسیرا شروع کردیا ہے ۔یہ ایک آزمائش بھی ہے اور عذاب کی صورت بھی ہو سکتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے اس وقت دنیا بھر کے حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ جن ممالک میں اس وائرس کی وبا شدت اختیار کر چکی ہے وہاں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ ایسے میں بہت سے شرعی مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا اس وبا کی صورت میں مسجد جا کر نماز ادا کرنی چاہیے یا نہیں۔ بہت سے عرب ممالک میں اس وقت مساجد نماز کے لیے بند کی جا چکی ہیں اور عرب علماء کی اکثریت اس رائے سے متفق ہے۔ البتہ پاک و ہند میں اس پر علماء کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر علماء کرام کی مختلف پہلوؤں(جمعہ وجماعت کےلیےمساجد کوبند کرنے کی پابندی،کورونا وائرس کی حقیقت، کورونا مریضوں کےشرعی حقوق وفرائض) پر مختلف تحریریں آچکی ہیں جنہیں بعض احباب نے کتابی صورت میں مرتب کر کے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کیا ہے ۔ واٹس ایپ ، فیس بک کی ان تحریروں کو کچھ وقت کے بعد بوقت ضرورت تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔لہذا ان تحریروں کو محفوظ کرنے کی خاطر انہیں کتاب وسنت سائٹ پر پبلش کیا جارہا ہے تاکہ بوقت ضرورت انہیں نیٹ سے تلاش کر کے ان سے استفادہ کیا جاسکے ۔مستقبل میں 2020ء کا سال ’’ عام الوباء‘‘ کے نام سے موسوم کیا جائے گا۔اہل قلم اس کی سال کی ہولناکیاں اور بھیانک واقعات ونوازل کو کتابی صورت میں مرتب کرتے رہیں گے ۔اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس موذی عالمی وبا سے محفوظ فرمائے ۔(آمین) زیر نظر رسالہ بعنوان’’ نسیم الریاض فی احکام النوازل والامراض (وبائی امراض کے احکام ومسائل)کورونا‘‘ محترم جناب ڈاکٹرحافظ ریاض احمد اثری﷾(مدرس مرکز ابن القاسم ،ملتان ) کی کاوش ہے ۔ موصوف نے ان حالات میں دریافت کیے جانے والے مسائل وسوالات کو یکجا کر کے قرآن وسنت کی روشنی میں انکے شرعی احکام بیان کردیے ہیں ۔باقاعدہ پہلے سوال پیش کر کے پھر قرآن وسنت کی روشنی میں اس کا جواب قلم بند کیا ہے۔الغرض اس مختصر رسالہ میں ہر عام وخاص کے لیے موجودہ حالات کے مطابق بہترین ومفید رہنمائی پیش کی گئی ہے۔صاحب تحریر کی مجلہ’’الاعتصام ‘‘ لاہور ،’’تفہیم الاسلام‘‘ احمد پور شرقیہ اور دیگر جماعتی مجلات ورسائل میں علمی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کے علم وعمل میں خیر وبرکت کریں اور ان کی تدریسی وتحریری مساعی کو قبول فرمائے ۔آمین (م۔ا)
تاریخ کتبِ مذاہب کے مطالعہ سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں ۔ مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم،زرتشت،بدھ ازم ،سکھ ازم ہیں۔او راس بات سے انکار ممکن نہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔جیسا کہ دنیا کے تمام مذاہب کسی نہ کسی درجے میں قتل، چوری ،زنااور لڑائی جھگڑے کو سختی سے ممنوع قرار دیتے ہیں اور تمام قسم کی اچھائیوں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔ زیر نظر کتاب’’مذاہب عالم ایک تقابلی مطالعہ ‘‘ مولانا انیس احمد فلاحی مدنی کی تصنیف ہےانہوں نے اس کتاب میں مناظرانہ اندازکی بجائے معروضی طریقہ اختیارکرتے ہوئے یہودیت ، صابئیب کے علاوہ ہندوستانی مذاہب،جین مت ، ہندومت، سکھ مت، اور بدھ کا مطالعہ پیش کیا ہے ہر مذہب کی تاریخ ،بنیادی عقائد مذہبی کتب ، عبادات کے طور طریقوں اور رسم ورواج، تیوہار اور فرقوں پر تفصیلاً روشنی ڈالی ہے ۔نیز مذاہب کے عقائد،اقدار اور تعلیمات کااسلام سےموازنہ کرکے ان میں اتفاق واختلاف کے وجوہ کی بھی نشاندہی کی ہے ۔(م۔ا)
