ہماری اخلاقی اقدار کو بگاڑنے میں جس قدر ٹی وی اور کیبل نیٹ ورک نے کردار ادا کیا ہے شاید ہی کسی اور چیزنے کیا ہو۔ اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری خود والدین پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اس کو گھر میں رکھنے میں کوئی عار محسوس نہ کی۔ زیر نظر مختصر سے کتابچہ میں اسی موضوع کو ایک نئے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ کتابچے کی ورق گردانی سے اندازہ ہوتا ہے کہ نسل نو کے دین سے دوری کی سب سے بڑی وجہ یہی آلات موسیقی ہی ہیں جن کا بے دریغ استعمال جاری ہے۔ اس کتابچے کا مطالعہ بچوں بوڑھوں اور مردوں عورتوں کے لیے یکساں مفید ہے۔
اردو دان طبقے کے لیے مفاہیم قرآن کو سمجھنے کے لیے قرآن کریم کو اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا از حد ضروری ہے صرف ناظرہ قرآن سے قرآن کریم کے اغراض و مقاصد کا ادراک ناممکن ہے۔ زیر نظر تفسیر سراج البیان اسی سلسلہ کی اہم کڑی ہے۔ اس میں ترجمہ قرآن شاہ عبدالقادر دہلوی اور شاہ رفیع الدین دہلوی کا شامل کیا گیا ہے جو کہ تمام علماء ربانیین کے نزدیک مستند اور معتمد ہے۔ قرآنی آیات کی تفسیر کا بیڑہ علامہ حنیف ندوی نے اٹھایا ہے اور حقیقی معنوں میں تفسیر قرآن کا حق ادا کیا ہے۔ علامہ موصوف کی علمیت کا اندازہ تفسیر سراج البیان کی ورق گردانی سے بخوبی ہو جائے گا۔ علامہ موصوف نے محققانہ انداز میں ہر صفحہ کے اہم مضامین کی تبویب کے ساتھ ساتھ ادبی و لغوی نکات کا تذکرہ کیاہے اور جدید مسائل سے آگاہی بھی فراہم کی ہے۔ اس کےعلاوہ مذہب سلف کی برتری اور تفوق کا اظہار کرتے ہوئے قصری علوم و معارف سے موقع بہ موقع استفادہ کیا گیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ اس کا مطالعہ کرکے یہ محسوس کریں گے کہ قرآن دنیائے عرب میں سب سے عمدہ اضافہ ہے۔
کچھ عرصہ قبل حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے ابوبلال اسماعیل جھنگوی صاحب نے ’تحفہ اہل حدیث‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں انہوں نے مسئلہ طلاق ثلاثہ پر تفصیلی گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ مسلک اہل حدیث پر کافی دشنام طرازی کی۔ زیر نظر کتاب مولانا یحییٰ عارفی صاحب کی شاندار کاوش ہے جس میں جھنگوی صاحب کے تمام اعتراضات کے علمی انداز میں جواب دیا گیا ہے۔ کتاب میں جہاں مسئلہ طلاق پر حقائق اور قطعی دلائل نظر آئیں گے وہیں مسلک اہل حدیث پر الزام تراشیوں اور اعتراضات پر مسکت جوابات بھی پڑھنے کو ملیں گے۔ مولانا موصوف نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ مسئلہ ترایح، لواطت زن اور وتروں سے متعلق احناف کے مؤقف پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور کتاب وسنت کی صریح نصوص کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ ان مسائل کے علاوہ بیسیوں دیگر مسائل ایسے ہیں جن میں حنفی فقہ اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی ہے اور تقلید ی جکڑبندیوں کی وجہ سے انہیں چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔
