اپنے اسلاف کے حالات او ران کے کارناموں سے واقفیت حاصل کرنا اس لیے ضروری کہ بعد میں آنے والے ان کے نقوشِ قدم پر چل سکیں اور زندگی میں ان سے راہنمائی حاصل کی جاسکے اوراسلاف کے کارناموں کو زندہ رکھا جا سکے ۔ اس سلسلے میں برصغیر کے کئی سیرت نگاروں نے ائمہ محدثین اور دیگر ائمہ اسلاف کی حیات وخدمات کے حوالے کتب لکھی ہیں۔اور اردو زبان میں عام فہم انداز میں صوفیا کرام اور نام نہادبزرگوں پر تو بہت کچھ لکھا جاتاہے لیکن اسلام کے اصل محسن اور سنت رسولﷺ کے امین اور محافظ ہستیوں کے حالات لکھنے کی روایت نہ ہونے کے برابر ہے۔جس کی وجہ سے ہماری نئی نسل اور بڑے بھی محدثین کے نام اور ان کے حالات وخدمات سے واقف نہیں۔ زیر نظر کتابچہ ’’حدیث نبوی کے محافظ‘‘ محترمہ ام منیب صاحبہ کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو انہوں نے بچوں کے رسالہ نور کے لیے عام فہم انداز میں محدثین کی حیات وخدمات پر لکھے تھے۔ جسے قارئین کے اصرار پر اس سلسلےکو کتابی صورت میں شائع کیا گیاہے۔جس میں گیارہ محدثین کے حالات ِزندگی اور آخر میں فنِ حدیث کی اصطلاحات کااشاریہ ب...
حدیث وسنت دونوں آپس میں اس طرح لازم ملزوم ہیں کہ ایک کے کہنے سے دوسرا خود بخود سمجھ میں آجاتا ہے اسی لیے حدیث وسنت کو مترادف اور متساوی قرار دیا جاتا ہے اگرچہ لفظی اور معنوی اعتبار سے دونوں الگ الگ مادوں سے آتے اورسمجھے جاتے ہیں لیکن اصطلاحی اعتبار سے دونوں لازم ملزوم ہیں علماء اصول نےدونوں کی تعریف میں یکسانیت اور توافق کو برقرار رکھا ہے ۔ اسلاف امت ایک ہی چیز کو کبھی سنت اور کبھی حدیث کہہ دیاکرتے تھے اس طرح دونوں میں کسی طرح کی مغایرت باقی نہیں ۔ ایک ہی حقیقت کے دو نام آپس میں اس طرح ضم ہوگئے کہ دوروح ایک قالب ہوگئے۔ حتیٰ کہ حدیث وسنت کا یہی مفہوم نبی کریمﷺ، صحابہ کرام اور اسلاف امت سے ثابت ہے ۔ماضی قریب میں بھی ہمارے علماء حدیث وسنت کو مترادف سمجھتے تھے اسی لئیے وہ حدیث کا ترجمہ سنت اور سنت کا ترجمہ حدیث سے کیا کرتے تھےجس کے ثبوت زیر نظر کتاب میں ملاحظہ کیا جاسکتے ہیں ۔ حدیث وسنت میں فرق کا فتنہ برصغیر میں سب سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی کذاب ودجال...
قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہےقرآن مجید نے سنت نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے ۔ قرآن مجید کے ساتھ سنت نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔امت مسلمہ کا اس بات بر ہمیشہ اتفاق اوراجماع رہا ہےکہ قرآن مجید کےعلاوہ حدیث وسنت بھی وحی کا درجہ رکھتی ہےاور رسول اللہ ﷺ پر قرآن کےعلاوہ بھی وحی نازل ہوتی تھی۔لیکن ماضی کےخوارج اورکچھ معتزلہ کی طرح بعض جدید دور کے گمراہ لوگوں نے بھی حدیث وسنت کے وحی ہونے کا انکار کیا ہے اورایک غلط اور گمراہ کن مؤقفااختیار کیا ہے کہ حضورﷺ پر قرآن کےعلاوہ اور کوئی نازل نہیں ہوتی تھی۔ زیر نظر کتاب ’’حدیث وحی ہے‘‘محترم پروفیسر مولانا محمد رفیق چودھری ﷾ (مصنف ومترجم کتب کثیرہ) کی تصنیف ہےموصوف نے اس مختصر کتاب میں عام فہم انداز میں عمومی عقلی اور قرآنی دلائل کے ساتھ ساتھ احادیث صحیحہ سے ایسے تفصیلی دلائل فراہم کیے ہیں جن سے یہ حقیقت...