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی مقدس ومکرم کتاب ہے۔ جو جن وانس کی ہدایت ورہنمائی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ اس کا پڑھنا باعث اجراوثواب ہے اوراس پر عمل کرنا تقرب الی اللہ او رنجاتِ اخروی کا ذریعہ ہے ۔ اس کی تلاوت باعث اجروثواب اسی وقت ہوگی کہ جب اس کی تلاوت آدابِ تلاوت کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر کی جائے ۔آداب تلاوِت میں سے یہ ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم اور تلاوت خالصۃً اللہ کی رضا کے لیے ہو جس میں ریا کاری کا دخل نہ ہو ۔ قرآن مجیدکی تلاوت پر مداومت (ہمیشگی) کی جائے تا کہ بھولنے نہ پائے ۔تلاوت کئے ہوئے حصہ کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ضرور ی ہے ۔قرآن مجید طہارت کی حالت میں با وضوء ہو کر پڑھا جائے ۔تلاوت شروع کرنے سے پہلے تعوذ اور بسملہ پڑھنا واجب ہے ۔ دورانِ تلاوت اللہ کے عذاب سے ڈر کر رونا اور عذاب والی آیا ت پر اللہ کی پناہ مانگنا اور رحمت والی آیات پر اللہ سے دعاء کرنا مستحب ہے ۔سجدہ والی آیات کی تلات کرتے وقت سجدۂ تلاوت کر نا مسنون ہے ۔جب کوئی تلاوت کررہا ہو تو مکمل خاموشی او رغور سے سننا چاہیےاور جب خود تلاوت کریں تودل میں خیال ہوکہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہیں اس لیے نہایت ادب ،سلیقے اور ترتیل سے ٹھر ٹھر کر قرآن مجید کی تلاوت کی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ تلاوت کرنے والے پر خوش ہو ۔ زیر کتاب ’’ الباقیات الصالحات شرح المختارات من اصول القراءات ‘‘ شیخ القراء والمجودین فضیلۃ الشیخ قاری محمد ابراہیم میر محمدی ﷾ کے مرتب کردہ کتابچہ بعنوان المختارات من اصول القراءات کا آسان فہم ترجمہ وشرح ہے ۔ قاری صاحب نے اس مختصر رسالہ میں قرآن مجید کی تلاوت وقراءات کے بنیادی اصول وضوابط کو 103 اشعار کی صورت میں پیش کیا ہےمبتدی طلبہ طالبات ان ابیات؍اشعار کو یاد کر کے قرآن مجید کی تلاوت اور قراءات کےاصول وضوابط کو ازبر کرسکتےہیں۔ طلبہ وطالبات کی آسانی کےلیے مرتب کتابچہ ہذا کےشاگرد رشید جناب قاری اختر اقبال صاحب نے اسے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔مترجم نے اس کتابچہ کا ترجمہ پشتوزبان میں بھی کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مترجم کی اس کاوش کو قبول فرمائے ۔ اور مرتب کی خدمتِ قرآن کے سلسلے میں تمام تدریسی وتصنیفی جہود کو قبول فرمائے اور انہیں ایمان وسلامتی اور صحت وعافیت والی زندگی دے ۔(آمین)(م۔ا)