1965ء میں ہندوستان نے پاکستان پر جب چہار طرف سے حملوں کی بوچھاڑ کر دی تو بہت سارے مصلحین اسلام اور پاکستان نے تحریر و تقریر کے ذریعے سے عوام پاکستان میں جہادی رمق بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس معرکہ حق و باطل میں بالآخر باطل نابود ہوا اور حق کو فتح نصیب ہوئی۔ زیر مطالعہ کتاب اسی دور کے ان خطابات پر مشتمل ہے جو پروفیسر ابوبکر غزنوی ؒ نے ارشاد فرمائے۔ جس میں انہوں نے کتاب وسنت کی صریح نصوص کے ذریعے جہاد کشمیر کی فرضیت و اہمیت اور ترک جہاد کی ذلت و رسوائی کو بیان کیا۔ مولانا نے تمام مسائل کا حل جہاد ہی میں مضمر قرار دیا۔ جہاد کشمیر سے متعلق ہمارے معاشرے میں بہت سے مختلف آراء گردش کرتی ہیں یہ کتاب کسی حد تک جہادکشمیر کے متعلق شبہات کو واضح کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
عقیدہ توحید ایک مسلمان کی سب سے بڑی میراث ہےاگر اسی میں خلل واقع ہو جائے تو نجات کا راستہ مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کے قریب برگزیدہ پیغمبر اپنی پوری زندگی اسی کے پرچارک رہے ۔ سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد ان کے وارثین علماء کرام بڑی جانفشانی کے ساتھ عقیدہ توحیدکا علم بلند کرتے ہوئے استحقاق حق اور ابطال باطل کر رہے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب حافظ زبیر علی زئی اور دیوبندی مکتبہ فکر کے حامل عالم حافظ نثار احمد الحسینی کے مابین ہونے والی خط و کتابت پر مشتمل ہے۔ حافظ زبیر علی زئی نے اپنے خطوط میں بیسیوں جید علمائے دیوبند کی ایسی عبارتیں نقل کی ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ دیوبند مکتبہ فکر عقیدہ وحدت الوجود کا قائل ہے۔ حافظ نثار احمد الحسینی نے ان خطوط کا جواب دینے کی اپنی سی کوشش کی ہےلیکن حافظ زبیر علی زئی کے ٹھوس اعتراضات اور دلائل کے سامنے حافظ نثار کے جوابات دلائل سے عاری نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں کتاب میں بدعتی کے پیچھے نمازپڑھنے کے حکم کے ساتھ ساتھ دیگر علمی فوائد کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا گیا ہے۔
برصغیر میں فتنہ انکار حدیث برسوں سے چلا آرہا ہے۔ بہت سے علمائے حق میں ابطال باطل کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اس فتنہ کی سرکوبی میں پیش پیش رہے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب بھی ایک ایسے مرد مجاہد کی علمی کاوش ہے جو اس فتنے کی جڑیں کاٹنے کے لیے میدان عمل میں اترا ہوا ہے۔ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی کی یہ کتاب غلام احمد پرویز کے شاگرد عمر احمد عثمانی کی کتاب ’فقہ القرآن‘ کا جائزہ لیتے ہوئے مرتب کی گئی ہے۔ مصنف نے عام فہم انداز میں مد مقابل محقق کے پورے خیالات بھی اپنی کتاب میں شائع کیے ہیں اور ان پر خالص علمی انداز میں تنقید کا حق بھی ادا کیا ہے۔ کتاب کے 11 ابواب میں خواتین سے متعلقہ تقریباً تمام مسائل کی روشنی میں تفصیلی وضاحت کر دی گئی ہے جس میں عورت کا دائرہ کار، عورت کے فرائض و واجبات اورعورت اور مخلوط سوسائٹی سے متعلق تمام اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے قرآن کریم کی روشنی میں شہادت نسواں کی بھی تفصیلی وضاحت موجود ہے۔