ٖ اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض ہرکارے کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین ،بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے...
کچھ گمراہ لوگوں نےعہد صحابہ ہی میں احادیث نبویہ سےمتعلق اپنےشکوک وشبہات کااظہارکرناشروع کردیا تھا ،جن کوپروان چڑہانےمیں خوارج ، رافضہ،جہمیہ،معتزلہ، اہل الرائے اور اس دور کے دیگر فرق ضالہ نےبھر پور کردار ادا کیا۔ لیکن اس دور میں کسی نے بھی حدیث وسنت کی حجیت سے کلیتاً انکار نہیں کیا تھا،تاآنکہ یہ شقاوت متحدہ ہندوستان کے چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی،جنہوں نے نہ صرف حجیت حدیث سے کلیتاً انکار کردیا بلکہ اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو عہد نبوی تک ہی قرار دینے کی سعی نامشکور کرنے لگے ۔ منکرین حدیث اور مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سےمتاثر ہو کر مسلمانوں کی بڑی تعداد انکار حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہوکر دائرہ اسلام سے نکلتی رہی ہے۔ لیکن الحمد للہ اس فتنہ انکار حدیث کے ردّ میں برصغیر پاک وہند میں جہاں علمائے اہل حدیث نے عمل بالحدیث اورردِّ تقلید کے باب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہیں فتنہ انکار حدیث کی تردید میں بھی اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں۔اس سلسلے میں سید نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولا...
الفوز اکیڈمی کے زیر اہتمام معرفت حدیث کے موضوع پر مصنف کے دئے گئے نو لیکچرز کے ابتدائی تین لیکچرز پر مشتمل اس کتاب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دین و شریعت کے ایک اہم ماخذ یعنی علم حدیث کو انتہائی سائینٹیفک لیکن سہل انداز میں متعارف کروایا جائے۔ طلبہ کی آسانی کیلئے اس کتاب میں بہت سے چارٹس بنا دئے گئے ہیں، تاکہ وہ اصطلاحات کے مشکل اسباق کو ذہن نشین کرنے میں آسانی محسوس کریں۔ یہ کتاب ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو حدیث، تاریخ حدیث، تدوین حدیث، اظلاحات حدیث ، کتب حدیث اور دیگر متعلقہ علوم کی ابتدائی واقفیت پہنچانے کیلئے نہایت اہم ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارا یہ ذی شعور طبقہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے امت مسلمہ کی سربلندی کے لیے فکری اور عملی اسلحہ سے لیس ہو کر سرگرم عمل ہو جائے۔
ابو عبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس معروف الکتانی1857ء کو فاس شہر میں پیدا ہوئے۔ تما م علوم وفنون کی تعلیم اپنے خاندان میں ہی حاصل کی ۔ 18 سال کی عمر میں تحصیل علم کے بعد مشائخ اور بڑے علماء کے امتحان اور جانچ پرکھ کےبعد خانقاہ کتانیہ میں تدریس شروع کی اور بیس سال کی عمر میں فاس کی سب سے بڑی مسجد جامع قرویین میں تدریس کی ابتداء کی جہاں اپنے والد صاحب کی نگرانی میں تقریباً سب ہی علوم وفنون کی متعددکتابیں پڑھائیں۔تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا ۔فقہ) حدیث ،تاریخ، تصوف، تفسیر، سیرت اور انساب وغیرہ جیسے موضوعات پر ساٹھ سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ان کی اہم کتب میں سے زیر تبصرہ اہم کتاب ’’رسالہ المستطرفہ ‘‘ ہے۔ یہ کتاب علم حدیث اور کتب حدیث کے تعارف کے متعلق ہے۔ اس کتاب کا علوم حدیث اور تعارف محدثین کے حوالے سے کتابوں میں وہی مقام ہے جو عام علوم کی نسبت ابن ندیم کی مشہور کتاب الفہرست لابن الندیم کا ہے۔ یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث کے 1400 کتابوں کے تذکرے اور چھ صد کے قریب مشہور محدثین کے تراجم اور تعارف پرمشتمل ہے۔ اس میں ہر کتاب...
