دین اسلام میں تصوف اور رہبانیت کی قطعا کوئی گنجائش نہیں- لیکن صوفیت نے کتاب وسنت کو ظاہر قرار دے کر پس پشت ڈالا اور من گھڑت خرافات کو باطنی قرار دے کر اس کا چرچا شروع کر دیا-انہی باطنی فرقوں میں سے ایک نیا فرقہ '' انجمن سرفروشان اسلام ''ہے جس کا سربراہ ریاض احمد گوہر شاہی ہے- اس کتاب میں ابن لعل دین نے اس فرقہ کے لوگوں سے ملاقاتیں کر کے ، ان کا لٹریچر پڑھ کر تفصیل کے ساتھ ان کے عقائد اور سرگرمیوں پر ایک تحقیقی کتاب مرتب کی ہے-کتاب کے شروع میں مصنف نے گوہر شاہی کے دوجلسوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے جس سے گوہر افشانیوں کے اصلی روپ کا کچھ اندازہ ہوجائیگا-اس کے بعد گوہر شاہی کون ہے؟ اور اس کی مکاریوں کو عیاں کرتے ہوئے ذکرالہی میں صنف نازک کے ساتھ اٹھکیلیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے-پیر صاحب کی مستانی محبوبہ کے ساتھ یاریوں کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ گوہریہ کے خطرناک عقائد اور خودساختہ شریعت پرسے پردہ اٹھایا گیا ہے-اس کے بعد گوہر شاہی کی نازیبا گستاخیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے چند دیومالائی داستانوں اور علم باطن والی روایت کی اصل حقیقت عیاں کی...
ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کے اشتراک سے تسلسل کے ساتھ علمی موضوعات پر بہت سی کتب اشاعت کے زیور سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ اس کتاب میں دونوں حضرات نے شرک کی شناعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس موضوع پر بھی قرآن و حدیث کا مؤقف پیش کردیا ہے ۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں توحید اور اس کی اقسام کی تعریف ہے ، نیز ان شروط کا ذکر ہے جن پر توحید کی سلامتی اور بقا کا انحصار ہے ۔ دوسرا باب شرک کی حقیقت اور اس کےاضرار کو واضح کرتا ہے، نیز مختلف قوموں میں پائے جانے والے شرک کو قرآن و حدیث کی نصوص سے بیان کرتا ہے ۔ تیسرے اور آخری باب میں عصر حاضر میں پائے جانے والے شر کے کے مختلف طرق کا قدرے تفصیلی ذکر ہے۔ رسالہ کا اسلوب سہل ہے اور تمام مندرجات مدلل اور باحوالہ ہیں ۔ (ع ۔ م)
اس کتاب کے مصنف جمیل زینو شام کے شہر حلب میں پیداہوئے اور وہیں پلے بڑھے آپ کا تعلق صوفیت کے متعدد طریقوں کے ساتھ رہا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو توحید کی سیدھی راہ نصیب فرمائی۔ زیر نظر کتاب میں محترم جمیل زینو نے اپنے ہدایت کی جانب سفر کو کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کردیا ہے۔ مصنف کے بقول یہ داستان رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید پڑھنے والے کو اس میں نصیحت اور سبق مل جائے کہ جو اس کے لیے باطل سے حق کی پہچان کرنےمیں ممدو معاون ثابت ہو۔ شیخ صاحب نے اپنی داستان کو قرآن و سنت کے مضبوط اور قوی دلائل کے ساتھ بھی آراستہ کیاہے تاکہ پڑھنے والے کی ہرمسئلہ میں مکمل تشفی ہوتی چلی جائے۔ محترم ابن لعل دین نے مصنف کے مؤقف کو وضاحت سے بیان کرنے کے لیے فٹ