اسلام ایک دین فطرت ہے جو انسان کوبے لگام گھوڑا بننے کی اجازت قطعاً اجازت نہیں دیتا بلکہ نفسانی خواہشات کو اعتدال میں لانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایک مسلمان کے کامل مؤمن بننے کے لیے از حد ضروری ہے کہ اس کی خواہشات شریعت کے فراہم کردہ احکامات کے تابع ہوں۔ زیر نظر مختصر سے رسالہ میں علامہ ابن قیم نے انتہائی اثر آفریں انداز میں 50 ایسے علاج پیش کیے ہیں جن کی روشنی میں خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگ آسانی سے اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اپنے انجام سے بے خبر ہو کر وقتی جذبات کے دھارے میں بہہ جانے والوں کے لیے یہ رسالہ انتہائی مفیدہے۔ رسالہ کو اردو قالب میں ڈھالنے اور مزید اضافہ جات کا سہرا عبدالہادی عبدالخالق مدنی کے سر ہے۔
آج لوگوں کے ہاں نیکی اور برائی کے پیمانے بدلتے جا رہے ہیں کتنے ہی ایسے حرام کام ہیں جنہیں گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا اور کتنے ہی ایسے فرائض و احکام ہیں جنہیں چھوڑنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا مثلاً داڑھی منڈوانا، ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا، تصویر کشی، تمباکو نوشی، موسیقی و رقص و سرود اور غیر مسلم ممالک کی طرف سفر کرنا وغیرہ۔ زیر نظر کتابچہ انہی مسائل پر مشتمل مختصر مگر جامع رسالہ ہے۔ جسے شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین نے دو کبار مفتیان شیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد بن صالح العثیمین کے فتاوی اور دروس و نصائح سے ترتیب دیا ہے۔ اسے اردو ددان طبقہ کے لیے مولانا عبداللہ رفیق نے سلیس اردو زبان میں ترجمہ کیا ہے تاکہ عام لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔
انسانی جسم کی ساخت اورجبلت ایسی ہے کہ یہ مختلف اسباب ووجودکی بناء پرمرض کاشکارہوجاتاہے۔اسلام میں جسطرح نارمل حالات اورصحت وتندرستی کے حوالے سے احکام موجودہیں۔وہیں اللہ عزوجل نے بیماروں کے لیے بھی بعض رخصتیں اورخاص احکام نازل فرمائی ہیں ۔زیرنظرکتابچہ میں عالم اسلام کی مشہورعلمی شخصیت علامہ ابن بازمفتی اعظم سعودی عرب نے انہی احکام کوبیان کیاہے ۔اس کی اہمیت کااندازہ اس سے کیاجاسکتاہے یہ اپنی نوعیت کاپہلاکتابچہ ہے ۔شیخ صاحب مرحوم نے اس میں ان تمام مسائل کاتذکرہ کیاہے جومریض کودرپیش آتے ہیں ،خواہ ان کاتعلق وضو،تیمم اورنماز کی مختلف حالتوں اورصورتوں وغیرہ سے ہویانرسز کے ساتھ معاملات ونگرانی اورخلوت وغیرہ سے ۔اسی طرح ڈاکٹرزاورنرسز کاآپس میں میل جول ،خلوت ،موسیقی کےعلاوہ موانع حمل جیسے قضیے بھی زیربحث آئے ہیں۔بنابریں یہ فتاوی ہسپتال کے عملہ ،مریضوں اورعام مسلمانوں کے لیے انتہائی مفیدہے ۔