ابو عبداللہ محمد بن جعفر بن ادریس معروف الکتانی1857ء کو فاس شہر میں پیدا ہوئے۔ تما م علوم وفنون کی تعلیم اپنے خاندان میں ہی حاصل کی ۔ 18 سال کی عمر میں تحصیل علم کے بعد مشائخ اور بڑے علماء کے امتحان اور جانچ پرکھ کےبعد خانقاہ کتانیہ میں تدریس شروع کی اور بیس سال کی عمر میں فاس کی سب سے بڑی مسجد جامع قرویین میں تدریس کی ابتداء کی جہاں اپنے والد صاحب کی نگرانی میں تقریباً سب ہی علوم وفنون کی متعددکتابیں پڑھائیں۔تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا ۔فقہ) حدیث ،تاریخ، تصوف، تفسیر، سیرت اور انساب وغیرہ جیسے موضوعات پر ساٹھ سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ان کی اہم کتب میں سے زیر تبصرہ اہم کتاب ’’رسالہ المستطرفہ ‘‘ ہے۔ یہ کتاب علم حدیث اور کتب حدیث کے تعارف کے متعلق ہے۔ اس کتاب کا علوم حدیث اور تعارف محدثین کے حوالے سے کتابوں میں وہی مقام ہے جو عام علوم کی نسبت ابن ندیم کی مشہور کتاب الفہرست لابن الندیم کا ہے۔ یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث کے 1400 کتابوں کے تذکرے اور چھ صد کے قریب مشہور محدثین کے تراجم اور تعارف پرمشتمل ہے۔ اس میں ہر کتاب...
زیر تبصرہ کتاب کتب احادیث کا وہ با برکت سلسلہ ہے جو محترم مولانا عبد المجید سوہدروی نے بچوں اور نوجوانوں میں حدیث کا شوق پیدا کرنے کے لئے شروع کیا تھا۔جس وقت آپ نے یہ مبارک سلسلہ شروع فرمایا تھا اس وقت بچوں اور نوجوانوں کے لئے اردو میں حدیث کے موضوع پر بہت کم کتب دستیاب تھیں۔بہرحال آپ نے نونہالان چمن کی اصلاح وتربیت کے لئے جو کتب لکھیں اور ان کی جو تشریح فرمائی وہ اپنی سلاست اور افادیت کی بناء پر بہت پسند کی گئیں۔اس وقت کے تقریبا 500 علماء کرام نے ان کتب کی بابت اپنے اچھے ریمارکس دئیے۔بطور نمونہ چند معروف علماء کرام کے ریمارکس کتاب کے شروع میں بھی درج کر دئیے گئے ہیں۔جنہیں پڑھ کر اس کتاب کی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ حدیث کی کل چار کتب ہیں ۔ہر کتاب میں متعدد احادیث جمع ہیں ۔پہلی کتاب میں 40 احادیث ہیں،دوسری میں 32،تیسری میں بھی 32 اور چوتھی میں 33 احادیث جمع ہیں۔اس طرح یہ نورانی سلسلہ کل 137 احادیث پر مشتمل ہے۔اس کتاب کی تخریج وتحقیق کا کام محترم مولانا محمد ادریس فاروقی صاحب نے کیا ہے۔یہ کتاب مدارس ،مساجد اور گھروں میں اسلامی تعلیم وتر...
