یہ کتاب موسیقی کی شرعی حیثیت کےاہم ترین موضوع پر مشتمل ہے جس میں کتاب وسنت کی روشنی میں سلف کےفہم کے مطابق موسیقی کوکلی طور پر حرام ثابت کیا گیا ہےتاکہ آئے روز میڈیا پر موسیقی سے متعلقہ ہونے والے مذاکروں سے پیدا ہونے والے شکوک وشبہات میں پڑنے کےبجائے کتاب وسنت کے واضح دلائل اور علما ء امت کے فیصلوں کے مطابق اس شیطانی فعل سے مکمل اجتناب کیاجائے تاکہ ہمارے قلوب ایمان کی دولت سے مالا مال ہوجائیں ۔ مؤلف نے بہت عمدگی سے کتاب کوترتیب دیا ہے جس میں سب سے پہلے قرآن کریم کی آیات مبارکہ پھر نبی ﷺ کی احادیث اور پھر صحابہ ؓ اجمعین اور علماء امت کے اقوال باحوالہ نقل کئے ہیں جن سے موسیقی کی حرمت مبیّن ہو جاتی ہے۔
محمد ﷺ کا نام نہ صرف تمام مسلمانوں کے ہاں نہایت عزت واحترام والا ہے بلکہ تمام مخلوقات میں اس اسم کونہایت افضل واکمل جانا اور توقیر کی نظر سے دیکھا گیا ہےاہل ایمان نے جس قدر اس اسم گرامی کی توقیر کی وہ اظہر من الشمس ہے ،دوسرے مذاہب والوں نےبھی اس نام کونہایت عزت واحترام کے ساتھ پکارا او رنظریاتی مخالفت کے باوجود اس میں کوئی بگاڑ پیدا نہ کیا اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو کئی مقامات پر مخاطب فرمایا لیکن جب بھی آپ کا ذکر خیر آیا اکثر کسی صفاتی نام سے پکارے گئےجیسے اے رسول،اے نبی،اےاوڑھ لپیٹ کر سونے والےوغیرہ یہ اللہ تعالی کی خاص محبت وشفقت ہے اپنے اس بندے اور رسول کے ساتھ جس کا ذکر خیر اس کتاب میں ہوگا۔اور یہ مختصر کتابچہ آپ ﷺ کے ذاتی وصفاتی ناموں پرمشتمل ہے ناموں کےساتھ ساتھ ان کے معانی اور مفاہیم کو بھی اجاگر کیا ہے جس سے آگاہی ہر اس آدمی کے لیے ضروری ہے جو نبی ﷺ سے محبت کا دعوی کرتاہے ۔
فاروق اصغر صارم اپنی قابلیت کے اعتبار سے ایک منجھے ہوئے عالم دین تھے جو کہ اس وقت ایک حادثہ کا شکار ہو کر دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں-مصنف کی اس کوشش کے ساتھ ساتھ علم وراثت پر بڑی پختہ گرفت تھی اور مسائل وراثت کے ماہرین میں ان کا شمار ہوتا تھا-زیر تبصرہ کتاب ناپ تول کے اسلامی اوزان اور دور حاضر کے پیمانوں کے درمیان تقابل ، موازنہ وغیرہ کے موضوع پر جامع اور مستند کتاب ہے۔ اور مبتدی ومنتہی جملہ طبقات کے لئے یکساں مفید ہے، جامعیت و وسعت کے اعتبار سے مختلف عہود واَدوار میں عہدِ نبوی کے مطابق ناپ تول وغیرہ کے پیمانوں کو محیط ہے۔ اس کتاب میں اسلامی کرنسی کی تفصیل، ماپنے کے اسلامی پیمانے ، پیمائش کے اسلامی پیمانے، اور کتاب کے آخر میں مسافتِ قصر کی تحدید، سونا، چاندی وغیرہ جیسے اہم مضامین کی تشریح کی گئی ہے۔مصنف نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پائے جانے والے مختلف اوزان کی موجودہ دور کےمطابق بہترین تشریح کر کے ان اوزان کو دور حاضر کےمطابق واضح کیا ہے جس سے شرعی امور کو سمجھنے میں بہت زیادہ آسانی پیدا ہو گئی ہے-