انسانی جسم کی ساخت اورجبلت ایسی ہے کہ یہ مختلف اسباب ووجودکی بناء پرمرض کاشکارہوجاتاہے۔اسلام میں جسطرح نارمل حالات اورصحت وتندرستی کے حوالے سے احکام موجودہیں۔وہیں اللہ عزوجل نے بیماروں کے لیے بھی بعض رخصتیں اورخاص احکام نازل فرمائی ہیں ۔زیرنظرکتابچہ میں عالم اسلام کی مشہورعلمی شخصیت علامہ ابن بازمفتی اعظم سعودی عرب نے انہی احکام کوبیان کیاہے ۔اس کی اہمیت کااندازہ اس سے کیاجاسکتاہے یہ اپنی نوعیت کاپہلاکتابچہ ہے ۔شیخ صاحب مرحوم نے اس میں ان تمام مسائل کاتذکرہ کیاہے جومریض کودرپیش آتے ہیں ،خواہ ان کاتعلق وضو،تیمم اورنماز کی مختلف حالتوں اورصورتوں وغیرہ سے ہویانرسز کے ساتھ معاملات ونگرانی اورخلوت وغیرہ سے ۔اسی طرح ڈاکٹرزاورنرسز کاآپس میں میل جول ،خلوت ،موسیقی کےعلاوہ موانع حمل جیسے قضیے بھی زیربحث آئے ہیں۔بنابریں یہ فتاوی ہسپتال کے عملہ ،مریضوں اورعام مسلمانوں کے لیے انتہائی مفیدہے ۔
شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پروازدرست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔ہمارے عظیم قومی شاعرعلامہ محمداقبال نے یہی کارنامہ سرانجام دیاہے ۔اقبال کی شاعری اسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔اس کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔ہم قارئین کے لیے ’کلیات اقبال ‘پیش کررہے ہیں ،اس امیدکے ساتھ کہ اس سے احیائے ملت کاجذبہ بیدارہوگا۔ان شاء اللہ
ملت اسلامیہ جوخیرامت کے معززلقب کی حامل ہے ۔فی زمانہ جس ذلت ونکبت اورادباروزوال کاشکارہے ،اس پرہرقلب حساس رکھنے والا صاحب ایمان بے چین ومضطرب ہے ۔حدیث نبوی ﷺ کی روسے امت پربے شمارفتنے مسلط ہوں گے جن کی ابتداء شہادت فاروق اعظم ؓسے ہوگی تاریخ شاہدہے کہ شہادت فاروقی کے بعدبہت سے فتنے رونماہوئے جووقت کے ساتھ ساتھ پھیلتے پھولتے گئے ۔ان میں سب سے بڑافتنہ سبائیت ورافضیت کافتنہ ہے جس کی مختلف اورمتنوع شکلیں ہیں۔چودہ صدیوں پرمحیط امت اسلامیہ میں سب سے بڑے اس دجالانہ فتنے کی مختلف شاخوں نے اسلام واہل اسلام کوجونقصان اورزخم پہنچایاہے اتناکھلم کھلے دشمنان دین یعنی یہودونصاری اورمجوس وہنودکے ہاتھوں بھی نہیں پہنچاتھا۔زیرنظرکتاب میں اس فتنہ کے مختلف پہلوؤں سے متعلق دس جلیل القدرکبارارباب علم کی تحریروں کواردوقالب میں پیش کیاجارہاہے جس سے حق وباطل کوسمجھنے میں مددملے گی اوراس فتنہ سے مکمل آگاہی حاصل ہوگی۔ان شاء اللہ
اس کتاب میں ثابت کیاگیاہے کہ حدیث وسنت کی تدوین تاریخی تقاضوں کے بجائے خالصتہ دینی عوامل کی بناء پرہوئی ہے اوراپنے دامن میں یہ اس طرح سےاستناد،اتصال اورتسلسل کولیے ہوئے ہے جس کی دنیاکے تاریخی لٹریچرمیں نظیرنہیں پائی جاتی۔ہم اس میں اس حقیقت کااظہاربھی کرچکےہیں کہ محدثین کرام نے نہ صرف رواۃ کے بارے میں جرح وتعدیل سے کام لیاہے بلکہ ان پیمانوں اوراصولوں کی تشریح بھی فرمائی ہےجن کےبل پرمتن ونفس مضمون کی صحت واستواری کابھی ٹھیک ٹھیک اندازہ کیاجاسکتاہے۔