رسول اکرم ﷺ کے قووعمل اور تقریر کوحدیث کہتے ہیں ۔ یہ وہ الہامی ذخیرہ ہے جو بذریعہ وحی نطق رسالت نے پیش فرمایا۔ یہ وہ دین ہے جس کے بغیر قرآن فہمی ناممکن ،فقہی استدلال فضول اور راست دینی نظریات عنقا ہوجاتے ہیں۔یہ اس شخصیات کے کلماتِ خیر ہیں جنہیں مان کر ایک عام شخص صحابی رسول بنا اور رب ذوالجلال نے اسے کے خطاب سے نوازا۔ یہ وہ علم ہےجس کاصحیح فہم حاصل کرکے ایک عام مسلمان ،امامت کےدرجے پر فائز ہوجاتاہے ۔ جس طرح کہ قرآن کریم تمام شرعی دلائل کا مآخذ ومنبع ہے۔اجماع وقیاس کی حجیت کے لیے بھی اسی سے استدلال کیا جاتا ہے ،اور اسی نےحدیث نبویہ کو شریعت ِاسلامیہ کا مصدرِ ثانی مقرر کیا ہے مصدر شریعت اور متمم دین کی حیثیت سے قرآن مجید کے ساتھ حدیث نبویہ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو حدیث کو محفوظ کرنے کے لیے احادیث نبویہ کو زبانی یاد کرنے اوراسے لکھنے کی ہدایات فرمائیں ۔ اسی لیے مسلمانوں نے نہ صرف قرآن کی حفاظت کا اہتمام کیا بلکہ حدیث کی حفاظت کے لئے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام...
نبی کریم ﷺکے قول ،عمل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں۔یہ وہ الہامی ذخیرہ ہے جو بذریعہ وحی نطق رسالت نے پیش فرمایا۔یہ وہ دین ہے جس کے بغیر قرآن فہمی ناممکن ،فقہی استدلال فضول اورر راست دینی نظریات عنقا ہو جاتے ہیں۔یہ اس شخصیت کے کلمات خیر ہیں،جنہیں مان کر ایک عام آدمی صحابی رسول بنا اور اللہ تعالی نے اسے اپنی رضا مندی کے سرٹیفکیٹ سے نوازا۔یہ وہ منزل من اللہ وحی ہے ،جسے نظر انداز کر کے کوئی شخص اپنے ایمان کو نہیں بچا سکتا ہے۔لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ حدیث رسول آج ایک مظلوم علم بن گیا ہے۔اس پر غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں نے بھی کرم فرمائی کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ حدیث کی حفاظت کا اہتمام نہ تو خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اور نہ اس کا حکم دیا ہے،حفاظت حدیث کیا ضروری تھی؟حفاظت نہ کی جاتی تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا؟کسی نے کہا کہ بہت ساری احادیث ہماری عقل کے مخالف ہیں۔یہ اور اس جیسے استخفاف حدیث پر مبنی کلمات ہمارے بعض مدبرین اور واعظین کی تحریروں میں نظر آتے ہیں۔ ایسے اعتراضات کو مستعار لینے اور دین پر جڑنے کی بجائے اگر یہ لوگ اس علم کو ذرا انہماک سے پڑھ لیتے تو شاید توقع سے زیادہ...
اللہ تعالیٰ نے یوں تو انسان کو بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں لیکن قوتِ حافظہ ان میں اہم ترین نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس خاص نعمت سے انسان مشاہدات و تجربات اور حالات و واقعات کو اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے اور ضرورت کے وقت انہیں مستحضر کرکے کام میں لاتا ہے-اہل عرب قبل از بعثت ِنبویﷺ ہزاروں برس سے اپنا کام تحریر و کتابت کے بجائے حافظہ سے چلانے کے خوگر تھے-عرب بے پناہ قوت حافظہ کے مالک تھے۔ ان کے شعرا، خطبا اور اُدبا ہزاروں اشعار، ضرب الامثال اور واقعات کے حافظ تھے۔ شجر ہائے نسب کومحفوظ رکھنا ان کا معمول تھا بلکہ وہ تو گھوڑوں کے نسب نامے بھی یاد رکھتے تھے۔ موجودہ دور میں بھی مختلف اقوام میں ایسے بے شمار افراد پائے جاتے ہیں جن کے حافظوں کو بطورِ نظیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ خود ہندوستان میں سیدانور شاہ کشمیری، سید نذیر حسین محدث دہلوی، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی اور حافظ محمد محدث گوندلوی بے نظیر حافظے کے مالک تھے-عربوں کا تعلق جب کلامِ الٰہی سے ہوا تو ان کو رسولِ کریمﷺاور قرآنِ مجید سے بے پناہ عقیدت ومحبت ہوئی۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو حفظ کرنا شروع کیا۔ حضرت انس بن...
