اسلام میں داخل ہونے کےلیے سب سےپہلے کلمۂ شہادت پڑھا جاتا ہےیہ کلمۂ پڑھنےوالے کو کفر کی تمام تر نجاستوں سے پاک کر دیتاہےاس لیے اسے کلمۂ طیبہ کہاجاتا ہے چونکہ اس میں اللہ وحدۂ لاشریک کی توحید کااقرار بھی ہے اس لیے اسے کلمۂ توحید بھی کہا جاتا ہےکلمۂ طیبہ کو شعوری طور پر سمجھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالی کی صفات کے بارے میں اکثر لوگوں نے کہیں نہ کہیں ٹھوکر کھائی اورایسی غلط راہ پر چل نکلے جوانہیں کفر کے راستے پر گامزن کر گئی۔کلمۂ میں دوسری شہادت محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دینا ہے جن کے اسوۂ حسنہ اورسنت کو چھوڑ کرایمان کی سلامتی ممکن ہی نہیں۔کتاب میں انہی دو باتوں پر بحث کی گئی ہے ۔
بسااوقات انسان اپنےوسائل سےاپنی ضروریات یااپنےکاروباری منصوبےپورےنہیں کرسکتاایسے حالات میں پیدا ہونے والے سوالات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔کیا وہ قرض لے سکتاہے؟،قرض کی ادائیگی کس حد تک ضروری ہے؟،ادائیگی میں کیساطرزعمل اختیار کرناچاہیے؟،قرض واپس کروانےکےلیے شریعت اسلامیہ میں کون سے اخلاقی اقدامات ہیں ؟قرض لیتے وقت کوئی شرط لگائی جاسکتی ہے؟ اس کتاب میں ان سوالات کےعلاوہ اور بھی بہت سارے سولات کےجوابات سمجھنےسمجھانےکی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ بات مسلم ہے کہ انتشار واختلاف،تشتت اوافتراق اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والی کوئی چیز ہے تو وہ تقلید ہے آغاز نبوت سے تکمیل دین تک اللہ تعالی او ررسول اکرم ﷺ نےنو ع انسانی کےلیے یہ (تقلید)ناکارہ لفظ قرآن وسنت میں کہیں ذکر نہیں کیا۔ذرا غور فرمائیے اگر اپنے باپ کے ساتھ دوسرے باپ کا تصور نہیں ہوسکتاتو اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اور معبودو مسجوداور ہادئ برحق پیغمبر آخرالزماں ﷺ کے بالمقابل کوئی او رمطاع کیسے ہوسکتا ہے ؟اس رسالے میں فرقہ واریت او رتقلید جیسے اہم مضامیں پر قرآن وسنت کی روشنی میں تفصیل بیان کی گئی ہے ۔جو متلاشیان حق کے لیے مینارۂ نور کی سی حیثیت رکھتا ہے ۔
ایک مصری بزرگ ڈاکٹر محمد بہی کی تصنیف "الفکر الاسلامی فی تطورہ" جس میں امام محمد بن عبدالوہاب ؒ اور آپ کی تحریک احیاء و تجدید دین سے متعلق نہایت کچی، سطحی اور سنی سنائی باتوں پر انحصار کرتے ہوئے خوب زور قلم صرف کیا گیا ہے، کا نہایت متین اور شستہ انداز میں جواب زیر تبصرہ کتاب میں سعودی عرب کے ڈاکٹر محمد خلیل راس نے دیا ہے۔ جس میں ڈاکٹر صاحب کے ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور ایک ایک غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی ثقاہت اور متانت کیلئے یہ عرض کر دینا شاید کافی ہو کہ اسے اسلامک یونیورسٹی مدینہ منوّرہ نے زیور طباعت سے آراستہ کرایا ہے۔
مشہور زمانہ کتاب "الفکر الصوفی" کے مصنف کی خطرناک صوفیانہ افکار کے رد میں ایک مختصر کاوش ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ صوفیانہ افکار امت کیلئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ تزکیہ نفس، احسان، سلوک کے خوشنما الفاظ میں چھپائی گئی شریعت کے متوازی طریقت کے نام سے دین اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والی صوفیت کی اصل حقیقت کو جاننے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ ازحد مفید ہے۔ اس کتاب میں اہل تصوف کے ساتھ بحث و گفتگو کا ایک مختصر نمونہ بھی پیش کیا گیا ہے تاکہ طالب علموں کو ان کے ساتھ بحث و گفتگو کی تربیت حاصل ہو جائے اور وہ یہ سیکھ لیں کہ اہل تصوف پر کس طرح حجت قائم کی جا سکتی ہے یا انہیں کس طرح صراط مستقیم کی طرف لایا جا سکتا ہے۔
