کتب حدیث میں جو مقام صحیح بخاری کو حاصل ہے کہ وہ کسی اور مجموعہ حدیث کے حصے میں نہیں آیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اب تک مختلف زبانوں میں اس کی سینکڑوں شرحیں اور حاشیے لکھے جا چکے ہیں۔زیر نظر شرح جو فیض الباری کے نام سے موسوم ہے مولانا محمد ابو الحسن سیالکوٹی کے قلم سے ہے۔مولانا سیالکوٹی ،شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذ رشید تھے۔یہ کتاب پہلی مرتبہ 1870 میں شائع ہوئی اب اسے جدید انداز میں طبع کیا گیا ہے،جو شائقین کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔یہاں ایک بات کی وضاحت مناسب رہے گی کہ اس کتاب کے ٹائٹل پر یہ لکھا گیا ہے کہ یہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کی مشہور شرح بخاری فتح الباری کا ترجمہ ہے ۔لیکن عصی الاطلاق یہ بات امر واقعہ کے مطابق نہیں اصل میں یہ ایک مستقل شرح ہے جس میں فتح الباری کے علاوہ ارشاد الساری،کو اکب الدراری ،تیسیرالقاری،منح الباری ،توشیح اور عمدۃ القاری سمیت بعض دیگر کتب حدیث سے بھی استفادہ کیا گیا جیسا کہ اس کتاب کے صفحہ 6پر یہ تصریح موجود ہے۔لہذا اسے فتح الباری کا ترجمہ قرار دینا مناسب نہیں ہےالبتہ بعض مقامات پر فتح الباری کا لفظی ترجمہ دیا گیاہے۔بہر حال ادارہ اس عظیم الشان کتاب کو انٹرنیٹ پر پیش کر ہا ہے تاکہ ذوق علم رکھنے والے احباب اس سے مستفید ہو سکیں اور سلف کی خدمت حدیث سے امت کو روشناس کرایا جا سکے۔(یہ جلد پہلے تین پاروں پر مشتمل ہے جس میں کتاب الاذان تک کی احادیث کی شرح شامل ہے)۔(ط۔ا)
حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین دین کی اساس اور اس کے اولین مبلغ ہیں۔انہی لوگوں نے رسول اکرم ﷺ سے دین سیکھا اور ہم تک پہنچایا۔یہ وہ مبارک جماعت ہے جسے خداوند عالم نے اپنے پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی مصاحبت کےلیے چنا اور ان کے ایمان کو ہمارے لیے ایک نمونہ قراردیا ۔حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کی زندگی حضرت رسول معظم ﷺ کی صداقت کا اعلیٰ ترین ثبوت ہے کہ آپ ﷺ کی تربیت سے ایسے عظیم الشان لوگ تیار ہوئے جنہوں نے اطراف واکناف عالم میں خدا کے دین کو غالب کر دیا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے احوال زندگانی کا مطالعہ کیا جائے تاکہ دلوں میں خدا اور رسول ﷺ کی محبت کے جذبات بیدار ہو ں اور دین خداوندی کی خاطر کٹ مرنے کا داعیہ پیدا ہو۔سچ یہ ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین کے واقعات مسلمانوں کے لیے حیات نو کا پیغام اور تجدید دین کا سامان رکھتے ہیں ۔زیر نظر کتاب صحابہ کرام ؓ اجمعین کے تذکرے پر مشتمل ہے اصل عربی کتاب مولانا یوسف کاندھلوی ؒ کی تصنیف ہے جو بانی تبلیغی جماعت مولانا الیاس کاندھلوی ؒ کے فرزند ہیں۔یہ اس کا اردو ترجمہ ہے،جس سے اردو دان طبقے کے لیے استفادہ کی راہ آسان ہو گئی ہے۔اس کے بارے میں یہ امر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اس کی تخریج و تحقیق کا اہتمام نہیں کیا گیا،جس کی بناء پر اس میں موجود روایات پر کلی اعتماد نہیں کیا جاسکتا،تاہم بحثیت مجموعی اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔(ط۔ا)