نبی کریم ﷺ نے جس طرح حدیث کو حاصل کر کی ترغیب دی اور اس کےحاملین کے لیے دعا فرمائی اسی طرح حدیث وضع کرنے یا حدیث کے نام پر کوئی غلط بات آپﷺ کی طرف منسوب کرنے سے سختی سے منع فرمایا اور اایسےلوگوکو نارجہنم کی وعید سنائی ہے اور اسی طرح علماء اور محدثین نے بھی اس کے متعلق سخت موقف اختیار کیا ان کے نزدیک حدیث کووضع کرنے والا اسی سلوک کا مستحق جو سلوک مرتد اور مفسد کےساتھ کیا جاتاہے ۔وضع حدیث کی ابتدا ہجرت نبوی ﷺ کے چالیس سال بعد ہوئی حدیث وضع کرنے میں سرفہرست روافض تھے خوفِ خدا اور خوف آخرت سے بے نیازی نے اس معاملہ میں ان کو اتنا جری بنا دیا کہ وہ ہر چیز کو حدیث بنادیتے تھے ۔علمائے اسلام نے واضعین کے مقابلہ میں قابل قدر خدمات انجام د ی انہوں نے ایسے اصول وقواعد مرتب کیے او ر موضوع حدیث کی ایسی علامتیں بتائیں جس سے موضوع احادیث کےپہچاننے میں بڑی آسانی ہوتی ہےاو ر موضوع احادیث پر مشتمل کتب لکھیں تاکہ لوگ ایسی ا حادیث سےباخبر ہوجائیں جن کی کوئی اصل نہیں۔ائمہ محدثین نے صرف احادیث کوجمع کردینے کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ سنت کی حفاظت کے لیے علل حدیث، جرح وتعدیل، اور...
انسانیت کے انفرادى معاملات سے لے کراجتماعى بلکہ بین الاقوامى معاملات اورتعلقات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ جس کے متعلق پیارے پیغمبرﷺ نے راہنمائی نہ فرمائی ہو، کتب احادیث میں انسانى زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے یعنى انفرادى اور اجتماعی سیرت واخلاق سے متعلق محدثین نے پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین کی روشنى میں ہر چیز جمع فرمادی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ خصائل نبوی اردو شرح شمائل ترمذی‘‘ امام ترمذی کی نبی کریم ﷺ کی خصائل وعادات پر مشمتل کتاب شمائل ترمذی کا ترجمہ ہے۔ شمائل ترمذی پا ک وہند میں موجو د درسی جامع ترمذی کے آخر میں بھی مطبوع ہے۔ جسے مدارسِ اسلامیہ میں طلباء کو سبقا پڑھایاجاتا ہے۔ اور اسے شمائل محمدیہ کےنام سے الگ بھی شائع کیا گیا ہے علامہ شیخ ناصر الدین البانی وغیرہ نے اس پر تحقیق وتخریج کا کام بھی کیا ہے ۔اور کئی اہل علم نے اسے اردو دان طبقہ کے لیے اردوزبان میں منتقل کیا ہے ۔ اس کتاب میں امام ترمذی نے نہایت محنت وکاوش وعرق ریزی سے سیّد کائنات ،سيد ولد آدم، جناب محمد رسول ﷺكے عسرویسر، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو ا...
انسانیت کے انفرادى معاملات سے لے کراجتماعى بلکہ بین الاقوامى معاملات اورتعلقات کا کوئی ایسا گوشہ نہیں کہ جس کے متعلق پیارے پیغمبرﷺ نے راہنمائی نہ فرمائی ہو، کتب احادیث میں انسانى زندگی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں ہے یعنى انفرادى اور اجتماعی سیرت واخلاق سے متعلق محدثین نے پیارے پیغمبر ﷺ کے فرامین کی روشنى میں ہر چیز جمع فرمادی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ خصائل نبوی اردو شرح شمائل ترمذی‘‘ امام ترمذی کی نبی کریم ﷺ کی خصائل وعادات پر مشمتل کتاب شمائل ترمذی کا ترجمہ ہے۔ شمائل ترمذی پا ک وہند میں موجو د درسی جامع ترمذی کے آخر میں بھی مطبوع ہے۔ جسے مدارسِ اسلامیہ میں طلباء کو سبقا پڑھایاجاتا ہے۔ اور اسے شمائل محمدیہ کےنام سے الگ بھی شائع کیا گیا ہے علامہ شیخ ناصر الدین البانی وغیرہ نے اس پر تحقیق وتخریج کا کام بھی کیا ہے ۔اور کئی اہل علم نے اسے اردو دان طبقہ کے لیے اردوزبان میں منتقل کیا ہے ۔ اس کتاب میں امام ترمذی نے نہایت محنت وکاوش وعرق ریزی سے سیّد کائنات ،سيد ولد آدم، جناب محمد رسول ﷺكے عسرویسر، شب وروز اور سفر وحضرسے متعلقہ معلومات کو ا...