زبان عجائبات صفت الٰہی سے ہے اگرچہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتوں اور صنائع لطیفہ میں سے ہے۔ اس کا گناہ بھی سب سے زیادہ ہے اور طاعت بھی سب سے بڑھ کر، کیوں کہ ایمان و کفر کی شہادت زبان ہی سے ظاہر ہوتی ہے۔ دور حاضر میں عوام و خواص ایسی چیزوں میں مبتلا ہیں جو زبان سے صادر ہونے والی مصیبتیں اور گناہ ہیں۔ اس چھوٹی سی زبان میں کیا کیا خوبیاں اور کیا کیا خرابیاں ہیں اس طرف لوگوں کا ذہن جاتا ہی نہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں زبان کی بڑی بڑی آفتوں اور ان سے بچاؤ کی تدابیر کو یکجا کیا گیا ہے ، جن سے بے توجہی اور غفلت عام اور شدید ہے۔ حتی کہ ادراک و احساس اور گناہ کا تصور بھی ختم ہو چکا ہے۔
امت محمدیہ کے افراد کی تلاشی لی جائے تو کسی کی گردن میں کاغذی تعویز لٹک رہا ہوگا، کسی میں چھوٹا سا قرآنی نسخہ۔ کسی میں کوڑیاں اور مونگے تو کوئی کالا دھاگہ باندھے ہوگا۔ کوئی امام ضامن پر تکیہ کئے ہوئے ہے تو کسی کو کالی بلی سامنے سے گزر جانے کا خوف ہے۔ کوئی مصیبت سے بچنے کیلئے تعویذ پہنتا ہے تو کوئی محبت کروانے کیلئے تعویذ کروا رہا ہے۔ قرآن سے دوری نے آج ہمیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ شرک امت کی رگ رگ میں رچتا بستا چلا جا رہا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب شرک کے اسی اہم پہلو یعنی تعویذ گنڈوں اور جائز دم کے درمیان فرق اور احادیث کی روشنی میں ان کے تفصیلی جائزے پر مشتمل ہے۔ کتاب کے آخر میں تعویذ پہننے کو جائز قرار دینے والوں کے شبہات پر مشتمل ایک کتابچہ کا بھی بھرپور جواب دیا گیا ہے۔
قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل ایک ایسی تصنیف ہے جس میں قرٍآن کو مرکزی ہدایت قرار دے کر عصر حاضر کے مسائل پر ایک گہری نگاہ ڈالی گئی ہے اور اس سلسلے میں تاریخ فکر کی نمایاں شخصیتوں پر گفتگو کے علاوہ پاکستان اوراسلامی معاشرے کے اعتبار سے تاریخ کے رجحانات اور ان رجحانات پر غلبہ حاصل کرنے کے منہدج سے متعلق تفصیل سے غور کیا گیا ہے ان معنوں میں یہ ایک غیر معمولی تصنیف ہے اورمطالعے میں بھی ایک گہری توجہ اور ارتکاز کا تقاضا کرتی ہے علمیات کے بنیادی مسائل سے طریق انقلاب کی تفصیلات تک پھیلتی یہ کتاب عمر بھر کے تفکر کا ثمر ہے اور ہماری تاریخ فکر میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے ۔
زیر نظر کتاب میں شیخ ابوبکر الجزائری حفظہ اللہ نے شیعہ کی سب سے مستندکتاب’’الکافی‘‘الکلینی کا بنظر غائر مطالعہ کرکے سات ایسے بدیہی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جوقرآن وسنت سے بالکل متصادم ہیں اور فکری ومذہبی تعصب کی عینک کو اتار کرشیعہ حضرات کو اپنے مذہب کی ان باتوں پر غائرانہ نظر ڈالنے کی نصیحت واپیل کی ہے تاکہ حق کو حق سمجھ کرباطل سے کنارہ کشی اختیار کریں مذہب شیعہ سے تعلق رکھنے والےباضمیر،صاحب عقل اور ہر حق کے متلاشی کےلیے نہایت ہی گرانقدرتحفہ ہے۔
