قرآن کریم اللہ تعالی کی کلام ہے اور اس کا یہ معجزہ ہے کہ اس جیسی کلام کرنا کسی کے اختیار میں نہیں-قرآن کریم اللہ تعالی نے انسان کی راہنمائی کےلیے نازل فرمایا اور اس کے احکامات پر عمل کو لازمی قرار دیا جس سے انسانی دنیا وآخرت کی کامیابی کو سمو دیا-مذکورہ کتاب مولانا وحید الدین خاں کے مختلف دروس وتقاریر کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا ہے-چونکہ مختلف مقامات پر دیے جانے والے دروس کے مابین موضوع کا اشتراک موجود تھا تو اس لیے اس کو کتابی میں شکل میں پیش کر دیا گیا ہے-مصنف نے قرآن کریم کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کریم مخاطب اصل میں انسان ہے-اس لیے مصنف نے جن چیزوں کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:1-قرآن کا مطلوب اصل میں انسان ہے2-مومن کی عملی زندگی کیسی ہونی چاہیے3-انسانی زندگی بامقصد ہونی چاہیے4-خدمت دین میں کون کون سی مشکلات آتی ہیں5-اور ان مشکلات کی صورت میں انسان کو کیا کرنا چاہیے-
قرآن کریم اللہ تعالی کی کلام ہے اور یہ نزول سے لے کر اس زمانے تک اور قیامت تک کے لیے ویسے ہی محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوئی تھی-قرآن کریم اور دوسری کتابوں کے درمیان فرق افضل مفضول اور اکمل وغیراکمل کا نہیں بلکہ بنیادی فرق محفوظ اور غیر محفوظ کا ہے،کیونکہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی بھی کتاب کی بقا اور حفاظت کی ذمہ داری قبول نہیں جبکہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری خود قبول کی ہے جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پہلی کتابیں وقت کے ساتھ ختم ہو جائیں گی اور قیامت تک کے لیے راہنمائی اس کتاب سے حاصل کی جائے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے-مصنف نے اپنی کتاب میں قرآن کریم کے حوالے سے تین مختلف پہلوؤں پر گفتگو کی ہے-1-قرآن اپنی ذات میں اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالی کی کلام ہے-2-یہ کہ قرآن اسی طرح محفوظ ہے جیسے یہ نازل ہوا تھا اور اس میں کسی بھی قسم کا تغیر وتبدل یا کمی وبیشی نہ کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی کر سکتا ہے-3-یہ ایک کتاب دعوت ہے اور اگر اس کی دعوت کو صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو یہ دنیا کو مسخر کر سکتی ہے-
مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہےکہ صحیح بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ یعنی اللہ کی کتاب قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح ترین کتاب ہے بخاری ومسلم ان دونوں کتابوں کو ساری امت نے قبول کر لیا ہے سوائے تھوڑے حروف کے جن پر بعض حفاظ مثلا دار قطنی نے تنقید کی ہے لیکن ان دونوں کی صحت پر امت کا اجماع ہے اور اجماع امت اس پر عمل کرنے کو واجب کرتا ہے اس کتاب میں مصنف نے بخاری کی چند احادیث پر دور حاضر کے منکرین حدیث نے جو اعتراضات کئے ہیں ان کا با التفصیل جواب دیا ہے جس کے مطالعہ سے ان حضرات کی علمی قابلیت اور دیانت و امانت کا خوب نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