کچھ گمراہ لوگوں نےعہد صحابہ ہی میں احادیث نبویہ سےمتعلق اپنےشکوک وشبہات کااظہارکرناشروع کردیا تھا ،جن کوپروان چڑہانےمیں خوارج ، رافضہ،جہمیہ،معتزلہ، اہل الرائے اور اس دور کے دیگر فرق ضالہ نےبھر پور کردار ادا کیا۔ لیکن اس دور میں کسی نے بھی حدیث وسنت کی حجیت سے کلیتاً انکار نہیں کیا تھا،تاآنکہ یہ شقاوت متحدہ ہندوستان کے چند حرماں نصیبوں کے حصے میں آئی،جنہوں نے نہ صرف حجیت حدیث سے کلیتاً انکار کردیا بلکہ اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو عہد نبوی تک ہی قرار دینے کی سعی نامشکور کرنے لگے ۔ منکرین اور مستشرقین کے پیدا کردہ شبہات سےمتاثر ہو کر مسلمانوں کی بڑی تعداد انکار حدیث کے فتنہ میں مبتلا ہوکر دائرہ اسلام سے نکلی رہی ہے۔ لیکن الحمد للہ اس فتنہ انکار حدیث کے ردّ میں برصغیر پاک وہند میں جہاں علمائے اہل حدیث نے عمل بالحدیث اورردِّ تقلید کے باب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں وہیں فتنہ انکار حدیث کی تردید میں بھی اپنی تمام تر کوششیں صرف کردیں۔اس سلسلے میں سید نواب صدیق حسن خان، سید نذیر حسین محدث دہلوی،مولانا شمس الحق عظیم آبادی ،مولا...
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔آج بھی بعض لوگ سرسری طور پر حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور جب انہیں کسی حدیث کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کے کی خلاف یا دو صحیح احادیث کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتوی دے دیتے ہیں،جو جہالت اور انکار حدیث کی سازش کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " دامن حدی...
دورِ حاضر کے عظیم محدث حضرت الامام حافظ محمد گوندلوی ۱۸۹۷ء ضلع گوجرانوالہ کے مشہور قصبہ گوندلانوالہ میں پیدا ہوئے۔پانچ سال کی عمر میں آپ نے حفظِ قرآن آغاز کیا ۔تکمیل حفظ کے بعد جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں (چوک اہل حدیث) شہر گوجرانوالہ میں مولانا علاؤ الدین کے پاس بھیجا، جہاں آپ نے عربی ادب اور صرف و نحو کی چند ابتدائی کتابیں پڑھیں۔اور مزید دینی تعلیم مدرسہ تقویۃ الاسلام امر تسر میں حاصل کی ۔درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد آپ نے طبیہ کالج دہلی سے ’’فاضل الطب و الجراحت‘‘ درجہ اول کی سند اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ۱۹۲۷ء میں آپ مدرسہ رحمانیہ دہلی تشریف لے گئے اور ۱۹۲۸ء تک وہیں تدریسی خدمات انجام دیں۔ پھر آپ گوجرانوالہ واپس تشریف لے آئے یہاں مولانا عطاء اللہ حنیف اور حافظ عبداللہ بڈھیمالوی جیسے بڑے علماء آپ سے اسی دور میں مختلف کتابیں پڑھتے رہے۔ ۱۹۳۳ء میں آپ عمر آباد تشریف لے گئے، وہاں چند سال تدریس کے بعد آپ واپس پھر گوجرانوالہ تشریف لے آئے اور ۱۹۴۷ء تک آپ یہیں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۶ء میں جب جامعہ سلفیہ فیصل آباد ق...
