اختلاف رائے انسانی سرشت میں داخل ہے اور کسی بھی شخصی رائے کو من وعن قبول کر لینا ناممکن ہے ۔حتی کہ شرعی مسائل میں بھی اختلاف رائے کی گنجائش باقی ہے ۔اور مختلف مسائل میں مختلف علما کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔جائز اختلاف حق ہے اور دلائل کی رو سے اختلاف کا وقوع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں۔نیز کتاب وسنت کے دلائل بھی بے طریق احسن وجادلہ ومباحثہ کی اجازت دیتے ہیں۔لیکن اختلاف رائے کی صورت میں فریق مخالف کو ہدف تنقید بنانا ،دشنام طرازی کا لامتناہی سلسلہ شروع کرنا اور فریق مخالف کی عزت اور خون تک کو حلال سمجھ لینا قطعاً ناجائز ہے ۔اور انتہائی سفلت اور کمینگی ہے ۔اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے ناقد کی بات سننا اپنے دفاع میں دلائل دینا،مباحثے کو خوبصورت پیرائے میں ڈھالنا اور فریق مخالف کی عزت ووقار کو ملحوظ رکھنا مباحثہ کی بہترین صورت ہے ۔زیر تبصرہ کتاب اختلاف رائے کے آداب واحکام پر مشتمل ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کے لیے بہترین ثابت ہو گا۔(ف۔ر)
امام احمد بن حنبل( 164ھ -241) بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 179ھ میں علم حدیث کے حصول میں مشغول ہوئے جبکہ اُن کی عمر محض 15 سال تھی۔ 183ھ میں کوفہ کا سفر اختیار کیا اور اپنے استاد ہثیم کی وفات تک وہاں مقیم رہے، اِس کے بعد دیگر شہروں اور ملکوں میں علم حدیث کے حصول کی خاطر سفر کرتے رہے۔ امام احمد جس درجہ کے محدث تھے اسی درجہ کے فقیہ اورمجتہد بھی تھے۔ حنبلی مسلک کی نسبت امام صاحب ہی کی جانب ہے۔ اس مسلک کا اصل دار و مدار نقل و روایت اور احادیث و آثار پر ہے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ مسئلہ خلق قرآن میں خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤ...
صحیح عقیدہ ہی ملت اسلامیہ کی بنیاد اوردین اسلام کی اساس ہے کیونکہ اعمال صالحہ کی قبولیت کامدار عقائد صحیحہ پر ہے۔ اور یہ بات کتاب وسنت کے دلائل وبراہین سے واضح اور مسلم ہے کہ بارگاہ الٰہی میں انسان کے وہی اعمال مقبول ہوگے جن کی اساس صحیح عقیدے پر ہوگئی۔ صحیح عقیدے کے بغیر ہر عمل بیکار ہے اوراللہ کے ہاں اس کا کوئی درجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء ورسل کو عام انسانوں کی فوز وفلاح اور رشد وہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تو انہوں نے بھی سب سےپہلے عقیدۂ توحید کی دعوت پیش کی کیونکہ اسلام کی اولین اساس و بنیاد توحید ہی ہے عقیدہ کاحسن ہی جو انسان کو کامیاب و کامران بناکر اللہ کی رضا مندی او رخوشی کاسرٹیفکیٹ فراہم کرتا ہے۔ اگر عقیدہ قرآن وحدیث کے مطابق ہوگا تو قیامت کے دن کامیاب ہوکر حضرت انسان جنت کا حقدار کہلائے گا، اور اگر عقیدہ خراب ہوگا تو جہنم میں جانے سے اسے کوئی چیز نہ روک سکے گی۔ (االا من رحم ربی) زیر تبصرہ کتاب ’’حراست توحید‘‘ عالم اسلام کے نامور عالم دین مفتی اعظم سعودی عرب فضیلۃ الشیخ عبدالعز...