رمضان المبارک اپنے فضائل کی وجہ سے دوسرے تمام مہینوں سے افضل مہینہ ہے اسی لیے رسول اللہﷺ اس مہینے کی آمد پر صحابہ کو خوشخبری دیا کرتے اور اس کے فیوض وبرکات کوسمیٹنے کے لیے کمر کس لیا کرتے-مولانا وحید الدین خاں نے اپنی اس کتاب میں روزے کے فضائل کو بڑے احسن انداز سے بیان کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ یہ مہینہ انسان کی کس طرح تربیت کرتا ہے-مصنف نے روزے کے انسانی زندگی پر اثرات،ایک منظم زندگی گزارنے کے لیے روزے کا کردار،اور محنت ومشقت وجدوجہد کے لیے انسانی طبعیت کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے-رمضان صبرو استقامت ،برکتوں ورحمتوں اور کردار سازی کے لیے ایک ساز گار ماحول مہیا کرتا ہے-اس کے ساتھ ساتھ مصنف نے رمضان المبارک کے حوالے سے چند ایک اہم بنیادی مسائل کو بھی بڑے احسن طریقے سے پیش کیا ہے-
علم ایک ایسی شمع ہے جس کی بدولت حضرت انسان کو دیگر مخلوقات پر فوقیت اور برتری حاصل ہے- یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں ہر شخص پر علم کے حصول کو لازمی قرار دیاگیا-زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے علم پر مبنی آیات واحادیث کو دوکتابوں مشکوۃ المصابیح اور ریاض الصالحین سے جمع کردیاہے ، نیز اردو کے ساتھ ساتھ آیات و احادیث کا انگلش ترجمہ بھی کر دیا گیا ہے تاکہ علم کی فضیلت کے پیش نظر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس جانب مائل کیا جاسکے-کتاب میں ان دعاؤں کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے جو ان شاء اللہ حصول علم میں مددگار ثابت ہوں گی-
عالم اسلام میں سے ایک مخصوص حلقے کے اس رویے کی کسی طور بھی تائید نہیں کی جاسکتی کہ اجتہاد کادروازہ بند ہوچکاہے- اگر اس مؤقف کو تسلیم کر لیا جائے تو معاشرہ یقینی طور پر جمود کا شکار ہوکر عصر حاضر میں پیش آمدہ نئے نئے مسائل کے حل سے عاری نظر آئیگا- مزید برآں اجتہاد کا دروازہ خود خدا تعالی نے امت محمدیہ کے لیے کھولا ہے جس کی توثیق متعدد فرامین نبوی سے ہوتی ہے-زیر نظر کتاب میں مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے اجتہاد کا دامن تھام کر غیر تقلیدی رویہ اختیار کرنے والوں پر کیے جانے والے اعتراضات کا علمی جواب پیش کیا ہے-مصنف نے مقلدین کی تنگ نظری اوراس سلسلے میں مسلک اعتدال کا تذکرہ کرتے ہوئے فقہاء کے مابین اختلاف کی نوعیت بیان کی ہے-علاوہ ازیں تراویح کی مسنون تعداد،حلالہ، عید میلاد کے بارے میں قرآن وسنت کا اصل مؤقف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ علامہ کوثری کے افکار ونظریات پر روشنی ڈالی ہے-مزید برآں ایسے ڈھیروں مسائل کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے جو کتاب و سنت کے حامیوں کے مابہ الامتیاز ہیں اورمقلدین حضرات اپنی تقلیدی روش کی بناء پرواضح دلائل کے باوجود ان سے اعراض کیے ہوئے ہیں-