یہ کتاب شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کی تالیف لطیف ہے جو در حقیقت ایک کتاب بنام ’’ہفوات المسلمین ‘‘ کاعلمی رد ہےجواگست 1922ء میں ایک رافضی اور بدعتی عقائد کے حامل مصنف کی طرف سے شائع ہوئی۔ جس میں اس نے اپنےفہم فاسد سےبعض احادیث صحیحہ کی غلط تعبیر وتشریح پیش کی ہے اور ’’والاناء یترشح یما فیہ ‘‘کےمصداق اپنے خبث باطن کے اظہار کی بھرپور کوشش کی ہے اور یوں وہ ذخیرۂ حدیث پر ردوقدح وارد کرنے کامرتکب بن گیاہے حالانکہ اس تمام سعی لاحاصل کی اساس اوہام وشبہات کےسوا کچھ نہیں اور یہ تمام شبہات اہواء نفس اور شہوات نفس کے نبیجہ میں ابھرتے ہیں ۔اس کتاب میں مولانا نے ہفوات المسلمین والوں کے تما عقلی ونقلی اعتراضات کا جواب بالدلیل پیش کیا ہے ۔جو ان کے منہ پرایک کھلا طمانچہ ہے ۔
قرآن مجيدکےبعد سب سے زیادہ صحیح ترین اور قابل اعتماد کتاب ہونے کے شرف صحیح بخاری کو حاصل ہے۔ علماءے امت کا اتفاق ہے کہ اس کی تمام مرفوع ومتصل روایات کی صحت پر اجماع اور انہیں تلقی بالقبول حاصل ہے۔ لیکن تقلیدی جمود اور فقہی روایات کے دفاع میں نہ صرف صحیح بخاری کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ امام بخاری پر بھی طنز کے نشتر چلائے گئے۔ صحیح بخاری کو ناقص اور نامکمل ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تو اس کی احادیث کو ضعیف اور ناقابل عمل قرار دینے سے دریغ نہ کیا گیا۔ طرفہ تماشہ تو یہ ہے کہ اس کی بعض روایات کو قرآن پاک کے خلاف باور کرانے میں بھی کوئی عار محسوس نہ کی گئی۔ ان اعتراضات کی بارش کرنے والوں میں سے ایک نمایاں نام مولوی عمر کریم حنفی کا ہے جنہوں نے امام بخاری اور صحیح بخاری کو نشانے پر رکھتے ہوئے بہت سے رسائل اور اشتہار تحریر کیے جن کا علمی اور سنجیدہ اسلوب میں مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی نے مختلف رسائل میں جواب دیا۔ زیر نظر کتاب میں حافظ شاہد محمود نے بھرپور محنت کے ساتھ ابوالقاسم سیف بنارسی کے دیے گئے تمام جوابات کو جمع کیا ہے۔ یہ مجموعہ سات کتابو...
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع ِ انسان کی رشد وہدایت کے لیے انبیاء ورسل کو اس کائنات میں مبعوث کیا،تاکہ ان کی راہنمائی کی بدولت اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔انسان اپنے تیئں کتنی ہی کوشش اور محنت کیوں نہ کرلے ، اسے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ زندگی گزارنے کے لیے اسی منہج کو اختیار نہ کرے جس کی انبیاء نے تعلیم دی ہے ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر رسول کی بعثت کا مقصد صرف اس کی اطاعت قراردیا ہے ۔جو بندہ بھی نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کرے گا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جو انسان آپ کی مخالفت کرے گا ،اس نے اللہ تعالی کے حکم سے روگردانی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کی تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا(الحشر:7)اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ِعالی شان کی بدولت صحابہ کرام ،تابعین عظام اور ائمہ دین رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو قرآنی حکم سمجھا کرتے تھے اور قرآن وحدیث دونوں کی اطاعت کویکساں اہمیت وحیثیت دیا کرتے تھے ،کیونکہ دونوں کا منبع ومرکز وحی الٰہی ہے ۔عمل بالحدیث کی تاکی...
ٖ اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض ہرکارے کا تھا۔معاذ اللہ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین، بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایسے اصول وضع کر رکھے ہیں ج...
