زوجین کے باہمی اختلاف کی وجہ سے آپس میں اکٹھے نہ رہنے کی صورت کے پیدا ہونے پر اسلام ان کو علیحدگی کے لیے بھی اصول وقانون دیتا ہے جس سے فریقین میں سے کسی پر زیادتی نہ ہو-مصنف نے اس کتاب میں طلاق کے حوالے سے مختلف پچیدہ مباحث کو انتہائی اچھے انداز سے بیان کرتے ہوئے طلاق کا شرعی حکم اور اس کی حیثیت کو بیان کرتے ہوئےطلاق دینے کا طریقہ اور شرعی طورپر کون سی طلاق واقع ہو گی اور کون سی نہیں ہو گی اس کو واضح کیا ہے-اس کی شاندار بحثوں میں سے یہ بھی ہے کہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں شرعی راہنمائی اور تین طلاقوں کا ایک واقع ہونا عین فطرت سلیمہ کے موافق ہے-اور حضرت عمر کے بارے میں پیدا کیے جانے والے شکوک وشبہات کا جائزہ لیا ہے-طلاق کی مختلف صورتیں،اور ان کی عدتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ رجوع یا تجدید نکاح کا طریقہ واضح کیا ہے-اور تین طلاقوں کے وقوع کے جو حلالے کا غیر شرعی طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس کو فریقین کے دلائل کے ساتھ قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کی گیا ہے-اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں مفتی سعودیہ عربیہ علامہ عبدالعزیز بن باز کے فتاوی کے ساتھ ساتھ محدث کامل سلطان محمود جلال پوری کے فتاوی کو بھی شامل کیا گيا ہے-
مسلمانوں کے مابین باہمی اختلافات کا ہونا ایک فطری امر ہے لیکن ان اختلافات کی بنیاد پر فرقہ واریت کی راہ ہموار کرنا قابل تحسین فعل نہیں ہے- لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اپنے مسلک کو حق پر ثابت کرنے کے لیے دوسرے مسالک پر دشنام طرازی اور گالی گلوچ کا بازار گرم کیا جاتاہے- زیر نظر رسالہ بھی غیر اہلحدیث حضرات کی جانب سے دی جانے والی گالیوں کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے-جس میں مختلف بے بنیاد دلائل کے ساتھ اہل حدیث پر طعن اور دشنام طرازی کی ہے ان تمام غلط دلیلوں کا جواب دیا ہے اور فقہ حنفی کی ہی کتابوں سے احناف کے مسلک کو بیان کر سوچنے پر مجبور کیا ہے-مصنف نے گالی کا جواب گالی سے دینے کی بجائے انتہائی سنجیدگی اور متانت کےساتھ مقلدین حضرات کے شبہات کے ازالے کی کوشش کی ہے-
تقلیدی جکڑبندیوں کے جہاں اور بہت سےنقصانات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس سے معاشرہ جمود کا شکار ہوجاتا ہے اور اس سے پیش آمدہ نئے مسائل میں شرعی راہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے –زیر نظر کتاب''براءۃ اہل حدیث'' میں شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین الدین شاہ راشدی نےحدیث اور سنت میں فرق، اہل حدیث کے معنی ومفہوم کو بیان کرتے ہوئے اس چیز کو واضح کیا کہ چار مذاہب کیسے وجود میں آئے؟ اس طرح کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انتہائی سنجیدہ انداز میں تقلید شخصی کی خامیوں کا تذکرکیاہے –موصوف نے قرآن وحدیث، تاریخ، دیوبندی کتب اور اخباری حوالہ جات سے ثابت شدہ ایسے ٹھوس دلائل دئیے ہیں جو کسی بھی غیر متعصب شخص کو تقلید کے اندھیرے سے نکال کر کتاب وسنت کی روشنی میں لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں-