زير نظر مختصر سے رسالہ میں ابوالوفاء ثناء اللہ امر تسری نے مسلک حنفیہ کے اختیار کردہ ان مسائل کو سپرد قلم کیاہے جو قرآن وسنت کی نصوص سے میل نہیں کھاتے، لیکن ہمارے بھائی بعض غلط فہمیوں کو بناء پر اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرنے کو تیار نہیں ہیں-کتاب میں مولانا نے سات مسائل جن میں مفقود الخبر،مرتد کا حکم، حرمت مصاہرت،خیار بلوغ،در دہ دہ،اقتدائے مقیم بالمسافر اور تفریق بین الزوجین جیسے مسائل شامل ہیں پر کتاب وسنت اور مقلدین حضرات کے مؤقف کو بیان کر کے ثابت کیاہاے کہ ان دونوں میں آپس میں کس حد تک تفاوت پایا جاتا ہے- نیز مولانا اشرف علی تھانوی کے رسالہ 'الحیلۃ الناجزہ المحلیلۃ العاجزہ' پر بھی تبصرہ کیا گیا ہے۔
جس طرح سوشلزم سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری انتہاء ہے بالکل اسی طرح موجودہ جمہوریت شخصی اور استبدادی حکومت کی دوسری انتہاء ہے- اسلام ہر معاملہ میں راہ اعتدال کو ترجیح دیتا ہے اسی لیے اس نے خلافت کا نظام متعارف کروایا ہے جس میں ہر شخص کو اس کا جائز حق عطا کیا جاتاہے- زیر نظر کتاب میں خلافت وجمہوریت اور اس کی ضمنی مباحث کو تحقیقی اور علمی امانت کے ساتھ سپرد قلم کیا گیا ہے- کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے-پہلے حصے میں خلفائے راشدین کا انتخاب کس طرح عمل میں آیا ، پر تفصیلی بحث کی گئی ہےپھر اس کے ضمن میں دیگر مباحث جن میں عورت کے ووٹ کا حق اور طلب امارت یا اس کی آرزو جیسے مسائل پر اپنی قیمتی آراء کا اظہار کیا گیاہے-کتاب کے دوسرے حصے میں دور نبوی اور خلفائے راشدین میں مشہور مجالس مشاورت اور اس کی ضمنی مباحث کو درج کیا گیاہے پھر ان تمام اعتراضات اور اشکالات کا حل پیش کیا گیا ہے جو جمہویت نوازوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں-کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں ربط ملت کے تقاضے اور اسلامی نظام کی طرف پیش رفت میں ایک مجمل سا خاکہ پیش کرتے ہوئے مغربی جمہوریت کے مزعومہ فوائد کا جائزہ لیا گیا ہے- جس سے اس بحث کو سمجھنے میں مدد ملے گی کہ موجودہ وقت میں اسلامی نظام حیات کی طرف کیسے پیش رفت کی جاسکتی ہے-
رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے موضوع پر سادہ انداز میں واقعاتی حقائق پر مبنی یہ کتاب اگرچہ حوالہ جات سے مبرا ہے لیکن سلیس اور عام فہم ہونے کی وجہ سے عوام کیلئے اہمیت کی حامل ہے۔ حدیث کے اجزاء میں سے ایک جز سیرت کا علم بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت، اخلاق و فضائل، تبلیغ، عادات و خصائل، غزوات و وفود وغیرہ جیسے جملہ موضوعات کا احاطہ کرتی ایک اچھی تصنیف ہے۔
امام ابن القیم ؒ کی ایک جلیل القدر مبسوط کتاب "زاد المعاد فی ہدی خیر العباد" کے نام سے فن سیرت میں ایک نمایاں اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ جس میں فقہی موشگافیوں، کتب فقہ کے مجادلات، قیل و قال، متعارض اقوال سے صرف نظر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی عملی تعلیم کو پیش کیا گیا ہے۔ زاد المعاد چونکہ ایک ضخیم کتاب ہے جس میں اکثر مسائل عوام کی بجائے اہل علم سے تعلق رکھتے ہیں۔ عوام کی آسانی اور طریقہ نبوی ﷺ کی آسان فہم تشریح کیلئے زیر تبصرہ کتاب میں اسی مشہور تصنیف کی تلخیص کی گئی ہے۔ اسوہ حسنہ کے موضوع پر بلاشبہ یہ ایک شاندار تصنیف ہے۔