امام عبدالرحمن الجوزی کی کتاب تلبیس ابلیس اپنے موضوع کے اعتبار سے بلندپایہ تصانیف میں سے ایک ہے-مصنف نے اپنے کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے تیرہ ابواب میں مختلف قسم کے بڑے اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے-پہلے باب میں کتاب و سنت کواختیار کرنے کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرے باب میں بدعت اور بدعتیوں کے مختلف گروہوں کی مکمل تفصیل جیسے معتزلہ،خوارج،مرجئہ،وغیرہ کے ساتھ ساتھ خلافت راشدہ پر روشنی ڈالی گئئ ہے-اسی طرح شیطان انسان کو کس طریقے سے گمراہ کرتا ہے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیطان کے مختلف حیلوں کو مختلف ابواب میں مختلف لوگوں کے اعتبار سے تقسیم کیا ہے-مثلا مختلف ادیان کے اعتبار سے شیطان کیسے تلبیس یا اختلاط پیدا کرتا ہے،غلط عقائد کی ترویج کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں شیطان کیسے وسوسے پیدا کرتا ہے،علماء کو گمراہ کرنے کے لیے کیسے حربے استعمال کرتا ہے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے کیسے حربے استعمال کرتا ہے-غرضیکہ مصنف نے جمیع موضوعات اور معامالات کوزیر بحث لا کر یہ سمجھایا ہے کہ شیطان تمام معاملات میں دخل اندازی کس طریقے سے دیتا ہے اور لوگوں کو راہ ہدایت سے کیسے بھٹکاتا ہے-راہ ہدایت کے متلاشی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے-
دنیا کے مختلف ممالک میں حضور نبی کریم ﷺ کے یوم پیدائش پر ''جشن عید میلاد النبی'' کے نام سے بدعات وخرافات کا بازار گرم کیا جاتا ہے –میلاد کو منانے والے اپنے دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ میلاد منانا محبت کی علامت ہے اور نہ منانے والے اپنے دلائل پیش کرتے ہیں کہ محبت کے اظہار کا یہ طریقہ درست نہیں ہے-مصنف نے بھی اپنی کتاب میں عید میلاد کے منانے اور نہ منانے والوں کے دلائل کو اکٹھا کر کے عید میلاد کے قائلین کے دلائل کو پیش کرتے ان کا علمی محاکمہ کیا ہےاور یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہﷺسے محبت کا طریقہ کار وہی اختیار کیا جائے جو صحابہ،تابعین اور اسلاف سے منقول ہے-مصنف نے یہ بتایا ہے کہ جشن عید میلاد کی شرعی حیثیت کیاہے؟ یہ خطرناک بدعت اس امت کے اندر کہاں سے در آئی؟ مصنف نے قائلین کے دلائل کو باری باری بیان کرے ہر ایک الگ الگ جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ مختلف قسم کی جذباتی باتوں کو محبت کا نام دے کر اپنی مرضیاں کرنے کی اسلام قطعا اجازت نہیں دیتا- اپ ڈیٹیہ کتاب پہلے کتاب و سنت ڈاٹ کام پر "عید میلاد النبی ﷺ اور ہم" کے عنوان سے پیش کی جا چکی ہے۔ محترم مصنف نے اس کتاب کا یہ چوتھا ایڈیشن شائع کیا ہے، جس میں کتاب کا ٹائٹل بدل دیا گیا ہے۔ عید میلاد النبی ﷺ کے حق میں ہر سال نت نئی خرافات کو دلائل کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے۔ نیز اسے محبت رسول ﷺ کی نشانی باور کروانے میں سارا زورِ قلم صرف کیا جا رہا ہے۔ اس نئے ایڈیشن میں چند ایسے ہی اعتراضات کا مدلل جواب شامل کیا گیا ہے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ اس کتاب کو دوبارہ ڈاؤن لوڈ فرما لیں۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع ِ انسان کی رشد وہدایت کے لیے انبیاء ورسل کو اس کائنات میں مبعوث کیا،تاکہ ان کی راہنمائی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔انسان اپنے تیئں کتنی ہی کوشش اور محنت کیوں نہ کرلے ، اسے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ زندگی گزارنے کے لیے اسی منہج کو اختیار نہ کرے جس کی انبیاء نے تعلیم دی ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کی بعثت کا مقصد صرف اس کی اطاعت قراردیا ہے ۔