تقليد نے امت مسلمہ میں جو جمود طاری کیا ہے اس کے بہت سارے نقصانات دیکھنے کو مل رہے ہیں-زیر نظر کتاب میں ابوجابر عبداللہ دامانوی نے محققانہ انداز میں ثابت کیا ہے کہ مقلدین حضرات اگر اپنے امام کے قول کے خلاف کوئی قرآنی آیت یا حدیث پالیتے ہیں تو ان پر عمل کرنے کی بجائے قرآن وحدیث میں ایسی تحریف کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جس سےیہ قول امام کے موافق ہوجائیں-اس کتاب میں دیوبندیوں کی واضح اور مبینہ خیانتوں کو ان کی محرف کتابوں کے فوٹواسٹیٹ کے ذریعے ظاہر اور واضح کیا گیا ہے-پھر حدیث کی اصل کتابوں کے بھی فوٹودے کر ان کی خیانتوں کی نقب کشائی کی گئی ہے-مثال کے طور پر مختلف کتب حدیث میں احادیث کی کمی بیشی،احادیث میں اپنی مرضی کے مختلف قسم کے الفاظ کا اضافہ،اپنے مکتبوں میں میں اپنی مرضی کی کتب احادیث طبع کرکے امت میں افتراق کا سبب بننا-ان تمام چیزوں کو دلائل کے ساتھ واضح کر کے مدلل پکڑ کی گئی ہے-
دنیا جہان میں مختلف ذہنیتوں کےاعتبار سے اختلافات کاہوناایک فطری امر ہے –یہی وجہ ہے کہ دنيا ميں بہت سارے مذاہب اور مسالک پائے جاتے ہیں – اور ان میں سے ہر مسلک یہ نعرہ بلند کرتاہے کہ وہی حق پر ہے اور باقی تمام مسالک راہ ہدایت سے ہٹے ہوئے ہیں- حضور نبی کریم ﷺ کے فرمان کےمطابق ایسے لوگ حق پر ہیں جن کا عمل نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے عمل کے عین مطابق ہے-زیر نظر رسالہ میں حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری نےسوال وجواب کی صورت میں ناقابل تردید دلائل کے ساتھ ثابت کیاہے کہ اصلی اہل سنت کون ہے ؟ اور اس کی پہچان کیاہے ؟ موصوف نے باالتفصیل تقلیدشخصی کی خامیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کی صریح براہین پر عمل پیراہونے کے فوائد بیان کیے ہیں-تقلید کی بیخ کنی اور اہلحدیث کی دعوت کو عام کرنے کے لیے تحریری مواد کےلحاظ سے یہ ایک انتہائی مؤثر رسالہ ہے-
اس کتاب میں دیوبندیوں اورتبلیغی جماعت کے صوفی ازم سے مرعوب زدہ ان باطل عقائد کا بیان ہے جنہیں دیوبندی علماء صرف بریلوی حضرات سے منسوب کر کے ان پر نشتر چلاتے ہیں۔ اس کتاب میں دیوبندی و تبلیغی علماء کی کتب سے باحوالہ ثبوت پیش کئے گئے ہیں کہ وہ باطل عقائد جو کہ بریلوی احباب ڈنکے کی چوٹ پر اختیار کئے ہوئے ہیں، کم و بیش سب کے سب کسی نہ کسی طرز پر دیوبندی و تبلیغی علماء بھی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کتاب سے دیوبندی و تبلیغی جماعت کا دین و مذہب قارئین کے سامنے انشاء اللہ واضح ہو جائے گا۔ بصمیم قلب ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ یہ کتاب ان لوگوں کیلئے راہ ہدایت بن جائے جو صدیوں سے پھیلائی گئی صوفیت کے اندھیروں میں گم ہیں اور ابلیس لعین اور اس کے حواریوں کی چالوں سے کتاب و سنت سے اعراض ہی کو دین سمجھے بیٹھے ہیں۔
اللہ کے فضل وکرم سے اہل اسلام میں سے اہل حدیث ایک ایسی جماعت ہے جوتقلیدی جکڑبندیوں کی بجائے قرآن اور حدیث کے فرامین پر عمل پیرا ہے اور کتاب وسنت کی دعوت کو عام کرنےمیں تندہی کے ساتھ محنت کررہی ہے لیکن اہل حدیث حضرات میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جن میں بنیادی طور پر بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں جن کی اصلاح کی ضرورت ہے- زیر نظر رسالہ میں سید بدیع الدین شاہ راشدی نے انہی کوتاہیوں کی جانب توجہ دلائی ہے-جس میں انہوں نے اس چیز کو واضح کیا ہے کہ اہل حدیث خود ایک مصلح ہے تو مصلح کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے-اس میں مصلح کی صفات اور مسلمانوں میں پائی جانے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے-جیسا کہ جمہوریت کو اسلامی بنانے کی کوشش،مخصوص مقامات کی حد تک محدود ہو جانا،نمازوں کی اصلاح کی طرف توجہ،جہاد سے بے رغبتی اور باہمی اتفاق واتحاد کی کمی کی طرف توجہ دلائی ہے-
دنیا جہان میں مختلف نقطہ نگاہ رکھنے والوں کی کسی طور بھی کمی نہیں ہے – انسانوں کا باہمی اختلاف ایک فطری امر ہے لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر جھگڑے اور فساد کی راہ ہموار کرنا قابل نفرین عمل ہے-زیر نظر کتاب ''اہل حدیث اور علمائے حرمین کا اتفاق رائے''رنگونی صاحب کی کتاب'' غیر مقلدین سعودی عرب کے آئمہ ومشائخ کے مسلک سے شدید اختلاف ''کا نہایت ہی مدلل اور سنجیدہ جواب ہے-رنگونی صاحب نے جن مسائل کوبنیاد بنا کر غیر مقلدین اور سعودی علماء ومشائخ اور علماء کے مابین شدید اختلاف دکھانے کی کوشش کی ہے مؤلف نے کتاب وسنت اور آئمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں نہایت اختصار کے ساتھ ان موضوعات پر محققانہ بحث کی ہے-اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ فاضل مؤلف نے خالص علمی اسلوب اختیار کیا ہے اور ز بان انتہائی آسان اور عام فہم استعمال کی ہے-
یہ کتاب دراصل عربی کتاب "المعتزلہ" جو کہ ۱۹۸۶ میں شائع ہوئی تھی، کا اردو ترجمہ ہے جو کہ گمراہ کن فرقوں کی شناخت کے سلسلہ کی پہلی کڑی ہے۔ عصر حاضر کی یہ انتہائی اہم ضرورت ہے کہ مسلمان نوجوانوں کو جو کہ اسلامی شریعت اور فقہ میں صرف گمراہ کن فرقوں کے ذریعے متعارف ہوتے ہیں جیسا کہ جعلی سلفی، صوفی، شیعہ، مرجئہ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ، انہیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان فرقوں کے ساتھ شامل ہو کر وہ گمراہی کے کیسے عمیق غار میں گرے جا رہے ہیں۔ اس دور کے اسلامی معاشرے میں غلط اور باطل کو صحیح اور حق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اور حق کو عوام کی نظروں سے چھپا کر گمراہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ فکر مند مسلمانوں کیلئے لائق مطالعہ کتاب ہے۔
دور حاضر میں ایک اہم ترین مسئلہ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ آیا قرآن وسنت کی تعلیم دینے پر حاصل کیا جانے والا وظیفہ کس نوعیت سے تعلق رکھتا ہے؟آیا کہ ایک معلم شریعیت کے لیے اس کا لینا جواز رکھتا ہے یا نہیں؟جدید دور کے ایک نوزائیدہ گروہ (جسے عرف عام میں توحیدی گروہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے) کے نزدیک دینی امور مثلاً امامت، قرآن پڑھانے وغیرہ پر اجرت لینا شرعی تعلیمات کے خلاف اور حرام ہے۔ ان کی طرف سے اس سلسلے میں ذہن سازی کیلئے مفت اردو لٹریچر تقسیم کیا جا رہا ہے۔فاضل مؤلف نے ان کے اس دعوی کے بطلان پر کتاب و سنت کی روشنی میں دلائل پیش کئے ہیں اور اس گروہ کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعتراضات کے بھرپور جوابات دیے ہیں۔
احناف کی طرف سے پیش کئے جانے والے بلند بانگ مگر کھوکھلے دعاوی میں ایک دعوٰی یہ بھی کیا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فقہ کی تدوین کیلئے چالیس بڑے بڑے محدثین پر مشتمل ایک مجلس قانون ساز کمیٹی منتخب کی تھی، امام صاحب ان سے مشورہ لیتے تھے، ہر قسم کا مسئلہ زیر بحث آتا تھا ، اگر مجلس کا کسی مسئلہ پر اتفاق ہوتا تو درج کر لیا جاتا اور اگر اختلاف ہوتا تو کئی کئی روز اس پر بحث جاری رہتی اور یہ کام تیس سال تک ہوتا رہا۔ اور اس قصہ سے اصل مقصود چاروں اماموں کو برحق کہنے کے قولی دعوے کے برعکس دوسرے ائمہ کرام کی فقہ پر فقہ حنفی کی برتری ثابت کرناہے۔ حالانکہ قانون ساز کمیٹی کے اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں، ایک افسانے سے زیادہ اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اس قصے کے بے اصل ہونے کے تمام دلائل اس کتاب میں درج کر دیے گئے ہیں۔مسلکی عصبیت سے ہٹ کر اس کتاب کا مطالعہ صراط مسقیم کی روشن شاہراہ کی طرف آپ کو ایک قدم آگے بڑھنے میں ضرور مد دے گا، ان شاء اللہ۔
مسائل کو سمجھنے کے اعتبار سے ذہنوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے ایک ہی بات مختلف انداز میں سمجھ آتی ہے لیکن قابل تسلیم بات وہی ہوتی ہے جس کی تائید قرآن وسنت کر رہے ہوں-اس لیے بنیاد قرآن وسنت ہو تو اس بنیاد پر سمجھے جانے والے مسائل اپنا ایک خاص تعارف رکھتے ہیں-زیر نظر رسالہ میں شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی نے نے انتہائی سادہ علمی انداز میں نمازوں کے اوقات کا تعین،نواقض وضو،سینے پر ہاتھ باندھنا،فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر اور رفع الیدین ،جلسہ استراحت اور تشہد میں بیٹھنے کے طریقے وغیرہ کے حوالے سے مسلک اہل حدیث کا مؤقف واضح کرتے ہوئےثابت کیاہے کہ یہی وہ مسلک ہے جن کاعمل سنت رسول، آثار صحابہ وتابعن اور اقوال آئمہ کے عین مطابق ہے-
اہل سنت اور اہل الرائے ایک فکری وتظریاتی بحث ہے جس کو عام لوگ نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کو عوامی رنگ دیے بیٹھے ہیں جس وجہ سے اپنے آپ کو اہل سنت کہلوانے والا دوسرے نظریے کے فرد کو اہل سنت کی صف سے خارج تصور کرتا ہے-علمائے دیوبند کے عقائد کے تقابلی جائزے پر مشتمل اس کتاب میں اہلسنت والجماعت کے اصل عقائد کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں اور علمائے دیوبند کی طرف سے پیش کئے جانے والے تار عنکبوت سے زیادہ کمزور دلائل و شبہات کا بھرپور محاکمہ کیا گیا ہے۔ عقائد کے موضوع پر اختلافی مسائل سے شغف رکھنے والے حضرات کیلئے ایک چشم کشا تحریر ہے جس کے بعد عقیدہ اہل سنت اور فکر اہل سنت سے واقفیت حاصل ہو گی-
کتاب کے نام سے اس کی اہمیت عیاں ہے۔ اس لاجواب اور بے نظیر کتاب میں مختلف مکاتب فکر (دیوبندی، بریلوی اور عثمانی توحیدی) کے معترضین کے دلائل کا مکمل و مدلل جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز ان مضامین کے لکھنے کے بعد جو جو اعتراضات ان فرقوں کی جانب سے موصول ہوئے ان سب کا جواب بھی اسی کتاب میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جس سے اس کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مردوں کے سننے یا نہ سننے کا مسئلہ مشہور و معروف ہے، اسی طرح عذاب قبر جس کا انکار کیپٹن عثمانی صاحب (توحیدی گروپ کے بانی) نے کیا، ان کے دلائل کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے۔ نیز ان کے شاگرد کی طرف سے اس مضمون کے جواب کا جواب الجواب بھی لکھا گیا ہے۔ بریلوی علماء کی معنوی تحریفات کو بھی سماع موتٰی بھی خوب واضح کیا گیا ہے اورکتاب و سنت کے شافی دلائل سے اس مسئلہ کے ایک ایک پہلو کو اعتراضات کی گرد و غبار سے پاک کر کے نکھار دیا گیا ہے۔ انتظامیہ یہ کتاب اپنے قارئین و ناظرین کو تجویز کرتی ہے اور اس کی ہارڈ کاپی خرید کر دوسروں تک پہنچانے کی دعوت دیتی ہے
مقام مسیح کے بارے میں خود عیسائیت میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے جس وجہ سے عیسائی عیسی ؑ کے بارے میں کوئی ایک موقف اختیار نہیں کر پائے-قرآن کریم نے عیسی ؑ کی تعظیم بیان کرتے ہوئے افراط وتفریط سے بچ کر ان کے مقام کو واضح کیا ہے جس وجہ بعض عیسائی لاعلمی کی وجہ مسلمانوں کو حضرت مسیح کا مخالف سمجھتے ہیں حالانکہ مسلمان مسیح کا نام لیتے ہوئے ان کی تعظیم میں شروع میں حضرت اور آخر میں ؑ کا اضافہ کرتے ہیں جس یہ واضح ہوتا ہے کہ مسلمان حضرت مسیح کی تعظیم کرتے ہیں -اس کتاب کے مقدمہ میں جس بات پر زور دیا گیا ہے اس کا تعلق ذرائع ابلاغ کا استعمال ہے اس ذرائع ابلاغ میں ریڈیو , ٹیلی ویژن , جلوس صلیب , خط و کتابت, تقسیم بائبل , کلب , عیسائی منشریاں , تقسیم مسیحی , انداز تبلیغ , مختصر عقائد مسیحی پر بات کی گئی ہے اس کتاب کی تمہید میں عقیدہ تثلیث والوہیت کی حقیقت کا پس منظر, ابنیت مسیح , عقیدہ صلیب و مصلوبیت کے عقیدہ پر بات ہوئی ہے اس کتاب میں مقاصد کا بھی ذکر ہے جس میں توہین مسیح , غیر محرم عورتوں سے ملاپ , تلخ بیانی , موت کا ڈر , حضرت مسیح کا ملعون ہونا , قانون بائبل , حضرت مسیح حواریوں کی نظر میں , عبادت کے لائق کون , خدائی صفات , اللہ کے بیٹے کا نسب نامہ اور انجیل یوحنا میں تحریف کے متعلق مورخین و مفسرین کے اقوال کو بھی بیان کیا گیا ہے -اس کے ساتھ ساتھ خود عیسائیوں کی طرف سے کی گئی زیادتیوں اور افراط وتفریط کی نشاندہی کرتے ہوئے قرآن وسنت سے ان غلطیوں کی اصلاح کی ہے-