رہاتیسراعتراض تواس کابھی ہم نے اس کتاب میں تفصیل سے جواب دیاہے اوربتایاہے کہ فتنہ وضع حدیث کب ابھرا،کن اسباب ووجوہ نے اس کوتقویت پہنچائی اورمحدثین کرام نے اس کے انسدادکے لیے کیاکیامساعی جمیلہ انجام دیں۔نیز اس سلسلے میں کن ایسی علمی وتحقیقی کسوٹیوں کی نشان دہی کی،جن کے ذریعے نہ صرف موضوع حدیثوں کوآسانی سے پہچاناجاسکتاہے بلکہ ان سے فن تاریخ میں ان حقائق کی تعیین بھی کی جاسکتی ہے جوصحیح اوردرست ہیں اوران واقعات کوبھی دائرہ علم وادراک میں لایاجاسکتاہے جوتصحیف والحاق کی دخل اندازیوں کاکرشمہ ہیں ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہناچاہیے کہ حدیث وسنت کے ذخائرمحض انواررسالت اورفیوض نبوت کے ان پہلوؤں ہی کی عکاسی نہیں کرتے جوہمارے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ،بلکہ اپنے جلومیں حفظ وصیانت کےان علو م ومعارف کوبھی لیے ہوئے ہیں جن کی بناپرکسی واقعہ کےمدارج صحت وضعف کاتعین ہوتاہے۔یہ علوم ومعارف کیاہیں اوراحادیث نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے لے کرعہدتدوین تک حفظ وصیانت کے کن مرحلوں کوطے کیااورکیونکرعلم وحکمت کے یہ لعل وگہراتصال وتسلسل کےساتھ ہم تک پہنچے۔ان تمام امورکوجاننے کے لیے اصل کتاب کامطالعہ ضروری ہے جوچھوٹے بڑے پندرہ ابواب پرمشتمل ہے۔اس میں ان تمام فنی مباحث کی تفصیل مذکورہے،جن کوجانے بناحدیث کاکماحقہ ،علم حاصل نہیں ہوسکتاہے۔
دین دو باتوں ،فکر وکردار یا عقیدہ وعمل سے تعبیر ہے۔قرآن مجید کی اصطلاح میں ،ایسا عقیدہ جو عمل کی اساس بنے ،کردار وسیرت کی تشکیل کرے اور بجائے خود تخلیقی نوعیت کا حامل ہو ایمان کہلاتا ہے۔اور اگر اس سے زندگی ،عمل اور تخلیق وآفرینش کی نشاط کاریاں چھین لی جائیں تو پھر وہ عقیدہ ہو سکتا ہے ،یا اسلام کا ادنی درجہ بھی اسے کہہ سکتے ہیں،ایمان نہیں۔زیر تبصرہ کتاب "اساسیات اسلام" معروف عالم دین اور متعدد کتابوں کے مصنف مولانا حنیف ندوی کی تصنیف ہے ،جس میں انہوں نے اسلام کے بارہ میں اسی نقطہ نگاہ کو سامنے رکھا ہے کہ اسلام زندگی اور عمل کا مذہب ہے،اور اسی بناء پر تعمیر فرد اور تعمیر معاشرہ سے متعلقہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اور اسلام کی روشنی میں فرد ومعاشرے کے فکری اور تہذیبی مسائل کا تجزیہ اور ان کا حل پیش کیا ہے۔اللہ تعالی مولف کی ان خدمات کو قبول فرمائے،اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔ آمین(راسخ)
مسلک اہل حدیث وحی الہیٰ یعنی قرآن وحدیث کی غیرشروط اوراتباع واطاعت سے عبارت ہے۔عقائدوافکاراوراعمال واحکام میں کتاب وسنت ہی حجت ہیں ۔بعض لوگوں کاخیال ہے کہ اہل حدیث صرف ان لوگوں کانام ہے جنہوں نے فن حدیث کوجمع کیااوراسانیدومتون کوحسب ضرورت مرتب اورمدون کیا۔بے شبہ اس لقب کااولین اطلاق انہی پرہوتاہے لیکن وہ تمام لوگ بھی اہل حدیث ہیں جوقرآن وحدیث ہی کودستورزندگی سمجھتے ہیں اوربلاکسی تحقیق کے ہرصاحب علم کے اجتہادوفتوی سے کتاب وسنت کی ورشنی میں استفادہ کرتے ہیں۔زیرنظرکتاب خطیب بغدادی ؒ کی مشہورکتاب ’شرف اصحاب الحدیث‘کااردوترجمہ ہے جس میں اہل حدیث کی فضیلت ومنقبت پرنصوص پیش کی گئی ہیں ۔اس کے آغاز میں ایک علمی اورتحقیقی مقدمہ ہے جس سے مسلک اہل حدیث اوراہل حدیث کاتعارف ہوتاہے ۔