جو بندہ بھی نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو انسان آپ کی مخالفت کرے گا ،اس نے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(الحشر:7)اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ِعالی شان کی بدولت صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ دین رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو قرآنی حکم سمجھا کرتے تھے اور قرآن وحدیث دونوں کی اطاعت کویکساں اہمیت وحیثیت دیا کرتے تھے ،کیونکہ دونوں کا منبع ومرکز وحی الٰہی ہے ۔عمل بالحدیث کی تاکید اورتلقین کے باوجود کچھ گمراہ لوگوں نےعہد صحابہ ہی میں احادیث نبویہ سےمتعلق اپنےشکوک وشبہات کااظہارکرناشروع کردیا تھا ،جن کوپروان چڑہانےمیں خوارج ، رافضہ،جہمیہ،معتزلہ، اہل الرائے اور اس دور کے دیگر فرق ضالہ نےبھر پور کردار ادا کیا۔ لیکن اس دور میں کسی نے بھی حدیث وسنت کی حجیت سے کلیتاً انکار نہیں کیا تھا،تاآنکہ یہ شقاوت متحدہ ہندوستان کے چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی،جنہوں نے نہ صرف حجیت حدیث سے کلیتاً انکار کردیا بلکہ اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو عہد نبوی تک ہی قرار دینے کی سعی نامشکور کرنے لگے ۔تو اس فتنہ انکار حدیث کے رد میں برصغیر پاک وہند میں جہاں علمائے اہل حدیث نے عمل بالحدیث اورردِّ تقلید کے باب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہیں فتنہ انکار حدیث کی تردید میں بھی اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں۔اس سلسلے میں سید نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا شمس الحق عظیم آبادی ،مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی،حافظ عبداللہ محدث روپڑی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ،مولانا داؤد راز شارح بخاری، مولانا اسماعیل سلفی ، محدث العصر حافظ محمدگوندلوی وغیرہم کی خدمات قابل تحسین ہیں۔اور اسی طرح ماہنامہ محدث، ماہنامہ ترجمان الحدیث ،ہفت روہ الاعتصام،لاہور ،پندرہ روزہ صحیفہ اہل حدیث ،کراچی وغیرہ کی فتنہ انکار حدیث کے رد میں صحافتی خدمات بھی قابل قدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ اہل علم او ررسائل وجرائد کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے (آمین) زیر نظرکتاب ''دوامِ حدیث'' بھی علمائے اہل حدیث کی دفاع ِ حدیث کے باب میں سرانجام دی جانے والی خدمات جلیلہ ہی کا ایک سنہری باب ہے جو محدث العصر حافظ محمد گوندلوی کے تحقیق آفریں قلم سے رقم کیا گیا ہے۔یہ کتاب در اصل منکرینِ حدیث وسنت کی ان تحریرات کاجواب ہے جن کوغلام احمد پرویز نے ''مقام حدیث'' کے نام سے 1953ء میں شائع کیا تھا۔یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔جلد اول میں ''مقام حدیث'' کے تمام مغالطات کا تفصیلی جواب دیا ہے او رجلد دوم میں ڈاکٹر غلام برق جیلانی کی انکار حدیث پر مبنی کتاب''دواسلام'' کا مکمل جواب تحریر کیا ہے۔ حضرت حافظ محدث گوندلوی نے 1953ءمیں جواب کومکمل کرلیا تھا ۔جو کہ ہفت روزہ ''الاعتصام''،ماہنامہ رحیق''اور ترجمان الحدیث ،لاہور میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔ پہلی بار حافظ شاہد محمود﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی ) نے اس کتاب پر تحقیق وتخریج کا کام کر کے کتابی صورت میں حسن طباعت سے آراستہ کیا ہے ۔اللہ تعالیٰ محدث گوندلوی کی تمام مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور ان کی مرقد پر اپنی رحمتوں کانزول فرمائے ،اور فاضل نوجوان جید عالمِ دین حافظ شاہد محمود ﷾ کی علمی وتحقیقی خدمات بھی انتہائی قابل قدر ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کےعلم وعمل اورزورِ قلم میں برکت فرمائے (آمین)( م۔ا)