رواۃِ حدیث کے حالات ا ن کے رہن سہن ،ان کا نام نسب،اساتذہ وتلامذہ،عدالت وصداقت اوران کے درجات کا پتہ چلانے کے علم کو ’’علم جرح وتعدیل ‘‘ اور ’’علم اسماء رجال ‘‘کہتے ہیں علم اسماء رجال میں راویانِ حدیث کے عام حالات پر گفتگو کی جاتی ہے اور علم جرح وتعدیل میں رواۃ ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے یہ دونوں علم ایک دوسرے کےلیے لازم ملزوم ہیں جرح سے مراد روایانِ حدیث کے وہ عیوب بیان کرنا ہے جن کی وجہ سےان کی عدالت ساقط ہوجاتی ہےاوران کی روایت کردہ حدیث ردّکرجاتی ہے۔ تعدیل سےمراد روائ حدیث کے عادل ہونے کے بارے میں بتلانا اور حکم لگانا کہ وہ عادل یاضابط ہے اس موضوع پر ائمہ حدیث اوراصولِ حدیث کے ماہرین نے کئی کتب تصنیف کی ہیں لیکن یہ کتب زیادہ تر عربی زبان میں ہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’ جرح وتعدیل کا ابتدائی قائدہ سوالاً جواباً‘‘ فاضل نوجوان مولانا محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی ﷾ ( فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،مرکز التربیۃ الاسلامیہ ،فیصل آباد ،رئیس ابن حنبل اوپن یونیورسٹی،مدیر دار ابن بشیر للنشر واالتوزیع) کے دوران کلاس جرح وتعدیل کےمتعلق طلبا کےسوالات کےجوابات کی کتابی صورت ہے۔موصوف کے ہونہار دوشاگردوں نے اپنے شیخ محترم ابن بشیر حسینوی کے جرح وتعدیل کے متعلق تدریسی افادات کو افادۂ عام کےلیے مرتب کردیا ہے ۔یہ کتابچہ مدارس دینیہ میں زیر تعلیم درجہ رابعہ کے طلباء وطالبات کے لیے جرح وتعدیل کے نصاب کےطور پر نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے۔مولانا ابن بشیر حسینوی صاحب نےکم عمری میں ہی علوم حدیث میں مہارت حاصل کر تھی اور تحقیق وتصنیف کا ذوق رکھتے تھے یہی وجہ اب وہ دسیوں کتب کے مصنف ،محقق،مترجم کے علاوہ ناشر بھی ہیں ۔بالخصوص علوم حدیث کے موضوع پر متعدد کتب کے مصنف ہیں۔اللہ تعالیٰ ان کی تحقیقی وتصنیفی ،تدریسی ودعوتی جہود کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور اس میں مزید خیر وبرکت فرمائے ۔آمین(م۔ا)
اس دنیا میں انسان کا وجود کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ خالق وحدہ لاشریک کی ایک بامقصد تخلیق کا ظہور ہے۔اور انسان کی تخلیق کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی عبادت اور بہترین عمل کے ذریعے اپنے خالق کا شکر ادا کرے۔ اسلامی نظریہ حیات ہی وہ واحد نظریہ ہے کہ جس میں انسانی زندگی کی ابتداء وانتہاء ،مقصدِ زندگی ،طرزِحیات، تاریخ ، لسانیات ، علمیت ،اور اخلاقیات وغیرہ کے بارے اس قدر تفصیلی اور واقعی معلومات موجود ہیں کہ اس پر "Theory of Everything" کا اطلاق نہیں ہوسکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’اسلامی نظریہ حیات‘‘معروف مذہبی سکالر ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ﷾(فاضل جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ،مصنف کتب کثیرہ،اسسٹنٹ پروفیسر کامساٹس یونیورسٹی،لاہور) کی کاوش ہے ڈاکٹر صاحب نے اسلامی ضابطہ حیات کی روشنی میں اسلام کا عالمی نقطہ نظر اصولی انداز میں اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہےیہ دین کی روایتی فکرکا ایک جامع اور مختصر بیانیہ بن جائے۔اس بیانیے کا ہرہر جملہ ایک ایسی فکر کا حامل ہے کہ جس میں کسی فتنے کا ردّ موجود ہے یا کسی اہم سوال کاجواب پوشیدہ ہے اورمتن کا ہر جملہ دوسرے کےساتھ نہ صرف لفظاً ومعناً مربوط ہے بلکہ اس کے لیے ایک دلیل بھی ہے ۔بیانیئے کا متن اگرچہ مختصر ہےلیکن حواشی میں بیانیہ کی دلیل اور استدلال تفصیل کے ساتھ کتاب وسنت سے نقل کردیا گیا ہے۔ڈاکٹر حافظ زبیر صاحب کےمرتب کردہ جدید اسلوب پر مشتمل عقیدہ کا یہ مختصر بیانیہ(متن) وحواشی کی تفہیم تفصیلی شرح کی متقاضی ہے۔جیسے عقیدہ کے دو مشہور متون ’’ متن العقیدہ الطحاویۃ ‘‘ اور ’’ عقیدہ واسطیہ‘‘ کی تفہیم وتوضیح کےلیے شروح لکھی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مصنف کی تمام تدریسی ، تحقیقی وتصنیفی کاوشوں کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔آمین (م۔ا)