الفوز اکیڈمی کے زیر اہتمام معرفت حدیث کے موضوع پر مصنف کے دئے گئے نو لیکچرز کے ابتدائی تین لیکچرز پر مشتمل اس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دین و شریعت کے ایک اہم ماخذ یعنی علم حدیث کو انتہائی سائینٹیفک لیکن سہل انداز میں متعارف کروایا جائے۔ طلبہ کی آسانی کیلئے اس کتاب میں بہت سے چارٹس بنا دئے گئے ہیں، تاکہ وہ اصطلاحات کے مشکل اسباق کو ذہن نشین کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ یہ کتاب ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو حدیث، تاریخ حدیث، تدوین حدیث، اظلاحات حدیث ، کتب حدیث اور دیگر متعلقہ علوم کی ابتدائی واقفیت پہنچانے کیلئے نہایت اہم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارا یہ ذی شعور طبقہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے فکری اور عملی اسلحہ سے لیس ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ پر دین اسلام کو مکمل فرمادیا- دین کی تکمیل کے بعد نہ تو اس میں اضافے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی شخص کو اس میں ردو بدل کی اجازت دی جاسکتی ہے ليكن ہمارے ہاں کچھ لوگ بسا اوقات ایسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو اسوہ رسول ﷺ سے مطابقت نہیں رکھتا ہوتا لیکن تقلید ی میلانات کی وجہ سے اسی پر عمل کو ترجیح دی جاتی ہےاور براہ راست کتاب وسنت سے احکامات اخذ کرنے والوں پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں-اس طرز عمل کی کس حد تک تائید کی جاسکتی ہے، اس ضخیم کتاب میں اسی کا جائزہ بھرپور اور مدلل انداز میں لیا گیا ہے –مولانا ابوالحسن سیالکوٹی نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مقلدین حضرات کے بیسیوں مغالطات کا جواب پیش کیا ہے-ان مغالطات میں سےچند یہ ہیں:1- ہر مسئلے کی سند رسول اللہ تک پہنچانی ضروری نہیں-2-دین کےمعاملے میں قیاس کرنا مشروع ہے-3-فقہ کی کتابیں بڑی آسان ہیں-4-امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں وارد ہونے والی احادیث 5-آئمہ اربعہ پر امام ابوحنیفہ کی فضیلت 6-اہلحدیث ، حدیث کے آسان مسائل پر عمل کرتے ہیں 7- مجتہدین کا کوئی مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف نہیں8-حدیث میں کئی احتمالات ہیں جس کی بناء پر عمل کرنا ناجائز ہے-9- اجتہاد کے ختم ہونے کا دعوی10- امام بخاری امام شافعی کے مقلد تھے-پھر ان ان مغالطوں کے ضمن میں مقلدین کے ڈھیروں ایسے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے جو تقلیدی رجحانات کی وجہ سے کتاب وسنت سے میل نہیں کھاتے-
موسیقی اور گانے بجانے کی اسلام میں شدید مذمت کی گئی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے واضح الفاظ میں اس حوالے سے وعید کا تذکرہ کیاہے لیکن ہمارے ہاں نام نہاد ملا اور صوفیاء حضرات قوالی اور سماع و وجد کے نام پر موسیقی کو رواج دینے پر تلے ہوئے ہیں اور اس ضمن میں وہ کتاب وسنت کی براہین کے ساتھ لہوولعب کرنے سے بھی باز نہیں آتے-زیر نظر کتاب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے قوالی اور گانے بجانے کی اسلام میں کیا حیثیت ہے کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے – کتاب کو اردو زبان کا جامہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے پہنایا ہے- مصنف نے محققانہ انداز میں قوالی اور گانے بجانے کے جواز پر پیش کی جانے والی احادیث کی حیثیت واضح کرتے ہوئے حرمت موسیقی پر آئمہ کرام کے اقوال اور احادیث رسول پیش کی ہیں-