اسلام اللہ تعالی کی طرف سے آسمانی دین ہے جس کی دعوت تمام انبیاء کرام نے مختلف اوقات میں مختلف انداز سے دی ہے اور جس نبی کے امتیوں نے اسے قبول کیا انہیں مسلم اور جنہوں نے قبول نہیں کیا انہیں غیر مسلم یا کافر سے نام سے موسوم کیا گیا-دین اسلام کی کی تعلیمات کے نزول کے لیے آخری مسلمہ حیثیت رسول اللہ ﷺ کو دی گئی ہے اسی لیے یہ تقاضا ہے کہ جب تک کوئی شخص آخر الزماں پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا اقرار نہیں کرتا وہ مسلم کے درجے میں داخل نہیں ہوتا-اسی لیے اس کتاب میں مصنف نے ان لوگوں کے حالات کو یکجا کیا ہے جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا اور اسلامی تعلیمات نے ان کواس چیز پر مجبور کر دیا کہ وہ احقاق حق کا اعلان برملا کریں اور ابطال باطل کا اظہار سر عام کر کے کائنات کے سامنے حقانیت اسلام کو واضح کریں-اس کتاب میں مصنف نے ایسے تمام لوگوں کے حالات و واقعات اور قبول اسلام سے پہلے کی حالت اور قبول اسلام کے بعد دلی اطمینان اور پیش آمدہ مسائل کو اکٹھا کر کے غیر مسلموں کو سوچ و بچار کا پیغام دیا ہے اور مسلمانوں کو نعمت اسلام سے سرفراز ہونے کی وجہ سے ایک مبارک باد کا پیغام دیا ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں بغیر محنت کے اتنی بڑی دولت سے سرفراز فرمایا ہے-
انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے زیر تبصرہ کتاب ڈاکٹر ابو عدنان سہیل (اصل نام افتخار احمد ) نے مسئلہ رجم کے اثبات کے لیے منکرین رجم کے علمبردار عنایت اللہ سبحانی کے جواب میں تحریر کی –عنایت اللہ سبحانی نے حقیقت رجم نامی کتاب لکھ کر مسئلہ رجم جوکہ امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ ہے اس کوکمزور کرنے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹرابو عدنان سہیل نے انکار رجم ایک فکری گمراہی کے نام سے اس کتاب کا جواب دیا ہے-مصنف نے عنایت اللہ سبحانی کے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا سنجیدہ انداز میں علمی محاکمہ کرتے ہوئے قرآن وسنت کے دلائل اور صحابہ کرام کے عمل سے شادی شدہ زانی کی سزا رجم کوثابت کیا ہے-اور اسی طریقے سے رجم کی سزا کے منکرین جو کہ باطل تاویلات کا سہارا لیتے ہیں ان کی علمی خیانتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی تعلیمات کے حقائق اور ان کی حکمتوں پر سیر حاصل بحث کی ہے-
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع سود کی لعنت اور اس کی وجہ سے ہونے والا دنیوی و اخروی عذاب ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع دنیاوی زندگی کی بے ثباتی اور موت کی تیاری کو بنایا گیا ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
