اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ ﷺ پر دین اسلام کو مکمل فرمادیا- دین کی تکمیل کے بعد نہ تو اس میں اضافے کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی شخص کو اس میں ردو بدل کی اجازت دی جاسکتی ہے ليكن ہمارے ہاں کچھ لوگ بسا اوقات ایسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو اسوہ رسول ﷺ سے مطابقت نہیں رکھتا ہوتا لیکن تقلید ی میلانات کی وجہ سے اسی پر عمل کو ترجیح دی جاتی ہےاور براہ راست کتاب وسنت سے احکامات اخذ کرنے والوں پر بہت سے اعتراضات کیے جاتے ہیں-اس طرز عمل کی کس حد تک تائید کی جاسکتی ہے، اس ضخیم کتاب میں اسی کا جائزہ بھرپور اور مدلل انداز میں لیا گیا ہے –مولانا ابوالحسن سیالکوٹی نے اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے مقلدین حضرات کے بیسیوں مغالطات کا جواب پیش کیا ہے-ان مغالطات میں سےچند یہ ہیں:1- ہر مسئلے کی سند رسول اللہ تک پہنچانی ضروری نہیں-2-دین کےمعاملے میں قیاس کرنا مشروع ہے-3-فقہ کی کتابیں بڑی آسان ہیں-4-امام ابوحنیفہ کی فضیلت میں وارد ہونے والی احادیث 5-آئمہ اربعہ پر امام ابوحنیفہ کی فضیلت 6-اہلحدیث ، حدیث کے آسان مسائل پر عمل کرتے ہیں 7- مجتہدین کا کوئی مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف ن...
کتب حدیث میں جو مقام صحیح بخاری کو حاصل ہے کہ وہ کسی اور مجموعہ حدیث کے حصے میں نہیں آیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک مختلف زبانوں میں اس کی سینکڑوں شرحیں اور حاشیے لکھے جا چکے ہیں۔زیر نظر شرح جو فیض الباری کے نام سے موسوم ہے مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی کے قلم سے ہے۔مولانا سیالکوٹی ،شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذ رشید تھے۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1870 میں شائع ہوئی اب اسے جدید انداز میں طبع کیا گیا ہے،جو شائقین کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب رہے گی کہ اس کتاب کے ٹائٹل پر یہ لکھا گیا ہے کہ یہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کی مشہور شرح بخاری فتح الباری کا ترجمہ ہے ۔لیکن عصی الاطلاق یہ بات امر واقعہ کے مطابق نہیں اصل میں یہ ایک مستقل شرح ہے جس میں فتح الباری کے علاوہ ارشاد الساری،کو اکب الدراری ،تیسیرالقاری،منح الباری ،توشیح اور عمدۃ القاری سمیت بعض دیگر کتب حدیث سے بھی استفادہ کیا گیا جیسا کہ اس کتاب کے صفحہ 6پر یہ تصریح موجود ہے۔لہذا اسے فتح الباری کا ترجمہ قرار دینا مناسب نہیں ہےالبتہ بعض مقامات پر فتح الباری کا لفظی ترجمہ دیا...