زير نظر کتاب میں مولانا عبدالمنان نوری پوری کے ان مناظرات کو جمع کیا گیا ہے جو وقتا فوقتا مختلف عنوانات پر بذریعہ خط وکتابت ہوئے-ان مکالموں میں کیا مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہے؟کیا تقلید واجب ہے؟تعداد التراویح،مسئلہ رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام جیسے مسائل قابل ذکر ہیں-کتاب کے آخر میں حافظ عبدالسلام بھٹوی صاحب کے تین مناظروں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں پہلا مناظرہ ایک دین اور چار مذہب کے نام سے ہے،جس کا جواب قاضی حمیداللہ صاحب نے اظہار المرام کے نام سے دیا اس کا جواب بھٹوی صاحب نے کشف الظلام کی صورت میں دیا-جبکہ تیسرا مناظرہ سورۃ فاتحہ اور احناف کے نام سے سپرد قلم کیا گیا ہے-
اسلام ايك مكمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں اپنے ماننے والوں کی مکمل راہنمائی کرتا ہے-حضور نبی کریم ﷺ نے ہر عمل کی الگ الگ دعا سکھلائی ہےتاکہ بندہ ہر وقت اللہ کی یاد کو اپنے دل میں موجزن رکھے-اس کتاب کو مقبول عام حاصل ہونے کی سب سے بڑی وجہ اس کی حسن ترتیب , جامعیت اور صحت حدیث کی بناء ہے اس میں مؤلف نے پوری نماز , ضروری اذکار , اور دعائیں جمع کی ہیں جن کا تعلق قرآن و حدیث سے ہے اور باحوالہ ذکر کی ہیں بخاری و مسلم , صحیح ابو داود , جامع ترمذی , سنن نسائی , سنن ابن ماجہ جیسی کتابوں سے حدیث کو نقل کیا گیا ہے جس میں روزمرہ کی بے شمار دعائیں ہیں مثلاً ذکر کی فضیلت و اہمیت ,سونےاور جاگنے کے اذکار , کپڑے پہنے اور اتارنے , قضائے حاجت کے لیے داخل ہونا اور نکلنا , وضوء سے پہلے اور بعد , گھر میں داخل ہونے اور نکلنے , مسجد میں آنے جانے , غم و فکر , بے قراری , دشمن پر بدعا , ادائیگی قرض کی دعا , گناہ کرے تو کیا کرے , شیطان کے وسوسوں سے بچنے , بچہ پیدا ہونے پر مبارک باد کی دعا , اور اس کا جواب , بیمار پرسی کی فضیلت و اہمیت اور اسی طرح ہوا کے چلنے , بادل کے گرجنے اور بارش کے آنے پر تمام قسم کی دعاوں کا ذکر کیا گیا ہے
حرمت رضاعت کتنی بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے؟ اس حوالے سے ہمارے ہاں مختلف مؤقف پائے جاتے ہیں- زیر نظر کتاب میں ابوجابر عبداللہ دامانوی صاحب نے اسی موضوع پر جامعہ عربیہ، بنوری ٹاؤن کے ایک فتوی کا علمی وتحقیقی جائزہ پیش کرتے ہوئے اپنی آراء کا اظہار کیاہے-اور واضح اور محکم دلائل کے ساتھ ثابت کیاہےکہ حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے اس سے کم پر نہیں - مصنف نے کتاب میں جہاں حنفی حضرات کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام احادیث کا اصل مفہوم بیان کیا ہے وہاں ان پرصحت وضعف کا حکم بھی لگایا ہے-علاوہ ازیں حرمت رضاعت کے چند اصول بیان کرتے ہوئے کتاب وسنت کے اصل مؤقف کی جانب راہنمائی فراہم کی گئی ہے