رمضان المبارک کے روضے رکھنا اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ہے نبی کریم ﷺ نے ماہِ رمضان اور اس میں کی جانے والی عبادات ( روزہ ،قیام ، تلاوت قرآن ،صدقہ خیرات ،اعتکاف ،عبادت لیلۃ القدر وغیرہ )کی بڑی فضیلت بیان کی ہے ۔روزہ کے احکام ومسائل سے ا گاہی ہر روزہ دار کے لیے ضروری ہے ۔لیکن افسوس روزہ رکھنے والے بیشتر لوگ ان احکام ومسائل سےلا علم ہوتے ہیں،بلکہ بہت سے افراد تو ایسے بھی ہیں جو بدعات وخرافات کی آمیزش سے یہ عظیم عمل برباد کرلینے تک پہنچ جاتے ہیں ۔ کتبِ احادیث میں ائمہ محدثین نے کتاب الصیام کے نام سے باقاعدہ عنوان قائم کیے ۔ اور کئی علماء اور اہل علم نے رمضان المبارک کے احکام ومسائل وفضائل کے حوالے سے کتب تصنیف کی ہیں ۔ زیر نظر کتاب’’ایمانی بہارکا پیغا م ماہ صیام ‘‘ جناب علی مرتضیٰ طاہر صاحب کی کاوش ہے اس کتاب میں انہو ں ماہِ رمضان کے روضوں کی اہمیت وفرضیت، خصوصیات رمضان،روزے کےفوائد ،فضائل اورثمرات،روزہ دار کےلیے جائز وناجائز امور کے علاوہ رمضان المبار ک کے دیگر جملہ احکام ومسائل کو قرآن وسنت کی روشنی میں آسان فہم انداز میں بیان کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے ۔(آمین) (م۔ا)
قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہےقرآن مجید نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے ۔ قرآن مجید کے ساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔امت مسلمہ کا اس بات بر ہمیشہ اتفاق اوراجماع رہا ہےکہ قرآن مجید کےعلاوہ حدیث وسنت بھی وحی کا درجہ رکھتی ہےاور رسول اللہ ﷺ پر قرآن کےعلاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔لیکن ماضی کےخوارج اورکچھ معتزلہ کی طرح بعض جدید دور کے گمراہ لوگوں نے بھی حدیث وسنت کے وحی ہونے کا انکار کیا ہے اورایک غلط اور گمراہ کن مؤقفااختیار کیا ہے کہ حضورﷺ پر قرآن کےعلاوہ اور کوئی نازل نہیں ہوتی تھی۔ زیر نظر کتاب ’’حدیث وحی ہے‘‘محترم پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری ﷾ (مصنف ومترجم کتب کثیرہ) کی تصنیف ہےموصوف نے اس مختصر کتاب میں عام فہم انداز میں عمومی عقلی اور قرآنی دلائل کے ساتھ ساتھ احادیث صحیحہ سے ایسے تفصیلی دلائل فراہم کیے ہیں جن سے یہ حقیقت بالکل واضح ہوجاتی ہےکہ قرآن مجید کےعلاوہ حدیث وسنت بھی وحی ہےاور نبی اکرمﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی کانزول ہوتاتھا جسے وحی غیر متلو کہاجاتا ہے اور قرآن مجید وحی متلوہے ۔پوری امت کےلیے دونوں قسم وحیوں کی اطاعت اورپیروی لازمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے ساتھ ساتھ اپنے رسول ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم بھی دیا ہے ۔فاضل مصنف کتاب ہذا کے علاوہ کئی دینی کتب کے مصنف ومترجم ہیں جن میں تفسیر البلاغ، قرآن کریم کا اردو وانگلش ترجمہ بھی شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی تدریسی وتعلیمی اور تحقیقی وتصنیفی خدمات کو قبول فر ما ئے(آمین) ( م۔ ا)
شرک ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کوجہنم کے گڑھے میں پھینک دیتی ہے قرآن کریم میں شرک کوبہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے ۔ قیامت کے روزہ عقیدہ توحید کی موجودگی میں اعمال کی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافی تو ہوسکتی ہے لیکن شرک کی غلاظت وگندگی کے ہوتے ہوئے آسمان وزمین کی وسعتوں کےبرابر اعمال بھی بے کاروعبث ہوگے ۔شرک اس طرح انسانی عقل کوماؤف کردیتا ہےکہ انسان کوہدایت گمراہی اور گمراہی ہدایت نظر آتی ہے ۔نیز شرک اعمال کو ضائع وبرباد کرنے والا اور ثواب سے محروم کرنے والا ہے ۔ پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کاسبب شرک ہی تھا۔ مقام ِافسوس ہے کہ اسلامی معاشرہ کے اکثر افراد توحید کی لذتوں سے بے بہرہ ہیں مشرکانہ عقائد واعمال کے اسیر ہوچکے ہیں تو حید کی جگہ شرک اور سنت کی جگہ بدعت نے لے لی ہے ۔اس طرح کی ابتر صورت حال میں عوام الناس کو اسلام کے چشمہ صافی سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے ۔اور بادۂ نبوت کے جرعہ نوشوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کےسامنے شر ک کی مذمت اور توحید کی فضیلت کو واضح کریں۔تا کہ لوگوں کا رشتہ اللہ کی کتاب قرآن کریم اور سول اللہ ﷺ کے فرامین سے براہ راست قائم ہوجائے ۔شرک وبدعت کے خاتمہ اور اثباتِ توحید میں عرب وعجم کےبے شمارعلماء نے گراں قدر کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ جناب عبد الولی عبدالقوی﷾ (مکتب دعوۃوتوعیۃالجالیات ،سعودی عرب )کی زیر کتاب بعنوان’’ حقیقت شرک‘‘ اسی سلسلہ کی کڑی ہے ۔یہ کتاب حسب ذیل چھ فصلوں پر مشتمل ہے
شرک کی تعریف، مذمت اور انواع واحکام ۔کلمہ گومشرکین کے یہاں شرک اکبر کے مظاہر ۔
بعض شرکیہ اقوال وافعال۔ وسیلہ اور شفاعت۔
اللہ کا مختلف اسلوب اور پیرائے میں اہل شرک کودعوت توحید۔ انتشار شرک کے اسباب ومحرکات
مرتب کتاب ہذا اس کتاب کےعلاوہ تقریبا ایک درجن کتب کے مترجم ومرتب ہیں۔ اللہ تعالیٰ مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے لوگوں کے لیےنفع بخش بنائے ۔آمین (م۔ا)
جماعت المسلمین رجسٹرڈ 1975 میں کراچی میں مسعود، احمد صاحب نے بنائی ان کا یہ خیال ہے کہ انہوں نے اپنی جماعت کی بنیاد بخاری مسلم کی صحیح حدیث پر رکھی ہے۔ دراصل انہوں نے اس حدیث کو لیکر بہت سے علمی مغالطے دئیے ہیں حتیٰ کہ اس حدیث کے دیگر طرق کو یکسر نظر انداز کردیا۔ جب اہل علم نے وہ احادیث ان کے سامنے رکھی بالخصوص سنن ابی داؤد میں مروی خلیفہ والی حدیث تو یہ حدیث کے مطابق مفہوم اپنانے کے بجائے زبردستی اسے ضعیف ثابت کرنے پر تل گئے اور حدیث زیر بحث کے سند و متن پر مختلف مغالطے دینے لگے۔ محمد صدیق رضا نے اس جدید فرقہ کا بھرپور علمی تعاقب کیا اور اس حوالے سے وہ کئی ایک مضامین لکھ چکے ہیں جو ملک کے علمی اور تحقیقی رسالوں میں شائع بھی ہوئے جن میں رجسٹرڈ جماعت کے مغالطوں کے علمی اور تحقیقی جوابات دئیے ہیں۔ زیر نظر کتاب سے آپ پر اس کی حقیقت خوب واضح ہو جائے گی۔اس میں مسعود صاحب اور ان کی ٹیم نے سنن ابی داؤد وغیرہ میں مذکور حدیث کی سند و متن پر جتنے اعتراضات کئیے ہیں ان سبھی کا تعاقب خود انہی کے مسلمہ اصول و ضوابط سے کیا گیا ہے۔(ع۔م)