یہودیت او رشیعیت کےمشترکہ عقائد:یہ کتاب مصنف حفظہ اللہ کی عمدہ ونادر شاہکار میں سے ایک ہےجس کے اندر یہودیت اور شیعیت کی اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں کی نقاب کشائی کی گئی ہے اوریہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلام کے خلاف سب سےپہلا فکری یلغار عبداللہ بن سبایہودی یمنی کی طرف سے کیا گیا جس نےبظاہر اسلامی لبادہ پہن کر اسلام کے خلاف ایسا رکیک حملہ کیا جس کا زخم آج تک مندمل نہیں ہوسکا۔نیز یہ ثابت کیا گیا کہ یہودیت اور شیعیت کےافکاروعقائدکافی حد تک مماثل ومشابہ ہیں گویا کہ شیعیت یہودیت کی شاخ وپیداوار یہ ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔
’’صالحہ بیوی کی صفات‘‘یا ’’اللہ سبحانہ وتعالی نےخاوند کے اس کی اہلیہ پر جو حقوق فرض کیے ہیں ‘‘یہ اس کتاب کا موضوع ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دور کی خواتین کو اس موضوع کی معرفت حاصل کرنے کی انتہائی ضرورت ہے اوریہ اس لیے ہے کہ امت عمومی طور پر اس مسئلے میں کوتاہی وسستی کا شکار ہے جبکہ خواتین خاص طور پر انتشاروخلفشاراو رپس وپیش کا شکار ہیں وہ عمومی طورپر بری خصلتوں او ربرائیوں پر راضی ہیں ابلیس او راس کے لشکر کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں او ریہی وہ سبب ہے جس کی وجہ سے اس چیز سے اعراض کیے ہوئے ہیں جسے اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے مشروع کیا تھا کہ وہ اس کی حیات کےلیے منہج او ران کی نجات کے لیے سبیل ہو۔پس یہ وہ ہمہ گیر تباہی پھیلادینے والا ریلا تھا جس کی وجہ سے دل او رچہرے اپنے رب او راپنے خالق سبحانہ وتعالی سے پھیر دیئے گئے اور شیطان ان پر مسلط ہوگیا تو اس نے اس امت کو اس کادین بھلادیا۔یہ کتاب مسلمان زوجہ کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے اس کے شوہر او راس کے گھر کے متعلق جو ذمہ داریاں اس پر عاید کی ہیں وہ انہیں اداکرےاور یہ مختصر سی کتاب مسلمان بہنوں کو ان کے خاوندوں کے حقوق کی وضاحت کے بارے میں ایک یاددہانی ہے امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعے انہیں فائدہ پہنچائے گا او رہ اپنے شوہروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گی وہ بے حیائی کی تشہیر کرنے والی عورتوں کے پیچھے نہیں چلیں گی جنہوں نے دختران عصر سے حیا کی چادر اتار ڈالی۔
ہمارے معاشرے میں آج اکثر لوگ تمام امور زندگی میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ معاملات میں اعتدال اور میانہ روی نہیں، جس کی وجہ سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہےا ور افراد خانہ میں محبت و الفت مفقود ہو جاتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ دین سے دوری اور قرآن و سنت سے نا آشنائی ہے۔ زیر تبصرہ رسالہ میں اسی معاشرتی مسئلہ پر گفتگو کی گئی ہے۔ اور گھریلو اور ازدواجی زندگی کو باسعادت، خوشگوار اور پرسکون بنانے کیلئے قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی مہیا کی گئی ہے۔ امید ہے کہ اس رسالے کے مطالعہ سے خاوند اور بیوی دونوں کو کتاب و سنت کے مطابق نہ صرف اپنی تربیت کا موقع میسر آئے گا بلکہ خوشگوار اور پرسکون زندگی گزارنے کا ڈھنگ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔
سیدنا انس ؓامیہ کے دور میں رویاکرتے تھے کہ عہداول کادین باقی نہیں رہا لیکن اگر وہ ہمارے اس دور کو دیکھتے تو کیاکہتے ؟کیا وہ ہمیں مشرک قرار نہ دیتے اور ہم انہیں کوئی برا نام نہ دیتے کیونکہ اس وقت اور آج کے اسلام میں اب اگر کوئی مشترک چیز باقی رہ گئی ہے تووہ فقط لفظ اسلام ہے یا چند ظاہری ورسمی عبادات ہیں اور وہ بھی بدعت کی آمیزش سے پاک نہیں ۔کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ہمارے پاس محفوظ تو ہیں لیکن بدنصیبی یہ ہے کو دونوں مہجور و متروک ہیں طاقوں او رالماریوں کی زینت یا کنڈوں ،تعویذوں میں مستعمل ہیں۔مسلمان اپنی عملی زندگی میں ان سے بالکل آزاد ہیں اوربا وجود ادعائے اتباع ان سے مخالف چل رہے ہیں ۔اجمیر کا عرس دیکھنے کےبعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ وہی مسلمان ہیں جوعامل قرآن اور علمبردارتوحید تھے ؟یہ کتابچہ قبرپرستی کیوں کر پھیلی ،اسباب اور فتنہ قبرپرستی کے انسداد کےلیے وسائل وذرائع کی اہم مباحث پر مشتمل ہے ۔نیزیہ کتابچہ مصلحین امت کو یہ سبق دیتاہے کہ وہ اٹھیں او رعلماء سوء کے اس شرذمۂ مشومہ کے چہرہ سے نقاب الٹ دیں تاکہ مسلمان اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ ان بڑی بڑی پگڑیوں کے نیچے شیطان کو سجدہ کرنے والے سر ہیں او ران لمبی گھنی ڈاڑھیوں کی اوٹ میں کفروریا کی سیاہی چھپی ہوئی ہے ؟
اپنے موضوع پر یہ اردو میں پہلی کتاب ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں خانہ کعبہ یا مسجد حرام کی مکمل تاریخ نہیں لکھی گئی۔ البتہ بہت سی باتیں بطور مناسبت ذکر کی گئی ہیں۔ خانۂ کعبہ اور مسجد حرام کے حدود اور ان اضافوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں۔ نیز فضائل کعبہ کی بحث بھی شامل ہے تاکہ مقام مقدّس کے زائرین کے لئے مزید توضیح کا سبب ہو۔ ضمناً کچھ بیان حجر اسماعیل اور غار کعبہ کے بارے میں بھی آ گیا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے عمدہ کتاب ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے بیس سودی قوانین کا قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینے کے سلسلے میں ایک سوالنامہ جاری کیا تھا۔ جس کے ذریعے ملک کے معروف علماء و ماہرین معیشت اور ماہرین قانون سے ربا (سود) کی تعریف، غیر سودی بینکاری کی عملی صورت، حکومت کی جانب سے جاری کردہ قرضوں پر سود کا مسئلہ، بینکوں سے غیر سودی قرضے حاصل کرنے کی متبادل تجاویز، نجی سرکاری بنکاری میں امتیاز کا مسئلہ، زر نقد کے استعمال پر معاوضہ لینے کےمسئلہ کرنسی کی قیمت میں کمی کے اثرات، ملکی و غیر ملکی تجارت کو کامیابی سے چلانے کے سلسلے میں تجاویز، پراویڈنٹ فنڈ اور سیونگ اکاؤنٹ پر نفع، تجارتی و غیر تجارتی قرضے وغیرہ کے بارے میں ان کی ماہرانہ آراء اور متبادل تجاویز طلب کی تھیں۔ فاضل مصنف نے اس سوالنامے کا نہایت دقیع اور تحقیقی جواب دیا تھا جو کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ عوام الناس میں سود کو حلال قرار دینے کیلئے مختلف شبہات پھیلانے والوں کو بھرپور جوابات دینے کے ساتھ اسلامی متبادل نقشہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔
حرمت سود ایک بدیہی حقیقت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی فکر کے غلبہ کے اس دور میں ہزاروں اذہان ہیں جو پروپیگنڈے کی قوت سے متاثر اور نتیجتاً ذہنی پریشانی اور روحانی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی کچھ طبقات سود کے مسئلہ پر غلط فہمیاں پیدا کر رہے ہیں اور ربا اور سود میں تفریق کر کے گمراہی کا دن رات پرچار کر رہے ہیں۔ حالانکہ کتاب و سنت میں سود یعنی ربا کو واضح طور پر ، قطعیت کے ساتھ، بغیر کسی شک و شبہ کے اور بغیر کسی اختلاف رائے کی گنجائش کے حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ حرمت ان ضروریات دین میں سے ہے جس کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہ انسان کو اسلام ہی سے خارج کر سکتا ہے۔ لہٰذا یہ اتنا نازک معاملہ ہے کہ اس پر اظہار رائے بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں معروف محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی نے ایک طرف سود کے تصور کو بڑی صحت اور علمی دیانت کے ساتھ بڑے مؤثر دلائل کے ذریعہ پیش کیا ہے اور دوسری طرف اسلامی خطوط پر بچت، قرض اور سرمایہ کاری کا ایک واضح نقشہ پیش کیا ہے۔ طالبان حق کیلئے اس مختصر و جامع کتاب میں یقیناً بڑی روشنی اور راہنمائی ہے۔
احترام مساجد، حرمت قرآن اور ناموس رسول ﷺ کے معاملات میں جانیں قربان کر دینے کی حد تک زود حس واقع ہونے والی ہماری قوم سود کے معاملے میں جو بموجب حکم خداوندی "خدا اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کھلی جنگ ہے" بالکل بے حس ثابت ہوئی ہے۔ اتنی بڑی تنبیہہ ہمارے جذبات و احساسات میں کوئی ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا نہیں کرپاتی اور سود سے ہم اتنی بھی کراہت محسوس نہیں کرتے جتنی کہ شراب اور لحم خنزیر سے۔ اس میں ہمارے ان علماء کا بھی دخل ہے جو سود اور ربا کے درمیان فرق کر کے سود کو مباح قرار دیتے ہیں اور ان نام نہاد روشن خیال دانشوروں کا بھی جن کا ایمان ہے کہ آج کے دور میں سودی بینکاری کے بغیر کسی ملک کا معاشی نظام چل ہی نہیں سکتا۔ زیر تبصرہ کتاب اسلامی معاشیات کے ماہر اور حکومت پاکستان کی آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس میں اعلیٰ عہدہ پر فائز شخصیت محمد اکرم خان کی تالیف ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں انہوں نے سود اور ربا میں تفریق کی گمراہی کا پردہ چاک کیا ہے اور دوسرے حصے میں غیر سودی مالیات کی معقول اور قابل عمل تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
قرآن پاک مذہب اسلام کاایک بڑامأخذ وہ کتاب ہے جس کو اس کے ماننے والے یعنی مسلمان مکمل طورپر کلام الہی تصورکرتے ہیں اورمسلمان اس امر پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ قرآن پاک تمام انسانیت کےلیے رہنمائی حاصل کرنے کا ایک عظیم سر چشمہ ہے یہ تمام تر انسانیت کورہمنائی فراہم کرتاہے اور یہ ہر ایک دور سے ہم آہنگ ہے قرآن پاک اللہ کی آخری اور حتمی کتاب ہے اور یہ معجزوں کا معجزہ ہے اس کے ساتھ یہ انسانیت کےلیے رحمت ہےاس کتاب’’قرآن پاک اورجدیدسائنس)) میں اس اعتقاد کا جائزہ لیا گیا ہے ۔کتاب دوحصوں پرمشتمل ہے پہلے حصہ میں قرآن پاک کا چیلنج،ہائیڈرالوجی،علم الجنین اور دوسرے حصہ میں قرآن پاک او ربائبل سائنس کی روشنی میں جیسی اہم مباحث کوبیان کیا گیا ہے
دینی احکام ومسائل کی معرفت ہرمسلمان کےلیے انتہائی ضروری ہے لیکن اکثر مسلمانوں کو دین کے موٹے موٹے اور کثیرالاستعمال مسائل کا بھی علم نہیں ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں اس کمی کو پورا کرنے کےلیے اہل علم دن رات محنت کررہے ہیں اللہ رب العزت ان تمام علمآء کی محنت کو قبول فرمائے۔اس کتاب میں اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح احکام کا انتخاب کیا گیا ہے اور اس کی تحقیق وتخریج بھی کی گئی ہے ۔مثلا ً نیت کے احکام، رات کو پیش آنےوالے 265 مسائل کا شرعی حل ،چہرے کے احکام ،زکوۃ کے احکام اور وقت کے احکام کی مفید مباحث کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے احکام کو بیان کیا گیا ہے۔