دین اسلام میں تصوف اور رہبانیت کی قطعا کوئی گنجائش نہیں- لیکن صوفیت نے کتاب وسنت کو ظاہر قرار دے کر پس پشت ڈالا اور من گھڑت خرافات کو باطنی قرار دے کر اس کا چرچا شروع کر دیا-انہی باطنی فرقوں میں سے ایک نیا فرقہ '' انجمن سرفروشان اسلام ''ہے جس کا سربراہ ریاض احمد گوہر شاہی ہے- اس کتاب میں ابن لعل دین نے اس فرقہ کے لوگوں سے ملاقاتیں کر کے ، ان کا لٹریچر پڑھ کر تفصیل کے ساتھ ان کے عقائد اور سرگرمیوں پر ایک تحقیقی کتاب مرتب کی ہے-کتاب کے شروع میں مصنف نے گوہر شاہی کے دوجلسوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے جس سے گوہر افشانیوں کے اصلی روپ کا کچھ اندازہ ہوجائیگا-اس کے بعد گوہر شاہی کون ہے؟ اور اس کی مکاریوں کو عیاں کرتے ہوئے ذکرالہی میں صنف نازک کے ساتھ اٹھکیلیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے-پیر صاحب کی مستانی محبوبہ کے ساتھ یاریوں کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ گوہریہ کے خطرناک عقائد اور خودساختہ شریعت پرسے پردہ اٹھایا گیا ہے-اس کے بعد گوہر شاہی کی نازیبا گستاخیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے چند دیومالائی داستانوں اور علم باطن والی روایت کی اصل حقیقت عیاں کی گئی ہے-علاوہ ازیں مصنف نے دلائل کے ساتھ ثابت کیاہے کہ امریکہ اور یورپ گوہر شاہی کی مکمل پشت پناہی کررہے ہیں اور گوہر شاہی ایک بیرونی ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے-
زيرنظر کتابچہ میں تفضیل احمد ضیغم صاحب نے مسلمانوں کے اختیار کردہ ان تہواروں کا تذکرہ کیاہے جن کا مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں لیکن ہمارے ہاں مغری تہذیب سے مسحور ومرعوب طبقہ مسلمانوں میں ان تہواروں کے ذریعے کفرو الحاد کا بیج بونے میں مصروف ہے-مصنف نے انتہائی سادہ اور آسان فہم انداز میں بسنت، ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول کی تاریخی حیثیت بیان کرتے ہوئےان تہواروں کے معاشرے پر منفی اثرات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے-علاوہ ازیں مزدور ڈے، عید کارڈ اور ہیپی نیو ائیر کے سلسلے میں شرعی وضاحت پیش کرتے ہوئے اسلام میں ان تہواروں کی کس حدتک گنجائش ہے، کو قلمبند کیاگیاہے-
مصارف دولت کے مضمون پر اس کتاب میں موصوف نے تین ابواب پر بحث کی ہے اس میں مصنف نے بے شمار دلائل کو کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے پہلے باب میں شرعی احکام کی حکمت بتائی ہے حالات کے لحاظ سے مراعات کی تقسیم , کم استعداد والوں کے لیے مراعات اور زیادہ استعداد والوں کے لیے ترغیبات کی وضاحت فرماتے ہوئے واجبی اور اختیاری صدقات کا بلند درجہ بھی بتایا ہے جبکہ دوسرے باب میں عورتوں کا حق مہر اور اسلام میں دولت فاضلہ یا اکتناز کے حق میں دلائل دیتے ہوئے ارکان اسلام کی بجا آوری کی بھی وضاحت فرمائی ہے اور اس طرح خلفائے راشدین اور فاضلہ دولت پر بحث کرکے امہات المومنین کا کردار اور رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کی بھی نشاندہی کی ہے تیسرے باب میں جاگیرداری اور مزارعت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بنجر زمین کی آبادکاری , جاگیریں بطور عطایا , آبادکاری کے اصول , ناجائز اور غیر آباد جاگیروں کی واپسی , زمین سے استفادہ کی مختلف صورتیں اور اسلام نظام معیشت میں سادگی اور کفالت شعاری کا مقام بتاتے ہوئے مزارعت کے قائلین اور منکرین کے دلائل کا موازنہ بھی کیا گیا ہے۔