اہل اسلام میں یہ بات روز اول ہی سے متفق علیہ رہی ہے کہ شرعی علم کے حصول کے قابل اعتماد ذرائع صرف دو ہیں:ایک اللہ کی کتاب اور دوسرا اللہ کے آخری رسول ﷺ کی حدیث وسنت ۔امت میں جب بھی کوئی گمراہی رونما ہوتی ہے اس کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ماخذوں میں سے کسی ایک ماخذ کی اہمیت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ موجودہ زمانے میں بعض لوگوں نے ’حسبنا کتاب اللہ ‘کے قول حق کو اس گمراہ کن تصور کے ساتھ پیش کیا کہ کتاب اللہ کے بعد سنت رسول ﷺ کی ضرورت ہی نہیں رہی۔اس طرح بعض افراد رسول مقبول ﷺ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ ان کا کام محض ہرکارے کا تھا۔معاذ اللہ۔ فتنہ انکار حدیث کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث نبوی کی حجیت و اہمیت کے منکرین دو طرح کے ہیں ۔ایک وہ جو کھلم کھلا حدیث کا انکار کرتے ہیں اور اسے کسی بھی حیثیت سے ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو صراحتاً حدیث کے منکرین ،بلکہ زبانی طور پر اس کو قابل اعتماد تسلیم کرتے ہیں لیکن انہوں نے تاویل و تشریح کے ایسے اصول وضع کر رکھے ہی...
فتنہ انکار حدیث تاریخ اسلام میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں خوارج اور معتزلہ نے پیدا کیا۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں سنت رسول ﷺ حائل تھی۔ لہذا نہوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دوگونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کا مسئلہ یہ تھا کہ یونانی فلسفے نے اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے جو شکوک و شبہات عقل انسانی میں پیدا کر دیے تھے، وہ انہیں سمجھنے سے پہلے ہی حل کر دینا چاہتے تھے لہذا انہوں نے فلسفہ کے نام سے منقول ہر بات کو عقل کا لازمی تقاضا سمجھا اور اسلامی عقائد اور اصول و احکام کی ایسی تعبیر کرنا شروع کر دی جو ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو۔ اس راہ میں پھر حدیث و سنت حائل ہوئی تو انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ فتنہ درمیان میں کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا یہاں تک کہ تیرہویں صدی ہجری میں وہ دوبارہ زندہ ہوا۔ پہلے یہ مصر و عراق میں پیدا ہوا اور اس نے دوسرا جنم برصغیر پاک و...
ماہِ ذوالحج سال بھرکے بعدجب آتاہے توجذبۂ تسلیم ورضاء اورجذبۂ ایثاروقربانی بھی ہمراہ لاتا ہے۔قمری سال کے اس آخری مہینے کامقدس چاند جونہی طلوع ہوتاہے،تسلیم ورضاکی لازوال داستان کی یادبھی ساتھ لاتا ہے۔ اس ماہ کی دس،گیارہ اوربارہ تاریخ کودنیابھرکے کروڑوں صاحب نصاب مسلمان اسوۂ ابراہیمی کی یادتازہ کرنے کیلئے قربانی کرتے ہیں۔عیدقربان!مسلمانوں کاعظیم مذہبی تہوارہے جوہرسال 12-11-10 ذوالحجہ کوانتہائی عقیدت ومحبت، خوشی ومسرت،ذوق وشوق،جوش وخروش اورجذبۂ ایثارو قربانی کے منایاجاتاہے۔اس دن اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپناتن،من ،دہن قربان کرنے کے عہدکی تجدیدہوتی ہے اوریہی مسلمانوں کی عید ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اوران کے عظیم فرزندحضرت اسماعیل ؑ کا مقدس ذکر قیامت تک فضاؤں اور ہواؤں میں گونجتا رہے گا۔قرآن وحدیث کے صحیفوں میں محفوظ رہے گااور آسمان کی رفعتوں اور زمین کی وسعتوں میں ہرسال یونہی تازہ اورزندہ ہوتارہے گا۔قربانی کے جانور کی صفات شریعت نے تفصیل سےبیان کر دی ہیں،جن میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ جانور کم از کم "مسنہ"یعنی دودانت والا ہو، اور اگر ایسا جانور...