تحفظ ناموس رسالت ﷺ تمام عبادتوں کامغز ہے اوریہ ایسی اعلی وارفع عبادت ہے جس پر تمام عبادتیں قربان کی جاسکتی ہیں تحفظ ناموس رسالت ﷺ ہر مسلمان کے ایمان کی روح ہے ۔اورحضور نبی کریم ﷺ کی عزت وناموس کا تحفظ ہرمسلمان کااولین فريضہ بھی ہے ۔کچھ ایسے بدبخت اور دیوث انسانوں کا (جنہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی توہیں او رتذلیل ہے )ایسا گروہ بھی ہے جومعمولی دنیاوی ومادی لالچ میں آ کر کائنات کی محبوب ترین ہستی حضرت محمد ﷺ کی توہین کرتاہے ۔کیونکہ یہ سرپرستان گستاخان رسول جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی کل کائنات،ان کی محبتوں کاقبلہ اور ان کی اخروی شفاعت کا واحد اور آخری سہاراصرف اور صرف ذات محمد ﷺ ہے ۔اس لیے یہ ملعون گاہےبگاہے امت مسلمہ کی غیرت کا ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ امت مسلمہ اپنے نبی کے ناموس کے مسئلہ پر کتنی غیرت مند ہے ۔ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ کرنے والٰے مجاہدین وشہداء کی روشن تاریخ مفوظ ہے ضرورت اس بات کی تھی کہ گستاخان رسول ﷺ کی تاریخ بھی محفوظ اورمرتب ہوتاکہ آنے والی نسلیں ان ملعونوں کی ناپاک حرکات سے آگاہ ہوسکیں ۔گستاخان رسول ﷺ کا یہ سلسلہ ’’سلمان رشدی سے لے کرگوہر شاہی تک‘‘’’راجپال کے جانشین ‘‘ کی صورت میں پیش خدمت ہے ۔امید ہے کہ یہ کتاب امت مسلمہ کی آنکھیں کھول دینے کےلیے کافی ہوگی۔
یہ کتاب ’’تین کے بنیادی اصول اور ان کی شرح‘‘کااردوترجمہ ہے کتاب ہذاکی افادیت اور اہمیت اس کےنام سے ہی واضح ہے ۔یہ کتاب طلباء اور عامۃ الناس کے لئے یکساں مفید ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کیونکہ عقیدہ کی اصلاح اور درستگی کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں نہ ہی قابل قبول ہے اور نہ ہی باعث اجروثواب ہے خواہ وہ عمل طاہری طور پر کتنا خوشنما کیوں نہ ہواور پھر درست اعمال کے بغیر کسی بھی انسان کی اخروی نجات ممکن نہیں ۔اس کے علاوہ مصنف اور شارح کا انداز تحریر علمی ومنطقی ہے اور دقیق عبارات والفاظ کاترجمہ کرتے ہوئے قوسین میں مزید وضاحت بھی کردی گئی ہے ۔
علم ایک نور ہے اور اللہ تعالی کی صفت ہے جس سے ایک طرف جہالت کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں تو دوسری طرف انسان کی چشم بصیرت روشن ہوتی ہے اسی وجہ سے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ کہ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان(مردو عورت)پر فرض ہے۔قارئین کرام صفت علم کے بارےمیں حقائق اور یہ جاننے کےلیے کہ حقیقی علم کونسا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جاسکتاہے نیز اس سے متعلقہ دیگر ضروری مباحث ومسائل جیسے علم کی تعریف،اس کے فضائل وثمرات،حصول علم کاشرعی حکم اسی طرح طالب علم کے آداب،تحصیل علم پر معاون اسباب اور ساتھ ہی ساتھ علم حاصل کرنے کے وسائل اور طرق ۔ان سب امورپر مطلع ہونے کےلیے کتاب ہذا آپ کی خدمت میں پیش ہے جو ایک مبتدی(ابتدائی جماعت کے طالب علم)سے لے کر تعلیم یافتہ طبقے اور خاص طور پر دینی مدارس اور مذہبی حلقوں سے وابستہ سب حضرات کے لیے یکساں مفید ہے۔