اسلامی مہینہ کی بائیس رجب کو منائی جانے والی کونڈے بھرنے کی رسم اب پاک و ہند میں خوب شہرت پا چکی ہے۔ اسے جناب جعفر صادق ؓسے منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ نہ تو یہ ان کا یوم پیدائش ہے نہ یوم وفات۔ یہ رسم دراصل شیعہ حضرات نے کاتب وحی جناب معاویہ ؓکے یوم وفات کی خوشی منانے کیلئے ایجاد کی جسے نام نہاد اہلسنت کہلانے والے مسلمانوں نے بھی لاشعوری طور پراپنا لیا۔اس رسم کے ساتھ لکڑہارے کی داستان بھی وابستہ ہے۔ اس کتابچہ میں اس رسم کی تردید اور اس سے متعلقہ دیومالائی داستان کے خاص خاص حصوں کا علمی ، تحقیقی اور عقلی لحاظ سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے ہندومت اور اسلام کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے- جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو زیر بحث لاتے ہوئے دونوں مذاہب میں تصور خدا پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے- عالم اسلام کی مشہور ومعروف شخصیت ڈاکٹر ذاکر نائک نے غیرمسلموں اور ہندؤوں کی جانب سے دین اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات کا عقلی و نقلی جواب دیا ہے اور ان کی ہی کتب سے ان کے خلاف ایسے واضح اور بین دلائل دیے ہیں جو ہندو مت کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہیں- کتاب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر ذاکر نائک اور مسٹر رشمی بھائی زاویری کے مابین ''گوشت خوری جائز یا ناجائز'' کے موضوع پر ہونے والے دلچسپ اور علمی مناظرے کی روداد قلمبند کی گئی ہے-جسے پڑھ کر قارئین جہاں گوشت خوری سے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ سے آگاہ ہوں گے وہیں ڈاکٹر ذاکر نائک کی جانب سے پیش کیے جانے والے سائنسی استدلالات سے بھی محظوظ ہوں گے-
بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی معاملے میں مختلف وجوہات کی بناء پرکوئی فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں پاتا-ایسی صورت میں انسان کوچاہیے کہ وہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ تعالی سے استخارہ کرے تاکہ پریشان کن صورتحال سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکے-مصنّف نے اس مختصرسے کتابچہ میں استخارہ کے تمام شرعی احکام ومسائل سے آگاہی فراہم کی ہے-استخارہ کی فضیلت واہمیت بیان کرتے ہوئے اس کی حکمت اور آداب پر روشنی ڈالی گئی ہے- اس کے بعد استخارہ کا مکمل طریقہ ذکرکرنے کے ساتھ ساتھ استخارہ کے فوائد پر اپنی آراء کا اظہار کیا گیا ہے –اس کے علاوہ استخارہ سے متعلق دیگر مسائل جن میں استخارہ کا وقت،کیا استخارہ کے کے بعد خواب آنا ضروری ہے؟ اور استخارہ کے بعد انسان کیا کرے؟جیسے مسائل شامل ہیںدورِحاضر میں ٹی وی پروگرامز اور دیگر ذرائع سے استخارہ کا لوگوں کے اذہان میں غیر شرعی مفہوم ٹھونسا جا رہا ہے۔ یہ کتابچہ کتاب و سنّت کی درست راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
