اللہ کے آخری رسولﷺ نے آسمانی ہدایات کے مطابق اس امت کی شکل میں ایک تحریک کھڑی کی تھی جس کا سب کچھ قیامت تک باقی رہنا یقینی امر ہے او اس تحریک کو زندہ و قائم رکھنے والے لوگوں کا بھی ہر دور میں ایک مستقل اور مسلسل انداز سے باقی رہنا آسمانی خبر کی رو سے قطعی اور حتمی ہے۔ اب وہ کون لوگ ہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق بن کر اس عظیم ترین شخصیت کی دعوت برحق کا فکری تسلسل رہے۔ ان کی وہ آئیڈیالوجی کیا ہے جو ان کے امتیاز کی اصل بنیاد رہی؟ اس تحریک کی تاسی کن لوگوں کے ہاتھوں ہوئی اور کن کے ہاتھوں اس کی ترجمانی و تجدید کا کام ہوتا رہا ہے؟ اس کے پیروکاروں کی درجہ بندی اور تقسیم مراتب کیونکر ہوتی رہی؟ اس سے انحرافات کو کس طرح ضبط میں لایا جاتا رہا اور ا س کے مخالفوں کے بارے میں کیا پالیسی اختیا کی جاتی رہی؟ پھر موجودہ دور میں اس کے دائرہ کی حدود کیا ہیں؟ اس کی ترجیحات کا محور کیا ہے؟ اس سے انحرافات کی شکل کیا ہے اور اس کو درپیش اصل چیلنج کون سے ہیں۔ فکر و عمل میں اس کے کردا کو زندہ کرنے کے لیے آغاز کہاں سے ہوا اور زاد راہ کی صورت کیا ہو؟ یہی سوالات اس کتاب کا موضوع ہیں۔(ع۔م)
دین اسلا م کا اصل ماخذ کتاب و سنت ہے، جس کے اہتمام کی خاص تاکید ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سمیت تمام امتیوں کوہر دورمیں کتاب وسنت سے شدید وابستگی کی تلقین کی گئی ہے-نبی کریمﷺنے ان الہامی تعلیمات پر عمل اور ان پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کودین کی بقا سے تعبیر کیاہے، اور ان سے بے التفاتی اور کجی کو گمراہی قراردیا، آپ ﷺ نے فرمایا۔میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہاہوں، جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہو گے، (وہ دو چیزیں ) اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے- لہذا دین کی بقا اور استحکام کتاب وسنت سے تعلق استوار کرنے ہی میں ہے،اسلام کے ابتدائی ادوار میں اسلام کے غلبہ اور استحکام کا باعث بھی یہی چیز تھی اور مرور زمانہ کے ساتھ اسلام کا استحکام انہی دو چیزوں سے نتھی ہے،سو جس بھی دور میں اہل اسلام خود کو کتاب وسنت کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال لیں گے، عظمت ورفعت ان کا مقدر ٹھہرے گی –نیز مذہب کے نام پر وجود میں آنے والی تنظیمیں اور تحریکیں بھی وہی مستحکم اور دیرپا ہوتی ہیں جن کی بنیاد الہامی تعلیمات پر ہو اور منہج میں سلف کے فہ...