’صحابہ‘کا لفظ ’صحابی‘کی جمع ہے ،جس کے معنی ساتھی کے ہیں۔اصطلاحی اعتبار سے صحابہ کرام ؓ اجمعین وہ خوش قسمت ہستیاں ہیں،جنہیں جناب رسول معظم ﷺ کے چہرہ پر انوار کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔یہی وہ پاکباز گروہ ہے،جس نے قرآن وحدیث کی تعلیمات آنے والی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیا،رسول خدا ﷺ کا دفاع و تحفظ کیا اور پوری دنیا میں خدا کے کلمے کو سربلند کرنے کےلیے تن،من،دھن کی قربانی دی۔ان کی انہیں عظیم الشان خدمات کی بنا پر خداوند قدوس کی بارگاہ سے انہیں ’ ؓ‘کی سند عطا ہوئی۔ان سے محبت کو دین کا جزو قرار دیا گیا اور ان سے نفرت یا بغض کو نفاق و طغیان سے تعبیر کیا گیا۔اپنے ذہنوں کو حب صحابہ ؓ سے معمور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے فضائل و مناقب سے واقفیت حاصل کی جائے ،جس کے لیے زیر نظر کتاب کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔اس کتاب کی تحقیق و نظر ثانی محدث زماں حافظ زبیر علی زئی نے کی ہے اور اس میں محض صحیح روایات ہی پر اعتماد کیا گیا ہے جس سے یہ ایک مستند مجموعہ فضائل منظر عام پر آیا ہے۔(ط۔ا)
خدا کا ذکر اور اس کی بارگاہ میں دست التجا بلند کرنے سے انسان کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات ملتی ہے اسی لیے قرآن وحدیث میں ذکر اور دعا کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔دعا کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جب انسان دعا کرے تو اس کے معنی ومفہوم سے بھی واقف ہو تاکہ اس میں سوز و عاجزی کی کیفیت نمایاں ہواسی لیے دعا قبولیت کا شرف پاتی ہے۔آج بے شمار دعائیں مانگنے والے ایسے ہیں جنہیں یہ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کیا مانگ رہے ہیں اسی لیے آج دعائیں بے اثر ہو چکی ہیں۔زیر نظر مجموعہ اس اعتبار سے بہت مفید ہے کہ اس میں مسنون دعاؤں کے ساتھ ان کا ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ضرورت ہے کہ اسے زبانی یاد کیا جائے اور خدا کی بارگاہ میں ان کے ذریعے دین و دنیا کی بھلائی کی التجا کی جائے۔(ط۔ا)
امت میں بے شمار فتنے پیدا ہوتے رہے ہیں ،جن میں معتزلہ ،خوارج،باطنیہ ،بہائیہ،بابیہ وغیرہ نے امت کو بے حد نقصان پہنچایا ہے ۔فی زمانہ جناب جاوید احمد غامدی کے نظریات بھی فتنہ بنتے جار ہے ہیں ۔انہوں نے بے شمار مسائل میں امت کے متفقہ اور اجماعی مسائل سے انحراف کی راہ اختیار کی ہے ۔زیر نظر کتاب میں جناب رفیق چودھری صاحب نے غامدی صاحب کے نظریات کی علمی تردید کی ہے اور ان کے منحرف افکار کا تعارف کرایا ہے ۔ان کے یہ قول غامدیت،پورے دین اسلام کو بگاڑنے اور اس میں فساد برپا کرنے کا دوسرا نام ہے اور اسلام کے متوازی ایک نیا مذہب ہے ،ممکن ہے اس میں مبالغہ محسوس ہو لیکن اگر دیکھا جائے کہ غامدی صاحب کے نزدیک رجم کی سزا ثابت نہیں:دوپٹہ اور داڑھی دین کا حصہ نہیں ،موسیقی اور مصوری جائز ہیں اور اسی طرح کے دیگر نظریات تو بہت حد تک یہ رائے واضح نظر آتی ہے ۔غامدی صاحب کے افکار سے آگاہی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید رہے گا کہ اس کے مصنف غامدی صاحب کو ذاتی طور پر ایک طویل عرصے سے جانتے ہیں اور ان کے ذہنی وفکری ارتقاء سے پوری طرح باخبر ہیں نیز اسلامی حمیت وغیرت بھی رکھتے ہیں ،جس کا ایک عمدہ نمونہ یہ کتاب ہے ۔دعا ہے کہ خداوند عالم مسلمانوں کو اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور دین پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق فرمائے ۔(ط ۔ا)
’لا الہ الا اللہ‘ کے دو جزء ہیں:ایک میں باطل معبودوں کی نفی ہے اور دوسرے میں صرف اللہ کے معبود ہونے کا اقرار ایمان کے لیے ان دونوں کا فہم اور ان کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونا ضروری ہے ورنہ ایمان باللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔بہت سے لوگ خدائے معبود ہونے کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن غیر اللہ کا انکار نہیں کرتے جس سے وہ شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔زیر نظر کتابچہ میں جناب ڈاکٹر شفیق الرحمان نے واضح کیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب کیا ہے اور غیر اللہ کی نفی سے کیامراد ہے؟آخر میں انہوں نے ان امور پر بھی روشنی ڈالی ہے جو صحیح عقیدہ سے انحراف کا سبب بنتے ہیں ۔ہر مسلمان کو اس کتابچہ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ صحیح معنوں میں اللہ پر ایمان کے مفہوم کو سمجھ سکے اور اس کو عملاً اپنا سکے۔(ط۔ا)
کتاب وسنت میں حق اور خیر کے اعمال کو’نور‘اور اس کے بالمقابل باطل اور شر کے کاموں کو ’ظلمات‘یعنی تاریکیوں سے تعبیر کیا ہے اور ان معنوی چیزوں کو حسی اشیاء سے تشبیہ دی ہے۔اسی طرح حق کو بینائی ،دھوپ اور زندگی سے موسوم کیا ہے اور باطل کو اندھے پن،سایہ اور موت قرار دیا ہے۔پھر اس کی بھی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضدہیں،لہذا دونوں میں اتحاد نہیں ہو سکتا۔زیر نظر مختصر کتابچہ میں سعودی عرب کے نام ور عالم دین اور مذہبی اسکالر شیخ سعید بن علی بن وہف القحطانی نے نور وظلمات سے متعلق آیات و احادیث کو جمع کیا ہے اور مفسیرین قرآن اور شارحین سنت کے اقوال کی روشنی میں ان کی تفسیر و تشیریح فرمائی ہے۔جناب عنایت اللہ سنابلی نے اسے اردو میں ڈھال کر عوامی حلقوں کے لیے اس دلچسپ اور معلوماتی کتاب استفادہ کی راہ ہموار کر دی ہے۔خداوند کریم مصنف ومترجم اور ناشرین کو جزائے خیر دے اور ہم سب کو اس سے فیض یاب ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔(ط۔ا)
حدیث شریف میں ہر شخص کو ذمہ دار مسئول قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بال بچوں کی تربیت دینی کا ذمہ دار ہے اور قیامت کے روز اس سے باز پرس ہو گی ۔اس طرح قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور گھر والوں کو جہنم سے بچاؤ۔فلہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو حلال کمائی کھلائین،انہیں زیر تعلیم سے آراستہ کریں۔بنیادی اسلامی تعلیمات،حلال و حرام اور جائز و ناجائز وغیرہ سے انہیں متعارف کروائیں اور ان کی نشوؤنما اور تربیت میں اسلامی آداب کو ملحوظ رکھیں۔مگر موجودہ صورتحال میں اکثر لوگ اپنی اس ذمہ داری سے سخت غافل ہیں،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل یہود ونصاریٰ اور ہنود و کفار کی تہذیب میں رنگ چکی ہے۔اس کا نتیجہ ہے کہ نوجوان بچیاں والدین سے بغاوت کر کے ان کی عزت کو بٹہ لگا کر ان کی رسوائی کا بھی سبب بنتی ہیں اور خود بھی برباد ہو جاتی ہیں ۔اس کے اسباب ووجوہ کیا ہیں اور اس کا علاج کیا ہے زیر نظر کتاب میں اسی کا جواب دیا گیا ہے،جو ہر مسلمان کے لیے قابل مطالعہ ہے۔(ط۔ا)
اسلام کی بنیاد قرآن مجید اور رسول اکرم ﷺ کی حدیث وسنت پر ہے اور اس پر تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے۔لیکن افسوس ہے کہ متجددین نے اس متفقہ مسلک سے انحراف کر کے خودساختہ نظریات کی بنیاد پر حدیث کا حقیقی مقام ماننے سے انکار کر دیا ہے۔عصر حاضر کے ایک معروف ٹی وی اسکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے یہ عجیب نظریہ پیش کیا ہے کہ ’حدیث‘دین کا ماخذ نہیں ہے اور اس سے دین ثابت نہیں ہوتا۔انہوں نے ’سنت‘اور’حدیث‘ میں بھی ایک خودساختہ فرق پیش کیا ہے اور اس طرح حدیث کی تشریعی حیثیت کو صدمہ پہنچایا ہے۔محترم جناب رفیق چودھری صاحب نے غامدی صاحب کے اس طرز عمل کو ’انکار حدیث‘سے تعبیر کیا ہے جو کچھ ایسا بے جا بھی نہیں۔چودھری صاحب نے غامدی صاحب کے ’نظریہ حدیث‘کا تفصیلی ناقدانہ جائزہ لیا ہے جس سے اس کی کمزوری واضح ہو جاتی ہے۔بعض مقامات پر کچھ سختی دکھائی دیتی ہے ،تاہم مجموعی طور پر یہ انتہائی مفید کاوش ہے۔(ط۔ا)
آج کے مادی دور میں ہر شخص ایک خوشگوار زندگی گزارنے کا خواہش مند ہے ۔لیکن زیادہ تر لوگوں کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ایک اچھی اور خوش گوار زندگی دنیوی آسائشوں اور مال ودولت ہی سے حاصل ہو سکتی ہے،لیکن افسوس کہ ہم نے اس باب میں قرآن وحدیث سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ خوش گوار زندگی کے اصول کیا ہیں؟یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بے شمار آسائشوں کے حصول کے بعد بھی بے سکونی و بے اطمینانی رہتی ہے۔جناب ڈاکٹر حافظ اسحٰق زاہد نے زیر نظر کتابچے میں کتاب وسنت کی روشنی میں 12 ایسے اصول ذکر کیے ہیں جو خوش گوار زندگی کے ضامن ہیں اور سچ یہ ہے کہ ان کو نظر انداز کر کے کبھی بھی مطمئن وسرور زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ ان اصولوں کو اپنائے تاکہ وہ دنیا میں ایک خوش گوار زندگی گزار سکے اور آخرت میں بھی اچھی زندگی کا مستحق ہو سکے۔(ط۔ا)
ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کے اشتراک سے تسلسل کے ساتھ علمی موضوعات پر بہت سی کتب اشاعت کے زیور سے آراستہ ہو رہی ہیں۔ اس کتاب میں دونوں حضرات نے شرک کی شناعت کو سامنے رکھتے ہوئے اس موضوع پر بھی قرآن و حدیث کا مؤقف پیش کردیا ہے ۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں توحید اور اس کی اقسام کی تعریف ہے ، نیز ان شروط کا ذکر ہے جن پر توحید کی سلامتی اور بقا کا انحصار ہے ۔ دوسرا باب شرک کی حقیقت اور اس کےاضرار کو واضح کرتا ہے، نیز مختلف قوموں میں پائے جانے والے شرک کو قرآن و حدیث کی نصوص سے بیان کرتا ہے ۔ تیسرے اور آخری باب میں عصر حاضر میں پائے جانے والے شر کے کے مختلف طرق کا قدرے تفصیلی ذکر ہے۔ رسالہ کا اسلوب سہل ہے اور تمام مندرجات مدلل اور باحوالہ ہیں ۔ (ع ۔ م)
کسی مسئلہ کی تفہیم و توضیح میں اختلاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں کہ یہ تو صحابہ کرام ؓ اجمعین کے بہترین زمانہ میں بھی تھا اصل بات یہ ہے کہ جب قرآن وحدیث کی نصوص سامنے آجائیں تو سرتسلیم ضم کر دینا چاہیے یہی اہل ایمان کا وطیرہ ہے۔لیکن جب حق کی پیروی مقصود نہ ہو بلکہ محض اپنے فرقے اور گروہ کی بالا دستی ہی فتہائے نگاہ ٹھہرے تو انسان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی بندھ جاتی ہے اور وہ قرآن و حدیث کو ماننے کے بجائے اپنے مقصد کی خاطر ان میں تحریف و تبدل پر ہی اتر آتا ہے جوکہ انتہائی خطرناک رویہ ہے۔بعض تقلیدی گروہوں میں یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ آیات قرآنی اور احادیث کی لفظی ومعنوی تحریف سے بھی نہیں چوکتے گویا بقول اقبال: ’’خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں‘‘زیر نظر کتابچہ میں باحوالہ اس امر کو ثابت کیا گیا ہے کہ بعض افراد نے قرآن وحدیث میں دانستہ و نادانستہ لفظی یا معنوی تبدیلیاں کی ہیں۔امید ہے کہ ٹھنڈے دل سے اس پر غور وفکر کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی اور محض مناظرانہ پچ میں آکر حق کا انکار نہیں کیا جائے گا۔
اسلامی تعلیمات کا یہ اعجاز ہے کہ ان کے ذریعے زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی اعلیٰ درجے کے افراد پیدا ہوئے۔چنانچہ اسلامی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ مختلف ادوار میں بے مثال کردار اور خوبیاں رکھنے والے حکمران،علماء،سپہ سالار اور ماہرین فن موجود رہے،جن پر آج بھی انسانیت کا سر فخر سے بلند ہے۔لیکن افسوس کہ بعض غیر محتاط اور متعصب مؤرخین نے اسلامی تاریخ کو اس طرح بگاڑا ہے کہ آج کی نئی نسل اپنے اسلاف سے بد ظن ہو چکی ہے اور ان کی روشن تاریخ کو اپنے ہی منہ سے سیاہ قرار دینے لگی ہے ۔زیر نظر کتاب میں ہمارے اسلاف کی شجاعت و بسالت،رافت و رحمت فہم و فراست ،جو دوسخا،بدل وعطا،عفو و حلم،حق گوئی و بیباکی ،ہمدردی وغساری کے بے نظیر واقعات انتہائی دلچسپ انداز سے بیان کیا ہے ۔اس کتاب سے ہمیں اپنے روشن ماضی سے آگہی حاصل ہو گی جس سے حال کو سنوارنے میں مدد ملے گی اور درخشندہ مستقبل کی جانب پیش قدمی ممکن ہو سکے گی۔ان شاء اللہ۔(ط۔ا)
اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جنم لینے والے بعض فتنوں مثلاً خوارج،معتزلہ،باطنیہ،قادیانیت اور انکار حدیث کی طرح دور حاضر میں ایک بڑا فتنہ تجدد پسند الحادی فکر ہے جس کا مقصد امت مسلمہ کو اس کے ماضی سے کاٹ دینا اور اسے دین اسلام کی چودہ سو سالہ متفقہ اور متوارث تعبیر سےمحروم کر دینا ہے۔جناب جاوید احمد غامدی اسی تجدید پسند الحادی فکر کے علمبر دار ہیں اور تحریر و تقریر اور میڈیا کے ذریعے اس فکر کو پھیلانے میں سر گر م عمل ہیں۔موصوف اسلامی جہاد کے مخالف ہیں،قرآن مجید کی معنوی تحریف کرتے ہیں،حدیث و سنت کی حجیت کو نہیں مانتے اور حدیث کو دین کا حصہ تسلیم نہیں کرتے۔اجماع امت کے منکر ہیں،شرعی اصطلاحات کے معنی بدلتے ہیں اور مغربی تہذیب کو مسلم معاشرے میں رائج کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔زیر نظر کتاب میں غامدی صاحب کے افکار و تطریات کا علمی و تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے،جس سے قارئین کو غامدی تصورات کی حقیقت جاننے کا موقع ملے گا۔اس کتاب سے بحیثیت مجموعی اتفاق کے باوجود انداز تحریر اور بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے۔(ط۔ا)
کتاب وسنت کی روشنی میں مسائل زندگی سے متعلق شرعی راہنمائی کا نام اصطلاحی زبان میں ’فتوی‘ہے۔علمائے امت کے فتاوی کی ہزاروں سے متجاوز کتابیں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہیں،جن سے خلق خدا مستفید ہو رہی ہے۔انہی میں ایک ’فتاوی‘مولانا عبیداللہ عفیف دامت برکاتہم کا بھی ہے جو عظیم محدث اور جلیل القدر فقیہ و مفتی ہیں اور عرصہ دراز سے تدریس و افتاء میں مشغول ہیں۔جماعت اہل حدیث کے بزرگ ترین عالم و مفتی ہیں۔آپ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں اور قر آن و حدیث اور ائمہ سلف کی کتابوں سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں ۔آپ کے فتاوی قوی دلائل پر مشتمل ہو تے ہیں ۔لہذا علماء و عوام میں یکساں لائق اعتماد جانے جاتے ہیں ۔واضح رہے کہ مفتی جماعت مولانا مبشر احمد ربانی بھی مولانا عفیف کے شاگردوں میں شامل ہیں،جس سے استاذ کی جلالت شان کا اندازہ ہوتا ہے۔قارئین اس عظیم الشان فتاوی سے یقیناً بہت فائدہ اٹھائیں گے۔(ط۔ا)
کتاب و سنت ڈاٹ کام پر علمائے اہل حدیث کے متعدد فتاویٰ پیش کیے جا چکے ہیں ۔الحمد للہ۔زیر نظر کتاب ان میں سے ایک منفرد اور خوبصورت اضافہ ہے۔فتاویٰ الدین الخالص محدث زمان فقیہ عصر مولانا امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے رشخات قلم کا نتیجہ ہےموصوف علمائے سلف کی یادگار ہیں۔زیر نظر فتاویٰ کے چند امتیازات یہ ہیں کہ فتوی کا مدار کتاب وسنت پر رکھا گیا ہے،فتوی میں مذکور احادیث کی تخریج کی گئی ہے اور اس کی صحت و ضعف کی بھی وضاحت کر دی گئی ہے۔اس میں احکام کے ساتھ ساتھ عقیدہ،حدیث،تفسیر،معرفت فرق بھی شامل ہیں۔مذاہب علما میں سے کسی خاص مسلک کی پابندی کا التزام نہیں کیا گیا بلکہ دلیل کو اہمیت دی ہے۔اختصار و تطویل سے اجتناب کیا ہے ان خوبیوں کی بنا پر ہر مسلمان کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ شرعی مسائل سے واقف ہو کر ان پر عمل پیرا ہو سکے۔(ط۔ا)
قرآن و حدیث میں دعا کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر و نمایاں کیا گیاہے۔دعا دراصل خدا کے حضور اپنی لاچاری،بے بسی اور عاجزی کا اقرار اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اعتماد وتوکل کا اظہار ہے۔یہی وجہ ہے کہ دعا نہ کرنے والوں کو متکبر قرار دیا گیا ہے۔دعا کی اہمیت کے پیش نظر نبی مکرم ﷺ نے امت کو زندگی کے ہر موقع سے متعلق دعائیں سکھائی ہیں،جوکہ کتب احادیث میں مذکور ہیں۔’حصن المسلم‘میں انہی دعاؤں کو جمع کر دیا گیا ہے۔یہ مجموعہ اصلاً ایک عربی عالم نے جمع کیا ہے،لہذا اس کا ترجمہ بھی ضروری تھا تاکہ اردو دان طبقہ ان دعاؤں کے معانی سے بھی واقف ہو سکتا۔چنانچہ جناب عبدالحمید سندھی نے یہ ضرورت بھی پوری کر دی اور تمام دعاؤں کا اردو ترجمہ کردا۔اس مجموعہ دعا کے مختلف ایڈیشن بازار میں دستیاب ہیں۔تاہم اس ایڈیشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تحقیق و تخریج محدث زماں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے کی ہے۔(ط۔ا)
شرعی احکام و مسائل سے متعلقہ استفسارات کا کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دینا،فتوی کہلاتا ہے۔اردو زبان میں فتاویٰ پر بے شمار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔زیر نظر فتاویٰ حضرۃ الاستاذ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خاں مدنی حفظہ اللہ کے قلم سے ہے۔آپ جماعت اہل حدیث کے اکابر مفتیوں میں شمار ہوتےہیں اور مجتہد زماں علامہ حافظ عبداللہ صاحب محدث روپڑی ؒ کے تلامذہ میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔آپ کے یہ فتاویٰ الاعتصام ،محدث میں شائع ہوتے رہے ہیں ،جنہیں کتابی صورت میں یکجا کر دیا گیا ہے۔تقریباً نوصد(900)صفحات پر مشتمل یہ عظیم الشان فتاوی کی پہلی جلد ہے ،جلد ہی مزید مجلدات بھی منظر عام پر آجائیں گی۔ان فتاویٰ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں براہ راست کتاب و سنت سے استدلال کیا گیا ہے نیز فتوی دیتے ہوئے فقہ الواقع اور مقاصد شریعت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے ،جس سے ان میں اعتدال و توازن کی جھلک واضح نظر آتی ہے بلا شبہ یہ عصر حاضر میں منہج اہل حدیث پر سب سے مستند فتاویٰ ہے۔اس جلد میں زیادہ تر ’عقائد‘سے متعلقہ فتوے ہیں تاہم دیگر فقہی مسائل بھی موجود ہیں،جن سے عوام و خواص یکساں مستفید ہو سکتے ہیں۔(ط۔ا)
دین اسلام کی بنیاد قرآن مجید اور حدیث وسنت پر ہے۔دین میں کسی چیز کے حلال و حرام یا جائز و ناجائز ہونے کا مدار انہی پر ہے۔جمہور امت اور فقہائے اربعہ رحمتہ اللہ علیہم انہی دلائل کی بنا پر موسیقی کو حرام و ناجائز قرار دیتے ہیں۔بلکہ صحابہ کرام ؓ اجمعین بھی موسیقی اور آلات موسیقی کی حرمت پر متفق ہیں۔لیکن غامدی حلقہ فکر موسیقی کو جائز اور مستحسن گردانتا ہے۔مولانا ارشاد الحق اثری نے ان کی تردید میں ایک کتاب لکھی تھی جس پر اہل اشراق نے مزید اعتراضات جڑ دیے۔زیر نظر کتاب میں انہی دلائل کا مکمل اور مسکت جواب دیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ موسیقی کو جائز ٹھہرا کر یہ حضرات نوجوان طبقے کو خصوصاً افراد امت کو عموماً مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ان کے گمراہ کن استدلال کا شافی جواب مولانا اثری نے زیر نظر کتاب میں دیا ہے جو لائق مطالعہ ہے۔