دين اسلام ايك ايسا فطری اور عالمگیر مذہب ہے جس کے اصول وفرامین قیامت تک کے لوگوں کے لیے شمع ہدایت کی حیثیت رکھتے ہیں-جبکہ دیگر الہامی مذاہب تحریف کاشکار ہو ہو کر ضلالت وگمراہی کے گڑھوں میں جا پڑے- زیر نظر کتاب میں مولانا ثناء اللہ امر تسری ؒ نے اسلام اور مسیحیت کا موازنہ پیش کرتے ہوئے مسیحیت کے حامی پادریوں کی اسلام کے خلاف لکھی گئی تین کتب کا یکجا کافی و شافی اور مدلل جواب دیا ہے۔-کتاب کے شروع میں اسلام کے اصول مساوات پر روشنی ڈالتےہوئے اس مغالطے کا تفصیلی رد کیا گیاہے کہ اسلام میں عالمگیر ہونے کی صلاحیت نہیں-مزید برآ ں مسیحیت کی عالمگیری پر ایک نظرڈالتے ہوئے اسلام اور مسیحیت کے اصولوں کا موازنہ اور اسلام دین فطرت ہے، کے موضوع پر ایک علمی مقالہ پیش کیا گیا ہے- تقابلی مذاہب کے مطالعہ سے شغف رکھنے والوں اور عیسائی مشنریوں کے گمراہ کن پروپیگنڈوں کے جواب میں یہ ایک جاندار تصنیف ہے۔
جناب غلام احمد پرویز نے تہذیب غالب کے جملہ عوامل وعناصر کو لے کر اسلامی تعلیمات میں سمودینے کے لیے قرآنی مفردات کی خودساختہ توضیح اور مصلحت قرآنیہ کی خانہ زاد تشریح سے خوب کام لیا-ان کی بہت سی توضیحات تشریحات، انتہائی رکیک،دورخیز، اختراعی اور افترائی ہیں-زیر نظر کتاب میں پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی صاحب نے پرویز صاحب کے انہی نظریات کی قلعی کھولتے ہوئے جناب کے نظام ربوبیت کا مدلل انداز میں جائزہ لیا ہے- کتاب کے شروع میں علمی اور تحقیقی انداز میں پرویز اور کارل مارکس کے اشتراکی نظریات میں کس حدتک مماثلت پائی جاتی ہے کی بین مثالیں پیش کی ہیں- اور ملکیت اراضی، ملکیت مال، انفاق اموال اور زکوۃ کے حوالے سے قرآن مجید کا مؤقف واضح کیا گیا ہے-علاوہ ازیں کیا صدر اسلام میں نظام ربوبیت نافذ تھا؟کیا خلافت راشدہ میں دولت فاضلہ کا وجود نہیں تھا؟کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے صدر اسلام کے نظام معیشت کی اصل واساس اور ''مفکر قرآن'' کو اپنے ہی ڈھیروں تضادات دکھا کر موصوف کے دام ہمرنگ زمیں کا شکار ہونے والوں کی راہ اعتدال کی جانب راہنمائی کی ہے-
اس بدیہی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن مجید قیامت تک کے لیے کتاب ہدایت ، جبکہ حضور ﷺ کی سنت تمام مسلمانوں کے لیے دستور العمل ہے-یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں بہت سے کبار علماء کرام نے تقلید جامد کو ترک کر کے کتاب وسنت کو غور وفکر کا منبع بنایا -انہی میں سے ایک نام مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمۃ اللہ علہ کا بھی ہے-جنہوں نے کتاب وسنت کی اصل نصوص کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا-زیر نظر کتاب میں مولانا کی ان آراء کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن میں انہوں نے معروف فقہی نقطہ نظر سے ہٹ کر مؤقف اختیار کیا ہے-مصنف نے کتے کا جھوٹا برتن،گردن کا مسح الٹے ہاتھ سے،عصر کی نماز کا وقت،رفع الیدین ، فاتحہ خلف الامام جیسے مسائل پر اپنی آراء کا اظہار کرتے ہوئے تقلید شخصی کی بیخ کنی کی ہے- علاوہ ازیں موصوف نے میت کو غسل دینے سے غسل کرنا،تکبیرات عید،نماز استسقاء اور طلاق ثلاثہ کے متعلق کتاب وسنت کے اصل مؤقف کی جانب رجوع کرتے ہوئے عصر حاضر کے علمائے کرام کو دعوت فکر دی ہے کہ وہ تقلید وجمود کی بجائے براہ راست مذہب کے اصل سرچشموں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں-