اختلاف رائے انسانی سرشت میں داخل ہے اور کسی بھی شخصی رائے کو من وعن قبول کر لینا ناممکن ہے ۔حتی کہ شرعی مسائل میں بھی اختلاف رائے کی گنجائش باقی ہے ۔اور مختلف مسائل میں مختلف علما کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔جائز اختلاف حق ہے اور دلائل کی رو سے اختلاف کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں۔نیز کتاب وسنت کے دلائل بھی بے طریق احسن وجادلہ ومباحثہ کی اجازت دیتے ہیں۔لیکن اختلاف رائے کی صورت میں فریق مخالف کو ہدف تنقید بنانا ،دشنام طرازی کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنا اور فریق مخالف کی عزت اور خون تک کو حلال سمجھ لینا قطعاً ناجائز ہے ۔اور انتہائی سفلت اور کمینگی ہے ۔اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے ناقد کی بات سننا اپنے دفاع میں دلائل دینا،مباحثے کو خوبصورت پیرائے میں ڈھالنا اور فریق مخالف کی عزت ووقار کو ملحوظ رکھنا مباحثہ کی بہترین صورت ہے ۔زیر تبصرہ کتاب اختلاف رائے کے آداب واحکام پر مشتمل ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کے لیے بہترین ثابت ہو گا۔(ف۔ر)
انسانی دنیا میں اختلاف کا پایا جانا ایک مسلمہ بات ہے ۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق میں ایک سنت۔ چنانچہ لوگ اپنے رنگ وزبان اور طبیعت وادراکات اور معارف وعقول اور شکل وصورت میں باہم مختلف ہیں ۔امت محمدیہ آج جن چیزوں سے دوچار ہے ،اور آج سے پہلے بھی دو چار تھی ،ان میں اہم ترین چیز بظاہر اختلاف کا معا ملہ ہے جو امت کے افراد وجماعتوں، مذاہب وحکومتوں سب کے درمیان پایا جاتا رہا اور پایا جاتا ہے یہ اختلاف کبھی بڑھ کر ایسا ہوجاتا ہے کہ گروہ بندی تک پہنچ جاتا ہے اور یہ گروہ بندی باہمی دشمنی تک اور پھر جنگ وجدال تک ذریعہ بنتی ہے ۔اور یہ چیزیں اکثر دینی رنگ وعنوان بھی اختیار کر لیتی ہیں جس کے لیے نصوصِ وحی میں توجیہ وتاویل سے کام لیا جاتا ہے ، یا امت کے سلف صالح صحابہ وعلماء واصحاب مذاہب کے معاملات وحالات سے استناد حاصل کیا جاتا ہے ۔اور اختلاف اساسی طورپر دین کی رو سے کوئی منکر چیز نہیں ہے ،بلکہ وہ ایک مشروع چیز ہے جس پر کتاب وسنت کے بے شمار دلائل موجود ہیں۔علم الاختلاف سے مراد ان مسائل کا علم ہے جن میں اجتہاد جاری ہوتا ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب’’ سلیقۂ اختل...