محقق العصر فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے آٹھ رکعت سنت تراویح کے موضوع پر مدلل رسالہ "نور المصابیح" کے جواب میں مشہور دیوبندی عالم امین صفدر اوکاڑوی کی کتاب کے محاکمہ اور جواب الجواب میں یہ کتاب حافظ زبیر علی زئی کا امین صفدر اوکاڑوی صاحب کے نام کھلا خط ہے جسے ان کی زندگی ان کی خدمت میں بھیجا گیا تھا اور جس کا کوئی جواب وہ نہ دے سکے۔ یوں تو موضوع کتاب تراویح کی رکعات ہے۔ لیکن مقدمہ میں فاضل مصنف نے اوکاڑوی صاحب کے اکاذیب و اباطیل، ان کی کتب کے تناقضات، اور ان کے باطل عقائد و افکار کو طشت از بام کیا ہے
زیر نظر کتاب کا موضوع حنفی مذہب کے مشہور عالم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کی کتاب ''بہشتی زیور ''ہے جس میں انہوں نے فقہ حنفی کے مسائل کو اردوزبان میں تحریر کیا ہے –مصنف نے بہشتی زیور میں پائے جانے والے ان مسائل کی نشاندہی کی ہے جن کی تائید میں قرآن مجید کی کوئی آیت یا کوئی صحیح حدیث نہیں ہے بلکہ اکثر مسائل قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے بالکل خلاف ہیں-مشہور دیوبندی عالم اشرف علی تھانوی صاحب کی مشہور زمانہ فقہی مسائل پر مشتمل تصنیف بہشتی زیور کے تنقیدی جائزے پر مشتمل اس کتابچے میں بہشتی زیور کے ان سینکڑوں مسائل میں سے بطور نمونہ چند مسائل طشت از بام کئے ہیں، جو یا تو قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہیں اور یا ان مسائل کے سلسلے میں شریعت سازی کی گئی ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی اس کتاب میں جو کہ خصوصاً خواتین کے مسائل سے متعلقہ ہے، ایسے ایسے شرمناک مسائل بیان کئے گئے ہیں کہ جنہیں کوئی شریف النفس انسان سننا تک گوارا نہیں کر سکتا چہ جائیکہ ان پر عمل کیا جائے۔ روایت پرستی کی جان لیوا گھاٹیوں سے بچنے کیلئے ایک راہ نما تحریر
نفلی عبادت اللہ تعالی کے قرب کا بہترین ذریعہ ہوتی ہے اور نفلی عبادات میں سے قیام اللیل کی عبادت اللہ تعالی کو بہت زیادہ محبوب ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ خود اور آپ کے صحابہ اس کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے -اسے خلفائے راشدین اور بعد کے ادوار میں مسلمہ اہمیت حاصل رہی ہے- قیام اللیل کہ جس کی ایک صورت نماز تراویح بھي ہے کے حوالے سے ہمارے ہاں کچھ اشکالات پائے جاتے ہیں-جن میں اس کی رکعتوں کی تعداد جیسے مسائل شامل ہیں-کہ قیام اللیل کی کتنی رکعات سنت ہیں-بعض کا خیال ہے کہ بیس رکعت سنت ہے اور بعض کا موقف ہے کہ گیارہ رکعتیں مسنون ہیں-اس اختلاف کے پیش نظر زیر نظر کتاب میں آپ کو اس طرح کے سوالات کے تسلی بخش جواب پڑھنے کو ملیں گے-مثلا کہ کیارسول اللہ ﷺ کا رکعات تراویح پڑھانا ثابت ہے؟کیا حضرت عمر اور دیگر خلفائے راشدین کے زمانہ میں تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا ؟رکعات تراویح کے عددمیں علماء کے درمیان کیا اختلافات ہیں؟کتاب کے دوسرے حصے میں بھی آپ کو درج ذیل سوالات کے جوابات مل جائیں گے-نماز تراویح کی تعریف کیا ہے؟تہجد کے کیا معنی ہیں؟صلوۃ اللیل کا افضل وقت کیا ہے؟وغیرہ وغیرہ
یہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے جس میں سے پہلے باب میں صحیح اور مرفوع احادیث کو پیش کر کے عیدین کی بارہ تکبیرات کو ثابت کیا ہے اور دوسرے باب میں مصنف نے مسلک احناف کے موقف پر چند ایک اعتراضات کے ساتھ اس چیز کا ثبوت مانگا ہے کہ کیا عیدین کی چھ تکبیریں مرفوع اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں- اور پھر آخر میں عیدین کی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے گا یا نہیں؟ اس کو وضاحت سے بیان کیا ہے-
رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق رات کی آخری نماز وتر ہونی چاہیے-اس لیے جو شخص رات کا قیام کرنا چاہتا ہے وہ عشاء کی نماز کے بعد وتر نہ پڑھے بلکہ رات کےآخری حصے میں وتر ادا کرے-ونماز وتر کے سلسلے میں ہمارے ہاں مختلف آراء پائی جاتی ہیں کچھ کے نزدیک یہ واجب ہے تو کچھ کے نزدیک سنت مؤکدہ اور کچھ کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رات کو وتر پڑھ کر سو گیا تو صبح اٹھ کر پہلے وہ اپنے وتر کو توڑے گأ پھر نفلی نماز ادا کرسکتا ہے اور اسی طرح اگر کسی کا وتر رہ گیا ہو تو وہ اس کی قضا کیسے دے گا-زیر نظر کتاب میں ابوعدنان محمد منیر قمر نے اس حوالے سے پائے جانے والے شبہات کے ازالے کے لیےقابل قدر کوشش کی ہے-مصنف نے قرآن وسنت، آثار وصحابہ وتابعین اور اقوال آئمہ کی روشنی میں نماز وتر اور تہجد کی فضیلت واہمیت اور اس سے متعلقہ تمام مسائل کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے-جس میں نماز وتر اور تہجدکے فضائل اور ادائیگی کا طریقہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دعائے قنوت کے مسائل اور اس کا طریقہ بالدلائل بیان کیا گیا ہے-
دنيا جہان میں لا تعداد مذاہب پائے جاتےہیں ان مذاہب میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام ایک عالمگیر خدا اور ایک برتر ہستی پر یقین رکھتے ہیں جو قادر مطلق اور عالم کل ہے- زیر نظر کتاب اسی موضوع پر دنیا کے مشہور ومعروف دانشور ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک کی شاندار تصنیف ہے- کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے - پہلے حصے میں مصنف نے دنیا کےبڑے بڑے مذاہب، جن میں ہندومت، عیسائیت، یہودیت اور اسلام شامل ہیں، میں خدا کے حوالے سے پائے جانے والے تصور کو ان کی کتابوں کی روشنی میں واضح کیا ہے – کتاب کے دوسرے حصے میں موصوف نے اسلام کے متعلق غیر مسلموں کے بہت سے اشکالات مثلا کثرت ازواج، مسلمانوں کا طریقہ ذبح،شراب کی حرمت اسلام میں کیوں ہے؟گوشت خوری کیوں جائز ہے،اور مسلمان دہشت گرد کیوں ہوتا ہے اس طرح کے تمام اشکا لات کا تسلی بخش جواب دیتے ہوئے ان موضوعات پر علمی انداز میں کافی وشافی بحث کی ہے-
دین اسلام میں انبیاء کے بارے میں یہی عقیدہ موجود ہے کہ ہر مسلمان اس چیز کا اقرار کرتا ہو کہ تمام انبیاء برحق اور سچے ہیں اور ہم ان میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے-یہی وجہ ہے کہ مسلمان تمام انبیاء کی تعظیم اور عزت کرتے ہیں-اور اس کے مد مقابل دیگر مذاہب نے مسلمانوں کو انبیاء کا دشمن سمجھا ہے جس وجہ سے وہ ان سے نفرت کرتے ہیں-چونکہ غلطی فہمی کی وجہ سے عیسائی مسلمانوں