توحید کے موضوع پر قرآنی دلائل سے مزین ایک عمدہ کتاب ہے۔ جس میں فاضل مصنف نے موضاعتی ترتیب سے آیات کو یکجا کر دیا ہے۔ قرآن جو لاریب کتاب ہے جو رشد وہدایت کا عالمگیر مرکز اور فوز و فلاح کا داعی ہے، توحید جیسے بنیادی عقیدے کی واضح ترین الفاظ میں تشریح بیان کرتا ہے، پھر بھی نام نہاد مذہبی پیشواؤں کی ہٹ دھرمی اور عوام کی جہالت مسلم معاشرے میں شرک کے فروغ کا سبب بن رہے ہیں۔ مصنف خود پہلے شرک و بدعت کی دلدل میں ڈوبے رہے ، بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت نصیب فرمائی۔ اب دوسروں کی فوز و فلاح کا درد ان کے قلم سے جھلکتا ہے۔
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع بچوں کی اسلامی طرز پر تعلیم و تربیت اور اس کے فوائد کو بنایا گیا ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع خواتین کی بلا ضرورت شاپنگ ہے۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
دین اسلام میں جادو کے حوالے سے جس قدر شدید وعید آئی ہے مسلم معاشرے میں اسی قدر شدو مد کے ساتھ یہ اپنے پنجے گاڑنے میں روبہ عمل ہے۔ بہت سے صحیح العقیدہ مسلمان جادوگروں اور شعبدہ بازوں کے ہاتھوں اپنی ایمانی دولت گنوانے میں لگے ہیں۔ یہ کتاب ہمیں بتائے گی کہ دین اسلام میں تمام ٹونوں ٹوٹکوں کا حل انتہائی آسان انداز میں دستیاب ہے ۔ کتاب میں جادوگروں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جادوگروں کے بعض وسائل، اور جادواور جنات کے وجود کو قرآن وسنت سے ثابت کرتے ہوئے جادو کی اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے علاوہ شریعت میں جادو کا حکم اور جادو کے اثر سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ نظر بد کی تاثیر اور علاج پر سیر حاصل اور علمی گفتگو کی گئی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کتاب کے مطالعے کے بعد ہر فرد اپنے عقیدہ وایمان کی حفاظت کرتے ہوئے جادو، نظر بد اور ان سے پیدا شدہ امراض کا علاج قرآن کریم اور ماثور دعاؤں کے ذریعے کر سکے گا۔
اسلام دين فطرت اورقیامت تک باقی رہنے والا مذہب ہے جوزندگی کےہر شعبہ کااحاطہ کرتاہے زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ جس کےمتعلق رسول اللہ ﷺ نے کوئی ہدایات جاری نہ کی ہوں ۔نفسیات انسانی کردار کا مطالعہ کرتی ہے رسول اللہ ﷺ نے انسانی فطرت ،کردار اور سوچ کےبارے میں بڑے واضح اور ٹھوس خیالات کااظہار کیاہے اسول خداﷺ ایک عظیم ماہر نفسیات ہیں لیکن اس طرف توجہ کم دی گئی ہے یہ پہلا موقع ہے کہ ایک جامع کتاب اس موضوع پر نبی کریم بطور ماہر نفسیات شاؔئع ہورہی ہے یہ ایک اچھوتا اور نیا خیال ہے جسے مصنفہ نے نہایت عمدہ پیرائے میں سپرد قلم کیاہے۔کتاب میں جہاں اور بہت سے دلچسپ عناوین قائم کیے ہیں وہیں شادی کے مسائل منشیات کے مسائل اور خوکشی جیسے مرض کی دوا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔
یہ چھوٹا سا کتابچہ محترم سلیم رؤف صاحب کے دیگر اصلاحی کتابچوں کی طرح روز مرّہ زندگی میں سرزد ہونے والی عملی کوتاہیوں، دین سے دوری، مغربیت اور مادہ پرستانہ ذہن کی اصلاح کیلئے نہایت سادہ، شستہ اور رواں واقعاتی اسلوب میں تحریر کی گئی ایک عمدہ کاوش ہے۔ چند صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتابچہ کا موضوع مسلمانوں میں رواج پا جانے والے ہندوانہ عقائد و رسوم و رواج ہیں۔ دردمندانہ انداز میں لکھی گئی ایک خوبصورت اصلاحی تحریر ہے۔