يہ عقیدہ کہ جناب محمدرسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری پیغمبرہیں اورآپ ﷺ کے بعدکوئی نبی نہ آئے گااسلام کابنیادی ترین عقیدہ ہے ،جسے تسلیم کیے بغیرکوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوسکتا۔نبی کریم ﷺ نے پشین گوئی فرمائی تھی کہ امت میں تیس چھوٹے دجال ظاہرہوں گے جودعویٰ نبوت کریں گے ۔ہندمیں مرزاغلام احمدقادیانی بھی اسی پشین گوئی کامظہرتھا۔جس سے نبوت کاجھوٹادعوی ٰ کیااورردائے نبوت یہ ہاتھ ڈالنے یک ناپاک جسارت کی علمائے اسلام نے مسلمانوں کوقادیانی دجال کے فتنے سے بچانے کے لیے بھرپورکردارااداکیااوراس ضمن میں بے شمارکتابیں لکھیں ۔زیرنظرکتاب معروف عالم اورسیرت نگارمولاناصفی الرحمٰن مبارکپوری نے تحریرکی ہے ۔اورقادیانیت کے تارویودبکھیرکررکھ دیتے ہیں جس سے قادیانی فتنے کی حقیقت طعشت ازہام ہوجاتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی ذات ستودہ صفات کومرکز محبت قراردینامسلمانوں کابنیادی فرض ہے اوردنیوی واخروی کامرانیوں کادارومداراسی پرہے۔لیکن اس باب میں یہ نازک نکتہ پیش نظررکھناازحدضروری ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارمحبت کاوہی طریق قابل قبول ہے جس پرخودحضورختمی المرتبت ﷺ کی سہرشت ہو۔بعض لوگ محبت وعشق مصطفیٰ ﷺ کے نعرے کی آڑمیں ضعیف وموضوع روایات سے استدلال کرتے ہوئے اس بات کے داعی ہیں کہ نبی پاک ﷺ کی قبرانورکی زیارت کے لیے باقاعدہ نیت کرکے سفرکرناشرعی تقاضااورباعث اجروثواب ہے ۔لیکن یہ نقطہ نظرحدیث صحیح کے برخلاف ہے ۔چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اس کی تردیدکی ہے ۔اس سلسلہ میں قاضی السبکی نے ’شفاء السقام ‘نامی کتاب لکھ کرعلامہ ابن تیمیہ کی تردیدکرنے کی سعی کی ہے۔قاضی صاحب کی اس کتاب کاجواب علامہ کے شاگردابن عبدالہادی نے ’’الصارم المنکی‘‘کے نام سے دیاتھاجس کاجواب قاضی صاحب نہ دے سکے ۔اب بعض لوگوں نے قاضی صاحب کی کتاب کااردوترجمہ کرکے لوگوں کومغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔زیرنظرکتاب ’سفرمدینہ کی صحیح نیت ‘قاضی صاحب کی کتاب کامفصل ،علمی وتحقیقی اورمحدثانہ جواب ہے جس سے تمام شبہات کاازالہ ہوتاہے۔
اللہ عزوجل نے امت مسلمہ کامقصدوجوددعوت کوقراردیاہے ۔اسی بناءپرانہیں ’خیرامت‘کامعززلقب دیاہے۔قرآن وحدیث میں دعوت الی اللہ کے اصول وضوابط متعین کردیے ہیں اوررسول پاک ﷺ نے عملا انہیں برت کردکھابھی دیاہے ۔نبوی اسلوب دعوت کوسامنے رکھتے ہوئے ہمارے اسلاف نے جس خوش اسلوبی سے فریضہ دعوت کوسرانجام دیااس کانتیجہ یہ نکلاکہ اسلام اطراف واکناف عالم میں پھیل گیالیکن بعدازاں یہ طریقہ دعوت نظروں سے اوجھل ہوگیاتوفرقہ واریت اوراحتراق نشست امت کامقدربن گیاموجودہ ذلت ورسوائی کی وجہ بھی یہی ہے کہ تنظیموں اورجماعتوں کی دعوت انبیاء کرام کے طریقے پرنہیں ہے ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مؤثراوردلنشیں انداز میں انبیاء کے اسلوب دعوت پرروشنی ڈالی گئی ہے جویقیناً قابل مطالعہ ہے ۔