ہمارے ہاں اپنے اپنے فرقے یا فقہی مکتب خیال کو برسر حق ثابت کرنے کے لیے بعض اوقات بڑے دلچسپ دلائل دیے جاتے ہیں۔اسی طرح کی ایک دلیل حنفیہ کرام دیتے ہیں کہ فقہ حنفی کی ایک وجہ ترجیح یا فضیلت یہ بھی ہے کہ یہ ’’اجتماعی فقہ‘‘ہے۔ان کے بقول بڑے بڑے علما و مجتہدین نے رات دن ایک کر کے اس کی تدوین و ترتیب کا فریضہ سر انجام دیا۔ان کا کہنا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنے چار ہزار شاگردوں میں سے صرف چالیس شاگردوں کا انتخاب کیا جنہوں نے پورے تیس سال یعنی 120سے 150ھ تک تدوین فقہ میں حصہ لیا اور ایک ایسا مجموعہ تیار کیا جو اپنی عمدگی میں بے مثل اور بے نظیر ہے۔زیر نظر کتاب میں مولانا یحییٰ گوندلوی مرحوم نے اس دعوے کا جائزہ لیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ بلا دلیل ہے کیونکہ امام صاحب نے نہ تو کوئی ایسی کمیٹی بنائی جس نے تدوین فقہ کا کام کیا ہو اور نہ ہی انہوں نے فقہ مدون کرائی۔اس پر کئی قرائن ہیں مثلاً جن لوگوں کو اس کمیٹی کے ارکان ظاہر کیا جاتا ہے ان میں سے کئی تو اس کمیٹی کی تشکیل کے وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اور بعض بہت چھوٹی عمر کے تھے۔بہر حال یہ تحقیقی کتاب لائق مطالعہ ہے۔(ط۔ا)
یہ دنیا دار العمل ہے جزاء و سزا کا فیصلہ آخرت میں ہوگا۔جن و انس کی تخلیق کا مقصد عبادت الہیٰ ہے۔عبادت کی تفصیلات بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام ؑ بھیجے جنہوں نے خدا کا پیغام انسانوں تک پہنچا دیا۔اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہو۔جو کامیاب ہو وہ جنت میں جائے گا اور ناکام شخص جہنم کا رزق بنے گا،ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ جہنم سے بچ کر جنت میں داخل ہو جائے اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔زیر نظر کتاب میں قرآن و حدیث کے حوالے سے نہایت سلیس اور موثر انداز میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کے عذاب کا ایک موازنہ پیش کیا ہے،یہ کتاب عربی سے اردو میں منتقل کرنے کا فریضہ جناب عنایت اللہ بن حفیظ اللہ سنابلی نے سر انجام دیا ہے جس پر وہ اردو دان طبقہ کے شکریہ کے سزاوار ہیں۔خداتعالیٰ مؤلف و مترجم کو جزا دے او رہمیں جنت کے راستے پر گامزن فرمائے۔آمین
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے جن جلیل القدر ہستیوں کو منتخب فرمایا،انہیں رسول و نبی کہا جاتاہے۔سلسلہ انبیاء ورسل ؑ کی آخری کڑی آقائے دو جہاں حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جن پر سلسلہ نبوت ورسالت مکمل ہوا اور اب رہتی دنیا تک انہی کی اتباع و اطاعت ہی فلاح و کامرانی کی ضامن ہے۔مسلمان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے جو محبت وعقیدت رکھتے ہیں،اسی نے انہیں ایک امت واحدہ بنارکھا ہے۔یہی چیز کفار کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور وہ اس تعلق کو ختم یا کمزور کرنے کے لیے ناپاک جسارتیں کرتے رہتے ہیں۔کبھی وہ آپ ﷺ کے خاکے بناتے ہیں اور کبھی آپ ﷺ پر لایعنی اعتراضات اور الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔جس کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کو مشکوک کیا جائے۔لیکن مسلمان اہل علم نے ان کے اعتراضات کا جواب دے رکھا ہے اور اپنی کتابوں میں نبوت ورسالت محمدی کے ایسے مضبوط دلائل و براہین پیش کیے ہیں ،جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں۔زیر نظر کتاب میں بھی اسی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس سے ایمان بالرسالت میں مزید ایقان و استحکام پیدا ہو گا۔ان شاء اللہ
جاہلیت جدیدہ کے علم برداروں نے آزادی اظہار کے نام پر انبیائے کرام ؑ کو بالعموم او رحضور حتمی المرتبت حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تنقیص و اہانت کو اپنا منتہائے نگاہ ٹھہرا لیا ہے،جس کے مظاہر حالیہ چند برسوں میں مختلف یورپی ممالک میں دیکھنے کو ملے۔ان حالات میں یہ لازم تھا کہ جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی تقدیس و تعظیم کے تصور کو اجاگر کیا جاتا اور توہین رسالت کی شناعت و قباحت اور اس کی سزا وعقوبت کو کتاب وسنت کی روشنی میں واضح کیا جاتا۔اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی کرامت کہیے یا عنداللہ ان کی مقبولیت کہ ناموس رسالت کے دفاع و تحفظ پر جو کچھ شیخ الاسلام ؒ کے قلم سے نکلا ہے سات صدیوں سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اس قدر جاندار،زندہ اور مدلل ہے کہ اس مسئلہ میں آج بھی سند اور اولین مرجع کی حیثیت رکھتا ہے۔زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام ؒ نے خاص اسی مسئلہ پر تحریر کی ہے اور اپنے خاص انداز تحریر میں اس قضیہ کے ہر پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔اس کتاب کے حسن قبول کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو شیخ الاسلام کے سخت ناقد اور مخالف ہیں وہ بھی اس کا اردو ترجمہ کر کے شائع کر رہے ہیں،جیسا کہ اس سے قبل اس ترجمے کو اسی ویب سائٹ پر پیش کیا جا چکا ہے۔اب معروف سلفی عالم اور مصنف و مترجم جناب پروفیسر غلام احمد حریری مرحوم کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔جو اگرچہ کافی عرصہ سے موجود ہے تاہم اس کی نئی طباعت حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے عقیدہ ناموس رسالت میں پختگی آنے کی اور جناب رسالتمآب ﷺ سے محبت و الفت کے رشتے مزید مستحکم ہوں گے۔ان شاء اللہ تعالیٰ
اللہ رب العزت نے انسانوں اور جنوں کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔عبادت کے معنی محض چیز ظاہری اعمال و مراسم ہی تک محدود نہیں بلکہ اپنی پوری زندگی کو خدا کے احکامات کے مطابق بسر کرنا عبادت ہے۔لہذا ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کی مرضی معلوم کریں۔اس سلسلہ میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی یہ نہ جانتا ہو کہ خدا کا حکم کیا ہے تو اسے ’اہل الذکر‘ یعنی علمائے کتاب وسنت سے معلوم کر لینا چاہیے ۔شرعی اصطلاح میں اسی کو استفتاء و افتاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔فی زمانہ جب کہ دین سے لا علمی اور جہالت کا دور دورہ ہے ،یہ ضروری ہو گیا ہے ک علمائے حق سے شرعی رہنمائی حاصل کی جائے۔زیر نظر فتاویٰ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے ۔اس کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ سوالات کا جواب کسی خاص فقہی مکتب فکر کی روشنی میں نہیں بلکہ خالصتاً کتاب وسنت کی روشنی میں دیا گیا ہے ۔نیز جدید مسائل خصوصاً معاشی مسائل پر بھی رہنمائی موجود ہے۔ہر مسلمان کو لازماً اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ قرآن وحدیث کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکے۔
شیخ محمد بن جمیل زینو سعودی عرب کے جلیل القدر عالم اور معروف مصنف ہیں۔ان کی تحریر کا اصل موضوع ’اصلاح عقائد‘ ہے اور اس سلسلہ میں متعدد کتابیں ان کے قلم سے نکل عوام و خواص میں سند قبولیت حاصل کر چکی ہیں۔شیخ صاحب موصوف تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ میدان تدریس کے بھی شہسوار ہیں۔آپ شام کے شہر حلب میں 29سال تک درس و تدریس میں مشغول رہے۔بعدازاں شیخ ابن باز ؒ کے کہنے پر اردن میں دعوت و تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔کچھ عرصہ بعد مکہ مکرمہ کے ’دارالحدیث الخیریہ‘میں بطور مدرس مقرر ہوئے اور تفسیر ،حدیث اور عقیدہ کے اسباق پڑھانے لگے۔زیر نظر کتابچے میں شیخ نے اپنے ذاتی حالات و کوائف بیان کیے ہیں کہ کس طرح انہوں نے خالص عقیدہ توحید اختیار کیا۔یہ بات قارئین کے لیے یقیناً دلچسپ ہوگی کہ شیخ صاحب پہلے نقشبندی صوفی تھی،بعد ازاں سلفی عقیدہ کی نعمت سے مالا مال ہوئے ۔یہ کیسے ہوا،اس کتابچے میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