کائنات کے معرض وجود میں لانے کی غرض وغایت اور حکمت الہیہ یہی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کو اس کے اسماء وصفات کےساتھ پہچانا جائے او راس حقیقت کا اعتراف کرلیا جائے کہ وہی ذات ہر چیز پر قادر ہے او رکائنات کی چھوٹی بڑی غرضیکہ ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔دعوت الی اللہ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور امت ہردور میں اس کی محتاج رہی ہے اس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر یہ کتاب پیش کی جارہی ہے جس کو چار نکات میں تقسیم کیا گیا ۔1 دعوت الی اللہ کا حکم اور اس کے فضائل ۔2 دعوت الی اللہ کے آداب اور طریقہ کار۔3 دعوت الی اللہ کا محور اور مرکزی نقطہ۔4 مبلغین کے اوصاف۔کتاب مختصر اورمفید ہے جو ہر داعی الی اللہ کے لیے مشعل راہ کامقام رکھتی ہے ۔
اولاد انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تحفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک امانت بھی ہے جس کی کماحقہ حفاظت انسان پر فرض ہے۔اولاد کی تربیت میں اسلامی ماحول کی فراہمی انتہائی ضروری ہے اور اس میں کوتاہی انسان کی پوری زندگی کے لیے وبال بن جاتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر فضل الہٰی صاحب نے اس موضوع کو کما حقہ ادا کرتے ہوئے بچوں کے احتساب کے نام سے تربیت اولاد کے حوالے سے قیمتی مواد فراہم کیا ہے جس کی روشنی میں کوئی بھی شخص اپنی اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کر سکتا ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں جن بنیادی باتوں کو موضوع بنایا ہے وہ درج ذیل ہیں:1۔کیا بچوں کو نیکی کا حکم دینا شرعا ثابت ہے؟کیا نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ بچوں کو نیکی کا حکم دیا کرتے تھے؟2۔کیا بچوں کو برے کاموں سے روکنا ثابت ہے؟کیا ہمارے نبی محترمﷺاور حضرات صحابہ ؓ بچوں کو غلط کاموں سے روکنے کا اہتمام کیا کرتے تھے؟3۔بچوں کا احتساب کرتے ہوئے کون سے درجات،اسالیب اور وسائل استعمال کیے جائیں؟4۔بچوں کا احتساب کون کرے؟ کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ بات کی وضاحت کے لیے قرآن وسنت کو بنیاد بنایا گیا ہے،احادیث کو اصلی مراجع ومصادر سے نقل کیا گیا ہے،صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث سے بھی استفادہ کرتے ہوئے علمائے امت کے اقوال کے ساتھ بات کو مزین کیا گیا ہے،اسی طرح بچوں کے احتساب سے متعلقہ قرون اولیٰ میں نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام ؓ کے ادوار میں بچوں کے احتساب کے واقعات او راحتساب کے مختلف طریقوں کو بیان کر کے بچوں کے احتساب کے لیے شرعی راہنمائی بھی فراہم کی گئی ہے۔
اتباع سنت خصوصاً امور عبادۃ میں ہر عمل کے اصل اور وصف میں ضروری ہے اور شرط قبولیت ہے ورنہ جرم اور موجب عذاب و مواخذہ ہے اور چونکہ دعاء بھی امور عبادۃ میں سے ہے بلکہ مخ العبادہ یعنی عبادت کامغز ہے پس اس میں بھی وہی دعاء عمل صالح اورمقرون بالاجابت ہوگی جو کہ طریقۂ مسنونہ کےمطابق ہو اور وہ دعاء جو طریقۂ مسنونہ کے خلاف مانگی جاتی ہے بدعت اور غیرمقبول ہے ۔چونکہ آجکل اکثر بلاد میں دعاء کا مسنون طریقہ متروک العمل ہوچکا ہے اور خلاف سنت طریقہ پر دعاء مروج ہے ۔اور اسی وجہ سے بے اثر بھی ہے اس رسالہ میں دعاء کی شرعی حیثیت اور مسنون کیفیت مدلل بیان کی گئی ہے او رخلاف سنت کرنے والوں کے تمام بنیادی شبہوں کا جواب دیاگیا ہے تاکہ سنت پر عمل کرنے والوں کےلیے دعاء کاشرعی اور مؤثر طریقہ واضح ہوجائے اور خلاف سنت کرنے والوں پر اتمام حجت ہونے کے ساتھ فریضۂ تبلیغ بھی حق کاحق اداہوجائے ۔