نماز دین اسلام کادوسرا اہم رکن اورقرب الہی کابہترین ذریعہ ہے ۔جہاں اللہ رب العزت نے مواظیت نماز کوفرض قراردیاہے وہاں رسول اللہ ﷺ نے (صلواکارأیتمونی أصلی)کی شرط عائدفرمائی یعنی تکبیرتحریمہ سے تسلیم تک تمام امورکاطریقہ نبوی ﷺ کے مطابق ہوناضروری ہے ۔انہی امورمیں سے نماز کے بعض مسائل ایسے ہیں جواحادیث صحیحہ اورعمل صحابہ ؓ سے ثابت ہونے کے باوجودبعض لوگوں کے اعتراضات کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ۔آمین بالجہرکامسندبھی انہی میں شامل ہے ۔صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جہری نماز وں میں باجماعت نماز پڑھتے ہوئے سورہ فاتحہ کے خاتمہ پرآمین بلندآواز سے کہی جائے گی لیکن بعض لوگ ضعیف احادیث اورمردوددلائل کی بناء پرآمین بالجہرکے مخالف ہیں اورقائلین بالجہرپرنانواطعن وتشنیع کرتے ہیں ۔زیرنظرکتاب میں انتہائی مدلل اورعلمی طریقہ سے آمین بالجہرکاثبوت پیش کیاگیاہے اوراس کے مخالف نقطہ نگاہ کے دلائل کابھی ناقدانہ جائزہ لیاگیاہے ۔
مولانامحمدحنیف ندوی علیہ الرحمۃ ایک عظیم مفکر،جلیل القدرعالم اورمنفردادیب اوربلندپایہ فلسفی تھے ۔انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پرتیس کے قریب کتابیں تحریرکیں ۔مولانانے قرآن شریف کی تفسیربھی لکھی جوسراج البیان کے نام سے پانچ جلدوں میں شائع ہوئی ۔مولانامرحوم بے پناہ صلاحیتوں اورخوبیوں سے اتصاف پذیرتھے اوراسلام کے لیے ان کی خدمات انتہائی قابل قدرہیں ۔لیکن افسوس کہ عوام میں بہت کم لوگ ان سے واقف ہیں ۔ارباب ذوق کوان سسے روشناس کرانے کے لیے زیرنظرکتاب ’’ارمغان حنیف ‘‘پیش کی جاری ہے جس میں ان کی خدمات وسوانح زندگی بیان کیے گئے ہیں ۔یہاں اس حقیقت کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مولاناکی فکرکے بعض پہلوارباب علم وتحقیق کی نگاہ میں محل نظرہیں ۔ ؒ تعالیٰ۔
مولاناسیدسلیمان ندوی ؒ ایک عظیم سیرت نگار،جلیل القدرعالم اورمنفردادیب تھے۔ان کے قلم گوہربارسے کتنی شہرہ آفاق کتابیں منصہ مشہودپرآئیں ۔خطبات مدراس بھی سیدصاحب کی ایک بے مثال کتاب ہے ،جس میں موصوف نے سیرت نبوی ہی کوموضوع بنایاہے اوربڑے ہی ادبی وعلمی انداز سے رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں کواجاگرکیاہے۔اس کتاب میں چھ (6)خطبات ہیں ،جن میں متعدداورمتنوع جہات پربحث کی گئی ہے ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ سیرت پاک کابغورمطالعہ کیاجائے اوراپنی زندگیوں کواس کے مطابق ڈھالاجائے ۔یہ کتاب اس میں یقیناً معاون ہوگی۔ان شاء اللہ
رسول اکرم ﷺ کی سیرت پربے شمارکتابیں لکھی جاچکی ہیں اورابھی یہ سلسلہ جاری ہے جوتاقیامت جاری رہے گا۔ان شاء اللہ ۔سیرت نگاروں نے متعدداورمتنوع اسالیب اختیارکیے ہیں ۔اس ضمن میں مولانا محمدحنیف ندوی ؒ نے قرآن شریف کی روشنی میں سیرت مرتب کرنے کاکام شروع کیاتھایعنی قرآن حکیم میں نبی کریم ﷺ کے نقوش سیرت کواجاگرکیاجائے’چہرہ نبوت‘اس کے نتیجے میں منصہ شہودپرآئی ۔تاہم افسوس مولانااس کام کومکمل نہ کرسکے۔اورمولانااسحاق بھٹی نے چندابواب کااضافہ کیا۔اس پرکام کی مزیدضرورت ہنوز باقی ہے تاہم جتناکام مولانانے کیاوہ لائق تحسین اورقابل قدرکاوش ہے ۔جس سے واضح ہوتاہے کہ قرآن مقدس میں بھی نبی پاک ﷺ کی سیرت طیبہ موجودہے۔
ابن خلدون ایک عظیم سماجی مفکرتھے تاریخ عالم کے چندنمایاں ارباب علم وفکرمیں وہ ایک منفردمقام رکھتے ہیں علامہ نے سماجیات میں انسانی فکرکونئے زاویوں سے آشناکیاہے اورعمرانی علوم میں ایسے قابل قدرنکات اجاگرکیے ہیں جوآج بھی ماہرین عمرانیات کےلیے دلیل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔علامہ کےافکاروخیالات کےباب میں انکا مشہورزمانہ مقدمہ ایک خاص مقام کاحامل ہے جس میں انہوں نے مختلف علوم وفنون اورافکارونظریات پرجچی تلی اورمتوازن ومعتدل آراء کا اظہارکیاہے۔زیرنظرکتاب میں مولانامحمدحنیف ندوی ؒ نے علامہ کے مقدمہ کاانتہائی موثراوردلنشیں پیرایہ بیان میں خلاصہ کیاہے ۔جس میں تمام ضروری مباحث بڑی خوبصورتی سے سمیٹے ہیں ۔لاعق تحسین امریہ ہے کہ مولاناندوی نے خلاصہ کے آغاز میں ایک مقدمۃ المقدمہ بھی تحریرکیاہے ۔جس میں ابن خلدون کے افکاروآراء پرتجزیاتی تبصرہ کرتے ہوئے اس کی اہمیت کواجاگرکیاہے ۔
انسانی زندگی ہرلمحہ متحرک اورمعتبرہے ۔دنیامیں ہروقت نت نئے مسائل ومعاملات ظہورپذیرہوتے رہتے ہیں جن کاحل درکارہوتاہے ۔دورجدیدایک ایسے نظام حیات کامتقاضی ہے جوتمام معاملات زندگی کاحل پیش کرسکے ۔حقیقت یہ ہے کہ ایسامذہب صرف اورصرف اسلام ہے جواگرچہ آج سے ڈیڑھ ہزاربرس پہلے مکمل ہواتاہم آج بھی تروتازہ اورشگفتہ ہے اورزندگی کے ہرگوشے سے متعلق ہدایت وراہنمائی دینے کی صلاحیت رکھتاہے ۔زیرنظرکتابچہ میں عظیم اسلامی مفکرمولاناسیدابوالاعلی ٰ مودودی نے اسی حقیقت کوبڑے ہی مؤثراورسائینٹیفک طریقے سے اجاگرکیاہے جس سے اسلام کی حقانیت لکھ کرنظروبصرکے سامنے آجاتی ہے ۔
صحائف سماوی میں قرآن حکیم وہ منفردکتاب ہے جس کے متعلق کامل وثوق سے کہاجاسکتاہے کہ یہ ہمارے پاس اسی صورت میں محفوظ ومامون ہے جس صورت میں یہ رسول اکرم ﷺ کی زبان حق ترجمان ووحی ربانی کے ذریعے سے جاری ہوئی تھی ۔نزول قرآن کااصل مقصدنفس انسانی کی تہذیب اورباطل عقائداورفاسداعمال کی تردیدہے ۔اس انقلاب انگیزنظریہ کی حامل یہ جامع کتاب ہرزمانہ میں علماءوفضلاکے لیے جاذب توجہ رہی ہے ۔اس کے غائرمطالعہ سے علم وحکمت کے چشمے سداپھوٹتے رہتے ہیں اورانسانی فکرونظرکی آبہاری ہوتی رہی ہے۔زیرنظرکتاب ’’مطالعہ قرآن‘‘مولانامحمدحنیف ندوی کے سال ہاسال کے تدبروتفقہ فی القرآن اوران کے مدت العمرکے شغف علوم دین کانتیجہ ہے۔مولانامرحوم نے انتہائی خوبصورت ادبی پیرائے میں علوم قرآن پرروشنی ڈالی ہے جولائق مطالعہ ہے ۔