تاریخ گزرے ہوئے زمانے کو اور افراد کوزندہ رکھتی ہے اور مستقبل اس گزری ہوئی تاریخ کی روشنی میں استوار کیا جاتا ہے اس لیے عام طور پر تاریخ کو بڑی احتیاط سے محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بعد والے زمانےمیں گزرے ہوئے دور کی غلط تشہیر نہ ہو جائے-اسی چیز کی ایک مثال سید احمد شہید ؒ تعالی ہے کہ ہندوستان میں ان کے ساتھیوں اورحالات کی موجودگی کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت کو یوں بیان کیا گیا کہ جیسے بہت پرانے ادوار کوکھنگالنے کی کوشش کی گئی ہو-برطانوی مؤرخین نے جس چشم پوشی کا اظہار کیا سو کیا کئی عرب مؤ رخین نے بھی تحقیق کیے بغیر ان واقعات کی روشنی میں سید احمد شہید کی تاریخ کو رقم کر دیا-جب یہ صورت حال ابو الحسن علی ندوی نے دیکھی تو انہوں نے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی اور تاریخ کے اس پہلو کو سچائی کے ذریعے بیضائی بخشی-انہوں نے عربی میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام الأمام الذی لم یوف حقہ من الإنصاف والاعتراف رکھا اور اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ سيد محمدالحسنی سے خود کروایا اور اس کا نام'تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ'خود ہی تجویزفرمایا-
ہندوستان میں تقلید شخصی کا ایسا رجحان پیدا ہو چکا تھا کہ قرآن وسنت کو سمجھنا انتہائی مشکل تصور کیا جاتا اور لوگوں کے اس کے قریب بھی نہ آنے دیا جاتا تھا حتی کہ ان کے دلوں میں یہ چیز پیدا کر دی گئی تھی کہ قرآن وسنت کوسمجھنا عام انسان کا کام ہی نہیں تو اس دور میں شاہ ولی اللہ ؒ نے تقلید کے خلاف آواز حق کو بلند کرتے ہوئے قرآن وسنت کے افہام وتفہیم کو عام کرنے کی کوشش کی –اسی تحریک کو آگے بڑھاتے ہوئے شاہ اسماعیل شہید نے ایک کتاب تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین تحریر فرمائی جس میں مختلف فقہی اختلافات کے بیان کے ساتھ ساتھ تقلید شخصی کا بھر پور رد فرمایا-اس کتاب کے منظر عام پر آنے کےبعد اس کے رد میں ایک غالی مقلد مولوی محمد شاہ پاک پٹنی نے تنویر الحق نامی کتاب کو شائع کر کے شاہ اسماعیل شہید کے دلائل کے اثر کوزائل کرنے کی ناکام کوشش کی -اس کے بعد شیخ الحدیث میاں نذیر حسین محدث دہلوی نے تنویر الحق کے رد میں معیار الحق فی تنقید تنویر الحق کا جواب لکھا جس میں تنویر الحق کا مکمل علمی محاکمہ کیا گیا ہے اور عام فہم انداز کواختیار کیا گیا ہے تاکہ عام قاری کو بھی دلائل سمجھنے میں دقت کاسامنا نہ ہو- معیار الحق کی اشاعت کے بعدمولوی ارشاد حسین رام پوری نے معیار الحق کا جواب دیا جس کا نام انہوں نے انتصار الحق رکھا-مصنف نے کتاب کی تالیف کے بعد یہ دعوی بھی کیا کہ کوئی بھی غیر مقلد اس کا جواب نہیں دے سکے گا-اور الحمد للہ اس دعوی کے جواب میں میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے پانچ شاگردوں نے پانچ جوابات لکھے اور جب معیار الحق اور انتصار الحق دونوں کتابیں مولانا ابو الکلام آزاد کے سامنے پیش کی گئیں تو انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:مجھ پر معیار الحق کی سنجیدہ اور وزنی بحث کا بہت اثر پڑا اور انتصار الحق کا علمی ضعف صاف نظر آ گیا-
تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدید مساعی کے نام سے مولانا اسماعیل سلفی ؒ کے مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے شاہ ولی اللہ کے مشن کی ترجمانی کرتے ہوئے مختلف مکاتب فکر کو قرآن وسنت کی طرف دعوت دینے کی کوشش کی ہے-شاہ ولی اللہ ؒ نے جس دور میں قرآن وسنت کی بالادستی کی فکر کو پیش کیا وہ دور بہت کٹھن دور تھا اور شاہ ولی اللہ کی تحریک کے مقابلے میں تمام مذاہب کے افراد نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی-تقلید جامد کے ماحول میں اجتہاد کے ماحول کو پیدا کرنا اور لوگوں کو مختلف ائمہ کے فہم کے علاوہ کسی بات کو قبول نہ کرنے کی فضا میں قرآن وسنت کی بالادستی کا علم بلند کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا-شاہ ولی اللہ ؒ تعالی نے اس دور میں اجتہاد،قرآن وسنت کی بالادستی،مختلف ائمہ کی فقہ کی ترویج اور لوگوں میں پائی جانے والی تقلید کی قلعی کو کھولتے ہوئے ان تمام چیزوں کی طرف واضح راہنمائی فرمائی-مصنف نے اپنی کتاب میں تحریک اہل حدیث کی تاریخ،اسباب،اور تحریک کے مشن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف علماء کے فتاوی کو بھی بیان کیا ہے-تقلید کا مفہوم،اسباب اور تقلید کے وجود پر تاریخی اور شرعی اعتبار سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف فقہی مسائل کو بیان کر قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کی حقیقت کو بھی واضح کیا گیا ہے-
احادیث کی حجیت اور اس کے ماخذ دین ہونے سے انکار کرنے والے منکرین حدیث جو انکار حدیث کی آڑ میں اصل اسلام ہی سے انحراف کرنا چاہتے ہیں، کے پیش کردہ اصولوں کے رد میں اس کتاب میں بطور مثال ان سے چار سوالات کیے گئے ہیں کہ اگر حدیث بھی قراان کی طرح وحی الٰہی اور قرآن کی تفسیر و توضیح اور اس کے مجملات کی تفصیل نہیں ہے تو قرآن میں مذکور چار مجمل باتوں کی وضاحت کی جائے کہ قرآن حکیم میں ان چار باتوں کا ذکر کہاں ہے جن کی طرف قرآن نے فقط اشارہ کیا ہے؟ اس اعتبار سے یہ کتاب نہایت فاضلانہ اور منکرین حدیث کے لیے ایک زبردست چیلنج ہے۔
فلسفہ اور سائینٹیفک نظریات نیز مغربی مادی ترقی سے مرعوبیت زدہ ذہن لئے ہوئے اور اتباع نفس کے تحت قرآنی آیات کی من مانی تحریف نما تاویل کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے موجودہ دور کے نام نہاد اہل قرآن (منکرین حدیث) رسول اکرم ﷺ کی ثابت شدہ سنتوں میں تشکیک پیدا کرکے سنت کو ناقابل اعتبار قرار دینے کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں منکرین حدیث کی طرف سے بتکرار و شدت پیش کئے جانے والے بنیادی نوعیت کے چار اعتراضات کا تسلی بخش جواب دیا گیا ہے۔ وہ سوالات یہ ہیں:
1۔ کیا "ظن" دین بن سکتا ہے۔
2۔ کیا واقعی حدیث اور تاریخ ایک ہی سطح پر ہیں یا ان میں کچھ فرق ہے؟ (تقابلی جائزہ)
3۔ کثرت احادیث مثلاً یہ اعتراض کہ امام بخاری ؒ کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں۔ وہ آ کہاں سے گئیں اور پھر گئیں کدھر؟
4۔ طلوع اسلام والوں کے ہاں معیار حدیث کیا ہے؟
یہ کتاب دراصل منکرین حدیث کے خلاف لکھی گئی مبسوط کتاب "آئینہ پرویزیت" کا ایک باب ہے۔ جسے اس کی اہمیت کے پیش نظر علیحدہ سے شائع کیا گیا ہے۔
امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ الفاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں۔ اس مسئلے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اسی مسئلہ کی نفیس تحقیق ہے۔ اسلوب بیان سنجیدہ ، محققانہ اور معتدل ہے۔ زبان کچھ حد تک پیچیدہ ہے شاید عوام کو ان علمی نکات کو سمجھنے میں کچھ دقت ہو۔ ممکن ہے یہ کتاب "دلچسپ" نہ ہو اور زبان اور مناظرانہ نوک جھونک کے چٹخارہ پسند حضرات اس سے محظوظ نہ ہو سکیں۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ یہ بلند پایہ تحقیقات پر مشتمل مدبرانہ انداز میں تصنیف کی گئی شاندار کتاب ہے۔ فریق مخالف دیوبندی عالم سرفراز خان صفدر صاحب کی مشہور کتاب "احسن الکلام" کے بھی چیدہ چیدہ گوشوں پر علمی گرفت کی گئی ہے۔
یہ کتاب روز مرّہ کے مسائل سے متعلق فتاوٰی کا شاندار مجموعہ ہے جو محقق عالم ، فضیلۃ الشیخ ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجلۃ الدعوۃ اور ہفت روزہ غزوہ میں سالہا سال سے شائع ہوتے رہے۔ ان دونوں مجلوں میں بکھرے ہوئے ان انمول موتیوں کا جامع مجموعہ اس کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔ جو کہ ہزارہا فتاوٰی جات سے انتخاب ہے۔ نیز ہر فتوٰی مدلل اور کتاب و سنت کے دلائل سے بھرپور ہے۔ اختلافی مسائل پر فریق مخالف کے شبہات پیش کر کے ان کا رد بھی کیا گیا ہے۔ روز مرہ زندگی کے مسائل سے متعلق یہ فتاوٰی بلاشبہ ہر فرد اور ہر گھر کی ضرورت ہے۔ اسے خود بھی پڑھیں ، دوسروں تک بھی جیسے ممکن ہو پہنچائیں۔ نیز ہم اپنے قارئین سے پرزور التماس کرتے ہیں کہ یہ کتاب خود بھی خریدیں اور دیگر احباب کو بھی حسب استطاعت تحفہ کیجئے۔
"اہم
منہاج القاصدین شہرہ آفاق مصنف ابن جوزی ؒ تعالی کی تالیف بےمثل ہے اور اس کی تلخیص ابن قدامہ مقدسی ؒ تعالی نے فرمائی ہے اور بعد میں اردو زبان میں ترجمہ مولانا محمد سلیمان کیلانی ؒ تعالی نے کیا ہے ۔تاریخی اعتبار سے کتاب جس دور میں لکھی گئی ہے وہ دور اور آج کا دور آپ س میں بڑی گہری مماثلت رکھتا ہے۔عقیدے کی خرابی کی انتہا اور بدعملی اپنے عروج پر تھی تو اس وقت ابن قیم الجوزی ؒ نے منہاج القاصدین کے ذریعے اصلاح معاشرہ کی کوشش کی۔مصنف نے اپنی کتاب میں بےشمار موضوعات کو قلمبند فرمایا ہے جن کا تعلق اخلاقیات،اصلاح معاشرہ،اسلام میں داخل کی گئیں غیر شرعی اور غیر اسلامی مندرجات اور تصوف کے نام سے پھیلی ہوئی گمراہی اور بد اعتقادی کی وضاحت فرمائی ہے۔مصنف نے اپنی کتاب میں عبادات اور اسرار عبادات،اخلاقیات،معاش،حلال معاش کی فضیلت،ریا کاری،سود،رشتہ داری اور ہمسائیگی،تزکہ نفس اور سفر کے احکامات کے ساتھ ساتھ بے شمار اصلاحی موضوعات کو شامل کیا ہے۔
علم حدیث ایک عظمت ورفعت پر مبنی موضوع ہے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات سے ہے۔جتنا یہ بلند عظمت ہے اتنا ہی اس کے عروج میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور اس کو مشکوک بنانے کی سعی ناکام کی گئی۔علمائے حدیث نے دفاع حدیث کے لیے ہر موضوع پر گرانقدر تصنیفات لکھیں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی عظمت حدیث کے نام سے عبدالرشید عراقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے عظمت حدیث کےساتھ ساتھ حجیت حدیث ،مقام حدیث،تدوین حدیث،اقسام کتب حدیث،اصطلاحات حدیث،مختلف محدثین ائمہ کرام جو کہ صحاح ستہ کے مصنفین ہیں ان کے حالات اور علمی خدمات،مختلف صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مختلف شروحات حدیث کو اپنی اس کتاب میں موضوع بنایا ہے۔