کو اپنا مخالف سمجھتے ہیں -تو مصننف نے اس کتاب میں حضرت عیسی ؑ کا مقام بتایا ہے اوراس مقام کو آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ ﷺ سے تقابلی جائزہ میں لاتے ہوئے اسلام کی نظر سے ثابت کیا گیا ہے تو اس طرح حضرت عیسی علیہ السلام کو مسلم زاویہ نگاہ سے , قرآنی بشارتیں , شخصیت مسیح , عیسائیوں کی مشکلات کی ابتداء بائبل اور متفرق موضوعات کو قرآن و احادیث سے ثابت کیا گیا ہے -
الله تعالی ہر چیز کاخالق ومالک ہے اور ہر چیز کی طبیعت اور فطرت سے بخوبی آگاہ ہے-اسی لیے اس نے ہر چیز کی طبیعت کے موافق اس کا دائرہ کار متعین کیا ہے-اسلام نے عورت کا جو دائرہ کار مقرر کیا ہے اس میں اگرچہ جتنے بھی شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے، وہ نہ صرف اس کے صحیح مقام کو متعین کرتے ہیں بلکہ اس کو ایک باعزت شخصیت کے روپ میں پیش کرتے ہیں –زیر نظر کتاب میں شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ راشدی نے اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے پیش کیے جانے والے شبہات کاجائزہ لیتے ہوئے کتاب وسنت کی روشنی میں ان کا تفصیل کے ساتھ رد کیا ہے-مصنف نے اسلام میں عورت کے حقوق وفرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے عورت کے پردے کے احکام اسوہ رسول اور آثار صحابہ وتابعین کی روشنی میں واضح اندازمیں پیش کیے ہیں-
امام بخاری کی ذات میں اللہ تعالی نےاس قدر خوبیاں جمع کر دی تھیں جو شاید ہی کسی اور کے حصے میں آئی ہوں-امام صاحب کو سید المحدثین اور امام الدنیا جیسے بلند ترین القابات سے نوازا گیا اور آپ کی کتاب صحیح بخاری کو کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب تسلیم کیا گیا لیکن دفاع مسلک کیلئے کی جانے والی کوششوں میں امام بخاری اور ان کی کتاب صحیح بخاری احناف کی راہ میں یقیناً ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جس کیلئے حنفی علماء نے امام بخاری ؒ جیسی عظیم شخصیت پر بھی اعتراضات اور تنقید سے قلم نہیں روکا۔ انہیں بد نصیب علماء میں سے ایک دیوبندی عالم حبیب اللہ ڈیروی صاحب ہیں جنہوں نے امام بخاری ؒ کے25 اوہام جمع کر کے انہیں اپنی کتاب "ہدایہ علماء کی عدالت میں" کی زینت بنایا ہے۔ فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے ان اوہام کی حقیقت طشت ازبام کی ہے کہ آیا یہ غلطیاں امام بخاری ؒ سے ہوئیں یا ان کو وہم قرار دینے والے خود وہم و خطا کے مرتکب ہیں۔
اس کتاب میں نہایت پرزور دلائل سے اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ تراویح کی آٹھ رکعتیں بلاشبہ آنحضرت ﷺ کی سنت سے ثابت اور محقق ہیں اور اس کے مقابلے میں بیس رکعت تراویح بسند صحیح نہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے اور نہ خلفاء راشدین ؓ سے اور نہ اجماع امت سے۔ مؤلف "رکعات تراویح" نے اہل حدیث کے دلائل پر جتنے شبہات وارد کئے ہیں اور اپنے مزعومہ دعاوی کے ثبوت میں جتنی بھی دلیلیں پیش کی ہیں ان میں سے ایک بھی اصولِ حدیث اور فنِ رجال کی تحقیق کی رو سے قبولیت و استناد کے قابل نہیں۔